پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by اعجازالحسینی »

پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ معروف کالم نگار جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب کے قلم سے ...حصہ اوّل
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے دوست
:::::::::::::::::::
ہاکستان کی فارن پالیسی کے بنیادی پلرز سمجھ لیجئے تاکہ آپ کو مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے۔ اس موضوع کو دو سے تین قسطوں میں انشاء اللہ نمٹانے کی کوشش کرونگا۔
(01) دنیا میں پاکستان کے صرف دو ایسے دوست ملک ہیں جن کے لئے پاکستان برضاء و خوشی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اس کے لئے ان ممالک کا صرف کال کرنا کافی ہے۔ یہ دو ممالک سعودی عرب اور چین ہیں۔
(الف) حجاز مقدس صدیوں سے اپنی پیداوار کے لحاظ صفر تھا نہ اس کی کوئی صنعت تھی اور نہ ہی زراعت نتیجہ یہ کہ غربت بے تحاشا تھی۔ قیام پاکستان تک برصغیر کے نواب، رئیس اور سلاطین اپنی زکوٰۃ و عطیات اہل مکہ و مدینہ پر خرچ کرنے کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے جو حج کے موقع پر بھیجے جاتے تھے اور یہ اس پیمانے پر ہوتے کہ ان کے پورے سال کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔ آگے چل کر جب سعودیہ بنا اور تیل دریافت ہوا تو یہ عرب اپنے پرانے محسنوں کو نہیں بھولے۔ مسلمان ممالک تو وسطی ایشیا اور مشرق بعید میں بھی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو سعودی عرب کی توجہ کا مرکز صرف پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان ہیں۔ بطور ریاست عرب دنیا سے باہر وہ صرف پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھولتے ہیں اور جو مانگا جاتا ہے جتنا مانگا جاتا ہے وہ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اپنی اشد ضرورت کے موقع پر ہی مانگتا ہے۔ جب تک سعودی عرب موجود ہے دنیا کی کوئی معاشی پابندی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور یہ بات امریکہ بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی جو علانیہ مدد آج تک کر رکھی ہے وہ اس کی خفیہ مدد کا بمشکل دس فیصد ہے۔ چونکہ پاکستان کو معاشی تباہی سے بچانے کا ذمہ سعودی عرب اپنے ذمے لے چکا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر زمیں بوس نہیں کیا جا سکتا اس لئے جوابا سعودی عرب کا عسکری دفاع پاکستان اپنے ذمے لے چکا۔ یوں سعودی ہمارا معاشی اور ہم سعودیوں کا عسکری دفاع کرتے ہیں اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ (اس کی مزیدتفصیل اگلی قسط میں ایرانی انقلاب کے پس منظر میں آئیگی)
(ب) جب چین میں انقلاب برپا ہوا تو یہ کمیونسٹ انقلاب تھا اور پوری دنیا منہ میں انگلیاں دیے سکتے کی حالت میں تھی کہ اسے قبول کریں یا رد کریں ؟ اس سکتے میں جدید چین کو تسلیم کرنے والی جو پہلی آواز بلند ہوئی وہ پاکستان کی تھی۔ اس جدید چین کے کسی ایئرپوٹ پر جو پہلی بین الاقوامی پرواز اتری وہ پی آئی اے تھی۔ دنیا نے ہم سے چینوں کے بارے میں رائے مانگنی شروع کی کہ دکھتے کیسے ہیں ؟ سوچتے کیسے ہیں ؟ بولتے کیسے ہیں اور پیش کیسے آتے ہیں ؟ دھیرے دھیرے باقی دنیا بھی انہیں قبول کرنے لگی اور اس میں ہمارے دفتر خارجہ کا کلیدی کردار تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ امریکہ نے اس جدید چین سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی ہمارے ہی پاس آیا کہ پلیز چین سے ہمارا مصافحہ کروایئے نا ! پاکستان نے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کی اور چین سے امریکہ کے تعلقات قائم کروا دیے۔ اس ابتدائی عرصے میں دنیا بھر سے چین کے رشتے استوار کروانے میں پاکستان کردار اتنا بڑا ہے کہ چینی اسے بھلائے نہیں بھولتے۔ چین میں عوامی استقبال صرف ایک ہی بین الاقوامی سربراہ کا ہوا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہیں۔ ایک ایسا استقبال جس میں بیجنگ کی سڑکوں کے اطراف کھڑے چینی عوام ہاتھ میں جھنڈیاں لئے پاک چین دوستی کے نعرے بلند کرتے رہے۔ چین کے لئے پاکستان کی ان خدمات کا جواب چین کی جانب سے یوں دیا گیا کہ نہ صرف اس نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری شروع کی بلکہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے دفاعی پیداوار کے شاندار ادارے بھی کھڑے کردیے۔ آج ہم نہ صرف ٹینک اور بکتر بند بنا رہے ہیں بلکہ چین کی مدد سے ہی عسکری طیارہ سازی کے ساتھ ساتھ نیول شپس بھی بنا رہے ہیں جبکہ میزائل پروگرام میں انکی مدد تو کھلا راز ہےجس سے ہم آلات حرب میں خود کفیل ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں امریکہ جب کسی ملک کو برباد کرنے لگتا ہے تو پہلے اس پر پابندیاں لگاتا ہے اور اسکے بعد اقوام متحدہ کی قرار داد کے سہارے اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ امریکہ یہ حکمت عملی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد لائی گئی تو چین اسے ویٹو کرنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ جس طرح مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکہ کی ناک کا بال ہے اسی طرح جنوبی ایشیا میں پاکستان چین کی ناک کا بال ہے۔
پاکستان آج کل بہت تیزی سے سعودی عرب کے چین سے تعلقات اسی سطح تک لے جانے کے مشن پر کام کر رہا ہے جس سطح کے پاک چین تعلقات ہیں اور ایسا موجودہ سعودی قیادت کی خواہش پر کیا جا رہا ہے کیونکہ انہیں سمجھ آ گیا ہے کہ صرف امریکہ پر انحصار ایک مہلک غلطی تھی۔
عرب ممالک
ـــــــــــــــ
سوویت یونین کے دور میں عالم اسلام بھی دو بلاکوں میں بٹا ہوا تھا۔ انقلاب سے قبل کا ایران تو کیپٹل بلاک میں تھا لیکن انقلاب کے بعد کا ایران کمیونسٹ بلاک میں رہا۔ اسی طرح عراق شام، مصر، لیبیا اور جنوبی یمن بھی کمیونسٹ بلاک میں رہے۔ سعودی عرب، کویت، اردن، عرب امارات اور شمالی یمن کیپٹل بلاک میں رہے۔ پاکستان چونکہ خود بھی کیپٹل بلاک میں رہا اس لئے کیپٹل بلاک کے عرب ممالک سے تو اس کے تعلقات بہت مضبوط رہے لیکن کمیونسٹ بلاک کے ممالک کا معاملہ عجیب تھا۔ صدام حسین کو پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان اچھا لگتا تھا جبکہ دیگر ادوار میں برا۔ وہ سیاست میں پیپلز پارٹی کی مالی مدد تو کرتا تھا لیکن پاکستان میں دہشت گردی کبھی نہیں کروائی البتہ کراچی میں 1984ء میں بننے والی سواد اعظم نامی تنظیم کے پیچھے اسی کا ہاتھ جسے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے ایک سال کے اندر اندر لپیٹ دیا تھا۔ کچھ یہی معاملہ قذافی کا بھی تھا لیکن قذافی نے جنرل ضیاء کے دور میں دہشت گردی کی کوشش بھی کی۔ 80 کی دہائی کا مشہور ہتھوڑا گروپ قذافی ہی کا ڈھکوسلہ تھا۔ مصر کو پاکستان کبھی بھی اچھا نہیں لگا لیکن اس نے کوئی دشمنی بھی نہیں کی۔ پاکستان سے اس کے خار کی بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ جماعت اسلامی ہے جو اخوان المسلمین کی دودھ شریک بہن ہے۔ شام نے پاکستان سے عسکری تعلقات بھی رکھے لیکن تھوڑا فاصلہ بھی رکھا ایک طرف پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی جنگ میں خدمات اور ان سے تربیت بھی حاصل کی دوسری طرف الذوالفقار کی ہائی جیکنگ میں بھی ملوث نظر آیا۔ پاکستان نے ہمیشہ ان عرب ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے رکھنے کی کوشش کی اور کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے کمیونسٹ بلاک کے ممالک کو ناراضگی ہوئی ہو۔
دونوں جانب کے برادر اسلامی ملکوں سے تعلقات استوار رکھنے میں سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے بھی حصہ لیا۔ پہلی جنگ میں پاکستان کے پائلٹ مصر، اردن اور شامی فضائیہ کی طرف سے لڑنے گئے ان میں سے اردن کیپٹل بلاک جبکہ مصر اور شام کمیونسٹ بلاک کے ممالک تھے۔ اس جنگ میں لڑتے ہوئے پاکستانی پائلٹوں نے دس اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی پائلٹ اس کے صرف تین طیارے گرانے میں کامیاب رہے تھے۔ دوسری عرب اسرائیل جنگ میں پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر ان تینوں ملکوں میں پہنچے۔ پاکستانی پائلٹ مصر پہنچے تو مصر جنگ بندی کا اعلان کر چکا تھا البتہ اردن اور شام ابھی حالت جنگ میں تھے۔ ان دونوں ممالک کی جانب سے لڑتے ہوئے پاکستانی پائلٹوں نے پانچ اسرائیلی طیارے گرائے۔ ان میں سے بالخصوص فلائٹ لیفٹنٹ عبد الستار علوی کو شام نے ہیرو ڈیکلیئر کیا اور ایوارڈ سے بھی نوازا۔ جنگ کے اختتام پر شام نے ان پاکستانی پائلٹوں کی خدمات اپنی فضائیہ کی ٹریننگ کے لئے طلب کر لیں جسے پاکستان نے منظور کر لیا یوں یہ پائلٹ 1976ء تک شام میں رہے۔ پاک فضائیہ اور شامی فضائیہ کے تعلقات کا پاکستان کو یہ فائدہ ہواکہ شامی فضائیہ کے پاس رشین طیارے تھے چونکہ انڈین ایئرفورس بھی رشین طیاروں پر مشتمل تھی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ ان طیاروں پر بھی دسترس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس سے ان طیاروں کی تمام خوبیاں اور خامیاں ان کے علم میں آگئیں جو جنگ کے موقع پر کار آمد ہوتیں۔ اس زمانے میں پاکستان واحد ملک تھا جس کی فضائیہ امریکی و فرانسیسی ہی نہیں بلکہ رشین طیاروں کی مہارت سے بھی لیس تھی۔
مجموعی طور پر اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رجحان عرب ممالک کے لئے یکساں احترام کا رہا ہے لیکن ان میں سے صرف سعودی عرب ہے جس نے پاکستان کے ساتھ مخلص سگے بھائی جیسا غیر متزلزل تعلق رکھا ہے جبکہ دیگر عرب ممالک کا رویہ پاکستان سے سوتیلوں بھائیوں جیسا رہا ہے ان میں سے بعض تو برادران یوسف بھی ثابت ہوتے رہے ہیں لیکن پاکستان نے جوابا انہیں سبق سکھانے کی کوشش کبھی نہیں کی بلکہ اس بڑے بھائی کا کردار ادا کیا جو کہدیتا ہے "چلو خیر ہے چھوٹا ہے" ان تمام ممالک سے تعلقات ہر حال میں ٹھیک رکھنے کی کوشش کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے گریٹر اسرائیل کی راہ روکنے کی ذمہ داری پاکستان ہی کو نبھانی ہے اور دفاعی ضرورت کے پیش نظر ان میں سے کسی بھی ملک میں جنگ کے موقع پر جانا پڑ سکتا ہے لھذا ان سے تعلقات اس سطح کے رکھے جائیں کہ ایمرجنسی میں نہ انہیں بلانے میں ہچکچاہٹ ہو اور نہ پاکستان کو جانے میں۔ عربوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ متوازن سماج کی اہمیت سے قطعی نا بلد ہیں۔ علمی و سائنسی ترقی کی دور دور تک کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔ انکے نزدیک انسان کی بنیادی ضرورتیں تین ہیں۔ اچھی شراب، اچھی عورت اور اچھی مسجد۔ اب چونکہ یہ تینوں چیزیں انہیں وافر دستیاب ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ عالم اسلام تاریخ کے ترقی یافتہ ترین دور میں ہے۔ ان کی انہی احمقانہ حرکتوں کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ انہیں رج کے لوٹ رہے ہیں اور اسرائیل خود کو دن بدن گریٹر اسرائیل بنانے کی پوزیشن میں لا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی پیش قدمی روکے رکھنے کے لئے بھی پاکستان ہی کو تدبیریں کرنی پڑتی ہیں۔ نام نہاد امن پسند کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسرائیل گریٹر اسرائیل بنتا ہے تو بنے، ہمیں اس سے کیا غرض ؟ اس پر اگلی قسط میں تفصیل سے روشنی ڈالونگا اور واضح کرونگا کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی میں اس کے چار دشمن ممالک کی فہرست میں اسرائیل نمبر ایک اور بھارت نمبر تین پر کیوں ہے ؟ -----------------------جاری ہے
Last edited by اعجازالحسینی on Wed Apr 01, 2015 3:27 pm, edited 1 time in total.
