کشکول

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

کشکول

Post by چاند بابو »

[center]کشکول[/center]

زندگی کاپہیہ جوں توں کر کے گھسٹ ہی رہا تھا، روکھی سوکھی بھی مل جاتی تووہ صبر ، شکر کر کے پیٹ بھرلیتا۔خدانے اُسے بچے بھی بہت شکیب آشنادیے تھے ۔ ایک وقت بھی کھا لیتے تو قناعت سے ، تشکر سے جیتے ، مگراب نہ جانے کون سا آسیب تھا؛جو اس کے خاندان پرسایہ فگن رہنے لگا تھا؟چھوٹے بچے کی طویل بیماری کے بعدموت نے اسے نڈھال تو کر ہی دیا تھا، مگراس کی بیماری کے دوران پیش آنے والے حادثات نے اُسے معاشرے سے بغاوت پربھی پوری طرح تیار کر دیا تھا۔پہلے وہ لوگوں کی بے حسی کے قصے سنا کر تا، مگراب تو اُس کے ساتھ لوگوں نے جو رویہ رکھا تھاوہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔سرطان کے مرض نے یوں جڑیں پکڑیں کہ تن اور درخت ہو گیا اور وقت کی آندھیوں کے سامنے ا س کاگھرانہ ٹھہرنہ سکا۔پہلے پہل جب لطیف بیمارہواتو وہ اُسے محلے کے نان کوا لیفائیڈڈسپنسرکے پاس لے گیا، جس نے بچے کی نبضوں کو ٹٹولنے کے بعداُس کی دھڑکنیں کان رکھ کر سنیں اور دوسو روپے کے ’’نسخہ‘‘اپنے پاس سے دے دیا۔ کچھ افاقہ نہ ہوا تو دوبارہ اُسی سے رجوع کیا ۔ ڈسپنسرنے دوسوروپے مزیدلے کر نسخہ تبدیل کر دیا، مگربے چینی ایسی کہاں تھی جو تھمتی۔وقت کے ساتھ ساتھ لطیف کی حالت بگڑتی رہی۔مآلِ کار شہر کی بڑے سرکاری اسپتال کارُخ کر تے ہی بنی۔ ۔ ۔ مگریہاں آ کر اُس نے جس دنیاکو دیکھاوہ اُس کے گمان میں بھی نہ تھی۔
لمبی قطار میں کھڑے کھڑے جب دوگھنٹے گزرگئے تو اُسے ڈاکٹرکے پاس پہنچنے کے لیے پرچی ملی۔لاکھوں کی آبادی کے لیے قائم واحدسرکاری اسپتال میں صرف تین ہی تو ڈاکٹرتھے ، جو اپنی اپنی ڈیوٹیاں نبھارہے تھے ۔اُن کانمبرآیاتو اسپتال آئے ہوئے اُنہیں چارگھنٹے گزرچکے تھے ۔گرمی اور پیاس نے باپ بیٹے کو بے حال تو کیا تھاہی۔ ۔ ۔ مگر ڈاکٹر کے رویے سے اُن پرسکتہ طاری ہو گیا ۔ڈاکٹرنے توجہ دیے بنا اور بچے کو دیکھے بغیرپرچی پر قلم گھسیٹا اور پرچی دل اور کے ہاتھ میں تھمادی۔ ۔ ۔ پھر’’نیکسٹ‘‘ کانعرہ بلندکیا۔
وہ جو اپنے بچے کو اتنی دُور سے علاج کی غرض سے لے کر شہرکی بڑی اسپتال آیا تھارہ نہ پایا اور ڈاکٹر سے کہہ بیٹھا
’’ڈاکٹرصاحب!آپ نے تو اس کی نبض تک نہیں دیکھی اور دوالکھ دی‘‘
ڈاکٹر جو پہلے ہی اُکتایا ہوابیٹھا تھا اُسے بے نقط سناگیا
’’آ جاتے ہیں سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے ، پرائیویٹ اسپتالوں میں جاؤناجو معائنے کا اتنا شوق ہے ۔جب ہزاروں میں فیس دو گے تو زبان نہیں چلاؤ گے ۔‘‘
