عمران خان: آپکا انقلاب کہاں گیا؟

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

عمران خان: آپکا انقلاب کہاں گیا؟

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 16 مئی، 2014
[center]عمران خان: آپکا انقلاب کہاں گیا؟[/center]
تحریر: سید انور محمود
گیارہ مئی 2014ء کو اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں بڑئے پیمانے پرجبکہ ملک کے باقی شہروں میں چھوٹے پیمانے پر گذشتہ سال گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک، پاکستا ن تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین نے الگ الگ احتجاج کیے اور دھرنے دیئے۔ عام طور پر لوگوں کو عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسوں سے دلچسپی تھی۔ پہلے سننے میں یہ آرہا تھا کہ عمران خان اورعلامہ طاہرالقادری دونوں مشترکہ جلسہ کرینگے، جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہوگی۔ مگر گیارہ مئی کو عوامی تحریک، پاکستا ن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نےعلیدہ علیدہ جلسے کیئے۔ ایسا کیوں ہوا اسکی وجوہات جو سمجھ میں آیں وہ یہ تھیں کہ علامہ طاہرالقادری تو اس پورئے نظام کو ہی تسلیم نہیں کرتے جبکہ عمران خان اس نظام کو تسلیم کرتے ہیں اور صرف انتخابی دھاندلی تک محدود تھے لہذا احتجاج میں دونوں کے راستے الگ الگ تھے۔ عمران خان کی اتحادی جماعت اسلامی جو صوبہ کےپی کے میں اُنکے ساتھ حکومت میں شامل ہے دور دور تک ڈی چوک میں موجود نہیں تھی، پہلی بات تو یہ کہ جماعت اسلامی اور علامہ طاہر القادری سیاسی طورپر ایک دوسرئے سے بہت دور ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے نئے امیر اور صوبہ کےپی کے کے وزیر خزانہ سراج الحق نے ایک ٹی وی پروگرام میں واضع طور پرکہہ دیا تھا کہ اُن کوعمران خان کا علامہ طاہر القادری کے ساتھ اتحاد عجیب سا لگ رہا ہے، مطلب وہ اس کے حامی نہیں ہیں۔ جنگ گروپ اور جیو نیوز کی اچانک مخالفت اور فوج کی حمایت والے عمران خان کے یوٹرن نےبھی جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے احتجاج سے دور کردیا۔

عمران خان کی سیاسی عمر ابھی کچھ عرصئے پہلے ہی اٹھارہ سال ہوئی ہے ، اس عرصے میں پہلی بار 2002ء کے انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی ایک اور ایک صوبہ کےپی کے کی سیٹ حاصل ہوئیں تھیں، 2008ء کے الیکشن کا انکی جماعت نے بایئکاٹ کیا۔ 2011ء ۔2012ء میں عمران خان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا جس کا بنیادی سبب نوجوان اور خاصکر پڑھے لکھے نوجوان تھے، ان نوجوانوں نے عمران خان کو سوشل میڈیا پر کافی سپورٹ کیا، یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستان کی باقی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر اس قدر انحصار نہیں کرتی جتنا کہ پی ٹی آئی کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت کے باعث 2013ء کے انتخابات کے وقت عمران خان یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ بغیر کسی اور جماعت کو ملائے اقتدارحاصل کرلینگے۔ 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر طالبان کی کھلی دھمکی کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم اپنی انتخابی مہم ٹھیک طرح نہیں چلاسکیں جبکہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام کو طالبان کی طرف سے کھلی چھٹی تھی۔ عمران خان کو قومی اسمبلی میں 26 سیٹیں ملیں مگر خیبر پختون خوا میں کامیابی کے باوجود اتنی اکثریت نہیں ملی کہ تن تنہاہ حکومت بنالیتے لہذا جماعت اسلامی اور دو چھوٹی پارٹیوں کو ملاکر کےپی کے میں تحریک انصاف کی حکومت بنائی، اگرچہ اقتدار کے متوالے مولانا فضل الرحمان نے بہت زور لگایا کہ نوازشریف اُن کے ساتھ ملکر حکومت بنالیں مگر وہ شاید مولانا کو سمجھ گئے ہیں اسلیے عمران خان کو چانس ملا۔

گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی پاکستان کی تقریبا ہر جماعت نے شکایت کی مگر سب سے زیادہ شکایت عمران خان کو ہوئی اور اسی وجہ سے عمران خان موجودہ حکومت کے حاصل شدہ مینڈیٹ کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے انتخابات کو تسلیم کرلیا لیکن دھاندلی قبول نہیں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے صرف چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور گیارہ مئی 2014ء کا احتجاج جو ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا وہ اُسی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تھا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ کپتان کے ساتھ یہ زیادتی ہورہی ہے کہ سال گذر جانے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مگر جہاں عمران خان کو حکومت ملی کیا وہاں کچھ ہوا، خود اُنکی جماعت کی ایک سال کی کارکردگی کیسی رہی۔اُنکے مقرر کردہ وزیر اعلی نے جو بلند دعوئے کیے تھے کہ نوے دن میں سرکاری مشنری کرپشن سے پاک ہوگی، پٹواری کلچر کا خاتمہ، تعلیمی اصلاحات ، ایک جیسا تعلیمی نظام ، بیروزگاری کا خاتمہ اور لوکل باڈی الیکشن کا انعقاد۔ کیا یہ سب کچھ ہوگیا؟ جی نہیں ایک سال میں کچھ نہیں ہوا۔ عمران خان تو ویسے بھی مردم ناشناس ہیں جسکا اعتراف وہ خود الیکشن میں دیے جانے والے پارٹی ٹکٹ پر کرچکے ہیں، اسلیے جو بھی انکی پارٹی میں آیا اُسکو تحریک انصاف میں شمولیت مل گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال 22 اگست کے ضمنی انتخابات میں پشاور اور میانوالی کی سیٹ سے محروم ہوگے۔ کپتان صاحب اپنے صوبے میں ناکام ہورہے ہیں، انکے اتحادی اُنکا ساتھ چھوڑ گئے ہیں، صرف جماعت اسلامی رہ گی ہے مگر اُس نے بھی گیارہ مئی کے جلسے میں عمران خان کا ساتھ نہیں دیا۔

گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعدعمران خان اپنی جماعت کے کم طالبان کے ترجمان زیادہ نظر آتے ہیں اور طالبان دہشتگردوں سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو صرف گیارہ ماہ میں بڑئے بڑئے دہشتگردی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس عرصے میں اُن کے تین منتخب نمائندے بھی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں، مگر افسوس وہ مذاکرات کا راگ الاپتے رہے، عمران خان تسلسل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ نو سال میں کچھ نہیں ہوا اور پچاس ہزار افراد مارئے گے اسلیے مذاکرات ہی وہ راستہ ہے جس سے امن آسکتا ہے۔ جس دہشتگردی میں پچاس ہزار افراد مارئے گے ہیں عمران خان نےکبھی بھی اُسے اپنی جنگ نہیں کہا۔ طالبان مذاکرات کے خواہش مند ہیں لیکن بقول طالبان وہ پاکستان کے آئین کے تحت مذاکرت نہیں کریں گے کیونکہ پاکستانی آئین جمہوری آئین ہے اور سیکولر اقوام کا ایجنڈہ ہے۔ طالبان کھل کر پاکستانی افواج کے خلاف بولتے ہیں مگر عمران خان نے کبھی بھی اس عرصے میں پاک فوج کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا، یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے دہشت گرد حکیم محسود کو شہید قرار دیا اور پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کو ماننے سے انکار کردیا اس وقت بھی عمران خان خاموش رہے۔ اب چونکہ اُنکی حکومت کا عنقریب ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور ابھی تک کےپی کے کے عوام کے حالات میں بہتری نہیں آئی لہذا جیو نیوزجو اپنی آئی ایس آئی کے ساتھ کی گی اپنی بدترین غلطی کو بھگت رہا ہے اسکا فاہدہ عمران خان نے اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور جیو نیوز کو انتخابی دھاندلی میں ملوث کردیا، مگر شاید وہ یہ بات بھول گے اپنی ناکامیوں کا ملبہ میڈیا پر ڈالنے سے وہ لوگوں کے سوالات سے نہیں بچ سکیں گے جو اُن سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ "آپکا انقلاب کہاں گیا؟" جس کے زریعے آپ لوگوں کی تقدیر بدلنے چلے تھے۔

