یومَ بے حسی

کمپیوٹر ہارڈویر اور سافٹ وئیرز پر تبصرے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

یومَ بے حسی

Post by وارث اقبال »

یومِ بے حسی وارث اقبال
امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے ایک اجتماع پر پولیس گردی کے نتیجے میں ۱۴ افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ آج ہر سال یکم مئی کو پوری دنیاکے مزدور سڑکوں پر آکر اُن مرے ہوئے مزدوروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ یہ فقط ایک دن کی تقریب نہیں بلکہ اظہار ہے اس حقیقت کے ساتھ کہ ظلم ظلم ہے اور مظلومیت مظلومیت ہے ۔ انسان ظلم کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ وہ مظلومیت کے حق میں کھڑا ہوتا ہے۔ یہ اظہار ہے اس حقیقت کا کہ حکومت محافظ ہوتی ہے قاتل نہیں۔ یہ اظہار ہے اس حقیقت کا کہ منصف انصاف کی راہ پر چلتا ہے راہزن کے راستے پر نہیں۔ اور یہ اظہار ہے اس حقیقت کا کہ انسان کو کان اس لئے دئیے گئے ہیں کہ جہاں وہ شہنائی کی آواز سنتا ہے وہاں آہ وفغان کو بھی سنے ، آنکھیں اس لئے دی گئیں کہ جہاں وہ حیات کی خوبصورتی سے لطف اُٹھاتاہے وہاں وہ موت کے رقص کو بھی محسوس کرے۔ یہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ اگر وہ مزدور نہ رہے تو ان پر تشدد کرنے والے بھی نہ رہے یعنی یہاں کسی ذی حیات کو دوام نہیں۔
وہاں چودہ مرے تو ایک دن منایا گیا اور وطن ِ عزیز میں روز ان گنت مرتے ہیں مگر نالۂ آہ وزاری تو کیا کسی ابرو کو ایک جنبش کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ کسی بستی پر مذہبی جنونی حملہ کر کے اُسے خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں لیکن ہمارے نتھنوں کو آگ میں جلتے ہوئے بدن سے اُٹھنے والی بو محسوس نہیں ہوتیکبھی مال و زر کے نشے میں چُورکوئی بدکردار کسی معصوم بچے پر کتے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمیں اس بچے کی دردناک چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔
کبھی نہتے بزرگوں کو رات کے اندھیرے میں سرِ بازار کھینچا جاتا ہے تو ہمیں اپنا کوئی بزرگ یاد نہیں آتا ، کبھی زندہ انسانوں کو اُٹھا کر آگ کی بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن ہم احساس سے عاری رہے۔
ہلاکو خان کے ساتھ جنگ میں ہلاکو خان کے ایک فوجی نے ایک مسلمان فوجی کو زمین پر گرایا اور اس کے سینے پر بیٹھ کر تلوار سے
اُ س کاگلا کاٹنے لگا لیکن اس کی تلوار مسلمانوں کو کاٹ کاٹ کر اتنی کُند ہو گئی تھی کہ کام کرنے سے منکرہوگئی ۔ اس تاتاری فوجی نے مسلمان سے کہا یہیں رہنا میں دوسری تلوار لے کر آتاہوں ۔ یقین کیجئے کہ وہ بغدادی بے حس اور بزدل مسلمان فوجی وہیں لیٹا رہااور اپنی گردن کا نذرانہ پیش کردیا۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔

ہو حلقہء یاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

یہ مسلمان علامہ اقبال کے شعر کے بالکل اُلٹ ایک دوسرے پر جھپٹتے اور نقصان پہنچاتے لیکن غیروں کے ساتھ دوستی کہ نہ صرف ہاتھ بڑھاتے بلکہ اپنی حمیت وغیرت بھی بیچ دیتے۔
لگتا ہے انہی مسلمانوں کی روح ہمارے اندر بھی سرایت کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ظالم کو ظلم کرنے کی عادت پڑ گئی ہے اور مظلوم کو ظلم سہنے کی ، ظالم میں ظلم کرنے کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے اور مظلوم کو بزدلی جکڑتی جا رہی ہے۔ ظلم کی انتہا اس وقت تو اپنی حدوں کو پار کر گئی جب سیا سی مخالفین پر برسنے کی عادی لاٹھیاں نہتے، بے ضرر اور اندھیروںمیں گھرے ہوئے نابیناؤں پر برسیں۔ وہ بیچارے تو ان راستوں سے بھی واقف نہیں جن پر وہ چل کر آئے تھے، وہ بے چارے تو مزدوری کے عوض ملنے والے کاغذ کے چند ٹکڑوں کی شکل سے بھی واقف نہیں جسے حاصل کرنے کے لئے وہ یہاں آئےتھے۔ وہ بے چارے تو ان افراد کی شکلوں سے بھی واقف نہیں جن کے بہکاوے میں آ کر انہوں نے سڑک پر آنے کی گستاخی کی تھی۔ ان بیچاروں کو یہ کہاں پتہ تھا کہ جس سڑک پر وہ کھڑے ہیں وہ ایک مخصوص قسم کے لوگوں کی ملکیت ہے۔ یہ سڑک احساناً عوام کو اس شرط پر دی جاتی ہے کہ جب مالکوں نے گذرنا ہو تو وہ خالی کر دی جائے گی۔
میں جب اس منظر کو سوچتا ہوں تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جو اپنے ہاتھ کی حفاظت نہ کر سکتا ہو وہ دوسرے کا ہاتھ تھام کر نکلا ۔ جب دھکا لگا تو اُس فٹ پاتھ پر گرا جس کی اس کی دنیائے احساس میں پتہ نہیں کیا شکل ہو گی۔ جب گرا ہو گا تو اس کے ذہن کے کسی تاریک کونے سے یہ صدا توآئی ہو گئی ، اُف کتنی سخت ہے ، کتنی جابر ہے۔ جب وہ تشدد سے بچنے کے لئے بھاگا ہو گا تو اندھیروں میں کتنی چیزوں سے ٹکرایا ہوگا ۔ اس نے بھاگنے کا سوچا ہو گا تو دماغ نے کہا ہوگا ان تاریک گلیوں میں کہاں بھاگو گے۔ وہ چیخا ہو گا چلایا ہو گا ، یہ تم مجھے کھینچ کر کہاں لے جا رہاہو۔
آج اندھیرا اتنا گہرا کیوں ہو گیا ۔ آنکھوں والو! کیاتم نے کبھی کچھ ساعتوں کا اندھیرا نہیں دیکھا۔ ہماری قسمت میں تو کاتبِ تقدیر نے ہمیشہ کاا ندھیرا لکھ دیا ہے۔ اور اس نے کہا ہوگا،’’ میں جب ایک پودے پر گرا تو مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پودے پر کانٹے ہوتے ہیں۔‘‘کسی لاٹھی نے جب کسی نابینا کے سر کو چھوا ہوگا تو اُ س کے سر سے لہو کا ایک فورا نکلا ہو گا جسے اُس نے ہاتھ سے چھوا ہو گا۔ اُسے کیا پتہ ہوگا کہ لاٹھی مارنے والے کے لہوکا بھی یہی رنگ ہو گا۔ بے رنگ یا سیاہ یا پانی ۔ پتہ نہیں وہ لہوکو کیا رنگ دیتا ہو گا۔ مارنے والے نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ آنے والے برسوں میں پیدا ہونے والا اُس کا بچہ اندھا بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ خود بھی اندھا ہو سکتا ہے۔ نہیں وہ اندھا نہیں ہو سکتا، طاقت کے نشے میں چُور اندھاکیسے ہو سکتا ہےوہ تو اندر سے اندھا ہے اُس کی روح اندھی ہے، اُس کا ضمیر اندھا ہے جو کسی اندھے کوکھڑا ہونے کے لئے ایک فٹ جگہ نہیں دے سکتا۔
ہمیں نابیناؤں کے احتجاج پر ایک دن منانا چاہئے۔ایک عالمگیر دن۔ لیکن نہیں ہمارے پاس تو کوئی ایک دن بھی نہیں بچا۔ ہمارے ہاں ہونے والے ظلم کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ۳۶۵ دنوں پر مشتمل ایک سال اس کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ ہاں ایک دن ضرور منا سکتے ہیں جس کے ذریعے ہم سارے دنوں کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ ’’ یوم بے حسی‘‘ ایک ایسا دن جس دن تقاریب کا خاص اہتمام کیاجائے ۔ لوگ جمع ہوں ، امیر و غریب دونوں جس پر ظلم ہوا اور جس نے ظلم کیا سب آئیں اور سب ایک دوسرے کو بتائیں کہ ہم نے کتنے ظلم سہے اور خاموش رہے ، ہم نے کتنے مظالم کے بارے میں سنا اور درگذر کیا ، ہم نےکتنے ظلم دیکھے اور چُپ رہے۔ ہم نے آہیں سنیں اور کان بند کر لئے، ہم نے جبر دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں ہم نے کتنوں پر ظلم کئے ، ہم نے کتنے لوگوں کے حوصلوں کو توڑا ، ہم نے کتنے دل دکھائے۔ اور پھر ان تقاریب میں لوگوں کو بے حس ہونے کی داد دینے کے لئے سند ،سرٹیفکیٹ اور نقد کیش کے انعامات بھی دئیے جانے چاہئیں تاکہ وہ اپنے عقیدے اور طور طریقوں پر قائم رہیں اور انہیں جلا بخشتے رہیں۔ بے حسی کے اس انعامی مقابلےکے لئے سب سے پہلے میں اپنا نام پیش کروں گا۔
کیونکہ میں وہ کبوتر ہوں جو یہ سمجھتا ہے اگر بلی مجھے دکھائی نہ دی تو مجھے کوئی خطرہ نہیں۔
بقول مصطفیٰ زیدی
سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مہذب خامشی اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: یومَ بے حسی

Post by ایم ابراہیم حسین »

اسلام علیکم
میں وہ کبوتر ہوں جو یہ سجھتا ہے اگر بلی مجھے دکھائی نہ دی تو مجھے کوئی خطرہ نہیں
سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مذب خاموشی اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
میں اس بارے میں آپ کو اور محترم مصطفیٰ زیدی صاحب اسلام علیکم پیش کرتا ہو
Post Reply

Return to “تبصرے”