دل کا سرطان

طب کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت
Post Reply
سحر.سحر
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Tue Jan 01, 2019 6:48 pm
جنس:: عورت
Contact:

دل کا سرطان

Post by سحر.سحر »

دل کا سرطان تحریر سحر عندلیب

سرطان ایک جدید پلیگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور ہر سال آٹھ ملین لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر مزید پندرہ ملین کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔ علاج کے طریقہ کار میں جدید اور بے پناہ ریسرچ سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے مگر پھر بھی اس کے شکار افراد کو موت کے منہ میں جانے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ تھائیرائیڈ کینسر ، چھاتی کا کینسر ، پروسٹیٹ کینسر ، لبلبے کا کینسر اور جلد کا کینسر اس کی عام اقسام ہیں لیکن جسم کا ایک اہم حصہ جو لسٹ میں نہیں آتا وہ ہے دل۔ یقینا آپ نے کسی دل کے سرطا ن کے مریض کو نہیں دیکھا ہو گا لیکن کیا دل کا سرطان ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟
دل کا سرطان ہوتا تو ہے مگر انتہائی کم۔ اس کی وجوہات یقینا آپ کو حیران کر دیں گی ۔
اس کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے تو سرطان کو سمجھنا پڑے گا۔ ہمارے جسم کا ایک کنٹرول سسٹم ہوتا ہے جس کا کام پرانے اور خراب کارکردگی والے خلیوں کو نئے اور صحت مند خلیوں سے بدل دینا ہوتا ہے ۔جب یہ کام کرنا بند کردے تو خلیے تیزی سے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی غیر معمولی رفتار کی وجہ سے نزدیکی خلیوں کے کام پر بھی اثر پڑتا ہے اور اس طرح وہ بھی اپنا کام چھوڑ کر ٹوٹے ہوئے خلیوں کی شکل میں بڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح اکٹھے ہو کر جسمانی اعضاء کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں ۔
سرطان آزاد ذرات کے عملدرآمد سے پھیلتا ہے ۔ یہ صحت مند خلیوں کے تغیر و تبدل کو روکتا ہے اور انہیں خطرناک بنا دیتا ہےاس سے انکا کردار بدل کر سرطان پیدا کر دیتا ہے ۔ جب ایسے ابنارمل اور خطرناک خلیوں کی تقسیم کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے تو ایک بڑا جسمانی ریشہ رسولی کی صورت اختیار کر جاتا ہے ( سب اقسام میں تو نہیں خصوصا لیوکیمیا میں ایسے ہوتا ہے )
سرطان کی پانچ بڑی اقسام ہیں اور یہ جسم کے مختلف حصوں میں ان کی موجودگی کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے ۔ سرطان اگرچہ کچھ اعضاء میں زیادہ عام ہے مگر یہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے لیکن بعض اعضاء میں یہ آسانی سے پیدا ہو سکتا ہے اور بعض میں نہیں ۔
جیسا کہ سرطان خلیوں کی تیزی سے بلا ضرورت تقسیم کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے ایسے اعضاء جن کے خلیے مسلسل بڑھتے اور تقسیم ہوتے رہتے ہیں ان اعضاء کے مقابلے میں جہاں خلیات کی اتنی تقسیم نہیں ہوتی کینسر زدہ ہونے کے زیادہ چانس رکھتے ہیں ۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے دل کی طرف دھیان دیتے ہیں۔
جب انتہائی زیادہ کام کرنے والے جسمانی اعضاء کا ذکر ہو تو دل سر فہرست ہے جو کہ ہمارے پیدا ہونے سے بہت پہلے سے لے کر مرنے تک دھڑکتا رہتا ہے ۔ دل کے لئے کوئی آرام نہیں ہے اسے خون کو ہماری رگوں تک ہر وقت پمپ کرتے رہنا ہوتا ہے تاکہ ہمارے جسم کا ہر عضو اپنا کام کر سکے ۔ ہر لمحہ ورکنگ میں رہنے کی وجہ سے دل کے پاس وقت اور ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ پرانے خلیوں کی تشکیل کرے اور نئے بنانے کا کام کرے ۔ اس لئے دل کے عضلات جب تک کہ خراب نہ ہوں اپنا کام ویسے ہی کرتے رہتے ہیں ۔
