چراغِ جاں از سفینہ یاسمین!!

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

چراغِ جاں از سفینہ یاسمین!!

Post by میاں محمد اشفاق »

چراغِ جاں از سفینہ یاسمین!!


شام کے سائے اپنے پَر پھیلا چکے تھے اور دور افق پر سورج کسی سنہری تھال کی مانند نظر آرہا تھا‘ جس کے اردگرد سنہری اور نارنجی رنگوں کا ایک انوکھا امتزاج تھا‘ اس نے اس خوب صورت منظر سے نظریں ہٹا کر اوپر آسمان کی طرف دیکھا جہاں پرندوں کا ایک غول پرواز کرتا ہوا نظر آیا جو یقینا اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔ رزق کی تلاش میں صبح دم نکلنے والے یہ پرندے سارے دن کی مشقت کے بعد اب سکون اور آرام کی خاطر اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے۔ بڑے مطمئن‘ بڑے اتفاق اور بڑی ہی محبت کے ساتھ۔ اس کی نظروں نے بہت دور تک ان پرندوں کا تعاقب کیا تھا۔
اسے اپنے گرد کرب و اضطراب کا حصار مزید تنگ ہوتا ہوا محسوس ہوا۔اس کے چہرے پر پھیلی اداسی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور آنکھوں کی ویرانی مزید بڑھ گئی‘ اس نے پرندوں کے اس غول کو آسمان پر کھوجا لیکن کوشش کے باوجود وہ اسے دور دور تک نظر نہیں آئے۔ اچانک اس کی نگاہوں کی زد میں ایک پرندہ آگیا۔ بالکل ویسا ہی پرندہ جیسے پرندے ابھی ابھی غول کی شکل میں وہاں سے گزرے تھے۔ وہ اکیلا ان کے تعاقب میں اڑتا چلا جارہا تھا۔ وہ شاید اپنے غول سے بچھڑ گیا تھا یا پھر وہ خود ہی اسے اکیلا چھوڑ گئے تھے‘ اسے تنہا کرگئے تھے۔ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار ایک سسکی سی نکل گئی‘ گویا سانس لینا دشوار ہوگیا تھا‘ اس سے پرندے کا اکیلا پن اور اداسی دیکھی نہیں گئی۔ اس نے دوبارہ سے ابھرتی ہوئی سسکی کو دبانے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ منہ پر رکھا تو رخسار کو چھوتی ہوئی اس کی انگلیاں گیلی ہوگئیں۔ وہ رو رہی تھی بالکل بے آواز‘ لیکن آنکھوں سے بہتے ہوئے اس نمکین پانی پر وہ بند نہیں باندھ سکتی تھی‘ جو بہت تیزی سے اس کے رخساروں کو بھگو رہا تھا۔ اس کی پشت کی جانب کھڑا کوئی کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی ہر ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔ جب وہ جی بھر کے رو چکی تب وہ آہستگی سے بنا کوئی آواز پیدا کیے دھیمی چال چلتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اپنے دونوں بازو اس کی گردن میں حمائل کردیے۔ اس نے چونک کر مڑنا چاہا مگر اس سے پہلے کہ نگاہوں کا تصادم ہوتا‘ وہ اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ چکا تھا۔ پھر وہ دھیرے سے بولا۔
’’آج کا سورج بھی ڈوب گیا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے ایک اشک چھلکا اور نیچے گِر کر خاموشی سے کہیں غائب ہوگیا۔
’’مگر میری امیدوں کا سورج آج بھی نہیں ڈوبا ہے اور ڈوبنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ امید روح ہے اور روح کبھی نہیں مرتی‘ جسے روح مل جائے اسے زندگی مل جاتی ہے۔‘‘ بہت پُرسکون اور ٹھہرا ہوا انداز تھا اس کا۔
’’اور کب ملے گی یہ زندگی…؟‘‘ اس نے اس کے گلے سے اپنی بانہوں کا حصار توڑ دیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر سامنے دیکھا‘ جہاں اندھیرے کی چادر دھیرے دھیرے پھیلتی جارہی تھی‘ قریبی مسجد سے اذانِ مغرب بلند ہونے لگی۔
’’ہر ایک کو زندگی ایک بار ضرور ملتی ہے چراغِ جاں بجھنے سے پہلے زندگی ایک بار مجھے بھی ضرور ملے گی۔‘‘ اس کے انداز میں یقین ہی یقین تھا‘ جس کی خوش بُو سامنے کھڑے وجود نے بھی محسوس کی اور اس کے لب ہلے۔
’’ان شاء اللہ…!‘‘ اس کی آواز میں بھی یقین در آیا تھا۔
’’اذان ہورہی ہے چلو چل کرنماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اور پھر دونوں نے قدم آگے بڑھادیئے۔
…٭٭٭…
’’اس بار رمضان المبارک میں سحری میں بنائوں گی۔‘‘ شام کی چائے پیتے ہوئے ماہ رخ نے لہک کر کہا۔
’’بی بی! تم سحری میں اٹھ جائو یہی بڑی بات ہے‘ بنانا تو بڑی دورکی بات ہے۔‘‘ چائے کا خالی کپ درمیانی میز پہ رکھتے ہوئے علی عون نے اپنی رائے دی۔ جس پہ چائے کا گھونٹ لیتی ہوئی ماہ رخ نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’تم تو ہمیشہ مجھ سے جلتے ہو۔‘‘ماہ رخ نے غصیلے انداز میں کہا۔
’’جب کوئی اور جواب نہیں بن پڑتا تو یہی بات کہہ کر جان چھڑاتی ہو لڑاکا بلّی!‘‘
’’امی دیکھ رہی ہیں نا آپ اس کو؟‘‘ اس نے پاس بیٹھی ہوئی ثمینہ سے مدد طلب کی تو وہ علی عون کوسرزنش کرتے ہوئے بولیں۔
’’علی! بیٹا کیوں تنگ کرتے ہو بہن کو؟‘‘ ثمینہ نے اس کے مزاج کے مطابق بات کی تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔
’’امی! آپ ہمیشہ اسی کی حمایت لیتی ہیں‘ کبھی اسے بھی کہہ دیا کریں کہ ماہ رخ بیٹی! بھائی کو کیوں تنگ کرتی ہو۔‘‘ اس کے شکایتی اور روٹھے روٹھے انداز کو دیکھ کر ثمینہ کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’ماہ رخ بیٹی! بھائی کو تنگ ہی نہیں کرتی تو کیوں کہیں ایسا؟ ہے نا امی!‘‘ وہ ثمینہ سے بھی تائید چاہتی تھی لیکن ذوالفقار احمد کو بریف کیس اٹھائے اندر آتا دیکھ کر بقیہ جملہ ضبط کرگئی۔
’’السّلام علیکم ابو…!‘‘ مشعل نے سلام کیا۔ ساتھ ہی آگے پیچھے ماہ رخ اور علی عون نے بھی ادب سے سلام کیا۔ ذوالفقار احمد سلام کا جواب دے کر صوفے پر بیٹھ گئے۔ مشعل ان کے لیے پانی لانے کے لیے اٹھنے لگی تو ماہ رخ اشارے سے اسے وہیں بیٹھے رہنے کا کہہ کر خود پانی لینے چلی گئی۔
’’چائے لائوں آپ کے لیے؟‘‘ ثمینہ نے استفسار کیا۔
’’نیکی اور پوچھ پوچھ؟‘‘ انہوں نے خوش مزاجی سے کہا اور ماہ رخ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے بچوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’کیا ہورہا ہے بھئی؟‘‘
’’ابو! آج ویک اینڈ تھا تو چائے کے ساتھ گپ شپ چل رہی تھی۔‘‘ ماہ رخ نے علی عون کے قریب بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا بھئی آپ لوگ بیٹھ کر گپ شپ کرو میں ذرا فریش ہولوں۔‘‘ پھر وہ بریف کیس اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
…٭٭٭…
’’آیئے آپی! بیڈمنٹن کھیلیں۔‘‘ وہ کچن سے نکل کر باہر لان میں آئی تو علی عون دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا تھا اور جوش سے بولا تھا۔ ماہ رخ بھی ادھر ہی چلی آئی تھی۔
’’نہیں میرا موڈ نہیں ہورہا‘ تم کھیلو!‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تو ماہ رخ کندھے اچکا کر وہاں سے چلی گئی۔ علی عون بھی اس کے پیچھے ہولیا۔
’’تمہیں آپی سے کھیلنے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘ علی عون نے سرگوشی سے کہا۔
’’ہاں واقعی! تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن میں نے سوچا تھا کہ سارا سارا دن اکیلی اور اداس رہتی ہیں‘ تھوڑا دل بہل جائے گا مگر میرا اندازہ غلط نکلا۔ وہ شاید مزید اداس ہوگئی ہیں۔‘‘
’’اچھا چھوڑو‘ وہ ہمیں ہی دیکھ رہی ہوں گی اور سوچ رہی ہوں گی کہ ہم آپس میں کیا کھسر پھسر کررہے ہیں۔‘‘ اس کی نگاہیں ان دونوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے ریکٹ والا ہاتھ اوپر ہَوا میں اٹھا کر ماہ رخ کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا۔
’’میں جیت گئی‘ یا ہُو! تم ہارگئے۔‘‘
’’آج ہی تو جیتی ہو۔‘‘ علی عون نے کہا۔
’’جیتی تو ہوں نا! تم نے تو پیش گوئی کررکھی تھی کہ میں تم سے کبھی جیت ہی نہیں سکتی۔یاہُو… ہُرے… میں جیت گئی‘ میں جیت گئی…‘‘ یاد کا اک روزن کُھلا تھا اور اس کی نگاہوں کے سامنے دھواں سا پھیلنے لگا۔
’’تم آج پھر جیت گئیں۔‘‘ ریحان نے ریکٹ گھاس پر رکھ دیا اور خود بھی گھاس پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’اور تم آج پھر ہار گئے۔‘‘ وہ بھی گھاس پر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے بولی۔
’’ہاں بھئی! میں آج پھر ہارگیا‘ کبھی تم بھی تو ہارکے دیکھو تاکہ تمہیں بھی پتا چلے کہ ہار کیسی ہوتی ہے۔‘‘
’’کبھی بھی نہیں‘ خاص طور پر تم سے ہارنا تو میں برداشت ہی نہیں کرسکتی‘ کیونکہ اگر میں ہار گئی تو پھر مجھے پکوڑے بنانے پڑیں گے اور آئس کریم کھانے کی بجائے پکوڑے بنانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔‘‘
ایک مرتبہ وہ اپنی دوست دیبا سے فون پر بات کررہی تھی اور اسے بتارہی تھی کہ پکوڑے بنانا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے تب دادا ابو کے کمرے سے نکلتے ہوئے ریحان نے سن لیا تھا اور تب سے وہ جب بھی شرط لگاتاپکوڑے بنانے پر ہی لگاتا تھا لیکن مشعل اسے اس بات کا فائدہ اٹھانے کا موقع شاذو نادر ہی دیا کرتی تھی۔ ہارنے اور پکوڑنے بنانے کے ڈر سے وہ ڈٹ کر کھیلا کرتی تھی اور اکثر جیت جایا کرتی تھی‘ آج بھی وہ جیت گئی تھی۔
’’مشعل… مشعل…‘‘ وہ چونک گئی‘ جب ماہ رخ نے اسے پکارنے کے ساتھ اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو ماہ رخ نے کارڈلیس اسے تھماتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا فون ہے۔‘‘ وہ اسے فون تھما کر چلی گئی۔
اسے پتا تک نہیں چلا تھا کہ دونوں کب گیم ختم کرکے اندر چلے گئے تھے۔ فون کان سے لگا کر مشعل نے ’’ہیلو‘‘ کہا تو جواباً دیبا کی چہکتی ہوئی آواز کانوں میں آئی۔
’’کیسی ہو یار…؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟کب آئی ہو سعودیہ سے اور تمہارے میاں کیسے ہیں؟ اور وہ تمہارے دونوں شرارتی بچے کیسے ہیں؟ احمر تو کافی بڑا ہوگیا ہوگا؟‘‘ اس نے ایک ساتھ سوالات کی بھرمار کردی۔
’’میرے میاں اُتاولے ہورہے تھے اپنے اماں ابا سے ملنے کے لیے‘ ان کا بس چلتا تو ائرپورٹ سے سیدھے روہڑی چلے جاتے مگر میں نے کہا کہ خالد صاحب‘ میرے اماں ابا کا گھر یہیں ہے ذرا دن ٹھہر کر ہی روہڑی چلیں گے۔‘‘
’’تو پھر وہ مان گئے؟‘‘ وہ لحظہ بھر کو رکی تو مشعل نے پوچھا۔
’’مانتے کیسے نہیں‘ رہنا تو میرے ساتھ ہے نا!‘‘ دیبا نے چہک کر کہا۔
’’ہاں بھئی‘ ان کو تو تمہارے ساتھ بناکر رکھنا پڑے گی اور سنائو‘ میرے گھر کب آرہی ہو؟‘‘
’’کل آرہی ہوں‘ شمع کیسی ہے؟‘‘ دیبا نے بتانے کے ساتھ ہی اپنی دوسری دوست کے بارے میں پوچھا۔
’’اچھی ہوگی‘ میرا اس سے رابطہ نہیں ہے۔‘‘ مشعل نے بتایا تو دیبا نے تقریبا چیختے ہوئے پوچھا۔
’’کیا! ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے تمہارا اس سے کوئی رابطہ نہیں؟ ‘‘
شادی ہوگئی اس کی؟‘‘ اس نے ایک لمبی سانس بھر کر بتایا تو ایک پل کے لیے دیبا کو چپ سی لگ گئی۔
’’یار! ریحان کیا گئے تم نے تو دنیا ہی سے ناتا توڑ لیا۔‘‘ دیبا نے بے اختیار کہا تو دونوں کے درمیان روح کو گھائل کرتی ہوئی کربناک سی خاموشی چھاگئی۔ مشعل سسک اٹھی۔ اگر اگلے ہی پل اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے دیبا اس خاموشی کو توڑ نہ ڈالتی۔ ’’یار! پتا ہے شمع نے شادی کے دوسرے سال ہی تین بچوں کو بہ یک وقت جنم دیا تھا۔ ایک بیٹی اور دو بیٹوں کو‘ میں نے مبارک باد دیتے ہوئے اس کے خوب لتے لیے تھے کہ یار یہ کیا… صرف تین! کم از کم چوکا یا چھکا تو لگالیتیں۔‘‘ مشعل بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
’’تُو نہیں سدھرے گی؟‘‘ اس نے اپنی گیلی آنکھوں کو خشک کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا یار! کل ملاقات ہوگی‘ روہا جاگ گئی ہے اور رو رو کر اپنے جاگنے کی اطلاع دے رہی ہے۔ اچھا اوکے‘ اللہ حافظ! آنٹی کو میرا سلام کہنا۔‘‘
’’اللہ حافظ!‘‘ اسے بھی روہا کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں‘ اس نے بھی آنٹی کے لیے سلام کہہ کر فون بند کردیا۔
…٭٭٭…
اگست کی پہلی دھوپ تھی اور آج کا موسم اسے بہت عجیب رنگ میں رنگا ہوا محسوس ہوا تھا۔ موسم خوش گوار تھا لیکن اسے ایک عجیب سی سوگواریت‘ بے نام سی اداسی اور تنہائی محسوس ہورہی تھی یا شاید اس کے اندر کا موسم ہی ایسا تھا۔ اس نے ہَوا کے زور سے اڑتے ہوئے دوپٹے کو انگلیوں کی مدد سے کھینچ کر اپنے کندھوں پر جمایا اور لان میں چلتے ہوئے بائونڈری وال کی جانب آگئی‘ بائونڈری وال میں موجودلکڑی کے چھوٹے سے دروازے کو کھول کر وہ اپنے لان سے افتخار احمد کے لان میں داخل ہوگئی۔ ویرانی اور تنہائی نے اسے خوش آمدید کہا تو اس کے اندر اداسی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ وہ لان میں لگے بیل‘ پودے اور پھولوں کو دیکھتی ہوئی دھیمی چال چلتی برآمدے کی طرف آگئی اور ماربل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ اب لان اس کی نگاہوں کے سامنے تھے‘ جس میں ہرے بھرے انواع و اقسام کے پودے لگے ہوئے تھے اس نے ان پودوں پر نظریں جمائیں مگر آنکھوں کے سامنے بار بار ثمینہ کا مرجھایا ہوا چہرہ اور نم آنکھیں آتیں تو اس کا دل بھر آتا۔ آج وہ کتنی حسرت سے دیبا اور اس کے دونوں بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔
دیبا اور اس کے بچوں پر نگاہ پڑتے ہی ان کے چہرے پر اداسی در ائی تھی لیکن انہوں نے خوش دلی سے اسے ویلکم کیا تھا اور اس کے بچوں کو پیار بھی کیا تھا مگر مشعل کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ ان کے شکستہ وجود کا سامنا کرلیتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دیبا کو گیٹ تک چھوڑنے کے بعد اندر جانے کی بجائے ادھر چلی آئی تھی۔ ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد اس نے گردن گھما کر اپنے دائیں جانب دیکھا تو چمکتے ہوئے سفید ماربل کو دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جیسے وہ جگہ اس کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہو‘ اس کے ساتھ اس کی زندگی کی کوئی حسین یاد جڑی ہو‘ ایک لمحہ تھا جو ٹھہر گیا تھا اور سفید رنگ کے اس ماربل سے جیسے چپک کر رہ گیا تھا۔

