مشرف پر آرٹیکل چھ کا نفاذ یا ذاتی انتقام

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

مشرف پر آرٹیکل چھ کا نفاذ یا ذاتی انتقام

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 25 جون 2013
از طرف: سید انور محمود
[center]مشرف پر آرٹیکل چھ کا نفاذیا ذاتی انتقام[/center]
ذوالفقار علی بھٹو کا یہ جملہ بہت یادگار ہے "اگر کسی نے آئین میں تبدیلی کی تو میں اُسے لٹکادونگا"، یہ جملہ بھٹو صاحب نے 1977 میں اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد مری میں جنرل ضیا الحق سے اپنی آخری ملاقات کے بعد اخباری نما ئد وں سے کہا تھا۔ بھٹو اُن لوگوں میں سے تھے کہ اگر اُن کو ایک مرتبہ بھی موقعہ ملتا تو 4 اپریل 1979 کواُن کی نہیں ضیا کی گردن میں پھانسی کا پھندا ہوتا۔ بھٹو کے لیے دوسرئے ملکوں کے علاوہ سعودی عرب اور لیبیا نے بھی جنرل ضیا سے معافی کی اپیل کی تھی اور کرنل قذافی نے تو بھٹو کو لیبیا میں پناہ دینے کو بھی کہا تھا، اس پورئے عرصے میں نہ ہی بھٹو نے اور نہ ہی انکے اہل خانہ نے کسی قسم کی معافی کی اپیل کی۔ بزدل جنرل ضیاالحق جو بھٹو کے سامنے صرف "جی جناب" کرتا تھا یہ جانتا تھا کہ اگر اُس نے بھٹو کو زندہ چھوڑ دیا تو پھر اُس کی خیر نہیں۔ بزدل انسان میں دو خصوصیت اور بھی ہوتی ہیں ، وہ ظالم بھی ہوتاہے اور اپنے دل میں بغض بھی رکھتا ہے۔ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہونے والے نواز شریف کی سیاسی پیدائش اور تربیت جنرل ضیا کے دور میں ہی ہوئی ہے۔ نواز شریف ایک عرصے تک جنرل ضیا کی صحبت میں رہے ہیں ، وہ جنرل ضیا کو اپنا سیاسی باپ کہتے تھے۔ جنرل ضیا کی موت کے بعد ایک عرصے تک نواز شریف ہر سال ضیا کی برسی پر اُس کی قبر پرجاکراُس کے تمام اقدامات کی تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ یہ کبھی یاد نہیں رکھتے تھے کہ اُن کے سیاسی باپ نے آئین کے متعلق کہا تھا کہ" آئین چند صفحات کی ایک کتاب ہے جس کو پھاڑ کر پھنکا جاسکتا ہے"، نواز شریف کو یہ بھی یاد نہیں کہ جنرل ضیا نے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کی تھی اور اقتدار پر قبضہ کیاتھا۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ بھٹو حکومت کے خاتمہ پر پورئے ملک میں نہ تو کہیں مٹھائی بٹی تھی اور نہ ہی لاہور یاملک کے کسی حصے میں کسی آرٹسٹ نے دوسرئے روز جنرل ضیا کی تصویر روڈ پر بیٹھ کر بنائی تھی۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل جو طالبان دہشت گردوں کے بانیوں میں سے ایک ہیں 1988 میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک سیاسی اتحاد آئی جے آئی کے نام سے تشکیل دیا جس میں نواز شریف کی مسلم لیگ بھی تھی۔جنرل ضیا کی مددسے پنجاب کے وزیراعلی بننے والے نواز شریف ایک اور جنرل کی مدد سے آئی جے آئی کے زریعے 1990 میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے۔ انکی پہلی حکومت کو اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 18اپریل1993کو آٹھویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا تو نواز شریف نے سپریم کورٹ میں صدر کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ، اُس وقت کی سپریم کورٹ نے اُن کی بھرپور مدد کی اور 26مئی1993کو وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر واپس آگے لیکن اب صدرغلام اسحاق خان کی طرف سے ان کے دل میں بغض آچکا تھا لہذا اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کا کڑ کی مصالحت سے صدر اور وزیراعظم دونوں کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا، اس کے ساتھ ہی آئی جے آئی کا خاتمہ بھی ہوگیا۔

