اگربا او نہ رسید ی تمام بولہبی ست از نذیراحمد غازی

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
User avatar
جامی
کارکن
کارکن
Posts: 38
Joined: Tue Dec 31, 2013 6:59 pm
جنس:: مرد

اگربا او نہ رسید ی تمام بولہبی ست از نذیراحمد غازی

Post by جامی »

[center]اگربا او نہ رسید ی تمام بولہبی ست[/center]

دل بیزاری اور روح بے قراری انسان سے ذوق زندگی چھین لیتی ہے اور مسلمان سے شوق ایمان سلب کرلیتی ہے لیکن اگر محبتوں کی بہار تازہ میں طلب کی یاد نسیم چلے تو رونق ایمان اتنی بڑھ جاتی ہے کہ زندہ رویے زندگی کو خوبصورت بنادیتے ہیں۔
مسلمان کی زندگی میں سب سے زیادہ متحرک اور شوق افزوں وہ لمحات ہوتے ہیں جن میں وہ اپنی ذات کے مرکز کو محبت رسول سے معمور کرتا ہے اور اس محبوب یکتا و منفرد کی یاد سے اپنے خیالات و جذبات کو اتنا روشن کرلیتا ہے کہ اسے سوائے محبوب کے ہر شے غیر نظر آتی ہے۔اسے اپنا شعور و علم کا مصدر اور مقصد صرف اور صرف ذات مصطفےٰ سے وابستہ نظر آتا ہے اگر وہ لمحہ بھر بھی غفلت محبت کا شکار ہوجائے تو اس غفلت کو بو لہبیت سے تعبیر کرتا ہے۔اسی لئے اقبال کی فکر توانا کا پیغام سرمدی سہی ہے....
بمصطفیٰ برساں خویش راکہ دین ہمہ اوست
اگر یا اونہ رسیدی تمام بولہبی ست
رسول اکرم سید عالم کی ذات اقدس مرکز دین ہے اور یہ مرکز دین اتنا روشن و بلند ہے کہ انسان کی ذات کا ہر گوشہ اپنی اندھیر کوٹھڑی میں اس کے نور جان افزا سے منور کیاجاسکتا ہے۔عقل و مذہب کے معرکے کا ہر فیصلہ بالآخر نور مصطفےٰ کی برکت سے ہی حل ہوتا نظر آتا ہے۔انسانیت اور ایمانیات کی تاریخ میں سید کونین کا اسم اقدس ایک مرکز بلند کی حیثیت رکھتا ہے دین تو انسانیت سازی سکھاتا ہے اور انسانیت ہمیشہ ہی وفائے جبلت کا تقاصہ رکھتی ہے جبکہ جبلت بغیر وفائے ایمان کے اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ماہ ربیع الاول کا دل افروز چاند چڑھتا ہے تو ایک تاریخی و ایمان حوالہ پوری کائنات میں گونج اٹھتا ہے کیونکہ زماں و مکان کی نسبتیں ہی پورے عالم حیات کی یادداشت کا باعث ہوا کرتی ہیں۔ ذوالحجہ کا چاند خاندان ابراہیم ؑ کی یاد کو تازہ کرتا ہے ۔ ماہ رمضان میں جشن قرآن کا ایمانی حوالہ ہمارے افکار وایمان کو بہت تازہ کرتا ہے اور ماہ ربیع الاول انبیائے سابقینؑ کی تمناﺅں اور دعاﺅں کا وہ ثمر با برکات ہے کہ جب مقصودِ دعوت انبیاءنے اس کائناتِ رنگ و بو میں ظہور فرمایا جسے اہل سیرت ظہور قدسی کا عنوان دیا کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں حضور محمد کے وجود بابرکات کی نسبت جتنے بھی بیانات رقم ہوئے ہیں وہاں کسی بھی صاحب ایمان کا اعتراف عظمت سرنگوں ہوتا ہے کیونکہ تعلیمات الہیہ کا سب سے بڑا مدرسہ اور کتاب و حکمت کی سب سے بڑی دانشگاہ اور صفائے قلب و نیت کی سب سے بڑی خانقاہ کا سرنامہ ہی محمد مصطفےٰ کی ذات اقدس کو قرار دیا گیا ہے۔ دعائے ابراہیم میں انسانیت کے دکھوں کا علاج ہی آمد مصطفےٰ کو قرار دیا گیا اور جناب مسیح علیہ السلام کی حیات طیبہ کا تو مقصد ہی بشارت آمد مصطفےٰ قرار دیا گیا ہے اور قرآن نے ماسویٰ اللہ کیلئے حضور کونین پناہ کو رحمت کاملہ قراردیا ہے۔ وما ارسلناک الا رحمة للعالمین کا منصب عظیم تخلیقات خداوندی کا لامحدود شاہکار ہے اور اس شاہکار حسن و عظمت نے زمان و مکان کی وسعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے اسی لئے ارشاد ہے کہ ہر زمان و مکان کے انسانوں کیلئے بشیر و نذیر بناکر بھیجا گیا ہے۔ ختم نبوت کی اصطلاح میں یہ گہرائی اور گیرائی بہت ہی وسیع تصور لئے ہوئے ہے کہ اب عالم انسانیت میں با اختیار زمان و مکان سکہ رائج الوقت حضور خاتم الانبیاءالمرسلین کے کلمہ اقدس کا ہی ہوگا اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی فارانی صدائیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انسانیت کے قلب حزیںاور فکر پریشان کو لا ہوتی نغمات سے معمور رکھیں گی۔
ماہ ربیع الاول نے تاریخ میلاد مصطفےٰ کے بشری اور روحانی تقاضوں کو کسی خوبصورتی سے اس قول مصطفےٰ میں سمیٹ دیا ہے۔ ایک جاں نثار امتی نے عرض کیا کہ جانِ عالم کچھ اپنے بارے میں ارشاد فرمائیے تو محبوب جاں نواز نے فرمایا کہ : میں دعائے ابراہیمؑ ہوں۔ میں بشارت عیسیٰؑ ہوں اور میں اپنی والدہ گرامی کا وہ خواب ہوں جو وہ دیکھا کرتی تھیں۔
قارئین۔ ظہور موسیٰ کا بہت انتظار تھا کیونکہ ہر آسمانی کتاب اور زمینی دستاویز مذہب آمد مصطفےٰ کا بڑے زور و شور سے اعلان کررہی ہے۔ سیرت طیبہ کا ایک ابتدائی خیال ہی سابقہ نبوتوں سے متصل ہے اور یہ خیال قرآن سے ماخوذ ہے کہ یہودی آمد رسول کی معرفت اسی طرح رکھتے ہیں جس طرح وہ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں۔ ورقہ بن نوفل، بجراراہب اور سلمان فارسی کے اقوال شاہد عادل ہیں اسی لئے تو صادق و امین کا غلغلہ ہر مذہب و ملت میں بلند تھا اور کمال حسن اتفاق نہیں بلکہ تقاضائے فطرت اور سنت اللہ کا مظہر یہ ہے کہ جب حجر اسود کی تنصیب کا وقت آیا تو بعثت اقدس سے پہلے ہی مرکز ِ انصاف و امن تسلیم کر لئے گئے تمام جہانوں کیلئے رحمت مکان و مکین کیلئے رحمت زمینِ و زمان کیلئے رحمت....
مکیں و مکان تمہارے لئے زمین و زماں تمہارے لئے
بنے دو جہاں تمہارے لئے، ہم آئے یہاں تمہارے لئے
اسی لئے تو فیضان اخلاق مصطفےٰ سے اہل ایمان ہی نہیں عام انسان بھی مستفیض ہوتے ہیں، صرف انسان ہی نہیں ان ﷺ کے دائرہ کرم میں حیوانات بھی اپنی حاجات کو عرض کرتے ہیں۔ یہ رحمت کا کمال دنیا کے کسی بھی شخص میں نظر نہیں آتا۔ جہاں خون کے پیاسوں کو معاف کیاجاتا ہے اور عزت کے دشمنوں کو ردائے وقار عطا کی جاتی ہے۔ دشمنوں کے سازش نما گھروں کو دارلامان قرار دیا جاتا ہے۔ پیغام حق کے سب سے بڑے دشمنوں یہودیوں کو بھی آئینہ انسانیت ہی میں ملاحظہ کیاجاتا ہے۔ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزررہا تھا تو انسانیت نواز رسول اکرم جنازے کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ عرض کیا گیا کہ یہ یہودی تھا ۔جواب ارشاد ہوا کہ آخر وہ انسان ہی تو تھا۔