آج سے چار سال پہلے جب تیز بارش ہورہی تھی‘ اس نے برستی بارش میں روتے ہوئے اسی جگہ سے ایک ادھ کھلا سرخ گلاب اٹھایا تھا مگر آج بارش تھی نہ اس جگہ پر کوئی ادھ کھلا سرخ گلاب…! مگر اس دن کی طرح وہ آج بھی رو رہی تھی اور اس کے آنسوئوں نے جل تھل مچادیا تھا کیونکہ وہ تو آج بھی خوابوں کے اسی سفر میں تھی۔
تم تنہا ہو
میں تنہا ہوں
چلو خواب نگر میں چلتے ہیں
جہاں پیار کی بارش ہوتی ہے
اور سکھ کے دیپ جلتے ہیں
جہاں پتھر میں بھی پھول کھلیں
اور سرد ہَوائیں گرم لگیں
چھم چھم کرکے خوشیاں برسیں
بن بادل برسات ہو جیسے
تجھے چُھونے کا احساس ہو جیسے
جب دن کے نظارے سوجائیں
پھر چاند سے باتیں ہوجائیں
ہم خواب میں خواب ہی ہوجائیں
الفاظ ہَوا میں کھو جائیں
تم ساتھ چلو تو چلتے ہیں
ہم خواب نگر میں چلتے ہیں

