ویلنٹائن ڈے آخر مسئلہ کیا؟
میاں جی کی باتیں
میاں یاسر رئوف
آج 12 فروری کا دن حسب توقع سورج کے گرد بادلوں کی گھنی چادر اوڑے سردی کے آخری سانسوں کی خبر دیتا طلوع ہوا۔ میں رات سونے سے پہلے سوچ رہا تھا کہ ارے اف! ایک بار پھر فروری کا دن زندگی میں آنے والا ہے اور اس دن ویلنٹائن ڈے کے نام وقوع ہونے والے بھیانک اور حیا سوز واقعات جن میں سے اکثر منظرعام پر نہیں آئیں گے، اور جو آئیں گے وہ قیامت کے مزید قریب ہونے کی خبر لائیں گے۔
مجھے معلوم ہے اور آپ بھی خوب واقف ہیں میری مراد کیا ہے۔ ہاں جی ! ویلینٹائن ڈے، یوم محبت ، یوم عاشقاں ، یوم حیا سوزی وغیرہ وغیرہ ۔ فروری کی رات سے ہی مظلوم نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ،بے حیائی ، بے راہ روی کا نہ تھمنے والا اور نہ چھپنے والا اور نہ رکنے والاطوفان زور پکڑنے لگتا ہے۔ حالانکہ کہ یہ سلسلہ بے حیائی سارا سال چلتا ہے مگر اس دن تو جیسے عید کا اجتماع ہو۔
اور ہر جگہ ، ہر گلی اور ہر بستی میں حیا کہ جس کو ایمان کا جز قرار دیا گیا ہے، پر خودکش حملے زور پکڑنے لگتے ہیں۔اور اس کا باعث بننے والوں کو، اس سے اجتناب کرنے والے، ہر جگہ مطعون کرتے اور تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اورمظلوم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس موقع پر سب حدیں پار کر جاتے ہیں جو انسانی معاشروں کو جنگلی جانوروں کے کسی جتھے سے ممتاز کرتی ہیں۔
جنسوں کے اس عظیم فرق سے پہلے بھی لوگوں نے اعراض کیا تھا اور وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ عذابوں کے ذریعے صفحہ ہستی مٹا دی گئی تھی۔ جس کی بڑی مثال قوم لوط او ر نبی رحمت ۖ کی نبوت سے پہلے کے ادوار ہیں۔اللہ کی جانب سے عرصہ دراز سے عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرتی خرابیوں کی اصلاح کے لئے انبیا مبعوث ہوتے رہے اور پھر آخری امید رحمت ومغفرت، پیغمبر حیاو اخلاقیات محمد رسول اللہ ۖ کی صورت میں اللہ نے اس بگڑی نوع انسانیت کو ایک نعمت سے نوازا۔ جس نے انسانیت کو دنیا و آخرت کی عزت و کامرانی کے رہنما اصول پیش کئے اور ان پر گامزن کیا۔ انھیں رہنما و فطری قوانین نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔
لیکن جب لوگوں نے ان قوانین کو ، پرانے دور کی باتیں ، موجودہ جدید دور میں ناقابل عمل ، اوردین کو محض اپنی روزمرہ مصروفیات میں صرف ایک جز سمجھنا شروع کیا تو اللہ کا غضب و عذاب جا بجا نظر آنے لگا۔
چلیں ، اب موضوع کی طرف آتے ہیں، کیونکہ سیرت کے موتی اتنے کثیر ہیں کہ ایک کے بعدایک خود بخود ابھر کر سامنے آتے چلے جاتے ہیں اور اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے والے نادم و ناکام لوٹتے ہیں۔
اب میں اس بات پر انتہائی پریشان تھا کہ بیچارے اور مظلوم نوجوانوں کے لئے یہ دن کسی معرکہ سر کرنے سے کم نہیں!
