سو (100) لفظوں کی کہانی کا سائیکل سوار

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

سو (100) لفظوں کی کہانی کا سائیکل سوار

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 16 جون 2014
[center]سو (100) لفظوں کی کہانی کا سائیکل سوار۔۔۔۔۔ہمارئے سیاستدان اور اُنکی تعلیم[/center]تحریر: سید انور محمود
علم یعنی تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتا ہے ، افسوس ہمارا سیاسی نظام اسطرح ترتیب دیا گیا ہے کہ عام لوگوں میں تعلیم کی کمی رکھی جائے تاکہ شعور کی کمی کی وجہ سے عام لوگ گھوم پھر کر انہی جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا انتخاب کریں۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت نے "روٹی، کپڑا اور مکان" کا نعرہ لگاکرپانچ سال لوٹ مار کی اور"روٹی، کپڑا اور مکان" کا حصول مشکل کردیا، ان سےتعلیم کی بہتری کی امید کرنا بیوقوفی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں پیپلز پارٹی کے پاس ایک بھی معیشت داں نہیں ہے۔ ایوب گوہر صرف انٹر پاس ہیں مگر پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی- اس وقت جو ہماری صف اول کی لیڈر شپ ہے اس میں نواز شریف ایم اے ہیں کسی بھی فیلڈ میں مہارت نہیں، زرداری صرف انٹر کیے ہوئے ہیں، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایم اے صحافت کیا ہوا ہے، عمران خان یورپ میں پڑھے ہیں ، اچھے بولرتھے مگر کسی بھی فیلڈ میں مہارت نہیں، الطاف حسین نے کراچی یونیورسٹی سے بی فارمیسی کیا ہوا ہے۔ مولانہ فضل الرحمان نے دینی مدرسے سے پڑھا ہے، سید منور حسن نے کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا ہے، اسفندر یار ولی کا معلوم نہیں برحال بی اے تو ہونگے، حنا ربانی کھر نے ایم بی اے کیا ہے مگر پاکستان کی وزیر خارجہ تھیں- دیکھ لیں کس قدر ماہر ہمارے رہنما ہیں- پاکستان میں صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی پارلیمنٹ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے زیرتسلط ہیں، باپ جاتا ہے توبیٹاآجاتا ہے، موروثی سیاست اب پاکستانی سیاست کا لازمی جز بنتی جارہی ہے، جاگیرداروں اور بدعنوانوں نے انتخابات کو ایک گھنائونہ کاروبار بنارکھا ہے۔ان میں سے بیشتر نااہل اور بدعنوان ارکان پارلیمنٹ لوٹ مارسے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہوتے ہیں جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارا ملک شاید دنیا میں اکیلا ہی ملک ہوگا جہاں 249 اراکین پارلیمنٹ جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر منتخب ہوئے۔ جبکہ سابقہ صدر زرداری کے دورمیں وفاقی وزیر برائے تعلیم کی بھی اسناد و ڈگریاں جعلی تھیں۔ پہلے تو وہ پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رکن تھے اب وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہے۔موجودہ حکومت کے دور میں بھی تعلیم پرکوئی خاص توجہ نہیں اسوقت ایسا ممکن نظر نہیں آتاکہ تعلیم کے شعبے میں ہم کچھ آگے بڑھینگے، یہ بات اور ہے کہ کوئی مہاتر ممد کی طرح ہمارا رہنما بن جائے جس نے 20 سال تک بجٹ کا 30 فیصد تعلیم پر خرچ کیا اور ملیشیا کو ایک پڑھا لکھا ملک بنادیا- ہمیں اس گندئے سسٹم میں رہتے ہوئے خود ہی کوشش کرنی ہوگی کہ ہماری آیندہ نسلیں تعلیم یافتہ ہوںتاکہ ہمارا ہر بچہ اور بچی باشعور ہوں۔ آئیے 100لفظوں کی کہانی کو پڑھتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں سائیکل والے استاد کون تھے۔

سو (100) لفظوں کی کہانی ۔۔۔۔۔۔سائیکل ۔۔۔۔۔۔مبشر علی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ کی سڑکوں پر بہت سی سائیکلیں دیکھ کر میرا دل مچل گیا۔
یوہان ڈی وٹ کالج کے سامنے میں ایک استاد سے سائیکل ادھار مانگ بیٹھا۔
انھوں نے بخوشی سائیکل میرے حوالے کی اور کالج میں چلے گئے۔
میں سائیکل لئے اُڑتا پھرا۔
جب تک وہ لوٹے، میرا ڈچ دوست بھی مجھے ڈھونڈتا ہوا پہنچ گیا۔
میں نے سائیکل واپس کی اور کار میں آبیٹھا۔
پروفیسر صاحب بھلے آدمی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
ان کا نام مارک روٹے ہے، ہفتے میں ایک دو لیکچر دیتے ہیں۔ دوست نے بتایا
ویسے یہ ہمارے وزیر اعظم ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو (100) لفظوں کی کہانی بشکریہ روز نامہ جنگ
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”