بوڑھا د رخت

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

بوڑھا د رخت

Post by چاند بابو »

[center]بوڑھا د رخت[/center]

ان گنت سالوں سے اپنی بانہیں پسارے ، سرنیہواڑے وہ زمین میں گڑا ہوا تھا ، زمانوں کی گریزپاگھڑیوں اور لمحوں نے اس کے وجود پرکھردراہٹوں کی داستان رقم کر دی تھی ، ہرنئی ساعت میں اس کے وجود پر ایک لکیرکا اضافہ ہوجاتا اور یہ لکیرکچھ توقف کے بعدگہری شکن میں بدل جاتی۔پھریہ شکنیں اس کے وجود کا حصہ بن جاتیں ، اس کی شخصیت کی پہچان ہونے لگتیں ۔دیکھنے والوں نے خیال کیاکہ شایداس کی جلدازل سے ہی ایسی ہے ، لکیروں کا لباس اس نے پہلے دن سے ہی پہنا ہوا ہے ۔حالاں کہ ایسانہیں ہے ، ایسانہیں تھا۔اس کا وجود کبھی بہت نازک ، بہت دل کش، بہت خوب صورت تھا اور آج۔ ۔ ۔ آج صدیوں کی تھکاوٹ پہنے وہ زمین میں گویاگڑتا جارہا تھا، اس کی بانہیں سکڑتی جارہی تھیں ، اس کی خوشبو گھٹتی جا رہی تھی، اس کی ٹھنڈک مٹتی جارہی تھی، موسموں کے تغیرات اور لوگوں کی بے اعتنائیوں نے اس سے اس کا اعتبار، اس کا حسن، اس کا دبدبہ، اس کا قد اور خوش بوتک چھین لیے تھے ۔ ۔ ۔ اور اب وہ گئی رتوں کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے پھیرتے کچھ تھک ساگیا تھا ۔ ۔ ۔ بل کہ اکتاہٹ کے نشانات اس کے چہرے پرثبت ہو گئے تھے ۔وہ کسی اور زمین میں نمو پانے کی خواہش رکھتا تھا۔بے رُخی اور ستم شعاری پرمائل لوگوں کے پاس اس کے دکھ کو سمجھنے کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ہرکوئی اپنی اناکا اسیرہوکر اپنی زندگی میں مگن تھا۔ ۔ ۔ وہ بھی جن کی موم سی نازک جلدکو اس نے اپنے میٹھے فرحت بخش سایوں میں پروان چڑھایا تھا اور ۔ ۔ ۔ وہ بھی جو عمرکا ایک طویل حصہ اس کی چھاؤں میں گزار کر زندگی کی بوقلمونیوں سے آشنا ہوئے تھے ۔بیزاری اور بے دلی کے اس عالم میں تو اس پر اس کے سائے بھی گھٹ رہے تھے ، یوں وہ اپنی ذات کا اعتباربھی ختم کر چکا تھا۔کتنے ہی لوگ اس کے ٹھنڈے سایے میں بیٹھ کر خوشیاں سمیٹ گئے اور کتنوں نے جھلساتی دھوپ سے گھبرا کر اس کی میٹھی، ٹھنڈی چھاؤں میں سکھ کا سانس لیا۔ ۔ ۔ اس کا اندازہ ممکن ہی نہیں ۔اس نے کبھی بھی کسی آنے والے کو اپنے سے دُورنہیں رکھا، جو بھی آیا اسے کھلے دل سے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سینے سے چمٹا لیا ، مگر وقت نے دیکھا ، انھی لوگوں نے اس پرپہلاوارکیاجن کو زمانہ کے سردوگرم سے اس نے محفوظ کیا۔اتنامحفوظ کہ موسموں کی شدت ان پراثرانداز ہونے سے قاصرہو گئی۔طوفانِ باد و باراں کی سختی بجائے خودان کے لیے لطف کا باعث ہو گئی۔ ۔ ۔