مرتاکیانہ کر تا۔منوں پربھاری پاؤں گھسیٹتا ہوا اسپتال سے باہرنکل آیا۔ سڑک عبور کر کے میڈیکل اسٹورکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُسے یوں محسوس ہورہا تھا گویا وہ کے ۔ ٹوکی چوٹی سر کر رہا ہو۔سیلزمین نے پرچی دیکھی اور پھراُس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا
’’چاچا‘‘بارہ سوروپے کی دوابنے گی، کیادے دوں ؟‘‘
اس کے حلق میں سانس اٹک چکی تھی، تھوک نگلنابھی کارِمحال ٹھہرگیا تھا۔نفی میں سر ہلاتے ہوئے سیڑھیوں سے لڑھکتا ہواباہرآ گیا۔
مہینہ بھرکی مشقت کے عوض اسے اکیس سوروپے ملتے ، جن سے وہ سات افراد پر مشتمل کنبے کے اخرا جات چلاتا۔انھی روپوں میں سے غمی خوشی نبھاتا اور پوشاک وپاپوش خریدتا۔نصیبوں جلی بیوی نے جب خاوند اور بیٹے کو نا مراد واپس لوٹتے پایا تو رو رو کر ہلکان ہو گئی۔جھولی پھیلا پھیلا کر ڈاکٹروں کو بد دعائیں دیتی جاتی ۔ ۔ ۔ اور آنسوؤں کو رزقِ خاک بنائے جاتی۔جیسے تیسے کر کے میاں بیوی نے رات آنکھوں میں بتائی اور صبح کی پہلی کر ن کے نکلتے ہی دل اور ترحم آمیز نظریں لیے اپنے دنیاوی مالک کے سامنے بیٹے کی بیماری کے لیے قرض مانگ رہا تھا۔
’’دل اور !تم پہلے ہی مجھ سے پانچ ہزار روپے قرض لے چکے ہو، ابھی تک تم نے وہ نہیں لوٹائے اور اب مزیدمانگ رہے ہو، اس طرح کام نہیں چلے گا۔ میں اب اور قرض نہیں دے سکتا۔‘‘
اڑھائی مرلے کے ڈربے نمامکان میں ایسی کوئی چیزبھی نہیں تھی جسے وہ گروی رکھ کر اپنے بیٹے کاعلاج کر واتا۔بیوی کے گہنے تو بنے ہی نہیں تھے ، جنھیں بیچنے کامرحلہ آتا۔ لے دے کر یہ مکان ہی تھاجو بہت بھاؤ اُٹھاتاتو چا لیس ہزار سے زیادہ کسی طورممکن ہی نہیں تھا اور پھراسے بیچنے کے بعدرہنے کابھی تو مسئلہ تھا۔اس لیے یہ خیال بھی سانسیں اکھیڑنے کا سبب بن رہا تھا۔
پڑوس کے حاجی صاحب قرض دینے پرآمادہ تو ہوئے ، مگراس شرط پر کہ مکان کے کاغذات ان کے پاس رکھے جائیں ۔چاروناچاریہ کڑوی گولی اُس نے نگل ہی لی۔ شہر کے بڑے ڈاکٹر نے اُسے بتایا
’’ لطیف کو خون کا سرطان ہے اور اس پرکثیر رقم خرچ آئے گی، جو رقم وہ لے کر آیا ہے یہ کم ہے ، تاہم وہ بچے کاعلاج شروع کر رہا ہے ، مگرمزیدرقم کا انتظام کرنا ہو گا۔‘‘
علاج ہوتارہا اور بچے کی حالت سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔حاجی صاحب کاقرض بڑھتا گیا اور دل اور کی پریشانی۔پھروہ مرحلہ بھی آن پہنچاکہ دل اور کے ہاں فاقے اُترنے لگے ۔ دونوں میاں بیوی مستقبل کے تفکر ات میں یوں گھرے کہ اپنابھی ہوش نہ رہا اور ایسے ہی ایک رات لطیف نے
’’ابا۔ ۔ ۔ ابا‘‘
کہہ کر اپنی جان بیماری کی نذر کر دی۔حاجی صاحب اس مشکل گھڑی میں بھی کام آئے ۔
