میں

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

میں

Post by چاند بابو »

[center]میں[/center]

’’صبح بیدارہواتو پہلی نظروال کلاک پرپڑی۔11:45 کا وقت دکھاتے ہوئے گھڑیال کی سوئیوں پرغورکیاتو وہ جامدتھیں ۔میں نے سوچا گزشتہ رات تو نئی بیٹری ڈا لی گئی تھی پھر کیوں اس کی سوئیاں چلنابھول گئیں ۔موبائل آن کیاتو سگنل غائب تھے ، البتہ موبائل کی گھڑی 4:53 بجا رہی تھی۔جلدی سے بسترچھوڑا اور باہرگلی میں نکل آیا۔گلی کی بہتی نا لیوں میں محلے کے گھروں کے واش رومزسے برآمدہونے والا مواد شامل ہو رہا تھا۔کچھ خواتین اپنے گھروں کا کوڑا کر کٹ اپنے دروازوں سے باہرپھینک رہی تھیں ۔ ۔ ۔ جس سے ماحول میں مزید تعفن پھیل رہا تھا۔ میں جس وقت گلی سے گزر رہا تھامیرے لیے آزادانہ سانس لینا ناممکن تھا۔بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا آبادی سے دومیل باہر کھیتوں میں نکل آیا۔
ابھی پو نہیں پھٹی تھی۔ ارد گردکی چیزیں پوری طرح واضح نہیں دکھائی دے رہی تھیں ۔میں چلتے چلتے گندم کے کھیتوں کے قریب پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ مگر اب بھی گلی کا بدبو دار ماحول میرے نتھنوں کو چیر رہا تھا۔اوس میں ڈوبے ہوئے گندم کے کھیتوں کو دیکھ کر مجھے قدرے راحت محسوس ہوئی ، البتہ ایک پگ ڈنڈی پرچلتے ہوئے اچانک جب میرے پاؤں سے کوئی چیزٹکر ائی تو فطرتاًمیں نے ٹھوکر میں آنے والے چیزکو دیکھا ۔ یہ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے زہرکی خا لی بوتل تھی۔میں نے سوچا کسی کسان نے کھیتوں پراسپرے کر کے بوتل یہیں پھینک دی ہو گی۔چندقدم اور بڑھائے تو مزیدکچھ بوتلیں نظرآئیں ۔ مجھے کسانوں کی اس لاپروائی پر سخت افسوس ہوا۔ان زہرآلودخا لی بوتلوں کویوں راستے میں چھوڑدینامجھے بہت بُرا لگا ۔
صبح کی اذانیں گونجنے لگی تھیں ۔ مؤذن سونے والوں کو اُٹھ کر عبادت کی ترغیب دلا رہے تھے ۔میں اس معمول کی چہل قدمی سے واپس سیدھامحلہ کی جامع مسجدکی طرف لوٹا۔ محلے کی گلیوں میں ابھی تک تعفن کا راج تھا۔مسجد میں وضوبنانے کے لیے استنجا خانہ میں داخل ہوا تو یہاں بھی بدبونے میری ناک چیر کر رکھ دی۔ خود پر ضبط کر کے وضو کیا اور جوتیاں ہاتھ میں اُٹھا کر مسجدکے اندر داخل ہو گیا۔کہ، اس سے پہلے ایک بار اپنی جوتیاں گنوا بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے نہایت اہتمام اور قرأت کی پابندی کے ساتھ نمازمیں سورئہ رحمٰن کی مقفیٰ آیات تلاوت کیں ۔ نماز کے بعدمختصروعظ میں انھوں نے ان آیات سمیت دیگر کچھ آیتو ں کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔ ۔ ۔ جن میں قول وفعل کے تضادکے حوالے سے تنبیہ کی گئی ہے ۔ کچھ باتیں گرہ میں باندھ لیں ۔ ۔ ۔ کچھ کانوں سے سرک گئیں ۔ گھر آیاتو خاتون خانہ ناشتا تیار کر رہی تھیں ۔
