اردومحفل پر تعارف اور انٹرویو

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

اردومحفل پر تعارف اور انٹرویو

Post by خاورچودھری »

یہ انٹرویو اردو محفل پر5جولائی 2008کو شائع ہوا۔ محفل کے شکریے کے ساتھ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔(خاور)

تعارف اورانٹرویو:

سجاد علی

(تعارف)

خاورچودھری منجھے ہوئے صحافی اور ادیب ہیں۔اُن کی تحریریں ملک کے کئی ایک ادبی جراید میں کئی برسوں سے شائع ہورہی ہیں۔علاقہ چھچھ ایسے خطے میں جہاں علمی وادبی حوالے سے کوئی فضا ہی نہیں ہے ،وہ نہ صرف اپنی علمی و ادبی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے شعروادب کے فروغ کے لیے ادبی رسالے اور اخبارات کااجرا کیااور ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
خاورچودھری نے زمانہ ٴ طالب علمی میں ہی لکھنااورچھپنا شروع کردیا تھا۔انھوں نے ڈائجسٹوں میں کہانیاں اور مختصرمضامین لکھے ۔نعتیں کہیں جو 1990ء میں شمعِ فروزاں کے عنوان سے شائع ہوئیں۔اُس وقت خاورچودھری فنِ شاعری سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔کیوں کہ مقامی طور پر کوئی باقاعدہ فضا نہیں تھی جس سے انھیں سیکھنے میں مدد ملتی۔ کتاب چھب جانے کے بعد ان کارابطہ کراچی کے معروف شاعرڈاکٹرمبارک بقاپوری(مرحوم) سے ہوا۔اُن سے خط و کتابت کے ذریعے انھوں نے علم ِعروض میں راہنمائی لی اوراپناسفرجاری رکھا۔اس دوران وہ راولپنڈی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار” راولپنڈی ویوز“ کے ساتھ بہ طور بیوروچیف منسلک ہوگئے۔اس اخبار میں اُن کا کلام اور کالم چھپتے رہے۔انھی دنوں وہ کھاریاں سے چھپنے والے”کھاریاں ٹائمز“ اور”قلم قافلہ“ کے بھی بیوروچیف مقرر ہوئے۔ بعدازاں جب وہ1994ء میں کراچی گئے تو وہاں ڈاکٹرصاحب سے مسلسل ملاقاتوں میں ان کی قوتِ گویائی مزید نکھر کر سامنے آئی۔اس عرصہ میں خاورچودھری نے مشاعروں میں بھی شرکت کی مگراُن کی زیادہ توجہ چھپنے کی طرف ہی رہی۔
کراچی سے پلٹے تواسلام آباد کی ایک نیوز ایجنسی” ایشین نیوز نیٹ ورک“ کے ساتھ بہ طورنامہ نگار منسلک ہو گئے۔کچھ عرصہ خدمات سرانجام دیں۔ پھر کنارہ کش ہو گئے۔کیوں کہ اس پلیٹ فارم سے وہ اپنے خطے کی مناسب انداز سے خدمت نہیں کر سکتے تھے۔اس حوالے سے وہ اپنے نوجوان دوست فہیم احمد سے اکثرگفتگو کرتے۔اُن کا خیال تھا جب تک ”حضرو“ شہر سے موٴثرآوازبلند نہیں ہوگی ملکی منظرنامے میں ہماری شناخت مشکل ہوگی۔ان دوستوں کے درمیان طے پایا کہ ” تقلیب“ کے نام سے ادبی رسالہ شروع کیاجائے جواس کمی کوپورے کرنے کی کوشش کرے گا۔لیکن یہ منصوبہ نہ شروع ہو سکا۔کچھ عرصہ بعدان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انھوں نے شہر سے اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے حکومت سے باقاعدہ اجازت لی اور 14اگست1998ء کو یہاں سے پہلا باقاعدہ ہفت روزہ اخبار” حضرو“ نکالا۔کچھ مقامی دوستوں کو ساتھ ملایامگروہ زیادہ عرصہ ساتھ نہ دے سکے اور یہ ”ون مین شو“کرتے رہے۔ایک سال تک کامیابی سے حضرواخبارچلایا ۔اسی عرصہ میں انھوں نے اپنے استاذمرحوم کی شاعری کا مجموعہ” جیون صحرا“ کے نام سے شائع کیا۔ اس مشنری اخبارنے خاور# کوسخت مالی بحران کا شکار کردیا۔ اس لیے انھوں نے محمداعظم خان کواخبار میں شریک کرلیامگریہ شراکت انھیں مزید مسائل میں الجھا گئی ، یوں انھوں نے اخبار سے علیحدگی اختیارکرلی۔