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by اعجازالحسینی »

پاکستان کے لئے خطرناک ممالک
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
(01) اسرائیل
(02) ایران
(03) بھارت
(04) امریکہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
(01) موجودہ دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جو مذہبی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔ ایک پاکستان دوسرا اسرائیل۔ پاکستان ایک جمہوری، آئینی اور قانونی جد و جہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جبکہ اسرائیل دنیا کے ہر مہذب ضابطے کے مطابق ایک ناجائز ریاست ہے۔ یہ فلسطین کی مقبوضہ زمین ہے جس پر یہ ریاست کھڑی کی گئی۔ یہ قبضہ اسقدر سنگین جرم تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرکے مشرق وسطیٰ کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کردیا تھا اور پاکستان اپنی پوری تاریخ میں اپنے بانی کے اس متعین کردہ رخ پر پورے تسلسل سے چلا آرہا ہے۔ چونکہ اسرائیل مسلسل مسلمانوں کی زمین قبضہ کرتا رہا اور صاف صاف ان عزائم کا اظہار کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی ریاستی حدود کو لگ بھگ پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلائے گا اور چونکہ اسرائیل نے نہرو کے دور میں ہی بھارت سے خفیہ تعلقات قائم کر لئے اور یہ تعلقات عسکری تعاون کے سوا کچھ نہ تھے اس لئے دو باتیں واضح ہوگئی تھیں۔ پہلی یہ کہ چودہ سو سال میں پہلی بار مسلمانوں کے دونوں مقدس ترین مقامات یعنی حرمین شریفین کو سنگین ترین خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور خطرہ بھی ایسا جس کی پشت پناہی کے لئے دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک امریکہ و برطانیہ اپنے تمام سیاسی، معاشی و عسکری وسائل کے ساتھ موجود ہیں۔ اگر پاکستان اس خطرے کے راستے میں کھڑا نہیں ہوتا تو اس کا اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنا ہی ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل نے بھارت سے اپنے تعلقات خفیہ کیوں رکھے ہیں ؟ اور یہ صرف عسکری میدان میں کیوں پیش رفت کر رہے ہیں ؟
اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے وجود کو قائد اعظم اور مہاتما گاندھی دونوں نے ہی مسترد کیا تھا اور گاندھی جی کا موقف بڑا اصولی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی مخالفت کرتے رہے ہیں تو ہم سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ مذہب ہی کے نام پر وجود میں آنے والے اسرائیل کو قبول کر لینگے ؟۔ مگر ہوا یہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد انکے جانشینوں نے تو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی برقرار رکھی لیکن گاندھی جی کے بعد نہرو نے فورا پالیسی بدل کر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور باور یہ کرایا کہ بس تسلیم ہی کیا ہے سفارتی تعلقات ہم نہیں رکھ رہے جبکہ درحقیقت بہت ہی اعلیٰ سطح کے انتہائی خفیہ تعلقات قائم کر لئے گئے تھے اور پہلے ہی دن سے ان تعلقات میں عسکری تعاون سب سے اہم ایجنڈہ تھا۔ اس وقت تک بھارت کی صرف پاکستان سے دشمنی تھی اس چائنا سے ابھی اس کی کوئی بھی ٹسل شروع نہیں ہوئی تھی جو کہ معرض وجود میں ہی 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے ایک سال بعد آیا تھا اور اگر ہم دیکھیں تو آگے چل کر اسرائیل کے چین سے بھی عسکری تعلقات قائم ہوئے جس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کے بھارت سے 1992ء تک چلنے والے خفیہ تعلقات کا تعلق صرف اور صرف پاکستان سے تھا۔ ان دو وجوہات کی بنیاد پر پاکستان نے اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیدیااور طے کر لیا کہ جب بھی اسرائیل خود کو مزید وسعت دینے اور مسلمانوں کی زمین پر بتدریج قبضہ بڑھاتے بڑھاتے خود کو حرمین کے قریب لانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان سفارتی و عسکری دونوں میدانوں میں مزاحمت کے لئے اترے گا۔
چنانچہ آگے چل کر دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں آیا اور کوئی ڈھکا چھپا بھی نہیں آیا بلکہ اپنے اقدام کو دنیا پر واضح کر کے صاف میسج دیدیا کہ اسرائیل جس توسیع کے خواب دیکھ رہا ہے اس کے لئے اسے صرف عربوں سے ہی نہیں پاکستان سے بھی جنگ لڑنی ہوگی۔ اگر پاکستان اسرائیل کے حوالے سے یہ دو ٹوک اور جارحانہ موقف نہ رکھتا تو یقین کیجئے اسرائیل کب کا ان لولی پوپ ٹائم عرب ریاستوں کو ہڑپ کر چکا ہوتا۔ کیا دنیا نے دیکھا نہیں کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے صرف ایک دن میں پوری کی پوری مصری فضائیہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ پاکستان اسرائیل کے حوالے سے کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اس کے وجود اور اسکے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کے حوالے سے پاکستان صرف سفارتی کوشش کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن اگر وہ گریٹر اسرائیل بننے کی غرض سے اپنی موجودہ حدود سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک، کسی دو یا تینوں کو سعودی عرب میں اپنا منتظر پائے گا۔ حرمین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اتنی واضح اور دو ٹوک ہے کہ حالیہ بحران میں پاکستان نے نام لئے بغیر ایران پر بھی واضح کردیا ہے کہ سعودی سرحد اس کے اور پاکستان کے مابین ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے جو بھی اس ریڈ لائن کو عبور کرے گا پاکستان کو اپنے تمام وسائل سمیت سعودی عرب میں موجود پائے گا۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ اللہ نے حرمین کے تحفظ کا کلیدی کردار میرے وطن کے نصیب میں لکھا ہے اور ہماری مسلح افواج نہ صرف ارض وطن بلکہ بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی بھی سب سے مضبوط محافظ ہیں۔ یہ تو قدرت کے فیصلے ہیں ، کبھی ابابیلوں سے یہ ڈیوٹی لے لی جاتی ہے تو کبھی پاکستان آرمی کے نصیب میں یہ ذمہ داری لکھدی جاتی ہے۔ و للہ الحمد

(02) ایران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خطرناک ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کی طرح ایرانی قوم سے پاکستان کو کوئی مسئلہ درپیش ہے یا دونوں ممالک میں کوئی علاقائی تنازعہ ہے جس سے قومی سطح کی کوئی دشمنی چلی آرہی ہے بلکہ بھارت کے برخلاف ایران سے پاکستان کو درپیش خطرات کا تعلق انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنے والے مذہبی عناصر سے ہے۔ اگر آپ ایران کے انقلابیوں کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو پچھلے پینتیس سال کے دوران ان کی یہ پالیسی پورے تسلسل سے چلی آرہی ہے کہ اپنا انقلاب صرف ایران تک نہ رکھا جائے بلکہ اسے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ جائز ناجائز ہر طرح کے حربے آزمانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروانا، عدم استحکام پیدا کئے رکھنااور اس کے نتیجے میں بغاوت کرانا اس رجیم کی اہم ترین حکمت عملی ہے۔ اس مقصد کے لئے پڑوسی ممالک میں واقع اپنے ثقافتی مراکز (خانہ فرہنگ) میں ورکشاپس کرائی جاتی ہیں جو بظاہر فارسی زبان کی ترویج اور تہذیبی، ثقافتی اور تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ان کے شرکاء میں سے ہی کام کے بندے چن لئے جاتے ہیں اور انہیں زائرین کی شکل میں ایران لے جایا جاتا ہے جہاں پاسداران انقلاب انہیں عسکری تربیت فراہم کرتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پینتیس برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو ایران میں عسکری تربیت دی گئی ہے۔
پاکستان کے چار علاقے ایسے ہیں جہاں سے نہ صرف بڑی تعداد میں ریکروٹمنٹ کی گئی ہے بلکہ ان علاقوں کو بارود کا ڈھیر بھی بنا دیا گیا ہے۔ ان میں گلگت، پاڑہ چنار، کویٹہ اور کراچی شامل ہیں۔ پاکستان میں ایرانی مفادات کا پہلا نگہبان علامہ عارف حسین الحسینی تھا جس نے پاڑہ چنار کو دہشت گردی کے اہم مرکز میں تبدیل کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف پاڑہ چنار میں ایک بے رحم خفیہ فوجی آپریشن کروایا بلکہ عارف حسینی بھی نہ رہا۔ ایران کی جانب سے 80 کی دہائی میں نہ صرف یہ کہ اسلام آباد پر قبضے کے لئے پارلیمنٹ اور پاک سیکریٹیریٹ کا محاصرہ کیا گیا بلکہ کوئٹہ میں 6 جولائی 1986ء کو بدترین قتل عام بھی کیا گیا جس میں شہر کو لوٹا بھی گیا۔ اس واقعے میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بڑی تعداد میں پاسداران انقلاب کے اہلکار گرفتار کئے جنہیں ایران سے مذاکرات کے بعد اس کے حوالے کیا گیا ۔ خود ایرانی مؤرخین نے عارف حسین الحسینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے امام خمینی کا مشن عام کرنے کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ عارف حسینی کے بعد یہ ذمہ داریاں علامہ ساجد نقوی کو سونپی گئیں جو ریکروٹمنٹ تو کراتے رہے لیکن پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ کرانے میں ناکام رہے۔ چنانچہ ان سے مایوس ہوکر اب پاکستان میں یہ ذمہ داریاں امین شھیدی اور اس کی مجلس وحدت المسلمین کو سونپی گئی ہیں۔