بچوں پر شفقت بغیر تفریق مذہب و ملت کی جاتی تھی۔ ایک یہودی بچہ حاضر خدمت ہوا کرتا تھا۔ ایمان نواز نظروں نے اس کی کائنات دل کا ہر گوشہ محبت الٰہی سے معمور کردیا تھا۔اچانک بیماری نے آن پکڑا تو بار گاہ انسان نواز سے اس کی حاضری موصوف ہوگئی خود رشک مسیحاﷺ عیادت کو تشریف لے گئے چونکہ اس کی روانگی آخرت کا وقت آگیا تھا۔یہودی بچے نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا اور نبی رحمت کی موجودگی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ پھر اس بچے کا جنازہ اور اس کی تدفین صحابہ کرام ؓ کیلئے بھی رشک سامان ہوگئی یہ سب اعجاز شفقت تھا جو رسول اکرم نے انسانوں پر روا رکھا تھا۔ذات رسول پر کالی گوری کائنات کے ،غلام آقا جمع ہوگئے تھے اور انسانیت نے محبت واتحاد کا چلن اختیار کیا تھا لیکن آج بالکل ہی برعکس روش اختیار کی ہے امت کے اہل دانش و علم نے کہ انہوں نے اپنی اختلافی فکر کو مرکز محبت ﷺ تک پہنچادیا ہے اور دین کے نام پر اہل دین کو تقسیم کرنے کا وطیرہ اپنا لیا ہے۔ فرقہ پرستی کا سارا سلسلہ ہی قرآن و حدیث پر جا کر ختم کرتے ہیں۔ امان کے مقام کودھندلا دیتے ہیں اپنے بے نور افکار سے امت مسلمہ کے قائدانہ کردار کو متنازعہ ہی نہیں قابل نفرت بنارہے ہیں۔ گردار میں بے ثباتی اور افکار میں بے یقینی کے سبب ذلت و رسوائی پوری قوم کا مقدر بن گئی ہے۔ طوفان میں گھری ہوئی کشتی کا کوئی پُرسان حال نہیں منجدھار میں بگڑی ہوئی ہواﺅں کے تھپیڑوں نے امت کا حال ہی مضحمل کردیا ہے اور بقائے وجود کی اصل جنگ میں نور یقین کا اثاثہ بالکل ہی کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔ایمان نما منافق قوم کی گردن پر مسلط ہیں آثارِ حیات پر خاک کی چادر پھیلتی جارہی ہے ۔
الٰہی سیدہ آمنہ ؑ کی گود میں اترنے والے نور کا واسطہ ہمارے ذہن و قلب کی تاریکیوں کو دو ر فرما اور ہمیں یقین و ہمت کی جرا¿ت عطا فرما اور اے کائنات کے نجات دہندہ رسول محتشم بس اتنی عرض سن لیجئے....
[center]اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اگربا او نہ رسید ی تمام بولہبی ست از نذیراحمد غازی

Post by چاند بابو »

محترم جامی صاحب کالم شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ مگر آپ نے جہاں سے کالم کاپی کیا تھا وہاں ٹیکسٹ پتہ نہیں کس فارمیٹ میں تھا کہ بالکل مضمون کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی.
میں نے اصل کالم کاپی کر کے اس کی جگہ لگا دیا ہے اب درست ہے. کالم کا اصل سورس یہاں ہے.
بہرحال شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو کالم”