لپ اسٹک اور جدید فیشن

بیوٹی ٹپس، بیوٹی کیئر، میک اپ ٹپس اور ان سے ملحقہ شعبوں کے بارے میں گفتگو
Post Reply
سحر.سحر
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Tue Jan 01, 2019 6:48 pm
جنس:: عورت
Contact:

لپ اسٹک اور جدید فیشن

Post by سحر.سحر »

لپ اسٹک اور جدید فیشن
تحریر: سحر عندلیب
Image
اگر ہم اپنے میک اپ کے جدید سامان پر ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ میک اپ کا سامان اور طریقے اگرچہ بہت جدت لئے ہوئے ہیں لیکن بنیادی چیزیں تبدیل نہیں ہوئی ہیں خاص طور پر لپ اسٹک ۔

قدیم تہذیبوں میں میک اپ کا استعمال عورتوں اور مردوں میں یکساں طور پر مقبول تھا خوبصورتی کے مقصد سے ہٹ کر اسکا استعمال دوائیوں کے طور پر بھی ہوتا تھا ۔ انسان ہمیشہ سے میک اپ کے سامان کو اپنی خوبصورتی میں اضافے کے لئے استعال کرتے رہے ہیں یہ بالخصوص لپ اسٹک کے بارے میں درست ہے ۔ قدیم بابل کے ابتدائی غیر سامی باشندوں نے لپ اسٹک کا استعمال سب سے پہلے کیا اسکی دریافت کا سہرا ان کے سر جاتا ہے ۔ یہ رنگین مواد قدرتی اشیاء مثلا پھلوں ، حنا ، مٹی اور بالخصوص کیڑے مکوڑوں سے حاصل کیا جاتا تھا ۔ میسوپوٹامیا کی خواتین زرا زیادہ جدت کی طرف مائل تھیں وہ قیمتی پتھروں کا سرمہ اپنے ہونٹوں پہ چمک اور رنگ لانے کے لئے استعمال کرتی تھیں ۔

مصری غالبا سب سے پہلے سرخ لپ اسٹک کے دلدادہ عوام تھے ۔ سیاہ اور جامنی بھڑکیلے رنگ عام تھے انھوں نے قرمزی رنگ حاصل کرنے کے لئے عجیب اشیاء جیسا کے کیڑوں کا استعمال کیا اصل میں قرمزی رنگ ابھی تک لپ اسٹک اور کچھ دوسری چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے مگر مصریوں نے کچھ ایسی چیزوں کا لپ اسٹک میں استعال بھی کیا جو کہ صحت کیلئے نہایت مضر ہیں جیسا کہ کوئلہ ، سیسہ اور آئوڈین وغیرہ
جاپان میں بھی خواتین بہت گہرا میک اپ اور لپ اسٹک کا استعمال کرتی تھیں ان لوگوں نے گوند سے لپ اسٹک بنائی ۔ صرف یونانی تہذیب میں میک اپ کا استعمال طوائفوں کے لئے مشروط تھا ۔ طوائفوں کو فانونا میک اپ استعمال کرنا ضروری تھا تاکہ ان میں اور دوسری عورتوں میں فرق ہو سکے ۔ اور اگر کوئی طوائف اسکا استعمال نہیں کرتی تھی تو وہ سزا کی حقدار ٹھہرائی جاتی تھی ۔

عیسائیت کے فروغ کے ساتھ لپ اسٹک اور میک اپ کے استعمال پر چرچ کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی ۔ سرخ ہونٹوں کو شیطان کی پیروی کرنیوالوں کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور لپ اسٹک لگانے والی عورتوں کو چڑیلیں اور جادو گرنیاں سمجھا جاتا تھا ہونٹوں پر ان دنوں ضرورت کے تحت مرہم لگانے کی اجازت تھی اسلئے پھر کچھ عورتیں مرہم کے اندر رنگ ڈال کے چھپ کے لگایا کرتی تھیں یا پھر ہونٹوں کو رگڑ کر سرخ کیا کرتی تھیں ۔

ملکہ الزبتھ کے دور میں لپ اسٹک نے اپنی جگہ بنائی اس دور میں گورا رنگ اور سرخ ہونٹوں کو مقبولیت حاصل ہوئی مگر لپ اسٹک صرف معزز اور امیر عورتوں تک محدود تھی یا پھر اسکا استعمال تھیٹر کرنے والے اداکار کر سکتے تھے تقریبا تین صدیوں تک لپ اسٹک صرف اداکاروں اور طوائفوں کے زیر استعمال رہی ۔