نواز شریف دوسری مرتبہ فروری1997کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ نواز شریف اپنے دوسرئے دور اقتدارمیں چونکہ بھاری اکثریت سے جیتے تھے لہذا وہ اپنے آپ کو ہر چیز سے مبرا سمجھنے لگے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کو انہوں نے 2008 کے آخر میں آرمی چیف بنادیا۔ نواز شریف بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانے میں مصروف تھے کہ پاکستانی افواج نے سیاچن میں اپنے مسلسل نقصانات کو روکنے کیلئے کارگل آپریشن کا فیصلہ کیا۔ کارگل میں پاکستانی افواج نے بھارت کو سخت پرشانی میں مبتلا کیا ہوا تھااور بھارت کی پریشانی امریکہ تک پہنچ چکی تھی۔ نوازشریف نے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود پاکستانی افواج کے خلاف ایک نشری تقریر کرڈالی جس میں ایک بہت ہی طنز اور تذلیل سے بھرپور جملہ کچھ یوں کہا کہ"کارگل سے کوئی راستہ سری نگر کی طرف نہیں جاتا"۔اس جملے سے نوازشریف کی قابلیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ سری نگر سے نکل کر سیاچن کو جانے والا ہر راستہ کارگل سے ہوکر گذرتا ہے۔ اس تقریر کا لازمی نتیجہ جو نکلا وہ یہ تھا کہ سیاسی اور فوجی قیادت میں دوریاں ہوگیں اور پھر بارہ اکتوبر 1999 کو نواز شریف نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماربیٹھے جب جنرل پرویز مشرف کو ان کے سری لنکا کے دورے کے دوران برخواست کرکےجنرل ضیاالدین بٹ کو ان کی جگہ آرمی چیف بنادیا۔ شام تک نواز شریف گرفتار ہوگے اور ملک ایک مرتبہ پھر جمہورت کی پٹری سے اتر گیا۔ نواز شریف حکومت کے خاتمہ پر پورئے ملک میں مٹھائی بٹی تھی اور لاہورکا ایک آرٹسٹ دوسرئے روز جنرل پرویز مشرف کی تصویر روڈ پر بیٹھ کر بنارہا تھا۔ دسمبر 1999 میں ایک دس سالہ معاہدہ کرکے نواز شریف بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئےجدہ چلے گے اور پھر انکی واپسی نومبر 2007 میں ہوئی۔ جدہ سے واپسی پر نواز شریف اپنے ساتھ مشرف فوبیا بھی ساتھ لیکر آئے۔ اب انکے ہرسوال کے جواب میں یا بیان میں مشرف کا ذکر بڑی حقارت سے ہوتاتھا۔

جنرل پرویز مشرف نےنوازشریف کو 1999 میں ہٹاکراقتدار پرقبضہ کیا تو چودھری شجات اور چودھری پرویزالہئ اُن کے ساتھ شامل ہوگے ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان بشمول موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تمام نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ مشرف کے برسراقتدار آنے کےبعد ق لیگ نے جنم لیا اور مسلم لیگ ق کے علاوہ ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل بھی تھیں۔ پہلے ظفر اللہ خان جمالی، اور بعد میں شوکت عزیز وزیر اعظم رہے۔ بیچ میں عارضی طور پر چودھری شجات وزیراعظم بننے۔ چوہدری پرویز الہی پورے پانچ سال پنجاب کے وزیر اعلی رہے۔28دسمبر 2003کوقاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا۔ اس درمیان میں جنرل مشرف کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اختلافات ہوئے اور پھر انکو معطل کردیا بعد میں وہ بحال ہوئے مگر جنرل مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی کا نفاظ کیا جسکو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا۔ بعد میں ججوں کو نظر بند کردیا۔ اگست 2008 میں مشرف صدارت سے علیدہ ہوئے اور کچھ عرصے بعد ملک سے باہر چلے گے۔ پانچ سال بعد جنرل پرویز مشرف پاکستان پہنچے تو وہ اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہوکر آئے تھے۔ آج بے نظیر کے قتل کا الزام ہو یا این آر او، لال مسجد کا واقعہ یا اکبر بگتی کی ہلاکت، ججوں کو نظر بند کرنے کا جرم ہو یا آیئن سے انحراف ہو یا پھر ایمرجنسی کا نفاظ ہر جرم کے ملزم پرویز مشرف ہیں، عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں اور وہ اپنے گھر میں بنی جیل میں بند ہیں۔

