جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر اور امن کا نوبل انعام

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر اور امن کا نوبل انعام

Post by میاں محمد اشفاق »

ہٹلر اور امن کا انعام۔ تحریر میاں محمد اشفاق
جی بالکل آپ نے ٹھیک پڑھا۔ ہولوکاسٹ کا بانی ایڈولف ہٹلر ایک دفعہ امن کے نوبل انعام کے لئے نامزد کر دیا گیا وہ بھی اس وقت جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ آور ہو کر دوسری عظیم کی ابتداء کر دی۔
Image
1930ء میں ہٹلر نے کسی کو بھی یہ انعام لینے سے روک دیا کیونکہ 1935ء میں جب امن کے ایک جرمن سفیر کارل وون اوسٹزکائی کو یہ انعام ملا تو ہٹلر نے اس کو شدید ناپسند کیا۔ اوسٹزکائی ، جرمن اسلحہ سازی جو کہ کچھ عرصے سے جاری تھی کو سامنے لانے کی وجہ سے اس انعام کا حقدار ٹھہرا۔ اسلحے کی یہ از سر نو در اصل پہلی جنگ عظیم کے بعد ہونیوالے جرمنی اور اسکے اتحادیوں کے بیچ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ جرمنی میں اسلحہ بندی اس معاہدے کی شق تھی جب اسلحے کی از سر نو سامنے آئی تو یہ بھی پتہ چل گیا کہ 1933ء کے بعد سے جرمنی میں اسلحہ سازی بہت بڑھ چکی تھی۔ اوسٹزکائی کو 1935ء کا امن انعام دیا گیا اس نے 1931ء میں جرمن اسلحے کی از سر نو کاروائی دنیا کے سامنے لائی تھی بدلے میں جرمنی نے اس پہ غداری کا مقدمہ دائر کیا جس کی وجہ سے اس کو اپنی زندگی کے باقی سال پولیس کے حراست میں گزارنے پڑے۔ اس انعام کے پیچھے بہت سے آفیسرز کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ کمیٹی میں اس انعام کی وجہ سے کافی بے چینی اور ناراضی پیدا ہو گئی۔ اس انعام کی وجہ سے جرمن قوم بھی شدید متاثر ہوئی اور ہٹلر نے نہ صرف جرمن قوم کو اس انعام کو لینے سے روک دیا بلکہ میڈیا میں انعام کا نام اور خبر دینے کے بھی پابندی ٹھہرا دی گئی۔

اب حیران کن بات تو یہ ٹھہری کہ جب ہٹلر نے اس انعام پہ پابندی لگا دی تو خود ہٹلر کو ہی 1939ء میں اس انعام کا حقدار ٹھہرانے کے لئے نامزد کر دیا گیا ۔ جی بالکل ایڈولف ہٹلر اور امن کا نوبل انعام یہ پڑھ کر آپ کا حیران ہونا یقینی ہے۔

ایرک گوٹفرائڈ کرسچن برینڈٹ سویڈش پارلیمنٹ کے رکن نے ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم کے شروع ہوتے ہی اس انعام کے لئے نامزد کر دیا۔ اس سلسلے میں اس کے نارویجن نوبل کمیٹی کو لکھے گئے خط کا متن کچھ یوں ہے :