اگر آپ امین شھیدی کی پھرتیاں دیکھیں تو آپ کو اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آئیگی کہ وہ کچھ بڑا "ڈیلیور" کرنے کو کسقدر بے قرار ہیں۔ امین شھیدی کے چارج سنبھالنے کے بعد دو چیزوں میں تیزی آئی۔ ایک یہ کہ کوئٹہ میں ہزارہ آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگی اور دوسری یہ کہ اٹھارہ سے تیس سال کے زائرین کا ایران آنا جانا یکایک بہت بڑھ گیا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران افغانستان اور ایران سے کوئٹہ لا کر بسائے جانے والے ہزارہ قوم کے افراد کی تعداد اکیس ہزار بتائی جاتی ہے جنہیں نادرہ کے جعلی آئی ڈی کارڈ زفراہم کرکے پاکستانی شہری بنایا جا چکا۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے ان چیلنجز سے پوری دانشمندی سے نمٹ رہے ہیں لیکن اپنی سر زمین پر اور یہ نمٹنا اسقدر مؤثر ہے کہ اب ایران نے باقاعدہ تلملانا بھی شروع کردیا ہے۔ وہ نہ صرف پاک ایران باڈر پر ایف سی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل ایران میں اغوا ہونے والے اپنے فوجیوں کے اغوا میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کر چکا حالانکہ اغوا کار پاکستان سے سینکڑوں کلومیٹر دور اافغان باڈر کے قریب ایران میں ہی موجود تھے اور ایران نے اغوا کاروں کے ساٹھ قیدیوں کے بدلے میں اپنے فوجی چھڑائے تھے۔ حالیہ عرصے میں اگر آپ گزشتہ برس کراچی آپریشن کے دوران اسے لیڈ کرنے والے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کی پریس کانفرنس دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کراچی کی ٹارگٹ کلنگز میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ براہ راست ایران بھی ملوث ہے۔ شاہد حیات نے اپنی پریس کانفرنس میں ایران کا نام لے کر تفصیل بتائی تھی۔
پاکستان کے حوالے ایران کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی نوے فیصد شیعہ آبادی اس کے ایجنڈے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی اور اپنے وطن کی سلامتی کے لئے پر عزم ہے۔ چانچہ اگر آپ غور کریں تو محرم یا دیگر تاریخوں کی مذہبی ایکٹوٹیز میں تو پاکستان کے لاکھوں شیعہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں لیکن جب امین شھیدی جیسے لوگ دھرنے کی کال دیتے ہیں تو انہیں بس اتنے ہی لوگ میسر آتے ہیں کہ چار بانسوں والا ایک شامیانہ انکے لئے کافی ہوتا ہے۔ یاد رکھئے ایرانی انقلاب سے قبل پاکستان میں کوئی شیعہ سنی جھگڑہ نہ تھا اس جھگڑے اور "مسلح فرقہ واریت" کی بنیاد ایران نے ڈالی ہے اور ایران میں جب تک موجودہ رجیم ہے تب تک یہ "مسلح فرقہ واریت" ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ ایران امریکہ سے دوستی کے بعد پڑوسی ممالک میں بغاوتیں کرانے کی کوششوں میں بے پناہ تیزی لاچکا ہے۔ یاد رکھئے کہ ایران اور اسرائیل دشمن ممالک ہرگز نہیں ہیں انکے بابین ہونے والی ہوائی فائرنگ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ایران عراق جنگ کے دوران ایران اسرائیل سے اینٹی ٹینک میزائیل تک خریدتا رہا ہے جسکی ڈیلیوری 1985ء میں شروع ہوئی اور آخری شپمنٹ 1986ء میں تبریز ایئربیس پر اتری۔ اپنا انقلاب عسکری بنیادوں پر پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی سرتوڑ کوششوں، پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین واقعات میں مسلسل ملوث ہونے اور پاکستان میں بغاوت کی تین ناکام کوششوں کے سبب پاکستان کی خارجہ و ڈیفنس پالیسی میں ایران کو دوسرے بڑے چیلنج کے طور پر رکھا گیا ہے۔(جاری ہے)
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by محمد شعیب »

فاروقی صاحب خود جہاد افغانستان میں شریک ہو چکے ہیں اور فیس بک پر بہترین لکھنے والوں میں سے ایک ہیں.
شئرنگ کا شکریہ
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by اعجازالحسینی »

پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ -- معروف کالم نگار جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب کے قلم سے

پاکستان کے لئے خطرناک ممالک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
(03) بھارت پاکستان کے دشمن ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کھلا ڈلا دشمن ہے جس کی ناک کے بال کھینچ کھینچ کر ہم اسے پاگل کر سکتے ہیں لیکن یہ گیدڑ بھپکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر بڑھ بھی جائے تو اس کی دشمنی پر پاکستان میں مکمل قومی اتفاق رائے موجود ہے اور اس کی طبیعت صاف کرنے کے لئے ہمارے پاس ہر طرح کے کیل کانٹے موجود ہیں۔ اس کے برخلاف اسرائیل ایک ایسا دشمن ہے جو خود ایک ایٹمی طاقت بھی ہے اور پاکستان کے دشمن نمبر دو سے اس کے خفیہ تعلقات بھی قائم ہیں۔ دشمن نمبر تین کے اس سے چالیس سال تک خفیہ اور اب پچھلے 23 سال سے ایسے کھلے تعلقات ہیں جن کا ہدف پاکستان ہی ہے اور دشمن نمبر چار یعنی امریکہ تو اسکا باپ تایا چاچا اور ماماسب کچھ ہے اسی لئے وہ پاکستان کا سب سے خطرناک دشمن ہے اور پہلے نمبر پر موجود ہے۔ ایران دوسرے نمبر پر اس لئے ہے کہ وہ آستین کا ایسا سانپ ہے جو کھل کر سامنے نہیں آتا ۔ وہ کمر میں چھرا گھونپنے کی پالیسی رکھنے والا ایسا ملک ہے جسے پاکستان کے اندر سے بہت بڑی تعداد میں ایجنٹ دستیاب ہیں اور جسے دشمن ڈیکلیئر کرنے کی صورت میں بھارت جیسا قومی اتفاق رائے نہیں بن سکتا کیونکہ ایران ایک مثبت ذہن رکھنے والے پاکستانی شیعہ کے لئے بھی قابل احترام مقام ہے جو قابل فہم بات ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل موسیٰ خان 65ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف تھے۔ انہوں نے پوری دلیری سے اس جنگ میں آرمی کی کمانڈ کی، بعد میں گونر بلوچستان بھی رھے، اپنی کتاب اور الطاف حسن قریشی کو دیئے گئے انٹرویو میں 65ء کی جنگ میں آرمی میں موجود قادیانی افسران کی سازشوں کو بے نقاب بھی کیا۔ خلاصہ یہ کہ وہ ایک سچے کھرے پاکستانی تھے لیکن دفن ہونا انہوں نے ایران میں پسند کیا کیونکہ بطور شیعہ ایران انکے لئے ایک قابل احترام مقام تھا۔ ان کا وہاں دفن ہونا باالکل اسی طرح قابل فہم ہے جس طرح باچا خان کا جلال آباد میں دفن ہونا۔
بھارت کے حوالے سے آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ اس لئے اس میں زیادہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں البتہ دو تین ایسے پہلوؤں کی جانب متوجہ کرنا چاہونگا جو اہم ہیں۔ بھارت سے ہماری دشمنی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ دو قومی نظریے میں ہندو ایک حریف ڈیکلیئر ہوا قائد اعظم کا یہ کہنا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے یہ ہندوؤں کی عزت نفس مجروح کر گیا ہے جس کا غصہ مٹ نہیں رہا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک محفل میں بیٹھے ہوں اور ایک صاحب سب کے سامنے کہدیں کہ میں ان کے ساتھ صوفے پر نہیں بیٹھونگا، مجھے کوئی الگ نشست دی جائے، ظاہر ہے آپ تذلیل ہی محسوس کرینگے۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر پر ہمارا ان سے دیرینہ تنازعہ ہے۔ تمامتر تلخیوں کے باوجود دونوں جانب اس بات کا ادراک ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے سبب دونوں ملکوں کے عوام کا ایک دوسرے سے کٹے رہنا ممکن ہی نہیں۔ مثلا پہلی یہ کہ پاکستان میں لگ بھگ ایک کروڑ ایسے مہاجر ہیں جن کے خاندانوں کا ایک بڑا حصہ آج بھی انڈیا میں آباد ہے۔ یہ خونی رشتے ہیں جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتے، دونوں جانب کے ان خاندانوں کا دونوں ممالک میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ دوسری یہ کہ سکھ مذہب کے گیارہ مقدس مقامات پاکستان میں واقع ہیں، اپنی مذہبی رسومات کے لئے نہ صرف بھارت سے بلکہ دنیا بھر سے سکھوں کو پاکستان آنا ہی آنا ہے۔ تیسری یہ بریلوی مکتبہ فکر کا مرکز انڈیا میں ہے ایک راسخ العقیدہ بریلوی اس مقام پر جانا اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔ چوتھی یہ کہ دیوبندی مکتبہ فکر کا مرکز بھی انڈیا ہی میں ہے، ہر راسخ العقیدہ دیوبندی دارالعلوم دیوبند دیکھنا چاہتا ہے۔ پانچویں یہ کہ برصغیر میں ماڈرن ایجوکیشن کی جنم بھومی علی گڑھ یونیورسٹی بھی انڈیا میں ہے جو مسلمانوں کے لئے ایک علمی استعارے کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے قریب سے دیکھنے کا شوق بھی ہر طرف موجود ہے۔ چھٹی یہ کہ سندھ میں ہندوؤں کی بہت نمایاں آبادی ہے جو اپنی مذہبی رسومات کے لئے بھارت جائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یہ چھ انسانی قدریں دونوں ہی ممالک کے لئے ایک ایسا پریشر بنائے رکھتی ہیں جس کے تحت یہ خواہش دونوں ہی جانب پائی جاتی ہے کہ یہ دشمنی ختم ہو اور لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت شروع ہو لیکن دونوں ہی ممالک کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ بھارت اس لئے کہ اسے پاکستان پر سٹریٹیجک بالادستی حاصل ہی کشمیر کے ذریعے ہے جبکہ پاکستان اس لئے کہ ایک تو وہ پاکستان کی شہ رگ ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ لاکھوں کشمیری پاکستان کے روحانی شہری ہیں۔ وہ آج بھی پاکستان کا پرچم پہلے عقیدت سے چومتے اور پھر لہراتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ اس سزا سے گزر لیتے ہیں اور سزا ہی کیا جان سے بھی گزر جاتے ہیں لیکن پاکستان سے اپنی وابستگی کسی صورت نہیں چھوڑتے۔ 68 سال کی ان قربانیوں اور محبتوں کو پاکستان کیسے نظر انداز کر سکتا ہے ؟ مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ہی ممالک دوستی چاہتے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل ہونا نہایت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اس مسئلے کو نظر انداز کرکے کوئی حل نکالا جائے اور وہ نظر انداز اس لئے کروانا چاہتا ہے تاکہ اس کا ناجائز قبضہ برقرار رہ سکے اور یہ پاکستان کسی صورت قبول کر نہیں سکتا۔