…٭٭٭…
’’مشعل! یار یہ آخری بال ہے اور ہمیں جیتنے کے لیے صرف چھ رنز چاہئیں‘ تم چھکا لگانا۔‘‘ ماہ رخ نے پچ پہ بیٹ سنبھالے کھڑی مشعل سے کہا۔
’’ہاں ہاں بس تم دیکھتی جائو‘ چھکا ہی لگائوں گی اور ہم ہی جیتیں گے۔‘‘ اس نے بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ ماہ رخ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ علی عون فیلڈنگ پہ کھڑا تھا اور ریحان بولنگ کرارہاتھا۔ اس نے لمبا اسٹارٹ لیا اور بھاگ کر آتے ہوئے بال مشعل کی جانب پھینکی۔ مشعل نے پوری قوت سے بیٹ گھمایا اور بال اوپر کی جانب اڑتی ہوئی دوسری منزل کی نبیلہ چچی کی کھڑکی کا شیشہ توڑتے ہوئے اندر چلی گئی۔ مشعل نے یہ منظر دیکھا تو فوراً زبان دانتوں تلے دبالی۔ ماہ رخ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا اور علی عون کی تو سٹّی گم ہوچکی تھی۔ ایک ریحان تھا جس کے حواس قائم تھے‘ اس نے بھاگ کر بیٹ مشعل کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مشعل وہاں سے ہٹ کر وکٹ کے پیچھے جاکھڑی ہوئی۔ نبیلہ بڑے جارحانہ تیوروں کے ساتھ برآمدے میں سے برآمد ہوئی تھیں۔ ماتھے پر سلوٹیں اور آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے مگر ان شعلوں پر اس وقت اوس پڑگئی جب بیٹنگ پچ پر بیٹ ہاتھوں میں تھامے کھڑے اپنے لخت جگر ریحان پر نظر پڑگئی۔ اگر یہ بیٹ اس وقت مشعل کے ہاتھوں میں ہوتا تو یقینا اس کی خیر نہیں تھی۔ بیٹ چونکہ ان کے بیٹے کے ہاتھوں میں تھا لہٰذا وہ ان تینوں پر ایک ناگوار سی نگاہ ڈال کر واپس چلی گئیں۔
’’ہُرے…! ہم جیت گئے۔‘‘ ان کے اندر جاتے ہی مشعل کی زبان دانتوں تلے سے نکلی اور اس نے جوش سے نعرہ مارا۔ ماہ رخ نے ایک طویل سانس لی اور اس کے قریب چلی آئی۔
’’آج تو خیر نہیں تھی اگر ریحان بھائی نے بروقت تمہارے ہاتھ سے بیٹ نہ لیا ہوتا تو مارے گئے تھے آج!‘‘
’’اس سے تو اچھا تھا ہم بیڈ منٹن کھیلتے‘ اس سے کسی کا شیشہ تو نہیں ٹوٹتا نا! میں نے کہا بھی تھا کہ بیڈ منٹن کھیلتے ہیں مگر میری کسی نے نہیں سنی۔‘‘ علی عون جو اپنی گم ہونے والی سٹی ڈھونڈ کر ادھرآآ نکلا تھا تھا تیزی سے بولا۔ اسے نبیلہ کے غصے اور قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے لان میں ہی کھیلا کرتے تھے مگر دادا ابو کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ریحان کے لان میں کھیل رہے تھے۔
’’چھوڑو یار! ان بے کار باتوں کو‘ جب سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر ان سب باتوں کا فائدہ؟ شکریہ ادا کرو تم سب میرا‘ خصوصاً تم…‘‘ اس نے مشعل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ ادا کروں… میں…؟ تمہارا…؟ وہ کیوں… کون سا میں نے کہا تھا کہ آکر مجھ سے بیٹ چھینو اور اپنی امی کی آنکھوں میں دھول جھونکو۔‘‘ وہ اطمینان سے بولی۔
’’ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری! ابھی بلاتا ہوں امی کو پتا لگ جائے گا۔‘‘ اس نے اسے دھمکایا اور ساتھ ہی نبیلہ کو پکارا۔
’’امی…آہ ہاہا آہ!‘‘ اس کے منہ سے لا یعنی سی آواز برآمد ہوئی‘ اس نے بیٹ نیچے گھاس پر پھینک دیا اور خود ایک پائوں اوپر اٹھاکے گول گول چکر کاٹنے لگا۔
’’بڑی خراب ہو سچی تم۔‘‘ اس نے کہا تو مشعل نے شانے اچکادیے۔ مشعل نے اس کے منہ سے امی سنتے ہی زور سے اپنا پائوں اس کے پائوں پر دے مارا تھا‘ جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ نبیلہ کو پکارنے کی بجائے مسلسل کراہ رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ نبیلہ دوبارہ نمودار ہوئی تھیں‘ انہوں نے شاید ریحان کی پکار سن لی تھی۔ ریحان نے گول گول چکر کاٹنا چھوڑ کر یک دم پائوں زمین پر رکھ دیا اور پھر ہشاش بشاش انداز میں بولا۔
’’کچھ نہیں امی!‘‘ مشعل کو اس پر ترس کم اور ہنسی زیادہ آرہی تھی اور اس کی یہ ہنسی نبیلہ کو زہر لگی تھی اور وہ اسے گھورتے ہوئے واپس چلی گئیں۔ اس نے ریحان کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’کتنے ڈرپوک ہو تم۔‘‘
’’ہر شریف بندہ ڈرپوک ہوتا ہے۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’رٹی رٹائی مت بولو۔‘‘ مشعل نے اسے لتاڑا تو وہ سینے پر بازو باندھ کر اسے دیکھنے لگا۔
مشعل بھی کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہی پھر کچھ توقف کے بعد بولی۔
’’تھینکس!‘‘
’’مگر کس لیے؟‘‘ وہ واقعی نہیں سمجھا تھا۔
’’چچی کے عتاب سے بچانے کے لیے۔‘‘ اور وہ چپ کا چپ رہ گیا۔
’’چلو باہر پارک میں چلتے ہیں‘ کل سے رمضان المبارک شروع ہورہا ہے اور کل سے اس وقت گھومنے کی بجائے ہم روزہ کھلنے کا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘
’’کہیں تم چچی کے ناشائستہ رویے کی تلافی تو نہیں کررہے؟ اگر ایسا کررہے ہو تو بہت غلط کررہے ہو۔‘‘
’’نہیں میں کوئی تلافی نہیں کررہا‘ بس میرا دل چاہ رہا ہے تمہارے ساتھ گول گپے کھانے کو۔‘‘ اس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو مشعل پُرسکون ہوگئی۔ پھر دونوں باتیں کرتے ہوئے باہر جانے لگے۔
’’نجانے کب اور کیسے اس بد روح کو میں اپنے ریحان سے دور کرپائوں گی؟‘‘ اوپر ٹیرس پر کھڑی نبیلہ نے ان دونوں کو گیٹ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر سوچا۔ ’’اگر میرا بس چلے تو میں اپنے بیٹے پر اس کا سایہ بھی نہ پڑنے دوں۔‘‘
…٭٭٭…
افتخار احمد اور نبیلہ کی لَو میرج تھی‘ نبیلہ کا تعلق متمول گھرانے سے تھا اور افتخار کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے۔ وہ ان کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ دونوں کی پہلی ملاقات نبیلہ کے ڈیڈی کے آفس میں ہوئی تھی اور وہی پہلی ملاقات آئندہ کئی ملاقاتوں اور گہری دوستی کا باعث بن گئی اور یہ دوستی جب محبت میں تبدیل ہوگئی تو ایک دن نبیلہ نے افتخار احمد کو پروپوز کردیا۔ افتخار احمد نے جواباً اپنا رشتہ ان کے گھر بھجوایا جسے قبول کرلیا گیا۔ ان کے والد گلزار احمد رشتہ تو طے کرآئے تھے لیکن وہ دل سے اس رشتے پر راضی نہیں تھے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ خاصے ماڈرن قسم کے لوگ تھے اور دولت ہی ان کے لیے سب کچھ تھی اور دوسرا انہیں نبیلہ کا رویہ اور طور طریقے پسند نہیں آئے تھے۔ بات بات پر اپنی دولت کا تذکرہ اور نمائش… اور یہ بات انہیں سخت بُری لگتی تھی۔ انہوںنے قریب بیٹھی ہوئی اپنی بھانجی کی طرف دیکھا جو اُن کی بڑی بہو بھی تھی۔ سلجھی ہوئی اور مہذب! ثمینہ نے آتے ہی سارے گھر کو سنبھال لیا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا۔
’’اس گھر کو دوسری فائزہ مل گئی ہے۔‘‘ جب کہ نبیلہ نے بہو بن کر آنے سے پہلے ہی الگ گھر کا مطالبہ کردیا تھا۔ افتخار نے الگ گھر بنانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دے دی کہ وہ الگ گھر بنالیں لیکن اس گھر کے بالکل ساتھ‘ اپنے سسرال کے قریب نہیں۔ سو ساتھ والا گھر خرید لیا گیا اور دونوں گھروں کے درمیان میں موجود بائونڈری وال کا لکڑی کا دروازہ گلزار احمد نے بنوایا تھا تاکہ دونوں گھر وں کو آنے جانے میں آسانی رہے۔ جب نبیلہ نے اس دروازے کو دیکھا تو سیخ پا ہوگئیں مگر جب انہوںنے سنا کہ یہ دروازہ گلزار احمد نے بنوایا ہے تو ضبط کا گھونٹ بھر کر رہ گئیں۔ گلزار احمد نے اپنے چھوٹے بیٹے افتخار احمد کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔ نبیلہ نے جب خوب صورت بیٹے کو جنم دیا تو غرور و تکبر سے تنی ہوئی ان کی گردن مزید تن گئی۔ انہوں نے تمسخرانہ نظروں سے ثمینہ کی جانب دیکھا‘ جن کی شادی کو دوبرس کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ان کی گود ہنوز سونی تھی۔ انہیں ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہی ہوں۔
’’دیکھ لو سسر کی چہیتی بہو! اس خاندان کو پہلا وارث میں نے دیا ہے‘ تم تو آج بھی بنجر ہو۔‘‘ لیکن انہوں نے ان کی نگاہوں کو نظر انداز کرکے خوش دلی سے ننھے ریحان کو گود میں اٹھاتے ہوئے انہیں مبارک باد دی تھی۔ دونوں گھروں میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی تھی۔
’’بیگم صاحبہ نے ریحان کو واپس لینے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ گلزار احمد ریحان کو ثمینہ کے یہاں لے آئے تھے۔ ان کا کوئی دوست آگیا تو وہ اس سے ملنے چلے گئے اور وہ ایک سالہ ریحان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگیں۔ یہی وہ وقت تھا جب نبیلہ کی ملازمہ ان کے سر پر آکھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے اپنی گود سے اتار دیا تو وہ اسے اٹھا کر چلی گئی۔ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں‘ تبھی گلزار احمد چلے آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر انہیں صبر کی تلقین کی اور دعا دی‘ جس کے جواب میں انہوں نے آمین کہا تھا۔ جو جس کے نصیب میںہوتا ہے اسے مل کر رہتا ہے۔ ثمینہ اور ذوالفقار کے نصیب میں بھی اولاد تھی اور انہیں اپنا نصیب مشعل کی صورت میں مل گیا تھا۔ مشعل کے بعد ماہ رخ اور اس کے بعد علی عون نے آکر ان کی فیملی مکمل کردی تھی۔ اب انہیں کوئی غم نہیں تھا۔ وہ پروردگار کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت میں مگن تھیں۔
…٭٭٭…
مشعل دسویں کلاس کی طالبہ تھی جب گلزار احمد نے ایک دن ثمینہ سے مشعل اور ریحان کے نکاح کی بات کی تھی۔ تب انہوں نے جواباً کہا۔
’’آپ بڑے ہیں‘ بزرگ ہیں ہمارے۔ آپ کافیصلہ سر آنکھوں پر…‘‘
’’ذوالفقار احمد سے میں نے بات کرلی تھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے‘ سوچا تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے مشعل پر جتنا کہ ذوالفقار کا‘ اس لیے پوچھا ہے تم سے۔‘‘
’’آپ نے مجھے اس قابل سمجھا‘ اتنا مان دیا یہ آپ کا بڑا پن ہے۔ آپ کو اختیار حاصل ہے جس کے ساتھ چاہیں اس کا رشتہ طے کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے آپ اس کے لیے بہتر ہی سوچیں گے۔‘‘ ثمینہ نے کہا۔ یہی بات جب انہوں نے افتخار سے کی تو انہوںنے بھی ایسا ہی جواب دیا تب انہوں نے کہا کہ نبیلہ کی بھی رائے جان لیں تاکہ ان دونوں کے نکاح کی رسم ادا کردی جائے مگر نبیلہ نے جب یہ سنا تو غصے سے پھٹ پڑیں۔
’’ میں اپنے بیٹے کا رشتہ ان فقیروں سے ہر گز نہیں کروں گی۔‘‘
’’میرا تعلق بھی ان ہی فقیروں سے تھا محترمہ نبیلہ صاحبہ!‘‘ افتخار احمد نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔ انہیں نبیلہ کے الفاظ برچھی کی طرح لگے تھے‘ جس کے نتیجے میں ان کا لہجہ اپنے آپ ہی غصیلا ہوگیا تھا۔ نبیلہ چپ کی چپ رہ گئیں۔ تب انہوں نے مزید کہا۔
’’میں تم سے پوچھنے نہیں‘ بتانے آیا ہوں کہ ابو نے ان دونوں کا رشتہ طے کردیا ہے۔‘‘
’’وہ کون ہوتے ہیں میرے بیٹے کا رشتہ طے کرنے والے…‘‘
’’نبیلہ!‘‘ وہ دہاڑ اٹھے اور زندگی میں پہلی بار انہیں اس طرح گرجتے ہوئے دیکھ کر نبیلہ سہم کر رہ گئیں۔
’’مم… میرا مطلب ہے کہ ابھی ریحان کی عمر ہی کیا ہے؟ وہ ابھی پڑھ رہا ہے اور… مشعل بھی تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک اور پہلو نکالا۔
’’جب بھائی اور بھابی کو اعتراض نہیں تو تم کیوں اعتراض کررہی ہو؟ ان کی بچی ہے وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ میں ابو سے ہاںکہہ چکا ہوں۔ تم سے پوچھیں تو تم بھی کہہ دینا کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ایسا ہی کرنا پڑا۔ ریحان اور مشعل کی رسم نکاح میں تینوں باپ بیٹوں کو خوش و خرم دیکھ کر وہ جل بھن کر رہ گئیں۔ شاید انہوں نے پہلی بار افتخار کے سامنے مات کھائی تھی۔ افتخار ان کے آئیڈیل ضرور تھے لیکن وہ ان کے اس روپ سے کہاں واقف تھیں۔ حقیقت یہی تھی کہ افتخار ان کا آئیڈیل ہونے کے باوجود اپنے باپ کا فرماں بردار بیٹا بھی تھا۔
’’چھوڑو نبیلہ! تم بھی کن خوابوں میں رہتی ہو‘ جب ان دونوںکا نکاح ہوگیا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے رخصت ہوکر تمہارے گھر آنے سے نہیں روک سکتی۔‘‘ نبیلہ کی بہن شکیلہ نے ان کی بات سننے کے بعد کہا۔
’’تم دیکھ لینا میرے جیتے جی وہ کبھی بھی میرے گھر میں نہیں آسکتی۔‘‘ نبیلہ نے فیصلہ کُن انداز میں کہا۔
’’وہ تمہیں مات پہ ماتے دیتے آئے ہیں۔ پہلے اپنے گھر کے قریب گھر خرید لیا اور اب تمہارے بیٹے پہ قبضہ جمالیا۔‘‘ شکیلہ نے جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے کہا۔
’’اتنی آسانی سے وہ میرے بیٹے پر قبضہ نہیں جماسکیں گے کیونکہ کچھ ہی عرصے کے بعد ہم یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے پھر بیٹھی رہے وہ ریحان کے نکاح میں‘ مجھے کیا؟‘‘
’’تم ایسا کرپائو گی؟ افتخار راضی ہوجائے گا فارن جانے کے لیے؟‘‘
’’اپنا الگ کاروبار تو افتخار کا شروع ہی سے خواب رہا ہے‘ پہلے اسے میری وجہ سے ہماری فیکٹری میں تیس فیصد پارٹنر شپ ملی اور اب اگر میں اسے یہ کہوں کہ ڈیڈی کینیڈا میں اپنے بزنس کی ایک برانچ کھول رہے ہیں اور وہ مکمل طور پر ہماری ہوگی تو وہ یقینا مان جائیں گے کیونکہ ان کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔ میں نے ڈیڈی سے بات کرلی ہے اور وہ عنقریب خوش خبری سنائیں گے۔‘‘ وہ ایک فاتح کی طرح مسکرائی تھیں اور جوس کے گھونٹ لیتی ہوئی شکیلہ انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
’’ضرورت کیا ہے مشعل کو ساری عمر اس کے نام پر بٹھائے رکھنے کی؟ جاتے ہی طلاق کے پیپرز بھجوادینا تاکہ انہیں اپنی اوقات کا پتا چلے‘ ہونہہ! چلے ہیں اونچے خاندان سے رشتہ جوڑنے۔‘‘ شکیلہ نے تنفر آمیز انداز سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! میں چاہتی ہوں کہ انہیں اپنے کیے کی عبرت ناک سزا ملے۔‘‘ نبیلہ کے انداز میں نفرت ہی نفرت تھی۔
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ شکیلہ کو ان کی بات پسند آئی تھی۔
…٭٭٭…
افتخار احمدلائونج میں بیٹھے ہوئے تھے جب نبیلہ ایک فائل ہاتھ میں تھامے ان کے پاس چلی آئیں اور فائل انہیںتھما کر ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ افتخار احمد نے فائل دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’کھول کر دیکھیے!‘‘ نبیلہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا پھر کینیڈا والی نئی برانچ کے سارے کاغذات اپنے نام دیکھ کر وہ حیران رہ گئے تھے اور انہوں نے نبیلہ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ جواباً نبیلہ ایک ادا سے مسکرائی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ ڈیڈی کی بات مان کر انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ کاغذات بنتے وقت ڈیڈی نے مشورہ دیا تھا کہ ’’اگر وہ افتخار احمد کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں تو سارے کاغذات اس کے نام کروادیں تب وہ تمہارے خلاف جانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکے گا اور ساری عمر تمہارے احسانوں تلے دبا رہے گا۔‘‘
’’اور اگر سارا بزنس اپنے نام دیکھ کر اس نے منہ موڑنا شروع کردیا تو…؟‘‘ نبیلہ نے سوال اٹھایا۔
’’احسانوں تلے دب جانے والے لوگ اگر ایماندار بھی ہوں تو پھر وہ گردن کٹا تو دیتے ہیں گردن اٹھاتے نہیں۔ خطرہ ہمیشہ بے ایمانوں سے ہوتا ہے‘ افتخار جیسے لوگوں سے نہیں۔‘‘ اور اسے ڈیڈی کی یہ بات بہت پتے کی لگی تھی اور اب افتخار احمد کا انداز دیکھ کر بھی نبیلہ کے سارے خدشات جیسے منوں مٹی تلے جاسوئے تھے۔
’’تم نے اپنی ساری جائیداد میرے نام کردی؟‘‘ افتخار ابھی تک حیران تھے۔
’’میں اور آپ الگ تو نہیں‘ ڈیڈی جب کاغذات میرے نام بنوانے لگے تو میں نے کہا کہ آپ کاغذات افتخار کے نام بنوائیں‘ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ان کے ہوتے ہوئے کاغذات میرے نام بنیں۔‘‘ نبیلہ نے کمال بے نیازی سے سفید جھوٹ بولا اور افتخار احمد اپنی عظیم بیوی کی محبت پر اش اش کر اٹھے۔
’’تو کب جوائن کررہے ہیں اپنا نیا آفس؟‘‘ نبیلہ نے مسکرا کر ’’اپنا‘‘ پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ان شاء اللہ بہت جلد!‘‘ یہ افتخار احمد کا جواب تھا۔
…٭٭٭…
پارک سے واپسی پر جب ریحان اسے اللہ حافظ کہہ کر واپس اپنے گھر جانے لگا تو مشعل نے کہا۔
’’تم بھی اندر آئو‘ دادا ابو سے ملتے جانا‘ وہ تمہارا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘ اور وہ گھر جانے کا ارادہ تبدیل کرکے اندر آگیا۔
’’کیسے ہو برخوردار! آخر بھول گئے نا اپنے دادا ابو کو؟‘‘ گلزار احمد اسے دیکھ کربولے۔
’’السّلام علیکم دادا ابو! آپ بھی کوئی بھولنے کی چیز ہیں۔ آپ میرے دادا ہی نہیں دوست اور محسن بھی ہیں۔‘‘
’’بس بس رہنے دو‘ زیادہ مکھن نہیں لگائو یار! پہلے بوڑھا تھا‘ اب تو بیمار بھی ہوں۔ اپنے باپ سے کہنا کہ اپنی بیوی کی طرح عید کا چاند نہ بنے اور آکر مل جائے مجھے۔‘‘ ان کے لہجے میں دکھ ہی دکھ تھا۔
’’السّلام علیکم ابو!‘‘ افتخار احمد اندر داخل ہوتے ہوئے بولے تو گلزار احمد کے جھریوں زدہ چہرے پر رونق درآئی۔ ان کے اندر کی خوشی چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔
’’آئو آئو بیٹا! بڑی لمبی عمر ہے تمہاری۔ میں ابھی ریحان سے تمہارا ہی ذکر کررہا تھا۔‘‘ انہوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا۔ ریحان نے اپنی نشست ان کے لیے خالی کردی اور باہر نکل گیا۔
’’بیٹا! ایک بات کرنی تھی تم سے؟‘‘ گلزار احمد‘ افتخار احمد سے مخاطب ہوئے۔
’’حکم کریں ابو!‘‘ افتخار احمد بولے۔
’’بیٹا! میری خواہش ہے کہ اب مشعل کی رخصتی کردی جائے۔‘‘
’’مگر ابو اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ ابھی تو ان دونوں کی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی۔‘‘ افتخار احمد کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ بات چھیڑ دیں گے۔
’’بیٹا! آج نہیں تو کل پڑھائی تو پوری ہو ہی جائے گی مگر زندگی کا کیا بھروسا‘ آج ساتھ چھوڑ جائے یا کل؟ میں اپنے مطلب کے لیے خود غرض ہورہا ہوں لیکن دنیا سے جانے سے پہلے میں ان دونوں کو ایک ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہے ہیں ابو! اللہ آپ کو لمبی عمر دے‘ ابھی تو آپ کو ریحان کے بچوں کو اپنی گود میںکھلانا ہے۔‘‘
’’مجھ جیسے بڈھے کو تسلی دینے کے لیے تو یہ باتیں ٹھیک ہیں مگر بیٹا! لگتا نہیں ہے کہ اب زیادہ عرصہ جی پائوں گا بس تم میرا یہ آخری کام کردو‘ یہ تمہارا مجھ پہ احسان ہوگا۔‘‘
’’پلیز ابو! یسا تو نہ کہیں۔ جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا۔ اس عید کے بعد رخصتی کی کوئی بھی تاریخ رکھ لیتے ہیں‘ آپ بھیا اور بھابی سے بھی مشورہ کرلیں۔‘‘ افتخار احمد نے پل بھر میں فیصلہ کرلیا۔
’’ارے… ثمینہ بیٹا! تم نے موکل چھوڑ رکھے ہیں جو ادھر ہم نے بات مکمل کی اُدھر تمہیں پتا چل گیا۔‘‘ گلزار احمد نے پُرتکلف چاٹ کے ساتھ ثمینہ کو آتے دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا کر رہ گئیں۔
’’ابو!یہ مٹھائی تو افتخار بھائی لے کر آئے ہیں‘ کینیڈا میں اپنا نیا بزنس اسٹارٹ کرنے کی خوشی میں۔‘‘ ثمینہ نے ہنستے ہوئے بتایا۔
’’اچھا! یہ تو خوشی کی خبر ہے۔ افتخار میاں تم نے بتایا ہی نہیں!‘‘ انہوں نے قریب بیٹھے افتخار سے پوچھا۔
’’جی ابو! یہی تو بتانے کے لیے حاضر ہوا تھا۔‘‘ افتخار احمد نے جواب دیا۔
’’بہت بہت مبارک ہو بھئی! سُن کر بہت خوشی ہوئی‘ کب جارہے ہو؟‘‘
’’عید کے بعد…!‘‘
’’صرف تم جائو گے یا بہو بھی ساتھ جائے گی؟‘‘
’’ان شاء اللہ ابو ! سب جائیں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
’’تو چلیے اسی اچھی بات پر منہ میٹھا کیجیے ابو!‘‘ ثمینہ نے مٹھائی کی پلیٹ اٹھا کر ان کے سامنے کردی۔
…٭٭٭…
نبیلہ نے بہت کوشش کی تھی کہ ان کے کینیڈا جانے تک کسی طرح یہ رخصتی ٹل جائے لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ آخر وہی ہوگیا تھا جس کا انہیں ڈر تھا‘ ان کے لاکھ بہانوں کے باوجود عید کے تیسرے دن تاریخ طے کردی گئی تھی اور وہ سوائے بڑبڑانے کے اور کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔ ’’’’بلیک میلر ہے بڈھا! دیکھو کس طرح اپنی بیماری کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے۔‘‘ نبیلہ نے شکیلہ کے سامنے دل کے پھپولے پھوڑے ۔
’’تم بھی پرلے درجے کی بے وقوف ہو۔ جو کام کل سوچا تھا کرنے کے لیے‘ اسے کل ہی کرلیتیں تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی۔ ریحان کے نکاح کے فوراً بعد کینیڈا سیٹل ہوجاتیں اور بہانہ کردیتیں کہ ریحان کی پڑھائی اور افتخار کے بزنس کی وجہ سے وہاں سیٹل ہورہے ہیں تو ان کے منہ خود ہی سل جاتے اور آج وہ تمہارے محتاج ہوتے کہ تم کب انہیں رخصتی کی تاریخ دیتی ہو۔ اِدھر تم نے کینیڈا جانے کا سوچا ہے اُدھر انہوں نے رخصتی کی تاریخ طے کردی‘ اب بھگتو!‘‘ شکیلہ تو اس سے بھی زیادہ چڑی بیٹھی تھی اور چڑتی کیوں نہیں آخر اس نے اپنی بیٹی حنا کا رشتہ طے کرنے کا سوچاتھا ریحان سے اور شادی کینیڈا میں ہونا طے پائی تھی دونوں بہنوں میں اور یہ رشتہ حنا کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے طے کیا گیا تھا مگر اب اس کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے‘ وہ تو یہ سوچ سوچ کرپریشان ہوگئی تھی کہ اب یہ شاکنگ نیوز حنا کو کیسے سنائے۔
’’اب مجھے کیا پتا تھا کہ وہ بڈھا اس طرح بیمار ہوجائے گا اور اس طرح چالاکی سے اپنی بیماری کا استعمال کرے گا۔ اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو یہ کام میں پہلے ہی کردیتی۔ میں نے تو کہا بھی تھا کہ رخصتی ریحان کے ایم بی اے فنانس اور مشعل کی بی ایس سی کے بعد ہی کریں گے مگر ان مگر مچھوں نے تو وقت سے پہلے ہی مجھے ثابت نگل لیا۔ اب کیا کروں‘ کوئی راستہ بھی تو نہیں نکل رہا‘ اللہ کرے وہ بڈھا ہی مرجائے۔‘‘ تلخی سے بولتے بولتے نبیلہ نے آخر میں بددعا دی۔
’’ہاں اللہ کرے کہ وہ بڈھا ہی مرجائے تاکہ یہ رخصتی ٹل جائے‘ اب تو یہی ایک آخری راستہ بچا ہے۔‘‘ شکیلہ نے نبیلہ کی بات کی تائید کی۔
’’اچھا میں اب چلتی ہوں کافی دیر ہوگئی۔‘‘ وہ شکیلہ کو خدا حافظ کہہ کر باہر نکل آئیں۔ جب ان کی گاڑی باہر نکلی تو حنا کی گاڑی کے قریب سے گزری اور ان کی نگاہیں حنا کے وجود سے ٹکرائیں‘ گاڑی اس کا کوئی دوست ڈرائیو کررہا تھا۔ شکیلہ اپنی بیٹی کے تمام کرتوتوں سے واقف تھیںمگر چشم پوشی سے کام کرتی تھیں یوں بھی ان کی سوسائٹی میں اس قسم کی دوستیاں معیوب نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ سو شکیلہ کے لیے بھی یہ بات معیوب نہیں تھی۔
…٭٭٭…
’’چاند نظر آگیا…‘‘ ماہ رخ چیخ کر قریب کھڑی مشعل سے لپٹ گئی۔ ’’کل عید ہوگی‘‘ اس نے مزید کہا۔
’’آج کا چاند اور کل کی عید بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ مشعل نے کہا۔
’’آپی! چاند بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ پاس ہی کھڑے علی عون نے کہا تو وہ دونوں بھی اسے مبارک باد دینے لگیں۔ وہ تینوں ہی نماز کے بعد چھت پر آگئے تھے۔
’’سب سے پہلے میں جاکر مبارک باد دوں گی دادا ابو کو ابو جان کو اور امی کو۔‘‘ ماہ رخ نیچے لپکی‘ علی عون اس کے پیچھے تھا۔ مشعل وہیں کھڑی ان دونوں کا جو ش دیکھ رہی تھی کہ اس نے ریحان کو اوپر آتے دیکھا۔
’’چاند رات بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ اس نے سفید گلاب کی ادھ کھلی کلی اس کی جانب بڑھائی جسے اس نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا۔
’’بہت بہت شکریہ‘ تمہیں بھی مبارک ہو۔‘‘
’’کبھی تم بھی بھولے سے ایک عدد پھول‘ چلو گلاب کا نہ سہی موتیے‘ چنبیلی کا ہی دے کر چاند مبارک کہہ دیا کرو۔ ہمیشہ یونہی مجھ سے پھول لے کر چاند رات مبارک کہہ دیتی ہو۔‘‘
’’میری تو باتوں ہی سے پھول جھڑتے ہیں پھر خالی خولی پھول دینے کا تردد کیوں کروں؟‘‘ اس نے سفید گلاب کے پھول پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ جواباً ریحان کا قہقہہ بے ساختہ تھا پھر وہ بولا۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے!!
تو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں!!
وہ سر جھکائے اسے سُن رہی تھی عین اسی وقت اس کی سماعت سے رونے کی آوازیں ٹکرائیں۔ اس نے سرعت سے گردن اٹھا کر ریحان کی طرف دیکھا‘ اس کی پریشان نگاہوںمیں سوال تھا گویا وہ اس سے پوچھ رہی ہو کہ کیا تم نے بھی کچھ سنایا یہ میرا وہم ہے؟ اس کی نگاہوں میں بھی ایسے ہی احساسات تھے پھر وہ ایک ساتھ نیچے کی جانب لپکے تھے۔ رونے کی آوازیں دادا ابو
کے کمرے سے بلند ہورہی تھیں ۔ وہ دونوں دھڑکتے دل اور لرزتے قدموں کے ساتھ وہیں چلے آئے اور سب کو روتا دیکھ کر ساکت ہوگئے۔ دادا ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ یہ جان لیوا انکشاف ان کی سانسیں بے ربط کرگیا۔ اشک بے ساختہ ان دونوں کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔ اتنی اچانک وہ ان سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی سوائے نبیلہ کے!
شاید اس کے منہ سے نکلی بددعا کسی قبولیت کے لمحے کی زد میں آگئی تھی۔
…٭٭٭…
’’کیا کررہی ہو مشعل!‘‘ ماہ رخ نے کچن کے دروازے میں سے جھانک کر چولہے کے پاس کھڑی مشعل سے پوچھا۔
’’پکوڑے بنارہی ہوں۔‘‘
’’ریحان بھائی کے لیے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’ہمیںبھی ملیں گے؟‘‘
’’ہاں کیوںنہیں‘ سب کے لیے بنارہی ہوں۔‘‘ ماہ رخ اندر آگئی اور اس نے پلیٹ میں سے ایک پکوڑا اٹھا کرمنہ میں رکھ لیا۔
’’تم پکوڑے بناتی کم کم ہو مگر بناتی اچھے ہو‘ تبھی تو ریحان بھائی تم سے ہمیشہ پکوڑوں پر ہی شرط لگاتے ہیں۔‘‘ماہ رخ نے تبصرہ کیا۔
’’تعریف کا شکریہ! یہ تم اندر لے جائو اور یہ میں ریحان کے لیے لے کر جارہی ہوں۔‘‘ پکوڑے اور چٹنی کی پیالی کی جانب اس نے اشارہ کرکے بتایا تو ماہ رخ کہے بنا نہ رہ سکی۔
’’ان کی طرف لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اِدھر تم لان میں قدم رکھو گی اُدھر وہ دروازے سے نمودار ہوں گے۔‘‘ اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔ تھوڑے عرصہ پہلے ہی کی بات ہے وہ پکوڑے ٹرے میں سجائے اس کی طرف جارہی تھی کہ وہ سامنے دروازے سے نمودار ہوتا دکھائی دیا تھا وہ ان کی طرف جانے کا پروگرام ملتوی کرتے ہوئے بولی۔
’’میں ابھی تمہاری طرف ہی آرہی تھی۔‘‘
’’دیکھ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اِدھر تم نے یاد کیا اُدھر ہم حاضر!‘‘ وہ بھی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’ہاں شیطان کو یاد کیا اور شیطان حاضر!‘‘ مشعل نے کہا تو اس کا منہ بن گیا۔
’’تم بھی نا! پل میں انسان کو عرش پر بٹھا دیتی ہو اور پل میں فرش پر پٹخ دیتی ہو۔‘‘ اس نے دہائی دینے والے انداز میں کہا تو وہ اس کا گلہ دور کرتے ہوئے بولی۔
’’چلو شیطان ہٹا کر فرشتہ لگا دیتے ہیں‘ اب خوش؟‘‘
’’ہاں! یہ ٹھیک ہے‘ جو میرے ساتھ بیٹھی ہے وہ خود شیطان سے کافی ملتی جلتی ہے۔‘‘ اس نے پکوڑا کھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ظاہر سی بات ہے اب فرشتے توشیطان سے دوستی کرنے سے رہے۔‘‘ وہ دوبدو بولی تو اس نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔
’’شیطان نے پکوڑے تو بہت اچھے بنائے ہیں۔‘‘
’’شیطان خود کھارہا ہے تبھی اسے اتنے مزے کے لگ رہے ہیں۔‘‘ اس نے منہ پھلا کر کہا۔
وہ بیتے لمحوں کے سحر سے نکل کرباہر لان میں آگئی اور اس کی نگاہیں سامنے دروازے پر جم گئیں۔ وہ اکثر اس دروازے سے نمودار ہوتا تھا مگر نجانے کیوں اس کا دل گواہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ آج دروازے سے نمودار ہوگا۔ ایک ایک بڑھتے قدم کے ساتھ ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کی تکرار بڑھتی جارہی تھی۔ وہ دروازے پرپہنچ چکی تھی اور وہ نمودار نہیں ہوا تھا۔ اس کا دل ڈوب سا گیا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے برآمدے کی جانب آگئی۔لائونج میں کھلنے والا داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ ٹرے پر اس کی گرفت غیر ارادی طور پر مضبوط ہوگئی۔ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر اس نے ٹرے ایک ہاتھ میں کی اور پھر دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا اور کھولنے کے لیے گھمایا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ اس نے ناب کو دوبارہ گھمایا لیکن دروازہ ٹس سے مس نہیں ہوا‘ اس کا ہاتھ کانپنے لگا تھا اور دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
اس نے تیسری مرتبہ ناب گھمائی کہ شاید کھل جائے پھر وہ چوتھی بار بھی گھماتی اگر گھر کے مالی کی آواز اس کے کانوں سے نہ ٹکراتی۔
’’یہ دروازہ بند ہے بی بی! یہاں پر کوئی بھی نہیں ہے‘ وہ سب چلے گئے ہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے کینیڈا! میں بھی جا ہی رہا تھا آپ کو دروازے سے الجھتے دیکھا تو رک گیا۔ خداحافظ بی بی جی!‘‘ وہ اس کے سر پر بم پھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
اور وہ تو جیسے پاتال میں جاگِری تھی۔ اسے اپنے گرد گہرے اندھیرے پھیلتے محسوس ہورہے تھے۔ ٹرے اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین بوس ہوچکی تھی اور وہ خود بھی نیچے گِرنے والے انداز میں بیٹھتی چلی گئی۔
’’ریحان مجھے چھوڑ کر چلا گیا وہ بھی کچھ بتائے بغیر؟‘‘ سوچتے ہوئے اس کی گیلی نگاہوں کی زد میں سب سے اوپر والی سفید سیڑھی پہ دھرا ادھ کھلا گلاب آگیا۔ وہ اس کی برتھ ڈے پر ہمیشہ سرخ گلاب دیا کرتا تھا اور آج جاتے ہوئے وہ یہ پھول شاید اس کے لیے رکھ گیا تھا۔ اس نے بے جان ہاتھوں کو آگے بڑھا کر وہ پھول اٹھالیا‘ آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے جل تھل مچادیا تھا اور اس کی آنکھوں نے بھی جل تھل مچادیا تھا تب بھی وہ بے تحاشا روئی تھی اور آج چار سال بعد بھی وہ بے تحاشا رو رہی تھی۔
وہ کیا عجیب شخص تھا کہ جس کی ذات پر
جب اعتبار بڑھ گیا تو اختیار نہ رہا!
چار سال پہلے بھی وہ ریحان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں چلا گیا اور آج چار سال بعد بھی وہ اس سے یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے محبتوں کے بندھن میںباندھ کر کیوں منجدھار میں چھوڑ کر چلا گیا… کیوں؟ وہ یہ سارے سوال وقتاً فوقتاً خود سے کرتی مگر اپنی سالگرہ کے دن وہ یہ سوال خود سے نہیں کرتی تھی کیونکہ اس دن وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ وہ سارا سارا دن گیٹ پر نگاہیں جمائے بیٹھے رہتی کہ کب بیل بجے وہ بھاگ کر گیٹ پر جائے اور کینیڈا سے بھیجا گیا ادھ کھلا سرخ گلاب وصول کرے۔ سارے سال کے انتظار کا پھل اسے ایک پل میں حاصل ہوجاتا تھا‘ وہ خوش ہوکر خود سے کہتی ’’بس اس نے مجھے بُھلایا نہیں ہے‘ میں اسے یاد ہوں‘ وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتا ہے تبھی تو اسے میرا جنم دن یاد ہے۔‘‘ وہ پھر سے جی اٹھتی تھی اور وہ جیتی رہتی تھی تب تک جب تک اسے اپنی سالگرہ پر پھول ملتا رہا تھا اور یہ پھول اس کے جانے کے تین سال تک اسے ملتا رہا تھا۔ چوتھے سال اسے وہ پھول نہیں ملا تھا اس کی شادی کا کارڈ ملا تھا جو بڑے اہتمام سے اس کے لیے کینیڈا سے بھیجا گیا تھا۔ اس کی شادی حنا سے ہورہی تھی اور وہ اس دن دوبارہ مرگئی تھی۔
…٭٭٭…
’’آخر کب تک ہماری بیٹی اس کے نام پر بیٹھی رہے گی؟ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گانا۔‘‘ ثمینہ نے سونے سے پہلے لیٹے ہوئے ذوالفقار سے کہا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’ہاں اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا‘ افتخار بھی یہاں سے جاتے ہی ہمیں بھول گیا۔ میں کئی مرتبہ اس سے بات کرچکا ہوں مگر اس نے ہر بار یہی کہا کہ وہ جلد ہی کوئی جواب دے گا مگر اس جلدی کو تین سال بیت گئے۔ اس نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کروادی اور ہماری بیٹی کو آج تک سولی پر چڑھا رکھا ہے۔ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے‘ اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ آپ آخری بار افتخار بھائی سے فیصلہ کن بات کرکے دیکھیں‘ اس کے بعد ہی کوئی انتہائی قدم اٹھائیے گا۔ آپ ان سے دو ٹوک بات کریں رخصتی کی تاریخ دیں یا پھر…‘‘ وہ پل بھر کو تھمی تھیں۔ ’’یا پھر… مشعل کو طلاق بھجوادیں۔ اگر اس مسئلے میں بھی وہ اسی چلن سے کام لیں تو کورٹ میں خلع کا کیس دائر کروادیں‘ آپ ان سے بالکل نپے تلے انداز میں باتیں کریں‘ بہت ہوگیا یہ چوہے بلی کا کھیل… ہماری بچی بھی انسان ہے کوئی بے جان گڑیا نہیں۔ آخر کب تک ہم اس پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں؟‘‘ ثمینہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا اب ان سے فیصلہ کن بات کرنی ہی پڑے گی۔‘‘ مشعل کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا دوبھر ہوگیا تھا۔ وہ ان کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ ان کی گفتگو سُن کر اس کے قدم تھم گئے تھے۔
آتا ہی نہیں دل میں رہائی کا تصور
دلچسپ بہت جرم محبت کی سزا ہے
اس نے ریحان سے خلع لینے کا سوچنا تو کیا کبھی تصور تک نہیں کیا تھا‘ یہ سننا بھی اس کے لیے سوہان روح تھا۔ وہ مردہ جسم اور بے جان پیروں کے ساتھ اپنے کمرے میں آگئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ وہ اس سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھی نہ اس سے طلاق لینا چاہتی تھی نہ خلع لیکن وہ اپنے والدین کو یہ قدم اٹھانے سے منع نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے پہلی بار خود کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کیا‘ پہلی بار اسے سارے راستے بند محسوس ہوئے۔ اسے اپنے چاروں طرف اندھیرے چھاتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
’’یااللہ! تُو غفور الرحیم ہے‘ تُو ہی بخشنے والا ہے‘ تُو مجھے بخش دے‘ اپنے پیارے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے مجھ پر اپنا کرم کر‘ تُو ہی مجھے اس امتحان سے نکالنے والا ہے۔ تُو


