خوف و امید (حصہ اول)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
العلم
کارکن
کارکن
Posts: 32
Joined: Sat Dec 21, 2013 12:34 pm
جنس:: مرد

خوف و امید (حصہ اول)

Post by العلم »

إن الحمد للہ، نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسیئات أعمالنا، من یھدہ اللہ فلامضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لہ شریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ) (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا) (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)
أما بعد! فإن أصدق الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی، ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ فی النار۔
وقال اللہ سبحانہ وتعالی:
(إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) (آل عمران:175)
"یہ خبر دینے والاصرف شیطان ہی ہے، جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مؤمن ہو۔"
معزز سامعین کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بطور یاد دہانی عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتیں دے رکھی ہیں اور اس کے ساتھ اس کی مہربانیاں بہت ہیں؛ لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور مہربانی یہ ہے کہ اس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا۔ اس پر ہمیں صرف زبان سے ہی نہیں؛ بلکہ دل سے بھی اللہ کا شکر اداکرنا چاہئے۔ کیونکہ دل کی باتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جبکہ دل ہی سے اخلاص کا تعلق ہے اور زبان دل کی تابع ہے۔ جب دل اللہ کے مخلصانہ شکر سے معمور ہوگا تو اس کی تابع زبان سے نکلے ہوئے الفاظ شکر بھی مخلصانہ ہوں گے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ دل اعضائے جسم کا بادشاہ ہے، اور اعضاء اس کے لشکر ہیں۔ بادشاہ صحیح ہو، تو صحیح احکام صادر کرےگا، اور اس کے لشکر بھی صحیح کام کریں گے۔ اگر بادشاہ صحیح نہ ہو، تو اس کے احکا م اور اس کے لشکر کے کام صحیح ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی، درج ذیل حدیث سے اس کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (ألا وإن فی الجسد مضغۃ إذا صلحت صلح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب) (البخاری، کتاب الإیمان، باب فضل من استبراء لدینہ)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبر دار! اس با ت کو غور سے سنو ! یقین کرو کہ جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ جب تک وہ ٹھیک رہتاہے پورا جسم ٹھیک رہتا ہے ؛ لیکن جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو پو را جسم خراب ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو کہ گوشت کا وہ ٹکڑا ''دل" ہے۔
لہذا اللہ کے کسی بندے سے اچھے کام کی، یا اللہ پر صحیح عقیدہ رکھنے کی امید، صرف اس صورت میں کی جا سکتی ہے، جب اس کا دل صحیح ومستقیم ہو۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث میں آیا ہے:
عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: (لایستقیم إیمان عبد حتی یستقیم قلبہ) (مسند أحمد)
" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا دل صحیح ودرست نہ ہو۔"
اور دل کے صحیح و درست ہو نے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید کا اعتقاد رکھا جائے ، اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت رکھی جائے، اس سے خوف کیا جائے یعنی ڈرتے رہا جائے۔ نیز اسی سے اپنی مرادیں پانے کی امید رکھی جائے، اس کی فرماں برداری دل و جان اور محبت سے کی جائے اور اس کی نا فر مانی سے نفرت کی جائے۔
دل کی اہمیت پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مروی ایک حدیث میں آیا ہے:
(قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ لا ینظر إلی صورکم و أموالکم؛ ولکن ینظر إلی قلوبکم وأعمالکم) (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شکل وصورت اور مال و دولت کی طرف نہیں دیکھتا ؛ وہ صرف تمہارے دلوں اور عملوں کی طرف دیکھتاہے۔"
ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ انسان کی زندگی و موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور اسی اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں اب تک با حیات رکھکر اپنے ہفتہ وار اجتماعی شکر یہ اداکرانے کے لیے جمعہ کے دن، اپنے مبارک گھر میں جمع ہونے کی توفیق دی۔
فلہ الحمد والشکر بالغدو والاٰصال، ملأ السماوات والأرض وملأ ما شاء من شیئ یرضاہ۔
اللہ نے انسان کو پیدا کر کے اسے دنیا کی عارضی زندگی گزارنےکے لیے اسلا م کی شکل میں ایک نظام یا دستور بھی عطا فرمایا، اور اس دستور کی عملی تشریح کے لیےوقفے وقفےسے رسول مبعوث فرماتا رہا۔ اسی اسلام یا نظا م زندگی کو آخری واکمل شکل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آ خری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماتے ہوئے کہا:
(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (المائدۃ:3)
"آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا، اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔"