خاتون خانہ سے شکایت کی کہ ، آج کیوں ناشتا بنانے میں دیر کر دی ہے ؟ تو جواب ملا
’’آپ باہر گئے تو چندمنٹ بعدبجلی غائب ہو گئی۔ سوئی گیس کے لگے پائپوں سے ہوا برآمد ہو رہی تھی۔ ماچس کی پوری ڈبیاجلا چکنے کے بعدتو کہیں جا کر چولھا روشن ہوا۔‘‘
خیر۔ ۔ ۔ لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا تو عجیب سی بوسانسوں میں اٹک گئی۔ خاتون خانہ سے پوچھا
پکانے میں کوئی کسرتو نہیں رہ گئی؟ جواب ملا
’’اس بار جو آٹا آیا ہے اسے پکاتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے باسی ٹکڑوں کو پیس کر بنایا گیا ہو۔‘‘
چائے کا گھونٹ بھراتو ذائقہ ایساجیسے کوئی کیمیائی محلول گلے سے اُتر کر اس کی ساخت کوکھرچ رہا ہو۔
خاتون خانہ سے پوچھاکیاچائے کا برانڈ بدل لیا ہے ؟جواب ملا
’’نہیں ، دودھ سے بُوآرہی ہے ۔گوالے سے شکایت کی تھی ۔وہ کہتا ہے ان دنوں بھینسوں کو گوبھی کے پتے ڈال رہے ہیں ، اس وجہ سے شایدکچھ اثرآیا ہے ۔ذائقہ کے عادی ہو گئے تو بُو نہیں آئے گی۔‘‘
مجھے وہ رپورٹ یاد آئی جس میں بتایاگیا تھاکہ چائے کی پتی میں جان وروں کا خون ملایا جاتا ہے ، چنوں کے چھلکوں پر رنگ چڑھا کر بیچا جاتا ہے ۔معروف برانڈز کے خا لی ڈبوں میں خود ساختہ چائے ڈال کر بیچی جاتی ہے ۔میں نے وال کلاک پرنظرڈا لی وہ وہیں رُکا ہوا تھا ۔ قدرے جلدبازی سے لباس تبدیل کیا اور محلے کی بدبو دارگلیوں سے نکل کر ویگن اسٹاپ پر آ گیا ۔وین کی سامنے وا لی نشست خا لی تھی۔میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کے ہیلپر نے مجھ سے پوچھا
’’کیانہیں جانا؟‘‘
جاناتو ہے لیکن خواتین کے لیے مخصوص نشست پرکیسے بیٹھوں ؟
۔ ۔ ۔ میں نے کہاتو گاڑی میں موجو دسبھی لوگ میری جانب دیکھ کر مسکر ادیے ۔ایک ادھیڑعمر شخص اپنی نشست سے اُتر کر نیچے آ گیا۔اس کے ساتھ ایک جواں عمرشخص بھی تھا۔ دونوں نے فرنٹ سیٹ سنبھال لی۔میں ان کی خا لی کر دہ نشستوں میں سے ایک پربیٹھ گیا ۔ اگر ہیلپر کو انسان سمجھ کر دیکھا جائے تو نشستیں مکمل ہو چکی تھیں ۔ ۔ ۔ مگرنہیں ، ڈرائیورکے حساب سے ایک سیٹ خا لی تھی۔قریباًآدھ گھنٹہ انتظارکے بعد دو مسافر آ گئے ۔ ۔ ۔ اب ایک کو تو سیٹ پر بٹھا لیا گیا اور دوسراوین کے اندرکھڑا ہو گیا۔اس کھڑے ہوئے شخص کی وجہ سے پورا سفر عذاب بن کر اُترا۔
’’کیوں بھائی!دوروپے زیادہ کیوں کاٹ لیے ، ڈیزل کی قیمت کم ہوئی ہے بڑھی تو نہیں ، ،