ہی بند راستے کھولنے والا ہے‘ تُو ہی اندھیروں کو روشنی دینے والا ہے۔ تُوہی مجھے ریحان سے ملاسکتا ہے‘ میرے اللہ مجھے ریحان سے ملادے‘ میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں‘ میں اس سے جدا ہوکے اب مزید نہیں جی سکتی۔ میرے اللہ مجھے اس کے نام سے الگ مت کرنا‘ میرے اللہ مجھے اس سے جدا مت کرنا‘ مجھے اس سے ملادے۔ میرے اللہ مجھے اس سے ملادے۔‘‘ وہ روتے روتے سجدے میں چلی گئی تھی اور سجدے میں بھی اللہ تعالیٰ سے اسے ہی مانگ رہی تھی۔
کچھ رات کی آنکھیں بھیگی تھیں
اور چاند بھی روٹھا روٹھا تھا
کچھ یادیں اس کی باقی تھیں
اور دل بھی ٹوٹا ٹوٹا تھا
کس موڑ پہ بچھڑے یاد نہیں
ہونٹوں پہ کوئی فریاد نہیں
اس وعدے کی بھی خبر نہیں
وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا
ہر لمحہ آہیں بھرتے ہیں
نہ جیتے ہیں
نہ مرتے ہیں
بس ایک دعا یہ کرتے ہیں
وہ لوٹ کے واپس آجائے!!
وہ لوٹ کے واپس آجائے!!