یہ مکمل اسلام یا مکمل نظام زندگی قرآن کریم کی شکل میں اور اس کی تشریح و تبیین حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں مسلمانوں کے پا س محفوظ ہے، جس کے مطابق اللہ کی توفیق سے عمل کرتے ہوئے وہ اس دنیا میں ایک شریف وکامیاب زندگی گزار سکتے ہیں، اور اپنی آخرت کی زندگی بھیسنوار سکتے ہیں۔ ایسی ہی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کرنا سکھایا:
(رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) (البقرۃ:201)
"اور بعض لوگ وه بھی ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔"
یہی ہے دنیا وآخرت میں بھلائی حاصل کر نے کا راستہ، جسے قرآنی تعبیر میں صراط مستقیم کہا گیا ہے،اور جو سو رہ ٔفاتحہ کی ایک آیت کا اہم جزء ہے، جسے ہر نماز کی ہر رکعت میں امام و مقتدی ہر ایک کو پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرض بتایا ہے، اور رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے ہی کا میابی حاصل ہو سکتی ہے۔
دنیا و آخرت کی کا میابی کا راستہ پاجانے کے باوجود آپ کو برابر ہو شیار رہناہوگا، تا کہ شیطان اور اس کے کارندے آپ کو اللہ اور اس کےرسول کے بتائے ہوئے صراط مستقیم سے نہ بھٹکا سکیں۔ کیو نکہ شیطان ہمیشہ اللہ کے مؤمن بندوں کا دشمن رہا ہے، اور آئندہ رہےگا بھی۔ وہ کمزور ایمان والوں کو کا فر وں سے خوف دلا کر راہِ راست سے بھٹکا نے کی کوشش کرتا رہتاہے۔ جیسا کہ معر کۂ احد کے بعد کیا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) (آل عمران: 175)
"یہ خبر دینے والاصرف شیطان ہی ہے، جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرو، اور میرا خوف رکھو، اگر تم مؤمن ہو۔"
اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دل میں صرف اللہ کا خوف رکھیں۔ تو حید اُلوہیت کے سلسلے میں جہاں ہمیں دل کے اندر اللہ کا خوف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہیں ہمیں اللہ سے رجا وامید بھی وابستہ رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ بھی اللہ کی ایک مطلوبہ عبادت ہے۔ جبکہ اس کے بر عکس نا امیدی کو گمراہی قراردیا گیا ہے:
(قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ) (الحجر:56)
"کہا اپنے رب تعالیٰ کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراه اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں۔"
اللہ کے تعلق سے اس خوف و رجا کی حقیقت ہمیں جان لینا ضروری ہے، تا کہ مطلوبہ خوف و رجا کے نشیب وفراز سے ہم واقف رہیں، اور اس سلسلے میں ممکنہ لغزشوں سے بچ سکیں۔ یہ خوف اللہ کی عبادت کے متعدد اقسام میں سے ایک قسم ہے، اور اسی طرح رجایا امید بھی عبادت ہی کی ایک قسم ہے، اور یہ دونوں توحید اُلو ہیت کی علامتیں ہیں ۔مطلوبہ خوف یا ڈرکا مطلب یہ ہے کہ دل میں خدا کے خوف سے ایک قلق واضطراب کی ایسی کیفیت ہو جس سے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ حرام کے ارتکاب کرنے، واجب کےترک کر دینے اور مستحب سے رو گردانی کرنے پر، اللہ کا عذاب لاحق ہو سکتا ہے، اور یہ اندیشہ بھی ہو کہ انہی وجوہات کی بنا پر ممکن ہے کہ اللہ اس کے عمل صالح کو بھی قبول نہ کرے۔ دل میں یہ احساس پیدا ہو نے پر اس کا نفس برائیسے متنفر ہو کر محرمات سے رک جا تاہے اور بھلا ئی کی طرف سبقت کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ لیکن یہی خوف اگر زیا دہ ہو جائے اور حدسے تجاوز کر جائے تو یاس وناامیدی سے بدل جاتاہے، جو گناہ اور گمراہی ہے۔ جیسا کہ سابق الذکر آیت سے واضح ہے۔
خشیت ، رہبت اور ہیبت ، یہ سب الفاظ خوف ہی کے متقارب ہیں۔ لیکن یہ اس کےمر ادف نہیں ، خوف عام ہے اور خشیت اللہ تعالیٰ کی بہت ساری صفتوں کے علم سے مزین ہو تی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ) (فاطر:28)
" اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ۔"
چو نکہ لفظ " خوف و ڈر " عام ہے، اور سطور بالا میں بتاگیا ہے کہ اللہ سے ڈر نا ایک عبادت ہے، اور عبادت صرف اللہ کے لیے ہو نی چاہئے۔ اگرکوئی عبادت غیراللہ کے لیےیا کسی بھی مخلوق کے لیے ہو تو وہ شرک ہے۔ اور شرک کرنے والا مشرک قرارپاتاہے۔ اور مشرک کا ٹھکا نا جہنم ہے۔ ممکن ہے کہ اس بیا ن سے کچھ عوام الناس کو غلط فہمی ہو جائے۔ اور وہ اس طرح کہ جب اللہ کا خوف یا اللہ سے ڈر نا اللہ کی عبادت ہے تو کیا کسی مخلوق کا خوف یا اس سے ڈر نا اس مخلوق کی عبادت ہو جائےگی؟ جیسے شیر،مگرمچھ، سانپ یا پاگل کتے سے ڈرنا وغیرہ۔کیا ان چیزوں سے ڈرنا ان کی عبادت و شرک میں داخل ہے؟ اس غلط فہمی کا ازا لہ بہت ضروری ہے تا کہ عوام الناس کا مذکورہ شبہ دور ہو جائے۔ پہلے بتایا گیا ہے کہ لفظ "خوف" عام ہے۔اس میں شرعی اورطبعی خوف دونوں شامل ہیں۔ اللہ سے خوف ہو نا شرعی خوف ہے اور یہی شرعی خوف ہی عبادت ہے، جو کسی مخلوق کےلیے نہیں ہو نا چاہئے، ورنہ شرک ہو جائےگا۔ لیکن کسی درندہ یا جانورسے خوف کھانا، یہ طبعی خوف ہے، اور خوف طبعی عبادت شمار نہیں ہو تا۔ لہذا کسی درندہ سے ڈرنے کو نہ عبادت کہا جائےگا، اور نہ اس سے شرک لازم آئےگا۔
امید ہے کہ مذکورہ غلط فہمی یا شبہ-بفضل اللہ تعالیٰ وتوفیقہ-دور ہو گئی ہو گی،فالحمد للہ۔
http://www.minberurdu.com/" onclick="window.open(this.href);return false;عالمی_منبر/باب_ایمان/خوف_و_امید.aspx
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”