اردو زبان کے دس بہترین ناول!

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

اردو زبان کے دس بہترین ناول!

Post by میاں محمد اشفاق »

Image

اردو زبان کے دس بہترین ناول!

اس سے پہلے پیش کی گئیں فہرستوں کی طرح ناولوں کی یہ فہرست ان کی اہمیت، علمی ، ادبی اور ثقافتی اہمیت، مطالعے اور مناسبت کے تحت مرتب کی گئی ہے ۔ معاف کیجئے گا کہ اس میں نام نہاد ' مقبول فکشن' یا ڈائجسٹ ادب شامل نہیں یا وہ ادب جسے ڈرامہ دیکھنے والی خواتین سراہتی ہیں۔ لیکن اس بار بھی میں یہی کہوں گا کہ شاید ہی کوئی فہرست ایسی ہوسکتی ہے جس پر ہر ایک متفق ہوسکے۔

تو اگر آپ اس فہرست سے متفق نہیں تو دس بہترین ناولوں کی اپنی کوئی فہرست بنانے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک وقت تھا جب نقاد اردو ناولوں کے متعلق مایوس تھے۔ کئی ایک نے کہا کہ عظیم ناول تو دور کی بات، اردو زبان میں تو ایک درجن ناول بھی ایسے نہیں جنہیں اچھے ناول قرار دیا جاسکے۔

لیکن ناول نگار اور نقاد، عزیز احمد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے کہا ہے کہ جنہوں نے اردو ادب کا مطالعہ نہیں کیا یا کسی ناول کو گہرائی میں نہیں پڑھا وہی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔

ایک اور ادیب شہزاد منظر کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد کئی اچھےناول لکھے گئے اور ان کا کہنا ہے کہ 1970 کے عشرے میں میں بہتر ناول منظرِ عام پر آئے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ زرعی معاشروں میں شاعری کو نثر پر فوقیت حاصل تھی اور ناول صنعتی عہد کی پیداوار ہے۔ لیکن گزشتہ پندرہ برسوں میں اچھے اردو ناول تواتر سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ مصنف عرفان جاوید کے مطابق لگ بھگ گزشتہ دس سال میں اردو ناولوں کا احیا ہوا ہے۔

:فسانہ آذاد

چونکہ شاید آج مشکل سے اسے ناول کا درجہ مل سکے ہم ابتدائی اردو ناولوں مثلاً مولوی نذیر احمد کے مراۃ العروس (1869) کو چھوڑ کر ایک شاہکار ناول کی بات کریں گے جسے پنڈت رتن ناتھ سرشار نے لکھا تھا۔

'فسانہ آزاد' (1878) میں منظرِ عام پر آیا اور اس پر عام اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ اس میں حقیقی پلاٹ کی کمی ہے اور اس کی ضخامت اسے بہت بھاری بھرکم ناول میں تبدیل کرتی ہے۔ لیکن دنیا کے عظیم ترین ناولوں کے ساتھ بھی یہی کچھ معاملہ ہے جن میں ' وار اینڈ پیس' اور ' دی برادرز کراموزوف' قابلِ ذکر ہیں۔

اس میں خالص اردو میں لکھنو تہذیب کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ایک مسخرا نما کردار خوجی کا بھی ہے جسے اردو ادب کے اولین مزاحیہ کرداروں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔

امراؤ جان ادا: 1899 میں لکھا گیا یہ ناول، اردو ناولوں کے عروج کی ایک لحاظ سے علامت اور اشارہ تھا۔ ناقدین کی رائے اب بھی اس پر تقسیم ہےکہ امراؤ کوئی اصلی کردار تھا بھی یا نہیں لیکن یہ ناول مرزا ہادی رسوا کی فکشن پر زبردست مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ بظاہر یہ ایک طوائف کا زندگی نامہ ہے لیکن اسے انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں لکھنؤ کے تہذیب اور معاشرے کا عکاس ناول قرار دیا جاسکتا ہے۔

گئودان: منشی پریم چند کے تمام ناولوں میں سے گئودان (1936) کو سب سے بہترین کام کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دو زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔

پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا۔ لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ بھی بہترین اردو ناولوں میں سے ایک۔

آگ کا دریا: اسے اردو زبان کا سب عظیم ناول بھی قرار دیا جاتا ہے۔ معروف ناول نگار ، قراۃ العین حیدرکی تخلیق آگ کا دریا (1957) نے ایسے کئی تنازعات کو جنم دیا جو آج بھی ختم نہیں ہوئے۔ اس پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ ورجینیا وولف کے سوانحی ناول اورلینڈو سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔

اس ناول کی سوانح عمری تین سو سال پر محیط ہے اور ناول میں مصنفہ نے جو خیالات پیش کئے اس پر انہیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا تھا۔ اگرچہ اس کے پہلے دوسو صفحات پڑھنا مشکل ہے لیکن اس ناول میں برصغیر کی 2,500 سالہ تاریخ سموئی گئی ہے اور اگر آپ اسے گرفت میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا تاریخ بھی آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے۔

بشکریہ اردو پوائینٹ
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “اردو کالم”