اوخدایا!۔ ۔ ۔ آج تیشہ انھی ہاتھوں میں ہے جنھیں پکڑ کر اس نے چلنا سکھایا تھا۔وہ جانتا تھاکہ ، اب اس کی فریادسننے والاکوئی نہیں ہے ، جلدیابہ دیرکسی ستم ایجادکے ہاتھوں اس کی زندگی کا چراغ گل ہوجائے گا۔ ۔ ۔ یاپھرنئی ہوائیں اس کے وجود خستہ کو خس وخاشاک کی مانند اُڑا لے جائیں گی اور یہ نشان چھوڑ کر بھی بے نشان کہلائے گا، مگرپھربھی۔ ۔ ۔ پھربھی وہ چاہتا تھاکہ ایک بارہی سہی، ایک لمحہ کے لیے ہی سہی وہ چلے آئیں جن کی ہریا لی میں اس کا خون بہتا تھا ۔
وہ جنھیں کسی اور ہوانے آلیا تھابوڑھے درخت کی زبان کہاں سمجھنے والے تھے ، انھیں تو یہ بھی یادنہیں رہا تھاکہ ان کی اصل یہی تو ہے جو پکار رہا ہے اور وہ تو یہ بھی بھول گئے تھے کہ، ان کے تن اور وجودپربھی ایک دن کھردرے ملبوس نے اُترنا ہے ۔ان کے مضبوط بازوؤں نے سکڑ کر کمزورہونا ہے ، تنی ہوئی گردن نے ڈھلک جانا ہے اور کھلے سینہ نے اپنے آپ میں سمٹ جانا ہے ۔ اور شایدوہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے تھے کہ ان کے چھوڑے ہوئے نشانات وجود میں ہوکر بھی معدوم ہو جائیں گے ، بالکل اسی طرح جیسے ان کی موجودگی میں بوڑھا درخت بے نشان تھا۔
دُورشیشم کے گھنے درختوں میں فاختاؤں کی صدائیں بیدارہوئیں اور ہواکے دوش پرسفر کر تے ہوئے آگے نکل گئیں ، کبھی کبھی اس گونج میں لٹورے کی آوازبھی مدغم ہونے لگتی۔ ان دہری آوازوں کی آمیزش نے احمدعلی کو ماضی میں دھکیل دیا تھا۔ایک ایک منظر اس کے دماغ پر رقص کر تا اور پھر خود میں محو ہو کر آنسوؤں کی صورت اس کی پتلیوں تک نکل جاتا۔اس لمحے وہ بائیں ہونٹ کے کونے کو اپنے بوڑھے دانتوں میں داب لیتا اور ایک کوشش سے اشکوں کو پینے کی دھن میں نکل جاتا۔ ۔ ۔ مگرپھربھی چہرے پرثبت دوغاروں کے کونے بھیگ جاتے اور وہ اپنی میلی آستین سے غاروں کے دھانوں کو رگڑ کر اُلجھ بیٹھتا ۔ مسلسل رگڑنے کے باعث غاروں کے گرداگرد سرخیوں کے پہاڑاُٹھتے جارہے تھے ۔اس نے سوچاکہ اکہترسال کے طویل عرصہ میں ایک باربھی تو اس نے کانٹوں کی فصل نہیں بوئی تھی، پھراس کے تمام کھیتوں میں ہمیشہ کانٹے کیوں اُگتے چلے آئے تھے ۔ ۔ ۔ کبھی اس نے میلامنظرنہیں دیکھا تھاپھراس کی آنکھیں پھوڑے کیوں بن گئیں تھی، کبھی اس نے غیرلمس کو محسوس نہیں کیاپھراس کی بانہیں شل کیوں ہو گئیں تھی۔وہ سوچتاگیا اور روتا گیا۔ ۔ ۔ مگر کہیں اسے یہ سراغ نہ مل سکاکہ وہ کن بے ضابطگیوں کا صلہ پارہا ہے ، کس تخم کی فصل کاٹ رہا ہے ؟ اسے یادآیاکہ شاہ جہاں پور سے چلنے والا قافلہ آٹھ افرادپرمشتمل تھا، جو منٹگمری تک پہنچتے پہنچتے سکڑ گیا تھا ۔ اب ایک وہ اور اس کی بیوہ پھوپھوتھیں ۔ ۔ ۔ جنھوں نے زندگی کو نئے سرے سے آغازکیا۔