گیارہ مئی کو ڈی چوک کے اجتماع میں جہاں عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید موجود تھے وہاں ہی مسلم لیگ (ق) کی نمایندگی ایک وفد کی شکل میں موجود تھی۔ پنجاب اور مرکز کی حکومتیں جو سارا دن اس بات کی کوشش کرتی رہیں کہ کسطرح لوگوں کو ڈی چوک جانے سے سے روکا جائے، اس کےلیے سرکاری وسائل کا بےدردی سے استمال ہوا۔ دوسری طرف ہر پانچ منٹ کے بعد ایک وزیر ٹی وی پرآکر اس جلسے کے اور عمران خان کے خلاف کچھ نہ کچھ کہتا رہتا، اور آخرکار رات کو جلسے کے بعد حکومت کی طرف سے کہہ دیا گیا کہ شو فلاپ ہوگیا۔ شو تو فلاپ نہیں ہوا البتہ حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگی کہ عمران خان اس احتجاج کو کہیں عوامی مسائل کی جانب نہ لے جایں اور عمران خان نے بھی حکومت سے جومطالبے کیے اُن میں سے ایک بھی مطالبہ عوامی مسائل پر نہیں تھا اور یہ ہی حکومت کی کامیابی ہے۔ اس جلسے کو کامیاب بنانے میں سب سے زیادہ حکومت کی مہربانی شامل ہے، اگر حکومت اس جلسہ کے خلاف بولنے پر اپنے وزیروں کا استمال کم کرتی تو شاید اتنے لوگ نہ جمع ہوتے۔ آخر میں ایک سوال عمران خان سے کہ ڈی چوک کا دھرنا جلسہ میں کیوں تبدیل ہوا؟ چلیے جلسہ ہوگیا سب نے اپنا اپنا کردار بھی ادا کردیا، یہ جلسہ چونکہ پی ٹی آئی کا تھا لہذا اس کا سیاسی فاہدہ یا نقصان جو بھی ہوگا پی ٹی آئی کو ہی ہوگا۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
محمد اسفند
دوست
Posts: 449
Joined: Fri Aug 05, 2011 5:09 pm
جنس:: مرد
Location: ٹوبہ ٹیک سنگھ

Re: عمران خان: آپکا انقلاب کہاں گیا؟

Post by محمد اسفند »

سید انور محمود wrote:تاریخ: 16 مئی، 2014
[center]عمران خان: آپکا انقلاب کہاں گیا؟[/center]
تحریر: سید انور محمود
گیارہ مئی 2014ء کو اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں بڑئے پیمانے پرجبکہ ملک کے باقی شہروں میں چھوٹے پیمانے پر گذشتہ سال گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک، پاکستا ن تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین نے الگ الگ احتجاج کیے اور دھرنے دیئے۔ عام طور پر لوگوں کو عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسوں سے دلچسپی تھی۔ پہلے سننے میں یہ آرہا تھا کہ عمران خان اورعلامہ طاہرالقادری دونوں مشترکہ جلسہ کرینگے، جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہوگی۔ مگر گیارہ مئی کو عوامی تحریک، پاکستا ن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نےعلیدہ علیدہ جلسے کیئے۔ ایسا کیوں ہوا اسکی وجوہات جو سمجھ میں آیں وہ یہ تھیں کہ علامہ طاہرالقادری تو اس پورئے نظام کو ہی تسلیم نہیں کرتے جبکہ عمران خان اس نظام کو تسلیم کرتے ہیں اور صرف انتخابی دھاندلی تک محدود تھے لہذا احتجاج میں دونوں کے راستے الگ الگ تھے۔ عمران خان کی اتحادی جماعت اسلامی جو صوبہ کےپی کے میں اُنکے ساتھ حکومت میں شامل ہے دور دور تک ڈی چوک میں موجود نہیں تھی، پہلی بات تو یہ کہ جماعت اسلامی اور علامہ طاہر القادری سیاسی طورپر ایک دوسرئے سے بہت دور ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے نئے امیر اور صوبہ کےپی کے کے وزیر خزانہ سراج الحق نے ایک ٹی وی پروگرام میں واضع طور پرکہہ دیا تھا کہ اُن کوعمران خان کا علامہ طاہر القادری کے ساتھ اتحاد عجیب سا لگ رہا ہے، مطلب وہ اس کے حامی نہیں ہیں۔ جنگ گروپ اور جیو نیوز کی اچانک مخالفت اور فوج کی حمایت والے عمران خان کے یوٹرن نےبھی جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے احتجاج سے دور کردیا۔

