قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے لسانی بل کو جتنی بار پڑھا جائے حیرت اور اضطراب میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
آئیے اس بل میں موجود اغلاط اور تضادات کی نشان دہی کرنے کے ساتھ اس سے جنم لینے والے سوالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلا تضاد تو اس کی شق نمبر 2 میں نظر آتا ہے جہاں سرخی ہی غلط دی گئی ہے سرخی National Language کے نام سے دی گئی ہے جب کہ مضمون کے اعتبار سے اسے National Languages کا نام دیا جانا چاہئیے تھا۔ پھر اسی شق کی ذیلی شق نمبر1 میں ایک ایسی بات کہی گئی ہے جس سے بدنیتی کا شائبہ ہوتا ہے۔ شق میں اردو کو مادری زبانوں کے کھاتے میں ڈال کر اس کو ایک چھوٹے سے طبقے کی مادری زبان قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ اردو ایک قومی زبان ہے اور اس کی یہ حیثیت مسلمہ ہے۔
لسانی بل کی شق نمبر 1 کی ذیلی شق 2 میں انگریزی کو تاریخ اجرا سے 15 سال کے لئے سرکاری زبان بنانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ تاریخ اجرا سے کیا مراد ہے تاہم بعد میں اس بل کے اغراض و مقاصد کے بیان کے وقت آئندہ 15 سال کے الفاظ لکھے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بل کی منظوری کے 15 سال بعد تک انگریزی سرکاری زبان رہے گی۔ اب یہاں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ انگریزی زبان کو مسلط کرنے کا فیصلہ کن طبقات کے مطالبے پر کیا گیا ہے، کن ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ کہ ایسی کون سی مصیبت آن پڑی ہے کہ انگریزی کو اس ملک پر مزید 15 سال تک مسلط رکھا جائے؟۔
مزید یہ کہ جب 1973ء کے آئین میں یہ کہا گیا تھا کہ انگریزی کو 15 سال تک نافذ رکھا جائے گا اور اس دوران اردو کو نافذ کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں گے، تو اب 41 سال گزرنے کے بعد بھی ایسی کون سی کمی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے انگریزی کو اس ملک پر مسلط رکھا جا رہا ہے۔ اس بارے میں اردو کے فروغ کے لئے جو ادارے قائم کئے گئے تھے ان کی کارکردگی پر بھی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ آخر انہوں نے اس دوران کیا کیا اور کس کس کام کو کرنے سے معذور رہے؟۔ اس پورے بل میں سب سے دلچسپ اور حیران کن شق نمبر 4 ہے، جس کا متن کچھ یوں ہے۔
(4) Without prejudice to the status of the National languages, a Provincial Assembly may by law prescribe measures for the teaching, promotion and use of a provincial language in addition to the national language.
یہ شق ذہانت، روشن خیالی اور مادری و قومی زبانوں کے استحصال کے خلاف جہاد اکبر کا درجہ رکھتی ہے، جس پر 10 اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں۔ یہ بل کیا ہے؟ یہ بل مادری زبانوں کو قومی زبان کا نام، مقام اور حقوق دینے کا بل ہے؟۔ بل میں ہر مادری زبان کو چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، علاقائی ہو یا صوبائی، اس کا رسم الخط ہو یا نہ ہو، بس وہ زبان ہونی چاہئیے اور پاکستا ن کے کسی نہ کسی حصے میں بولی جانی چاہئیے، کو قومی زبان کا نام دے دیا ہے اور نام دینے کے بعد اس کو برابری کا مقام دے دیا ہے (انگریزی کو ایک استثنائی حیثیت حاصل ہے)۔ اب جب یہ سب زبانیں قومی زبانوں کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور ان کے فروغ، تعلیم اور ترقی کے لئے سب کمر بستہ ہیں ان لوگوں کو وہ صوبائی زبان کہاں سے ملے گی جس کی مزید تعلیم، فروغ اور استعمال کے لئے صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کریں گی؟۔
کچھ مقتدر ہاتھ مادری زبانوں کا درجہ بڑھانا تو چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی اردو کا درجہ کم یا صحیح بھی کرنا چاہتے ہیں۔ (دراصل یہ اردو کو قومی زبان سے کم کر کے ایک مادری زبان کے درجہ تک لے آنا چاہتے ہیں) اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے۔
In all nation states all major mother tongues are all National languages. Since the major mother tongues of Pakistan are Balochi, Balti, Brahvi, Punjabi, Pushto, Shina, Sindhi, Siraiki and Urdu have not been given their due status in the Constitution of Pakistan and a number of popular movements are going on in the country demanding grant of national status to these languages, therefore, it has become imperative to give those languages status of National Languages of Pakistan.