ایک مسافرکی آواز آئی۔ہیلپرنے اسے جواب دینا ضروری نہ سمجھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ایک طرف گاڑی روکے اور احتجاج کر نے والے کو اُتار دے ۔سب خاموش تھے ۔ ۔ ۔ کسی نے بھی احتجاج کر نے والے کا ساتھ نہ دیا اور دوروپے زائد کے حساب سے سب نے خود بھی کر ایہ اداکیا۔ کفرٹوٹا خداخدا کر کے ۔ ۔ ۔ دفتر پہنچا تو ب اور دی گارڈ ’’ری پیٹرگن‘‘اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دابے اونگھ بل کہ، سورہا تھا ۔اسے سلام کیاتو وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پوچھاکیوں بھائی رات کو سوئے نہیں ؟۔ ۔ ۔ کہنے لگا
’’کیابتائے صیب، یہ کو مپنی والا ہے ناں ! دودوڈپٹیاں لیتا ہے ۔ رات کو ایک سیٹھ کے بنگلے پر جاتا ہے ۔سیٹھ لوگ کم بخت پارٹیوں پرجاتا ہے اور دیر سے آتا ہے ، اس لیے اَم سو نہیں سکتا ہے ۔صبح امارا’’ری لیور‘‘آتا ہے تو اَم یہاں آ جاتا ہے ۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا کیا تمھاری کمپنی تم سے زبردستی دو ڈیوٹیاں کر اتی ہے ؟کہنے لگا
’’نہیں صیب، پہلے اَم کاری لیورنہیں آتا تھا، تو زبردستی کر تا تھا۔ ۔ ۔ اب اَم خودڈبل ڈپٹی کر تا ہے ۔صیب تم تو جانتا ہے مہنگائی کتنا ہو گیا ہے ، گذر مشکل ہے ۔‘‘
میں اس کی باتیں سن کر سوچنے لگایہ محافظ ہے جو خود مسائل کا شکار ہے ۔ دفتر کا چپڑاسی ابھی نہیں آیا تھا۔ میں نے ’’ڈسٹر‘‘اُٹھایا۔ ۔ ۔ اپنی میز اور کر سی صاف کر کے بیٹھ گیا۔ مجھ سے آدھ گھنٹہ بعدچپڑاسی آیاتو میرے پوچھنے پر ہمیشہ کی طرح کہنے لگا
’’ سر! آپ کے علاوہ سبھی لوگ تو دس کے بعدآتے ہیں اور بڑے صاحب ۔ ۔ ۔ وہ تو بارہ بجے سے پہلے کبھی آئے نہیں ۔ پھر میں اتنی صبح آ کر کیا کر وں ۔‘‘
لیکن تمھیں تو صبح ساڑھے آٹھ بجے یہاں ہوناچاہیے ۔بجائے میری بات کا جواب دینے کے چپڑاسی
’’بڑے صاحب کاکمرہ صاف کر تا ہوں ‘‘ کہہ کر چلاگیا۔
Last edited by چاند بابو on Thu Jul 24, 2008 5:57 pm, edited 1 time in total.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

’’نہیں صدیقی صاحب نہیں ، آج یہ کام نہیں ہو سکے گا، صاحب دن بھر دفتر میں موجود ہوتے ہیں ۔پھرکسی روزمیں خودفون کر کے آپ کو بتاؤں گا۔‘‘
میرا ’’کولیگ ‘‘اپنے سیلولر پرکسی کویہ کہتے ہوئے دفتر میں داخل ہوتا ہے ۔ہماری نظریں چار ہوتی ہیں ، رسماًایک دوسرے کا حال پوچھتے ہیں ۔میراکولیگ کہتا ہے
’’ماڈل ٹاؤن جب سے شفٹ ہوئے ہیں ، دفتر کا راستہ لمبا ہو گیا ہے ، اب اپنی گاڑی سے بھی دیرہوجاتی ہے ۔‘‘
میں اسے کوئی جواب نہیں دیتا ہوں ۔میں سوچتا ہوں میرا کولیگ مجھ سے جونئرہے اور اس کی تنخواہ بھی مجھ سے کم ہے ۔میں ابھی تک اپنے اباکے مکان میں رہتا ہوں ، مگر اس نے ماڈل ٹاؤن میں کوٹھی بنا لی ہے ، نئی گاڑی خریدلی ہے ، اس کے بچے مہنگے پبلک اسکولوں میں پڑھتے ہیں ۔ خیر!کام شروع ہوتا ہے ۔ لوگ آتے جاتے ہیں ۔کچھ لوگوں کو میں ہینڈل کرتا ہوں اور کچھ کو میرا کولیگ۔ ۔ ۔ مگربیچ بیچ میں وہ آنے والوں کو لے کر باہرنکل جاتا ہے ، ان سے ’’معاملہ‘‘ کر تا اور واپس آ جاتا ہے ۔