مجھے آج بھی یاد ہے کہ بچپن میں ایک کہانی سنا کرتا تھا کہ کہیں دور قلعے میں ایک ظالم جادو گرنی ایک معصوم سی بے پناہ خوبصورت شہزادی قید کر رکھی تھی مگر مظلوم شہزادی اس قید سے نا ا شنا تھی اور کئی سال سے وہ اس کے جیل نما محل میں ، ہر سہولت و آسائش میں اور اس جادوگرنی کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور مہربان سمجھ کر بیٹھی تھی۔اور کبھی بھی وہ باہر دنیا کو نہ دیکھ پائی تھی۔اور جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اور ایک دن جب اسکی نظر اپنے قید خانیکی دیوار میں ہونے والے چھید سے باہر کی دنیا پر پڑتی ہے تو اسے اپنے کمرے میں موجود تما م سہولیات و آسائشیں باعث تکلیف و کرب کا ذریعہ لگنے لگتی ہیں۔ اور پھر ایک شہزادہ، جو اپنی جان پر کھیل کر ، اس خطرناک جادوگرنی کو دھول چٹا کر اس تک پہنچتا ہے تو وہ شہزادی اس جادو گرنی کی تمام خدمات اور محنتوں اور آسائشوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ہمسفر کے ساتھ راہ فرار اختیار کرتی ہے اور بلا آخر وہ اجنبی شہزادہ جادوگرنی کی مرضی کے خلاف اسکو لے اڑتا ہے اور جادوگرنی سوائے چیخنے چلانے کہ اور بین کرنے کے اور بدعائیں دینے کے کچھ نہیں کر پاتی۔
میں جب آج اپنے معاشرے میں دیکھتا ہوں تو تقریبا ہر گھر اسی طرح کی ڈرائونی کہانی کا منظر پیش کرتا نطر آتا ہے۔ الا ماشا اللہ!
بیٹی تو اللہ رحمت اور بیٹا اللہ کا فضل ہوتا ہے مگر آج یہ دونوں بیچارے باعث شرمندگی و ازیت کیوں کر بن جاتے ہیں؟
میری کم فہمی میں شاید اللہ مالک ملک یہ بات جانتے تھے کہ انسان کو تمام ضروریات زندگی کی فراہمی کے باوجود جس ضرورت کو باعث راحت و سکون سمجھا ، وہ جنس مخالف ہی ہے۔اور اس بارے قرآن و سنت میں واضح دلائل و واقعات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
مگر آج ہم نہایت بھیانک صورتحال سے دوچار ہیں اور اس وقت معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کا جو بازار گرم ہے ،اس کا ذمہ دار جہاں بیرونی تہذیبوں کی یلغار ہے ، میڈیا کی بھرمار ہے ،برائی کے مواقع عام ہیں ۔ مگر''بیچارے مظلوم''نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس گناہ کا اصل محرک اور ذمہ دار قرار دے کر ، سارا ملبہ ان ''مظلوموں''پر ڈال کر، والدین اور دینی حلقے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض و زمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ مگر افسوس!
حقیقت اس سے برعکس نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین اور دینی حلقے اس طوفان بے حیائی سے پریشان اور متفکر تو نظر آتے ہیں مگر وہ اپنے بھرپور خلوص کے باوجود اس کے حل کے لئے جو طریقہ اپنائے ہوئے ہیں وہ اپنے اثرات و نتائج اس طرح نہیں پیش کر پا رہے جیسے کہ ہونے چاہیئے تھے۔
والدین کی سختی ، اور تنبیہ اور غیر دوستانہ رویہ اور تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات اور حقائق سے آنکھیں بند رکھنا(اس میں دینی و دنیا دار گھرانے دونوں شامل ہیں)اور گھر کے ماحول کی خرابی وغیرہ ۔
اس طرح حل کی بجائے بے حیائی کی بیماری کو مزید گھمبیر اور پیچیدہ کر تی جارہی ہے۔ اور دینی حلقے باوجود اپنی موثر کردار کے اور اثر رسوخ کے اس مسئلے پر بھرپور کوشش تو کرتے ہیں مگر یک طرفہ جہد اورروک تھام سے مسئلہ حل ہوتا نظرنہیں آتاہے اور تو اور ''مظلوم'' نوجوانوں میں دینی حلقوں بارے نظریات بھی دھندلاتے جا رہے ہیں۔ اور نوجوان علما کے اس یک طرفہ رویے کی وجہ سے ان سے لاپروہ ہوتے جارہے ہیں او ر اس مسئلے پر بجا شکایت رکھتے ہیں ۔
آخر مسئلہ کیا ہے، کیوں یہ ویلنٹائن ڈے کی پلید غیر اسلامی رسم ہمارے معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے، اور باوجود لاکوششوں کے معاشرہ کی نبض ڈوبتی جارہی ہے؟