نواز شریف کے حالیہ دور میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا جو عظیم الشان منصوبہ شروع ہوا ہے اس کے پورا ہونے پر نہ صرف چائنہ کی ساری دنیا سے ایکسپورٹس اور امپورٹس اس روٹ سے شروع ہو جائینگی جس سے چائنہ کو سالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ہوگی بلکہ پاکستان کے لئے بھی معاشی ترقی کے لامتناہی امکانات پیدا ہو جائینگے۔ اور یہ صرف اس ایک روٹ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ افغانستان کا امن ہر حال میں یقینی بنا کر وسطی ایشیا کو بھی اس روٹ سے جوڑ دیا جائے گا جہاں جانے کے لئے بھارت پوری طرح بیقرار ہے۔ یہ روٹ جوں جوں تکمیل تک پہنچے گا بھارتی صنعتکاروں کا دباؤ اپنی حکومت پر اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن آے گا کہ بھارت کو لامتناہی تجارتی مفادات اور کشمیر میں سے کسی ایک کو چننے کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ اس پروجیکٹ کی اس بے پناہ اہمیت کے سبب امریکہ، بھارت اور ایران تینوں ہی اس کے دشمن ہیں۔ اسے پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر پاکستانی کو نہ صرف اس کی کامیابی کے لئے دعاء گو رہنا ہوگا بلکہ آنکھیں بھی کھلی رکھنی ہونگی۔ آپ دیکھ چکے کہ چائنیز صدر کا دورہ پاکستان دوبار ناکام بنایا جاچکا اور ایسا ان لوگوں کے ذریعے کروایا گیا جو ہماری اپنی ہی صفوں میں موجود ہیں۔ اب بالآخر آٹھ اپریل کو چائنیز صدر پاکستان آ رہے ہیں جو پاک چاائنا ریلیشنز کی تاریخ کا سب سے اہم ترین دورہ ہے۔ اللہ پاکستان کو سرخرو اور کامیاب کرے۔ آمین

(04) پاکستان کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں امریکہ چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات ابتدائی دور میں اس درجے کے دوستانہ تھے کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ اور اعلیٰ حکام سمیت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اپنی استقبالیہ تقریر میں صدر کینیڈی نے کہا کہ ایوب خان کا استقبال میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ قافلہ ائیر پورٹ سے نکلا تو منزل مقصود تک سڑک کے دونوں جانب ہزاروں امریکیوں نے تالیوں اور استقبالی کلمات سے ایوب خان کا عوامی استقبال کیا جو صدر کینیڈی کے ساتھ کھلی چھت والی لیموزین میں سوار تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک ایسا استقبال تھا جو کسی عظیم طاقت والے ملک کے سربراہ کا ہی ہوسکتا تھا حالانکہ تب پاکستان کی کل عمر ہی 14 سال تھی اور وہ کسی اینگل سے بھی ایک عظیم طاقت نہیں تھا۔ اس استقبال کی بنیادی وجہ یہ تھی خطے میں افغانستان اور بھارت سوویت یونین کے اتحادی تھے جبکہ کمیونسٹ چین بھی وجود میں آچکا تھا۔ ایران کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جو امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر تھا۔ مگر 1967ء میں اسرائیل نے عرب دنیا سے جنگ چھیڑ ی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ عربوں کی مدد کو جا پہنچے۔ یہ وہ موقع تھا جب امریکہ تلملا کر رہ گیا اور اسے یہ اندازہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے لاڈلے منے کو تو اس کے اس سٹریٹیجک پارٹنر سے خطرات لاحق ہیں۔ یوں دوستی ایک خفیہ دشمنی میں بدل گئی اور پاکستان کو کمزور کرنا اس کی اہم ضرورت بن گیا کیونکہ طاقتور پاکستان اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ ہوتا۔
چنانچہ جلد ہی ہم نے دیکھا کہ بھارت اور سوویت یونین نے جب مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ملٹری مہم شروع کی تو پاکستان امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ امریکہ نے بھارت اور سوویت یونین کو یہ کھلا راستہ اسی لئے دیا تاکہ حجم کے لحاظ سے پاکستان کم ہو سکے۔ اس جنگ میں آدھا ملک ہاتھ سے گیا، پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ فوجی سربراہ برطرف کردیے گئے۔ یوں گویا عسکری لحاظ سے پاکستان شرمناک ہی نہیں بدترین دور میں بھی کھڑا ہو گیا۔ اب پاکستان کو مستقل کمزور رکھنا اور اسرائیل کو طاقتور سے طاقتور بنانا امریکہ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل نظر آتا تھالیکن یہ کیا ؟ ملک ٹوٹنے کے صرف دو سال بعد پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ میں ؟ تو گویا ملک ضرور ٹوٹا ہے لیکن حوصلے نہیں ٹوٹے۔ اب قدرت کا کھیل دیکھئے کہ اِدھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنی شروع کی اُدھر سوویت یونین افغانستان میں فوج اتار کر کمزور پاکستان کی جانب لپکنے کی تیاری میں لگ گیا۔ بھٹو ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ کی نظر میں دشمن قرار پا گئے اور حل یہ سوچ لیا گیا کہ انہیں ملٹری کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو یہ ایٹمی پروگرام رک جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ نہایت ذہین مگر جذباتی بھٹو کی جگہ نہایت شاطر مگر مسکین دکھنے والا جنرل ضیاء اقتدار میں آگیا۔ جس نے سوویت خطرے سے ڈرا ڈرا کر نہ صرف امریکہ سے کنوینشنل وار فیئر کے ہتھیار لینے شروع کردئے بلکہ اسی خطرے کی آڑ لیتے ہوئے امریکی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 1984ء میں پاکستان کو ایٹمی ملک بھی بنا دیا۔ چنانچہ 1991ء میں امریکہ جیسے ہی سوویت جھنجٹ سے آزاد ہوا اس نے پاکستان پر پابندیاں لگا کر ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے مطالبے شروع کردئے جو نہ فوج نے مانے نہ ہی نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے۔
نائن الیون ہوا تو امریکہ کے لئے یہ ایک سنہری موقع بن گیا کہ وہ بقدم خود پاکستان کے باڈر پر آکر بیٹھ جائے اور وہ آیا۔ جو عقل کے اندھے یہ سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اس کے چھ سو ساتھیوں کے خلاف امریکہ نے ایک لاکھ پچیس ہزار فوج افغانستان میں اتاری تھی انکی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان کی ایٹمی قوت ختم کرنے کی غرض سے ہی یہاں آیا تھا۔ یہ سوال آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ پھر اس نے ایسا کیا کیوں نہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان ایک سو سات ایٹمی ہتھیاروں والا ملک ہے مگر انکے تحفظ کے لئے ایسا شاندار میکنزم بنایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی ایسا سول یا فوجی شخص نہیں ہے بشمول آرمی چیف کے جو تمام ہتھیاروں کے مقام سے واقف ہو کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں ؟ اگر امریکہ ملٹری آپریشن کے ذریعے اٹھانا بھی چاہے تو تمام دانے کسی صورت نہیں اٹھا سکتا۔ پاکستان کی اس حکمت عملی کے پیچھے یہ سوچ موجود ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر بھی کوئی غدار پیدا ہو جائے تو وہ بھی فقط چند ہتھیاروں کا درست مقام بتا سکے۔ تو جب خفیہ فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے یقینی طور پر غیر مسلح کرنا ممکن ہی نہیں تو اس کا فائدہ ؟۔ ان حالات میں امریکہ کے لئے واحد آپشن یہی تھی کہ ملک کو اندر سے سیاسی وعسکری طور پر اتنے زخم لگائے جائیں کہ یہ بکھر کر رہ جائے اور اس میں خانہ جنگی کی ایسی کیفیت بنادی جائے جس سے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا ملک پر کنٹرول ختم ہو جائے اور جسے جواز بنا کر یہاں اقوام متحدہ کی فوج اتاری جائے اور خوب تسلی سے سارے "دانے" ڈھونڈ لئے جائیں۔ چنانچہ ایک طرف ٹی ٹی پی کھڑی کی گئی جسے یہ ہدف دیا گیا کہ تم اس ملک کو عسکری زخم لگاؤ اور دوسری طرف صحافیوں اور دانشوروں کو خریدا گیا جنہیں یہ ہدف دیا گیا کہ تم عوام کا اعتماد تباہ کرو اور انہیں فوج سے بدظن کرو۔ دونوں ہی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن جس ملک نے حرمین کے تحفظ کی ذمہ داری کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو اس کے تحفظ کے لئے اللہ ہی کافی تھا۔ نتیجہ یہ کہ امریکہ اپنے زخم چاٹتا ہوا انخلا کر رہا ہے اور پاکستان اپنے اندرونی دشمنوں کو چن چن کر مار رہا ہے اور میری یہ بات یاد رکھیں کہ بچینگے وہ دانشور اور صحافی بھی نہیں جو گزشتہ دس سال کے دوران سی ڈی 70 موٹر سائیکل سے ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑیوں تک پہنچ گئے ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ 5000 سے بیس ہزار تک کی تک کی تنخواہ پانے والا ورکنگ جرنلسٹ صرف دس سال میں کروڑوں اور اربوں روپے کا مالک کیسے بن سکتا ہے ؟۔
الحمدللہ اب پاکستان اپنے مستقبل کے منصوبوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور ان منصوبوں میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور اتنا عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان کا مقدر بدل کر رکھدیگا جبکہ دوسری طرف عرب کہہ رہے ہیں کہ ہم سے بلینک چیک لے لو لیکن ہمارا دفاع مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کردو۔ 6 عرب ملک پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھولنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ترکی طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ شراکت ڈیزائن کر رہا ہے۔ چائنا پینتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہےجس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ اصل فگر نہیں ہے، حقیقی فگر اس سے کہیں بڑا ہے۔ ان حالات میں یہ دو ٹکے کے دانشور جو آپ کو تلملاتے نظر آرہے ہیں یہ وہ بھاڑے کی فکری فوج ہے جو آپ کا اعتماد قائم نہیں ہونے دیتی اور آپ کو ہر وقت شکوک و شبہات میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر یکسو نہ ہوسکے۔ آپ کے اسی ذہنی انتشار کا فائدہ اٹھا کر دھرنوں اور مارچوں کا بازار گرم کر کے ترکی، چائنا اور سعودی عرب کی مدد سے شروع ہونے والے ترقی کے سفر کو آغاز میں ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ امریکی مفادات کے لئے استعمال ہونا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ آپ کی آنکھیں کھلی ہیں کہ نہیں ؟ آپ کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ نہیں ؟۔ ترقی کا یہ سفر پندرہ سے بیس سال کا ہے جس میں کئی حکومتیں آئینگی اور جائینگی۔ میری رائے یہ ہے کہ جو بھی حکومت آئے، جس کی بھی آئے اسے کام کرنے دیں اسے کمزور مت کریں کیونکہ اب آپ حکومتوں کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو کمزور کر رہے ہونگے۔ میں اور آپ ایک کمزور اور زخمی پاکستان میں جئے۔ کیا اپنی اولاد کو بھی کمزور اور زخمی پاکستان دینا ہے ؟