اب چھٹی کا وقت ہو گیا ہے ۔میراساتھی دن بھرکی ’’کمائی ‘‘کو اپنے بٹوہ میں سلیقہ سے رکھتا ہے اور مجھے مخاطب کر کے کہتا ہے
’’کیا کر یں جناب!اتنی مہنگائی میں تنخواہ پرگزران مشکل ہے ۔ ویسے لوگ خوشی سے دیتے ہیں ، میں زبردستی تو نہیں لیتا۔‘‘
وہ اپنے کوٹ کی جیب سے نئے ماڈل گاڑی کی چابیاں نکال کر اس اندازسے اُچھالتا ہے جیسے کوئی باؤلر گیند پھینکے سے پہلے اُچھالتا ہے ۔ہم دونوں ایک دوسرے سے رسمی جملے کہہ کر جدا ہوجاتے ہیں ۔
میں سوچتا ہوں لوگ اپنے حق کے لیے خوشی سے رشوت کیوں دیتے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔ میں سوچتا ہوں کیا میں اس مہنگائی سے متاثر نہیں ہوا ہوں ؟
میں اسٹاپ پرکھڑا بس کا انتظار کر تا ہوں ۔کچھ لوگ اور بھی اپنے ٹھکانوں کو لوٹنے کے لیے گاڑیوں کے منتظرہیں ۔کچھ ماڈرن ٹائپ نوجوان اپنے مخصوص انداز سے سٹاپ پر کھڑی’’ورکنگ وومنز‘‘کو تاک رہے ہیں ۔یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی قصاب بکر ے کو دیکھ رہا ہو۔ میں سوچتا ہوں کیا ان لوگوں کا کسی عورت سے کوئی رشتہ نہیں ۔اِن کی طرف مائیں ، بہنیں ، بیویاں اور بیٹیاں نہیں ہوتیں ۔اتنے میں ہمارے پاس سے ایک شخص ’’مالش‘‘ کی صدابلند کر تے اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی تیل کی نصف درجن بوتلوں کوکھڑکاتے ہوئے گزرتا ہے ۔میری آنکھوں کے سامنے ریلوے اسٹیشنوں اور بڑے بس اڈوں کا منظر آ جاتا ہے ، جہاں اس طرح کے مالشی گھر سے بھاگ کر آنے والے کم سنوں کے شکار میں رہتے ہیں ۔ ان پرذہنی اور جسمانی تشدد کر تے ہیں ، انہیں نشے کی لت ڈالتے ہیں ، جوئے اور ڈکیتی کے طریقے سکھاتے ہیں ، معاشرے میں بدامنی پھیلانے کے گُرسکھاتے ہیں ۔اگلے ہی لمحے میرے دماغ میں سرسراہٹ ہوتی ہے اور مجھے خیال آتا ہے یہ کم سن بچے اپنے گھروں سے بھاگتے ہی کیوں ہیں ؟ پھرمیری آنکھوں میں کئی ایسے منظرگھوم جاتے ہیں ، جہاں والدین اپنے بچوں کا استحصال کر تے ہیں ۔ کبھی ’’ایموشنل بلیک میلنگ ‘‘کے ذریعے ۔ ۔ ۔ تو کبھی کسی اور طرح سے ۔ ۔ ۔
سوچیں بڑھتی جاتی ہیں ، باتیں کُھلتی جاتی ہیں ۔گاڑی میں بیٹھتا ہوں تو آدمی میں آدمی گڑے ہوئے ہوں جیسے ۔ ۔ ۔ سانس لینابھی محال ہوجاتا ہے ۔اپنے اُوپرچھتری کی مانند پھیلے ہوئے بے سلیقہ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو دماغ کی رگیں چٹخ جاتی ہیں ۔سفرکی مشقت جھیلنے کے بعدجب اسٹاپ پر اُترتا ہوں تو میرے پڑوسی منشی صاحب بھی موجودہیں ۔انھوں نے ہاتھوں میں موسمی پھلوں اور سبزیوں کے تھیلے پکڑ رکھے ہیں ۔کہتے ہیں