بات آسان ہے۔ جب ایک''بیچارا'' لڑکا یا لڑکی جوان ہوتی ہے تو اسکو پڑھائی اور مستقبل کی فکر ایسی ڈالی جاتی ہے اور اپنی جنسی خواہش (نکاح) کا اظہار کرنا ایک گناہ شمار کروایا جاتا ہے۔ بیٹا تمہیں پتا نہیں ہے، تم ابھی بچے ہو، تم پہلے اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائو، پہلے فلاں رہتا ہے پھر فلاں کی اور اسکے بعد پھر تماری، کر دیں مگر کھلائو گے کہاں سے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ'' مظلوم'' نوجوان ایسے ذریعے اور راستے تلاش کرتے ہیں۔ اور جس کا سالانہ نتیجہ ہمارے سامنے اس ''یوم پلید'' ویلنٹائن ڈے کے موقع پر سامنے آتا ہے۔اور جب بیچارے'' مظلوم'' نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین سے مایوس ہوتے ہیں تو خود چوری چھپے یا پھر والدین کی عدم دلچسپی پر کھلم کھلا کاروبار شیطان کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس وقت میں والدین اور دینی حلقوں نے باوجود اپنی پر خلوص تگ و دو کے بھی، ا س مسئلے کو اس کی بنیادوں سے حل کرنے کی بجائے، اس کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ علما جہاں ایک طرف ''مظلوم ''لڑکوں اور لڑکیوں کو نصیحت اور تنبیہ کرتے ، تو دوسری طرف والدین کو بھی انکی ذمہ داری کا احساس دلوانے کے لئے میدان میں آتے اور انکو نوجوانوں کی جنسی ضروریات کو جائز طریقہ سے پورے کرنے بارے آگاہ کرتے اور ان )والدین(کے نکاح بارے موجود ابہام کو دور کرتے اور اس مسئلہ کی حساسیت کو اجاگر کرتے اور اس سے اعراض کرنے پر جو معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں ان سے ڈراتے۔ مگر یک طرفہ رویہ یہاں باعث نقصان بنتا نظر آرہا ہے۔امید ہے اس مسئلہ میں، میں نے جس نقطہ پر توجہ دلوائی ہے ، ا س پر سب اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کریں گے اور ہم سب مل کر اس مسئلہ پر غور اور اصلاح کی کوشش کریں گے۔
ویلنٹائن ڈے آخر مسئلہ کیا؟
بس ایک قدم شرط
بس ایک قدم شرط
میاں جی کی باتیں
میاں یاسر رئوف
آج اگر ہمارے نوجوانوں کو ذرا سی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائے، راستے میں ذرا سی مشکل آئے تو وہ ہمت ہار کر ایک طرف ہو کہ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سڑھی ہوتی ہے۔ ہم اگر پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے تو آخری سیڑھی پر کیسے پہنچے گے۔ منزل پر پہنچنے کے لیے قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوتا ہے، اگر ہم چھلانگ لگانے کی کوشش کریں گے تو گر جائیں گے۔
وہ یہ غور نہیں کرتے کہ تخریب سے ہی تعمیر کا سفر ممکن ہوتا ہے۔ تعمیر سے تعمیر تک کا آسان سفر تو ہر کوئی کرسکتا ہے مگر تخریب سے تعمیر کا سفر جو کرتا ہے وہ خاص ہوتا ہے، انمول ہوتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں ایسے لوگ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ تو کیوں نہ آپ پہل کر کہ اس ناپیدی کو روکنے کا کریڈٹ حاصل کرلیں۔
آج ہم ہر بات میں اپنی انا کو مسئلہ بنا لیتے ہیں کسی کو اگر آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر احساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم یہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر دوسرے شخص نے ایک کام میں کامیابی حاصل کی ہے اور ہم ناکام ہو گئے ہیں تو اس کے بدلے میںاللہ نے ہمیں اور بہت ساری صلاحتیوں سے نوازا ہے ہمیں ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کچھ اچھا کرنا چائیے۔
احساسِ کمتری بندے کو کئی پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذہن نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں جو وہ کرنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جبکہ دوسری جانب جسے کامیابی ملتی ہے وہ اس پر اترانا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآنِ پاک میں اسکا حل بھی ہمیں بتا دیا ہے کہ "جو چلا گیا اس پر پچھتا نہیں اور جو آ گیا اس پر اترا نہیں اگر یہ چھوٹا سا اصول زندگی میں اپنا لیا جائے تو ہم بہت ساری پریشانیوں کو اپنے اعصاب سے اتارنے میں کامیاب ہو جائیں۔
