ذہنی کنکر

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
jawed_deewan
کارکن
کارکن
Posts: 33
Joined: Mon Dec 13, 2010 11:40 am
جنس:: مرد

ذہنی کنکر

Post by jawed_deewan »

کبھی تو آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا کہ جوتے میں ایک کنکر گھس گیا جو بعض اوقات چاول کے دانے سے بڑا نہیں ہوتا لیکن آپ کے لیے دو قدم چلنا دشوار کر دیتا ہے۔ آپ کی فوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس سے نجات حاصل کی جائے۔ آپ فورا رک جاتے ہیں۔ ماحول سے بے پرواہ جوتا پیر سے نکالتے ہیں اس کنکر کو جھاڑ دیتے ہیں۔ آپ نے غور کیا کہ جوتا اتارنا، کنکر جھاڑنا بلکہ بعض اوقات موزہ اتار کر اس کنکر سے جان چھڑانا یہ سب کچھ اس طور سے ہوتا کہ اس میں آپ کا اپنا اختیار کم و بیش غیرموجود ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس معمولی کنکر نے آپ کو پریشان کرڈالا ہے اور آپ کے لیے چلنا پھرنا دشوار کردیا ہے۔

یہ کنکر تو ہم نکال دیتے ہیں لیکن کئی کنکر ایسے ہیں جو ہماری زندگیوں میں گھسے ہوتے ہیں اور جس طرح جوتے میں گھسا ہوا کنکر ہمارے قدم روک لیتا ہے اسی طرح ہمارے اندر گھسے ہوئے کنکر بلکہ کنکروں کی وجہ سے ہمیں زندگی کے سفر میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہے لیکن شاید ہی کوئی شخص اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ان کنکروں سے جان چھڑائے اور اپنی زندگی کو پرسکون بنائے۔ عمر گزر جاتی ہے لیکن یہ ذہنی کنکر انسان اپنی جان کے ساتھ لگائے رہتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کی زندگی کی تلخیاں، اس میں پڑی ہوئی الجھنیں جو ان کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہیں یہ اصل میں ان روحانی کنکروں کے لگائے ہوئے زخم ہیں۔

یہ کنکر کیا ہیں؟ یہ روحانی امراض ہیں۔ جن کی جڑیں ہمارے نفس کے اندر ہیں۔ حسد کو لے لیجیے بلاوجہ کی چیز لیکن جس سے حسد وہ چاہے سامنے نہ ہو لیکن انسان کو بے چین کر رہا ہے ۔ وہی جوتے میں گھسے ہوئے کنکر کی طرح۔ کبر کو لیجیے کسی کے پاس اپنے سے بہتر چیز دیکھ لی تو ہو گئی پریشانی شروع۔ اپنی نظروں سے خود کو گرا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے ایسا انسان۔ ذات کا یہ کنکر بے چین کیے دے رہتا ہے اس کو۔

ان کنکروں کواپنی ذات سے نکالے بغیر ہماری زندگی ظاہر میں کتنی ہی خوشگوار ہوجائے لیکن وہ پرسکون نہیں ہوسکتی اسی طرح جس طرح مہنگے سے مہنگا خریدا ہوا جوتا اندر موجود کنکر کی وجہ سے ہم کو راحت پہنچانے کی بجائے اور بے چین کر ڈالتا ہے۔ اور چین اسی وقت ملتا ہے جب وہ کنکر نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی ذات میں چھپے ہوئے کنکر جب تک چن چن کر نکال نہیں دیے جائیں گے سکون و عافیت ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ خواب تو بعض اوقات سچے ثابت ہوتے ہیں لیکن زندگی کو خوشگوار بنانے کا خواب کبھی سچا ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اپنی ذات میں ڈوب کر اس میں پوشیدہ کنکر جھاڑ نہ دیے جائیں چاہے آپ دولت کے انبار جمع کرلیں۔ اتنے بڑے انبار کہ ان کی چوٹی آسمانوں کو چھو لے۔
قد افلح من تزکی (الاعلی: 14)
یقینا فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا
میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ذہنی کنکر

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم جاوید دیوان صاحب بالکل درست فرمایا آپ نے ہمیں اپنی ذات میں چھپے ان کنکروں کو نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا معاشرہ پیدا ہو سکے جو حسد اور کینہ سے پاک ہو جس میں سب ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں بجائے اپنی ذات کو ہی اپنی سوچ کا محور بنانے کے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”