ابھی بچے کاکفن میلانہیں ہوا تھا۔ ۔ ۔ بارہ سالہ بچی کو سانپ نے ڈس لیا اور اسپتال میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین نہ ہونے کی بناپروہ اسپتال کی دہلیز پرہی دم توڑ گئی۔ ماں نے آسمان سے شکایت کر کے اپناسیناچیرلیا۔ ۔ ۔ مگرکہیں سے بھی تو اس کے درد کا درماں نہیں ہوا۔رہی سہی کسرحاجی صاحب نے مکان خا لی کر نے کاکہہ کر پوری کر دی۔
دل اور کو اس بات کاخدشہ تو پہلے سے تھاہی، مگرحاجی صاحب سے اس قدرجلدبازی کی توقع نہیں تھی ۔ گھر کے ’’بھانڈے ٹینڈر‘‘ایک عزیزکے ہاں امانتاًرکھے اور بیوی بچوں کو لے کر سسرال چلا آیا۔یہاں کون سی نعمتوں کے پہاڑ اُٹھے تھے جو سسرال والے زیادہ دیر اُسے برداشت کر تے ۔دنوں میں دل کدورتوں سے اَٹ گئے اور وہ خانہ بہ دوشی کی لمحے بِتانے پر مجبور ہوا۔ کسی جاننے والے نے دل اور کو بتایا تھاکہ حکومت غریبوں کی ما لی مدد کر رہی ہے ، اس سلسلہ میں درخواست فارم مقامی سیاست دان کے ہاں سے مل جائیں گے ۔ حال تو اس کامیرتقی میرؔ کے اس شعرکے مصداق تھا ؂
اب کیاکسوکے آگے دستِ طمع کر یں دراز
وہ ہاتھ سوگیا ہے سرہانے دھرے دھرے
مگرپھربھی دل پرپتھر رکھ کر وہ اس کے دولت کدے پرچلا آیا۔منشی نے کام پوچھاتو اس نے روتی آنکھوں مدعابیان کیا۔منشی نے کہا
’’بیٹھوابھی صاحب آتے ہیں ۔‘‘
ایک گھنٹہ سرک گیا، پھر دوسرا اور تیسرابھی ۔ ۔ ۔ صاحب نہ آئے ۔ منشی نے کہا
’’تم کل آ جانا میں شام کو ان سے بات کر لوں گا۔‘‘
نام پتا لکھوانے کے بعدلوٹا۔بوجھل قدموں سے جب گھرکی دہلیزپارکی تو بیوی کے حسرت زدہ چہرے پرہوائیاں اُڑرہی تھیں ۔ وہ شوہر سے پوچھے بغیر ہی سمجھ گئی کہ ناکامی ہوئی ہے ۔
سلورکی میلی تھا لی میں بیتی رات کابچا ہواشوربا اور کچے تنورپرپکی ہوئی اَدھ جلی روٹی اس کے سامنے رکھ کر دلاسا کے سے اندازمیں کہنے لگی
’’ فکر مت کر واللہ بہتر کر ے گا۔چونچ جو دی ہے چوگ تو دے گاہی۔‘‘
امیدویاس کے عالم میں رات کٹی، منہ اندھیرے جب دوبارہ مقامی سیاست دان کے ڈیرے پرپہنچاتو صاحب اپنے کارندوں کوکام لگارہا تھا۔دل اور نے تعارف کر ایاتو جواب ملا
’’دل اور !تم دیر کر چکے ہو اور ویسے بھی یہ کوئی لوٹ کامال نہیں ہوتا، جوہرکسی کی جھولی میں ڈال دیا جائے ۔‘‘
ناکام ونامراد جب واپس آرہا تھا تو اس نے ایک فیصلہ کیا۔ گھر پہنچتے ہی اس کو عملی جامہ پہنایا ۔ اگلے روزکے اخبار میں تین کالمی خبرشائع ہوئی
’’غربت اور قرض سے تنگ آ کر ایک شخص نے 3 بچوں اور بیوی کو قتل کر نے کے بعدخودکشی کر لی۔‘‘
میں نے خبرپڑھی تو حکم رانوں کاخیال آیاجوہرمحفل میں کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس 14ارب ڈالر کے ذخائرموجودہیں ، کشکول توڑ دیا ہے ، اب قرض لیتے نہیں ، دیتے ہیں ۔‘‘
***
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”