…٭٭٭…
’’آپ کی بات ہوئی افتخار بھائی سے…؟‘‘ ثمینہ نے چند دنوں بعد پوچھا۔
’’بات تو ہوئی تھی مگر افتخار سے نہیں نبیلہ بھابی سے‘ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ریحان نہ تو مشعل کو طلاق دے گا اور نہ رخصت کروا کے اپنے ساتھ لے جائے گا جو کرنا ہے کرلو۔ بس یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا۔‘‘ ذوالفقار بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے پل بھر کے لیے تو ثمینہ کو چپ سی لگ گئی۔
’’تو پھر کیا سوچا ہے آپ نے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا تھا۔
’’سوچنا کیا تھا؟ میں نے انہیں کورٹ کا نوٹس بھجوادیا ہے۔ آج سارا دن اسی کام میں لگارہا انہوں نے میری صابر بچی کے صبر کو خوب آزمالیا مگر اب نہیں… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘
کچن میں کھڑی پکوڑوں کا بیسن گھولتی ہوئی مشعل کی آنکھیں تیزی سے گیلی ہورہی تھیں۔ اس نے ماہ رخ سے اپنے آنسو چھپانے کے لیے اپنا رخ موڑ لیا۔ ہال میں سے ثمینہ اور ذوالفقار کے بولنے کی آوازیں صاف آرہی تھیں اور اس نے ان کی گفتگو کو حرف بہ حرف سنا تھا۔
…٭٭٭…
پاکستان سے آئی ہوئی رجسٹری ریحان نے خود وصول کی تھی۔ وہ کورٹ کی طرف سے بھیجا گیا خلع کا نوٹس تھا۔ وہ رجسٹری ہاتھ میں لیے اندر آگیا اور رجسٹری میز پر پھینک کر خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر نبیلہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔
’’کورٹ نوٹس!‘‘
’’کورٹ نوٹس؟ مگر کیسا کورٹ نوٹس اور کس کے لیے آیا ہے یہ؟‘‘ نبیلہ نے پوچھتے ہوئے کاغذات اٹھالیے اور پڑھتے ہی ان کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ در آئی۔ ’’اوہو! تو مشعل نے خلع کے لیے کورٹ نوٹس بھجوایا ہے۔ ہاں بھئی ظاہر ہے اس آوارہ لڑکی سے کیا بعید… دے دیا ہوگا مشورہ کسی عاشق نے‘ جبھی تو کورٹ نوٹس بھجوایا ہے۔‘‘
’’امی پلیز! بہت ہوگیا…‘‘ ریحان پہلی بار نبیلہ کے سامنے حلق کے بل چلّایا تھا۔ نبیلہ دم ساکت رہ گئیں ریحان کے اس روپ کو دیکھ کر۔ اتنا طیش میں تو وہ تب بھی نہیں آیا جب انہوں نے مشعل کی توہین آمیز تصویریں اسے دکھائی تھیں۔ تصویریں دیکھنے کے بعد اس نے حنا سے شادی کے لیے ہاں کہہ دی تھی مگر آج تو وہ اس کا ایک نیا ہی روپ دیکھ رہی تھیں‘ جو انوکھا ہی نہیں حیران کن بھی تھا۔ وہ مشعل سے اس وقت سے محبت کرتا تھا جب اسے محبت کا مفہوم بھی نہیں معلوم تھا۔ اسے اس کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا تھا اور دادا ابو کے بہانے وہ اس کے ساتھ وقت گزارتا بھی تھا۔ نبیلہ اسے وہاں جانے سے منع کرتیں یا ٹوکتیں تو وہ ان سے کہتا کہ وہ دادا ابو سے ملنے جارہا ہے تب نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسے اجازت دے دیتی تھیں۔ پھر وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے چلے گئے اور ان کی چاہتوں میں شدت آنے لگی تب پہلی بار دادا ابو نے اس سے ایک چونکا دینے والی بات کی تھی۔ وہ مشعل سے الجھنے کے بعد ہمیشہ کی طرح ان کے کمرے میں آیا تھا اس کی شکایت لے کر تب پہلی بار اس کی شکایت سننے کے بعد وہ کافی دیر تک اس کی صورت کو دیکھتے رہے تھے۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہیں دادا ابو!‘‘ اس نے دریافت کیا۔
’’دیکھ رہا ہوں کہ میرا پوتا کتنا بڑا ہوگیا ہے؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر شرارت بھرے انداز میں کہا۔
’’دادا ابو! آپ کا پوتا بڑا نہیں بہت بڑا ہوگیا ہے‘ دیکھ لیں اس نے آپ سے بھی لمبا قد نکال لیا ہے۔‘‘ جواباً گلزار احمد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ ہنسے کس بات پر ہیں۔ وہ ٹکر ٹکر ان کی صورت دیکھ رہا تھا جب انہوںنے اس سے دریافت کیا تھا۔
’’مشعل سے بہت محبت کرتے ہو نا!‘‘ ان کے منہ سے یہ غیر متوقع بات سن کر وہ جھینپ سا گیا پھر قدرے حیرانی سے بولا۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘
’’بیٹا میں تمہارے باپ کا بھی باپ ہوں۔‘‘ اور وہ مزید جھینپ گیا۔ ’’کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ وہ جیسے خود سے بولے تھے۔
’’کیا مطلب دادا ابو؟‘‘
’’مطلب یہ میری جان کہ اب تم بہت بڑے ہوگئے ہو‘ اپنے دادا ابو سے بھی لمبا قد نکال لیا ہے لہٰذا اب تمہارا نکاح کروا دیا جائے مشعل بیٹی سے۔‘‘
’’سچ دادا ابو؟‘‘ وہ ان سے لپٹ گیا تو دادا ابو بے ساختہ ہنسنے لگے۔
’’سچ مچ! مگر یہ نکاح مشعل بیٹے کی رضا مندی کے بعد ہی طے ہوگا۔ اگر وہ راضی ہوئی تو پھر ایسے موقعوں پر وہی کہاوت ہوتی ہے کہ دلہا دلہن راضی تو کیا کرے گا قاضی! قاضی مطلب نبیلہ بی بی!‘‘
’’وہ تو انکار کر ہی نہیں سکتیں۔‘‘ اس کی زبان سے بے اختیار پھسلا تھااس نے زبان دانتوں تلے دبالی اور گلزار احمد نے اس کا کان پکڑلیا۔
’’کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے کہنا؟‘‘
’’آہ! دادا جی پلیز کان چھوڑیئے بہت درد ہورہا ہے۔‘‘
’’مجھ سے اداکاری؟‘‘ انہوں نے اس کے کان کو مزید مروڑا اور پھر اس کا کان چھوڑ دیا تو وہ ان کی جانب دیکھے بنا ہی بھاگ گیا۔ گلزار احمد تا دیر مسکراتے رہے تھے۔ انہوں نے مشعل کی رضامندی کے بعد ان کے والدین سے بات کی اور یہ رشتہ طے کردیا۔ ظاہر یہی کیا کہ یہ رشتہ ان کی اپنی مرضی اور خواہش پر طے ہوا ہے لیکن اندر کی بات ہے۔ یہ صرف ان تینوں کو ہی علم تھا۔
…٭٭٭…
اس دن جب نبیلہ اپنی بہن شکیلہ کے سامنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں وہ اچانک وہاں چلا گیا تھا اور پھر ان کی گفتگو سُن کر حیران رہ گیا تھا۔ وہ دبے پائوں کسی سے ملے بغیر وہاں سے واپس آیا اور گلزار احمد کو سارا ماجرا سنایا‘ وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولے۔
’’تم پریشان نہ ہو‘ تمہاری اماں کے جانے سے پہلے پہلے تمہاری رخصتی کروادیں گے۔‘‘ تب وہ پُرسکون ہوگیا تھا۔ گلزار احمد نے اپنے قول کے مطابق بیماری کی پروا نہ کرتے ہوئے رخصتی کی تاریخ طے کرادی تھی مگر موت نے انہیں اتنی مہلت ہی نہیں دی تھی کہ وہ اپنے جان سے پیارے بچوں کی خوشی دیکھ سکتے۔ وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے اور ساتھ ہی ان کی زندگی بھی اجڑ