’’ کیا بتاؤں جناب ! ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے ۔ قیمتوں کی بڑھوتری تو ایک طرف معیار کا بھی ناس ماراگیا۔‘‘
میں نے سوچا کارخانے داراپنی بنای گئی مصنوعات سے زیادہ نفع کمانے کے لیے کوالٹی کنٹرول پرتوجہ نہیں دیتے ۔پھر ہر چیزکی نقل اس کے ساتھ ہی تیار ہو کر مارکیٹ میں آ جاتی ہے ۔دودھ والا اگرپانی ملاتا ہے تو چائے والا خون اور پٹرول والامٹی کا تیل ، قصاب گوشت میں پانی ڈال کر اس کا وزن بڑھاتا ہے ، سبزی والاباسی سبزیاں فروخت کر تا ہے ، محافظ سو جاتا ہے اور چپڑاسی وقت پرآناتوہین سمجھتا ہے ، صاحب لوگوں کے آنے کا کوئی وقت نہیں ، ملازمین کا رشوت لینا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ ورنہ مہنگائی کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ، گاڑیوں میں انسانوں پرسوارہوکر سفر کرناناگزیرہے ورنہ زندگی کی گاڑی بھی چھوٹ سکتی ہے ۔
سوچوں کے انبارتلے دبا ہواگھرکی دہلیزپار کر تا ہوں تو خاتون خانہ کے کھانسنے کی آواز استقبال کر تی ہے ۔میں پوچھتا ہوں ، نیک بخت کیادوانہیں لی ؟ جواب ملتا ہے
’’ کئی دوائیں بدل چکی ہوں ، مگرکھانسی ہے کہ جاکے ہی نہیں دیتی۔‘‘
مجھے ایک اخباری رپورٹ یادآ جاتی ہے جس میں بتایاگیا تھاکہ اس وقت تقریباًہر دواکی دو نمبر موجودہے ۔بل کہ کئی دو نمبر ادویات سازباقاعدہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور اپنے ٹریڈمارک سے دوائیں فروخت کر رہے ہیں ۔مجھے وہ رپورٹ یادآئی جس میں اس مسیحا نما قصاب کے چہرے سے پردہ کھینچا گیا تھا جو دوا ساز کمپنی سے معاہدے کی بناپرہرمریض کو اس کا سیرپ بیچتا تھا۔سردرد، بدن درد، کھانسی، جوڑوں کا درد پیٹ کا درد، دل کا درد، غرض تکلیف کوئی بھی ہو، مریض کسی بھی عمر کا ہواسے یہ سیرپ پیناپڑتا تھا۔میں نے سوچاکیاوہ ادارے سوئے ہوئے ہیں جنھیں ’’کوالٹی کنٹرول‘‘کے شعبوں کی نگرانی پر مامور کیا گیا ہے ۔ سیکر ٹری ہیلتھ اور وزیرصحت کیا کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟پھرمجھے خیال آیا ان لوگوں نے ملک کے سیون اسٹار ہوٹلوں میں نہایت اہم موضوعات پر ہونے والے سیمینارز اور سمپوزیمز میں شریک ہونا ہے ۔ اور پھرمیری آنکھوں کے سامنے ، تعلیم، مواصلات، اطلاعات، خزانہ، دفاع ، خارجہ، داخلہ کے سیکر ٹریوں اور وزراکی مصروفیات کا منظر آیا۔ہرہرشخص درجنوں کیمرہ مینوں اور سیکڑوں صحافیوں کو اپنے سامنے بٹھا کر مستقبل کی حکمت عملیوں اور اپنی کام یابیوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ پرمٹوں ، پلاٹوں اور ٹھیکوں کے حصول کے لیے سیاست دانوں کی لمبی قطارتھی۔