اب ان سطور کو ایک بار پھر غور سے پڑھیں، کس چالاکی اور چابک دستی سے اردو کا درجہ کم کر کے اسے محض ایک مادری زبان قرار دے کر اس کو باقی زبانوں کے درجہ پر لایا گیا ہے۔ پھر کہا جا رہا ہے کہ کبھی ان زبانوں کو ان کے حقوق نہیں ملے، اب کیا یہ بھول چکے ہیں کہ روز اول سے اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہے اور یہ کہ 1973ء کے آئین میں اسے سرکاری زبان بنانے کی مدت بھی متعین کر دی گئی تھی۔ اب یہ اس کا درجہ کم کر کے کون سی قومی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں پر کچھ ایسے جملے بھی ملتے ہیں جن کا مطلب اور مفہوم شاید ان کو لکھنے والے کے ذہن پر تو اترا ہو مگر ہمارا ذہن نارسا ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس جملے پر غور فرمائیں۔
That all mother tongues belong to all of Pakistan and not just to the restricted areas where they are spoken.
اب پہلی بات تو یہ کہ یہ جملہ انگریزی کی غلطیوں سے بھر پور ہے جو ان کے آقاؤں کی اور ان کی غلامی کی زبان ہے،پھر یہ کہ یہ جو آفاقی درس دیا جا رہا ہے اس کا آخر مقصد ہی کیا ہے، اس پیغام کو دینے کی ضرورت صرف اس لئے ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں، جو اس ملک کو بانی پاکستان کے افکار کی روشنی میں چلانا چاہتے ہیں، ان کو یہ بتایا جائے کہ تم مادری زبانوں کا استحصال کر رہے ہو، اور یہ کہ تم لوگ اردو کو ناجائز طور پر بالا دستی دینا چاہتے ہو، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو صرف اور محض ایک مادری زبان ہے۔ پھر اس بل کی روشنی میں اس بات کی تصدیق سرکاری طور پر کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں کوئی پاکستانی قوم نہیں ہے، اس میں بلوچی قوم ہے، سندھی قوم ہے، پنجابی قوم ہے، پشتون قوم ہے، سرائیکی قوم ہے۔ اگر کوئی قوم اس ملک میں نہیں ہے تو وہ پاکستانی قوم ہے۔ بار بار لفظ peoples استعمال کیا جا رہا ہے، جو شاید یہی بات باور کروانے کے لئے ہے کہ یہ ایک کثیرالاقوام ملک ہے۔
اس بل میں انگریزی کی بہت سی غلطیوں میں سے ایک ملاحظہ فرمائیں اور اس کا لطف اٹھائیں۔
Additionally it is important that all these National language promotion makes a country’s culture and history richer and increases understanding between the peoples.
اس کے بعد جہاں تک مادری زبانوں میں تعلیم دینے کی بات ہے تو دنیا کے کتنے ممالک میں ایسا تماشا لگا ہوا ہے، چین کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ ارب ہے وہاں کم از کم 500 زبانیں تو بولی جاتی ہوں گی، کسی وفد کو چین بھیج دیں اور پتا چلائیں کہ کیا ایسا تماشا وہاں بھی لگا ہوا ہے، روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے وہاں بھی کوئی پانچ سات سو زبانیں تو بولی جاتی ہوں گی، ایک وفد وہاں بھی بھیجیں اور پتا چلائیں کہ وہاں کتنی زبانوں کا میلا لگا ہوا ہے۔ کس قدر حیران کن بات ہے جب انگریزی کی بات آتی ہے تو یہ ایک بین الاقوامی زبان بن جاتی ہے اور اس کو ہم پر یہ کہہ کر مسلط کر دیا جاتا ہے کہ ساری سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم اس میں ہے۔ اور جب اردو کی بات کی جائے تو فوری طور پر اس کے مقابلے میں مادری زبانوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ آخری بات یہ کہ آئین کے ساتھ یہ کھیل تماشے بند کئے جائیں ایسے عناصر کو لگام دی جائے اور 1973ء کے آئین کی دفعہ 251 پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے وطن پاک میں فوری طور پر ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو نافذ کی جائے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
کیا اردو کو کبھی قومی زبان کا درجہ مل سکے گا؟
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
کیا اردو کو کبھی قومی زبان کا درجہ مل سکے گا؟
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: کیا اردو کو کبھی قومی زبان کا درجہ مل سکے گا؟
یہ قانون سازی کرنے والے دھوبی کے کتے ہیں.
نہ اردو صحیح طرح جانتے ہیں نہ انگریزی ..
نہ اردو صحیح طرح جانتے ہیں نہ انگریزی ..
-
- مشاق
- Posts: 1625
- Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
- جنس:: مرد
- Location: جدہ سعودی عرب
- Contact:
Re: کیا اردو کو کبھی قومی زبان کا درجہ مل سکے گا؟
جب سرکاری زبان انگریزی ہو گی تو عوام کا تقریبا 90 فیصد اسے سمجھنے سے قاصر ہو گا، تو اس میں سیاستدانوں کے لیے مزید کھلی چھٹی ہو گی، وہ جو بل چاہیں لائیں، جو بل چاہے پاس کریں، عوام کی حیثیت ہر 5 سال بعد کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے گدھوں کے سوا کچھ نہیں ہو گی.
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
Re: کیا اردو کو کبھی قومی زبان کا درجہ مل سکے گا؟
ایسا ہی ہے یاسر بھائی
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Re: کیا اردو کو کبھی قومی زبان کا درجہ مل سکے گا؟
لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لئے
یہ تتلی فاحشہ ہے، پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافر ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافر ہے