گئی۔ وہ ان کی مدد سے اٹوٹ بندھن میں تو بند گئے تھے مگر ایک نہیں ہوسکے تھے اور ایک ہونے کے لیے ہی وہ نبیلہ سے سمجھوتا کرکے اسے بنا بتائے ان کے ساتھ کینیڈا چلا آیا تھا‘ کہ آج نہ سہی تو کل شاید وہ اپنے بیٹے کی خوشیوں کی خاطر مشعل کو بہو کے روپ میں قبول کرلیں مگر اس کی خوش فہمی پر اس وقت پانی پڑگیا جب انہوں نے اسے حنا سے شادی کرنے کے لیے کہا۔ اس نے انہیں دوٹوک انداز میں منع کردیا تھا کہ وہ مشعل کی جگہ کسی اور کو دینے کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کا دوٹوک جواب نبیلہ کو اپنے منہ پر تمانچے کی طرح محسوس ہوا۔
’’کپڑوں کی طرح بوائے فرینڈ بدلتی ہے وہ… یہ دیکھو… یہ دیکھو… یہ … یہ… یہ میرا ہاتھ سوکھ گیا ہے ان تصویروں کو دیکھتے دکھاتے‘ لچھن دیکھو اس بے حیا لڑکی کے! میں اس کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے اسے اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی اور تم اسے بیوی بنا کر رکھنا چاہتے ہو؟ اس لڑکی سے شادی کرنے سے تو بہتر ہے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرو‘ جس کی تصویریں اتنی واہیات ہیں وہ خود کتنی گھٹیا ہوگی سوچو؟‘‘ نبیلہ بول رہی تھی اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ حد تو یہ تھی کہ نبیلہ نے یہ تصویریں افتخار کو بھی دکھادی تھیں اور پھر بنا کچھ کہے سنے وہ جانے کیسے راضی ہوگیا تھا۔
’’آپ جس سے کہیں گی میں اس سے شادی کے لیے تیار ہوں۔‘‘ پھر یہ کہنے کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اس کے وہاں سے جاتے ہی نبیلہ نے فاتحانہ انداز سے وہ تصویریں اٹھائیں اور جاکر جلا ڈالیں۔ اب وہ ان کے کسی کام کی نہیں تھیں مگر تصویریں جلانے سے پہلے انہوں نے شکیلہ کو فون کرکے مبارک باد دی تھی کہ ریحان حنا سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے‘ تم کل ہی کینیڈا آجائو تاکہ جلد از جلد ان دونوں کی شادی ہوجائے مگر شکیلہ نے انہیں چند مہینے ٹھہرنے کا کہا تھا۔
’’مگر کچھ دن پہلے تو تمہیں بڑی جلدی تھی اب کیا ہوگیا؟‘‘ نبیلہ کو کچھ دن ٹھہرنے والی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی مگر پھر بھی انہوں نے شکیلہ کی بات مان لی تھی اور اس بات کے ٹھیک سات مہینے بعد اس کی شادی ہورہی تھی۔ حنا اور شکیلہ کینیڈا آچکی تھیں اور ان کا قیام نبیلہ کے گھر پر ہی تھا۔ شادی سے کچھ دن پہلے اس کے والد کی آمد بھی متوقع تھی وہ اپنی شادی پر بہت خوش تھی اور اپنی شادی کی ساری شاپنگ ریحان کے ساتھ مل کر اس کی پسند سے کرنا چاہتی تھی۔ اس دن بھی وہ دونوں ایک ساتھ شاپنگ کرنے گئے تھے جب ریحان کی ملاقات اپنے ایک پاکستانی دوست سے ہوگئی۔ اس کے ساتھ اس کے دونوں جڑواں بچے اور بیگم بھی تھیں۔
’’یار! لگے ہاتھوں اپنی ہونے والی بیگم سے بھی ملوادو‘ شادی پر تو ہم تمہاری ویسے بھی نہیں آسکیں گے کیونکہ آج یہاں ہمارا آخری دن ہے اور کل ہمیں ہر حال میں پاکستان روانہ ہونا ہے۔‘‘ ناصر نے اسے پیشگی مبارک باد دینے کے بعدکہا۔ اس سے قبل کہ ریحان کچھ کہتا ہاتھوں میں شاپنگ بیگز اٹھائے حنا وہاں چلی آئی جس کی نگاہوں کی زد میں صرف اور صرف ریحان تھا۔ اس نے سامنے کھڑے جوڑے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
’’چلیں ریحان!‘‘ وہ ریحان سے مخاطب ہوئی لیکن ریحان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بیگم ناصر بول اٹھیں۔
’’ارے حنا جی! آپ؟ کیسی ہیں آپ اور یہاں کیسے؟‘ ریحان کی کوئی رشتہ دار ہیں آپ؟‘‘
’’آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟‘‘ ریحان نے حنا کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر ان سے پوچھا۔
’’ارے یہ تو ہماری محسن ہیں‘ ان دونوں جڑواں بچوں کو ان ہی سے تو لیا تھا ہم نے۔‘‘ ریحان نے بے اختیار حنا کے چہرے کی جانب دیکھا لیکن وہ نگاہیں چرا گئی۔ ناصر کی بیگم کہہ رہی تھیں۔ ’’یہ میرے کلینک پر ابارشن کروانے آئی تھیں کیونکہ ان کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور یہ ان دونوں بچوں کو جنم نہیں دینا چاہتی تھیں لیکن تب ابارشن ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ابارشن نہ کروائیں اور ان بچوں کوجنم دیں‘ سارا خرچہ ہم اٹھائیں گے۔ بڑا دل ہے ان کا جو انہوں نے دونوں بچے ہمارے حوالے کردیئے۔ بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ پر بھی ہمارے نام ہیں۔‘‘
’’اور آپ نے ان کی مالی امداد بھی کی ہوگی؟‘‘ ریحان نے دریافت کیا۔
’’جی بالکل! کیوں کہ یہ تو پہلے ہی بُرے حالات کا شکار تھیں۔‘‘ اس مرتبہ ناصر نے جواب دیا۔
’’بات پیسوں کی نہیں بات تو اس خوشی کی ہے جو انہوں نے ہمیں دی۔ یہ بچوں کی کفالت نہیں کرسکتی تھیں اور ہمیں بچوں کی ضرورت تھی بہرحال یہ ہیں عظیم عورت… آپ نے بتایا نہیں کہ آپ دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ بیگم ناصر نے دوبارہ پوچھا۔
’’ہم دونوں ایک دوسرے کے کزن ہیں۔‘‘ اس نے نامکمل تعارف کروایا۔ ’’مگر یہ بُرے حالات سے نکل آئی ہیں۔‘‘
’’ہاں! یہ تو لگ رہا ہے ان کے حلیے سے اور ان کی صحت سے۔‘‘ بیگم ناصر نے جواب دیا۔ ریحان نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا جسے وہ بڑے سلیقے سے ٹال گئے۔ انہوں نے ایک
بار پھر اس سے اس کی ہونے والی بیگم کے بارے میں دریافت کیا تو ریحان نے ٹال دیا۔ اس کے بعد وہ ان سے اجازت لے کر آگے بڑھ گیا۔ حنا نے بھی ایک تیکھی اور زہریلی نگاہ ان دونوں میاں بیوی پر ڈالی اور اس کے پیچھے چل دی۔
’’امی! میں یہ شادی نہیں کرسکتا۔‘‘ رات کو کھانے کی میز پر اس نے گویا دھماکا کیا تھا۔ شاپنگ سے واپسی کے بعد اب تک اسے خاموش دیکھ کر حنا کو حیرت ہورہی تھی مگر اب یہ حیرت دور ہوگئی تھی۔ اس نے آتے ہی شکیلہ کو سب کچھ بتادیا تھا اور شکیلہ کی سٹی گم ہوگئی تھی پھر انہوںنے اسے تسلی دے کر کہا تھا کہ ’’تم پریشان نہ ہو میں خود سب سنبھال لوں گی۔‘‘
’’مگر کیوں بیٹا! اس سے پہلے تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں تھا؟‘‘ نبیلہ نے حیرت بھرے انداز میں کہا۔ ’’میں نے تو شادی کے کارڈ بھی تقسیم کروادیئے۔‘‘
’’کیوںکہ آپ ایک بدکردار لڑکی کو بہو نہیں بناسکتیں۔ مشعل کو تو آپ پہلے ہی رد کرچکی تھیں تو پھر آپ حنا جیسی دو بچوں کی کنواری ماں کو کیسے اپنی بہو بناسکتی ہیں۔‘‘
’’بیٹا! یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘ حنا ایسی لڑکی نہیں ہے۔ ‘‘ نبیلہ نے ان دونوں کو کھانا چھوڑ کر اندر جاتے دیکھا تو رو دینے والے لہجے میں ریحان سے کہا۔ افتخار بھی کھانا چھوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن رہے تھے۔
’’امی! آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ حنا کس قسم کی اور کیسی لڑکی ہے۔‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے اندازمیں اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔ افتخار اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چلے گئے پھر اس نے نبیلہ کو اٹھ کر شکیلہ کے کمرے کی جانب جاتے دیکھا۔ صرف ریحان تھا جو میز پر بیٹھا بڑے سکون سے کھانا کھارہا تھا۔ بہت عرصے بعد اسے بھوک محسوس ہورہی تھی اور وہ ڈٹ کر کھانا چاہتا تھا۔ وہ دونوں اسی رات ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور اس وقت نبیلہ بیگم اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے انہیں گالیاں اور کوسنے دے رہے تھیں جب کہ وہ بیٹھا مسکرارہا تھا پھر اس نے کہا۔
’’امی! میں نے شادی کے لیے ہاں صرف اور صرف اس وجہ سے کی تھی کہ میرے انکار پر آپ نے اس کی تصویریں پندرہ لڑکوں کے ساتھ بنوالی تھیں اور اگر میں اس کے بعد بھی انکار کرتا تو آپ اس کی تصویریں اس سو ایک نئے چہروں کے ساتھ بنوالیتیں کیونکہ آپ کو پیسوں کی کمی تھی نہ ہی کسی کی عزت کی پروا… لیکن مجھے اس کی پروا تھی‘ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے انکار کی سزا اسے ملے۔ صرف اس کی عزت کی خاطر میںنے حنا سے شادی کے لیے ہاں کی تھی‘ اس لیے نہیں کہ وہ بدکردار تھی‘ وہ میرے لیے کل بھی ایک مقدس دیوی تھی اور آج بھی اتنی ہی پاکیزہ ہے۔‘‘
…٭٭٭…
ذوالفقار نماز پڑھنے کے لیے مسجد گئے ہوئے تھے۔ ماہ رخ اورعلی عون ثمینہ کو لے کر اوپر ٹیرس پر عید کا چاند دیکھنے گئے تھے۔ ماہ رخ تو ثمینہ کی طرح مشعل کو بھی زبردستی اوپرلے جانے کے درپے تھی لیکن اس نے منع کردیا تھا اور باہر لان میں آگئی تھی۔ لان میں لگی ساری لائٹس آن تھیں‘ اس نے ایک سرد آہ کے ساتھ قریبی گھر کی طرف دیکھا جہاں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے عمارت پر سے نظریں ہٹالیں اور سر گھٹنوں پر ٹکالیا۔ کاش وہ مجھ سے تعلق ختم نہ کرتا۔ کاش وہ اس سال بھی میری سالگرہ پر سرخ گلاب بھیج دیتا۔ کاش وہ مجھ سے ملنے آجاتا‘ اسے بھی میری اتنی ہی یاد آتی جتنی مجھے۔ کاش وہ اس چاند پر یہاں ہوتا۔ اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی زندگی ایک مسلسل اذیت بن کر رہ جائے گی۔ وہ گھٹنوں پر سرگرائے بے آواز رو رہی تھی۔
دل کے تاروں کو ذرا آکے ہلادے سجنا!
پیار کاگیت کوئی آکے سنادے سجنا!
شوق دیدار کا آنکھوں میں اُتر آیاہے
اپنی صورت مری آنکھوں کو دکھادے سجنا!
ایک شعلہ سا لپکتا ہے مرے دل میں مگر
عشق کی آگ کو کچھ اور ہَوا دے سجنا!
زخم رستے ہوئے فریاد یہی کرتے ہیں
درد بڑھ جائے نہ‘ زخموں کی دوا دے سجنا!