بارہ کا سن ہوتا ہی کیا ہے ، اس عمر میں تو آدمی کو اپنی شناخت تک نہیں ہوتی زمانوں کی خبرداری کیوں کر ممکن ہے ۔اسی سن میں احمدعلی نے ایک تھڑا ہوٹل پر کام شروع کیا تھا ۔زندہ رہنے کے لیے جو ضروری تھا وہ اسے وہاں سے مل جاتا۔اس کی شرافت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا تھاکہ چارسال بعد ہوٹل کے مالک نے اسے اپنی فرزندی میں لے لیا۔ اور پھرزندگی کی راہ پراس کا سفر رواں دواں ہو گیا۔ ۔ ۔ جوں جوں وقت کینچلی بدلتاگیا احمدعلی کے چہرے پر شکنیں بڑھتی گئیں ۔یہ شکنیں اس کے اپنے لیے نہیں تھیں بل کہ ان تینوں کے لیے تھیں جو اس کی تقسیم تھے ۔تینوں کو اس نے بڑی چاہ سے شہرکے مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھایا اور پھراعلیٰ تعلیم کے لیے گوروں کے دیس بھیجا۔ دو وہاں ٹھہر گئے ۔ ۔ ۔ اور ایک پلٹ آیا۔ اس لیے نہیں کہ اسے احمدعلی کی فکر تھی بل کہ اس لیے کہ وہ جس سے وابستہ ہو گیا تھاوہ وہاں رُکنانہیں چاہتی تھی۔
اسجدعلی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرمقررہو گیا تھا۔انگریزی ڈگری کے باعث اسے جلدمقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔جب اس کا تبادلہ نسبتاًپسماندہ قصبہ میں ہواتو اس کی چاندی ہو گئی۔دھن اس پریوں برسنے لگاجیسے ساون کا بادل۔چند ہی سالوں میں اس نے شہر میں سب سے بڑابنگلہ اور تمام سہولیات سے آراستہ پہلا اسپتال تعمیرکیا۔سرکاری اسپتال میں تعیناتی کے دوران اس نے خوب اثرورسوخ قائم کر لیا تھا۔ جائزونا جائزمقدمات میں لوگوں کو اُلجھا کر علاقہ کے سر کر دہ لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائے ، ان سے مال بٹورا ۔ ۔ ۔ اور پھرخودکو ان جیسابنانے کے لیے ان کے سانچے میں ڈھال لیا۔اب اس کے پاس کالے شیشوں وا لی انٹر کولر اور درجن بھراعلیٰ نسل کے کتے اور مسلح محافظ ہروقت موجود رہنے لگے تھے ۔ اکلاپے کا ماراحمدعلی جوکبھی اس جانب نکل آتاتو اسجدعلی کا توہین آمیزرویہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ، ناچاروہ اپنے گھر لوٹ جاتا۔ ۔ ۔ جو اس نے حلال کا ایک ایک روپیا جمع کر کے بنایا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جو اسے شاہ جہاں پور کا بدل محسوس ہوتا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جو اس کے رفیقِ سفرکی یادوں سے مہکتا اور کھلتا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھرجہاں اسجدعلی پیدا ہوا اور پھر پہلا قدم اُٹھایا۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ جوان بھی اسی گھر میں ہوا۔
پھرایک رات تیزآندھیاں چلیں ۔ ۔ ۔ بوڑھادرخت اپنی جڑوں سے اکھڑ چکا تھا ۔ صبح دم لوگوں نے دیکھاتو نام ورسرجن ڈاکٹر کا باپ اپنی چارپائی کے نیچے تڑپ تڑپ کر دم تو ڑچکا تھا ۔ ۔ ۔ اور جب اس کے بیٹے کو اطلاع دی گئی تو وہ سیکڑوں میل دُوراپنے جاگیر دار دوستوں کے پاس بیٹھ کر کتوں کی عادات پر گفتگو کر رہا تھا۔ ۔ ۔ مگرکتے کی وفاداری کا وصف اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”