سال بھر مقامی صحافت سے کنارہ کش رہے مگرقومی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔تاہم یہ کنارہ کشی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور انھوں نے ایک ادبی رسالہ” سحرتاب“ جاری کردیا۔اس رسالے میں برصغیر کے نام ورلوگوں کی نگارشات شامل کیں مگر یہاں انھیں خسارے کے سوا کچھ نہ ملا۔صرف دو ہی شمارے شائع کرنے کے بعد اپنی پوٹلی سمیٹ کر بیٹھ گئے۔
سن2000ء وہ ایک بارپھرصحافتی میدان میں اُترے اوراَب ” تِیسرارُخ“ کے نام سے ہفت روزہ شروع کیا۔اس اخبار کواپنی سنجیدگی کی بناپر انفرادیت حاصل ہوئی۔مقامی طورپرتواس اخبارنے بہترین خدمات انجام دی ہیں قومی سطح پراس نے ادبی لوگوں سے موٴثر رابطہ قائم کرکے حضرو کی شہرت کو چارچاند لگائے۔اخبارکے ادبی ایڈیشن کو زبردست پذیرائی ملی۔اخبار نے ڈاکٹرانورسدید،مشکورحسین یاد،قاضی جاوید،اُمراوٴطارق،احمدصضی رصدیقی،عذرا اصغر، ڈاکٹرمرزاحامدبیگ، ڈاکٹرانعام الحق جاوید،اکبرحمیدی، سلطان سکون اور آصف ثاقب جیسی نام ور شخصیات سمیت نصف صد کے قریب ادیبوں کے انٹرویوشائع کیے۔ملک بھر سے ادیب اپنی تحریریں بھیجتے۔یہی دن تھے جب اخبار کو ہفت روزہ سے روزنامہ میں بدل دیا گیا۔کچھ عرصہ روزنامہ ” تِیسرارُخ“ شائع ہوتا رہا۔محدودعلمی پس منظر کے حامل شہر میں مقامی روزنامہ کی کھپت مشکل تھی۔اس مرتبہ خاورچودھری نے راولپنڈی کارُخ کیا اور وہاں سے روزنامہ” تعلّم“ جاری کر دیا۔ اور تِیسرارُخ کو واپس ہفت روزہ میں تبدیل کردیا۔
ڈیڑھ سال تک روزنامہ تعلّم اور ہفت روزہ تیِسرارُخ محدود پیمانے پر شائع ہوتے رہے پھر ان کی اشاعتوں میں تعطل آنے لگا۔جمع پونجی ٹھکانے لگانے کے بعدخاورچودھری ایک بار پھر پرسمیٹ کر بیٹھ گئے مگریہ اخبارات کسی نہ کسی طرح چھپ رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تیسرارُخ نے معروف علمی شخصیت ڈاکٹرارشدمحمودناشادکے حوالے سے خصوصی نمبر بھی شائع کیا۔
سحرتاب کے اجرا کے ساتھ ہی انھوں نے ”سحرتاب پبلی کیشنز“ کے نام سے اشاعتی ادارے کا ڈول ڈالا۔ اس ادارے نے”جیون صحرا“ ، ”دوچاردل کی باتیں“،”بغیرتیرے“،”خواب ،کرچیاں اور مسافر“،”ٹھنداسورج“ اور ”چراغ بہ کف“ جیسی کتابیں شائع کیں۔اشاعتی ادارے کایہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔تیسرارُخ میں چھپنے والے مشاہیر کے ادبی انٹرویوز کو یک جا کر کے شائع کرنا بھی ادارے کے منصوبوں میں شامل ہے۔