بعض اوقات اگر ہمیں اپنی صلاحیتوں سے اگر کچھ کم کرنے کا موقع ملے تو ہم ایسا کوئی بھی کام کرنے سے نالاں ہی رہتے ہیں کہ یہ ہمارے معیار کا نہیں لیکن کسی بھی گڑھے کو پار کرنے کے لیے ایک دو قدم پیچھے ہٹ کر چھلانگ لگانی پڑتی ہے۔ اگر ہم اپنی جگہ پر ہی کھڑے ہو کہ آگے بڑھیں گے تو گڑھے میں گر جائیں گے۔ اس لیے کبھی کبھار اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اپنے معیار سے کم کو بھی ترجیح دینی چاہیے کیونکہ گڑھے کوتو پیچھے ہٹ کر ہی پار کرنا ہوتا ہے ناں! اگر ہم گڑھا پار نہیں کریں گے توسفر کیسے طے کریں گے اور جب سفر طے نہیں کریں گے منزل تک کیسے پہنچیں گے؟ اپنی منزل پرپہنچنے کے لیے ہمیں سفر تو کرنا ہی ہوتا ہے ناں! ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے ہمیں آسانی کے لیے مشکلات کاسامنا تو کرنا ہی ہو گا۔
سوناآگ میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے۔ جب تک آپ زمانے کی تمازت سے نہیں گزرو گے، تکلیفیں برداشت نہیں کرو گے تو کیسے نگیں بنو گے؟ یہاں پر ایک اور بات کا بھی تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ اپنی زندگی کاایک کوئی خاص مقصد بنا لیں پھر اسے حاصل کرنے کے لیے محنت کریں۔ بے مقصد زندگی جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی زندگی گزاریں کہ جس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔ انسان کو جو خوشی دوسروں کی مدد، ان کو خوشی دے کے، ان کی پریشانیاں دور کر کے ملتی ہے وہ صرف اپنے لیے سب کچھ حاصل کر کے بھی نہیں ملتی۔
جب انسان کے سامنے مقصد ہوتا ہے تو پھر اس تک پہنچنے کے لیے اسے حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ انسان کی زندگی کا کوئی ایک مقصد نہیں ہوتا مگر آپ نے اس مقصد کو جو آپ کے لیے اہم ہے جس سے آپکی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے اسکو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ یہ کبھی بھی مت سوچیں کہ آپ کچھ کر نہیں سکتے جب انسان یہ سوچتا ہے تو وہ بھی نہیں کر سکتا جو کرنا اس کے لیے سب سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپنے آپ پر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کر کے آگے بڑھیں اور یہ سوچیں کہ اللہ کی مدد سے انشاللہ میں سب کر لوں گا تو آپ کے لیے کوئی بھی کام نا ممکن نہیں۔
علامہ اقبال نے ایسے نوجوانوں کے لیے کیا خوب کہا تھا کہ
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے
ڈالتے ہیں جو ستاروں پہ کمند
اس لئے ابھی سے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوںاور مایوسی کی چادر کو اتار کر تخریب سے تعمیر تک کا یہ سفر کرنے کے لئے کمر بند ہوجائیں۔ ممکن ہے اب کی بار جو آپ کرنے جارہے ہوں وہ ہوجائے اور اگر نہیں بھی ہوا تو شاید اگلی بارہوجائے۔ اس لئے ہمت ہارنے سے کبھی بھی منزلیں نہیں ملتیں۔ منزلیں تو بلند جذبوں اور پر عزم عزائم کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ آپ نے جو مقصد حیات چن رکھا ہے وہ مشکل تو ہو سکتا ہے مگر ناممکن نہیں اس لئے تھوڑی سی ہمت سے آپ جسے ناممکن سمجھ رہے ہیں وہ ممکن ہوجائے گا۔ بس ایک قدم شرط ہے۔
میاں جی کی باتیں
میاں یاسر رئوف
آج اگر ہمارے نوجوانوں کو ذرا سی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائے، راستے میں ذرا سی مشکل آئے تو وہ ہمت ہار کر ایک طرف ہو کہ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سڑھی ہوتی ہے۔ ہم اگر پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے تو آخری سیڑھی پر کیسے پہنچے گے۔ منزل پر پہنچنے کے لیے قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوتا ہے، اگر ہم چھلانگ لگانے کی کوشش کریں گے تو گر جائیں گے۔