پرفیوم بنانے والی فرانسیسی کمپنی گرلین نے لپ اسٹک بنانے میں پہل کی انکی لپ اسٹک ہرن کی چربی ، بیز ویکس اور کیسٹر آئل سے تیار کی جاتی تھی اور اسکو ریشمی رومال میں لپیٹا جاتا تھا ۔
1920ء میں لپ اسٹک عورتوں کی زندگی میں خصوصی جگہ پا چکی تھی 1923ء میں جیمز بروس میسن جونئیر نے ایسی ٹیوب میں لپ اسٹک بنائی جسکو اوپر نکال کے استعمال کیا جاتا تھا اور یہ ماڈرن لپ اسٹک کی شکل تھی جسکو ہم اب استعمال کرتے ہیں ۔ فیشن سٹارز اور مووی سٹارز نے ہونٹوں پہ تیز رنگ کا استعمال دوبارہ شروع کر دیا اور گہرا جامنی ، تیز سرخ ، عنابی اور بھورا اس وقت کے پسندیدہ رنگ ٹھہرے ۔ میگزینز نے عورتوں کا حوصلہ بڑھایا ۔ 1920ء میں حقوق نسواں کی تحریک نے زور پکڑا تو لپ اسٹک اسوقت فیمینزم کی علامت بن گئی ۔ ایک سروے کے مطابق پچاس فیصد نوجوان لڑکیاں اپنے والدین سے لپ اسٹک کے لئے جھگڑتی تھیں ۔ 1920 سے 30ء تک جاز کے دور میں میٹ لپ اسٹکس کا رواج چل پڑا ۔ میکس فیکٹر کمپنی نے لپ گلوس بیچنے شروع کئے جو مشہور ترین ٹھہرے اس سے پہلے صرف ہالی ووڈ اداکاراووں کے لئے مخصوص تھے ۔ دوسری جنگ عظیم میں جب تمام اشیاء کا کال پڑا تو دھاتی ٹیوبز کی جگہ لپ اسٹک میں کاغذ اور پلاسٹک نے جگہ لے لی اسوقت سرخ رنگ جنگ کی ہولناکیوں کو کم کرنے اور مثبت اثر کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ۔

1950ء میں مارلن منرو اور الزبتھ ٹیلر نے گہرے سرخ ہونٹوں کو فیشن میں بنیادی اہمیت دلا دی اسوقت کئے گئے مختلف سرویز کے مطابق ساٹھ فیصد عورتیں لپ اسٹک لگاتی تھیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لپ اسٹک نے مختلف آرٹ اور کلچر سے مختلف رنگ اپنے اندر سموئے ۔ لوگ زیادہ سے زیادہ صاف ماحول کی خواہش میں کیمیکل فری لپ اسٹک چاہنے لگے نوے کی دہائی میں لپ اسٹک کے ساتھ لپ لائنرز کا فیشن رہا میک ، کورگرل اور اربن ڈی کے جیسے برینڈ مقبول عام رہے ۔ سن دو ہزار سے تاحال لپ اسٹک مین نئے سے نئے رنگ اور برینڈز متعارف ہوتے جا رہے ہیں اب اتنی ورائٹی ہے اس بزنس میں کہ دماغ ہل کر رہ جاتا ہے ایک معروف سروے کے مطابق امریکہ میں اوسطا خواتین اپنی زندگی میں پینتس سو ڈالر لپ اسٹک پر خرچ کرتی ہیں اب ہلکے رنگوں سے لے کر گلابی اسی طرح سبز ، پیلے اور کالے رنگوں کی لپ اسٹک کا دور ہے ۔

اب اگر آپ اگلی دفعہ اپنا پرس کھولیں اور لپ اسٹک پہ نظر پڑجائے تو یہ ضرور آپ سوچیں گی کہ اگرچہ لپ اسٹک نے پتھروں کے سرمے سے اور کیڑوں مکوڑوں سے لے کر جدید فارمولوں تک سفر صرور کیا ہے مگر یہ ہر دور میں عورتوں کی خوشی اور خوبصورتی کی وجہ ضرور رہی ہے ۔
میری یہ پوسٹ اور مزید پوسٹیں پڑھنے کے لئے میرے بلاگ کا وزٹ کریں۔
https://seharsposts.blogspot.com
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: لپ اسٹک اور جدید فیشن

Post by چاند بابو »

واہ واقعی کچھ تو ہے لپ اسٹک میں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “خوبصورتی مگر کیسے؟”