سن2005ء میں خاور# چودھری نے قومی اخبارات کے لیے باقاعدہ کالم نویسی شروع کی۔اس عرصہ میں ”چراغ بہ کف“ کے عنوان سے اُن کے کالم روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ اوصاف،روزنامہ اذکار،روزنامہ اسلام، روزنامہ ہمدرد میں شائع ہوتے رہے۔جنگ میں بھی ان کے کچھ کالم شائع ہوئے۔مئی2005ء میں روزنامہ”اسلام “ کے ساتھ باقاعدہ طورپر منسلک ہوگئے اور بامعاوضہ کالم لکھناشروع کیا۔ہردوسرے دن ان کا کالم چھپنے لگا۔اخبار نے انھیں اضافی ذمہ داری دے کر اٹک ضلع کے لیے بیوروچیف بھی بنادیا۔تب سے اب تک ان کے ہزاروں کالم شائع ہوچکے ہیں۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
کچھ عرصہ پہلے خاورچودھری نے انٹرنیٹ پر بھی لکھنا شروع کیا۔وہ معروف براڈ کاسٹرصفدرہمدانی کی ویب سائٹ کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں اور بلاگ بھی۔علمی ادبی ویب سائٹ ”القلم“ کے شعبہ اَدب کے مدیرہیں اور”اُردونامہ“ ویب سائٹ کے ناظم۔حال ہی میں ”اُردو محفل“ نے اُن کے لیے سال کے بہترین لکھاری کا اعلان کیا ہے۔
خاورچودھری حضروپریس کلب(رجسٹرڈ) کے جنرل سیکرٹری ہیں۔اس سے پہلے وہ نائب صدرکی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ادبی تنظیم بزمِ علم وفن کے بھی سیکرٹری جنرل ہیں۔
خاورچودھری نے ادبی میدان میں اپنے کام کاآغازکہانی نویسی اورشعرگوئی سے ایک ساتھ کیا۔شروع میں انھوں نے نعتیں کہیں۔پھرغزل اورنظم کی طرف آگئے۔بعد میں ہائیکو،ماہیا،دوہااورواکاب ھی کہے۔نثری اَدب میں انھوں نے پہلے ایک طویل ناولٹ” زنگ آلودخواہشیں “لکھا،جو1996ء کوایک ڈائجسٹ میں شائع ہوچکا ہے۔پھرافسانے بھی لکھے۔
خاورچودھری کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بیسیوں علمی و ادبی شخصیات نے مضامین لکھے اورتاثرات بیان کیے۔ان میں پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری،محسن بھوپالی،سلطان جمیل نسیم،سلطان سکون،پروفیسرڈاکٹرارشدمحمو دناشاد، آصف ثاقب،عذرا اصغر،محمدحامدسراج،ملک حق نوازخاں،احسان بن مجید،دُردانہ نوشین خان، پروفیسرہارون الرشید، پروفیسرملک محمداعظم خالد،طفیل کمالزئی اورپروفیسرعامرسہیل بھی شامل ہیں۔حال ہی میں انڈیا سے شائع ہونے والے سہ ماہی ”سمت“ نے خاورچودھری کے حوالے سے خصوصی گوشے کی اشاعت کا اعلان کیا ہے۔(مذکورہ گوشہ شائع ہوچکا ہے)
خاورچودھری کی تصانیف یہ ہیں:
(1) خواب،کرچیاں اور مسافر (کالم/مطبوعہ نومبر2001ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(2) ٹھنڈا سورج (شاعری/مطبوعہ جنوری2006ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(3) چراغ بہ کف (کالم/ مطبوعہ نومبر2007ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(4) چیخوں میں دبی آواز (افسانے/جنوری2008ء۔مثال پبلشرز،فیصل آباد)
غیرمطبوعہ تصانیف:
(1) پریم جل (دوہا)
(2) نہ جنوں رہا (غزلیات)
(3) امید (واکا)
(4) زنگ آلودخواہشیں (ناولٹ)
(5) گفتگوئے یار (انٹرویوز)
________________________
Last edited by خاورچودھری on Sat Jul 26, 2008 10:51 am, edited 1 time in total.
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