نواز شریف اپنے ذاتی بغض میں کسقدر آگے جاسکتے ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت تو جاوید ہاشمی ہیں ، جنہوں نے اُن کی خاطر مشرف کے دور میں طویل جیل کاٹی مگر بعد میں انکو تحریک انصاف میں جانا پڑا۔ حالیہ دنوں میں بظاہر تو نواز شریف یہ کہتے رہے کہ میں نے مشرف کو اپنے اوپر ذاتی مظالم پر معاف کیا مگر وہ اپنے ذاتی بغض کو ختم نہ کرسکے۔ شیر کے نشان پر کامیاب ہونے والے نواز شریف نے اس پوری قوم پر بجٹ کے زریعے جو بھوکا شیر چھوڑا ہے وہ پوری قوم کی ہڈیاں چبا رہا ہے، عام لوگ مہنگائی کی دہائی دے رہے ہیں۔ دہشت گرد ان کے وزیراعظم بننے کے بعد سے دہشت گردی کاہنی مون منارہے ہیں۔ کراچی میں نہ صرف عام لوگ قتل کیے جارہے ہیں بلکہ اسمبلی کے ممبر بھی قتل ہورہے ہیں، پورا کراچی قاتلوں سے بھرا ہوا ہے جبکہ بلوچستان میں دہشت گرداور باغی دہشت گردی کررہے ہیں جبکہ ملک کے باغیوں نے زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی پر چار بم دھماکے کرکے اسکو تباہ کردیا۔ 24 جون کو جب قومی اسمبلی میں نواز شریف اپنی تقریر کرنے کھڑئے ہوئے تو ایک اکثریت کا خیال تھا کہ وہ دہشت گردی، امن و امان اور بجٹ سے جو مہنگائی ہوئی ہے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرینگے مگر انہوں نے تو صرف مشرف سے انتقام لینے کےلیے یہ تقریر فرمائی تھی۔ یہ کام جو انہوں نے قومی اسمبلی میں کیا اسکی قطعی ضرورت نہیں تھی، یہ کام تو حکومت کے اٹارنی جنرل کا تھا کہ پرویز مشرف پرآرٹیکل چھ کے اطلاق کےلیے انکی حکومت کا کیا موقف ہے سپریم کورٹ کوآگاہ کرتا۔ نواز شریف نے آج ایک تیر سے کافی شکار کیے ہیں یعنی مہنگائی کا کیا حل ہے، لوڈ شیڈنگ کب ختم ہوگی ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور باغیوں کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کےلیے ان کی حکومت کیا کررہی ہے اس سلسے میں ان سے کوئی سوال نہ ہو۔ مشرف کے اسی فیصد ساتھی تو آج انکی گود میں بیٹھے ہیں جن میں سے کچھ تو انکی کابینہ میں بھی موجود ہیں ۔ایک بات نواز شریف یاد رکھیں یہاں کہانی الٹی ہے ، آپ بھٹو نہیں ہیں اور جنرل مشرف جنرل ضیا نہیں ہے۔ نواز شریف نے جو کچھ آج کیا ہے اسکے بارئے میں ایک سوال کہ کیا یہ مشرف پرآرٹیکل چھ کا نفاظ ہے یا ذاتی انتقام۔
____________________
نوٹ: یہ تاریخ یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، جب یہ پنڈورا بکس کھل ہی گیا ہے تو ابھی کہنے کو بہت کچھ باقی ہے جو میں اپنے اگلے مضامین میں لکھونگا۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
Post Reply

Return to “سیاست”