"میری یہ گزارش ہے کہ 1939ء کا امن نوبل انعام جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر کو دیا جائے جو کہ لاکھوں لوگوں کے مطابق دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ اس انتہائی معزز انعام کا حقدار ہے۔ مستند دستاویزات کے مطابق 1938ء میں دنیا کا امن شدید خطرے سے دوچار تھا اور کچھ گھنٹوں کی بات رہ گئی تھی جب ایک نئی یورپی جنگ چھڑ جاتی۔ مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے خطے کو اس تباہی سے بچانے والا جرمنی کے عظیم لیڈر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اس نازک وقت میں خود جنگ جاری کرنے کی قوت ہونے کے باوجود بھی اس نے ہتھیاروں کو روک دیا۔ اس کی کتاب مین کامف جو کہ بائبل کے بعد دنیائے ادب کی بہترین کتاب ٹھہرائی جا سکتی ہے میں بیان کی گئی امن سے اس کی محبت اور آسٹریا سے امن پسند الحاق کے بعد سوڈیٹن لینڈ میں اپنے لوگوں کو آزاد کر کے ایڈولف ہٹلر نے نہ صرف طاقت کے استعمال کو روکا ہے بلکہ اپنے مادر ملت کو مزید مضبوط بھی کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ ہٹلر کی امن کے لئے کوشش میں چھپی عظمت کو سمجھ نہیں سکے اسی لئے مجھے ہٹلر کو امن کے نوبل انعام کے لئے نامزد کرنے کا اس سے مناسب وقت اور کوئی نہیں لگا مگر سویڈش پارلیمنٹرینز کی ایک تعداد جو کہ اس کے لئے برطانوی وزیراعظم نیوائل کیمبرلین کو نامزد کر رہے ہیں اس میں شامل نہیں ہے۔ یہ نامزدگی اچھی سوچ نظر نہیں آتی۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ کیمبرلین نے ہٹلر کی امن پسند کوششوں کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے دنیا کے امن کو بچانے میں کردار ادا کیا ہے لیکن آخری فیصلہ کیمبرلین نہیں ہٹلر کے حق میں ہی ہے۔ یورپ کے زیادہ حصے میں پھیلے ہوئے امن کے لئے ہٹلر ہی وہ واحد اور اہم شخص ہے جس کا ہمیں شکرگزار ہونا چاہیئے اور یہی آدمی مستقبل میں بھی امن کی امید ہے۔ جیسا کہ کیمبرلین امن کی بحالی میں اپنے کردار کا دعوی کرنے میں حق بجانب ہے اسلئے اسے امن انعام کے ایک چھوٹے حصے کا حقدار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مگر سب سے درست بات یہی ہو گی کہ ہٹلر کی جگہ کوئی دوسرا نام نہ رکھا جائے۔ ایڈولف ہٹلر ایک مستند اور امن کا خداداد داعی ہے اور دنیا بھر کے لاکھوں لوگ اس کو امن کے شہزادے کے طور پر اپنی امیدوں کا سہارا سمجھتے ہیں۔ "
سٹاک ہولم ، 27 جنوری 1939ء

اگرچہ برینڈٹ کا یہ خط طنز سے بھرپور تھا پھر بھی لوگوں میں اس پہ شدید ردعمل سامنے آیا اور اسکو مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا ۔ برینڈٹ کو پاگل اور غدار قرار دے دیا گیا اور 1939ء میں جب جنگ چھڑ گئی تو اس نے واضح کیا کہ اس نے یہ خط ہٹلر کو شرم دلانے کے لئے لکھا تھا جو کہ دنیا میں امن کا سب سے بڑا دشمن تھا اور وہ اپنے اس عمل کو واپس لیتا ہے جو کہ باوجود اس کے مکمل طور پر طنز تھا۔

اگرچہ ہٹلر کو امن کا نوبل انعام نہیں دیا گیا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو اس کو اپنے بنائے ہوئے اصول کو ہی توڑنا پڑتا جو کہ اس نے اوستزکائی کے اس انعام یافتہ ہونے پر جرمنزکے لئے پابندی ٹھہرائی تھی۔ اوستزکائی سر عام ہٹلر پر شدید تنقید کیا کرتا تھا اور اس سے نفرت کی بدولت ہٹلر نے تمام جرمنز کو اس انعام سے دور رکھا۔
نوبل انعام ہمیشہ سے ہی اختلافات کا شکار رہتا ہے اور یہ جس کو بھی نوازا جائے وہ شدید تنقید کا شکار رہتا ہے خصوصا ہٹلر کے نام نے آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہو گا لیکن ایک لمحے کو سوچئے اگر ہٹلر کو یہ انعام مل جاتا تو یہ سوچ کر آپ کا کیا حال ہوتا کہ دوسری جنگ عظیم چھیڑنے والے اور دنیا کی بیشتر تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانے جانیوالے شخص کو ہی امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر اور امن کا نوبل انعام

Post by چاند بابو »

ہاہاہاہا
حیرت تو مجھے اس کا عنوان پڑھ کر ہی شروع ہو گئی تھی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”