دوسرا حصہ

Post by خاورچودھری »

سجادعلی

انٹرویو

اردومحفل: کچھ اپنے حوالے سے بتائیے۔

خاور۔۔۔ میں15۔اپریل 1972ء کوحضرومیں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا ۔خاندا ن میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابرتھا۔ادب و صحافت میں تو اَب بھی میرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔کتابیں پڑھنے کاشوق تھا،خرید نہیں سکتا تھا،ادھارلے کر پڑھنے کی عادت نہیں تھی، بلدیہ کی لائبریری میں موجود کتابیں شوق کی تکمیل کے لیے ناکافی تھیں۔محنت مزدوری کرتا تھا اور ایک آدھ کتاب خریدلیتا تھا۔یوں سمجھیے کہ گھٹ گھٹ کراس سفرکاآغاز کیا۔ والدگرامی سخت طبیعت (اب بھی ہیں)تھے۔محفلوں میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔حضروشہر میں ادبی حلقہ انتہائی محدودتھااورشہرسے باہرجاناکارِ محال تھا۔

اردومحفل: اس طرف کب آئے؟

خاور۔۔۔ 1986ء میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھاجب پہلی بارتک بندی کی۔مختلف قلمی ناموں سے ڈائجسٹوں میں لکھنا شروع کیا۔

اردومحفل: کیوں لکھنا شروع کیا؟

خاور۔۔۔کیوں کا توآج تک کوئی بھی جواب نہیں دے سکا ہے، میں کیسے دے سکتا ہوں۔مجھے یوں محسوس ہوتا تھا اگر میں لکھوں گا نہیں تو پاگل ہوجاوٴں گا۔میرے من بھیتر میں کوئی شخص چیختاچلاتا اور مجھے لکھنے پر مجبورکرتا۔شروع میں ساری ساری رات جاگ کر گزارتا۔ایک آدھ مصرع ہوجاتا تودوسرے مصرعے کی طلب میں صبح ہوجاتی۔اب بھی ایسا ہوجاتا ہے۔ ایک ایک شعر مہینوں ذہن میں اپناسفرجاری رکھتا ہے۔

اردومحفل: آپ مختلف اصناف برت رہے ہیں،کیاان میں حدبندی ہوسکتی ہے؟

خاور۔۔۔ ہرصنف کا اپنا مزاج ہے۔غزل کا اپناذائقہ ہے نظم اورگیت کااپنا۔غزل ہمارے یہاں زیادہ مقبول ہے اور عوام وخواص اسے پسندکرتے ہیں۔اس کی مٹھاس اورلوچ دلوں کواپنی طرف کھنچتی ہے۔اس کاخاص سانچہ ہے،جسے اپناکرہی غزل کہی جاسکتی ہے۔اس میں نام کمانابہت بڑاکام ہے۔قیام ِ پاکستان کے بعدناصرکاظمی نے غزل میں اپنارنگ جمایا۔ موجودہ عہد میں احمدفرازاپنے خاص اسلوب اورشیرینی کے ساتھ غزل کی آبیاری کر رہے ہیں۔ظفراقبال نے غزل میں لفظیات کونیارنگ دیا۔ناصرشہزادنے ہندی الفاظ بروئے کارلاکرغزل کو گیت کے قریب لانے کی کوشش کی۔چند ایک نام اور ہوں گے جوغزل میں خود کومنواسکے ہیں۔
نظم بھی مشکل صنفِ سخن ہے۔اس میں میراجی،ن م راشدہی زیادہ کامیاب ہوئے۔حدتوہرصنف میں ہوتی ہی ہے۔

اردومحفل: آپ کس صنف میں خود کو کامیاب تصورکرتے ہیں؟

خاور۔۔۔ کامیاب ہونابہت بڑی بات ہوتی ہے۔ایک دنیاادب میں موجود ہے اور ہرکوئی پوری قوت اورمشاہدے سے تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہے۔غزل اورنظم کے میدان میں تواتنے لوگ ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہے۔میں اگریہ کہوں کہ میں ان اصناف کوٹھیک طرح برت رہاہوں تویہ میری کامیابی ہے۔

اردومحفل: آپ کوذاتی طورپر کون سی صنف پسند ہے؟

خاور۔۔۔یہ موڈ کی بات ہوتی ہے۔میں نے اپنے ابتدائی ایام میں صرف غزلیں کہیں،پھرطبیعت نظم کی طرف مائل ہوئی، ایک زمانہ یہ آیا کہ میں نے صرف ہائیکو اور ماہیے لکھے۔اس دوران کبھی کبھاردوہے اورغزل بھی ہوجاتے تھے۔اب میں دوہے اور واکا لکھ رہا ہوں۔مجھے مختلف اصناف میں لکھنے سے لطف آتا ہے۔