واسطہ گزرے ہوئے کل کا تجھے دیتا ہوں
آج کی ر ات مرے گھر کو سجادے سجنا!
تشنگی کہتی ہے اب پیاس بجھادے میری
لذتِ وصل سے دیوانہ بنادے سجنا!

چاند رات مبارک ہو… اس نے مانوس سی آواز پر سرعت سے گردن اٹھا کر دیکھا۔ وہ ہاتھ میں سفید پھول اٹھائے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے اس ڈر کی وجہ سے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا کہ کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے لیکن وہ خواب نہیں تھا…! وہ اس سے ہم کلام تھا۔
’’تمہیں پورا حق ہے اس پھول کو نہ لینے کا‘ مجھ سے ناراض ہونے کا!‘‘ وہ اٹھ کر اس کے مقابل کھڑی ہوگئی‘ اس کے آنسوئوں میں مزید روانی آگئی تھی۔ ’’مجھے تمہیں بتائے بغیر نہیں جانا چاہیے تھا‘ مجھے تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دینے چاہیے تھے۔‘‘ اب وہ دوسرا ہاتھ اٹھا کر اس کے آنسو صاف کررہا تھا۔
’’تم نے اس بار میری سالگرہ پر پھول کیوں نہیں بھیجا؟‘‘ مشعل نے اس کے ہاتھ سے سفید پھول پکڑ لیا۔
’’مجھے پھول لے کر خود جو آنا تھا۔‘‘ اس نے اقرار کیا۔ ’’تمہیں چاند رات مبارک ہو۔‘‘ مشعل نے کہا۔
’’آج تو باتوں سے پھول جھڑنے کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہورہی ہے۔‘‘ اور وہ دونوں کھلکھلا اٹھے تبھی اوپر گیلری سے ماہ رخ نے نیچے جھانکا تو حیران رہ گئی۔
’’وہ دیکھو مارہ رخ! چاند نظر آگیا۔‘‘ علی عون خوشی سے چلّایا تھا۔
’’آج تو دو دو چاند نظر آرہے ہیں‘ ایک اوپر آسمان پر اور ایک نیچے دھرتی پر…!‘‘ ماہ رخ نے آسمان پر یکم شوال کا چاند دیکھ کر کہا اور دونوں کو ریحان کی آمد کا بتایا پھر وہ تینوں ایک ساتھ ہی نیچے پہنچے تھے۔ ثمینہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں‘ ذوالفقار بھی خوش تھے۔ رات دیر تک سب آپس میں گپ شپ لگاتے رہے‘ گلزار احمد کے ذکر پر سب کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
…٭٭٭…
دستک کی آواز پر اس نے دروازے کی جانب دیکھا‘ جہاں ریحان ہاتھ میں ایک پیکٹ اٹھائے کھڑا تھا۔ ماہ رخ نے آنکھوں کو گول گول گھما کر ان دونوں کی جانب دیکھا اور ساتھ ہی ریحان کو اندر آنے کی دعوت دی۔
’’دیر سویر‘ تمہیں تمہاری منزل مل ہی گئی۔‘‘ ماہ رخ نے مسکرا کر کہا۔
’’یقین کامل ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔‘‘ وہ منمنائی۔
’’اس منزل کے دو مسافر ابھی بھی گم ہیں۔‘‘ ماہ رخ نے کہا۔
’’ان دونوں مسافروں کو بھی آنا تو اپنی منزل پر ہی ہے‘ ایک نہ ایک دن وہ بھی ضرور آئیں گے۔‘‘ اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے مشعل کی بجائے ریحان نے جواب دیا۔ پھر وہ بولا۔ ’’عید تو کل ہے‘ ابھی ایک کپ چائے مل سکتی ہے؟‘‘ ماہ رخ بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
’’کباب سے ہڈی نکالنے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے آپ نے…!‘‘ اور وہ جھینپ سا گیا۔
’’اگر چائے کے ساتھ پکوڑے بھی مل جائیں تو؟‘‘ ماہ رخ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’پھر تو اوربھی اچھی بات ہے۔‘‘ ریحان نے کہا۔
’’میں ہمیشہ اچھا ہی کہتی ہوں۔ ویسے آپ کو مزے کی بات بتائوں؟ اس مرتبہ پورے رمضان المبارک میں پکوڑے مشعل نے ہی بنائے تھے۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ریحان واقعی حیران ہوا تھا پھر وہ اٹھ کر چائے بنانے چلی گئی اور کمرے میں وہ دونوں رہ گئے۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ میرا عید کا جوڑا ہرے رنگ کا ہے؟‘‘ ریحان نے پیکٹ کھول کر ہرے رنگ کی چوڑیاں اسے پہنانا شروع کیں تو وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔
’’دیکھ لو‘ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے‘ بس پتا چل گیا۔‘‘ وہ اسے ساری چوڑیاں پہنا چکا تھا۔ مشعل کی نگاہیں اپنے سفید بازو پر سجی ہرے رنگ کی چوڑیوں پر جمی ہوئی تھیں اور ریحان کی مشعل کے سراپا پر… آنکھیں چار ہونے پر وہ دونوں آسودگی سے مسکرادیئے تھے۔

=============================ختم شد===========================
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: چراغِ جاں از سفینہ یاسمین!!

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم شئیرنگ کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: چراغِ جاں از سفینہ یاسمین!!

Post by اضواء »

بہترین ہے v;g zub;ar ;fl;ow;er;
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”