جیسا کہ اوپر بتا دیا گیا ہے کہ کینسر خلیوں کی تقسیم کے ساتھ پھیلتا ہے تو جو عضو خلیات کی تقسیم کا کام نہیں کرے گا اس میں سرطان کا ہونا اور پھیلنا مشکل ہے ۔ جبکہ دوسرے اعضاء جلد، چھاتیاں اور معدہ وغیرہ مسلسل خلیات کو ختم کر کے نئے پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ خوراک کا نظام انہضام بہت زیادہ ایسڈک ہو سکتا ہے اور اسی طرح ہماری جلد مسلسل جھڑتی اور نئی بنتی رہتی ہے حتی کہ جسم میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے بریسٹ ٹشوز میں سوجن اور سکڑاو ہوتی رہتی ہے ۔ ان اعضاء میں سرطان کے عام ہونے کی دوسری بڑی وجہ سورج میں جانے اور ریڈی ایشنز کے سامنے آنے کی وجہ سے جلد پر کینسر پیدا کرنے والے خلیات بن جاتے ہیں یا سانس کے دوران پھیپھڑوں میں چلے جاتے ہیں جیسا کہ دل کا ایسے سرطان پیدا کرنے والے عناصر سے سامنا نہیں ہوتا اس لئے دل میں سرطان کا ہونا بھی تقریبا نا ممکن ہے ۔
اب جو ممکن ہے کیوں نہ اس پہ بات ہو جائے۔
ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک ملین لوگوں میں سے غالبا چونتیس لوگوں میں دل کے سرطان کی کوئی قسم ہوتی ہے ۔ جس کی مزید دو کیٹیگریز ہیں :
دل کے بنیادی یا ثانوی ٹیومرز ۔
بنیادی طرز کا ٹیومر گوشت کے ایک پھوڑے کی صورت میں انتہائی مہلک ہوتا ہے جو کہ جسم کے نرم ریشے میں بن جاتا ہے انتہائی شاذ ہوتا ہے اور اس میں یقینی موت واقع ہو جاتی ہے ۔دل میں بی نائین ٹیومر کا ہو جانا اتنا نایاب نہیں ہے البتہ یہ بھی ہوتے تو برے ہی ہیں مگر ان میں موت کی شرح کم ہے ۔
دل کا سرطان زیادہ تر ثانوی قسم کا ہوتا ہے اس میں سرطان دوسرے کسی عضو سے پھیل کر دل تک پہنچتا ہے یا اس کی لائننگ کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ سرطان انتقال مرض کی کیفیت لئے اپنے پیدا ہونے والے عضو سے آگے پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ کچھ کیسز میں جگر کا سرطان دل سے قریب ہونے کی وجہ سے اس تک پہنچ جاتا ہے اس کے علاوہ حیران کن طور پر خون کی گردش کی وجہ سے بھی کینسر دل تک پہنچ سکتا ہے۔ گردے، جگر یا چھاتی کے سرطان کی انتہائی مہلک صورتیں اسی طرح لیو کیمیا ، لمفوما اور میلا نوما بھی دل تک رسائی پا کر اس کو متاثر کر سکتی ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دل کا سرطان انتہائی نایاب مرض ہےمگر اس میں مبتلا ہونے کے ایک سال کے اندرہی پچاس فیصد اموات واقع ہو جاتی ہیں اس لئے اس کو بہت سنجیدہ لینا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ اگر ہم ہر چھ ماہ بعد اپنا میڈیکل چیک اپ روٹین بنا لیں تو بہت سی چھوٹی بیماریوں سے بچاو کے ساتھ کسی بھی بڑے خطرے کی بروقت تشخیص کی بدولت جان کا بچاو ممکن ہو سکتا ہے ۔
اب اگر آئندہ کوئی دل کے سرطان کے ہونے کا انکار کرے تو اس تک یہ معلومات پہنچا کر آگاہی فراہم کریں ۔ شکریہ
میری یہ پوسٹ اور مزید پوسٹیں پڑھنے کے لئے میرے بلاگ کا وزٹ کریں۔
https://seharsposts.blogspot.com
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: دل کا سرطان

Post by چاند بابو »

کیا بات ہے میں نے خود پہلی بار دل کے سرطان کے بارے میں‌سنا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “طب”