اردومحفل: دوہا تو بہت کم لکھا جارہاہے،آپ اس طرف کیوں مائل ہوئے؟

خاور۔۔۔دوہا اتنا بھی کم نہیں لکھا گیا۔جمیل الدین عالی نے توباقاعدہ دوہانگاری میں نام کمایا۔یہی نہیں انھوں نے اُردو دوہے میں جدت پیدا کی اوردوہے کی بنیادی ہئیت کو ہی بدل کر رکھ دیا۔الیاس عشقی،پرتوروہیلہ،تاج قائم خانی،ڈاکٹرطاہر سعید ہارون دوہے کابڑانام ہیں۔اورلوگ بھی ہیں جودوہاکہہ رہے ہیں۔
مجھے دوہاشروع سے پسندہے۔اس کی دو وجوہات ہیں،ایک تو یہ کہ یہ خالصتاً اس مٹی کا اپنا ہے دوسری یہ کہ اس میں جوبات بیان کی جاسکتی ہے وہ کسی اورصنف میں ناممکن ہے۔ہمارے صوفیا نے اس صنف سے اتنا بڑا کام لیا ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔

اردومحفل: واکا کیا ہے؟

خاور۔۔۔یہ ایک جاپانی صنف سخن ہے۔اس کی ہئیت ہائیکو سے مختلف ہے۔اس کا وزن ”پانچ سات پانچ سات سات“ ہے۔اس کے مضامین میں بھی تنوع ہے۔پاکستان میں چندایک لوگوں نے اسے توجہ دی ہے۔

اردومحفل: آپ کے ہائیکوکیسے ہیں؟

خاور۔۔۔ میں نے ہائیکو کے مروجہ وزن کے علاوہ مساوی الاوزان ہائیکو بھی کہے ہیں۔اس کے مضامین میں بھی مختلف رنگ یک جاکرنے کی کوشش کی ہے۔موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ ساتھ اس کے لہجے میں تغزل اُتارنے کی کوشش بھی کی۔صرف اس طرح نہیں کہ ہم قافیہ بنا لیا جائے بلکہ لفظیات ایسی استعمال کی ہیں کہ جس سے غنائیت پیدا ہو۔

اردومحفل: حال ہی میں آپ کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا۔اس کے حوالے سے کچھ بتائیے۔

خاور۔۔۔کہانی سے تو میرا تعلق بہت پرانا ہے۔یہ افسانے میں نے سن2000ء کے بعد لکھے ہیں۔عام ڈگر اور موضوعات سے ہٹ کر لکھے گئے یہ افسانے ایک نیاتجربہ ہیں۔ میں نے واقعات کو براہِ راست لکھ دیاہے۔ میں نے کوشش کی کہ زندگی کی حقیقتوں کو قریب سے دیکھا جائے۔اس تجربے کو پذیرائی بھی مل رہی ہے اور اس کی مخالفت بھی ہورہی ہے۔
افسانے پر بہت زیادہ بحث ہوچکی ہے اور اَب بھی جاری ہے۔میں سمجھتا ہوں یہ افسانہ نگارپر منحصر ہے کہ وہ اپنی بات کس طرح کہتا ہے اوراپنے مشاہدات اورتجربات میں قاری کو کیسے شریک کرتا ہے۔لکھنے والے کے سامنے صرف خاص لوگ ہوں گے تو افسانہ اور طرح ہوگا اور اگر وہ اپنے تجربے میں ہر سطح کے افراد کوشامل کرناچاہے گاتوپھراندازمختلف ہوگا۔ میں نے ہر سطح کے لوگوں کے لیے لکھنے کی کوشش کی ہے۔

اردومحفل: ناول کی طرف رجحان کم ہے۔ کیوں؟

خاور۔۔۔ ناول لکھنا بہت توجہ مانگتا ہے۔یہ مشکل کام ہے۔اول تو کم لوگ اس طرف جاتے ہیں اورجوجاتے ہیں اُنھیں قاری نہیں ملتا۔ میں نے ایک طویل ناولٹ1994ء میں لکھا جو96ء میں شائع ہوا۔

اردومحفل: آپ شاعری اورنثر میں کس سے متاثر ہیں؟

خاور۔۔۔متاثرکرنے کے لیے کیفیت ہوتی ہے۔بعض اوقات کوئی نیالکھنے والا متاثرکرجاتا ہے اور بعض اوقات کسی نام وَرکالکھا ہوا بھی متاثر نہیں کرتا۔پسند کی بات اور ہے۔شاعری میں مجھے ناصرکاظمی اورمنیر نیازی جبکہ نثر میں راجندر سنگھ بیدی،غلام عباس اوراشفاق احمدپسند ہیں۔