جنوبی ایشیائی ممالک
ــــــــــــــــــــــــ
جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ ہماری فل ٹائم جبکہ بنگلہ دیش سے پارٹ ٹائم دشمنی چل رہی ہے اور وہ پارٹ ٹائم دشمنی بھی ہماری جانب سے نہیں ہے۔ دیگر ممالک میں سری لنکا سے مضبوط اور گہری دوستی ہے جبکہ باقی ممالک سےنارمل دوستانہ مراسم ہیں۔ بھارت کا ذکر گزر چکا دیگر ممالک میں بنگلہ دیش اور سری لنکا قابل توجہ ہیں۔
بنگلہ دیش
ـــــــــــــــــ
بنگلہ دیش کو چند سطروں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ملک نے بھارت کی سرپرستی میں ہم سے آزادی حاصل کی ہے اور اس آزادی کی محرک جماعت "عوامی لیگ" تھی جو آج بھی ہمیں نفرت ہی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ حسینہ واجد کا خیال ہے کہ اسکےوالد شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل میں بھی ہمارا ہاتھ ہے۔ چنانچہ جب بھی عوامی لیگ برسر اقتدار آتی ہے بنگلہ دیش پاکستان کو کڑوی کسیلی سنانی شروع کردیتا ہے اور دوستی کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہوجاتا ہے۔ پاکستان سے آزادی بنگلہ دیشی عوام کا متفقہ فیصلہ نہ تھا بلکہ اس کی مسلم آبادی کی اکثریت پاکستان ہی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ بنگلہ دیش کے ایسے لوگوں کی ترجمان سیاسی جماعت بیگم خالدہ ضیاء کی "بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی" ہےچنانچہ جب بھی یہ جماعت برسر اقتدار آتی ہے بنگلہ دیش کا دوستانہ جھکاؤ پاکستان کی جانب ہوجاتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی اسی پس منظر میں ہمیشہ بیگم خالدہ ضیاء کے قریب اور حسینہ واجد کی حریف رہی ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش تعلقات کی نوعیت سمجھنے کا یہ آسان پیمانہ ہے کہ بس آپ یہ دیکھا کیجئے کہ ان دونوں میں سے برسر اقتدار کونسی جماعت ہے۔
سری لنکا
ــــــــــ
سری لنکا سے ہمارے سٹریٹیجک نوعیت کے تعلقات کا آغاز جنرل ضیاء کے دور میں ہوا۔ بھارت سری لنکا میں 70 کی دہائی کے آخر میں تامل علیحدگی پسند تحریک کی بنیاد ڈال چکا تھا جو 1984ء میں باقاعدہ عسکری شکل اختیار کر گئی۔ بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ اس تنظیم کے ذریعے سری لنکا کو کمزور کرکے وہاں فوج اتاری جائے اور خود کو "مہا بھارت" بنانے کا ایک اہم سنگ میل عبور کیا جائے۔ اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے لئے جنرل ضیاء نے سری لنکا کو دفاعی شعبے میں تعاون کی پیش کردی جو اُس پورے عرصے میں فوجی تربیت تک رہا۔ جب تامل تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو پاکستان نے اپنا ایمونیشن بھی سری لنکا کو بیچنا شروع کردیا۔ سری لنکن گورنمنٹ کوبلیک میل کرکے قیام امن کے نام پر بھارت نے 1987ء میں سری لنکا میں اپنی فوج اتاری تو سری لنکا نے پاکستان کی خفیہ مدد سے اسے تگنی کا ناچ نچادیا۔ نہ صرف یہ کہ راجیو گاندھی کو سری لنکن ایوان صدر میں گارڈ آف آنر زکے دوران ایک سری لنکن فوجی نے اپنی رائفل دے ماری جس سے اس کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ ملٹری آپریشن کے دوران بھی بھارت کو ایسی عسکری و سیاسی مار پڑی کہ وہ رسوا ہو کر سری لنکا سے اس حالت میں نکلا کہ علیحدگی پسند تنظیم تامل ٹائیگرز کو بھی اپنا دشمن بنا گیا اور بالآخر تامل ٹائیگرز نے ہی راجیو گاندھی کو قتل بھی کردیایوں سارا کھیل الٹا بھارت کے گلے پڑ گیا۔ نوے کی دہائی میں سری لنکا ایک حد تک تامل ٹائیگرز کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا اور اپنے فساد زدہ شمالی صوبے کے دارالحکومت جافنا کو تامل ٹائیگرز سے چھڑا لیا تھا لیکن 2000ء میں انہوں نے پھر قوت پکڑنی شروع کردی اور جافنا کو ایک بار پھر شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ اس موقع پر جنرل مشرف نے فوری طور پر سری لنکا کو بھاری ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردی جس سے سری لنکن فوج اس خطرے سے نمٹنے کی پوزیشن میں آتی چلی گئی۔
اس عرصے میں سری لنکا نے پاکستان سے اسلحے کی خریداری تیز کردی 2007ء تک سری لنکا نے پاکستان سے 50 ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا ۔ جب تامل ٹائیگرز کو اندازہ ہوا کہ پاکستان ان کی کمر توڑنے کے لئے سری لنکا کی بڑے پیمانے پر مدد کر رہا ہے تو انہوں نے 2006ء میں سری لنکا میں تعینات پاکستانی سفیر بشیر ولی محمد پر خود کش حملہ کردیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن سات افراد مارے گئے، اس حملے کے باوجود پاکستان نے تعاون روکا نہیں بلکہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے 2009ء میں150 ملین ڈالر کا اسلحہ سری لنکا کو فراہم کیا۔ راوی کہتا ہے بلکہ فرماتا ہے کہ 2009ء کی بالکل ابتدا میں بھارت پر اچانک انکشاف ہوا کہ اس بار پاکستان سے صرف اسلحہ سری لنکا نہیں آ یا بلکہ ہوش اڑانے والے بھی آئے ہیں چنانچہ پاکستان اور سری لنکا دونوں کے ہوش اڑانے کا منصوبہ ترتیب دیدیا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر قتل کروانے کی کوشش کردی گئی جو اللہ کے فضل و کرم سے ناکام رہی۔ اگر یہ ٹیم یہاں قتل ہوجاتی تو سری لنکن عوام کے دلوں میں پاکستان سے ایسی نفرت بیٹھ جاتی جو شائد کبھی نہ نکلتی۔ سری لنکن گورنمنٹ کو بخوبی اندازہ تھا کہ لاہور میں درحقیقت کیا ہو ا اور کس نے کیا اسی لئےاس نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور جلد بقیہ میچز عرب امارات میں کروا کر بھارت کو انگوٹھا دکھا دیا۔ بالآخر مئی 2009ء میں تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوا اور 19 مئی کو بدنام زمانہ دہشت گرد "پربھاکرن" مارا گیا جو تامل ٹائیگرز کا سربراہ تھااورصرف وہی نہیں مارا گیا بلکہ پوری دہشت گرد تنظیم کا جڑ سے صفایا کردیا گیا جس سے یہ تیس سالہ دہشت گردی اپنے انجام کو پہنچی۔فوجی آپریشن کے اختتام پر سری لنکا کے ڈپٹی وزیر خارجہ حسین احمد بھائلہ کا یہ بیان عالمی توجہ حاصل کر گیا۔
"سری لنکا کی حکومت اور اس کے عوام پاکستان کو اپنا وہ حقیقی دوست سمجھتے ہیں جس کی ہمیں جب بھی ضرورت پڑی وہ ہمارے ساتھ کھڑا نظر آیا"
اس بیان کے ذریعے گویا سری لنکن حکومت نے تصدیق کردی کہ تامل ٹائیگرز کے خاتمے کا اصل ہیرو کون ہے۔28 مئی 2009ء کو بھارتی اخبار "دی انڈین ایکسپریس" نے صاف صاف لکھ بھی دیا کہ یہ پاکستان آرمی کا کارنامہ ہے اور تامل ٹائیگرز کے خاتمے میں الخالد ٹینک اور پاک فضائیہ کے پائلٹوں کا مرکزی کردار ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان کی عسکری درسگاہوں میں سری لنکن آرمی افسران کی شروع ہونے والی تربیت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سری لنکن آرمی کی ہائی کمانڈ میں شائد ہی کوئی افسر ایسا ہو جس نے پاکستان سے عسکری کورس نہ کئے ہوں حتیٰ کہ سری لنکن فوج میں فیلڈ مارشل کے رینک تک پہنچنے والے واحد آرمی چیف Sarath Fonseka بھی پاکستان کے تربیت یافتہ ہیں جو تامل ٹائیگرز کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے موقع پر فوج کے سربراہ تھے۔ تربیت کا یہ سلسلہ اب آگے بڑھ کر جاسوسی کے شعبے میں بھی شروع ہوگیا ہے اور پاکستان سری لنکا کے لئے ایک تگڑی انٹیلی جنس ایجنسی کھڑی کرنے جا رہا ہے۔ ملٹری ہارڈوئیر کی خریداری الخالد ٹینکوں اور لڑاکا طیارے جے ایف 17 تھنڈر کے سودوں تک جا پہنچی ہے دوسری طرف چین نے بھی سری لنکا سے فوجی تعاون شروع کردیا ہے جس میں سب سے اہم اس ہائی ٹیک نیول بیس کی تعمیر ہے جس نے بھارت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں یوں جنوبی ایشیا میں پاکستان اور چین کو بھارت کے جنوب مشرق میں ایک ایسا قابل اعتماد سٹریٹیجک پارٹنر میسر آگیا ہے جس کی مضبوطی بھارت کو اپنی حد میں رکھنے کے کام آئے گی۔ اس قسط کے اختتام پر میرے لبوں پر ایک بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی ہے جس کا سبب یہ خیال ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کی کوششوں پر چخ چخ کرنے والی موم بتی مافیا پر یہ قسط پڑھ کر کیا گزرے گی ؟ سو تسلی کے یہ دو جملے ہی کہہ سکتا ہوں کہ بھائی لوگ ! اب ٹینشن کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم افغانستان میں جھانکتے رہ گئے اور دور بہت دور جنوب مشرق میں پاکستان میچ جیت کر فارغ بھی ہو گیا
(جاری ہے)
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by اعجازالحسینی »

پاک افغان تعلقات۔ حصہ اول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ ایشو ہے۔ یہ اسقدر تفصیلی ہے کہ کم سے کم بھی چار سے پانچ قسطیں چاہتا ہے لیکن میں پوری کوشش کرونگا کہ اسے دو قسطوں میں سمیٹ لوں۔ اس ایشو کو پانچ نکات کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔
(01) افغانستان صدیوں سے ایک ایسے آزاد ملک کی حیثیت سے چلا آرہا تھا جس پر انیسویں صدی میں برطانیہ نے قبضے کی سرتوڑ کوششیں کیں لیکن عبرتناک مار کھا کر وہاں سے نکلا۔ البتہ اس کے کچھ علاقے (تقریبا پورا موجودہ خیبر پختون خواہ) برطانیہ کے قبضے میں رہ گیا۔ جسے افغانستان سے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے الگ کیا گیا۔
(02) افغانستان کے رشیا کے ساتھ سفارتی تعلقات 1919ء میں قائم ہوئے۔
(03) تقسیم ہند کا مرحلہ آیا تو صوبہ سرحد کے لئے یہ طے کیا گیا کہ وہاں ریفرینڈم کرا لیا جائے عوام پاکستان اور بھارت میں سے جس کے حق میں ووٹ دیدیں یہ اس کا ہو جائے گا۔ 6 جولائی 1947ء کو ریفرینڈم ہوا جس کے نتائج کا 20 جولائی کو اعلان کیا گیا۔ نتیجے کے مطابق 572798 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے پاکستان کے حق میں 289244 جبکہ انڈیا کے حق میں صرف 2874 ووٹ آئے یوں 14 اگست 1947ء کو آزادی کے ساتھ ہی صوبہ سرحد پاکستان کے حصے کے طور پر آزاد ہوا۔
