بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہے.

متفرق ویڈیوز جو کسی بھی موضوع سے متعلق ہوں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہے.

Post by وارث اقبال »

بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہے
شیخ سعدی کا قول ہے کہ کم گو شخص عقلمند ہوتا ہے کیونکہ وہ خاموش رہ کر اپنے سارے عیب چھپا لیتاہے۔ لیکن میں اسے مختلف انداز میں دیکھتا ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہےاور سننا دوسروں کی ضرورت ۔ اگر انبیا نہ بولتے تو مذاہب نہ بنتے،اگر دانش ور خاموش رہتے تو علم کے دریا نہ بہتے، دنیا میں انقلاب نہ آتےاور دنیا ترقی نہ کرتی۔ بولنا ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے ہم
بے وقوف اور عقل مند میں تمیز کرتے ہیں ۔
جہاں تک تعلق ہے اچھابولنے کا تو اس کے لئے کسی ڈگری یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے تو ضرورت ہے ایسی فضا کی جس میں اچھا بولا جاسکے، ایک ایسے ماحول کی کہ جس میں اچھا بولنا وجہ ستائش بنے ۔اسی طرح بولنے کا تعلق اعلیٰ لفظوں یا دلائل سے نہیں بلکہ بولنے والے کے جذبات سے ہے۔ جذبات کا اظہار آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ جزبات کا اظہار ایک طرف محبت کے پھول کھلا دیتا ہے تو دوسری طرف آگ کے دریا بہا دیتا ہے۔ اسی طرح اپنے علم کا اظہار بھی بہت نازک ہے۔ یہ جب عاقل کی زبان سے ہوتا ہے تو جاہل قومیں مہذب بن جاتی ہیں اور جاہل کی زبان سے ادا ہو تو ہنستی بستی قوموں کو برباد کر دیتا ہے۔ اس لئے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرنا چاہئےکہ دوسروں کے جذبات کو نقصان نہ پہنچے ، اپنے علم کا اظہار اس طرح کرنا چاہئے کہ دوسرے
بے علم ثابت نہ ہوجائیں ۔ایسے لفظوں کے تیر نہیں چلانا چاہئیں کہ سننے والوں کا کلیجہ پھٹ جائے۔ چونکہ ہم اکثر بول کر اپنے جذبات اور علم کا اظہار کرتے ہیں اس لئے اچھا بولنا بہتر ضروری ہیں۔ لفظ ایسے ادا ہوں جیسے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ تلخ سے تلخ بات اس طرح کی جائے کہ سننے والے پر گراں نہ گذرے۔ کیونکہ اچھی گفتار تہذیب و شائستگی کاایک اہم اصول ہے۔
یہاں ہم دوبارہ شیخ سعدی کی طرف چلتے ہیں۔ بے وقوف شخص بولے یا نہ بولے وہ بے وقوف ہی رہتا ہے۔ وہ اپنی زبان سے نہیں تو اپنے کسی عمل سے خود کو بے وقوف ثابت کر ہی دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک عقل مند خاموش رہتا ہے تو وہ اپنے علم ، معرفت ، تجربے اور سوچ کی بلندی سے دوسروں کو محروم رکھتا ہے ۔ اس لئے بولنا یعنی اظہارضروری ہے لیکن شرط وہی ہےکہ سامنے بیٹھے ہوئے انسان کوا نسان سمجھا جائے۔
جب ہم بولنے کی یا اظہار کی بات کرتے ہیں تو ہم مرتبہ ، عہدے یا معاشرتی حیثیت سے اس کےتعلق کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جتنا بڑامرتبہ یا معاشرتی حیثیت ہوگی انسان کے بولنے میں بد تہذیبی ، سختی یا غرور کا عنصر پائے جانے کے امکانات زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر مرتبے، معاشرتی حیثیت یاعہدے کاخمار انسان کے حواس و زبان پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کے افعال پر بھی ہوتا ہے ۔ لیکن انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا یہ مرتبہ عارضی ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ میں نے ایک ایسے افسر کو دیکھا جو اپنے نوکرکے کپڑوں، گلاس تھمانے، چائے بنانے اور اس کے ہر عمل پر اعتراض کیا کرتا تھا لیکن یہ وقت کا ایسا انتقام ہے کہ آج اُس کے ارد گرد ایسا کوئی ذی روح نہیں جو اُسے گلاس تھما دیں ۔ اُس کے بچے اُسے صاف کہہ دیتے ہیں اب آپ افسر نہیں رہے اپنی افسر ی چھوڑ دیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس درد سے پردہ کشائی بھی اسی بد نصیب یا بانصیب نوکر نے کی جو ہمیشہ اس کے عتاب کا شکار رہا۔ میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو لوگوں کو یہ کہہ کر نوکری سے فارغ کر دیا کرتا تھا کہ رزق دینے والا تو خدا ہے۔ لیکن آج اس شخص کے اپنے خزانے میں رزق کی فراوانی تو ہے لیکن وہ رزق اس کے ہاتھوں تک پہنچانے والا کوئی نہیں ۔ بچے باہر ہیں، ایک نوکر ہے جو اپنی مرضی سے کھانادیتا ہے اور اپنی مرضی سے پانی۔ اس سابقہ افسر اعلی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس نوکر کویہ کہہ کر نکا ل دے کہ رزق دینے والا تو اللہ ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں قبر کو یاد رکھنا چاہئے میں کہتا ہوں قبر کو تو یاد رکھیں ہی اس فاصلے اورپڑاؤ کو بھی یاد رکھیں جو قبر تک جانے سے پہلے طےکرناپڑتا ہے۔ بیماری ، افلاس، بے بسی اور محتاجی کے پڑاؤ۔
کچھ لوگ خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیتے ہیں، بس جی اللہ چلتے پھرتے ہی اٹھا لے۔ وہ جب یہ کہہ رہے ہوتے ہیں تو اصل میں انہیں اپنے عمل سامنے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں ، وہ خوف زدہ ہوجاتا اور اس جملے میں سر چھپاکر بیٹھ جاتے ہیں ، ’’ بس جی اللہ چلتے پھرتے ہی اُٹھا لے۔ لیکن۔ پھر بھی یہ ایک اچھی زندگی کی طرف واپس نہیں آتے۔ میرے نزدیک اچھی زندگی سے مراد فقط یہ ہے کہ انسان انسان بن جائے اور اپنے اندر کے جانور کو مار لے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن یقین کیجئے مشکل بھی نہیں ۔ اس کا پہلا زینہ وہ مقام ہے جب کوئی آپ کو بے وقوف بنائے اور آپ بے وقوف بن جائیں ۔ گویا کہ بے وقوف بن کر بے وقوف بنانے والے کو بےوقوف بنا لیں اور اس کی اس احمقانہ حرکات حرکت پر ہنستے رہیئے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کے دماغ کی ایک ایسی آنکھ بیدار ہو گئی ہے جو دوسروں کے اندر جھانک لیتی ہے۔ یہاں ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ جہاں بولنے کا تعلق انسان کے جذبات سے ہے وہاں سننے کا تعلق بھی جذبات سے ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ جذبات کے بغیر زندگی کا ہر عمل پھیکا ہے اور ادھورا ہے۔ جذبات کے ساتھ ہی حقوق اللہ پورے کرنے میں لطف آتا ہے اور جذبات کے ساتھ ہی حقوق العباد ادا کرنے میں راحت ملتی ہے۔ چنیوٹ کے قریب ایک پہاڑ ہے جہاں سے لوگ پتھر نکال کر بجری بناتے ہیں۔ ایک دفعہ میں وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے کچھ بچوں کو پتھرا ُٹھائے ہوئے دیکھا۔ جب میں پاس گیا تو مجھے اُن کے چہروں پر ایک سکون اور اطمینان کی ناقابلِ بیاں کیفیت دکھائی دی ۔ میں نے اُن میں سے ایک سے پوچھا، ’’ یہ اتنا بڑا پتھر اُٹھا کر آپ کو درد نہیں ہوتا۔‘‘ بچہ نے جواب دیا، ’’ نہیں مزا آتا ہے۔‘‘ اللہ جانتا ہے کہ اُس بچے کے دماغ میں کیا چل رہا تھا لیکن میں نے ایک بات ضرور سیکھی ، کہ ذمہ داری ، کام وغیرہ کی عمدگی سے ادائیگی ہمارا فرض تو ہے لیکن اگر شوق شامل ہو جائے یعنی جذبات یا ولولہ شامل ہو جائے تو ہمارے لئے باعث تقویت بن جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ کم بولنا یا زیادہ بولنا معنی نہیں رکھتا جذبات اور علم کا اظہار معنی رکھتا ہے لیکن طریقے سے قاعدے سے۔
وارث اقبال
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہے.

Post by ایم ابراہیم حسین »

اسلام علیکم
جناب محترم وارث اقبال صاحب بہت عمدہ موضوع بیان کیا آپ نے
سلامت رہیں اور ذندگی ہر میدان میں کامیابی نصیب ہو آمین
شاہنواز
دوست
Posts: 290
Joined: Mon Mar 05, 2012 2:19 am
جنس:: مرد

Re: بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہے.

Post by شاہنواز »

بہت ہی عمدہ تحریر اورسبق آموز اس تحریر سے انشاءاللہ سیکھنے کو ملے گا-
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہے.

Post by محمد شعیب »

محض بولنا حق نہیں ہے. کیونکہ زبان جہنم میں لے جاسکتی ہے (حدیث کا مفہوم ہے)
حق بات، حق طریقے سے کہنا جائز ہے.
علم کے 10 باب ہیں. ان میں سے 9 خاموشی اور 1 بولنا ہے.
بھائی ہر انسان بولنا شروع کر دیگا تو سنے گا کون ؟
Post Reply

Return to “متفرق”