ہرکوئی اپنے نفع کے لیے قومی سرمایے پرقبضہ کر رہا تھا، اسے لٹا رہا تھا۔تب اچانک مجھے وزیر اعظم اور صدرکے ہنگامی دورے نظرآئے ۔ان کے وفود میں شامل وزرا، سیکر ٹری، دیگر اہل کار اور ان کی بیگمات شان و شوکت سے غیر ملکی دورے کر تے ہیں ۔ ۔ ۔ اربوں روپے اُڑاتے ہیں ، لوٹ آتے ہیں اور اپنے دوروں کی کام یابی کی نوید سناتے ہیں ۔خوش حا لی کا راگ الاپتے ہیں ۔ انھیں غربت اور بے کاری کے ہاتھوں جھلس جانے والے چہرے نہیں دکھائی دیتے ۔ ۔ ۔ محرومیوں اور بے بسیوں میں گھرے ہوئے لوگ ان کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔
خاتونِ خانہ میرے سامنے کھاناچن رہی ہیں ۔ میں ایک نوالہ توڑ کر منہ کے قریب لے جاتا ہوں ۔روٹی سے وہی صبح وا لی بُوآرہی ہے ۔ ۔ ۔ مگر میں بھوکا ہوں ۔پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مجھے یہی کھانا ہے ۔میں عشاکی نمازپڑھنے کے لیے اپنے گھر سے پاؤں باہر نکالتا ہوں تو گلی میں پھیلی ہوئی بدبومیرے نفس کو قتل کر تی ہے ، مگرمجھے نماز بہ ہر حال پڑھنی ہے ۔مسجدکے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے جوتوں کو ہاتھ میں اٹھائے چل رہا ہوں کہ مسجدسے جوتے چوری ہو جاتے ہیں ۔امام صاحب سورئہ یوسف کی کچھ آیات تلاوت کر تے ہیں ۔نمازمکمل ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ میراسرجھکا ہوا ہے اور میرے دماغ پروہ واقعات روشن ہورہے ہیں ، جو گزشتہ چندبرسوں میں رونما ہوتے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ معبدوں میں نماز پڑھتے ہوئے بھائیوں نے بھائیوں کو بارود سے اُڑا دیا۔میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کویاد کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ تاریخ کے کئی ورق چندساعتوں میں میرے سامنے کھل جاتے ہیں ۔میں گھرآتا ہوں ، خاتونِ خانہ سے کچھ امور پرگفتگوہوتی ہے اور آنے والے کل کے استقبال کے لیے تازہ دم ہونا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور سوجاتا ہوں ۔
میرا آئندہ دن بھی اسی طرح گزرے گا جیسا کہ آج گزرا ہے ۔‘‘
’’میں ‘‘کی کہانی ختم ہوئی تو میں نے سوچا’’میں ‘‘کی یہ باتیں سن کر معلوم ہوتا ہے جیسے ملک کے اندربہ جزاس کے کوئی اور نیک نہیں ، کوئی اور صاحب کر دار ، دیانت دار ، امین اور وفاپرست نہیں ۔میرے ذہن میں اپنا ایک شعرتازہ ہوا
سب کے ہاتھوں میں آئنہ دے دو
سچ تو مشکل ہے کون بولے گا
میں نے ’’میں ‘‘کے ہاتھ میں آئینہ دیا۔ ۔ ۔ آئینے کی کر چیاں چاروں اور بکھری پڑی تھیں ۔

٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”