(04) 30 ستمبر 1947ء کو پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر بنا۔ جب ممبر شپ کے لئے قرار داد پیش ہوئی تو پوری دنیا سے افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی ممبر شپ کے خلاف ووٹ دیا۔
(05) پہلے ہی دن سے افغانستان نے پاکستان سے ساتھ یہ تنازعہ کھڑا کردیا کہ چونکہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ برطانیہ کے ساتھ ہوا تھا جس کے تحت صوبہ سرحد کا علاقہ ایک متعین مدت تک برطانیہ کے قبضے میں تسلیم کر لیا گیا تھا لھذا برطانوی انخلاء کے بعد ایک نیا ملک (پاکستان) اس کی سرزمین پر قبضہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ صوبہ سرحد کی اسی نازک پوزیشن کے سبب ریفرینڈم ہوا جس میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا لھذا یہ علاقے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت پاکستان کا حصہ ہیں ہی نہیں بلکہ عوام کی خواہش اور ان کی رائے کے مطابق پاکستان کا حصہ ہیں۔ افغانستان کو چین نہ آیا اور اس نے پاکستان کی پوری پختون بیلٹ میں "آزاد پختونستان" کی تحریک کو ہوا دینی شروع کی جس کے لیڈر پاکستانی پختونوں کی غیرت یہ کہہ کر جگانے کی کوشش کرتے رہے کہ پنجابی تم پر حکومت کرینگے اور تم ان کی غلامی کروگے۔ لیکن جب ایک پختون یعنی جنرل ایوب خان اقتدار میں آگیا تو صوبہ سرحد کے عوام نے ان لیڈروں سے کہنا شروع کردیا کہ بھائی اب تو دو باتیں ہو گئیں ایک یہ کہ ایک پختون پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور دوسری یہ کہ پنجابیوں کو قومیت کی بنیاد پر اس سے کوئی تکلیف نہیں لھذا جب پنجابی کو پختون کے اقتدار سے کوئی تکلیف نہیں تو کل کو جب کوئی پنجابی اقتدار میں آجاتا ہے تو کیا ہمیں اس پر اعتراض ہونا چاہئے ؟ اس "جوابی بیانیے" نے آزاد پختونستان کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھدی۔
ستر کی دہائی میں بالآخر نام نہاد پختون نیشنلسٹ بھی پاکستان سے باقاعدہ وابستہ ہونے لگے اور انتخابات میں شریک ہونا شروع ہوئے لیکن "پنجابی" لفظ ان کی زبان پر ایسا چڑھ گیا تھا کہ بہت دیر تک اپنے اثرات دکھاتا رہا اور آج کل بھی کبھی کبھار یہ ان کی زبانوں سے لڑکھ ہی آتا ہے۔ اُدھر افغانستان میں سوویت اثر رسوخ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں تعاون کے نام پر طلباء کو رشین اساتذہ کی مدد سے کمیونسٹ بنایا جا رہا تھا اور اِدھر پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو ایک جینئس تھے وہ جانتے تھے کہ توسیع پسندانہ پالیسی والا سوویت یونین ہر ملک پر قبضہ کرنے سے قبل وہی کرتا ہے جو افغانستان میں کر رہا ہے چنانچہ جب کابل اور جلال آباد یونیورسٹیوں میں کمیونزم کے خلاف طلباء اور اساتذہ نے مزاحمت شروع کی تو بھٹو نے ان کے سر پر دست شفقت رکھدیا اور انہیں سمجھایا کہ بہت جلد سوویت یونین اپنی فوج افغانستان میں اتارے گا اور تم سب کو کچل دیگا لھذا واحد آپشن یہ ہے کہ "جہاد" کی تیاری ابھی سے شروع کردو۔ جی ہاں کمیونسٹ روس کے خلاف "جہاد" کا راستہ اسی بھٹو نے دکھایا اور پشاور میں 1975ء میں ٹریننگ بھی اسی بھٹو نے شروع کروائی جس کا ظاہری چہرہ "سوشلسٹ" کا تھا۔ خلاصہ یہ کہ بھٹو پھانسی پر لٹک گئے۔ افغانستان میں سوویت فوجیں داخل ہو گئیں اور جنرل ضیاء کے خلاف بھٹو کےصاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو نے عسکری جدوجہد شروع کردی جس کا ہیڈ کوارٹر وہی کمیونسٹ کابل بن گیا جس کے خلاف خود بھٹو نے جہاد کی بنیاد رکھی تھی۔ سٹریٹیجک فیصلے حکومتیں بدلنے کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے چنانچہ جس طرح جنرل ضیاء نے بھٹو کی نیوکلیئر پالیسی کو جاری رکھا اسی طرح افغان جہاد والی پالیسی کو بھی نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے لامحدود وسعت بھی دیدی۔
پاکستان کے پختون نیشنلسٹ جو 1970ء کے بعد ٹھنڈے پڑ چکے تھے وہ روسی افواج کے افغانستان میں آتے ہی سرخ ٹوپیاں پہن کر پھر سے سرگرم ہو گئے۔ اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک جیسے تو کابل میں مستقل ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے کہ اب تو سرخ ٹینکوں پر ہی بیٹھ کر پاکستان جائینگے۔ کے جی بی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی خاد نے نہ صرف صوبہ سرحد اور بلوچستان کے نیشنلسٹ پختونوں اور پشتونوں کو منظم کیا بلکہ بلوچوں کو بھی قابو کر لیا، کابل میں ڈیرے جمانے والوں میں نواب خیر بخش مری بھی شامل تھے اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے سندھ میں بھی جام ساقی جیسوں کے ذریعے ایک خفیہ کمیونسٹ تحریک کی بنیادیں ڈالیں جسے آئی ایس آئی نے بری طرح کچل ڈالا۔ گویا اب یہ طے ہوگیا کہ اگر افغانستان میں رشیا قدم جما گیا تو جلد یہ اجمل خٹک اور نواب خیر بخش مری کی قیادت میں پاکستان آئے گا۔ اگر اس کا قبضہ وہاں مستحکم نہ ہوا لیکن یہ وہاں سے نکلا بھی نہیں تو پاکستان کے صوبہ سرحد اور بلوچستان کو یہ نیشنلسٹوں کی مدد سے مسلسل گرم رکھتے ہوئے انہیں علیحدگی تک لے کر جائے گا۔ صورتحال اسقدر نازک ہو چکی تھی کہ نہ صرف سرخ رشین انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا بلکہ پورے بلوچستان باڈر پر کھڑا ایرانی انقلاب بھی تیزی سے پاکستان میں سرایت حاصل کرنے کی کوششوں میں تھا جبکہ ہمارے مشرقی باڈر پر وہ بھارت اسرائیل کو اشارے کر رہا تھا جو صرف آٹھ سال قبل پاکستان کو دو لخت کر چکا تھا گویا لے دے کر ہمارا صرف چائنا باڈر مکمل محفوظ تھا باقی ہم ہر جانب سے تباہ کن صورتحال سے دوچار تھے۔ تن پر پھٹی جینز، جیب میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا دبئی کا ویزہ اور ایک ہاتھ میں برگر دوسرے میں میں پیپسی لے کرپاکستان کی افغان پالیسی کو گالی دینا بہت آسان کام ہے لیکن اگر دل میں انصاف کی معمولی سی بھی رمق باقی ہے تو 1979ء والے پاکستان میں کھڑے ہو کر ایک نظر اپنے چاروں طرف کے مناظر پر ڈال کر دیکھئے آپ کے ہوش ٹھکانے نہ آگئے تو لاشوں کو گالی دینے کی ضرورت نہیں گلزار قائد آ کر میرا ہی گریبان پھاڑ دیجئے کہ دفاع وطن کی اس جنگ کا ایک ادنیٰ سا مجرم میں بھی ہوں۔
پاک افغان تعلقات۔ دوسرا حصہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب بھٹو نے افغانستان میں جہاد منظم کرنا چاہا تو کابل یونیورسٹی کے تین طلباء اور ان کے استاذ کو پاکستان لایا گیا۔ یہ تینوں طالب علم بہت ہی گہرے دوست تھے اور یونیورسٹی میں کمیونزم کے خلاف سب سے زیادہ متحرک بھی۔ ان میں ایک جان محمد دوسرے احمد شاہ مسعود اور تیسرے گلبدین حکمتیار تھے جبکہ استاذ پروفیسر برھان الدین ربانی تھے۔ ان میں استاذ ربانی اور احمد شاہ مسعود تاجک جبکہ باقی دونوں افغان تھے (افغانستان میں پختون کو "افغان" کہتے ہیں) ان تین دوستوں کی پہلی سخت ایکٹوٹی یہ تھی کہ انہوں نے کابل یونیورسٹی کا ڈانسنگ فلور جلا دیا تھا جو لکڑی کا تھا اور سبب اس کا توہین اسلام کا ایک واقعہ بنا تھا جو کمیونسٹوں کا وطیرہ تھا۔ بھٹو دور میں ابتدائی ٹریننگ 19 لڑکوں کو دی گئی تھی جنہیں یہ تینوں لائے تھے۔ جب جنرل ضیاء آئے اور اس تحریک کو مزید بہتر شکل دی جانے لگی تو انہی دنوں ان تینوں دوستوں میں ایک معمولی سا اختلاف آیا جس میں جان محمد اور احمد شاہ مسعود کی رائے ایک تھی جبکہ حکمتیار کی کچھ اور یہ تینوں پشاور میں تھے اور مسئلہ ابھی طے نہیں ہوا تھا کہ اچانک جان محمد لاپتہ ہوگیا۔ دونوں ہی اسے ڈھونڈنے میں لگ گئے مگر دو روز بعد جان محمد کی لاش ملی۔ احمد شاہ مسعود کا کہنا تھا صبح جس علاقے میں لاش ملی اسی علاقے سے میں نے رات کو حکمتیار کو گزرتے دیکھا تھا۔ حکمتیار کا کہنا تھا کہ میں واقعی اس ایریے میں گیا تھا لیکن جان محمد کی تلاش میں ہی گیا تھا۔ احمد شاہ مسعود نہ مانا اور یہاں سے اس مشہور زمانہ جھگڑے کی بنیاد پڑی جس میں آگے چل کر پورے جہاد کے دوران ان دونوں نے ایک دوسرے پر کئی خونریز حملے کئے۔ جنرل ضیاء نے دونوں کو ساتھ بٹھا کر صلح بھی کرادی لیکن مسعود اس صلح سے بھی آگے چل کر یہ کہہ کر پھر گیا کہ جان محمد کا قتل آئی ایس آئی اور حکمتیار دونوں نے کیا ہے اور پھر مسعود نے پاکستان آنا بھی چھوڑ دیا۔ اس کی تنظیم کا لین دین استاذ ربانی خود پشاور میں بیٹھ کر کرتے تھے۔ آگے چل کر یہ ثابت بھی ہو گیا کہ جان محمد کوخاد نے قتل کیا تھا مگر تب تک مسعود اور حکمتیار ایک دوسرے کا بھاری جانی نقصان کر چکے تھے جس سے دشمنی ناقابل واپسی مقام تک جا چکی تھی۔
اس پورے جہادی سین پر مولوی کہیں نہیں تھے، کابل اور جلال آباد یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء ہی سب کچھ کرتے رہے۔ مولوی سین پر تب نمودار ہوئے جب رشین آرمی افغانستان میں داخل ہوئی اور مولانا مفتی محمود نے جہاد کا فتویٰ جاری کردیا جن کا پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ بیحد احترام تھا۔ اس فتوئے کے نتیجے میں مولانا یونس خالص اور مولانا محمد نبی محمدی کھڑے ہوئے جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فضلاء تھے۔ مولانا یونس خالص ہی اپنے میدانی کمانڈر کے طور پر مولانا جلال الدین حقانی کو لے آئے جو جوان تھے اور حقانیہ کے تازہ فاضل بھی جبکہ محمدی صاحب مولانا ارسلان خان رحمانی کو لے آئےجو ان کے میدانی کمانڈر ہوئے۔ چنانچہ آگے چل کر جب سات جماعتیں بنیں تو ان میں پانچ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والوں کی تھیں جبکہ دو علماء کی تھیں اور علماء کی ان دونوں جماعتوں کا کمال یہ ہے کہ پورے افغان جہاد کے دوران انکی کسی ایک بھی تنظیم سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی جبکہ یونیورسٹی والوں نے تو جہاد کے دوران بھی ایک دوسرے سے جنگیں لڑ کر بدترین خونریزی کی اور آگے چل کر فتحِ کابل کے بعد بھی وہ فساد مچایا کہ خدا کی پناہ۔
سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد کے ابتدائی دو سالوں میں پاکستان تنہا اس خطرے سے اپنی بساط کے مطابق نمٹتا رہا لیکن جنرل ضیاء کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اتنی بڑی طاقت سے تنہا نمٹناممکن نہیں چنانچہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں مگر وہ ویتنام میں سوویت یونین سے اتنا بڑا زخم کھا کر تازہ تازہ گھر لوٹا تھا جس کی ٹیسیں ابھی بھی اٹھ رہی تھیں جبکہ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ویتنام جنگ کے سبب امریکی رائے عامہ فضول جنگوں کے خلاف ہوگئی تھی اور حکومت کو ڈر تھا کہ اگر وہ ایک بار پھر اسقدر جلد بیرون ملک جنگ میں ملوث ہوئی تو رائے عامہ کا پہلے سے بھی شدید رد عمل نہ آجائے چنانچہ امریکہ نے ضیاء الحق کو چند ٹکے پکڑا کر جان چھڑانے کی کوشش کی جسے ضیاء الحق نے "پینٹس" کہہ کر ٹھکرادیا۔ امریکی سیاست لابنگ پر چلتی ہے، اس موقع پر جنرل ضیاء نے کانگریس مین چارلی ولسن کو قابو کرکے اس جنگ میں امریکی شرکت کے فوائد اور شریک نہ ہونے کے نقصانات سمجھائے۔ چنانچہ یہ چارلی ولسن تھے جو امریکی کانگریس کے توسط سے امریکہ کو افغان جہاد میں گھسیٹ لائے یوں سوویت افواج کی افغانستان میں آمد کے دو سال بعد 1981ء میں امریکہ اس جنگ میں اترااور اس کے آتے ہی یورپ بھی آگیا جس سے افغان جہاد نے زور پکڑتے پکڑتے بالآخر رشیا کو افغانستان سے انخلاء پر مجبور کردیا۔ سوویت یونین کا پورا نظام جبر و استبداد پر کھڑا تھا اور اس کے قبضہ کئے ہوئے ممالک اور غلام بنائے گئے انسانوں میں یہ تصور راسخ تھا کہ سرخ فوج ایک ناقابل تسخیر قوت ہے یہ جہاں بھی جائے وہاں سے واپس نہیں ہوتی لھذا سوویت یونین سے آزادی کا تصور ہی بے معنیٰ ہے لیکن جب یہ ناقابل تسخیر قوت افغانستان میں ملبے کا ڈھیر بن گئی تو نہ صرف سوویت یونین بلکہ مشرقی یورپ میں بھی امید کی لہر دوڑ گئی جس سے اگلے دو برس میں نہ صرف یہ کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا بلکہ مشہور زمانہ برلن وال بھی زمیں بوس ہوگئی اور مشرقی یورپ بھی آزاد ہو گیا۔
سوویت یونین نے انخلاء کے باوجود کابل میں بیٹھی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی اور دلچسپ بات یہ ہوئی امریکہ نے افغان مجاہدین کو چھوڑ کر نجیب اللہ کی مدد شروع کردی کیونکہ امریکہ افغان مجاہدین کی حکومت بنوانے کے لئے جہاد میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کا مقصد صرف سوویت یونین کی شکست تھا جو پورا ہو چکا تھا۔ رہ گیا افغان مجاہدین کی حکومت کا قیام تو ظاہر ہے وہ امریکہ کیسے قبول کر سکتا تھا۔ جب بالآخر کابل کو فتح کرنے کا مرحلہ آیا تو اسے شمال سے احمد شاہ مسعود نے گھیر رکھا تھا اور مشرق سے حکمتیار نے اور یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔ یوں ان دونوں میں کابل کے صدارتی محل تک پہلے رسائی پانے کا ماحول پوری طرح تیار تھا۔ حملے کی پہل احمد شاہ مسعود نے کی جس پر فورا حکمتیار نے بھی پیش قدمی شروع کردی مگر کھیر کی پلیٹ مسعود کے ہاتھ لگی اور پھر وہ طوفان بدتمیزی اور خونریزی شروع ہوا کہ الامان و الحفیظ۔ اس موقع پر مولاناجلال الدین حقانی جو افغانستان کے سب سے غیر متنازع کمانڈر تھے اور جن کا احترام حکمتیار اور مسعود دونوں ہی کرتے تھے مصالحتی کوششوں کے لئے میدان میں اترے اور مسلسل کابل میں بیٹھ کر ان کی صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ سامنے تو یہ دونوں ان کی ہر بات مان جاتے لیکن جب وہ واپس خوست آجاتے تو یہ پھر باہم لڑنا شروع کردیتے۔ حقانی صاحب ان دونوں کی مسلسل لڑائیوں سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ چڑ چڑے ہوگئے جس کا اندازہ مجھے خود ذاتی طور پر اس طرح ہوا کہ 1992ء میں ایک دن میں کسی ضروری کام سے ان سے ملنے کراچی سے خوست پہنچا۔ پتہ چلا کہ اٹھارہ دن سے کابل میں ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ کب آئینگے۔ میں نے وائرلیس پر رابطہ کیا، نارمل انداز میں گفتگو شروع ہوئی لیکن دو تین جملوں کے تبادلے کے بعد ہی انہوں نے مجھے کھری کھری سنادیں کہ یہ معاملہ ابراھیم یا خلیل (حقانی صاحب کے بھائی) کے ساتھ نمٹا لو میرے پاس لمبی باتوں کا وقت ہی نہیں ہے۔ حقانی صاحب ایک نہایت بردبار ،متحمل اور منکسر المزاج انسان ہیں، میں نے اس روز پہلی دفعہ انہیں غصے میں پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے جاتے ہوئے میران شاہ سے ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر خریدا تھا جس میں یہ گفتگو میں نے ٹیپ کرلی تھی۔ آج بھی جب کبھی ان کی ڈانٹ سننے کو جی کرتا ہے تو سن لیتا ہوں smile emoticon
اس پوری صورتحال میں پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جس نے اپنے دشمن ملک کی پوری پختون آبادی کے دل جیت کر افغانستان کے خطرے اور ڈیورنڈ لائن والی چخ چخ کا پکا توڑ حاصل کر لیا تھا لیکن اگر یہ اندرونی خانہ جنگی نہ رکتی تو آگے چل کر ان مجاہدین کے خلاف ہی ایسی تحریک اٹھ سکتی تھی جس کے نتیجے میں سب کچھ الٹ جاتا اور ایک بار پھر افغانستان پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھ میں چلا جاتا جس سے پاکستان کے لئے صورتحال جوں کی توں ہو جاتی۔ جب افغانستان کے علماء صلح کی کوششیں کر کر کے تھک گئے تو جنرل حمید گل اور نواز شریف اس کام کے لئے آگے آگئے یہ پھر بھی باز نہ آئے تو سعودی انہیں ساتھ لے گئے اور حرم کے ائمہ سے منت سماجت کروالی، انہوں نے حرم میں بیٹھ کر صلح کر لی مگر جیسے ہی افغانستان پہنچے پھر توپوں کے دھانے کھول لئے۔ پینتیس لاکھ مہاجرین پاکستان میں سر پکڑے بیٹھے تھے جبکہ اتنے ہی ایران میں بھی اسی حالت میں تھے۔ دنیا کی سب سے بے رحم طاقت کو شکست فاش دینے والے اب ایک دوسرے کو فتح کرنے میں لگ گئے۔ افغانستان کا ہر صوبہ چھوڑیے ہر ضلع میں ایک مستقل الگ حکومت قائم ہوتی چلی گئی۔ قدم قدم پر پھاٹک لگ گئے جو مقامی کمانڈر کی عملداری شروع ہونے کا اعلان ہوتے۔ ہر شخص مسلح تھا، ہر شخص مشکوک تھا اور ہر شخص خطرے میں تھا۔ ایسے میں 1994ء میں قندھار سے ملا عمر افغان منظر نامے پر نمودار ہوئے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by اعجازالحسینی »

پاک افغان تعلقات۔ تیسرا حصہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
طالبان کا ظہور یوں ہوا کہ جنوبی افغانستان میں ملا عبد السلام راکٹی نام کا ایک کمانڈر تھا جس نے افغانستان کی لاتعداد ڈیڑھ بالشتی شخصی حکومتوں کی طرح اپنی ایک ڈیڑھ بالشت کی حکومت قائم کر رکھی تھی جو لونڈے بازوں کے ایک گروہ پر مشتمل تھی۔ یہ لڑکے تو اغوا کرتے رہے تھے لیکن ایک دن کسی غریب کی لڑکی بھی اغوا کر لی۔ افغان سماج کی سب سے قابل احترام شخصیت عالم دین ہوتا ہے۔ نہ وہاں عالم کی تذلیل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بات ٹالی جاتی ہے۔ مغوی لڑکی کا والد ملا عمر نامی ایک گمنام مقامی عالم دین کے پاس شکایت لے کر پہنچا تو اس نے اپنے طلباء کو لڑکی چھڑا کر لانے کا ٹاسک دیدیا۔ ان طلباء نے کچھ مقامی لوگوں کو ساتھ ملایا اور ملا راکٹی کے مرکز کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ یہ لوگ لڑائی کی نیت سے جا ہی نہیں رہے تھے لیکن راکٹی اور اس کا گروہ اس ہجوم کو بڑھتا دیکھ کر گھبرا گیا اور فرار ہو گیا جس سے یہ اڈہ ختم ہو گیا۔ کئی لڑکیاں اور لڑکے وہاں سے چھڑا کر لائے گئے۔ ملا راکٹی کے عذاب سے نجات پانے پر لوگ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ملا عمر سے کہنا شروع کردیا کہ فلاں کمانڈر نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے اور فلاں کمانڈر بھی کسی آسمانی آفت سے کم نہیں آپ ان کا بھی کچھ کیجئے۔ ملا عمر نے آس پاس کے ان مقامی کمانڈروں کی شخصی حکومتیں لپیٹنی شروع کردیں جس میں صرف طلباء ہی شریک نہ تھے بلکہ مقامی آبادی بھی شامل تھی۔ چونکہ یہ علماء اور طلباء سیاہ پگڑیاں باندھتے تھے تو مقامی لوگوں نے بھی اپنی سفید اور پیلی دھاری دار پگڑیاں چھوڑ کر کالی پگڑیاں باندھ کر خود کو اس تحریک سے مکمل وابستہ کر لیا۔ خلاصہ یہ کہ جلد ہی قندھار اور ہلمند صوبے بغیر کسی جنگ کے طالبان کے کنٹرول میں آگئے۔ اور تب تاریخ نے ایک دلچسپ ترین موڑ لیا، ایک ایسا موڑ جو نہایت حیران کن ہے۔