وہ یہ غور نہیں کرتے کہ تخریب سے ہی تعمیر کا سفر ممکن ہوتا ہے۔ تعمیر سے تعمیر تک کا آسان سفر تو ہر کوئی کرسکتا ہے مگر تخریب سے تعمیر کا سفر جو کرتا ہے وہ خاص ہوتا ہے، انمول ہوتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں ایسے لوگ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ تو کیوں نہ آپ پہل کر کہ اس ناپیدی کو روکنے کا کریڈٹ حاصل کرلیں۔
آج ہم ہر بات میں اپنی انا کو مسئلہ بنا لیتے ہیں کسی کو اگر آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر احساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم یہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر دوسرے شخص نے ایک کام میں کامیابی حاصل کی ہے اور ہم ناکام ہو گئے ہیں تو اس کے بدلے میںاللہ نے ہمیں اور بہت ساری صلاحتیوں سے نوازا ہے ہمیں ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کچھ اچھا کرنا چائیے۔
احساسِ کمتری بندے کو کئی پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذہن نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں جو وہ کرنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جبکہ دوسری جانب جسے کامیابی ملتی ہے وہ اس پر اترانا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآنِ پاک میں اسکا حل بھی ہمیں بتا دیا ہے کہ "جو چلا گیا اس پر پچھتا نہیں اور جو آ گیا اس پر اترا نہیں اگر یہ چھوٹا سا اصول زندگی میں اپنا لیا جائے تو ہم بہت ساری پریشانیوں کو اپنے اعصاب سے اتارنے میں کامیاب ہو جائیں۔
بعض اوقات اگر ہمیں اپنی صلاحیتوں سے اگر کچھ کم کرنے کا موقع ملے تو ہم ایسا کوئی بھی کام کرنے سے نالاں ہی رہتے ہیں کہ یہ ہمارے معیار کا نہیں لیکن کسی بھی گڑھے کو پار کرنے کے لیے ایک دو قدم پیچھے ہٹ کر چھلانگ لگانی پڑتی ہے۔ اگر ہم اپنی جگہ پر ہی کھڑے ہو کہ آگے بڑھیں گے تو گڑھے میں گر جائیں گے۔ اس لیے کبھی کبھار اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اپنے معیار سے کم کو بھی ترجیح دینی چاہیے کیونکہ گڑھے کوتو پیچھے ہٹ کر ہی پار کرنا ہوتا ہے ناں! اگر ہم گڑھا پار نہیں کریں گے توسفر کیسے طے کریں گے اور جب سفر طے نہیں کریں گے منزل تک کیسے پہنچیں گے؟ اپنی منزل پرپہنچنے کے لیے ہمیں سفر تو کرنا ہی ہوتا ہے ناں! ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے ہمیں آسانی کے لیے مشکلات کاسامنا تو کرنا ہی ہو گا۔
سوناآگ میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے۔ جب تک آپ زمانے کی تمازت سے نہیں گزرو گے، تکلیفیں برداشت نہیں کرو گے تو کیسے نگیں بنو گے؟ یہاں پر ایک اور بات کا بھی تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ اپنی زندگی کاایک کوئی خاص مقصد بنا لیں پھر اسے حاصل کرنے کے لیے محنت کریں۔ بے مقصد زندگی جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی زندگی گزاریں کہ جس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔ انسان کو جو خوشی دوسروں کی مدد، ان کو خوشی دے کے، ان کی پریشانیاں دور کر کے ملتی ہے وہ صرف اپنے لیے سب کچھ حاصل کر کے بھی نہیں ملتی۔
جب انسان کے سامنے مقصد ہوتا ہے تو پھر اس تک پہنچنے کے لیے اسے حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ انسان کی زندگی کا کوئی ایک مقصد نہیں ہوتا مگر آپ نے اس مقصد کو جو آپ کے لیے اہم ہے جس سے آپکی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے اسکو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ یہ کبھی بھی مت سوچیں کہ آپ کچھ کر نہیں سکتے جب انسان یہ سوچتا ہے تو وہ بھی نہیں کر سکتا جو کرنا اس کے لیے سب سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپنے آپ پر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کر کے آگے بڑھیں اور یہ سوچیں کہ اللہ کی مدد سے انشاللہ میں سب کر لوں گا تو آپ کے لیے کوئی بھی کام نا ممکن نہیں۔
علامہ اقبال نے ایسے نوجوانوں کے لیے کیا خوب کہا تھا کہ
