طالبان دہشت گردوں سے مذاکرات کب تک؟

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

طالبان دہشت گردوں سے مذاکرات کب تک؟

Post by سید انور محمود »

تاریخ : 12 جون 2014
[center]طالبان دہشت گردوں سے مذاکرات کب تک؟[/center]
تحریر: سید انور محمود
اگرقاتل اور بھڑیے جنہیں ہم درندہ کہیں تو غلط نہ ہوگا، وہ اگر ہمیں ماریں ، ہماری آنکھ نکال لیں یا ہمیں ڈس لیں تو ہمارئے حکمرانوں کو کیا کرنا چاہیے یہ حکمرانوں کے طرزعمل سے آپکو پتہ چل جایگا یا چل گیا ہوگا۔ لیکن میں ذرا مختلف ہوں شاید اُسکی وجہ یہ ہے کہ میں نہ تو سیاسی لیڈر ہوں اور نہ ہی حکمرانوں کا حصہ ہوں لہذا میں یسوع مسیح کی اس بات کو بلکل نہیں مانتا کہ "اگر کوئی تمارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کردو" اور نہ ہی گاندھی جی کے اس فلسفے کو مانتا ہوں کہ" اگر آنکھ کا بدلہ آنکھ ہو تو پوری دنیا اندھی ہو جائے گی"، مجھے اس مثال سے بھی سخت اختلاف ہے کہ "سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے"، میرا ماننا ہے کہ لاٹھی ٹوٹتی ہے تو ٹوٹے لیکن سانپ لازمی مرئے۔ لیکن ہمارئے حکمراں اور ہمارئے کچھ لیڈر یسوع مسیح کی اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ اگر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کردو، وہ ہر مرتبہ یہ سوچ کردوسرا گال آگے کرتے ہیں کہ شاید وہ اب نہیں مارئے گالیکن وہ پھر مارتا ہے۔ ہمارئے یہ حکمراں اور لیڈر گاندی جی کے بہت بڑئے بھگت ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر آنکھ کا بدلہ آنکھ ہو تو پوری دنیا اندھی ہو جائے گی اور یہ لوگوں کی آنکھیں نکلتی دیکھتے ہیں اور گاندھی جی کے بڑئے بھگت بننے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لاٹھی بچانے کی فکر میں کبھی بھی سانپ پر کاری وار نہیں کرتے، سانپ نکل جاتا ہے اور یہ لکیر پیٹتے رہتے ہیں پھر سانپ پلٹ کر اِن کو ڈس لیتا ہے اور یہ لاٹھی بچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، لاٹھی تو بچ جاتی ہے مگر یہ نہیں بچتے۔میں جنہیں درندہ کہہ رہا ہوں عام طور پر انہیں طالبان دہشت گرد کہا جاتا ہے۔

آٹھ جون 2014ء کی درمیانی شب کو کراچی کےجناح انٹرنیشنل ایرپورٹ پہ حکومت کی ناقص سیکوریٹی انتظام اورایک اندیشے کے مطابق انتظامیہ میں سے چند بکے ہوئے ارکان کی وجہ سےطالبان دہشت گردوں کی جانب سے ایرپورٹ پر حملہ ہواتوپھر سے دہشت گردی سے متعلق کئی سنجیدہ سوال سامنے آئے، جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت اور طالبانی دہشت گردوں کا مذاکرات کا ڈرامہ کب ختم ہوگا۔ جناح انٹرنیشنل ایرپورٹ پہ ہوئے حملے میں 26 افراد شہید ہوئے، ان میں سات افراد وہ بھی شامل ہیں جو دہشت گردوں کے حملے کے بعد کولڈاسٹوریج میں پناہ لیے ہوئے تھے لیکن بدقسمتی اور انتظامیہ کی لاپرواہی سے کولڈ اسٹوریج میں لگنے والی آگ کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے، سیکورٹی فورسز نے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جن کی تعداد دس تھی۔ دہشت گردوں کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ کراچی ایر پورٹ پہ کیا جانے والا حملہ حکومت پاکستان کو پیغام ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں اور اپنے بے قصور لوگوں کو مارے جانے کا جواب دے سکتے ہیں۔ دہشت گردوں کےترجمان کے مطابق کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کرکے تحریک طالبان نے اپنےسابق امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا ہے۔طالبان نے جو نہیں کہا وہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کارہیں جن میں بھارت خاصکر شامل ہے اسلیے کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اُسکے ایرپورٹ پرحملہ کرنے کا مقصد واضع طور پاکستان کی معاشی تباہی ہے۔ کسی بھی ایرپورٹ پر اترنے والے جہاز اُس ملک کی ایک بڑی آمدنی کا زریعہ ہوتے ہیں، اسکے علاوہ بین الاقوامی تجارت کو بڑھانے کا بھی زریعہ بنتے ہیں، بدقسمتی سے پہلے ہی بہت ساری ایرلائن پاکستان اور خاصکر کراچی نہیں آتیں، اس دہشت گردی کا کیا اثرہوتا ہے اور پاکستان پر اسکا کتنا معاشی اثر آتا ہے وہ عنقریب سامنے آجائے گا۔ کراچی ایرپورٹ پر حملے کے بعددہشت گردوں کے ترجمان شاہداللہ شاہد نےحکومت پاکستان کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ "ہم حکومت کو ایک اور موقع دیتےہیں اور اگر وہ بات چیت کے لئے تیار ہے تو ہم پھر بات کریں گے"۔ یقینا طالبان دہشت گردوں کے ہمدرد جن میں لکھاری، سیاسی جماعتیں ، نواز شریف اور اُنکے وزرا شامل ہیں دہشت گردوں کی اس پیش کش پر خوشی کا اظہار کرینگے کہ دہشت گردی کے باوجود طالبان نے بات چیت کے دروازئے بند نہیں کیے ہیں اور حکومت کو بات چیت کےلیے ایک اور موقعہ دیا ہے۔