عمران خان کی سیاسی عمر ابھی کچھ عرصئے پہلے ہی اٹھارہ سال ہوئی ہے ، اس عرصے میں پہلی بار 2002ء کے انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی ایک اور ایک صوبہ کےپی کے کی سیٹ حاصل ہوئیں تھیں، 2008ء کے الیکشن کا انکی جماعت نے بایئکاٹ کیا۔ 2011ء ۔2012ء میں عمران خان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا جس کا بنیادی سبب نوجوان اور خاصکر پڑھے لکھے نوجوان تھے، ان نوجوانوں نے عمران خان کو سوشل میڈیا پر کافی سپورٹ کیا، یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستان کی باقی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر اس قدر انحصار نہیں کرتی جتنا کہ پی ٹی آئی کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت کے باعث 2013ء کے انتخابات کے وقت عمران خان یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ بغیر کسی اور جماعت کو ملائے اقتدارحاصل کرلینگے۔ 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر طالبان کی کھلی دھمکی کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم اپنی انتخابی مہم ٹھیک طرح نہیں چلاسکیں
جبکہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام کو طالبان کی طرف سے کھلی چھٹی تھی۔
یہ بات سمجھ میں نہی آئی
عمران خان کو قومی اسمبلی میں 26 سیٹیں ملیں مگر خیبر پختون خوا میں کامیابی کے باوجود اتنی اکثریت نہیں ملی کہ تن تنہاہ حکومت بنالیتے لہذا جماعت اسلامی اور دو چھوٹی پارٹیوں کو ملاکر کےپی کے میں تحریک انصاف کی حکومت بنائی، اگرچہ اقتدار کے متوالے مولانا فضل الرحمان نے بہت زور لگایا کہ نوازشریف اُن کے ساتھ ملکر حکومت بنالیں مگر وہ شاید مولانا کو سمجھ گئے ہیں اسلیے عمران خان کو چانس ملا۔

گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی پاکستان کی تقریبا ہر جماعت نے شکایت کی مگر سب سے زیادہ شکایت عمران خان کو ہوئی اور اسی وجہ سے عمران خان موجودہ حکومت کے حاصل شدہ مینڈیٹ کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے انتخابات کو تسلیم کرلیا لیکن دھاندلی قبول نہیں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے صرف چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور گیارہ مئی 2014ء کا احتجاج جو ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا وہ اُسی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تھا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ کپتان کے ساتھ یہ زیادتی ہورہی ہے کہ سال گذر جانے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مگر جہاں عمران خان کو حکومت ملی کیا وہاں کچھ ہوا، خود اُنکی جماعت کی ایک سال کی کارکردگی کیسی رہی۔اُنکے مقرر کردہ وزیر اعلی نے جو بلند دعوئے کیے تھے کہ نوے دن میں سرکاری مشنری کرپشن سے پاک ہوگی، پٹواری کلچر کا خاتمہ، تعلیمی اصلاحات ، ایک جیسا تعلیمی نظام ، بیروزگاری کا خاتمہ اور لوکل باڈی الیکشن کا انعقاد۔ کیا یہ سب کچھ ہوگیا؟ جی نہیں ایک سال میں کچھ نہیں ہوا۔ عمران خان تو ویسے بھی مردم ناشناس ہیں جسکا اعتراف وہ خود الیکشن میں دیے جانے والے پارٹی ٹکٹ پر کرچکے ہیں، اسلیے جو بھی انکی پارٹی میں آیا اُسکو تحریک انصاف میں شمولیت مل گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال 22 اگست کے ضمنی انتخابات میں پشاور اور میانوالی کی سیٹ سے محروم ہوگے۔ کپتان صاحب اپنے صوبے میں ناکام ہورہے ہیں، انکے اتحادی اُنکا ساتھ چھوڑ گئے ہیں، صرف جماعت اسلامی رہ گی ہے مگر اُس نے بھی گیارہ مئی کے جلسے میں عمران خان کا ساتھ نہیں دیا۔

گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعدعمران خان اپنی جماعت کے کم طالبان کے ترجمان زیادہ نظر آتے ہیں اور طالبان دہشتگردوں سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو صرف گیارہ ماہ میں بڑئے بڑئے دہشتگردی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس عرصے میں اُن کے تین منتخب نمائندے بھی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں، مگر افسوس وہ مذاکرات کا راگ الاپتے رہے، عمران خان تسلسل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ نو سال میں کچھ نہیں ہوا اور پچاس ہزار افراد مارئے گے اسلیے مذاکرات ہی وہ راستہ ہے جس سے امن آسکتا ہے۔ جس دہشتگردی میں پچاس ہزار افراد مارئے گے ہیں عمران خان نےکبھی بھی اُسے اپنی جنگ نہیں کہا۔ طالبان مذاکرات کے خواہش مند ہیں لیکن بقول طالبان وہ پاکستان کے آئین کے تحت مذاکرت نہیں کریں گے کیونکہ پاکستانی آئین جمہوری آئین ہے اور سیکولر اقوام کا ایجنڈہ ہے۔ طالبان کھل کر پاکستانی افواج کے خلاف بولتے ہیں مگر عمران خان نے کبھی بھی اس عرصے میں پاک فوج کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا، یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے دہشت گرد حکیم محسود کو شہید قرار دیا اور پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کو ماننے سے انکار کردیا اس وقت بھی عمران خان خاموش رہے۔ اب چونکہ اُنکی حکومت کا عنقریب ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور ابھی تک کےپی کے کے عوام کے حالات میں بہتری نہیں آئی لہذا جیو نیوزجو اپنی آئی ایس آئی کے ساتھ کی گی اپنی بدترین غلطی کو بھگت رہا ہے اسکا فاہدہ عمران خان نے اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور جیو نیوز کو انتخابی دھاندلی میں ملوث کردیا، مگر شاید وہ یہ بات بھول گے اپنی ناکامیوں کا ملبہ میڈیا پر ڈالنے سے وہ لوگوں کے سوالات سے نہیں بچ سکیں گے جو اُن سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ "آپکا انقلاب کہاں گیا؟" جس کے زریعے آپ لوگوں کی تقدیر بدلنے چلے تھے۔

گیارہ مئی کو ڈی چوک کے اجتماع میں جہاں عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید موجود تھے وہاں ہی مسلم لیگ (ق) کی نمایندگی ایک وفد کی شکل میں موجود تھی۔ پنجاب اور مرکز کی حکومتیں جو سارا دن اس بات کی کوشش کرتی رہیں کہ کسطرح لوگوں کو ڈی چوک جانے سے سے روکا جائے، اس کےلیے سرکاری وسائل کا بےدردی سے استمال ہوا۔ دوسری طرف ہر پانچ منٹ کے بعد ایک وزیر ٹی وی پرآکر اس جلسے کے اور عمران خان کے خلاف کچھ نہ کچھ کہتا رہتا، اور آخرکار رات کو جلسے کے بعد حکومت کی طرف سے کہہ دیا گیا کہ شو فلاپ ہوگیا۔ شو تو فلاپ نہیں ہوا البتہ حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگی کہ عمران خان اس احتجاج کو کہیں عوامی مسائل کی جانب نہ لے جایں اور عمران خان نے بھی حکومت سے جومطالبے کیے اُن میں سے ایک بھی مطالبہ عوامی مسائل پر نہیں تھا اور یہ ہی حکومت کی کامیابی ہے۔ اس جلسے کو کامیاب بنانے میں سب سے زیادہ حکومت کی مہربانی شامل ہے، اگر حکومت اس جلسہ کے خلاف بولنے پر اپنے وزیروں کا استمال کم کرتی تو شاید اتنے لوگ نہ جمع ہوتے۔ آخر میں ایک سوال عمران خان سے کہ ڈی چوک کا دھرنا جلسہ میں کیوں تبدیل ہوا؟ چلیے جلسہ ہوگیا سب نے اپنا اپنا کردار بھی ادا کردیا، یہ جلسہ چونکہ پی ٹی آئی کا تھا لہذا اس کا سیاسی فاہدہ یا نقصان جو بھی ہوگا پی ٹی آئی کو ہی ہوگا۔
Post Reply

Return to “سیاست”