اردومحفل: آپ کے کالموں کے دومجموعے شائع ہوئے،ان کوکیاحیثیت دیتے ہیں؟

خاور۔۔۔یقیناصحافتی تحریروں کا ادبی نگارشات سے مقابلہ نہیں ہوسکتا،لیکن ان کا اپنامتعین اورمانا ہوا مقام ہے۔صحافتی تحریریں ہماراآج محفوظ کرکے تاریخ مرتب کر رہی ہیں۔کل لوگ ان کالموں اور مضامین سے اپنے ماضی کودیکھ سکیں گے۔ میں اپنے ان مجموعوں کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ میری کوشش کامیاب رہی ہے۔میں امیدرکھتا ہوں میری کتابیں حوالے کے طورپر کام آئیں گی۔

اردومحفل: آپ بہ یک افسانہ اور کالم لکھ رہے ہیں،ان کی فضا کیسے بنتی ہے؟

خاور۔۔۔ کالم کی اپنی فضا ہے،افسانے کی اپنی،کالم اُن موضوعات کافوری احاطہ کرتا ہے جودرپیش ہوتے ہیں جب کہ افسانے کا معاملہ دوسرا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ کالم فوری بھوک مٹاتا ہے جبکہ افسانہ”شب دیگ“ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہانیاں اور واقعات کئی کئی عرصہ تک ذہن میں پکنے کے بعدخاص وقت پر افسانے کارُوپ دھارتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ میرے اب تک ہزاروں کالم چھپ چکے ہیں جب کہ افسانوں کی تعداد انگلیوں پرشمار ہوسکتی ہے۔

اردومحفل: آپ نے تنقیدی مضامین بھی لکھے،تنقید کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

خاور۔۔۔میں نے تنقیدی تو نہیں تاثراتی مضامین لکھے ہیں۔تنقید کے میدان میں چند ایک لوگوں نے بڑا کام کیا ہے مگر اب طویل خاموشی ہے۔یونی ورسٹیوں میں بھی مکھی پر مکھی بٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔گھسے پٹے اندازسے کا م ہو رہا ہے۔ روایتی تبصرہ نگاروں کے سامنے ذاتی پسند کے سواکچھ نہیں۔اسی تخلیق کار کو ہاتھ لگایا جاتا ہے جس سے ان کا تعلق ہو۔ خوشامد اوراقرباپروری کابازارگرم ہے۔

اردومحفل: آپ نے اپنے اخبار میں سرکاری ادبی اداروں کے حوالے سے بہت کچھ لکھا۔کیوں؟

خاور۔۔۔ سرکاری اداروں اور ان کے تحت شائع ہونے والے جرائدپر مخصوص گروہ قابض ہے۔وہی لوگ بار بار نظر آتے ہیں جوان اداروں تک ذاتی رسائی رکھتے ہیں۔وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے دفتروں سے باہر جھانک کر دیکھ سکیں۔شاکرکنڈان نے ہمارے اخبارتیسرارُخ کوانٹرویو میں بتایاتھاکہ اکادمی ادبیات والوں کوبنگلہ دیش کے قومی شاعر کانام تک نہیں معلوم تھا۔یہ ادارے صرف مخصوص لوگوں کے کام آتے ہیں۔عام لوگوں سے توایک کتاب بھی نہیں خریدتے۔اگرکوئی بھیج دے تواُن کے پاس پڑھنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا۔

اردومحفل: سرکاری اعزازات کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

خاور۔۔۔میں کیا کہوں گا ،جن لوگوں کو ایوارڈ ملے ہیں وہ بھی مطمئن نہیں۔مشکورحسین یاد صاحب نے مجھ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ ”کسی نے میرے شاگردمیاں نواز شریف کے کان میں بروقت ڈال دیا ورنہ مجھے ایوارڈ نہ ملتا۔“ان ایوارڈکی حیثیت اُن ریوڑیوں کی سی ہے جو اندھا بانٹتا ہے۔