کراچی ایرپورٹ پہ دہشت گردانہ کارروائی سے ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ ان مذاکرات کے نتائج پر کس قدر اعتبار کیا جائے جو حکومت پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ کیے تھے۔ درحقیقت بات وہی ہے جو بہت سے مبصرین نے کہی تھی کہ دہشت گردوں کا مذاکرات کرنے پر رضامند ہونا ایک ہی مقصد کے تحت تھا کہ دہشت گردوں کے آقاوں کا خیال تھا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد دہشت گردوں کو اپنی صف بندی نئے سرے سے کیے جانے کی خاطر وقت چاہیے تھا تاکہ اس دوران دہشت گردوں کی طاقت بڑھا لی جائے۔یہ طالبان کا پرانا حربہ ہے جسکو وہ ابھی تک بڑی کامیابی سے استمال کررہے ہیں۔ گذشتہ سال ابھی نواز شریف برسر اقتدار نہیں آئے تھے لیکن اُنکوطالبان نے امن مذاکرات کی پیش کش کی ہوئی تھی کہ ایک امریکی ڈرون حملے میں دہشت گردوں کا ساتھی ولی الرحمان جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس لاکھ امریکی ڈالرمقرر کی تھی مارا گیا۔ 4 دسمبر 2005ء کو پریڈ گراؤنڈ راولپنڈی میں طالبان دہشت گردوں نے ایک مسجد پر حملہ کر کے چالیس افراد کو شہید کیا جن میں 17 نمازی بچے بھی شہید ہوئے اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوا۔ شقی القلب طالبان نے مسجد پر حملہ اور اس قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ ذمہ داری دہشت گرد طالبان کے جرائم پیشہ رہنماء ولی الرحمن نے قبول کی تھی۔ اُسکی ہلاکت کے بعدطالبان دہشت گردوں نے برسرِ اقتدار آنے والی نواز شریف کی حکومت سے امن مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کا اعلان کردیا تھا، لیکن نواز شریف نے حکومت بنانے کے بعداور ستمبر میں تمام پاکستانی سیاسی جماتوں کی حمایت حاصل کرکے جب مذاکرات کی پیش کش کی تو کالعدم تحریک طالبان نے اسکوقبول کرلیا۔یکم نومبر 2013ء کوآٹھ کمروں کے مکان میں اپنی دوبیگمات کے ساتھ پُرآسائش زندگی گزارنے والے ہزاروں معصوم پاکستانی شہریوں کے قتل میں مُلوث اور پاکستانی ریاست کے باغی دہشت گرد طالبان پاکستان کے لیڈر حکیم اللہ محسود ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا توطالبان نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات سے انکار کردیا تھا، اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے منتظرتھے تاہم حکومت نے انہیں حکیم اللہ محسود کی لاش تحفے میں دے دی،حالانکہ یہ تحفہ اُن کے بڑئےآقا امریکہ نے دیا تھا۔ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان بھی حیران اور پریشان تھے، اس لیے کہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار پوری قوم سے مسلسل جھوٹ بول رہے تھے، اُس وقت قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "دوہفتوں میں کافی حدتک بات آگے جاچکی تھی،ڈرون حملے سے پہلے طالبان کوآگاہ کیاتھاکہ ایک وفدآپ کے پاس بھیجناچاہتے ہیں،حکومت جووفدبھیج رہی تھی ان میں علمائے کرام شامل تھے"، جب اُن سے وفد کے ارکان کے نام معلوم کیے گے تو وہ بتانہ سکے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا ایک اجلاس 27 جنوری 2014ء کو ہواجس میں تقریبا 90 فیصد ارکان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کی، اس اجلاس کے بعد عام خیال یہ ہی تھا کہ اب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوگا مگر افسوس اسکے صرف دو دن بعدنواز شریف نےقومی اسمبلی میں خطاب کے دوران طالبان سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جس میں عرفان صدیقی، میجر (ر) محمد عامر، رحیم اللہ یوسفزئی ، اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کو شامل کیا گیا، بقول وزیراعظم اس کمیٹی کی تشکیل اس لیے کی ہے کہ امن ہماری خواہش نہیں، منزل ہے۔