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے
ڈالتے ہیں جو ستاروں پہ کمند
اس لئے ابھی سے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوںاور مایوسی کی چادر کو اتار کر تخریب سے تعمیر تک کا یہ سفر کرنے کے لئے کمر بند ہوجائیں۔ ممکن ہے اب کی بار جو آپ کرنے جارہے ہوں وہ ہوجائے اور اگر نہیں بھی ہوا تو شاید اگلی بارہوجائے۔ اس لئے ہمت ہارنے سے کبھی بھی منزلیں نہیں ملتیں۔ منزلیں تو بلند جذبوں اور پر عزم عزائم کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ آپ نے جو مقصد حیات چن رکھا ہے وہ مشکل تو ہو سکتا ہے مگر ناممکن نہیں اس لئے تھوڑی سی ہمت سے آپ جسے ناممکن سمجھ رہے ہیں وہ ممکن ہوجائے گا۔ بس ایک قدم شرط ہے۔
میاں جی کی باتیں میاں یاسر رئوف
صحافت اور نوکری
میاں جی کی باتیں
میاں یاسر رئوف
اللہ تعالی نے انسان کو حیوانی قالب میں تو پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی اسے عقل و فہم اور فکر و شعور کی وہ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو اسے تمام حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں۔ عقل و شعور کی یہ صلاحیت ہی انسان کا وہ اصلی شرف ہے جو اسے ایک کمزور جسم کے باوجود کرہ ارض کا حاکم بنادیتی ہے۔ یہی شرف ہے جس کی مدد سے انسان نے پتھروں سے تمدن کو پیدا کیا، بحر و بر کو مسخر کیا، بیماریوں کو شکست دی اور ہر دور میں پیدا ہونے والے اپنے مسائل کو حل کیا۔ یہی عقل و فہم ہے جس کی بنیاد پر ہم ماضی سے سبق سیکھتے ہیں، حال کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ یہی فکری رہنمائی ہماری زندگی کی کامیابی کی ضامن ہے۔
ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے درست فکری رہنمائی کا طالب ہوتاہے۔ جو لوگ یہ فکری رہنمائی کریں وہ فلسفی، مفکر، حکیم اور دانشور کہلاتے ہیں اور اجتماعی طور پر انہیں فکری قیادت (Intellectual Leadership) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فکری قائد تھے۔ انہی کی رہنمائی کو اپنا کر مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی تحریک چلائی اور ہندوستان سے جدا ہوکر اپنی الگ مملکت قائم کی۔
ایک فکری قائد وہ ہوتا ہے جو دیکھتا تو وہی ہے جو سب دیکھتے ہیں، مگر بتاتا وہ ہے جو دوسرے نہیں بتا پا رہے ہوتے ہے۔ وہ ایسا اپنے وسیع علم، گہرے مطالعے، کشادہ ذہن، تیز نظر اور بے لاگ تجزیہ کرنے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر کرپاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جہاں اور کئی شعبوں میں زوال آیا وہیں فکری رہنمائی کرنے والی قیادت اور اس کی رہنمائی کی سطح بھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، گرتی چلی جارہی ہے۔
اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ مثلا علمی جمود، تعصب اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی روایت وغیرہ۔ تاہم اس صورتحال کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ اب قوم کی فکری رہنمائی زیادہ تر وہ لوگ کررہے ہیں جو اصل میں صحافی ہیں۔ صحافی بنیادی طور پر رپورٹر ہوتا ہے جس کی اصل دلچسپی حالات حاضرہ اور خبر میں ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ حال میں جیتا اور فوری واقعات کا نوٹس لیتا ہے۔ اس کے تجزیے کا انحصار اپنے مطالعے سے زیادہ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات اورخبروں پر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک دن کا مفکر تو بن سکتا ہے، مگر قوموں کی فکری رہنمائی کے لیے جس گہری نظرا ور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اکثر ایک صحافی میں ناپید ہوتی ہے۔