اردومحفل: مضافاتی ادیب کی حق تلفی ہوتی ہے؟

خاور۔۔۔تو کیا مراکز میں رہنے والے تمام ادیبوں کو حق مل گیا ہے؟شہروں میں موجودایسے لوگ ہیں جنھیں کوئی پوچھتا ہی نہیں اور مخصوص گروہ ہرجگہ چھایا ہوا ہے۔مضافات میں رہنے والے تو ہوتے ہی بے چارے ہیں۔وہ توٹھیک طرح سے اپنا تعارف بھی نہیں پہنچا سکتے۔
میں ذاتی طورپر یہ سمجھتا ہوں کہ جس میں دَم خم ہوتا ہے وہ اپناآپ کہیں بھی منوا سکتا ہے۔حق تلفی کی بات وہی ہے جوپہلے میں نے کہی۔

اردومحفل: ادبی جرائدکے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

خاور۔۔۔ فنون اور اوراق تواب شاید ہی شائع ہوں،دیگرجوچھپ رہے ہیں ،میں سمجھتا ہوں وہ جہاد کررہے ہیں۔ایسا جہاد جس میں مالی بحران شدیدتر ہے۔یہ سراسرگھاٹے کا کام ہے۔کوئی سرپھراشروع کردے توپھرمسلسل چھاپنامشکل ہو جاتا ہے۔سرکاری اشتہارنہیں ملتے،کمپنیاں بھی توجہ نہیں دیتیں،پڑھنے والے کم ہیں اورجوپڑھتے ہیں وہ خریدتے نہیں۔ لکھنے والوں کا اپنا رونا ہے۔وہ کہتے ہیں لکھتے ہیں یہ کیا کم ہے کہ پھرخریدیں بھی۔یوں کہیے کہ یہ رسائل پلِ صراط سے گزرتے ہیں۔پھرانٹرنیٹ نے رہی سہی کسرنکال دی۔نئے لوگ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے نیٹ پروقت گزارتے ہیں۔ وہیں سے کتابیں بھی مل جاتی ہیں۔

اردومحفل: اَدب سے دوری کے کیا اسباب ہیں؟

خاور۔۔۔ میں سمجھتا ہوں ہماری بنیادی تعلیم ہی درست نہیں۔منصوبہ سازوں کو پتا ہی نہیں ہوتاکہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں( اس بات کی تفصیل جاننے کے لیے وقاربن الٰہی کی آپ بیتی پڑھ لیجیے)۔ہرچھ ماہ بعدایک بلی تھیلے سے نکال باہر کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے نظامِ تعلیم کا بیڑاغرق کر کے رکھ دیا ہے۔رہی سہی کسرپڑھانے والے نکال دیتے ہیں۔تنخواہیں اُڑاتے ہیں ، وقت گزارتے ہیں۔ایسے میں اَدب پر توجہ کون دے؟
جب طالب علم کااَدب سے لگاوٴ ہی نہیں ہوگاتواس سے قربت کی بات ہی غلط ہے۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں ادیب کو وہ مقام نہیں حاصل جودوسرے معاشروں میں ہے۔یہاں منیرنیازی جیسا شخص آرام دہ کرسی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتاتوعام لکھنے والے کا کیا حال ہوگا۔جب لکھنے والاخود دال روٹی کے بھاوٴ میں گھر جائے تواُس کے پڑھنے والے کیوں پیدا ہوں گے۔ یہاں توکرکٹ کے کھلاڑیوں اورناچنے گانے والوں پر لاکھوں کے انعامات ہوتے ہیں مگرایک لکھنے والی کی کتاب کے چند نسخے نہیں خریدے جاتے۔ایسے عالم میں اَدب سے دوری نہ ہو تو کیا ہو؟

اردومحفل: آپ کی چار کتابیں شائع ہوئیں،آپ کو کیا رسپونس ملا؟

خاور۔۔۔ جن دنوں نذیرناجی اکادمی کے چیئرمین تھے،انھوں نے میری ایک کتاب کے دس نسخے خریدے تھے۔ ساڑھے سات سو روپے بل بنا تھا جواُن کے چلے جانے کے دو سال بعد ملا۔مقامی سطح پر بھی خریداری کا یہی عالم ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُسے مفت کتاب دی جائے۔خریدکر پڑھنے کارجحان ہی نہیں۔

اردومحفل: آپ مقامی صحافت کے بانیوں میں سے ہیں،موجودہ منظرنامہ پرآپ کم نظرآتے ہیں،کیوں؟