دو دن بعد طالبان نے بھی اپنی ایک پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جس میں جے یو آئی س کے رہنما مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جے یو آئی ف کے رہنما مفتی کفایت اللہ شامل تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جے یو آئی ف کے رہنما مفتی کفایت اللہ نے اس کمیٹی میں شمولیت سے انکار کردیا۔ غور طلب بات یہ ہےکہ دونوں طرف کی کمیٹیوں میں سوائے رحیم اللہ یوسفزئی باقی سارئے طالبان کے ہمدرد ہیں۔ دونوں طرف کی کمیٹیوں کی ملاقات ایسے ہورہی تھیں جیسے دو ملکوں کے وفود کی ہوتی ہیں، دونوں کمیٹیاں پورئے ملک میں اپنی مشہوریت میں لگی ہوئی تھیں، مولانا سمیع الحق کی پریس کانفرس پر پریس کانفرس ہورہی تھیں، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم روز کسی نہ کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں موجود ہوتے، اسکے علاوہ روزانہ مذاکرات پر ایک اخباری بیان پروفیسر ابراہیم کے معمولات میں شامل ہوتا جبکہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیزبرقعے میں فرار کو عین اسلامی قرار دیتے رہے، پاکستان کے آئین سے منکر اور مذاکرات کو چھوڑکر اپنی سیاسی دوکان کو دوبارہ کھول بیٹھے اور آخرکار طالبان کمیٹی سے علیدہ ہوگے، اُن کی جگہ مولانا یوسف شاہ کو کمیٹی کے کوآرڈینیٹر کے طور پر شامل کیا گیا۔ اس درمیان میں حکومت اور طالبان کی جانب سے نام نہاد جنگ بندی کا اعلان بھی ہوا، جس کے باوجوددہشت گردی جاری رہی ، اب ہر دہشت گردی سے طالبان انکار کرتےاور ہر ہونے والے حملے کی ذمہ داری احرار الہند نامی ایک غیر معروف دہشت گرد گروپ تسلیم کرتا تھا۔ جرائم کاریکارڈ رکھنے والی ایک ویب سائٹ "ساٹپ" کے مطابق جنوری 2014ء سے 8 جون 2014ء تک پاکستان میں دہشت گردانہ تشدد میں اموات کی کل تعداد 1893 ہے، جس میں 859 عام شہری، 277 سکیورٹی فورسز کے ارکان اور 757 دہشت گرد شامل ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف صاحب اگرآپ واقعی پاکستان سے مخلص ہیں تو آپکو یہ گومگوں کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگااور دوٹوک فیصلہ کرنا ہوگا کہ کہ آپ یسوع مسیح کو نہیں مانتے اور اپنا دوسرا گال پیش کرنے کے بجائے اسکو سبق سکھاینگے جس نے آپکے گال پر تھپڑ مارا ہو، آپ گاندھی جی کےبھگت بھی نہیں ہیں اورآنکھ کے بدلے آنکھ پر عمل کرینگے، آپ سانپ پر کاری وار کرینگے اور اسکو نہیں چھوڑینگے چاہے اس میں لاٹھی ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے۔ہمیں پاکستان اور اسکے دوستوں اور دشمنوں میں امتیازی فرق کرنا ہوگا، پاکستان کے لیے جانیں دینے والوں کو شہید کہنا ہوگا اوردہشت گردوں کو ”کتے کی موت مارئے گے“ لکھنا اور کہنا ہوگا۔ دہشتگردی پاکستان کی وہ بیماری ہے جسکا علاج نام نہاد "مذاکرات" سے کیا جارہا ہے مگر اب صاف نظرآتا ہے کہ یہ مرض اسقدر بڑھ چکا ہے کہ آپریشن کے علاوہ شاید کوئی چارہ نہیں۔ اب جبکہ طالبان تو کھل کر اپنی دہشت گردی کا اعلان کررہے ہیں اور مذاکرات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے تو پھر آپریشن لازمی ہے لیکن اگر آپریشن نہیں تو پھرنواز شریف صاحب "طالبان دہشت گردوں سے مذکرات کب تک"؟ ۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
Post Reply

Return to “سیاست”