جان محمد، احمد شاہ مسعود اور حکمتیار کو بھٹو کابل یونیورسٹی سے لائے تھے تو گویا وہ افغان جہاد کے گاڈ فادر ہوئے۔ اور انہیں چراٹ میں میجر جنرل نصیر اللہ بابر کے سپرد کیا گیا تھا جو اس خفیہ آپریشن کے انچارج مقرر ہوئے تھے تو گویا وہ فادر آف مجاہدین ہوئے۔ سلطان عامر تارڑ المعروف کرنل امام اس سینٹر میں افغان مجاہدین کے پہلے ٹرینر بنے تو گویا وہ مجاہدین کے استاذ اول ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی سب سے سخت ترین حریف پارٹی جماعت اسلامی رہی ہے جس کے سابق امیر قاضی حسین احمد تاریخ کے اوراق پر اپنی یہ گواہی ڈال کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان تینوں کو بھٹو لائے تھے اور پشاور میں خفیہ ملٹری ٹرینگ شروع کی گئی تھی جس سے بھٹو اور نصیر اللہ بابر کے سوا پیپلز پارٹی تک کا کوئی رہنماء با خبر نہ تھا۔ آئی ایس آئی فتح کابل کے بعد احمد شاہ مسعود اور حکمیار کی جنگ ختم کرانے میں ناکام ہو چکی تھی اور کسی کو کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا ایسے میں جب قندھار اور ہلمند طالبان کے قبضے میں چلے گئے تو پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو اقتدار میں تھیں جو یہ جانتی تھیں کے انکے والد کو ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کا چیلنج درپیش رہا تھا اور وزیر اعظم بننے کے بعد اس چیلنج کا پکا توڑ کرنے کے لئے انہوں نے ہی افغان جہاد کی بنیاد ڈالی تھی اور یہ کہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہو سکا بلکہ افغانستان خانہ جنگی میں چلا گیا ہے اور نواز شریف اسے حل کرنے میں ناکام رخصت ہوا ہے تو یہ وہ موقع تھا جب بینظیر نے اپنے والد کے نا مکمل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا زبردست موقع بھانپ لیا۔ یوں گویا بھٹو کی جو افغان میراث ضیاءالحق کے ہاتھ لگی تھی وہ ضیاء الحق کے لاڈلے نوازشریف سے ہوتی ہوئی بھٹو کی بیٹی کے سامنے آگری۔ افغان مجاہدین کے فادر میجر جنرل نصیر اللہ بابر ان کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے چنانچہ فوری طور پر انہیں طلب کر کے محترمہ نے منصوبہ سمجھایا اور یہ ٹاسک ان کے سپرد کر دیا۔ نصیر اللہ بابر افغان مجاہدین کے استاذ اول کرنل امام کو لے آئے جو انہیں دنوں فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک پر ہی فوری واپس لایا گیا اور یہاں سے سیدھا جنوبی افغانستان بھیجا گیا جہاں وہ بطور سفار تکار پاکستانی قونصل خانے میں تعینات ہوئے اور طالبان کے رابطے میں آگئے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اور شمالی کوریا سے میزائلوں کی بمع ٹیکنالوجی خریداری ایسے دو ایشو ہیں جس میں فوج اور بینظیر بھٹو دونوں ایک ہی پیج پر تھے۔ سلگتا ہوا کابل امریکہ کی ضرورت تھا جبکہ پر امن کابل پاکستان کے لئے ہر حال میں ضروری تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو یہ جانتی تھیں کہ ان کے والد کا اصل قاتل امریکہ ہی ہے۔ وہ اپنے جذباتی والد سے ذہانت میں بدرجہا فائق تھیں، پاکستانی سیاستدانوں میں سے اس خطے میں امریکی مفادات کو جتنا نقصان محترمہ نے پہنچایا وہ 67 سال میں کوئی نہیں پہنچا سکا۔ وہ بظاہر بہت بولڈ، اینٹی مذہب اور نہ جانے کیا کیا تھیں لیکن ان کے اندر کی بینظیر بھٹو اتنی مختلف تھی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں خاص طور پر دیوبندی مولویوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ واقعات افشاں نہیں کئے جاسکتے ورنہ آپ پر تو ان کے اتنے احسانات ہیں کہ آپ دوسرا جنم لے کر بھی ان کا قرض نہیں چکا سکتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو انہوں نے محض اندرونی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ قریب نہیں رکھا تھا بلکہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان میں سب سے طاقتور اینٹی امریکہ فورس دیوبندی مکتبہ فکر ہے جس کے سب سے بڑے لیڈر کو ساتھ رکھ کر ہی امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مولانا کا تعریفی ذکر موجودہ دور میں ناقابل ہضم خوراک ہے ، خود میں بھی مولانا کا شدید ناقد ہی ہوں لیکن جب آپ تاریخ لکھ رہے ہوں اور ضمیر زندہ ہو تو سچ آپ کی سب سے بڑی مجبوری بن جاتا ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے غور تو کیجئے کہ محترمہ نے اس مولوی کو خارجہ امور کمیٹی کا ہی کیوں چیئر مین بنایا ؟ وہ تو مولوی تھے، مذہبی امور یا اوقاف یا کوئی اور لولی پوپ ٹائپ چیئر مین شپ دیدیتیں، آخر "خارجہ امور" ہی کیوں ؟جب آپ اس نکتے پر غور کرینگے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے دماغ میں زیرو واٹ کے ہی سہی مگر دوچار بلب ضرور روشن ہو جائینگے۔ ان دونوں نے مل کر امریکہ کو جتنا "ماموں" بنایا ہے اتنا تو منا بھائی اور سرکٹ نے مل کر ڈاکٹر استانہ کو بھی نہیں بنایا تھا۔ اگر میں مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کی سیاسی فلم کا "سرکٹ" قرار دوں تو غلط نہ ہوگا۔ الحمدللہ مجھے اللہ نے یہ توفیق دی کہ محترمہ کی شھادت سے 19 روز قبل میں نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو شھید کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور اپنے رب سے دعاء گو ہوں کہ مجھے محترمہ کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی توفیق اور موقع عطاء فرمائے۔ آمین
نصیر اللہ بابر یا کرنل امام نے ملاعمر کو اپنا کوئی ایجنڈہ نہیں پکڑایا بلکہ بہت سمپل بات کی اور وہ یہ کہ جو آپ کر رہے ہیں اسے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر مت چھوڑنا۔ پورے افغانستان میں جھاڑو پھیرو اور یہ ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کی تمام شخصی حکومتیں بلا کسی استثناء کے لپیٹ کر رکھدو اور افغانستان کو ایک ہی حکومت کے تحت لے آؤ۔ اس ضمن میں اگر ہماری کسی مدد کی ضرورت پڑی تو بلا تکلف مانگ لینا۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ افغانستان میں عالم دین سب سے قابل احترام شخصیت ہوتا ہے اور پختون بیلٹ میں تو اس سے کوئی لڑتا بھی نہیں ہے۔ چناچہ جب طالبان آگے بڑھے تو پختون بیلٹ میں جتنے بھی کمانڈر تھے بشمول مولانا جلال الدین حقانی و مولانا ارسلان خان رحمانی کسی ایک نے بھی مزاحمت نہیں کی سب نے اپنے اپنے علاقے میں ان کا استقبال کیا اور اپنے لا محدود اسلحہ ڈپوؤں کی کنجیاں ان کے حوالے کرتے چلے گئے کیونکہ طالبان نے صاف کہدیا تھا کہ حکومتی اہلکار کے علاوہ کسی بھی شخص کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی چاہے وہ کتنا ہی بڑا کمانڈر کیوں نہ ہو۔ ہرات میں افغان جہاد کے چوتھے بڑے کمانڈر اسماعیل خان توران نے تھوڑی سی مزاحمت کی لیکن پھر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا مگر کچھ عرصے بعد طالبان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کابل تک رسائی سے قبل سب سے مشکل اور خونریز مزاحمت سروبی میں کمانڈر عبد الحق نے کی جو حکمتیار کا اہم کمانڈر تھا اور بہت طاقتور ہو چکا تھا۔ سروبی جلال آباد سے کابل جاتے ہوئے آنے والا ایک پیچدار درہ ہے۔ اگر پہاڑوں پر فوج موجود ہو تو آپ سڑک سے نہیں گزر سکتے۔ اس درے میں طالبان کا اتنا بڑا جانی نقصان ہوا کہ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ طالبان کے پہلے کمانڈر انچیف اور شہرہ آفاق کردار ملا برجان بھی یہیں شھید ہوگئے لیکن طالبان نے پروا نہیں کی وہ اپنی لاشوں کو روندتے ہوئے سروبی عبور کر گئے۔
اس درے کو عبور کرتے ہی "چھار آسیاب" ان کے سامنے تھا جہاں گلبدین حکمتیار کا ہیڈ کوراٹر تھا۔ جو فورس سروبی جیسے تنگ درے سے خون کا دریا عبور کر کے گزر آئے اس کے لئے نسبتا خاصا ہموار چھار آسیاب کیا چیز تھی ؟ حکمتیار مقابلہ کئے بغیر نکل لئے اور ایسے نکلے کہ پھر کئی ماہ بعد ایران میں نمودار ہوئے کیونکہ آئی ایس آئی اور قاضی حسین احمد کے اس لاڈلے کے لئے اب پاکستان ہی نہیں قاضی حسین احمد کے دل کے دروازے بھی بند ہوچکے تھے۔ جن کا اعتماد اس شخص نے بری طرح توڑا تھا اور صلح کی تمام کوششیں ناکام کرنے میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ برابر کا شریک تھا۔ کابل تو حلوہ ثابت ہوا۔ مسعود اور رشید دوستم دونوں اپنے گھر بچانے کے لئے پنجشیر اور مزار شریف فرار ہوگئے۔ طالبان کا پہلا دستہ کابل میں داخل ہوا تو بارہ لڑکوں کا ایک گروپ اقوام متحدہ کے دفتر سے نجیب اللہ کو کھینچ لایا اور چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جو پہلی بڑی غلطی ثابت ہوا۔ 28 ستمبر 1996 کو کابل فتح ہوا تو ملا عمر قندھار میں تھے اور وہیں رہے۔ کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی جس کے سربراہ ملا محمد ربانی مقرر ہوئے۔ قائد اسے نہیں کہتے جو ہجوم زیادہ بڑا اکٹھا کر سکتا ہو یا جو تقریر زیادہ عمدہ کر سکتا ہو بلکہ اسے کہتے ہیں جو نازک وقت پر درست فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ حزب اسلامی حکمتیار گروپ افغانستان کی جماعت اسلامی تھی لیکن جب طالبان کابل میں آئے تو قاضی حسین احمد نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ہم سے فکری قربت رکھنے والی جماعت حزب اسلامی ہے لھذا ہم طالبان کو نہیں مانتے بلکہ انہوں نے لڑاکو حکمتیار سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنی مکمل حمایت طالبان کے پلڑے میں ڈالدی اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی اور ڈاکٹر اسرار نے بھی مکتبہ فکر کے اختلاف کے باوجود طالبان کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ چونکہ مولانا نورانی اور ڈاکٹر اسرار کا افغانستان میں کوئی سٹیک نہ تھا جبکہ قاضی صاحب کا تو بہت بڑا سٹیک تھا لیکن انہوں نے اس سٹیک کو ہمیشہ کے لئے افغانستان اور پاکستان کے مفاد میں قربان کردیا لھذا قاضی حسین احمد مرحوم کا یا اقدام تاریخ ہمیشہ ایک دلیرانہ اور مدبرانہ فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ چونکہ افغانستان بہر حال حکمتیار کا گھر تھا اس لئے قاضی صاحب نے یہ خاموش کوشش کی کہ حکمتیار کم از کم افغانستان واپس آ کر رہ سکے اور اس سلسلے میں ملا عمر سے ملاقاتیں ہوئیں جن کا موقف تھا کہ ہمیں حکمتیار سے کوئی دشمنی تو کیا شکوہ بھی نہیں، افغانستان ان کا گھر ہے وہ آئیں اور پوری بے فکری سے یہاں رہیں لیکن چونکہ افغان شہریوں میں ان کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے جس کے وہ قائد رہے ہیں لھذا ان تک یہ کھلا پیغام جانا ضروری ہے کہ حکمتیار نے موجودہ سسٹم کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اس پیغام کی شکل یہی ہوگی دیگر سابق اہم کمانڈروں کی طرح وہ بھی میرے ہاتھ پر بیعت کرینگے۔ حکمتیار یہ شرط قبول کرنے کو تیار نہ ہوا چنانچہ قاضی صاحب نے حکمتیار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ حکمتیار آج کل افغانستان میں ہیں اور طالبان کے شانہ بشانہ قابض فورسز سے لڑ رہے ہیں۔ (جاری ہے)
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ جناب رعائت اللہ فاروقی صاحب

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کا شکریہ
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”