خاور۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں قومی صحافت میں مصروف ہوں اورپھرادبی کام اتنے ہیں جومقامی کام کے لیے وقت ہی نہیں چھوڑتے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اَب جو مال بکتا ہے وہ میرے پاس نہیں ہے۔سیاست دانوں کی کاسہ لیسی نہ پہلے مجھ سے ہو سکی ، نہ اَب ہو سکتی ہے۔میں بحران کا شکار ہی اسی لیے ہوا کہ میں نے اپنے نظریات میں لچک نہیں آنے دی۔

اردومحفل: آپ مطمئن ہیں؟

خاور۔۔۔الحمدللہ! میں مطمئن ہوں۔اس لیے کہ آج یہاں سے چنداخبارات جونکل رہے ہیں وہ میرے کام کے بعد شروع ہوئے ہیں۔پہلا اخبار”حضرو“ بھی میں نے شروع کیا تھا اور دوسرا اخبار”تیسرارُخ“ بھی میں نے ہی نکالا۔

اردومحفل: آپ ویب سائٹس سے وابستہ ہیں،وہاں کا تجربہ کیسا رہا؟

خاور۔۔۔ بہت اچھا،انٹرنیٹ کی دنیا بہت وسیع اور تیز تر ہے۔یہاں آپ کو اچھے سے اچھاپڑھنے والاملتا ہے اورفوراً آپ کی تخلیق کا تجزیہ ہوجاتا ہے۔ادبی رسالے کم ازکم سہ ماہی چھپتے ہیں۔اپنی تخلیق بھیجئے،ایڈیٹرکی مرضی ہوئی توچھپ گئی ورنہ اگلی سہ ماہی کا انتظار کیجئے۔

اردومحفل: نئے آنے والوں کو کیا کہیں گے؟

خاور۔۔۔میں نوجوانوں سے کہوں گا کہ وہ کم ازکم ماسٹرزکرنے کے بعداس شعبے میں آئیں۔یہ دور یقینا میڈیا کا ہے لیکن اس کے لیے تعلیمی قابلیت بہت ضروری ہے۔موجود لوگوں کی طرح اگرصحافت اختیار کی جائے گی تووہ منفی سمت میں زیادہ اور مثبت سمت میں کم لے جائے گی۔کیوں کہ ہر شعبے کی طرح یہاں بھی ” ایکسپلائٹیشن“ کا کاروبارہوتا ہے۔

اردومحفل: حضرو کی ادبی فضا کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

خاور۔۔۔سچ یہ ہے کہ توقیرعلی زئی کی وفات کے بعدمحفلوں کا لطف نہیں رہا۔انفرادی طور پر پروفیسرنوازشاہدنے بہت کام کیا ہے۔پروفیسراعظم خالد# کے سفرنامے کی دھوم بھی سُن رہے ہیں۔عبدالودودمخلص صاحب نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کئی ایک کنکر پھینکے مگرکوئی خاص ہلچل نہیں ہوئی۔چند ایک مشاعروں اور شامو ں کے بعدوہی ماحول دوبارہ لوٹ آیا۔ راشدعلی زئی،خالد محمودصدیقی،فہیم احمداوراقبال ساغربھی اپنے حصے کا کام کرتے ہی رہتے ہیں۔
اردومحفل: شکریہ خاورچودھری
خاور۔۔۔ شکریہ سجادعلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22226
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت بہت شکریہ خاور بھائی اپنے انٹریوو کو اردونامہ کی زینت بنانے پر۔ ویسے میں آجکل آپ پر ہی کام کر رہا تھا اور اگر کل لائیٹ کا بہت بڑا بریک ڈاون نہ آتا تو میں آپ کا یہ انٹریوو بھی اردونامہ پر لے آتا۔ خیر آپکو خود تکلیف کرنا پڑی جس کے لئے معذرت کے ساتھ ساتھ بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

آپ کا شکریہ چاند بابو جو آپ میرے حوالےسے کام کے لیے وقت نکال رہے ہیں۔
میں ابھی تک مواد منتقل یا حذف کرنے کا اختیار نہیں‌پا سکا ہوں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22226
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بھائی اس میں‌ شکریہ کی کوئی بات نہیں‌بلکہ مجھے تو خوشی ہے کہ جو کام مجھے بہت پہلے کرنا چاہئے تھا دیر سے ہی سہی لیکن ہوا تو۔ بھائی میں آپ کی مشکل کا حل کر رہا ہوں انشااللہ کل آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”