ایک مفکر خبروں سے جنم لینے والے حال اور ماضی قریب میں نہیں جیتا بلکہ اس کا موضوع ماضی بعید اور مستقبل ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کی معلومات سے زیادہ ان کی حقیقت اور نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرہ کے اصول اورفرد اور اجتماعیت کی نفسیات کو سمجھنا اس کا اصل میدان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ایک عام صحافی کے بس کی بات نہیں۔ وہ تو ماضی قریب میں جیتا ہے جبکہ ایک حکیم اور مفکر ماضی بعید کی عطا کردہ حکمت میں جیتا ہے جو اسے مستقبل میں جھانکنے کے قابل بنادیتی ہے۔ یہی ایک صحافی اورمفکر کا بنیادی فرق ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں صحافت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے صحافی صرف اور صرف سیاست اور سیاستدانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
جبکہ دور جدید میں سیاست اجتماعی زندگی کا ایک ضمنی حصہ بن چکی ہے، مگر ہمارا صحافی اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ چونکہ سیاست کے میدان میں ہماری ناکامیاں غیر معمولی ہیں، اس لیے وہ انھی ناکامیوں اور مایوسیوں کو قوم تک منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ جوکسی قسم کی رہنمائی نہیں بلکہ سلو پوائزننگ (slow poisoning) کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ آپ اخبارات کے کالم نویسوں کو پڑھ لیجیے یا ٹی وی کے تبصرہ نگاروں کو سن لیجیے۔ وہ آپ کو قوم کے کانوں میں مایوسی کا زہر انڈیلتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ لوگ ایک صحافی اور مفکر کا فرق سمجھیں۔ اخبار کا اور اپنا پیٹ بھرنے والے کالم نویسوں اور سیاسی پروگراموں کے تبصرہ نگاروں کی گفتگو سے متاثر ہونے کے بجائے کسی حکیم اور دانشور کو تلاش کریں۔ یہ لوگ کم ہوتے ہیں، لیکن ایک دو اچھے حکیم قوم کا بیڑہ پار لگانے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ خد اکا قانون ہے کہ کسی معاشرے سے ایسے لوگ ختم نہیں ہوتے۔ بات صرف ان سے رہنمائی لینے کی ہے اور یہ ہمارے کرنے کا کام ہے، نہ کہ ان کے کرنے کا۔
میاں جی کی باتیں
میاں یاسر رئوف
اللہ تعالی نے انسان کو حیوانی قالب میں تو پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی اسے عقل و فہم اور فکر و شعور کی وہ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو اسے تمام حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں۔ عقل و شعور کی یہ صلاحیت ہی انسان کا وہ اصلی شرف ہے جو اسے ایک کمزور جسم کے باوجود کرہ ارض کا حاکم بنادیتی ہے۔ یہی شرف ہے جس کی مدد سے انسان نے پتھروں سے تمدن کو پیدا کیا، بحر و بر کو مسخر کیا، بیماریوں کو شکست دی اور ہر دور میں پیدا ہونے والے اپنے مسائل کو حل کیا۔ یہی عقل و فہم ہے جس کی بنیاد پر ہم ماضی سے سبق سیکھتے ہیں، حال کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ یہی فکری رہنمائی ہماری زندگی کی کامیابی کی ضامن ہے۔
ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے درست فکری رہنمائی کا طالب ہوتاہے۔ جو لوگ یہ فکری رہنمائی کریں وہ فلسفی، مفکر، حکیم اور دانشور کہلاتے ہیں اور اجتماعی طور پر انہیں فکری قیادت (Intellectual Leadership) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فکری قائد تھے۔ انہی کی رہنمائی کو اپنا کر مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی تحریک چلائی اور ہندوستان سے جدا ہوکر اپنی الگ مملکت قائم کی۔
ایک فکری قائد وہ ہوتا ہے جو دیکھتا تو وہی ہے جو سب دیکھتے ہیں، مگر بتاتا وہ ہے جو دوسرے نہیں بتا پا رہے ہوتے ہے۔ وہ ایسا اپنے وسیع علم، گہرے مطالعے، کشادہ ذہن، تیز نظر اور بے لاگ تجزیہ کرنے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر کرپاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جہاں اور کئی شعبوں میں زوال آیا وہیں فکری رہنمائی کرنے والی قیادت اور اس کی رہنمائی کی سطح بھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، گرتی چلی جارہی ہے۔
اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ مثلا علمی جمود، تعصب اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی روایت وغیرہ۔ تاہم اس صورتحال کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ اب قوم کی فکری رہنمائی زیادہ تر وہ لوگ کررہے ہیں جو اصل میں صحافی ہیں۔ صحافی بنیادی طور پر رپورٹر ہوتا ہے جس کی اصل دلچسپی حالات حاضرہ اور خبر میں ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ حال میں جیتا اور فوری واقعات کا نوٹس لیتا ہے۔ اس کے تجزیے کا انحصار اپنے مطالعے سے زیادہ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات اورخبروں پر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک دن کا مفکر تو بن سکتا ہے، مگر قوموں کی فکری رہنمائی کے لیے جس گہری نظرا ور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اکثر ایک صحافی میں ناپید ہوتی ہے۔
ایک مفکر خبروں سے جنم لینے والے حال اور ماضی قریب میں نہیں جیتا بلکہ اس کا موضوع ماضی بعید اور مستقبل ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کی معلومات سے زیادہ ان کی حقیقت اور نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرہ کے اصول اورفرد اور اجتماعیت کی نفسیات کو سمجھنا اس کا اصل میدان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ایک عام صحافی کے بس کی بات نہیں۔ وہ تو ماضی قریب میں جیتا ہے جبکہ ایک حکیم اور مفکر ماضی بعید کی عطا کردہ حکمت میں جیتا ہے جو اسے مستقبل میں جھانکنے کے قابل بنادیتی ہے۔ یہی ایک صحافی اورمفکر کا بنیادی فرق ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں صحافت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے صحافی صرف اور صرف سیاست اور سیاستدانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
جبکہ دور جدید میں سیاست اجتماعی زندگی کا ایک ضمنی حصہ بن چکی ہے، مگر ہمارا صحافی اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ چونکہ سیاست کے میدان میں ہماری ناکامیاں غیر معمولی ہیں، اس لیے وہ انھی ناکامیوں اور مایوسیوں کو قوم تک منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ جوکسی قسم کی رہنمائی نہیں بلکہ سلو پوائزننگ (slow poisoning) کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ آپ اخبارات کے کالم نویسوں کو پڑھ لیجیے یا ٹی وی کے تبصرہ نگاروں کو سن لیجیے۔ وہ آپ کو قوم کے کانوں میں مایوسی کا زہر انڈیلتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ لوگ ایک صحافی اور مفکر کا فرق سمجھیں۔ اخبار کا اور اپنا پیٹ بھرنے والے کالم نویسوں اور سیاسی پروگراموں کے تبصرہ نگاروں کی گفتگو سے متاثر ہونے کے بجائے کسی حکیم اور دانشور کو تلاش کریں۔ یہ لوگ کم ہوتے ہیں، لیکن ایک دو اچھے حکیم قوم کا بیڑہ پار لگانے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ خد اکا قانون ہے کہ کسی معاشرے سے ایسے لوگ ختم نہیں ہوتے۔ بات صرف ان سے رہنمائی لینے کی ہے اور یہ ہمارے کرنے کا کام ہے، نہ کہ ان کے کرنے کا۔
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22226
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: ویلنٹائن ڈے آخر مسئلہ کیا؟
بہت خوب.
میاں جی بہت ہی خوبصورت تحریر شئیر کرنے کا شکریہ.
میاں جی بہت ہی خوبصورت تحریر شئیر کرنے کا شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: ویلنٹائن ڈے آخر مسئلہ کیا؟
بہترین شئیرنگ کی فراہمی پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Re: ویلنٹائن ڈے آخر مسئلہ کیا؟
بہت عمدہ اور نایاب تحریر ہے.
لیکن یہ سب ایک لڑی میں چل رہی ہیں تو اس کا نام بھی تبدیل ہوجانا چاہیے نہ؟
محترم قبلہ ماجد چوہدری صاحب آپ کیا فرماتے ہیں ؟
لیکن یہ سب ایک لڑی میں چل رہی ہیں تو اس کا نام بھی تبدیل ہوجانا چاہیے نہ؟
محترم قبلہ ماجد چوہدری صاحب آپ کیا فرماتے ہیں ؟
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا