کیکٹس کا پھول ازعشناء کوثر سردار

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

کیکٹس کا پھول ازعشناء کوثر سردار

Post by میاں محمد اشفاق »

کیکٹس کا پھول ازعشناء کوثر سردار!


ڈائون اسٹریٹ پر چلتے ہوئے اس کا ذہن سوچوں سے بری طرح الجھا ہوا تھا۔ اسے اس وقت اس برستی بارش کی بھی کوئی پروا تھی نا اس ٹھنڈے موسم کی‘ چہرہ کسی بھی جذبات سے ایسے عاری تھا جیسے وہ کوئی ڈمی ہو اور کسی موسم یا بات کا اثر اس پر مطلق نہ ہوتا ہو۔
’’ایلیاہ میر‘ تمہیں عادت ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے کی۔ زندگی ایسے نہیں گزرتی۔‘‘ شام میں ہی اس کے ساتھ بیٹھی نمرہ نے کافی کے سپ لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’میں بزدل نہیں ہوں نمرہ۔ مجھے ایسے مت دیکھو میں تھک کر رکنا بھی نہیں چاہتی۔ میں رک گئی تو زندگی رک جائے گی اور…!‘‘ اس سوچ سے آگے وہ سوچ سکی تھی نہ بول سکتی تھی۔ بس خاموشی سے نمرہ کی سمت دیکھا تھا۔ نمرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’ڈونٹ وری‘ آئی ایم ہیئر‘ اگر تمہیں خود پر بھروسا ہے تو پھر ساری منفی باتوں اور سوچوںکو ذہن سے نکال کر باہر پھینک دو۔ اس عمر میں اتنی ٹینشن لو گی تو آگے جا کر کیا کرو گی؟ چہرے پر رونق رہے گی نہ خوب صورتی۔ تم یوں بھی ’’آئس میڈن‘‘ مشہور ہو۔ کوئی تمہاری طرف مشکل سے ہی متوجہ ہوتا ہے۔ سوچنے کی رفتار یہی رہی تو کوئی بے تاثر نگاہ ڈالنا بھی ترک کردے گا۔ تم چاہتی ہو ایسا کچھ ہو؟‘‘ نمرہ نے مسکراتے ہوئے اسے ڈرایا تھا۔ وہ جانتی تھی نمرہ اسے اس سوچ سے باہر لانا چاہتی تھی تبھی مسکرا دی تھی۔ مگر مسکرانے سے اس کی سوچ ختم نہیں ہوئی تھی نہ وہ فکر گئی تھی۔
’’یہاں آنے کا میرا فیصلہ جیسے کوئی آخری راہ تھی نمرہ۔ مجھے اس سے آگے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دی تھی۔ اب اگر یہ راہ بھی کسی بند گلی پر ختم ہوگئی تو میرا کیا بنے گا؟ میری ساری امیدوں کا پانی میں ملنا تو طے ہے نا؟‘‘ ایلیاہ میر نے کافی کا سپ لیتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنی کنپٹی کو دبایا تھا۔
’’اوہ مائی ڈیئر ایلیاہ میر‘ کاش میں تمہاری ان بے وجہ کی فکروں کی گٹھڑی بنا کر کسی دریا میں پھینک پاتی یا پھر تمہیں ہی اس دریا میں دھکا دے دیتی۔‘‘ نمرہ نے دونوں ہاتھ اس کے گلے کی سمت بڑھاتے ہوئے اسے گھورا تھا۔ ایلیاہ میر مسکرا دی۔
’’اچھی خاصی معقول لگتی ہو جب مسکراتی ہو۔ تمہیں روتی صورت بنائے رہنا کیوں پسند ہے؟‘‘ نمرہ نے بسکٹ کی پلیٹ اس کی سمت بڑھائی تھی جسے اس نے ہاتھ سے پرے کر دیا۔
’’آئی لوسٹ مائی جاب نمرہ‘ تم جانتی ہو یہ کتنا بڑا نقصان ہے۔ میں اسٹوڈنٹ ویزہ پر یہاں ہوں۔ یہ کساد بازاری کا دور ہے۔ جابز ملنا کتنا مشکل ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو۔ میرا ویزہ آل ریڈی ایکسپائرڈ ہوچکا ہے۔ (UK Border Agency) میں ویزا ایکسٹنڈکرنے کی اپیل کیے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ ابھی تک مجھے میری یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ میں (Post Study Work) کے لیے تب تک اپلائی نہیں کرسکتی جب تک کہ یونیورسٹی مجھے وہ سرٹیفکیٹ نہ دے دے۔ میں اپنی اس ایک پارٹ ٹائم جاب سے بھی ہاتھ دھو چکی ہوں اور تم کہہ رہی ہو میں پریشان نہ ہوں۔ اس سچویشن میں اور کیا کروں میں؟ اب تک میں نے وہ‘ وہ کیا جو تم نے مجھے مشورہ دیا۔ اس موٹے پیٹ والے لائر کے منہ میں کتنے پائونڈز جا چکے ہیں اور کتنے وہ مزید کھانے اور ڈکار لیے بنا ہضم کرنے کو تیار ہے۔ اس کی فکر میں نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ میں یہ سب کیسے کر پائوں گی؟ گھر سے ثناء کا فون آرہا ہے۔ ان کو وہاں پیسے چاہئیں۔ کہاں سے بھیجوں میں؟ سب بے کار رہا میرا یہاں آنے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ فضول میں آگئی میں نہ آتی تو اتنی پرابلم میں بھی نہ گھرتی۔ میرے ساتھ تو وہ ہوا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا اور میری شامت آئی تھی جو اس بے کار کے کالج میں ایڈمیشن لیا اور یہ کساد بازاری کا ٹائم بھی ابھی آنا تھا؟ کب نکلوں گی میں ان پرابلمز سے؟ کہاں سے پیسے بھیجوں گی ثناء اور جامی کو؟ کتنی اسٹوپڈ ہوں میں اب PSW ملنے تک کیا کروں گی؟ یو کے والے مجھے اٹھا کر باہر پٹخ دیں گے اور ایسا نہ بھی ہوا تو کس طرح سروائیو کروں گی۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ دماغ پھٹ جائے گا میرا۔‘‘ ایلیاہ میر کے پاس فکروں کے انبار تھے۔ نمرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے بھرپور ہمت دلانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ ایلیاہ میر نفی میں سر ہلانے لگی تھی۔
’’مجھے دبئی کی جاب چھوڑ کر اس طرح یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ تب مجھے لگا تھا یہی بہتری کی راہ ہے مگر اب لگتا ہے میں نے تمام سفر صرف ایک بند گلی کی طرف کیا۔‘‘
’’تم اتنا پریشان مت ہو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی ایلیاہ‘ ایسے نا امید نہیں ہوتے تم کچھ پیسے مجھ سے ادھار لے سکتی ہو۔ اس سے تم خود بھی گزارہ کر سکتی ہو اور جامی اور ثناء کو بھی بھیج سکتی ہو۔ جب جاب مل جائے تو مجھے لوٹا دینا۔‘‘
ایلیاہ نے اس کے کہنے پر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا تھا۔ اس پرائے دیس میں نمرہ اس کا ایک مضبوط سہارا تھی۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتی تو اس کے لیے یہاں آنا‘ سروائیو کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔
’’تم خود کچھ پریشان لگ رہی ہو؟‘‘ ایلیاہ نے اپنی مشکل سے سوچ بچا کر اس کی سمت دیکھا تھا۔ نمرہ نے گہری سانس لی تھی۔
’’نہیں‘ سب ٹھیک ہے۔‘‘ وہ مطمئن نظر آنے کو مسکرائی تھی اور کافی کے سپ لینے لگی تھی۔
’’تم تو گھر جانے والی تھیں نا‘ کیا ہوا؟ ایسے منہ کیوں اترا ہوا ہے؟‘‘ ایلیاہ نے پوچھا تھا۔
’’اب نہیں جا رہی؟‘‘ نمرہ کا انداز مطمئن تھا۔
’’کیوں؟‘‘ ایلیاہ حیران ہوئی تھی۔
’’وہاں کسی کو میری ضرورت نہیں ہے‘‘ وہ اطمینان سے مسکرائی تھی اور اس کی سمت سے نظریں چرا گئی تھی۔ ایلیاہ کو ان آنکھوں میں کچھ دکھائی دیا تھا تبھی ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔
’’کیا ہوا ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ تم تو چھ سال بعد گھر جانے والی تھیں نا؟ اتنی ڈھیر ساری شاپنگ کی سب کے لیے گفٹس لیے سب کو سرپرائز دینے کی ٹھانی اور اب…؟‘‘
’’ہاں میں سرپرائز دینا چاہتی تھی چھ سال بعد وہاں جا کر مگر ابھی وہاں بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنا باقی ہے۔ ممی نے بتایا ہے عروسہ کی شادی کے لیے بڑی رقم چاہیے اور مجھے اس کے لیے یہیں رہنا پڑے گا۔‘‘
’’مگر تم تو کچھ ہی مہینے پہلے اپنے بھائی کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروا چکی ہو اور اس کے سمسٹرز کی فیس بھی بھر چکی ہو۔ پچھلے مہینے تم نے گھر بنانے کے لیے بھاری رقم بھیجی تھی اس کا کیا؟‘‘ ایلیاہ حیران تھی۔
’’میں نہیں جانتی مگر وہ سب اس وقت کی ضرورت تھی۔ اب نئی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں اور اس کے لیے میرا پاکستان جانے کا ٹرپ منسوخ کرنا ضروری ہے۔ ممی نے کل کہا پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور میں انہیں یہ بتا نہیں سکی کہ میں آپ سب سے ملنے کو کتنی بے قرار تھی اور کتنی ڈھیر ساری شاپنگ بھی کر چکی تھی۔‘‘ وہ سر جھکائے کہہ رہی تھی۔ ایلیاہ کو افسوس ہو رہا تھا۔
’’اوہ‘ یہ ٹھیک نہیں ہوا‘ نا تم اگر آنٹی کو بتاتیں تو…!‘‘
’’اس سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ نمرہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
’’لڑکیوں کے کاندھوں پر ساری کی ساری زمہ داریاں ڈال دینے سے ان کے خواب مر جاتے ہیں نمرہ اور وہ اس کی شکایت بھی کسی سے نہیں کرسکتیں۔ دیکھو تم کتنی اسٹرگل کر رہی ہو۔ پچھلے چھ سال سے یہاں ہو۔ جو کماتی ہو سارا کا سارا گھر بھجوادیتی ہو اور اس پر بھی کسی کو تمہاری کوئی پروا نہیں وہ پلٹ کر یہ تک نہیں پوچھتے کہ ٹھیک بھی ہو کہ نہیں۔ گھر واپس آنا چاہتی بھی ہو کہ نہیں؟ ہمیں مس بھی کرتی ہو کہ نہیں بات ہوتی ہے تو صرف پیسے بھجوانے کی‘ ضرورتیں گنوانے کی‘ میری صورت حال مشکل ہے۔ مگر تم میری صورت حال سے کہیں زیادہ مشکل میں ہو۔ میری طرف سارا کا سارا بوجھ اور ذمہ داری اس لیے کہ وہاں کوئی اور ایسا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ مگر تم… سب رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی سب جھیل رہی ہو۔‘‘ ایلیاہ افسوس سے بولی تھی۔
’’مجھے اس کی پروا نہیں ہے ایلیاہ‘ تم زیادہ مت سوچو میں خوش ہوں۔ میں ان کی کوئی مدد کر رہی ہوں جاذب کی پڑھائی مکمل ہوجائے گی تو میری ذمہ داریاں بھی پوری ہوجائیں گی۔ اینی وے میں اپنے آفس میں تمہاری جاب کے لیے بات کروں گی تم فکر مت کرو۔‘‘ نمرہ مشکل صورت حال سے نمٹنے کا ہنر جانتی تھی اور تھکی ہوئی تو وہ بھی نہیں تھی۔ مگر اسے فی الحال سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس سچویشن سے کس طرح باہر نکلا جائے۔
…٭٭٭…
وہ گھر کے قریب تھی۔ بارش کے باعث سڑک پر کچھ پھسلن تھی۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں تھی۔ تبھی ایک دم سے پائوں پھسلا اور وہ اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں گھنٹوں کے بل زمین پر آرہی اسی وقت اس کے سامنے سے آتی ہوئی کار کے ٹائر چرچرائے تھے۔ وہ اپنی آنکھیں خوف سے بند کر گئی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ اس نے آنکھوں پر کلائی رکھ لی تھی۔ تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر کوئی باہر نکلا اور اس کے قریب آن رکا۔ ایلیاہ نے اسی طرح گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر دیکھا تھا۔ کوئی اسے خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کو مرنے کا بہت شوق ہے لیکن اس کے لیے میری ہی گاڑی کا انتخاب کیوں؟ آپ کو کوئی اور گاڑی نہیں ملی؟‘‘ کسی نے اسے لتاڑا تو وہ چندھائی ہوئی آنکھوں کو دیکھنے کے قابل بنانے کی سعی کرتے ہوئے اپنی دونوں آنکھوں سے اس بندے کو گھورنے لگی تھی۔ لمحۂ توقف سے اس کی آنکھیں اس قابل ہوئی تھیں کہ وہ سامنے کھڑے لمبے چوڑے بندے کودیکھ پائی تھی۔
’’اب اس طرح کیا دیکھ رہی ہیں؟ گاڑی کے سامنے سے ہٹنے کا موڈ ہے یا نہیں؟‘‘ اس شخص کا موڈ خراب تھا یا اسے دیکھ کر خراب ہوگیا تھا؟ وہ اخذ نہیں کر پائی تھی۔ بس خاموشی سے اس شخص کو دیکھا تھا اور اس کے معصوم انداز میں اس کی سمت دیکھنے سے اثر یہ ہوا تھا کہ اس شخص نے اپنا ہاتھ اس کی سمت مدد کے لیے بڑھا دیا تھا۔ جسے ایلیاہ میر نے حیرت سے دیکھا تھا۔
’’اب ایسے کیا دیکھ رہی ہیں‘ ہاتھ دیجیے۔‘‘ وہ مدد کی بھرپور پیشکش کرتا ہوا بولا۔ ایلیاہ نے تب بھی اپنا ہاتھ اس کی سمت نہیں بڑھایا تھا۔ اس بندے کو شاید ایلیاہ پر ترس آگیا تھا تبھی لمحہ بھر کو اسے خاموشی سے دیکھنے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل جھک کر اس کے قریب بیٹھ کر پوچھا۔
’’آپ ٹھیک تو ہیں کہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ اس کے توجہ سے پوچھنے کا اثر تھا کہ وہ ہی زددرنج ہو رہی تھی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔
’’اوہ آپ کا پروگرام تو لمبا لگ رہا ہے۔ ٹھیک ہے آپ یہاں بیٹھ کر آنسو بہائیے میں جاتا ہوں میں صرف یہ تسلی کرنا چاہتا تھا کہ آپ ٹھیک تو ہیں۔‘‘ وہ شخص اتنا بے حس ہوسکتا ہے ایلیاہ کو سوچ کر ہی غصہ آیا تھا اور اپنے انتہا سے زیادہ حساس ہونے پر بھی جی بھر کے ملال ہوا تھا۔ اسے اپنے یہ آنسو اس طرح کسی کے سامنے بہانا نہیں چاہیے تھے۔ وہ شاید یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی فضول سی لڑکی ہے اور…!
یہی سوچ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی اورگھٹنے کی چوٹ کے باعث کراہ کر رہ گئی تھی۔ اس اجنبی نے جو اپنی گاڑی کی طرف پلٹ رہا تھا مڑ کر اسے دیکھا تھا اور پھر جانے کیوں اس کے قریب آیا اور مدد کو ہاتھ دوبارہ اس کی سمت بڑھا دیا تھا۔
ایلیاہ نے اس کا پھیلا ہوا ہاتھ دیکھا تھا اور پھر جانے کیا سوچ کر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’آپ کو چوٹ زیادہ لگی ہے تو اسپتال لے چلوں؟‘‘ اس بندے نے پیشکش کی تو ایلیاہ نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’اچھا کہاں رہتی ہیں آپ‘ گھر ڈراپ کردوں؟‘‘ وہ مہربان بننے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر ایک سمت کھڑی ہوگئی تھی۔ اس شخص نے اسے بغور دیکھا تھا۔ شاید وہ بھی لیا دیا انداز رکھنے والا تھا یا پھر وہ جلدی میں تھا اور اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ ایلیاہ میر نے بھی کوئی خاص نوٹس نہیں لیا اور زخمی گھٹنے کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی تھی اس کا ارادہ لینڈ لیڈی کا سامنا کرنے کا قطعاً نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا رینٹ مانگنا تھا اور وہ فی الحال اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ تبھی نظر بچا کر چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ بیگ ایک طرف رکھ کر جب وہ گھٹنے کا زخم دیکھ رہی تھی تبھی فون بجا تھا۔ ثناء کا نام دیکھ کر اس نے کال پک کر نے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی تھی۔
’’آپا آپ ٹھیک تو ہیں؟ میں کافی دیر سے آپ کا نمبر ٹرائی کر رہی تھی۔ آپ کال پک کیوں نہیں کر رہی تھیں؟‘‘ دوسری طرف ثناء نے فکر سے پوچھا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ گھٹنے پر اینٹی سپٹک لگاتے ہوئے سسکی تھی۔
’’کیا ہوا‘ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ثناء کو فکر ہوئی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوا‘ سب ٹھیک ہے تم کیسی ہو؟ جامی کہاں ہے‘ کئی دنوں سے اس نے فون نہیں کیا؟‘‘
’’وہ اپنے سمسٹر میں بزی تھا اور اس کے بعد اسے اسائمنٹ جمع کروانا تھے۔ اس کے نئے سمسٹر کی فیس بھرنا تھی۔ آپ نے کہا تھا پیسے بھجوا رہی ہیں ابھی تک اکائونٹ میں پیسے آئے نہیں۔‘‘
’’وہ ہاں میں تمہیں ویسٹرن یونین سے پیسے بھجوانے والی تھی مگر…!‘‘
’’مگر کیا آپا؟‘‘
’’میں رقم جلد بجھوائوں گی ثناء تم فکر مت کرو۔ تمنا کی اسٹڈی کیسی چل رہی ہے؟ تمہیں فون کرتی ہے یا نہیں؟‘‘
’’کرتی ہے مگر اس کی اسٹڈی ٹف ہے سو زیادہ ٹائم نہیں ملتا اور دو چار سال میں ڈاکٹر بن جائے گی تو آپ کو کافی آرام مل جائے گا۔ ابھی تو ساری ذمے داریوں کا بوجھ آپ کے کاندھوں پر ہے اور…!‘‘
’’ایسا نہیں ہے ثنائ‘ میں ایسا نہیں سمجھتی یہ بوجھ نہیں ہے میری ذمہ داری ہو تم لوگ میں تم سب کا حصہ ہوں‘ تم سب کے علاوہ میرا کون ہے؟ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سو ایک دوسرے کی طاقت بھی ہیں۔‘‘ ایلیاہ میر نے کہتے ہوئے گھٹنے کے زخم کو پٹی سے چھپایا تھا۔
’’میں دو چار دنوں میں پیسے بھجوا دوں گی تم جا کر گرو سری کر آنا اور ہاں جامی سے کہنا بائیک زیادہ تیز مت چلائے ورنہ میں آئوں گی تو اس کے خوب کان کھینچوں گی۔‘‘
’’یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ مل گیا آپ کو؟ میں نے نیوز پیپر میں پڑھا تھا آج کل یو کے میں اسٹوڈنٹس کے لیے انہوں نے اپنی پالیسیز کافی سخت کر دی ہیں۔ اب آپ اسٹڈی کے بعد وہاں رک نہیں سکتیں۔ میں نے پڑھا تھا کہ اسٹؑوڈنٹس صرف چائے بسکٹ پر گزارا کر رہے ہیں۔ مجھے آپ کی بہت فکر ہو رہی تھی۔ آپ کو دبئی کی جاب کو چھوڑ کر یو کے جانے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یو کے اسٹوڈنٹ ویزا پر جانا بہت بڑا رسک تھا۔ اگر کچھ غلط ہوتا تو…!‘‘ ثناء فکر مندی سے بولی۔
’’کچھ غلط نہیں ہوگا ثنائ۔ میرے پاس دو دو ایم بی اے کی ڈگریاں ہیں اب… اگر چہ یہاں سے کیے گئے ایم بی اے کی ڈگری ابھی نہیں ملی مگر جلد یا بدیر مل ہی جائے گی پھر میں پی ایس ڈبلیو کے لیے اپلائی کروں گی اور دو سال کے لیے لیگلی یہاں رہ سکوں گی اور کام بھی کر سکوں گی۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔ تمہیں اس کے لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتی ہو ثنائ۔ میرے ہوتے ہوئے تم لوگوں کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے جو بھی کیا جو بھی فیصلہ لیا تم لوگوں کو ذہن میں رکھ کر لیا۔ دو سال بہت ہوتے ہیں۔ دو سال یہاں ٹک جانے کا مطلب ہے تمنا کے میڈیکل کی تعلیم مکمل ہوجانا۔ تمہارا بی بی اے مکمل ہوجانا اور جامی کا ہائی اسکول پاس کرلینا۔ اس کے بعد میں کہیں بھی جا کر کوئی بھی اچھی جاب کرسکتی ہوں۔ میں یہاں مستقل قیام کا سوچ کر نہیں آئی صرف تم لوگوں کا اچھا فیوچر میری نظر میں ہے اور دو سال اس کے لیے کافی ہیں۔‘‘ ایلیاہ میر اسے سہولت سے سمجھاتے ہوئے بولی۔
’’اچھا سنو ثناء میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے تھوڑی پیٹ پوجا کرنے دو۔‘‘
’’آپ کھانا کھانے کے بعد SKYPE پر آئیں گی نا؟ ہم نے کئی دنوں سے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ثناء میں بات کرتی ہوں۔‘‘ ایلیاہ میر نے کہہ کر سلسلہ منقطع کیا تھا اور اٹھ کر واش روم میں گھس گئی۔
…٭٭٭…
صبح اٹھ کر اس نے ای میلز چیک کیں مگر کسی اپلائی کی گئی جاب کا جواب نہ پا کر اس کا چہرہ اتر گیا تھا۔ اس نے بریک فاسٹ کیے بنا کوٹ پہنا تھا اور اٹھ کر باہر نکل آئی تھی۔ اسٹریٹ پر ایک طرف چلتے ہوئے وہ سیل فون پر نمرہ کا نمبر ملانے لگی تھی۔ وہ شاید اس وقت سو رہی تھی تبھی کال پک نہیں کی تھی۔ وہ بینک آئی اور اپنے اکائونٹ سے کچھ رقم نکلوا کر ثناء کو بجھوائی اور ایک ریسٹورنٹ میں آن بیٹھی تھی۔ کافی کے سپ لیتے ہوئے ایک گہری سانس خارج کی تھی اور سامنے نگاہ اٹھا کر دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوںمیں ایک چمک سی کوندی تھی۔ جیسے ایک امید کی کرن دکھائی دی تھی اور دوسرے ہی پل اٹھ کر وہ اس طرف چل پڑی تھی۔ نمرہ نے کچھ دن پہلے اسے ایک کارڈ تھمایا تھا اس کے کسی جاننے والے کی کمپنی تھی شاید یہاں کچھ بات بن سکتی تھی۔
’’جی‘ کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘ ریسیپشسنٹ نے شستہ انگریزی میں پوچھا تھا۔
’’وہ‘ میں‘ مجھے ریان حق سے ملنا ہے۔‘‘ اس نے مٹھی میں دبا کارڈ دیکھ کر روانی سے کہا تھا۔ ریسیپشنسٹ نے اسے بغور دیکھا تھا۔
’’آپ کی کوئی اپائمنٹ ہے۔‘‘
’’نہیں‘ مگر…!‘‘
’’آپ ان سے نہیں مل سکتیں۔‘‘ اس کے دو ٹوک جواب نے اس کی آخری امید بھی توڑ دی تھی۔ وہ اس سے زبردستی کیسے ملتی؟ اس نے ریسیپشنسٹ کو دیکھا کچھ سوچا اور پھر پوچھا۔
’’وہ آپ کے بائیں جانب پیچھے دیوار پر کیا سائن ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ کلف لگی گردن والی اس خاتون نے اپنے سپاٹ چہرے کو کچھ موڑا اور یہی وقت تھا جب وہ ایک ہی جست میں اندر کی جانب بڑھ گئی تھی ریسیپشنسٹ اس کے پیچھے چیخی تھی۔
’’ہے‘ لڑکی… کوئی روکو اسے۔‘‘ وہ پورے زور سے حلق پھاڑ کر چلائی مگر ایلیاہ میر نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا اور سیدھی چلتی ہوئی سی ای او کے روم کے سامنے آن رکی تھی۔ بنا کچھ سوچے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تھا اور بنا اجازت لیے اندر داخل ہوگئی تھی۔
’’ایکسکیوزمی‘ آئی ایم ایلیاہ میر۔‘‘ وہ پورے جوش سے بولی تھی۔ تبھی چیئر پر بیٹھے شخص نے سر اٹھا کر اس کی سمت دیکھا اور وہ اپنی جگہ بت بن گئی تھی۔ سامنے چیئر پر وہی شخص براجمان تھا جس کی گاڑی کے سامنے وہ اس رات آئی تھی۔ وہ شخص اسے دیکھ کر چونکا تھا۔
’’جی‘ آپ یہاں کیسے؟‘‘ وہ بنا کسی اپائنمنٹ لیے اسے اپنے روم میں گھس جانے پر حیران ہوا تھا اور اسے خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایلیاہ میر نے ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب سیکیورٹی نے اسے آن دبوچا تھا۔
’’یہ کیا بد تمیزی ہے یہ کس قوم کا رویہ اپنا رہے ہیں میرے ساتھ؟‘‘ وہ چیخی تھی۔ مگر ہٹے کٹے سیکیورٹی اہلکاروں نے اسے چھوڑا نہیں تھا۔ ایلیاہ میر نے سامنے چیئر پر بیٹھے شخص کو گھورا تھا۔
’’ایسے خاموش بیٹھے کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟ آپ کی کنٹری سے ہوں کچھ تو لحاظ کریں یہاں بم پھوڑنے نہیں آئی۔ آپ سے ملنے آئی ہوں۔ کم از کم اس طرح کا سلوک نہ کریں۔‘‘ وہ غصے سے اردو میں گویا ہوئی تھی۔ ریان حق نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا تھا اور پھر سیکیورٹی اہلکاروں کو اسے چھوڑنے کا اشارہ دیا تھا۔
’’آپ جائیں یہاں سے۔‘‘ اس کے حکم پر دونوں اہلکار باہر نکل گئے تھے۔ ایلیاہ میر نے گہری سانس لیتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔
’’شکر ہے بات آپ کی سمجھ میں تو آئی۔ چلو پرائے دیس میں ایک دیسی کی ہیلپ تو نصیب ہوئی۔‘‘ اس نے طنز کیا۔’’آئی ایم برٹش۔‘‘ وہ جتاتا ہوا بولا تھا۔ اس مختصر جملے میں کوئی نفی تھی نا کوئی مثبت اعلان۔ مگر ایلیاہ میر نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا ضرور تھا۔ مگر وہ مزید کچھ کہہ کر بات بگاڑنا نہیں چاہتی تھی۔ تبھی سہولت سے بولی تھی۔
’’مجھے نمرہ نے آپ کا کارڈ دیا تھا۔ آپ ان کی کسی کزن کے ریلیٹیو ہیں۔‘‘ اس نے مدعا بیان کیا تھا۔ اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ تبھی وہ گہری سانس خارج کرتا ہوا بولا تھا۔
’’مس‘ آپ کوئی بھی ہیں مگر اس وقت انگلینڈ میں کساد بازاری چل رہی ہے۔ ہم اپنا اسٹاف کم کر رہے ہیں۔ بہت سے قابل لوگ اپنی جابز سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہمیں اپنی کمپنی کو بچانا ہے۔ اس کی ساکھ کو بچانا ہے اور اس کے لیے ہم بہت سا غیر ضروری اسٹاف بھرتی نہیں کرسکتے۔ ہم مقامی لوگوں کو جابز سے برخاست کر رہے ہیں اور آپ تو یہاں کی ہیں بھی نہیں۔ یوں بھی ہم صرف لوکل لوگوں کو ہی جابز دینے پر پابند ہیں۔ میں کمپنی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتا۔‘‘ اس کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ اس شخص کا چہرہ اس رات سے زیادہ سپاٹ تھا۔ وہ اسے گھورنے لگی تھی پھر سلگ کر بولی۔
’’روبوٹ ہیں آپ‘ ایک انسان کی مجبوری دکھائی نہیں دیتی آپ کو؟ صرف لوکل لوگ ہی انسان ہیں ہم فارنر نہیں۔ باصلاحیت ہوں میں اگر آپ مجھے جاب دیں تو میں پروف کر سکتی ہوں میں غلط انتخاب نہیں ہوں۔ آپ یہ فائل دیکھیں۔ میں نے ایک ایم بی اے پاکستان سے کیا ہے ایک یہاں کی مقامی یونیورسٹی سے کیا ہے۔ میں نے اپنے دو سالہ قیام کے دوران اچھی کمپنیز کے ساتھ کام کیا ہے۔ اگرچہ پارٹ ٹائم ہی مگر مجھے یہاں کی ٹاپ کمپنیز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے آپ اس طرح مجھے نا نہیں کرسکتے۔‘‘ اس نے فائل آگے رکھی تھی۔ ریان حق نے بنا دیکھے فائل بند کردی تھی۔
’’وہاٹ ایور‘ بات آپ کی سمجھ میں آجانی چاہیے۔ ہمیں اپنی ویل رپیٹیٹیو کمپنیز کی فہرست میں آنا ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی بقا کو بنائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت کسی بھی غیر مقامی کو جاب دینا رسک ہوسکتا ہے۔ اس کمپنی پر ہم فالتو کا بوجھ نہیں لاد سکتے۔ آئی ایم سوری۔‘‘ وہ معذرت کر رہا تھا۔ عجیب بے حس شخص تھا۔
’’کس قسم کے انسان ہیں آپ بات سمجھ نہیں آئی آپ کے جو مقامی ہیں صرف وہی انسان ہیں اور ہم کیا کریں۔‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ آپ اپنی کنٹری میں واپس جا سکتی ہیں اگر آپ کے لیے یہاں صورت حال مشکل ہوگئی ہے تو گو بیک ہوم…!‘‘ وہ سفاک لہجے میں بولا۔
’’میری کنٹری؟ اور وہ آپ کی بھی تو کنٹری ہے؟ دیار غیر میں اپنے دیس کے کسی بندے کی مدد کردیں گے تو کیا بگڑ جائے گا آپ کا؟‘‘
’’مس…!‘‘
’’ایلیاہ میر…! ایلیاہ میر نام ہے میرا۔ بے نام نہیں ہوں میرے نام سے بلا سکتے ہیں آپ مجھے۔ غیر مقامی لوگوں کو ان کے نام سے بلانا یقیناً کمپنی پالیسی کا حصہ نہیں ہوگا اور آپ کے مشورے کے


لیے بھی شکریہ۔ میں ڈھونڈ لوں گی راستا‘ گھر واپس چلی جائوں گی۔ یہاں میں اپنی مرضی اور شوق سے نہیں آئی ہوں۔ میری ڈگری پھنسی ہوئی ہے۔ آپ کے اس انگلینڈ کے دو نمبر کے گھٹیا لوگوں نے پیسا بنانے کے لیے جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو ہائر کرنے کے لیے گھٹیا کالج اور کیمپس بنائے ہیں نا۔ وہ ٹائم پر سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کرتے۔ کمانا آتا ہے آپ لوگوں کو خوب کما رہے ہیں دونوں ہاتھوںسے۔ پیٹ بھر بھر کر کھا رہے ہیں مگر ہم اسٹوڈنٹس بسکٹ اور کافی کو بھی ترس رہے ہیں اور قصور کس کا ہے؟ آپ لالچی لوگوں کا جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ ہائر کرنے کے لیے بہت تگ و دو کرتے ہیں۔ انہیں سہانے خواب دکھاتے ہیں اور یہاں انہیں اپنی گھٹیا پالیسیز کی نذر کر دیتے ہیں۔ لالچ کی بھی حد ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو ہائر کرتے ہوئے کیوں بوجھ نہیں پڑتا آپ کی اکانومی پر؟ تب کیوں کساد بازاری دکھائی نہیں دیتی؟ تب کیوں صرف فائدہ دکھائی دیتا ہے؟‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے اسے اکتائے ہوئے انداز میں دیکھا تھا۔ پھر گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا تھا۔
’’لسن مس ایلیا میر۔ بات اگر لالچ کی ہے تو آپ بھی صرف لالچ کے لیے ہی اس کنٹری میں آئی ہیں۔ ایک اچھے مستقبل کا لالچ آپ کو کھینچ کر لایا ہے یہاں۔ یہ بات عام ہے کہ انگلینڈ کی اس وقت کیا حالت ہے۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آنکھیں بند کیے نہیں بیٹھے کہ انہیں حقائق کی خبر نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ یہاں پارٹ ٹائم جاب کر کے بھی اتنا کما سکتی ہیں جتنا اپنی کنٹری میں آٹھ دس مہینوں میں کمائیں گی۔ یہ آپ کا لالچ ہی تو ہے جو سختیاں جھیلنے کے لیے آپ کو یہاں ٹھہرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لالچ کس میں نہیں ہے؟ سبھی لالچی ہیں اینی وے میرا وقت بہت قیمتی ہے ہم مزید بات نہیں کرسکتے۔ اب آپ جا سکتی ہیں۔‘‘ سپاٹ لہجے میں کہہ کر ریان حق نے اس کی فائل اس کے سامنے رکھی تھی اور اٹھ کر کھڑا ہوا تھا۔ تب ساکت بت بنی ایلیاہ میر کو بھی اٹھنا پڑا تھا۔ وہ خاموشی سے باہر نکل آئی۔
لڑ کر‘ جھگڑا کر کے یا ہم وطنی کا واسطہ دے کر وہ حاصل نہیں کرسکتے جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ اس کے پائوں میلوں چلتے رہے تھے اور جب اپنے کمرے میں آکر اس نے اپنے وجود کو بستر پر ڈالا تو اسے کوئی احساس نہیں تھا سارا وجود جیسے بے حس تھا۔ تھکن کا کوئی احساس بھی نہیں تھا۔
وہ ایک برے وقت سے گزر رہی تھی۔ مگر وہ اپنے پیاروں کو ان حالات میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ اس کے کاندھوں پر ذمہ داری تھی ان کی۔ وہ خود چاہے کتنا بھی سفر کرتی مگر وہ انہیں سفر کرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر وہ کیا کرسکتی تھی؟ فی الحال کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ذہن پوری طرح سے مائوف تھا۔ اس پاکستانی‘ دیسی دکھائی دینے والے ریان حق نے بہت اچھی طرح اس کی عقل ٹھکانے لگائی تھی۔
ہاں یہ اس کا لالچ ہی تو تھا۔
لالچی ہی تو ہوگئی تھی وہ جو اپنی اچھی خاصی دبئی کی جاب کو لات مار کر یہاں چلی آئی۔ مگر کس کے لیے؟ یہ اس کی اپنی خود کی غرض نہیں تھی۔ یہ اس کی فیملی کی بہتر سپورٹ کے لیے تھا۔ وہ اتنا کمانا چاہتی تھی کہ گھر چل سکے۔ ثنائ‘ جامی اور تمنا کے اخراجات اٹھا سکے۔ انہیں پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنا سکے۔ بس یہی تو چاہتی تھی وہ یہی تو تھا اس کا لالچ تو کیا غلط تھا اس میں۔
گرم گرم آنسو آنکھوں کے کناروں سے نکل کر بالوں میں جذب ہونے لگے تھے۔ وہ تنہا کھڑی تھی۔
بہت تنہا۔ کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتی تھی۔
اس کا دل چاہا تھا ریان حق کا منہ نوچ لے۔ مگر اس کا بھی کیا قصور تھا۔ وہ مقامی روبوٹ تھا جو صرف فائدے کے لیے پروگرام کیا گیا تھا۔ وہ فائدے سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتا تھا۔ وہ اسے یا اس جیسے کسی اور کو الزام نہیں دے سکتی تھی۔
وہ یہاں ٹھہرنا چاہتی تھی یہ اس کی مجبوری تھی۔ مزید دو سال یہاں رہ کر کمانا چاہتی تھی کیونکہ یہی اس کے حق میں بہتر تھا۔ کوئی اور اس کی مجبوری کیوں سمجھتا۔ وہ کیوں کسی سے فیور چاہ رہی تھی۔ پچھلے کئی دنوں سے اس نے پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔ اس کی روم میٹ کچھ خرانٹ تھی مگر اس کی کیفیت دیکھ کر اس نے اپنا فوڈ اس کے ساتھ شیئر کرلیا تھا۔ وہ رشین لڑکی تھی وہ بھی اسٹوڈنٹ تھی مگر ابھی اس کی اسٹڈی اور ویزا دونوں ختم نہیں ہوئے تھے۔ سو اسے ان حالات کا سامنا نہیں تھا جن کا ایلیاہ میر کو تھا۔ وہ بہت زیادہ مدد گار نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ خود بھی پارٹ ٹائم جاب کرتی تھی اور اپنے بوائے فرینڈ کا خرچہ بھی اٹھا رہی تھی جو کہ مقامی تھا اور آج کل بے روزگار تھا۔ نہ ہی ایلیاہ اس سے روز مدد مانگ سکتی تھی۔ اس کی خودداری اسے اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس نے لیپ ٹاپ کھول کر کئی سائٹس پر اپنی سی وی چھوڑ دی تھی۔ شاید اس سے کوئی راہ مل سکتی۔ اس نے اپنے لائر سے بات کی تھی۔
’’مجھے جاب چاہیے۔ اس کے لیے مجھے وہ پیپرز ایوی ڈینس کے طور پر چاہئیے جو میں نے اپنے (Post Study Work) کے لیے (Uk Border Agency) میں جمع کروائے ہیں۔ کیا اس کی فائل مجھے آپ آج بجھوا سکتے ہیں؟ یا میں آپ کے آفس آجائوں؟‘‘
میں آج کچھ بزی ہوں مگر اس کے لیے مجھے UKBA جانا ہوگا۔ تبھی کچھ ہوسکتا ہے۔ آپ بڑی کمپنیز کے بجائے چھوٹی جابز پر دھیان دیں۔ کسی ریسٹورنٹ یا پھر اسٹور یا شاپ کوئی بھی جاب بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی مس میر۔ میں نے یہاں MBA کیے لوگوں کو مچھلی پیک کرتے تک دیکھا ہے۔ جو کہ انتہائی گھٹیا کام سمجھا جاتا ہے مگر اس کی ایک دن کی آمدنی بھی خاصی معقول ہے۔ آپ پریشان مت ہوں خدا کوئی راہ ضرور دکھائے گا۔‘‘ وہ لائر شاید کوئی اچھا انسان تھا جو اس کی حالت کو سمجھ رہا تھا۔ اس نے سلسلہ منقطع کیا تھا۔
’’تو کیا اسے بھی مچھلیاں پیک کرنے کا کام کرنا ہوگا؟‘‘ وہ اپنا کوٹ پہن کر باہر نکلتے ہوئی سوچ رہی تھی۔ جان پہچان کے بنا کہیں بھی جانب حاصل کرنا ممکن نہیں تھا اور وہ تھک کر نمرہ کے پاس آئی تھی۔ وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
’’کہاں جا رہی ہو تم؟‘‘ ایلیاہ میر نے پوچھا تھا۔
’’مسٹر حیات کے یہاں ایک تقریب ہے انہوں نے انوائٹ کیا ہے تم میرے ساتھ آنا چاہو گی؟‘‘ آئینے میں اس کے عکس کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’لیکن میں تو انوائٹڈ نہیں۔‘‘ وہ سرد لہجے میں کہہ کر کائوچ میں دھنس گئی تھی۔ نمرہ نے اسے آئینے میں بغور دیکھا تھا۔
’’تمہاری جاب کا کیا بنا؟ تم ریان حق سے ملنے گئی تھیں؟‘‘
’’ہاں گئی تھی مگر اس نے کہا وہ صرف مقامی لوگوں کو جابز دیتا ہے۔‘‘
نمرہ کو وہ بہت لاچار اور تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ تبھی اسے مسکراتے کر دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’تم میرے ساتھ چلو ہوسکتا ہے کوئی بات بن جائے؟ میں مسٹر حیات سے بات کروں گی ۔ وہ ایم ڈی کے کافی قریب ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کچھ مدد کرسکیں؟ ملنے جلنے سے ہی کوئی راہ نکل سکتی ہے نا۔ ہم کوشش تو کرسکتے ہیں۔‘‘ وہ راہ دکھا رہی تھی۔ وہ جانے پر مائل نہیں تھی مگر جانے کیا سوچ کر اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ وہاں آکر اسے اندازہ ہوا تھا۔ اس تقریب کے لیے اس کا حلیہ خاصا غیر مناسب اور نا معقول تھا۔ اس نے خود کو مس فٹ محسوس کیا تھا۔
’’نمرہ میں نے تم سے کہا تھا یہ مناسب نہیں مجھے بہت برا محسوس ہو رہا ہے۔ میرا حلیہ دیکھو کسی ڈرنک سرو کرتی ویٹرس سے زیادہ نا معقول لگ رہی ہوں۔‘‘ اس نے نمرہ کے کان میں سرگوشی کی۔ نمرہ مسکرادی تھی۔
’’دیٹس اوکے اس سب کے بارے میں مت سوچو۔ یہ جو سب ویٹر ویٹریس دکھائی دے رہے ہیں نا یہ بے چارے سبھی اسٹوڈنٹس ہیں جو تقریب میں شریک سبھی لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے اور معقول ہیں۔ مجبوری کیا کیا کرواتی ہے۔ اس کا اندازہ تم سے زیادہ بہتر کون کرسکتا ہے۔ کئی کوالیفائیڈ انجینئر‘ سافٹ ویئر انجینئر‘ میڈیا پرسنز‘ ایم بی ایز ان کی چاکری کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کافی خوش نصیب قوم ہے یہ جو اتنے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے پائوں کے نیچے دبائے ہوئے ہے۔ دیکھو یہ قوم کل بھی راج کر رہی تھی اور آج بھی ہم پر قابض ہے۔‘‘ نمرہ مسکرائی تھی۔ وہ اس کی بات سے انکار نہیں کرسکی تھی۔ مگر ترقی کا راستا یہیں سے ہو کر تو گزرتا تھا۔ یہیں سے سارے خوابوں کی راہ ملتی تھی۔ سبھی پرابلمز کا حل بھی ملتا تھا۔ شاید یہی بات سب کو یہاں باندھے ہوئے تھی ویسے ہی جیسے وہ خود بندھی تھی۔
’’نمرہ مجھے چلنا چاہیے یہ ٹھیک نہیں ہے دیکھو مجھے سب کس طرح اور کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ نمرہ کے کان کے قریب بولی تھی مگر نمرہ نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ وہ اس وقت سامنے کھڑے ایم ڈی کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھی۔ اسے ہاتھ ہلایا تھا اور پھر آگے بڑھ گئی تھی۔ ایلیاہ میر نے دیکھا تھا وہ غائب تھی۔ وہ کچھ سوچ کر پلٹی ارادہ اس تقریب سے نکل جانے کا تھا تبھی وہ کسی سے بری طرح ٹکرائی تھی۔
’’اف۔‘‘ ناک پر جیسے کوئی فولاد ٹکرایا تھا۔ اس کی سسکی نکلی تھی۔ شاید وہ لڑکھڑا کر گرنے کو تھی جب کسی نے اسے تھام لیا تھا۔ ایلیاہ میر نے آنکھیں کھول کر بہ مشکل سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا اور آنکھیں یکدم پوری کھل گئیں۔ اس کے سامنے ریان حق کھڑا تھا۔
’’دیکھ کر نہیں چل سکتے آپ؟ یا آپ صرف مقامی لوگوں کو دیکھ کر چلتے ہیں۔‘‘ ایک زور دار طنز کیا تھا۔ جس کا اثر ریان حق پر قطعاً نہیں ہوا تھا۔
’’یہاں بھی جاب مانگنے آئی ہیں آپ۔‘‘ اس نے رسانیت سے طنز کیا تھا۔
’’اوہ۔‘‘ ایلیاہ میر نے ہونٹ سکوڑے تھے۔ وہ انسان اپنی حیثیت اور نشے میں پوری طرح چور تھا۔ اس کا دماغ ٹھکانے لگانا بہت ضروری تھا۔
’’ہاں جاب مانگنے آئی ہوں کوئی تکلیف ہے آپ کو؟‘‘ وہ سینے پر ہاتھ باندھتی ہوئی پر اعتماد انداز میں بولی۔ ریان حق نے اس کی سمت خاموشی سے دیکھا۔ کیا وہ اس کے کونفیڈنسز سے متاثر ہوا تھا۔ وہ گھورتی ہوئی کوئی اور سخت بات کہنے والی تھی۔ جب نمرہ نے کہیں سے نکل کر اسے کھینچ لیا تھا۔
’’میں نے حیات صاحب سے بات کی ہے تم ان سے مل لو وہاں سامنے کھڑے ہیں وہ۔‘‘ اس کے کان کے قریب منہ کر کے کہا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی سمت دیکھتی رہی تھی۔ پھر بھٹکتی ہوئی نگاہ ریان حق پر گئی جو اس لمحے کسی پری وش کے ساتھ کھڑا کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔ تو کیا مسکرانا بھی جانتا تھا وہ؟ اسے اتنا سینس تھا کہ کسی لڑکی کو کیسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ یا کیسے بات کی جاتی ہے؟ تو کیا وہ صرف مقامی لوگوں سے بات کرنے کے لیے پروگرام کیا گیا تھا؟
’’اف‘ یہ نسل پرستی ایک بلی یا کتے کو سڑک سے اٹھا کر اسے شاہانہ زندگی دینے والے کیسے دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انسانوں کے نام پر اپنی پالیسیز کو سخت کرلیتے ہیں اور مقامی جانوروں کے لیے بھی ان کے اندر انسانیت عود کر آجاتی ہے۔ اپنا جانور بھی خاص ہے اور دوسری کنٹری کا انسان بھی جانور سے بد تر۔‘‘ ایلیاہ میر نے سوچا تھا اور حیات صاحب کی طرف بڑھ آئی تھی۔
’’مجھے نمرہ نے…!‘‘ اس نے ابھی منہ کھولا ہی تھا۔ جب وہ مسکرا کر بولے۔
’’جانتا ہوں آپ ادھر آکر میری بات سنیں۔‘‘ وہ اسے شانے سے تھام کر ایک ویران گوشے میں لے گیا تھا۔ اس کے سامنے کھڑی ایلیاہ میر اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ مسٹر حیات نے ڈرنک کا سپ لیا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے اس کی سمت دیکھا۔
’’مس میر بات اتنی سی ہے کہ آج کل کساد بازاری کا دور ہے اور…!‘‘
جانتی ہوں نئی بات کریں۔‘‘ وہ اکتا کر بولی۔ وہ اس کے تیور دیکھ کر مسکرایا تھا۔
’’خاصا ایٹی ٹیوڈ ہے آپ میں اور خود اعتمادی بھی مگر اپنی کنٹری میں سب چلتا ہے یہاں نہیں۔ یہاں کچھ کو آپریٹ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اس کی مسکراہٹ میں لین دین کا معاملہ تھا وہ چونکی تھی۔
’’مطلب۔‘‘ سوالیہ نظروں سے مسٹر حیات کو دیکھا تھا۔
’’مطلب مس میر میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ اگر کچھ مدد آپ میری کردیں تو؟‘‘
اس کی مسکراہٹ معنی خیز تھی۔ ایلیاہ میر کا دل چاہا تھا اس کا منہ نوچ لے۔ یہ شخص اس کارپوریٹ روبوٹ سے زیادہ گھٹیا لگا تھا۔ اس نے اپنے برائون بیلٹ ہونے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاتھ کا ایک بھرپور پنج بنا کر اس کے منہ پر مارا تھا۔ مسٹر حیات کو سمجھنے اور سوچنے کا وقت نہیں ملا تھا۔ جب تک وہ سنبھا وہ وہاں سے باہر نکل آئی تھی۔ اسے بے حد غصہ آرہا تھا سامنے پارکنگ میں ریان حق کی گاڑی دیکھ کر وہ رکی تھی۔ غصہ کہیں تو نکالنا تھا۔ اس نے ہیئر پن بالوں سے نکالی تھی اور اس کی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دی تھی اور ایک گہری سانس لے کر اطمینان سے چلتی ہوئی وہاں سے نکل آئی تھی۔ اپنے بیڈ پر خالی پیٹ لیٹے ہوئے اسے ایسا کرنے پر کوئی ملال نہیں تھا۔ نہ کوئی پچھتاوا رات کے کسی پہر نمرہ کی کال آئی تھی۔
’’تم وہاں سے اتنی جلدی کیوں چلی آئیں؟ وہ بھی مجھے بنا بتائے بات ہوئی حیات صاحب سے۔ کیا کہا انہوں نے؟‘‘ نمرہ اس کی سچی پکی خیر خواہ تھی۔ مگر بات فی الحال بن نہیں رہی تھی۔ شاید مسٹر حیات نے اسے پنج والی بات نہیں بتائی تھی۔ تبھی وہ کہہ رہی تھی یہ سب۔
’’کچھ نہیں ہوا نمرہ جاب حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے تم تو جانتی ہو۔ اینی وے مدد کرنے کے لیے شکریہ تم بہت ساتھ دے رہی ہو میرا۔‘‘
’’تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟ پیسے… اوہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں نا‘ جانتی ہوں میں‘ میں کل آفس جانے سے پہلے…!‘‘
’’نہیں نمرہ اس کی ضرورت نہیں تھینکس تم پہلے ہی میری کافی مدد کرچکی ہو۔ مجھے خود کوئی راہ ڈھونڈنا ہوگی یہ مناسب نہیں تم فکر مت کرو۔ میں نے کھالیا تھا۔‘‘
’’کھالیا تھا‘ کہاں سے؟‘‘ نمرہ چونکی تھی۔
’’وہ میری لینڈ لیڈی کا آج اکیلے کھانے کا موڈ نہیں تھا تو اس نے بلا لیا۔ کافی لذیذ پکوان بناتی ہے وہ۔‘‘ اس نے صاف جھوٹ بولا تھا۔ وہ خود دار تھی۔ انا پرست تھی یوں نہیں جھک سکتی تھی۔ فون کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد اس نے کروٹ بدلی تھی اور سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ صبح اٹھی تھی تو ارادہ جاب ڈھونڈنے کے لیے نکلنے کا تھا۔ تھبی کچھ دوستوں اور جاننے والوں کو میسجز کر کے اپنے لیے جاب ڈھونڈنے کی ریکوئیسٹ بھی کی تھی۔ وہ شاور کے لیے واش روم کی طرف بڑھ رہی تھی جب فون بجا۔ اسے ایک امید کی کرن دکھائی دی تھی۔ اجنبی نمبر دیکھ کر بھی کال ریسیو کرلی تھی۔ دوسری طرف کوئی خاتون تھیں اسے آواز کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔
’’آپ اس وقت آفس آسکتی ہیں ریان حق آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ وہی ریسیپشنسٹ تھی جس نے اسے اندر جانے سے روکا تھا اور جسے جھانسا دے کر وہ زبردستی ریان حق سے ملنے چلی گئی تھی۔ ریان حق کیوں ملنا چاہتا تھا اس سے؟اس کی سانس لمحہ بھر کو رکی تھی۔ اوہ‘ تو کہیں اس نے اسے اپنی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکالتے دیکھ تو نہیں لیا تھا؟ اف خدا! اس نے اس کا کیا حشر کرنا تھا۔
اختیارات تو تھے اس کے پاس۔ کہیں وہ اسے جیل کی ہوا کھانے ہی نا بھجوا دیتا۔ اس کے لیے یہ کیا مشکل تھا۔ مقامی بندہ تھا‘ امیر تھا کئی اختیارات تو رکھتا ہی تھا۔ وہ ہی غصے میں پاگل ہوگئی تھی۔ دھیان ہی نہیں رہا کہ کس سے الجھ رہی ہے۔ مسٹر حیات کا غصہ بھی اس کی گاڑی پر نکال دیا۔ اب ایک پل میں ہوش آیا تھا۔ فون کا سلسلہ منقطع کر کے وہ کچھ دیر سوچتی رہی تھی۔
’’نہیں‘ میں ریان حق سے ملنے نہیں جائوں گی۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں سوچا تھا اور واش روم میں گھس گئی۔ وہ سارا دن اس نے سڑکیں ناپتے ہوئے گزارا تھا۔ تبھی دن کے اختتام پر ایک دوست کا میسج موصول ہوا تھا۔
’’میں ان دنوں ایک ریسٹورنٹ میں کام کر رہا ہوں۔ کوشش کر کے تمہارے لیے جگہ نکلوا سکتا ہوں۔ مگر ایس فوری نہیں ہوسکتا کچھ انتظار کرسکتی ہو تو میں بات کروں۔‘‘
کچھ امید کی کرن تو دکھائی دی تھی۔ چھوٹی جاب حاصل کرنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔ سو اس نے ہاں کردی تھی۔ سروائیو تو کرنا تھا اور اب کوئی راہ تو دکھائی دی تھی۔ کچھ نا ہونے سے ہونا بہتر تھا۔ جان پہچان کے بنا یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ تھکن سے چور گھر پہنچی تھی جب نمرہ کا فون آیا تھا۔
’’میں نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا تمہاری جاب کے لیے جاب بڑی نہیں ہے دو گھنٹوں کی ہے مگر تمہیں دو گھنٹوں کے پچیس پائونڈ ملیں گے۔ تمہیں ریسٹورنٹس کے مسالوں کو چھانٹ کر الگ الگ جار میں بھرنا ہے۔ بس اتنی سی جاب ہے۔ مگر اس کی ٹائمنگ رات کی بھی ہوسکتی ہے۔ آج کل رات میں حملہ آوروں کے قصے عام ہیں۔ موبائل اور رقم چھیننے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ کچھ راہ گیر تو بری طرح زخمی بھی ہوچکے ہیں۔ میں تمہیں اس جاب کو کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتی۔ مگر…!‘‘ نمرہ نے آخر میں ایک سوالیہ نشان چھوڑا تھا وہ تلخی سے مسکرا دی تھی۔
’’یہ لندن شہر عجیب ہے۔ مقامی لوگ اسے فارنرز کی سٹی کہتے ہیں اور فارنرز یہاں کتے سے بد تر زندگی جیتے ہیں۔ میں ان گروہوں کے قصے پڑھ چکی ہوں۔ پریشان مت ہو۔ میں برائون بیلٹ ہوں مارشل آرٹ سے واقف ہوں مجھ سے ٹکرانے والا خالی ہاتھ واپس نہیں جائے گا۔ میں یہ جاب ضرور کرنا چاہوں گی۔ نا ہونے سے ہونا بہتر ہے۔‘‘
وہ اس تھوڑے کو بہت جان رہی تھی۔ کیونکہ اس نے سروائیو کرنا تھا۔ ایک مہینے کے سات ساڑھے سات سو پائونڈ کچھ برا نہیں تھا۔ وہ گھر کچھ تو بھجوا سکتی تھی۔ دو سوپائونڈز شیئرنگ کمرے کے نکال کر بھی کچھ ہاتھ آسکتا تھا۔ جب تک دوسرے ریسٹورینٹ کی بات ہوتی اور بنتی تب تک وہ فارغ رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک اطمینان کی سانس لیتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ بیڈ پر لیٹتے ہوئے صبح


کی کال یاد آگئی تھی۔
یہ ریان حق کتنا عجیب بندہ تھا۔ کیا بگڑ جاتا اگر وہ مدد کردیتا۔ وہ اس کی جاننے والی تھی نا کوئی رشتے دار وہ صرف ہم وطن ہونے پر کتنی امیدیں لگا بیٹھی تھی اور وہ شخص بھی ایک کائیاں تھا اس نے صرف ٹائروں کی ہوا ہی تو نکالی تھی اور اس نے باز پرس کرنے وہاں بلوایا تھا۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ اس کے پاس دو پیسے کیا آگئے تھے یہاں اس سر زمین پر پیدا کیا ہوگیا خود کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ کتنے عجیب ہوتے ہیں ایسے لوگ۔
وہ کتنی دیر سوچتی رہی تھی۔ دو بار ملی تھی اس بندے سے یا پھر تین بار مگر وہ کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پایا تھا یا پھر وہی امپریسڈ ہونے والوں میں سے نہیں تھی۔ تمام سوچوں کو ایک طرف رکھ کر وہ آنکھیں موند کر سونے کے جتن کرنے لگی تھی۔
…٭٭٭…
کچھ لوگ شاید دوسروں سے زیادہ حوصلہ رکھتے ہیں تبھی مشکلات بھی اتنی ہی وافر مقدار میں تعاقب میں رہتی ہیں۔ ایلیاہ میر نے ہوش سنبھالا تھا تو اطراف کی کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔ گھر میں ممی اور تین بھائی بہن تھے۔ پاپا کبھی کبھی آتے تھے۔ ممی سے ان کی دوسری شادی تھی۔ وہ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہ رہے تھے سو ان کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے تھے۔ آتے بھی تھے تو قیام مختصر ہوتا تھا۔ وہ گریجویشن میں تھی جب خبر ہوئی اس کی نسبت بچپن سے پاپا نے اپنے بھانجے سے طے کردی ہے اور اس کی شادی بھی اس سے ہونا قرار پائی ہے۔ اس کے ذہن میں کوئی خاص امیج نہیں تھا۔ اس نے خواب دیکھنا نہیں سیکھا تھا۔ حقیقت پسندی نے اسے خواب دیکھنے کی عادت پڑنے ہی نہیں دی تھی۔ ممی کو سخت محنت کر کے گھر چلاتے دیکھا تھا۔ وہ دو جابز کر رہی تھیں۔ پاپا گھرچلانے میں ان کی مدد نہیں کرتے تھے کہ ان کے اور دیگر بچے بھی تھے۔ پھوپھو جب بھی آتیں طنز کے تیر چلا جاتیں۔ شاید وہ انہیں اتنی پسند نہیں تھی یا پھر پسند ہوتی اگر وہ پاپا کی دوسری بیوی کی اولاد نہ ہوتی۔ سارا بھید شاید اس رشتے سے تھا۔ اسے ہمیشہ لگتا تھا وہ اور ممی پھوپھو کی پسندیدہ نہیں وہ اس رشتے کے لیے کوئی فیلنگز نہیں رکھتی تھی۔ بہت برف سا احساس تھا اس رشتے کا۔ حمزہ کو بھی اس سے شاید کوئی خاص انٹرسٹ نہ تھا۔ تبھی وہ ضروری یا غیر ضروری رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا نا ان میں زیادہ بات چیت ہوتی تھی۔ وہ ایک بار گھر آیا تھا تو ممی نہیں تھیں۔ تبھی اس نے چائے کا پوچھا تھا۔ وہ کچھ دیر اس کو بغور دیکھتا رہا تھا پھر جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’جانے کیوں لگتا ہے تم کیکٹس کے پھول جیسی ہو۔ جسے دیکھو تو شاید خوشنما لگے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ پہلی بار تھا جب وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تھا۔ وہ معنی سمجھ نہیں پائی تھی۔ پوچھ بھی نہیں پائی تھی۔ وہ کیون اسے کیکٹس کے پھول سے ملا رہا تھا۔ محبت اتنی اذیت ناک تھی‘ یا بہت خوب صورت یا پھر اس سے محبت کا ہونا اتنا انوکھا اور نایاب تھا جیسے کیکٹس کا پھول؟ وہ اپنے طور پر معنی تلاشتی تھی۔ پہلی بار تھا جب اس نے محبت کا سوچا تھا۔ احساس ہوا تھا کہ محبت بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ مگر وہ جو اس کا ہم سفر بننے جا رہا تھا اسے اس سے محبت نہیں تھی؟ اگر محبت نہیں تھی تو عمر ساتھ کیسے گزرتی۔ ایک عمر جب ایک لمحے کو سن کر اس کا دل گھٹن سے بھر گیا تھا۔ اس نے اپنی ممی کو راتوں کو اٹھ کر روتے دیکھا تھا۔ شادی اگر سمجھوتا تھی تو کیوں نباہ رہی تھیں وہ؟ کیونکہ وہ سہام میر سے محبت کرتی تھیں۔ پورا خاندان جب خلاف تھا تو سہام میر نے ان سے شادی کیوں کی تھی؟ وہ اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پائی تھی۔ مگر یہ بات اس نے محسوس کی تھی کہ وہ یا اس کی ماں سہام میر کی فیملی کی پسندیدہ کبھی نہیں تھیں۔ یہ رشتے مخالف سمت کیوں بہتے ہیں۔ اس کا پتا وہ کبھی نہیں لگا پائی تھی۔
وہ اس راز کی کھوج میں سوچتی رہتی تھی۔ مگریہ سوچ اس روز تھمی جب پھوپھو کسی بات سے ممی سے الجھ پڑیں۔ جانے کیابات ہوئی تھی وہ کالج سے واپس لوٹی تھی جب ممی کو اس نے روتے دیکھا اور اس کے بعد جب وہ گرنے کو تھیں اس نے خود آگے بڑھ کر ان کو اپنے بازوئوں میں تھاما تھا۔ کیا بات ہوئی تھی؟ کس بات کا صدمہ پہنچا تھا۔ وہ کس سے پوچھتی۔ اس کے بعد ممی تو ہوش میں ہی نہیں آئیں پندرہ دن تک وہ کوما میں رہیں اور پھر اسی دوران ان کی ڈیتھ ہوگئی۔ صدمہ کیا ہوتا ہے‘ دکھ کسے کہتے ہیں؟ یہ بات اس نے پہلی بار اس شدت سے جانی تھی۔ وہ سرے ڈھونڈتی رہی تھی دکھ سے نمٹنے اور نبرد آزمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ممی گئیں تو ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ڈال گئیں۔ اپنی جگہ اسے کھڑا کر گئیں ممی کو کیسے لگا تھا وہ اتنی بڑی ذمہ داری نبھا سکتی ہے؟ وہ تو ابھی زندگی کے معنی بھی ٹھیک سے نہیں جانتی تھی۔ ابھی تو اسے ڈھنگ سے دنیا کی سمجھ بھی نہیں آئی تھی پھر کجا اتنی ساری ذمہ داریوں کو نبھانا۔ وہ ایسے محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی پہاڑ اس کے سر پر آن پڑا ہوا۔ ممی کی موت کے بعد حمزہ سے صرف ایک بار بات ہوئی تھی۔ وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا پھر بولا تھا۔
’’اس رشتے کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا مجھے سمجھ نہیں آتا یہ آگے کیسے بڑھے گا‘ صائمہ مامی تمہیں اپنی جگہ کھڑا کر گئیں تم ساری عمر اب ان رشتوں کا بوجھ ڈھوتی رہو گی اور… مجھے نہیں لگتا یہ مناسب ہے کہ…!‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
وہ سانس روکے اسے سن رہی تھی۔ جب وہ شاید اس کا خیال کر کے مسکرایا تھا۔
’’تم بہت خوب صورت ہو اگر اچھی نہ لگو تو یہ عجیب ہوگا۔ محبت سے نابلد سہی مگر مرد کی آنکھ تو رکھتا ہوں اگر تم باعث کشش لگتی ہو تو اس سے انکار نہیں کرسکتا۔‘‘
وہ مسکرائی نہیں تھی۔ وہ اگر مذاق بھی تھا تو بہت بھونڈا تھا۔ وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ اس رشتے کو آگے نہیں بڑھا سکتا کیونکہ اس پر ذمے داریوں کا بوجھ ہے۔ اس سے آگے اسے کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔ وہ یہ بات فراموش نہیں کرسکتی تھی کہ وہ ایک لڑکی تھی‘ نا وہ یہ فراموش کرسکتی تھی کہ اس سے چھوٹے بہن بھائی اپنی ضرورتوں کے لیے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت مشکل سے ممی کی دوست کی مدد سے ایک جاب ڈھونڈ پائی تھی۔ مگر اس کے لیے اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا محال ہو رہا تھا۔ مگر اسے کچھ بھی کر کے خود کو آگے ضرور بڑھانا تھا کہ اگر اس کا سفر رک جاتا تو باقی سب کے خواب بھی منجمد ہوجاتے۔ باقی سب کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اس کا خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ضروری تھا
جانے کتنے دن گزرے تھے اس نے تو شمار کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس روز الماری صاف کرتے ہوئے کچھ پیپر ہاتھ لگے تھے۔ اس نے کھول کر دیکھا تو ساکت رہ گئی تھی۔ وہ طلاق کے پیپر تھے۔ جن پر ممی کے سائن ہونا باقی تھے۔ تو کیا یہ وجہ تھی ان کی موت کی۔ تو کیا پھوپھو اس بات پر امی سے الجھ رہی تھیں اور کیا یہی وہ بات تھی جو ان کے کوما میںجانے کا باعث بنی تھی اور ان کی موت کا سبب بھی؟ وہ کئی لمحوں تک سوچتی رہی تھی۔ ممی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔ اگر پھوپھو اور پاپا ممی کی موت کے ذمہ دار تھے تو وہ اس رشتے کو کیسے آگے بڑھا سکتی تھی جن رشتوں سے ممی کو اتنی تکلیف پہنچی وہ ان رشتوں کے ساتھ کیسے بندھ سکتی تھی؟ حمزہ کا لہجہ سماعتوں میں گھوما تھا۔
’’جانے کیوں لگتا ہے تم کیکٹس کے پھول جیسی ہو۔ جیسے دیکھو تو خوش نما لگتا ہے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ اس نے بہت آہستگی سے انگیجمنٹ رنگ انگلی سے اتاری اور دوسرے دن حمزہ کے آفس جا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ وہ حیران سا اسے دیکھنے لگا تھا۔
’’مجھے شاید یہ بہت پہلے ہی کردینا چاہیے تھا۔ مگر حقائق کو جاننے میں بہت دیر لگی مگر اب جان گئی ہوں۔ اس رشتے کی کوئی حقیقت نہیں۔ مگر سہام میر سے یا اس سے وابستہ کسی بھی شخص سے کوئی رشتا باقی نہیں رکھنا چاہتی۔ اگر یہ رشتا باقی رہا تو شاید میرے اندر کی گھٹن بہت بڑھ جائے گی۔ میں ایک اور صائمہ افتخار کو جنم نہیں دے سکتی۔ جبکہ میں جانتی ہوں تم دوسرے سہام میر بننے میں ایک پل نہیں لو گے۔ جب سہام میر کے لیے میرے اندر ڈھیروں نفرت ہے تو میں اس سے وابستہ کسی رشتے کو محبت کیسے دے سکتی ہوں؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر وہاں سے نکل آئی تھی۔ دوسال کھینچ تان کر کے نکالے تھے۔ ممی کی کچھ سیونگ تھی کچھ انشورنس تھی مگر وہ رقم ناکافی تھی۔ مگر اس سے اس نے نئی راہ ڈھونڈی ممی کی ایک دوست کی مدد سے اس نے دبئی میں جاب ڈھونڈ لی اور پھر وہاں منتقل ہوگئی تھی۔ حیرت کی بات تھی سہام میر نے اس کے بعد ان لوگوں سے کوئی رشتا باقی نہیں رکھا تھا اور وہ سوچتی رہی تھی کہ کوئی اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ ایک شوہر تھا۔ ایک مرد تھا اور ایک باپ بھی تھا۔ وہ اچھا مرد نہیں تھا۔اچھا شوہر نہیں بن پایا تھااور ایک اچھا باپ بھی نہیں بن پایا تھا اور اس پر اسے کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی۔ وہ کتنا بے حس تھا۔ اس کا اندازہ اسے ہوگیا تھا۔ شاید وہ اس سطح سے بھی نیچے جا سکتا تھا۔ ممی کے جانے کے بعد ددھیال اور ددھیالی رشتے دار ان کی زندگی سے خارج ہوگئے تھے۔ بس ایک خالہ تھیں جو دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ جب ملنے آتی تو گھر میں ممی کا احساس جاگنے لگتا تھا۔
’’ماسو! جامی‘ ثناء اور تمنا کا خیال رکھا کریں ابھی بہت چھوٹے ہیں۔‘‘ وہ فون پر بولی تھی۔
’’چھوٹی تو تم بھی ہو ایلیاہ۔‘‘ ندا ماسو نے احساس دلایا تھا وہ مسکرا دی تھی۔
’’ہاں مگر میں سمجھ بوجھ رکھتی ہوں وہ نہیں رکھتے۔‘‘
’’تم فکر مت کرو۔ میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔ تمہارے انکل سے کہہ کر اس شہر منتقل ہوجائوں گی تاکہ قریب رہوں تو ان کو بھی حوصلہ رہے۔ ماسو نے کہا۔
’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ اس نے سراہا تھا۔
دبئی آکر زندگی میں کچھ خوشحالی آئی تھی اگرچہ جاب بہت ٹف تھی مگر وہ اب اپنی پروا نہیں کرتی تھی نا اپنے بارے میں سوچتی تھی۔ وہ صرف اپنے سے وابستہ رشتوں کے لیے سوچتی تھی۔ تین سال اس نے دبئی میں جاب کی تھی پھر جانے کیوں انگلینڈ جانے کا خیال آیا تھا اور غلطی کہاں ہوئی تھی۔ اس نے اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اپلائی کیا تھا۔ یہی اس کی زندگی کا بد ترین فیصلہ تھا جس کے باعث آج اسے اور اس کی فیملی کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ را تھا اسے یہ رسک نہیں لینا چاہیے تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس فیصلے کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔ اس مہینے تو اس نے کچھ سیونگ نکال کر گھر بجھواد ی تھی اگلے مہینے کیا ہونا تھا؟ یہ سوالیہ نشان اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
وہ سو کر اٹھی تھی تو سر بری طرح بھاری ہو رہا تھا۔ جسم میں جیسے انرجی نام کو نہیں تھی۔ لینڈ لیڈی نے دروازہ اپنی مخصوص دستک کے ساتھ بجایا تھا۔ تو اسے علم ہوگیا تھا وہ روم کے رینٹ کے بارے میں پوچھے گی۔ اس نے بہ مشکل اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
لینڈ لیڈی رینٹ مانگ رہی تھی۔ اس نے جیسے تیسے انہیں قائل کرلیا تھا کہ وہ ایک دو دن میں انہیں رینٹ ادا کردے گی۔ دروازہ بند کر کے وہ دوبارہ آکر بستر پر گر گئی تھی۔ یہاں کھانے کو نہیں تھا اور وہ رینٹ کہاں سے لاتی؟ ذہن بہت مائوف تھا۔ جب اس نے نمرہ سے فون کر کے اس ریسٹورنٹ کی جاب کے بارے میں پوچھا تھا۔
’’ہاں سوری میں بتا نہیں سکی کچھ بزی رہی تم شام میں جوائن کرسکتی ہو۔ تمہارے کام کی پیمنٹ تمہیں ملے گی۔‘‘ نمرہ نے ایک اچھی خبر دی تھی۔ اس کا جسم حرارت سے تپ رہا تھا۔ مگر ایک لمحے میں جیسے نئی جان بھر گئی تھی۔ وہ اٹھی اور تیار ہو کر نمرہ کی طرف کا سفر کرنے لگی۔ اس سے پتا لینا تھا اور روم کا رینٹ بھی کہ لینڈ لیڈی اس سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتی تھی اور نہ وہ زیادہ بھوک برداشت کرسکتی تھی۔ اس دن اس نے کئی دنوں بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا۔ اب پیسے ملنے کی امید تھی تو وہ قرض بھی لے سکتی تھی۔ ورنہ مانگنا بھی عجیب لگ رہا تھا۔ شام میں وہ ریسٹورنٹ گئی تھی۔ بہت بڑا ریسٹورنٹ نہیں تھا مگر اسے صرف پیسوں سے مطلب تھا۔ اس کے ہاتھ 25 پائونڈز ہی سہی کچھ تو آنے والا تھا۔
اس رات وہ کام ختم کر کے ریسٹورنٹ سے نکلی تھی جب ایسٹ لندن کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کچھ سیاہ فام گروہ کے بندوں نے اسے آن لیا تھا۔ وہ لڑکی تھی رات کا اندھیرا تھا اس پر اتنی بڑی مصیبت کہ اس کی جیب میں پیسے تھے جو اسے آج ہی ملے تھے اور وہ انہیں گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کوئی بد مزگی نہیں چاہتی تھی تبھی موبائل فون نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔ مگر وہ مزید کی ڈیمانڈ کرنے لگے تھے۔ وہ الجھنا نہیں چاہتی تھی مگر اس وقت چارہ نہیںرہا تھا۔ اگرچہ ان کے ہاتھ میں چاقو تھے وہ تین تھے اور وہ تنہا۔ اس نے گھوم کر ایک فلائنگ کک ایک کو رسید کی تھی مگر تبھی دوسرے دو نے
اسے دبوچ لیا تھا۔ وہ ہٹے کٹے تھے وہ بے بس ہوگئی تھی۔
اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اس نے نگاہ سے کچھ پرے دیکھا تھا۔
دور سے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس دکھائی دی تھی۔ ایک لمحے میں وہ روشنی آنکھیں چندھاتی ہوئی قریب پہنچی تھی۔ گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے۔ وہ آنکھوں پر کلائی رکھ کر آنکھوں کو روشنی کے اثر سے بچانے لگی تھی۔ جب اسے کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ نائجرین گروہ کے لوگ اس سے دور نکل چکے تھے اور ایسا کیسے اور کس باعث ممکن ہوا تھا؟ اس نے اپنے سامنے نگاہ کی تھی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا تھا۔ کوئی اس کی مدد کو پہنچ چکا تھا اور وہ کوئی اور نہیں ریان حق تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر لمحہ بھر کو یقین نہیں ہوا تھا۔ وہ جھک کر اس کا گرا ہوا موبائل فون اٹھانے لگا تھا۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’اس وقت مٹر گشت کا شوق اچھا نہیں۔ رت جگوں اور آوارہ گردی کا اتنا ہی شوق ہے تو دن کافی لمبا ہوتا ہے۔‘‘ وہ انگارے چباتا ہوا بولا تھا۔ اس شخص سے اس کی کسی قسم کی دشمنی تھی وہ جان نہیں پائی تھی۔ مگر یہ غصہ اگر ٹائرز کی ہوا نکالے جانے کا ری ایکشن تھا تو اسے جھیلناچاہیے تھا۔
’’مجھے راتوں کو سڑک پر گھومنے کا کوئی خاص شوق نہیں ہے آپ…!‘‘ اس نے کچھ کہنے کی ہمت کی ہی تھی کہ ریان حق نے اس کے لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’کوئی نئی کہانی نہیں سننا ہے مجھے گاڑی میں بیٹھو۔‘‘ وہ تحکم بھرے انداز میں بولا تھا اور وہ حیران رہ گئی تھی۔ وہ اس پر اس طرح رعب جما رہا تھا جیسے اس سے گہرا تعلق ہو۔ وہ اس شخص کو گھورتی ہوئی اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹا کر یکدم آگے بڑھی تھی اور گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ وہ دوسری طرف سے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا تھا۔ ایلیاہ میر اس کی سمت دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
’’اس روز آفس بلایا تھا تو آئیں کیوں نہیں آپ؟‘‘ وہ بنا اس کی سمت دیکھے بولا تھا۔ وہ سبب جانتی تھی تبھی بولی تھی۔
’’کیوں آتی تاکہ آپ اپنا بدلہ پورا کرسکتے؟‘‘
’’بدلہ؟‘‘ وہ چونکا۔ ایلیاہ میر نے اس شخص کی سمت نگاہ کی خاموشی سے دیکھا پھر بولی تھی۔
’’آپ کے ٹائرز کی ہوا…!‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولتے بولتے رہ گئی تھی۔
’’اوہ‘ تو وہ آپ تھیں؟ مجھے بھی لگا اچانک سے اس شہر میں کون دشمن آگیا۔‘‘ وہ سرسری انداز بولا۔ ایلیاہ نے اپنا سچ اپنے منہ سے بتا کر غلطی کی تھی۔ اگر اسے پتا نہیں تھا تو کیا ضرورت تھی بتانے کی کتنی بے وقوف تھی نا؟ اس نے خود کو ڈپٹاتھا۔
’’ویسے مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ ایسی کوئی حرکت آپ ہی کرسکتی ہیں۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھے بنا بولا تھا۔ وہ اس کی سمت سے اپنی نظریں ہٹا گئی تھی۔
’’مجھے ایسا کوئی شوق تو نہیں ہے بس اس رات غصہ تھا اور آپ کو بھلا کیا فرق پڑا ہوگا ایک ذرا سی ہوا ہی تو نکالی تھی نا ٹائرز کی۔ ٹائرزیا گاڑی تو نہیں چرائی۔ اتنا کمایا ہے ٹائرز کی ہوا بھروانے میں کیا گیا ہوگا آپ کا؟‘‘ وہ ازلی خود اعتمادی سے بولی۔ وہ جانے کیوں بغور دیکھنے لگا تھا اس کی سمت۔
’’تمہیں دنیا کے سارے امیروں سے اتنی ہی نفرت ہے؟‘‘
’’سبھی امیروں سے نہیں۔‘‘ وہ اس کی سمت بنا دیکھے بولی تھی۔
’’اوہ تو پھر عتاب کا نشانہ مجھے کیوں بنا دیا؟‘‘ وہ جاننے پر بضد ہوا۔
’’اچھا ہوتا میں آپ کو نہ بتاتی آپ کو تو شاید قیامت تک پتا نہ چلتا کہ یہ میںنے کیا ہے۔ بے وقوف ہوں نا اپنے ہاتھوں بھانڈا پھوڑ دیا۔ کیا کروں جھوٹ بولا ہی نہیں جاتا۔ انسان ہوں نا‘ وہ بھی سینسسٹیو اگر کوئی کارپوریٹ روبوٹ ہوتی تو شاید…!‘‘وہ پورے اعتماد سے اس کی سمت دیکھنے لگی تھی۔
’’آہ‘ آپ کو میں روبوٹ لگتا ہوں؟ اچھا خاصا آدمی ہوں اگر اس روز آپ کو اپنی کمپنی میں جاب نہیں دے سکا تو اس کا مطلب یہ نہیں میں ان سینسیٹیو ہوں۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولا تھا۔ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا۔ اچھا خاصا ہینڈ سم بندہ تھا۔ اس نے پہلی دو چارملاقاتوں میں تو اس بات کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔ اب دیکھا تھا تو کچھ امپریسڈ ہو ہی گئی تھی۔ نک سک سے تیار‘ رات کے اس پہر بھی فریش دکھائی دیتا بندہ‘ کاش اسے جاب بھی دے دیتا تو کیا بگڑ جاتا…!دل سے آہ نکلی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔
’’مجھے فرق نہیں پڑتا اس بات سے۔‘‘ وہ شانے اچکا کر بولی تھی۔
’’مگر مجھے فرق پڑا‘ اس رات آپ نے مسٹر حیات کو وہ زور دار پنج مارا۔ کیونکہ اس کے بعد انہیں مجھے اسپتال لے جانا پڑا تھا۔ بے چارے کی ناک کی ہڈی ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی۔ پورا منہ سوج گیا تھا۔ یہ تو شکر کرو انہوں نے جھوٹ کہہ دیا کہ واش روم میں گر گیا ہوں۔ ورنہ پولیس کیس بن جاتا اور اگر اس بات کی بھنک ان کی وائف کو پڑ جاتی تو خوامخواہ بے چارے کا بسا بسایا گھر اجڑ جاتا۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھے بنا بولا تھا۔ وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔ اس پنچ کے بارے میں اسے کیسے پتا چلا تھا؟ وہ حیران تھی۔
’’حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے شہر بڑا ہے مگر بات پتا چل ہی جاتی ہے اگر میں اس پارٹی میں نہ بھی ہوتا تو مجھے خبر ہوجاتی۔ اس رات تو پھر اس جگہ موجود تھا اور کچھ فاصلے پر بھی۔‘‘ وہ جتا رہا تھا۔
’’اوہ‘ بہت بری بات ہے اس طرح دوسروں کی خبر لینے کی‘ ویسے آپ یہ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں کوئی SPY تو نہیں اور آپ لوگوں کی عادت ہے نا ہر دوسرے پاکستانی پر شک کرنے کی؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی۔
’’عجیب خاتون ہیں آپ بجائے تھینکس کہنے کے الٹا مجھے لتاڑ رہی ہیں۔ مجھے آپ کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اس کے لیے شہر کی پولیس ہے۔‘‘ وہ لا تعلق لہجے میں بولا تھا۔
’’اوہ تو پھر آپ کو صرف یہ قلق ہے کہ میں نے تھینکس کیوں نہیں کہا۔ اوکے تھینکس اگر آپ اس رات جھوٹ نہیں بولتے تو میں جیل میں ہوتی نا اور مسٹر حیات کو کیا سزا ملتی؟‘‘
’’آپ جو نہیں ہوا اس کے بارے میں کیوں سوچ کر جان جلاتی ہیں؟ مسٹر حیات با اثر وبا رسوخ شخصیت ہیں۔ ان کا ایک بیان کافی ہے۔ آپ یہ سوچ رہی ہیں کہ انہوں نے آپ کو کوئی غلط پروپوزل دیا مگر وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ نے ان کو آسورٹ کرنے کی کوشش کی اور آپ اس سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ وہ یہاں کے سٹیزن ہیں۔ کئی گنا کما کر دیتے ہیں‘ ٹیکس پے کرتے ہیں‘ آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’اوہ…!‘‘ وہ حقائق بتائے جانے پر اس کی سمت خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔ یہ سب تو اس نے سوچا نہیں تھا۔ اسے تو بس غصہ آیا تھا اور اس نے پنچ کھینچ مارا تھا۔
’’ہر بات کا علاج یا حل صرف غصہ نہیں ہوتا خاتون۔‘‘ مشورہ دیتے ہوئے بولا تھا۔
’’ایلیاہ میر۔‘‘ وہ اسے خاتون بلاتے دیکھ کر بولی تھی۔ ’’آپ مجھے مس میر بلاسکتے ہیں۔‘‘ وہ ہنوز اپنے فطری ایٹی ٹیوڈ سے بولی تھی۔ ریان حق نے لمحہ بھر کو اسے دیکھا تھا پھر گردن گھما کر ونڈ اسکرین کی سمت دیکھنے لگا تھا۔
’’اوکے ایلیاہ…!‘‘ وہ شخص شاید نشاندہی کیے گئے راستوں پر چلنا مناسب خیال نہیں کرتا تھا۔ اسے اپنی راہ بنانے کی عادت تھی شاید اسے خود کو صرف ایلیاہ بلائے جانے پر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’آپ اپنے طور پر کچھ بھی اخذ کرلیتے ہیں۔ میں اس وقت جاب ختم کر کے واپس آئی ہوں جب راستے میں اس گروہ نے گھیر لیا۔ آپ پتا نہیں کیا سمجھ بیٹھے اور…!‘‘ وہ مطلع کرتے ہوئے بولی تھی۔ حالانکہ وہ اسے کوئی صفائی دینے پر مجبور نہیں تھی۔ پھر بھی جانے کیوں بتانا ضروری خیال کیا تھا۔ وہ شخص ونڈ اسکرین سے گردن ہٹا کر اس کی سمت دیکھنے لگا تھا۔ شاید یہ بات اس کے لیے سرسری اور انتہائی غیر اہم تھی۔
’’اینی وے تھینکس اس رات مسٹر حیات کے معاملے میں جھوٹ بولنے کے لیے اور آج کی شب اس گروہ سے جان بچانے کے لیے۔ میری پاکٹ میں صرف 175پائونڈ تھے جو میرے کام کی ویکلی پے منٹ تھے۔ اگر یہ چلے جاتے تو میری کئی امیدیں بھی چلی جاتیں۔ کہنے کو یہ بہت معمولی رقم ہے مگر میرے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے۔‘‘ وہ سر جھکا کر کہہ رہی تھی۔ وہ لڑکی بلاکی پر اعتماد تھی۔ خود اعتماد اور خوددار بھی۔ اس کے چہرے میں کچھ تو تھا کہ وہ لیا دیا رہنے والا شخص بھی اسے ایک پل کو دیکھتا رہا تھا۔ تبھی ایلیاہ میر نے نگاہ اٹھائی تھی۔ اس کی سمت دیکھا تھا۔ نگاہ ایک پل کو ملی تھی۔ وہ جانے کیوں جھجک کر نگاہ پھیر گئی۔ گاڑی اس کے گھر کے سامنے رکی تھی تو وہ چونکی تھی۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں یہاں رہتی ہوں؟‘‘ وہ چونکی۔ وہ دیکھتا رہ گیا۔ کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموشی سے گاڑی سے اتر گئی۔ ریان تب تک کھڑا رہا جب تک وہ دروازے تک نہیں گئی۔ ایلیاہ میر نے جانے کیوں دروازے کا ہینڈل گھمانے سے پہلے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ وہ شخص اس کی سمت دیکھ رہا تھا۔ کیا وہ صرف اس کے خیال سے رکاہوا تھا؟ ایلیاہ کے پلٹ کے دیکھنے پر وہ قطعاً اجنبی بن کر نگاہ پھیر گیا اور گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا تھا۔ ایلیاہ میر نے ایک گہری سانس خارج کی تھی اور اندر بڑھ گئی۔
…٭٭٭…
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: کیکٹس کا پھول ازعشناء کوثر سردار

Post by میاں محمد اشفاق »

کھائے پیے پیٹ اٹھو تو صبح اتنی بے نور نہیں لگتی۔ جبکہ اس بات کی امید بھی ہو کہ اس دن کے آغاز کے بعد بھوکا نہیں سونا پڑے گا۔ اس نے بھوکے سونے اور اٹھنے کا تجربہ کیا تھا۔ ایک دن نہیں کئی دنوں تک سو وہ اس سکون اور اطمینان کو محسوس کرسکتی تھی۔ اندر ایک سکون والی کیفیت تھی۔ وہ کھڑکی کھولے دیر تک طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھتی رہی تھی۔ لندن میں بہت کم دن سورج والے ہوتے تھے مگر گرمیوں میں کافی پرفیکٹ سمر ٹائم ہوتا تھا۔ رات نو بجے تک سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ جبکہ سردیوں میں دن کے تین بجے ہی اندھیرا ہوجاتا تھا۔ یہ دن بہار کے تھے اور سمر کے آغاز کے اسے یہ موسم بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اس نے آئینے میں خود کو بغور دیکھا تھا۔ برش کرتے ہاتھ رک گئے تھے۔ وہ کافی لین ہوگئی تھی۔ جب دبئی میں تھی تو دعوتیں اڑا اڑا کر اور ریسٹورینٹس کے کھانے کھا کھا کر اچھی خاصی صحت بن گئی تھی۔ لندن آنے کے بعد تو وہ پیٹ بھر کر کھانا تک بھول گئی تھی۔ تبھی کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے‘ جو بھگتے وہی جانے۔ وہ اتنے دنوں میں پہلی بار مسکرائی تھی۔ جیب میں کچھ پائونڈز کا ہونا بھی کافی اطمینان دے رہا تھا۔
’’میں نے بھوک کے احساس کو کبھی نہیں جھیلا تھا۔ اب پتا چلا یہ احساس اندر کتنا مارتا ہے اور اس سے زیادہ اس بات کا احساس کہ دوسروں کے رزق کا سبب کیسے اور کس طرح بنے گا۔ مجھے خود کھانے سے زیادہ دوسروں کو کھلانے کی فکر تھی۔‘‘ وہ نمرہ کے ساتھ چلتی ہوئی بولی تھی۔ نمرہ مسکرا دی تھی۔
’’چلو شکر ہے تمہیں یہ چھوٹی سی جاب ہی ملی مجھے بہت فکر ہو رہی تھی ارے ہاں یاد آیا تم مسٹر حیات سے ملی تھیں۔ انہوں نے کیا کہا؟‘‘
’’کچھ نہیں‘ وہ کافی بڑے بندے ہیں اور اس وقت مجھے بڑی جاب کی نہیں چھوٹی جاب کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ وہ طنز سے بولی تھی۔ نمرہ کچھ سمجھی نہیں تھی۔

’کیا مطلب؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’اور میں نے تمہیں بتایا نہیں بے چارے واش روم میں گر گئے تھے۔ اچھی خاصی ناک زخمی ہوگئی۔‘‘
’’اوہ‘ کافی گرے ہوئے آدمی معلوم ہوتے ہیں اینی وے میں چلتی ہوں اگر کوئی صبح کی جاب کا بندوبست ہو سکے تو پلیز انفارم کردینا۔ میں صرف دو گھنٹوں کی جاب پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’لیکن تم تو اسٹوڈنٹ ہو نا۔ پارٹ ٹائم ہی جاب کرسکتی ہو۔‘‘ نمرہ نے جتایا تھا۔
’’تم بھول رہی ہو۔ میں اپنی تعلیم ختم کرچکی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی۔ فی الحال میرے پیسے لوٹانے کی کوشش مت کرنا۔ تمہیں اور بھی کئی ضرورتیں ہوں گی۔‘‘ نمرہ نے خیال کر کے بولا تھا۔ وہ سر ہلا کر ٹیوب کی طرف بڑھ گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
خواب بننے کی عمر نہیں ہوتی۔ مگر اس نے اس عمر میں بھی خواب نہیں بنے تھے۔ جب اسے خواب بونے تھے۔ جب موسم بھی تھا اور زمین بھی زرخیز تھی۔
’’کوئی کوئی آنکھیں خواب بننے کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے سوچا۔
’’جانے کیوں تم کو دیکھ کر لگتا ہے تم کیکٹس کا پھول ہو۔ جسے دیکھو تو شاید خوش نما لگے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ کوئی گمنام سماعتوں میں گونجا تھا۔ وہ چلتے چلتے کسی سے بے طرح ٹکرا گئی تھی۔ سوچتے ہوئے چلنا اور چلتے ہوئے سوچنا۔ کبھی کبھی واقعی خطرناک ہوسکتا تھا اس نے سنبھلتے ہوئے سوچا تھا۔ سر اٹھا کر دیکھا اسے گرنے سے بچانے کی سعی کرتا ہوا کوئی اسے تھامے کھڑا تھا۔ وہ بے طرح چونک پڑی تھی۔
’’ریان حق…!‘‘ اس نے اپنی نظروں کے سامنے کھڑے شخص کو باقاعدہ پکارا تھا۔
’’ایلیاہ میر کیا عادت ہے کبھی تو سوچنے کے علاوہ بھی کوئی کام کیاکرو۔‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولا تھا
’’اوہ آئی ایم سوری مجھے دھیان نہیں رہا۔‘‘
’’کبھی اپنے دھیان سے باہر آکر بھی دیکھا کریں۔ اس جہاں سے باہر بھی ایک دنیا ہے۔‘‘
’’اوہ آپ کے پروگرام میں کسی کی پروا کرنا بھی ہے؟‘‘ وہ طنز کرتے ہوئے مسکرائی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکا تھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ ایلیاہ میر نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’میرے ساتھ چلو۔‘‘ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا تھا۔ وہ دوسری بار چونکی۔
’’کہاں… کیوں۔‘‘ وہ بنا سوچے سمجھے بولی تھی۔ وہ بجائے اسے مطلع کرنے کے اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی میں بٹھا کر ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا۔ وہ اس کی ہمت پر حیران رہ گئی تھی۔ جس طرح وہ بد ستور اس کی کلائی تھامے ہوئے تھا اس پر وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی اس لمس سے کوئی خاص احساس ہوا تھا۔ کچھ خاص تھا جو اس سے پہلے محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ جو ویٹر کو مینو آرڈر کر رہا تھا اس کی سمت دیکھنے لگا۔ پھر احساس ہوا تھا کہ اس کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھ میں ہے تبھی اس کی کلائی کو بہت آہستگی سے چھوڑ دیا تھا۔ ’’ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ وہ ایسی مراعات کی عادی نہیں تھی۔ تبھی بولی تھی۔
’’تم سے ضروری بات کرنا تھی۔ اگر تمہیں برا لگ رہا ہو تو اس کھانے کا بل پے کرسکتی ہو۔‘‘ وہ شانے اچکا کر بولا تھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’اوہ‘ اب یہ مت سمجھنا کہ میں تمہاری غربت کا مذاق اڑا رہا ہوں۔ یا تم پر کوئی چوٹ کر رہا ہوں۔ میں مذاق کر رہا تھا۔ میرے پروگرام میں مذاق کرنا شامل ہے۔‘‘ وہ اسے جتاتے ہوئے بولا تھا۔
’’تم نے کبھی کیکٹس کا پھول دیکھا ہے؟‘‘ وہ بولا تو وہ بری طرح چونکی تھی۔ مگر وہ بہت رسانیت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’تمہیں دیکھ کر جانے کیوں اس کیکٹس کے پھول کا دھیان آجاتا ہے۔ جو بے پناہ مصائب میں گھرا ہونے کے باوجود بھی جینے کے لیے مائل دکھائی دیتا ہے اور اپنے اندر ایک بے خوفی رکھتا ہے۔ میں نے کل اپنے گارڈن میں ایک کیکٹس کا پھول دیکھا تھا۔ مجھے اس کی خوب صورتی دیکھ کر جانے کیوں تمہارا خیال آگیا۔ تم اس پھول کی طرح بے فکر ہو‘ نڈر ہو اور حوصلہ مند بھی۔ تم تمام حقائق سے لڑ کر بھی کہنے کا ہنر جانتی ہو اور …!‘‘ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ جب وہ چونکا۔ شاید وہ بہت زیادہ کہہ رہا تھا۔ وہ رک گیا تھا ویٹر کھانا سرو کر گیا تھا۔ اس نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مگر ایلیاہ میر نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ ریان حق نے بغور اس چہرے کو دیکھا تھا جانے کیوں وہ اسے کچھ اداس لگی تھی۔
’’تمہیں اچھا نہیں لگا جو میں نے کیا یا جس طریقے سے کیا؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔ ’’میں صرف تمہاری ہمت کو سراہا رہا تھا اور…!‘‘
’’نہیں ایسی بات نہیں ایسے ہی لفظ کسی اور نے بھی کہے تھے مگر ان لفظوں میں زیادہ کچھ واضح نہیں تھا۔ مجھے حیرت ہے دو لوگ ایک ہی طرح کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘ وہ نظریں نیچی کیے بولی تھی۔
’’کون… کس نے کہا تھا ایسا؟‘‘ وہ چونکا تھا۔

’’میرے فیانسی نے۔‘‘ وہ کہہ کر لب بھینچ گئی تھی۔
’’اوہ۔‘‘ وہ اپنا پورا دھیان اس پر سے ہٹا گیا تھا۔ ’’سو کب شادی کر رہی ہیں آپ؟ ساری تگ و دو اسی لیے ہے۔‘‘ وہ اس کی اسٹرگل کے لیے بات کر رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ پرسکون انداز میں بولی تھی۔ ’’وہ میری زندگی سے کب کا خارج ہوچکا ہے اور یہ چیپٹر میں نے خود کلوز کیا تھا۔ یہ انگیجمنٹ میں نے خود ختم کی تھی۔‘‘
’’کیوں…!‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر نے اسے دیکھا تھا۔
’’میں اس پر بات کرنا مناسب خیال نہیں کرتی۔ مگر اتنا بتا سکتی ہوں کہ یہ تمام اسٹرگل میری فیملی کے لیے ہے۔ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے جو اب میری ذمہ داری ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ وہ کہتے ہوئے اسے کھانے پر مائل کرنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر نے صرف سوپ لیا تھا۔
’’سو مجھے صحیح لگا کہ آپ بہادر ہیں۔ یہ آپ کی بہادری کا تیسرا ثبوت ملا اب تک۔ شواہد کافی گہرے ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’تیسرا ثبوت۔‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’پہلا میرے آفس میں گھس کر‘ دوسرا مسٹر حیات کو پیٹ کر اور تیسرا اس گروہ سے نمٹتے ہوئے اور… آہ سوری یہ تو چوتھا ثبوت بن گیا۔‘‘ وہ اسے مسکرانے پر اکساتے ہوئے بولا تھا۔ شاید وہ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانا چاہتا تھا۔ وہ مسکرا دی تھی۔ وہ بغور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔ پھر آہستگی سے بولا۔
’’میں دیکھنا چاہتا تھا اگر کوئی پھول مسکرائے تو کیسا لگ سکتا ہے۔میں نے کسی کیکٹس کے پھول کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ایلیاہ میر اپنے لب بھینج گئی تھی اور سوپ پینے لگی تھی۔
’’تمہاری ریسٹورنٹ کی جاب کیسی جا رہی ہے؟‘‘ وہ مدعا پر آتا ہوا بولا تھا۔
’’ٹھیک‘ مگر میں نے نمرہ سے ایک اور جاب ڈھونڈنے کے لیے بھی کہہ دیا ہے۔ میں صبح میں فارغ ہوتی ہوں تو اس وقت بھی اویل کرسکتی ہوں۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں بولی تھی۔
’’تو ٹھیک ہے پھر آپ صبح ہی جاب جوائن کرسکتی ہیں۔‘‘ اس نے اچانک کہا۔
’’صبح… کیسے‘ میرے پاس ابھی صبح کے لیے کوئی جاب نہیں ہے۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولی تھی۔
’’میرے گھر میں ہائوس کیپر کی جاب کرو گی؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔ وہ چونکی تھی۔
اتنے مشکل حالات کے بعد اب برا وقت جیسے اپنے پر سمیٹ رہا تھا۔ اسے تعرض سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا اور انکار کر کے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ تبھی سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔ اسی شام وہ سامان پیک کر کے ایسٹ لندن سے Belgravia آگئی تھی جو لندن کا ہی ایک امیر ترین رہائشی علاقہ تھا۔
اس نے شاید ویسا گھر اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ وکٹوریہ جو دیگر امور سنبھالنے پر مامور تھی نے اسے پورا گھر دکھایا تھا اور پھر اسے اس کی جاب سمجھائی تھی۔ ریان حق نے اسے نہیں بتایا تھا کہ وہ اسے کتنا پے کرنے والا ہے۔ مگر اسے امید تھی کہ اس سے اتنا مل سکے گا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے ایک معقول رقم گھر بھجوا سکے۔ اس شام ندا ماسو سے بات ہوئی تھی۔
’’مجھے سن کر خوشی ہوئی تم نے ایک اچھی جاب حاصل کرلی ہے۔ انتھک محبت کرنے والوں کی اللہ بھی مدد کرتا ہے۔ مگر ایلیاہ تم اس طرح خود کو اگنور مت کرو۔‘‘
’’میں کہاں خود کو اگنور کر رہی ہوں ماسو۔‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ ’’آج کل تو خوب پیٹ بھر کر کھانے لگی ہوں۔ یہاں کھانااور رہائش فری ہے۔ سو پہلے کی طرح دو لڑکیوں کے ساتھ ایک روم بھی شیئر نہیں کرنا پڑتا اور میں جو جی چاہتا ہے کھاتی ہوں۔ ان فیکٹ یہاں آکر تو میرا ویٹ بھی ایک دو پائونڈ بڑھ گیا ہے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’میرا مطلب وہ نہیں ایلیاہ تمنا ڈاکٹر بننے جا رہی ہے اور جامی بھی اپنا تعلیمی سفر کامیابی سے کر رہے ہیں میں بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے یہاں موجود ہوں۔ تم اپنے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں؟
اب تو حمزہ سے سلسلہ ختم ہوئے بھی کئی سال ہو گئے۔ بیٹا تم اپنی زندگی کی راہ تلاش کرنے میں عار مت جانو۔ اچھی زندگی جینے کا حق ہے تم خواب دیکھنے سے ہچکچائو مت۔‘‘
’’ماسو جانے دیں نا بقول حمزہ کے میں کیکٹس کا پھول ہوں۔ شاید اسے میرے ارد گرد زیادہ ہی کانٹے دکھائی دیتے تھے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔ ’’ویسے فی الحال میں اپنا سوچنا نہیں چاہتی سب کی تعلیم مکمل ہوجائے۔ اپنے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو سوچوں گی۔‘‘ وہ بولی تھی۔
’’ایلیاہ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں تم سب کے خواب پورے کرتے کرتے خود خواب نہ بن جائو۔ اپنے خوابوں کو خواہشوں کو اس طرح غیر اہم مت جانو۔ جامی‘ ثناء اور تمنا کے لیے ہم بھی ہیں نا۔‘‘
’’اوکے ماسو مگر فی الحال زندگی کچھ کٹھن ہے اس دور سے باہر آنے دو پھر دیکھیں گے۔ میں چاہتی ہوں کل کو کوئی مجھے الزام نہ دے یوں بھی اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ اس کے پیچھے کھٹکا ہوا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ریان حق کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر شاید مروت سے مسکرایا تھا۔ کیا وہ اس کے اور ماسو کے درمیان ہونے والی گفتگو سن چکا تھا؟
’’کیسی جا رہی ہے جاب اچھا لگ رہا ہے؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔
’’ہوں…!‘‘ اس نے سر ہلایا تھا۔
’’تم دادی اماں سے ملی ہو۔ وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آتیں۔ تمہیں ان سے ملنے خود ان کے کمرے میں جانا پڑے گا۔‘‘ ریان حق نے کہا تھا۔
’’ہاں جانتی ہوں مجھے وکٹوریہ نے پہلے ہی دن ان سے ملوادیا تھا۔ دادی سے مل کر بہت اچھا لگا۔ ان کا ادبی ذوق عمدہ ہے۔ ان کے لیے بکس پڑھنا اچھا لگا مجھے۔‘‘ وہ مطلع کرتی ہوئی بولی۔ تو وہ مسکرادیا تھا۔
’’اوہ‘ تو تم ان کے لیے بک ریڈنگ بھی کر رہی ہو۔ دادی اماں کو کتابوں سے عشق ہے۔‘‘
’’صرف آپ اور دادی اماں ہی اس گھر میں رہتے ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ہاں فی الحال ٹینا کچھ دنوں کے لیے جرمنی گئی ہوئی ہے۔‘‘
’’ٹینا؟‘‘ اس نے زیر لب دہرایا تھا۔
’’میری جرمن گرل فرینڈ۔‘‘ اس نے مختصر بتایا تھا۔ ایلیاہ میر کو جانے کیوں سن کر اپنے اندر سکوت پھیلتا لگا تھا۔
’’ممی‘ ڈیڈی کی ڈیتھ کے بعد بہت عرصہ صرف میں اور دادی اماں اس گھر میں رہے پھر ٹینا میری زندگی میں آگئی۔ اس کے آنے سے ایک تبدیلی آئی کہ گھر کا سکوت کچھ ٹوٹ گیا۔ اسے میوزک کا شوق ہے۔ اس کا ایک بینڈ ہے جس کی وہ لید واکلسٹ ہے۔ کئی gigs کرچکی ہے وہ۔ ان فیکٹ کئی ایک gigs تو میں بھی اٹینڈ کر چکا ہوں۔ وہ ماڈلنگ بھی کرنا چاہتی ہے اور فلموں میں کام بھی۔ میں چاہوں تو یہ ممکن ہے۔ مگر میں اس میں اس کی مدد کرنا نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں وہ صرف میوزک تک محدود رہے۔ ٹینا ایک سیلف میڈ لڑکی ہے۔ وہ بھی اپنے بل بوتے اور اپنی صلاحیتوں کے سہارے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ آئی ہوپ تمہیں اس گھر کے تیسرے فرد سے مل کر بھی اچھا لگے گا۔‘‘ وہ مسکرا دیا تھا۔ وہ رسماً مسکرا دی تھی۔
خواب دیکھنا شاید اتنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ خوابوں خیالوں کی دنیائوں سے واقف نہیں تھی یہ سفر یقیناً مہنگابھی پڑ سکتا تھا سو اس نے خواب نہ دیکھنے اور خواب جزیرے پر نہ جانے کا قصد کیا تھا اور کام میں مصروف ہوگئی تھی۔
شام میں جب گارڈن میں تھی تو کیکٹس کے پھولوں پر نگاہ پڑی تھی۔ وہ بے ساختہ ان کے قریب آگئی اور پھولوں کو چھو کر دیکھنے لگی تھی تبھی کیکٹس کے کانٹوں نے اس کے ہاتھ کو زخمی کیا تھا۔
’’آہ۔‘‘ اس کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔ جانے ریان حق کہاں سے اس کے پیچھے آن رکا تھا۔ اس کے ہاتھ کو تھاما تھا اور دبا کر خون نکال کر اپنے رومال سے صاف کرنے لگا تھا۔
’’ممی کہتی تھیں اگر کچھ چبھ جائے تو باقی کا رکا ہوا بلڈ دبا کر نکال دینے سے سپٹک نہیں ہوتا۔ آئو میں تمھارے ہاتھ میں بینڈیج کروا دوں۔‘‘ وہ بولا تھا۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ کھینچنا چاہا تھا۔ مگر وہ اس پر مائل دکھائی نہیں دیا تھا۔ اسے اندر لے گیا تھا اور اینٹی سیپٹک سے اس کے زخم صاف کر کے ان پر چھوٹی چھوٹی پٹیاں لگانے لگا تھا۔
’’آپ…!‘‘ اس نے کچھ کہنے کے منہ کھولا تھا۔
’’شش…!‘‘ ریان حق نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ ساکت سی اس کی سمت تکنے لگی تھی۔ کچھ تھا اندر دل بہت تیزی سے دھڑکا تھا۔ اس شخص کے قریب بیٹھنے سے بات کرنے سے اندر کوئی لگن لگنے لگی تھی۔ کچھ عجیب محسوس ہونے لگا تھا جو اس سے پہلے محسوس نہیں ہوا تھا۔ کیا یہ خواہشوں کا انبار تھا جو اس کے اندر لگتا جا رہا تھا یا کوئی اور احساس تھا۔ یہ صرف دل کا دھڑکنا تھا یا پھر… کچھ اور…؟ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’محبت! محبت ہوئی ہے تمہیں؟‘‘ یک دم پوچھنے لگا تھا۔ یہ اچانک محبت کی بات کیوں آغاز ہوئی تھی؟ وہ بے طرح چونک پڑی تھی۔
محبت بھی کیکٹس جیسی ہوتی ہے‘ کتنے بھی خار کیوں نہ لگے ہوں‘ ذہن یہ جانتا ہی کیوں نہ ہو مگر پھر بھی‘ محبت کے قریب جانے کو دل چاہتا ہے‘ اسے چھونے کو دل چاہتا ہے‘ یقین کرنے کو دل کرتا ہے‘ محبت شاید اتنی ہی عجیب ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر کو اس کی سمت دیکھنا محال لگا تھا‘ وہ اپنی نظریں پھیر گئی تھی‘ ساتھ ہی گردن کا رخ بھی‘ ریان حق نے ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ اپنی سمت موڑا تھا۔
’’تم یقین کرو یا نہ کرو۔ مگر مجھے جانے کیوں لگتا ہے کہ تم محبت جیسی ہو‘ انوکھی‘ پُرکشش‘ پُر یقین‘ نڈر‘ بہادر اور بھرپور خالص‘ مجھے حیرت ہے محبت سے کبھی تمہارا ساتھ کیسے نہیں پڑا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ایلیاہ میر! تم اتنی خوف زدہ کیوں ہو؟ میں نے محبت کو نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے وہ خوف زدہ نہیں ہوتی ہوگی اور اگر ہوتی ہوگی تو شاید تمہارے جیسی دکھتی ہوگی‘ ان آنکھوں میں کچھ تو ہے شاید کوئی راز؟ تم ان رازوں سے ایک ایک کرکے پردہ اٹھائو گی تو میری مشکل آسان ہوجائے گی یا پھر تم ایسا کرکے میری مشکل اور بڑھا دو گی؟‘‘ بہت مدہم لہجے میں وہ کہہ رہا تھا‘ ایلیاہ میر کے لیے وہاں رکنا محال ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی نظروں کی تپش سے جلنے لگا تھا۔ وہ ایسا کیسے ہوگیا تھا؟ اچانک سے اس کے قریب کیوں آرہا تھا؟ اس کا اندر‘ اس کا دل‘ سارا وجود بدل رہا تھا‘ یہ تغیر کیسے رونما ہوا تھا؟
ریان حق نے ایک پل میں ساری دنیا کو اپنے سنگ کیسے باندھ لیا تھا؟ وہ ناقابل حصول تھا‘ ناقابل رسائی تھا۔ وہ کیوں اس سے بندھ رہی تھی؟ کیوں اس کے دیکھنے سے دل کے زمانے اس کے ساتھ بندھ رہے تھے؟ وہ یک دم گھبرا کر اٹھی تھی۔ ریان حق نے ہاتھ تھام لیا تھا‘ وہ پلٹ کر دیکھنے لگی تھی۔
وہ اس کی سمت بغور دیکھ رہا تھا‘ ایلیاہ میر کی جان مشکل میں گھرنے لگی تھی۔
’’میں حیران ہوں‘ میں بہت حیران تھا‘ جب تم سے پہلی بار ملا تھا میں ایسی کسی لڑکی سے پہلے کبھی نہیں ملا‘ مجھے قبول کرلینے دو کہ میں نے زندگی میں تمہاری جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔ تم دوسروں سے الگ ہو‘ کچھ عجیب ہو‘ نہیں جانتا میں کیوں سوچ رہا ہوں مگر تم سے ملنے کے بعد کئی بار تمہیں سوچا‘ تم بہت انوکھی لگیں۔ مجھے کبھی محبت نہیں ہوئی‘ اس کے لیے وقت نہیں شاید محبت اتنی ہی انوکھی ہوتی ہے؟ مگر…‘‘ وہ رکا تھا۔ ’’میں نہیں جانتا کیا ہے مگر تم اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہو‘ بالکل محبت کی طرح۔ تم اس دنیا کی نہیں لگتیں‘ میں الجھن میں ہوں‘ فی الحال سمجھ نہیں پارہا یا پھر تمہیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پارہا‘ مجھے پوری عقل کو شامل کرنے دو پھر کسی نتیجے پر پہنچوں گا شاید یا پھر تمہیں سمجھنے کے لیے عقل و خرد کو ایک طرف رکھنا ہوگا؟‘‘ اسے سوالیہ نظروں سے تکتا وہ کچھ الجھا ہوا دکھائی دیا تھا اور الجھ تو وہ بھی گئی تھی۔ وہ ہاتھ چھڑا کر وہاں سے نکل گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
تمنا‘ ثنائ‘جامی خوش تھے‘ انہیں معقول رقم مل گئی تھی‘ انہوں نے کڑا وقت نہیں جھیلا تھا‘ وہ خود دھوپ میں جل رہی تھی اور انہیں چھائوں دے رہی تھی۔ اپنے بارے میں وہ نہیں سوچ سکتی تھی اور اگر سوچ بھی لیتی تو اس شخص کے متعلق تو بالکل نہیں سوچ سکتی تھی۔
وہ سوکر اٹھی تھی‘ معمول کے مطابق دن کا آغاز کیا تھا اس شخص کے سامنے دانستہ نہیں گئی‘ وہ پر یقین تھی کہ ریان حق کے دل و دماغ میں کچھ نہ تھا‘ بے تکلفی سے بات کرنا اس کی عادت تھی‘ وہ اس ماحول میں پلا بڑھا تھا۔ وہ دوستانہ انداز رکھتا تھا‘ جو تھا وہ اس کی طرف سے تھا۔ وہ خود تھی جو غلط سوچ رہی تھی اور وہ ایسا سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے صرف وہ اس لیے انوکھی لگی تھی کیونکہ وہ اس طرح کی لڑکیوں سے واقف نہیں تھا۔ اسے مشرقی لڑکیوں سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ شاید اس لیے وہ اس کے اثر میں تھا اور وہ اسے انوکھی لگ رہی تھی‘ شاید تبھی وہ اس سے مل کر حیران تھا اور الجھا ہوا تھا۔
سہ پہر میں جب وہ دادی اماں کو کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی تبھی گھر میں غیر معمولی شور کا احساس ہوا تھا۔
’’اُف! لگتا ہے وہ جرمن بلی آگئی۔‘‘ دادی نے کہا تھا‘ اسے جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ دادی کس کی بات کررہی تھیں۔
’’تم نے چیزوں کی ترتیب تو نہیں بدلی؟ اسے اس بات سے سخت چڑ ہے‘ ریان کی زندگی میں یا اس کے گھر میں کوئی مداخلت کرے تو پھر اس کی خیر نہیں‘ تم سے پہلے تین ہائوس کیپر برخاست کرچکی ہے وہ۔‘‘ دادی نے بتایا تھا۔
اف! اس نے کئی تبدیلیاں کی تھی سو کیا اب اس جاب کو گنوانے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا؟ شاید وہ وکٹوریہ پر برس رہی تھی‘ وکٹوریہ بھاگی بھاگی اندر آئی تھی۔
’’مس میر! آپ باہر آئیں‘ میڈم آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘
اوہ! اس کے لیے بلاوا آگیاتھا‘ تو کیا اب اس کی خیر نہیں تھی؟ ایلیاہ میر ڈرتے ڈرتے اٹھی تھی اور ٹینا کے سامنے چلتی ہوئی آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’یہ سب تم نے بدلا؟ وہ سامنے دیوار کی پینٹنگ‘ اس لیونگ روم کے کرٹین؟ میرے کمرے میں اشیاء کی ترتیب؟‘‘ ٹینا نے اسے گھوراتھا۔ اس نے ابھی اثبات میں سر نہیں ہلایا تھا جب ریان حق اس کے مقابل آن رکا تھا‘ اس سے پہلے کہ ٹینا اس پر غصہ نکالتی یا اسے جاب سے برخاست کرتی۔ وہ بول پڑا تھا۔
’’ٹینا! اسے ایسا میں نے کہا‘ مجھے لگا تمہیں یہ تبدیلی اچھی لگے گی‘ جو بھی ہوا میری مرضی سے ہوا ۔‘‘ وہ اسے سپورٹ کررہا تھا یا اسے صرف اس کے غصے سے بچا رہا تھا؟ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا‘ تبھی وہ اس کی سمت دیکھتا ہوا بولا تھا۔
’’ایلیاہ! تم جائو یہاں سے۔‘‘ اس کے حکم پر وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ دروازے کے قریب جاکر اس نے جانے کیوں پلٹ کر دیکھا تھا۔ وہ دونوں قریب تھے‘ اس کے اندر جانے کیوں دور تک خاموشی پھیلنے لگی تھی۔
ٹینا کے آجانے سے جانے کیوں اس کے اندر کے موسم خاموشیوں میں گھر گئے تھے‘ ایسا کیوں تھا؟ کیوں وہ ریان حق کو ٹینا کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی‘ کیوں یہ اتنا عجیب سا لگ رہا تھا؟ کیوں وہ بے چین ہورہی ہے؟ یہ اضطراب رگ و پے میں دور تک پھیل رہا تھا؟ وہ عجیب مشکلوں میں گھر گئی تھی‘ یہاں رکنے سے پہلے کچھ اور مسائل میں گھری تھی اور یہاں آکر کچھ عجیب نوعیت کی مشکلات اس سے بھی دوگنا بڑھ گئی تھیں‘ ان مشکلات سے وہ مشکلات زیادہ بہتر تھیں‘ تب سکون تو تھا‘ چین تو تھا۔
اس نے کچن کے دروازے میں رک کر گہری سانس خارج کی تھی۔ جب اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا‘ اس نے پلٹ کر دیکھا‘ اس کا لائٹ آف کرتا ہاتھ وہیں رک گیا‘ وہ اس کے قریب آرکا۔
’’آج کل کچھ کم دکھائی دے رہی ہو‘ ٹینا سے بہت ڈر لگتا ہے؟‘‘ اس کا مکمل جائزہ لیتا ہوا وہ بغور دیکھ رہا تھا‘ اس نے سر نفی میں ہلادیا تھا۔
’’میں یہاں جاب کے لیے ہوں‘ جاب کے دوران غلطی ہوجائے تو ڈانٹ پڑسکتی ہے‘ ٹینا اس گھر کی مالکن ہیں‘ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی ان کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘ وہ مخصوص پروفیشنل انداز میں بولی تھی۔ ریان حق نے خاموشی سے اس کی سمت دیکھاپھر اور قریب آگیا اور دیوار پر ایک ہاتھ رکھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے وہاں سے نکل جانے کی ہر راہ مسدود کردی تھی۔
’’لگتا ہے تم بعید جاننے لگی ہو…‘‘ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مدہم لہجے میں بولا۔
’’لگتا ہے تمہیں خبر ہونے لگی ہے‘ یہ جو آنکھوں میں رتجگوں کا شمار ہے یہ یوں ہی نہیں ہے یا پھر اس کا بھی کوئی بعید ہے؟‘‘ بہت مدہم سرگوشی تھی۔ ایلیاہ کی ساری جان ایک پل میں مٹھی میں سمٹی تھی۔ ساری خود اعتمادی ایک پل میں اڑنچھو ہوئی تھی‘ کوئی کہہ سکتا تھا یہ وہی ایلیاہ میر تھی جو دیدہ دلیری کی حد کرتے ہوئے ایک بندے کو پنچ مار سکتی تھی یا نڈر ہوکر کسی کی بھی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال سکتی تھی‘ اس لمحے وہ کیسی چاروں شانے چت کھڑی تھی‘ کیا شکست خوردہ سا انداز تھا‘ جیسے وہ کوئی مزاحمت کر ہی نہیں سکتی ہو‘ ریان حق نے اس کے چہرے کو بہت آہستگی سے چھوا تھا۔
’’محبت یہی ہے‘ ایسی ہی ہوتی ہے یا پھر یہ سارے بھیدوں سے واقفیت پانے کا احساس ہے اور یہ نگاہ اس لیے جھکی ہے کہ اگر ملی تو سارے راز افشا ہوجائیں گے۔ شکست خوردہ انداز ‘ یہ ڈری سہمی نظر‘ یہ سانسوں میں تلاطم‘ اس کے اسباب ڈھونڈنے میں کتنی دیر لگتی ہے ایلیاہ میر؟‘‘ ایلیاہ میر اس کی سمت دیکھنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی تھی مگر وہ اس آہنی دیوار کو نہیں ہٹا پائی تھی‘ اس کوشش میں سر اس کے سینے سے جاٹکرایا تھا‘ اس کی مخصوص خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسنے لگی تھی‘ اس کی گرم گرم سانسیں اس کے چہرے سے ٹکرارہی تھیں‘ اس کے حواس خطا ہونے لگے تھے۔
’’گہرے سمندروں سے محبت ہے تو پھر سمندروں میں طغیانی کیوں لاتی ہے یہ محبت؟ کچھ سوچنے سمجھنے کیوں نہیں دیتی؟کناروں پر رکو تو سفر پر مائل کیوں ہے؟ اور رک جائو تو بے چینیوں کو سوا کیوں کرتی ہے؟ پوچھو اس محبت سے‘ بات کرو یا کہو اس محبت سے بے بس نہ کرے۔‘‘ وہ جنونی انداز میں اس کے کانوں میں سحر پھونک رہا تھا۔
کیا تھا‘ کیوں تھا؟ جیسے دل کسی نے مٹھی میں کیوں لے لیا تھا؟ وہ آنکھیں میچ گئی تھی یا پھر اس میں سکت ہی نہیں تھی کہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھ سکتی‘ سامنا کرسکتی۔
’’ایلیاہ میر… الجھنوں میں تیرتے رہنے سے سرا ہاتھ نہیں آتا‘ سرا ہاتھ میں لینے کے لیے دھڑکنوں کو سننا‘ آنکھوں کو پڑھنا‘ فاصلوں کو سمیٹنا ضروری ہوتا ہے اورفاصلوںکو سمیٹنے کے لیے خالی ہاتھ نہیں چلا جاتا‘ ہاتھ تھامناضروری ہوتا ہے۔‘‘ اس نے ایلیاہ میر کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا اور ایلیاہ میر اس گھڑی جیسے طوفان کی زد پر تھی‘ سارا وجود کانپ رہا تھا‘ جیسے سمندر میں طغیانی آجائے تو نائو ڈول جاتی ہے۔
’’سمندروں میں بے سمت سفر نہیں کیا جاتا ایلیاہ میر! سمندروں کے سفر سے سمتوں کا تعین کرنے کے لیے دل سے پوچھا جاتاہے۔ صرف دل کی سنو اور جانو کہ کیا کہتا ہے اور نظر کے لیے اور محبت کے لیے کیا ضروری ہے‘ جانتی ہو؟‘‘ مدہم سرگوشی اس کے کان کے قریب ہوئی تھی۔
’’محبت کے لیے محبت ضروری ہوتی ہے ایلیاہ میر! محبت کو جیتنے کے لیے صرف محبت سے جیتا جاتا ہے‘ اگر ذرا سی بھی حقیقت ہے تو میری نظروں میں جھانکو اور دیدہ دل وا کرو‘ اسی بہادری سے جیسے پہلے دن میرے آفس میں گھسی تھیں۔ اگر کچھ حقیقت ہے تو خرد کو ایک طرف رکھ دو‘ دل کو فیصلہ کرنے دو کہ کبھی کبھی عقل کو تنہا چھوڑ دینا بھی ضروری ہوتا ہے‘‘ وہ مدہم سرگوشی میں اس کی سماعتوں میں کوئی جادو پھونک رہا تھا‘ اسے لگا تھا کہ اس کے گرد محبتوں نے حصار کھینچ دیا ہو اور وہ بالکل بے بس ہوگئی ہو‘ وہ شخص جنونی ہورہا تھا‘ کیا تھا یہ؟ کیا حقیقت تھی؟ ٹینا جو اس کے حوالے سے اس گھر میں تھی؟ یا پھر اس کا یہ پل‘ جب وہ اس کے قریب تھا‘ کیا تھا سچ؟
ایلیاہ میر نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو دیکھا تھا پھر بہت سہولت سے اسے پرے دھکیلا تھا اور وہاں سے نکل گئی‘ وہ نہیں جانتی تھی سچ کیا تھا‘ مگر اسے اپنا سارا وجود شل لگ رہا تھا‘ جیسے وہ کسی محاذ سے لوٹی تھی مگر وہ فاتح نہیں لوٹی تھی۔ کچھ تھا جو وہیں رہ گیا تھا‘ اسے اپنا آپ بہت ادھورا لگا تھا‘ کیسا احساس تھایہ؟ کیوں تھا؟وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’کیا ہوا؟ تم اتنی کھوئی کھوئی کیوں ہو؟‘‘ دادی اماں نے پوچھا۔ اس نے سر نفی میں ہلادیا تھا۔
’’ٹینا نے کچھ کہہ دیا؟ تم اس کی باتوں کا برا مت ماننا‘ دل کی بری نہیں ہے‘ ویسے یہ جرمن لوگ کچھ Weird ہوتے ہیں‘ ان کی سمجھ زیادہ نہیں آتی بڑے ان پری ڈکٹیبل قسم کے ہوتے ہیں مگر ایک بار سمجھ آجائے تو پھرنبھا آسان ہوجاتا ہے‘ دیکھو ریان کے کتنے قریب ہے وہ۔‘‘ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’آپ کو بہت پسند ہے وہ؟‘‘ وہ جانے کیا جاننا چاہتی تھی۔
’’میری پسند نا پسند کی بات نہیں‘ میں کچھ دیسی ہوں‘ جس مٹی میں پیدا ہوئی اس مٹی کی خوشبو بھاتی ہے۔ تم اچھی لگتی ہو تبھی تو ساتھ بٹھا کر گھنٹوں باتیں کرتے رہنا چاہتی ہوں‘ ریان کے دادا‘ میں اور ریان کے ڈیڈی جب یہاں انگلینڈ میں آئے تھے تو ریان کے ڈیڈی بہت چھوٹے سے تھے‘ ریان یہیں پیدا ہوا‘ ریان کا باپ بھی یہیں پلا بڑھا‘ ان لوگوں نے اس زمین کو اپنا لیا‘ مگر ہمارے لیے اب بھی اپنی مٹی اور زمین کی قدر ہے‘ برسوں گزر گئے اس دیس کوچھوڑے مگر آج تم سے ملی تو اپنی مٹی کی مخصوص خوشبو آئی‘ اگر میرا بس چلے تو ریان کے لیے کوئی اپنے ہی دیس کی لڑکی ڈھونڈ کر دلہن بناکر لائوں مگر ریان کو مشرقی لڑکیاں زیادہ بھاتی نہیں‘ دو چار رشتے داروں سے کہہ کر رشتے دکھائے ہیں مگر ریان ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب تک تین گرل فرینڈز بدل چکا ہے اور ان میں کوئی ایک بھی دیسی نہیں‘ ایک آئرش تھی‘ دوسری انگلش اور تیسری یہ ٹینا جو جرمن ہے۔ مجھے لگتا ہے ان لڑکیوں میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے‘ ماڈرن سوچ کی نہیں ہوتیں۔ عجیب چھوٹی موٹی ٹائپ ہوتی ہیں‘ انہیں قدم سے قدم ملا کر چلنا نہیں آتا۔ آج تک کسی مشرقی لڑکی کے قریب سے نہیں گزرا ‘ کہتا ہے انہیں دیکھتے ہی Touch me Not کی آواز آتی ہے‘ اب تو میں بھی کسی مغربی بہو کے لیے مائنڈ سیٹ کرلیا ہے‘ اگر ریان کی ماں زندہ ہوتی تو شاید وہ اس کی سنتا‘ مگر اب ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔‘‘ دادی اماں نے افسوس سے کہا تھا۔
’’ریان کے ممی ڈیڈی کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں‘دونوں ایک ساتھ چلے گئے۔ ریان کو اس کا بہت گہراصدمہ ہوا ‘ تبھی چپ سا ہوگیا‘ کئی برسوں تک تو نہ ہنستا تھا نہ بات کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آہی جاتی ہے سو ریان کو بھی سچائی ماننا پڑی ۔ گئے ہوئوں کو واپس نہیں لایا جاسکتا‘ مگر وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘
’’ریان حق محبت کرتے ہوں گے ٹینا سے؟‘‘ اس نے دل میں آیا سوال پوچھا تھا‘ دادی مسکرادیں۔
’’بیٹا! پچھلے دو سال سے وہ گھر میں ہے‘ محبت ہوگی تو ساتھ ہے نا۔ ہم ٹھہرے پرانے وقتوں کے لوگ‘ ہمارے لیے محبت دو لوگوں کا اور خاندانوں کا قانونی اور مذہبی طور پر جڑنا ہوتا تھا۔ محبت اس رشتے کے بعد شروع ہوتی تھی‘ آج کل یہی رسمیں نہیں نبھائی جاتیں‘ ان مغربی ملکوں میں تو بالکل بھی نہیں‘ ان کے لیے تو محبت بھی فاسٹ فورڈ ہے یا کوئی Smothy یا ڈرنک ادھر غٹا غٹ اندر اور نشہ ہرن۔‘‘ دادی بدگمان دکھائی دی تھیں۔
’’اس کے لیے آپ ریان حق کو قصو وار نہیں ٹھہرا سکتیں‘ وہ ایسا بن سکا کیونکہ وہ اس ماحول میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا‘ اگر وہ کسی مشرقی ماحول میں پرورش پاتا تو شاید وہ ایسا ہی ہوتا۔‘ ایلیاہ میر نے اس کی حمایت کی تھی۔ وہ انگلش لوگوں کی طرح دوستانہ مزاج رکھتا تھا‘ اچھا حس مزاح رکھتا تھا‘ سو جہاں بہت سی چیزیں وہ نہیں سیکھ پایا تھا وہیں کچھ اچھی چیزیں تو اس نے‘ اس ماحول سے آڈاپٹ کرہی لی تھیں‘ اس کی اس اچھائی کو تو اس نے بھی مانا تھا‘ جس طرح وہ برے دور سے گزر رہی تھی اگر وہ اس کی مدد نہ کرتا تو آج شاید وہ اس سے بھی بدترین صورت حال سے دوچار ہوتی‘ وہ اتنا برا نہیں وہ سر جھکا کر سوچنے لگی تھی۔ اگر اسے مشرقی لڑکیوں سے لگائو نہیں تھا تو اس سے …کیا جاننے کے لیے اس نے دادی اماں سے اتنی بات چیت کی تھی اور کھلا کیا تھا؟ اس کا دل بہت سکوت سے بھر گیا تھا۔
ؤ…ز …ؤ
’’تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘ وہ لیونگ روم میں تھی جب ٹینا نے اسے آلیا تھا۔ وہ چونک کر اس کی سمت دیکھنے لگی تھی‘ ٹینا کو اس کی خاموشی سے الجھن ہوئی تھی تبھی دوبار پوچھنے لگی تھی۔
’’میں نے تم سے پوچھا تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
’’اوہ! تم غیر قانونی یہاں ہو؟‘‘ وہ سخت لہجے میں بولی تھی۔
’’نہیں‘ میں نے اپنے ویزا کو Extend کرنے کے لیے اپلائی کیا ہے سو پاسپورٹ یو کے بارڈر ایجنسی میں جمع ہے۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’اوہ! تب تمہارا کام کرنا بھی قانوناً نہیں‘ تمہیں یہ رعایت اس لیے ملی ہوئی ہے کیونکہ ریان کے گرینڈز کی کنٹری سے ہو۔‘‘ وہ اپنے مخصوص جرمن لہجے میں انگلش بول رہی تھی۔ اسے یہ چھان بین بہت بُری لگی تھی‘اس کا فطری غصہ عود کر آیا تھا۔
’’ایکسکیوزمی‘ میں تمہاری ملازم نہیں ہوں‘ سو تمہیں مجھ سے پوچھ گچھ کا حق بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ کٹے ہوئے لہجے میں بولی تو ٹینا اس کے پراعتماد ‘ انداز اور ایٹی ٹیوڈ پر حیران رہ گئی تھی۔
’’آئندہ مجھ سے ایسے سوالات مت کرنا۔‘‘ وہ کہہ کر وہاں سے نکل گئی تھی‘ کچھ فاصلے پر کھڑے ریان حق نے اسے بغور دیکھا تھا اور ٹینا کے قریب آگیا تھا۔
’’تمہیں ایلیاہ میر سے ایسے بات نہیں کرنا چاہیے‘ اسے میں نے یہاں جاب دی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ اس سے سوالات کرنے کا حق بھی صرف تمہیں حاصل ہے؟‘‘ ٹینا نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا تھا‘ ریان حق سنجیدگی سے دیکھنے لگا تھا پھر شانے اچکادیئے تھے۔
’’جیسا تم سمجھو۔‘‘ ٹینا اس کے انداز پر چڑ گئی تھی۔
’’کیا؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’مجھے یہ لڑکی بالکل مناسب نہیں لگتی‘ کچھ عجیب ہے۔ اس کے اندر خوامخواہ کی اکڑ ہے‘ تیسری دنیا کی ایک چھوٹی سی کنٹری سے ہے اور بات ایسے کرتی ہے جیسے کہیں کی پرنسس ہو۔‘‘ وہ تپے لہجے میں کہہ رہی تھی‘ ریان کو یہ الفاظ اچھے نہیں لگے تھے۔
’’ٹینا انسان کی عزت کرنا سیکھو‘ ایک انسان کی عزت بڑی یا چھوٹی‘ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر کنٹری کے باعث نہیں ہوتی‘ بہ حیثیت انسان ہوتی ہے‘ وہ بہت پڑھی لکھی اور قابل لڑکی ہے‘ وہ اتنی چھوٹی جاب کرنے پرمجبور ہے کیونکہ اس کا ویزا Expired ہوگیاہے‘ وہ کسی سے بدتر ہے نہ کم تر۔‘‘ وہ اسے بھرپور ڈی فنڈ کررہا تھا‘ ٹینا نے اسے چپ چاپ دیکھا اور پھر وہاں سے چلی گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
’’کہاںغائب ہو تم؟ ایسی گئیں کہ پلٹ کر خبر بھی نہیںلی؟ لگتا ہے کافی اچھی جاب مل گئی ہے جو دوست بھی بھول گئے؟‘‘ نمرہ فون کرکے شکوہ کررہی تھی‘ وہ مسکرادی تھی۔
’’ارے نہیں تمہیں بھول سکتی ہوں بھلا‘ یہاں آکر مصروفیت کچھ بڑھ گئی ہے‘ اب مجھے لگ رہا ہے کہ ہائوس کیپنگ کرنا اتنا آسان کام نہیں‘ سچ نمرہ! اتنا بڑا گھر ہے‘بالکل کسی محل سا‘ میرے تو گمان میں بھی نہیں تھا ایک دن اتنے بڑے گھر میں رہوںگی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی تھی‘ نمرہ مسکرادی تھی۔
’’کہیں ارادہ قبضہ جمانے کا تو نہیں؟ ریان حق خاصا ہینڈسم ہے اور…‘‘
’’کم آن نمرہ! ڈونٹ بی اسٹوپڈ‘ ریان حق کی گرل فرینڈ ہے اور مجھے دوسرں کے حق غصب کرنے کا کوئی شوق نہیں‘یوں بھی ریان حق مشرقی لڑکیوں سے دس فٹ دور بھاگتا ہے‘ اسے ٹچ می ناٹ والا دیسی امیج بالکل بھی پسند نہیں۔‘‘ ایلیاہ نے بتایا۔
’’اوہ! یہ تو ٹھیک نہیں‘ تم قائل کرلو نا اسے؟‘‘ وہ چھیڑنے لگی تھی۔ ’’اسے بتادو‘ ہم مشرقی لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں‘ یوں بھی دیسی ہونے کے ناتے پہلا حق تو ہمارا ہی بنتا ہے‘ آخر کو ہم پاکستانی ہی تو ہیں۔‘‘

نمرہ مسکرائی تھی۔
’’وہ خود کو انگلش اور برٹش کہلانے میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہے۔‘‘ ایلیاہ نے گہری سانس لیا۔ ’’تم بتائو کیا کررہی ہو آج کل؟‘‘ وہ بات بدلتے ہوئے بولی۔
’’کچھ خاص نہیں یار! شادی کا بہت موڈ ہورہا ہے مگر لگتاہے یہ لکیر میرے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ کون سی لکی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی شادیاں ہوتی ہیں اور جن کی شادی کی فکروں میں ان کے گھر والے گھلے جاتے ہیں‘ یہاں دیکھو سال پر سال گزر رہے ہیں‘ یہاں پرائے دیس میں کماتے ہوئے اور گھر چلاتے ہوئے کسی کو احساس ہی نہیں شاید بیٹیوں کو کمانا نہیں چاہیے کیونکہ جب بیٹیاں کماتی ہیں تو پھر والدین ان کی ذمے داریوں سے نبر د آزما ہونے کا نہیں سوچتے‘ میں اپنے ماں باپ کا بیٹا بننا چاہتی تھی اور دیکھو بیٹی بھی نہیں رہی۔ کسی کو میرے احساسات کی فکر نہیں‘ کسی کو نہیں لگتا میرا گھر بھی بسنا چاہیے‘ سب کو بس یہ فکر ہے کہ میرا گھر بس گیا تو ان کے اخراجات کون اٹھائے گا۔ یہ اپنے کبھی کبھی کتنے خود غرض ہوجاتے ہیں نا۔ ایلیاہ! میری مان تو تُو بھی خود کو ایسے ضائع مت کر‘ کل کو کوئی کام نہیں آتا نا بھائی‘ نا بہن۔‘‘ نمرہ حقائق بتارہی تھی‘ اسے نمرہ سے ہمدردی محسوس ہوئی تھی۔
’’نمرہ! تم کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر شادی کرلو۔‘‘
’’اچھا لڑکا…!‘‘ وہ ہنسی تھی۔ ’’یہاں اچھا لڑکا کہاں ملے گا؟ جو اپنے دیس سے یہاں آتے ہیں وہ گوریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ انہیں ریڈ پاسپورٹ مل سکے‘ وہ اپنی لڑکیوں کو لفٹ نہیں کرواتے اور جو گورے ہیں وہ میرے کسی کام کے نہیں‘ ان کے لیے سوچنے سے بہتر ہے میں شادی کا نہ سوچوں۔ مجھے اپنے بچوں کو آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر نہیں بنانا۔‘‘ وہ نمرہ کی بات پر ہنس دی تھی۔ نمرہ صاف دل کی تھی سیدھی بات کرتی تھی۔
’’تم ان لڑکوں کو بھول رہی ہو جو Born and Bred یوکے ہیں۔‘‘ ایلیاہ مسکرائی تھی۔
’’ان کی تو بات ہی جانے دو ایلیاہ!‘‘ وہ منہ بگاڑ کربولی۔
وہ سب سے زیادہ ٹیڑھی لکیر ہیں‘ پہلے غلطی سے یہاں پیدا ہوتے ہیں پھر ساری زندگی اس غلطی کو سدھارنے میں لگا دیتے ہیں۔ ریان حق انہی میں سے ایک ہے نا؟ دیکھو اسے دیسی لڑکیا ں سرے سے پسند ہی نہیں؟ وہ تمہیں گھاس نہیں ڈال رہا حالانکہ تم اچھی خاصی اسمارٹ ہو‘ خوب صورت ہو اور پر اعتماد ہو۔‘‘ نمرہ نے تجزیہ کیا تھا۔
’’نمرہ بات کسی اور کی نہیں ہے‘ میری ہے اور میں جانتی ہوں مجھے کیا چاہیے۔‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’تمہیں ریان حق جیسا بندہ نہیں چاہیے؟‘‘ نمرہ چونکی تھی‘ وہ چپ رہی تھی۔
’’ویسے ایک ٹرائی تو کرو‘ بندہ بُرا نہیں ہے‘ کیا ہوا جو برٹش ہے‘ ہے تو رئیس اور ہینڈ سم بھی۔‘‘ وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
’’میں رانگ نمبرپر ٹرائی کرنا مناسب خیال نہیں کرتی نمرہ!‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔
’’رانگ نمبر کہاں ہے یار! سیدھے سے رائٹ بندہ ہے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’شاید‘ مگر لائن انگیج ہوتو دوسری بار ٹرائی کرنا عقل مندی نہیں۔‘‘ اس کے انداز میں بولی تھی اور نمرہ کھلکھلا کرہنس دی تھی۔
’’خیر ہیں کوا کب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ‘ چلومجھے نیند آرہی ہے پھربات کرتے ہیں۔ تم اب بھول مت جانا‘ ورنہ وہاں آکر پٹائی لگائوں گی۔‘‘ وہ ایسی ہی بے تکلف تھی‘ تبھی اس سے اس کی خوب بنتی بھی تھی‘ نمرہ سے بات کرنے کے بعد وہ کافی فریش ہوگئی تھی مگر اسے اس کے لیے افسوس بھی تھا‘ کیسی حسرت تھی اس کے انداز میں شادی کو لے کر‘ تو کیا وہ خود کو نظر انداز کرکے غلطی کررہی تھی‘ نداماسوکا لہجہ سماعتوں میں گونجا تھا۔
’’ایلیاہ خود کو اگنور مت کرنا‘ اس نے بہت سی سوچوں سے گھبرا کر سر نفی میں ہلا یا تھا‘ اسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا‘ کب ریان حق اس کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
’’کس سے بات کررہی تھیں تم؟‘‘ وہ تفتیشی انداز اختیار کررہا تھا یا محض بات آغاز کرنے کو بولا تھا‘ وہ الجھتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی تھی۔
’’نمرہ سے…‘‘
’’شادی کی بات ہورہی تھی؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ اسے کیسے خبر ہوئی تھی‘ وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئی تھی۔
’’ہاں وہ نمرہ شادی کرنا چاہ رہی ہے مگر اسے کوئی اچھا لڑکا نہیں مل رہا۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کہا۔
’’اور تم…؟‘‘ وہ اسے موضوع بناتا ہوا بولا تھا۔
’’میں…؟‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’تمہیں شادی نہیں کرنا؟ کوئی ارادہ ہے بھی کہ نہیں؟ ہے کوئی نظر میں۔‘‘ وہ اس سے کیسے سوال کررہا تھا؟ وہ حیران ہوئی تھی پھر نفی میں گردن ہلادی تھی۔
’’فی الحال کوئی پلان نہیں‘ یوں بھی پلان کے لیے کسی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔‘‘ وہ سرسری لہجے میں بولی اور گلدان میں پھول سیٹ کرنے لگی۔
’’تمہارے اس فیانسی کا کیا ہوا؟‘‘ ریان حق نے پوچھا‘ وہ چونک پڑی تھی۔’’
اس کے بارے میں کیوں بات کررہے ہیں آپ؟ میں یہاں رہتی ہوں‘ جاب کرتی ہوں‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر الٹی سیدھی بات آپ مجھ سے پوچھیں گے۔‘‘ حمزہ کا نام سن کر ہی اسے غصہ آگیا تھا۔ وہ جانے جانے کیوں مسکرادیا تھا۔
’’مجھے جانے کیوں لگا تم اس کی یاد میں بیٹھی ہو‘ مشرقی لڑکیوں کا مزاج نرالا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کا خواب میں بھی سوچیں تو گناہ سمجھتی ہیں۔‘‘ وہ جانے کیوں اسے چڑا رہا تھا۔ وہ خودا پنے اندر کی الجھنوں سے الجھتے ہوئے تھکنے لگا تھا یا اس کی خاموشی اس کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی؟ ایلیاہ میر نے اسے اعتماد سے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
’’میں کسی بات کی وضاحت دینا ضروری نہیں سمجھتی‘ مگر اس شخص کے لیے میری زندگی میں کہیں جگہ نہیں ہے‘ یہ بات بہت پہلے بھی بتاچکی ہوں۔‘‘ وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔ وہ اس کے پھول لگاتے ہاتھ کو بغور دیکھنے لگا تھا پھر جانے کیا سوچ کر اس کا وہ ہاتھ تھام لیا‘ کلائی پر گرفت مضبوط تھی۔ وہ کوئی معنی اخذ نہ کرپائی تھی مگر تکلیف کے احساس سے اس کی سمت تکنے لگی تھی۔
’’ایک لڑکی کیا چاہتی ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مدہم لہجے میں پوچھ رہا تھا۔وہ خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔ ’’میں جاننا چاہتاہوں۔‘‘
’’لڑکی لڑکی میں فرق ہوتا ہے ریان حق! ہر لڑکی کے خواب ایک سے نہیں ہوتے‘ ہر لڑکی کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں۔‘‘ وہ تکلیف کے احساس سے اس کی گرفت سے اپنی کلائی چھڑانے کی سعی کرنے لگی تھی‘ وہ اس کے جواب پر مسکرادیا تھا۔
’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ آج اتنے عجیب سوال کیوں کررہا تھا؟ اسے حیرت ہوئی تھی۔
’’تم کیا خواب دیکھتی ہو ایلیاہ میر! مجھے جاننا ہے۔‘‘
’’کیوں؟ کیا حق ہے آپ کے پاس یہ سب جاننے کا؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی‘ وہ مسکرادیا تھا۔
’’چلو نہ بتائو‘ مگر میں جانتا ہوں لڑکی کے خواب کیا ہوتے ہیں‘ اسے جنون ہوتا ہے پانے کا اور مزید پانے کا‘ مرد کی توجہ ‘ اس کا حصول اور پھر اس کی دولت کا حصول اور مزید اچھی زندگی گزارنے کی چاہ‘ مہنگی قیمتی اشیاء خریدنے کی خواہش۔ بس یہی ہوتی ہے لڑکی کی خواہش۔‘‘ جانے کیا جانا تھا اس نے یا کسی بات کے گنجل اس کے اندر تھے جو وہ اس طرح سے بات کررہا تھا۔
’’ میں نے کہا نا ریان حق! ہر لڑکی یہ خواب نہیں دیکھتی۔‘‘
’’اچھا بتائو ایک اولڈ فینشڈ لڑکی کیا خواب دیکھتی ہے؟‘‘ وہ اس پر انگلی رکھتے ہوئے بولا تھا۔
’’میری ماں کہتی تھی لڑکی کے لیے سب سے زیادہ اہم محبت ہوتی ہے‘ وہ مرد کی محبت سے محبت کرتی ہے‘ وہ مرد سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی محبت کے سوا۔‘‘
’’اوں ہوں… تمہاری ممی کی بات نہیں ہورہی۔ تم… تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ ساری توجہ اس پر مرکوز کرتے ہوئے بولا۔
’’محبت‘ عزت اور تحفظ۔‘‘ ایلیاہ میر روانی سے بولی۔
’’اور…؟‘‘ وہ براہِ راست اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔
’’اور کیا؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔
’’پیسہ… دولت… شہرت…؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’یہ میری ترجیحات میں شامل نہیں۔‘‘ وہ اعتماد سے بولی۔
’’آہ! انوکھی لڑکی ہو تم‘ اپنی نوعیت کی انوکھی ترین لڑکی۔‘‘ اسے جیسے ایلیاہ میر کے جواب نے مطمئن نہیں کیا تھا۔ ایلیاہ میر کی کلائی پر اس کی گرفت جوں کی توں تھی۔
’’میری کلائی چھوڑیئے۔‘‘ وہ درخواست کرتی ہوئی بولی۔ ریان حق نے اس کی بات سنی ان سنی کردی تھی۔ کیا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس کی دولت میں انٹرسٹڈ ہے؟ مگر کیوں‘ وہ تو سرے سے اس میں انٹرسٹڈ نہیں تھی ؟ پھر وہ ایسا کیوں سوچ رہا تھا؟
’’ریان حق! میری کلائی چھوڑیئے۔‘‘اس نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ دیکھا تو وہ اس کے انداز سے محظوظ ہوتا ہوا مسکرادیا۔
’’کیکٹس کا پھول‘ دیکھنے میں دل رُبا… چھونے میں تکلیف دہ۔‘‘ وہ مدہم سرگوشی کرتا ہوا اس کا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ایلیاہ نے سر اٹھا کر تکلیف کے احساس سے اسے دیکھا تھا مگر ریان حق اس کی پروا نا کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ اپنی کلائی کو دیکھنے لگی تھی جہاں پر اس کی گرفت کے نشان پیوست ہوگئے تھے‘ یہ کون سا طریقہ تھا احتجاج کا؟ اس سے اس طرح کا برتائو کرنے کا؟
اس نے دھندلاتی آنکھوں سے پار دیکھا تھا وہ ٹینا کے ساتھ کھڑا تھا‘ جانے کیا بات کررہا تھا‘ پھر اس کو اور قریب کرلیا تھا‘ وہ جانے کیوں دیکھ نہیں سکی تھی اور اس طرف سے دھیان ہٹانے کی سعی کرنے لگی۔
…٭٭٭…
کسی کی نظروں میں ناپسندیدگی ہو یا پسندیدگی اس کے بارے میں علم ہو ہی جاتا ہے۔ ٹینا کی نظروں میں اس کے لیے پسندیدگی نہیں تھی۔ یہ بات وہ جان گئی تھی‘ اس کی نظریں اس کی طرف اٹھتیں تو وہ بہت سرد ہوتی تھیں۔ مگر وہ محسوس کرتی تھی وہ کہیں بہت ڈری سہمی ہوئی ہے۔

’’تمہاری یونیورسٹی سے تمہیں ڈگری کب مل رہی ہے؟‘‘ اس شام وہ اس کے سامنے آن بیٹھی تھی اور بہت فرینڈلی انداز سے بات چیت کرنے لگی تھی۔ ایلیاہ میر کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’اس کے لیے کچھ ویٹ کرنا پڑے جو فی الحال میں کرنا نہیں چاہتی‘ یونیورسٹی سے ٹیکسٹ مسیج موصول ہوجائے گا یا پھر ای میل کرکے بتادیں گے وہ‘ میں خود چاہتی ہوں ایسا جلد ہو۔‘‘ ایلیاہ میر اطمینان سے بولی۔
’’تمہارے فیوچر پلانز کیا ہیں؟ یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد تو تم یہاں سے جاسکتی ہو نا؟‘‘ ٹینا نرمی سے بات کررہی تھی۔
’’یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد میں پوسٹ اسٹڈی ورک کے لیے اپلائی کرسکوں گی اور دو سال مزید یہاں رک سکوں گی۔‘‘ وہ کافی کے سپ لیتے ہوئے بولی۔
’’اوہ! اور اگر تمہیں نہیں ملتا تمہارا ویزا‘ Expend نہیں ہو پاتا تو؟‘‘ وہ مسکرائی تھی‘ کچھ حسِ مزاح پھڑکی تھی تبھی اطمینان سے بولی تھی۔
’’تو پھر کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈوں گی‘ ویزاکئی طرح سے سوئچ ہوسکتا ہے اگر میں کسی مقامی بندے سے شادی کرلوں تو بھی میںیہاں رک سکتی ہوں۔‘‘
’’اوہ! تو تمہارا خواب یہاں مستقل رکنے کا ہے؟ ریڈ پاسپورٹ پانا؟‘‘ ٹینا نے اپنے طورپر اخذ کیا تھا‘ وہ اس کی کیفیت سے محظوظ ہوتی ہوئی مسکرادی تھی۔
’’ویل بندہ امیر ہو تو اس بارے میں سوچا بھی جاسکتا ہے۔‘‘
’’اوہ! مجھے اس کا اندازہ پہلے ہی ہوگیا تھا۔‘‘ ٹینا نے ہونٹ سکوڑے تھے‘ایلیاہ میر مسکرادی تھی اور بغور اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا تھا۔
’’ہے کوئی نظر میں؟‘‘
’’کون؟‘‘ ٹینا چونکی تھی۔
’’جو مجھے ریڈ پاسپورٹ دلانے میں مدد کرسکے؟‘‘ وہ جاننا چاہتی تھی اس کا ذہن کیا سوچ رہا ہے اور اگر ریان حق نے اس طور ری ایکٹ کیا تھا اس کی وجہ کیا تھی‘ کہیں وہ ٹینا تو نہیں تو جو ریان حق کا مائنڈ بدل رہی تھی‘ اسے ایلیاہ میر سے بدظن کررہی تھی۔
’’یہاں کئی ہیں جو تمہاری مدد کرسکتے ہیں‘ تم صرف پیپر میرج کرکے بھی وہ سب حاصل کرسکتی ہو جن کا خواب تم دیکھ رہی ہو‘ یہاں ایسی پیپر میرجز عام ہیں‘ یہ شادیاں صرف ریڈ پاسپورٹ کے حصول کے لیے ہوتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔‘‘ ٹینا نے بتایا تھا‘ جیسے وہ اس کی سب سے بڑی خیر خواہ تھی۔
’’جانتی ہوں۔‘‘ ایلیاہ میر اطمینان سے بولی تھی۔ ’’میں غلط راستوں سے منزل پانے پر یقین نہیں رکھتی‘ اگر منزل پانا قسمت میںہے تو راستے خودمجھے منزل تک رہنمائی دیں گے۔ وہ ایک تمہی ہو جس نے ریان حق کو جتانے اور قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں یہاں پیسوں کے لیے رکی ہوئی ہوں؟ لالچی ہوں اور دولت یا ریڈ پاسپورٹ چاہتی ہوں؟‘‘ ایلیاہ میر نے دو ٹوک پوچھا تھا‘وہ ساکت رہ گئی تھی‘ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی تھی۔
’’تمہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے ایلیاہ میر! تمہارے اس گھر میں آنے سے پہلے ریان حق میرے بہت قریب تھا۔ مگر تمہارے یہاں آنے کے بعد وہ قربت معنی کھوگئی۔ میں نہیں چاہتی تم یہاںرہو اور ہمارے درمیان دیوار اٹھائو؟ مجھے غلط ثابت کروگی؟‘‘ ایلیاہ میر نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا‘ ٹینا نے گہری سانس خارج کی تھی۔
’’میرے لیے ریان حق اہم ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی‘ میں نہیں چاہتی کوئی اس کا فائدہ اٹھائے‘ اس کے لیے میں کسی صحیح غلط کو نہیں مانتی۔‘‘ بات جب کھل ہی چکی تھی تو وہ بھی کچھ مزید چھپانے میں عار نہیں جانتی تھی۔
’’تم مجھ سے خوف زدہ ہو؟‘‘ ایلیاہ میر کو حیرت ہوئی تھی۔ ’’میں اس کی ایک ملازم ہوں‘ وہ تمہارے ساتھ دو سال سے ہے‘ تم دونوں قریب ہو‘ میں کہاں ہوں؟‘‘ وہ بولی تھی۔
’’تم اس کے دل میں ہو‘ اس کی آنکھوں میں ہو۔‘‘ ٹینا نے جتایا تھا اور فضا میں ایک سکوت پھیل گیا تھا۔ ایلیاہ میر کو یہ سن کر عجیب لگا تھا۔ یقین نہیں ہوا تھا‘ وہ سر نفی میں ہلانے لگی تھی۔
’’پلیز چلی جائو یہاں سے‘ کوئی اور جاب ڈھونڈ لو‘ تم چاہو تو میں پائول سے بات کرسکتی ہوں۔‘‘ ٹینا بولی تھی۔
’’کیسی بات؟‘‘ وہ چونکی تھی‘ ٹینا اس کی سمت دیکھتی رہی تھی پھر بولی۔
’’وہ تمہارے ساتھ پیپر میرج کرسکتا ہے‘وہ برٹش ہے‘ میرے ہینڈ میں ہے مگر اس کے لیے تمہیں اسے کچھ پیسے دینا ہوں گے۔‘‘ نیشلٹی ملنے کے بعد تم اس شادی سے‘ اس تعلق سے آزاد ہوگی۔ یہی چاہیے نا تمہیں؟ تم قابل ہو اچھی جاب حاصل کرسکتی ہو‘ خوب صورت ہو بہت سے اور مل سکتے ہیں تمہیں‘ زندگی شروع کرسکتی ہو‘ مگر ہماری دنیا سے نکل جائو۔ اس سے زیادہ تمہاری مدد میں نہیں کرسکتی۔‘‘ ٹینا بول کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ اس کی سفاکی پر حیران رہ گئی تھی۔ ٹینا جانتی تھی ویزا سوئچ کرنے کے کئی طریقے اور بھی تھے مگر وہ اس کی شادی کرانا چاہتی تھی تاکہ وہ ان کی راہ سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے۔ وہ اتنی بچی نہیں تھی کہ آنکھیں بند کرکے ٹینا کی مان لیتی تو پھر ریان حق نے ٹینا کی کیسے مان لی تھی؟ وہ لمحہ بھر کو سوچ کر حیران ہوئی تھی۔
اس دن کے بعد سے وہ شخص اس سے بہت سرد لگ رہا تھا۔ اس کے قریب نہیں آیا تھا‘ اس سے بات نہیں کی تھی‘ اس سے نگاہ بھی نہیں ملائی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھتا نہ بات کرتا مگر وہ اسے اپنے بارے میں وہ غلط فہمی مزید رکھے‘ نہیںچاہتی تھی۔ وہ اسے ایک لالچی لڑکی سمجھ رہا تھا‘ موقع پرست جان رہا تھا اور ایک غلط تاثر بنائے بیٹھا تھا‘ وہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی تھی‘ تبھی اس شام جب بارش ہورہی تھی اور وہ کارپورچ سے باہر نکال رہا تھا‘ وہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ریان حق نے ہارن پر ہاتھ رکھا تھا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی‘ وہ تیز بارش میں بُری طرح بھیگ رہی تھی۔ جس کا اسے مطلق احساس تھا نہ پروا۔ ریان حق جانتا تھا اس کا مزاج وہ اگر ٹھان چکی تھی تو وہ گاڑی کے سامنے سے نہیں ہٹ سکتی تھی تبھی اسے گاڑی سے نکل کر باہر آنا پڑا تھا۔
’’کیا حرکت ہے؟‘‘ وہ برہم ہوا تھا۔
’’مجھے بات کرنا ہے؟‘‘ ایلیاہ میر نے مدعا بیان کیا۔
’’کیا بات؟ اوہ! ٹینا نے بتایا تھا تم جاب چھوڑ کر جانا چاہتی ہو؟‘‘ وہ اپنے طور پر اخذ کرتا ہوا بولا۔
’’ٹینا کی کہی گئی ہر بات پر اتنا ہی اعتبار کرتے ہو؟‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ریان حق اسے کچھ دیر خاموشی سے دیکھتا رہا تھا پھر اسے شانوں سے تھام لیا۔
’’مرد کی سب سے بڑی بے وقوفی پتا ہے کیا ہوتی ہے؟ وہ حسن کے غلط سلط کہے جانے پر اعتبار کرتا ہے‘ اس سے آگے دیکھتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں دیکھا تو اس سے آگے نہیں دیکھ سکا۔ اس چہرے سے آگے دیکھنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ بس یہیں پر الجھ گیا اور یہیں پر شاید غلطی بھی کردی۔ میں نہیں جانتا تھا تم یہاں رہنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہو‘ تم پائول سے شادی کررہی ہو؟ چلو کسی طرح تمہاری پرابلمز کا حل تو نکلا‘ اب تمہیں جگہ جگہ خوار نہیں ہونا پڑے گا۔‘‘ اس کے شانوں پر اس کی گرفت سخت تھی۔ اس کی انگلیوں کا دبائو اسے اپنے گوشت کے اندر پیوست ہوتا محسوس ہوا۔ وہ اس شخص کے سامنے کھڑی تھی جس کے باعث اس کے دل نے دھڑکنا سیکھا تھا۔ اس شخص کی کھری کھری سن رہی تھی‘ جس کو اس نے خوابوں میں جگہ دی تھی مگر وہ کچھ نہیں سمجھ رہا تھا‘ کچھ نہیں دیکھ رہا تھا۔ تیز بارش میں وہ ساکت اس کے سامنے کھڑی تھی پھر یک دم اس نے ریان حق کے ہاتھوں کو اپنے شانوں سے ہٹادیا تھا اور پورے اعتماد سے اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’میں غلط نہیں ہوں‘ نہ ہی لالچی ہوں۔ میں پیسوں یا دولت کے پیچھے کبھی نہیں رہی۔ اب میری سمجھ میں آرہا ہے اس روز تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے تھے کہ ایک لڑکی کیا چاہتی ہے‘ میرا جواب سننا چاہو گے؟ میرا خواب آج بھی وہی ہے‘ محبت‘ عزت اور تحفظ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں‘ جانتے ہو میں نے منگنی کی انگوٹھی اپنے منگیتر کے منہ پر کیوں ماری؟ کیونکہ وہ مجھے یہ تینوں چیزیں نہیں دے سکتا تھا کیونکہ میں نے اپنی ماں کو ان تین چیزوں کے لیے اپنی زندگی میں سسکتے‘ تڑپتے دیکھا ہے‘ میں اپنی ماں کی زندگی جینا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کیکٹس کا پھول کہتا تھا مجھے‘ اس کے لیے میں دلچسپی کا باعث نہیں تھی اور میرے لیے وہ اہم نہیں تھا۔ میری ماں ان لوگوں کی وجہ سے اس دنیا سے گئی‘ میں ان لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ میں نے انتھک محنت کی راہ چن لی کیونکہ مجھے خود پر بھروسا تھا‘ میں نے پوری جان لگادی کیونکہ میں اپنوں کے لیے سب کچھ کرنا چاہتی تھی ‘ جو شخص کسی سے پیار کرتا ہو وہ ان سب باتوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ یہاں مزید دو سال ٹھہرنے کی خواہش میرا حق ہے۔ میں نے اس کے لیے یہاں کا سفر کیا ہے‘ اس سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا نہ مجھے لالچی کہہ سکتا ہے۔ ہوں گے آپ کہیں کے پرنس مگر میرے لیے میرا وقار‘ میری عزت میرے تشخص سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ اگر مجھے آپ سے محبت بھی ہوتی ہے تو میں آپ کو اس الزام کے لیے معاف نہیں کرتی۔ مجھے آپ سے بات کرنے کا شوق نہیں تھا مگر میں خود پر لگائے گئے الزام کی صفائی دینے کے لیے آپ کی گاڑی کے سامنے آئی‘ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں‘ میں پائول سے شادی کروں یا کسی اور سے آپ کو اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ ایک ملازم تو ہوں نا میں آپ کی پھر کس نے حق دیا آپ کو یہ سب سوچنے کا‘ میرے لیے آپ ایک انتہائی بند عقل کے آدمی ہیں‘ جس کی خود کی کوئی سوچ ہے نہ سمجھ بوجھ۔ آپ کو لگتا ہے میں آپ کے پیچھے ہوں‘ آپ پر فریفتہ ہوں‘ محبت ہوگئی ہے آپ سے؟ دولت ہتھیانا چاہتی ہوں آپ کی؟ آ… آپ اگر مفت میں بھی ملیں تو بھی آپ کو قبول نہ کروں‘ چھوڑ رہی ہوں میں آپ کی جاب‘ نہیں کرنا ایسے شخص کے ہاں جاب جسے دوسرے کے بارے میں غلط سلط باتیں سوچنے کا خبط ہو۔‘‘ وہ پلٹنے لگی تھی‘ جب یک دم رک کر دوبارہ مڑی تھی۔
’’سچ کہوں؟ آپ کوئی اچھی مشرقی لڑکی ڈی زرو بھی نہیں کرتے کیوں کہ آپ خود اس لڑکی کو پانے کے گٹس نہیں رکھتے۔ میں فضول میں متاثر ہورہی تھی آپ سے‘ آپ کی اچھائی سے۔ کچھ دیر اور یہاں رہتی تو شاید محبت بھی ہو ہی جاتی‘ تھینک گاڈ! آنکھیں کھل گئیں‘ اگر کہہ دیتی کہ محبت ہوچکی ہے تو شاید آپ اسے بھی کوئی ٹرک سمجھ لیتے‘ جس بندے کی اپنی کوئی عقل سمجھ بوجھ نہ ہو‘ اس سے کوئی کیا توقع کرسکتا ہے؟‘‘ وہ پلٹ کر وہاں سے جانے لگی تھی کہ یک دم ریان حق نے اسے کلائی سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی سمت کھینچا ‘ انداز جارحانہ تھا۔ وہ اس کے سینے سے آن ٹکرائی تھی۔ دونوں بارش میں بُری طرح بھیگ رہے تھے مگر دونوں ہی کو اس بات کی مطلق پروا نہیں تھی۔ ایلیاہ میر نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا‘ نگاہ ان آنکھوں سے ملی تھی‘ وہ دونوں آنکھیں اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ ایلیاہ میر کی روح فنا ہوچکی تھی۔ پوری جان میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی۔ ان آنکھوں کے سامنے وہ ہارنا نہیں چاہتی تھی‘ شکست نہیں چاہتی تھی‘ تبھی وہ اس کی سمت سے اپنی آنکھیں ہٹاگئی۔
’’بہت رعایت دی تمہیں بہت مراعات دیں‘ اس گھر میں لایا‘ کیوں…؟‘‘ وہ سخت لہجے میں کہہ رہا تھا‘ وہ آنکھیں اس پر گڑی تھیں۔’’میں چاہتا ہوں تم زندگی کا خلاصہ خود کرو ایلیاہ میر‘ خود گوشوارہ بنائو‘ مجھے اپنے نفع نقصان کی پروا نہیں‘ شاید تمہیں اس سے فرق پڑتا ہو‘ اپنا حاصل جمع کرو اور بتائو کہاں میں غلط ہوں اور کہاں تم؟ مگر یہ سب کرنے سے سچ تبدیل نہیں ہوگا‘ ٹینا پر یقین نہ کرنا حماقت ہوگی‘ وہ جھوٹ نہیں بولتی‘ اگر اس نے کہا کہ تم لالچی ہو تو ہو‘ مجھے پہلے ہی دن اس کا احساس ہوجانا چاہیے تھا۔‘‘ وہ مدہم مگر سخت لہجے میں بولا تھا۔ ایلیاہ میر کی آنکھیں بھرنے لگیں مگر ریان حق کو اس کی پروا نہ تھی‘ ایک جھٹکے سے اس سے اسے چھوڑا تھا اور وہاں سے چلا گیا۔ ایلیاہ میر کس جگہ ہاری تھی۔
کس جگہ دل نے ڈبویا تھا
شکستِ پائی بھی تھی تو کس جگہ
وہ وہاں مزید رکنا نہیں چاہتی تھی تبھی سامان پیک کیا اور واپس ایسٹ لندن آگئی تھی۔ نمرہ کے دل اور کمرے دونوں میں اس کے لیے جگہ تھی‘ ایک ہفتے کی کوشش کے بعد اسے ایک ریسٹورنٹ میں
جاب مل گئی تھی تو وہ ایک شیئرنگ روم میں دوسری جگہ شفٹ ہوگئی تھی‘ اندر ایک گہرا سکوت تھا اور وہ اس سکوت کو توڑنے کی کوشش بھی نہیں کررہی تھی۔ زندگی کو ایک توازن دینے کی کوشش میں وہ ایک مشین بن گئی تھی‘ پلٹ کر ریان حق کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
عزت‘ محبت اور تحفظ… اس کی ترجیحات میں عزت اول نمبر پر آگئی تھی۔ محبت کو اس نے ثانوی قرار دیا تھا‘ شاید محبت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی‘ ان دنوں وہ ممی کو بہت یاد کررہی تھی‘ کئی بار ان کو یاد کرکے آنکھیں بھیگ چکی تھیں‘ وہ روکر خود کو کمزور کرنا نہیں چاہتی تھی مگر سمجھ نہیں آتا تھا کیوں وہ خود پر کنٹرول نہیں کرپارہی تھی۔
’’تم نے بتایا نہیں اچانک سے ریان حق کی جاب کیوں چھوڑ دی؟‘‘وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکی تھی‘ نمرہ نے اسے بغور دیکھا تھا۔
’’کیا ہوا؟ تمہاری آنکھیں ایسے ویران کیوں لگ رہی ہیں؟‘‘ اس نے سر نفی میں ہلایا اور وہاں سے نکل آئی تھی۔ زندگی میں بھیانک ترین لمحہ تب لگتا ہے جب کوئی آپ کا یقین نہ کررہا ہو اور تب کوئی آپ کو انتہائی ارزاں جان رہا ہو‘ اسے قلق اس بات کا نہیں تھا کہ اسے رد کیا گیا تھا۔ کسی اور اس کی جگہ اپنا لیا گیا تھا یا کسی کے کہنے پر اس کی بے عزتی کی گئی تھی‘ اس نے تمام چیزوں کو اپنے اندر کہیں مار دیا تھا۔ کسی بات کا احساس وہ اپنے اندر باقی نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اس شخص سے ملنا‘ بات کرنا‘ محبت ہونا‘ شاید اس کی غلطی تھی اور وہ غلطیوں کو زندگی پر طاری یا حاوی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی ماں جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ جو محبت کو فوقیت دیتی رہی تھی اور جس کی خود کی زندگی محبت سے خالی رہی تھی۔ بے حس لوگوں کے درمیان رہنے سے کہیں بہتر تھا وہ تنہا رہتی۔ سکون سے رہتی۔
وہ ریسٹورنٹ میں جاب ختم کرکے گھر کے لیے آرہی تھی جب اسے میسج آیا تھا کہ شاید کل یونیورسٹی میں اس کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا‘ جس کے لیے اسے ال فورڈ جانا تھا۔ وہ اپنے ہی دھیان میں چل رہی تھی جب گاڑی کی ہیڈ لائٹس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا‘ گاڑی اس کے قریب آن رکی تھی اور گاڑی سے جو شخص نکلا تھا اسے دیکھ کر اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ چپ چاپ ریان حق کو دیکھتی رہی تھی‘ وہ گاڑی سے نکل کر اس کے سامنے آن رکا۔
’’تم بتائے بغیر چلی آئیں‘ اپنی سیلری بھی نہیں لی‘ میں کسی کا حق غصب کرنا مناسب نہیں خیال کرتا۔ یہ رہے تمہارے پیسے۔‘‘ اس کی سمت ایک لفافہ بڑھایا تھا۔ جسے وہ کچھ لمحوں تک خاموشی سے دیکھتی رہی تھی پھر آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر وہ لفافہ تھام لیا تھا۔
’’تم نے شادی نہیں کی‘ پائول تمہارے ساتھ دکھائی نہیں دے رہا؟‘‘ وہ طنز کرنا اپنا حق سمجھتا تھا‘ وہ غصے سے اسے گھورنے لگی تھی۔
’’میں پائول سے شادی کروں یا کسی اور سے‘ آپ کو اس سے مطلب؟‘‘ وہ اپنے ازلی ایٹی ٹیوڈ سے بولی تھی‘ وہ جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’تمہیں ستاروں پر چلنے کا بہت شوق ہے نا؟ کہکشائوں پر پائوں دھرنا خواب اولین ہے؟ اس کے لیے تم کانٹوں سے دامن چھڑانا چاہتی ہو؟ اور اس کے لیے تم ہر انتہائی قدم اٹھا سکتی ہو؟ تمہاری آنکھوں کی لگن بتاتی ہے‘ اندر کہیں بہت ویرانی ہے۔ ان کہکشائوں کی روشنی تمہاری ان آنکھوں میں کیوں نہیں‘ ستارے قدموں میں ہیں تو اندر اتنی تاریکی کیوں ہے؟ کس بات کا قلق ہے یہ؟ کیا نہیں ملا جس کا ملال ستار ہا ہے؟ کس بات کی لگن سانسوں میں ارتعاش کا باعث ہے؟ کس بات کا تلاطم ان دھڑکنوں میں ہے؟ ہم سر راہ اس کا خلاصہ نہیں کرسکتے‘ اہم باتوں کو سر راہ ڈسکس نہیں کیا جاسکتا؟‘‘ وہ بہت اطمینان سے کہتا ہوا مسکرادیا تھا۔ کیسا بے حس شخص واقع ہوا تھا جسے ذرا بھی ملال نہیں تھا کہ وہ کسی کے دل کو زک پہنچا چکا ہے‘ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں دنیا میں‘ وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی جب ریان حق اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی کے پاس لے آیا‘ وہ ایک پل کو حیران رہ گئی تھی۔ یہ کیا کررہا تھا وہ؟ کیوں؟ اس کی اجازت کے بنا؟ یہ شخص کیوں سمجھتا تھا کہ اسے ہر جائز و ناجائز کرنے کا اختیار ہے اور وہ ہر طرح کا رویہ واجب رکھ سکتا ہے۔
’’آپ…‘‘ اس نے سخت سست کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تھا ریان حق نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا‘ وہ ساکت سی اس کی سمت تکنے لگی۔
’’مجھے شور سے الجھن ہوتی ہے‘ فی الحال کوئی بات مت کرو۔‘‘ وہ حتمی اندازمیں کہہ کر گاڑی آگے بھگانے لگا‘ ایلیاہ میر چپ چاپ اسے تکنے لگی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ اسے اپنی سمت دیکھتا پاکر وہ بولا۔ وہ اس کی سمت سے اپنی نظریں ہٹاگئی تھی۔ وہ نظریں صاف کہہ رہی تھیں کہ انہیں گلہ ہے اور با ت کرنا نہیں چاہتیں۔ ریان حق نے اسے بولنے پر نہیں اکسایا تھا۔ گاڑی ریان حق کے گھر کے سامنے رکی تھی تو وہ چونکی۔
’’یہاں کیوں لے آئے آپ مجھے؟‘‘وہ چونکی۔
’’ضروری بات کرنا ہے‘ ضروری باتیں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سرِ راہ نہیں ہوتیں‘ اترو۔‘‘ اسے گاڑی سے اترنے کا کہہ کر وہ ڈور کھول کر باہر نکلا تھا۔
’’اتنی رات میں کسی بات کا احساس ہے آپ کو؟ کل مجھ کیمپس جانا ہے۔ ڈگری کلیکٹ کرنا ہے اور…‘‘
’’اوہ! تو تم اب بھی اپنی ڈگری کا انتظار کررہی ہو؟ مجھے لگا تم نے پائول سے شادی کرلی ہوگی اور تمام پرابلمز کا حل ڈھونڈ لیا ہوگا۔ مگر تمہاری سوئی تو وہیں اٹکی ہوئی ہے۔‘‘ ریان حق کا انداز اسے تلملا گیا تھا۔
’’انتہائی فضول درجے کے انسان ہیں آپ۔ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں‘ جو کرتے ہیں اپنے طور پر کرتے ہیں اور اسے ہی مناسب خیال کرتے ہیں‘ جو کہتے ہیں وہی آپ کو صحیح لگتا ہے۔ آپ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا بند نہیں کرسکتے؟ امیر پیدا ہوگئے اس زمین پر پیدا ہوگئے تو پرمٹ مل گیا آپ کو کسی کو بھی ذلیل کرنے کا؟ میں قطعاً امپرسٹڈ نہیں ہوں آپ سے۔ آپ کی ان حرکتوں کے بعد تو قطعاً نہیں ۔ آپ مجھے مزید غصہ مت دلائیں ورنہ…‘‘ اس نے دھمکی دی تھی اور ریان حق نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اور کچھ قریب آگیا تھا‘ اس کی آنکھوں میں مکمل توجہ سے
دیکھا تھا۔
’’ورنہ…؟‘‘ وہ اس کی دھمکی سے آگے سننا چاہتا تھا۔ ایلیاہ میر اسے غصے سے گھور رہی تھی۔ جب ریان حق نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں کو بھینچ دیا۔
’’کبھی کبھی کھلی آنکھوں سے جو دکھائی نہیں دیتا بند آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ میں چاہتا ہوں تم میرے معاملے میں اپنی آنکھیں بند کرلو‘ سماعتوں کو تالے لگادو اور صرف دل کو محسوس کرنے کو تنہا چھوڑ دو۔ کبھی کبھی دل اپنی جانچ پڑتال خود جس ڈھنگ سے کرتا ہے اس میں فرد کوکچھ واسطہ نہیں ہوتا۔‘‘ اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ بولا تھا۔ ایلیاہ میر بند آنکھوں سے سننے پر مجبور تھی اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اورکیونکر…!
’’میں چاہتا ہوں تم اپنی پوری عقل کو استعمال کرو۔ وہ جانو جو آج سے پہلے نہیں جانا یا پھر جانا بھی تو انجانا کردیا۔ میں نے اس سے قبل اپنی دونوں آنکھوں کو استعمال نہیں کیا تھا۔ تم نے موقع ہی نہیں دیا‘ چاہتا تھا تمہیں دونوں آنکھوں سے بغور دیکھوں‘ پوری عقل سے جانچوں اور دل سے پہچانوں ۔ میں چاہتا ہوں تم وقت کی رفتار کو کچھ دھیما کردو تاکہ سارے منظر یک دم سے نہ گزرنے پائیں اور ساری چیزیں متواتر دل پر اثر کرسکیں‘ مجھے وقت کو تھامنے کا شوق تھا مگر میں نہیں کر پایا۔ تمہارے مقابل عجیب شکست خوردہ رہا‘ تم نے میرے وقت کو مجھ سے چھینا اور مجھے اپنے آپ سے بیگانہ کردیا۔ بہت سے گلے ہیں تم سے اور سب سے لمحوں کا حساب لینا ہے مگر آج نہیں۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں کہہ کر اس کی آنکھوں پر سے اپنا ہاتھ ہٹاگیا۔ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا‘ رات کی اس تاریکی میں ان آنکھوں میں کچھ بے چینی تیرتی واضح دکھائی دی تھی۔ کس بات کا احساس تھا یہ؟ اس کے اثر کا تسلسل ٹوٹا تھا جب اس کا سیل فون بجا تھا۔ دوسری طرف نداماسو تھیں
’’ایلیاہ کیسی ہو تم؟ تمنا کے لیے ایک اچھا پروپوزل آیاہے‘ میں ای میل کرتی ہوں تم لڑکے کو دیکھ کر فیصلہ کرو‘ کیا کرنا ہے؟ مجھے اور تمہارے انکل کو تو کافی معقول لگا ہے وہ۔ تمنا کی تعلیم ختم ہونے والی ہے اور شادی بھی ہوجائے تو تمہار ی ذمے داری کچھ تو کم ہوگی نا۔‘‘
’’لیکن ماسو ابھی؟ آپ جانتی ہیں میں یہاں کن حالات سے گزر رہی ہوں‘ اس میں تمنا کی شادی کیسے ہوگی؟ مناسب ہوگا ہم دو سال بعد ہی سوچیں اور…‘‘
’’ان باتوں کو چھوڑو تم… میں نے ایک اچھا لڑکا تمہارے لیے بھی دیکھا ہے‘ لڑکا انجینئر ہے‘ اچھا کماتا ہے تم کہو تو تصویر بھجوادوں؟‘‘ ندا ماسو نے ٹھان لی تھی تمنا کے ساتھ اس کی شادی بھی کروا کر رہیں گی۔ اس نے ریان حق کی سمت دیکھا تھا۔
’’میں نے آپ سے کہا ہے نا ماسو! فی الحال میری شادی کے بارے میں مت سوچیں‘ جس لڑکے کو آپ نے قائل کیا ہے نا وہ صرف اس بات پر قائل ہوا ہوگا کہ میں یعنی لڑکی یہاں انگلینڈ میں ہوں‘ اسے نہیں معلوم کن حالات میں ہوں اور کتنی مشکلوں میں۔ مزید کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور…‘‘ اس نے کہنے کا قصد کیا تھا‘ ریان حق نے اس کے ہاتھ سے سیل فون لے لیا۔ وہ حیرت سے تکنے لگی تھی مگر وہ بنا اس کی نظروں کی پروا کیے ندا ماسو سے بات کرنے لگا تھا۔
’’ندا ماسو! آپ کی بھانجی کافی ٹیڑھی لکیر ہیں‘ ان کے لیے کسی انجینئر کی نہیں دماغ کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ آپ کہیں تو میں یہاں نیوز پیپر میں ایک اشتہار لگوا دوں؟ کسی کی شامت تو آئی ہوگی ‘ کہتے ہیں گیڈر کی جب شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے‘ کسی عقل کے اندھے کی شامت آئی ہوگی تو ضرور ایلیاہ میر سے رجوع کرے گا۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا‘ دوسری طرف ندا ماسو حیران ہوئیں‘ مگر کہنے والے نے اپنا تعارف کروانے کی بجائے یا اس کہے کی وضاحت دینے کی بجائے فون کاسلسلہ منقطع کردیا تھا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ وہ اسے گھورتی ہوئی بولی تھی۔ ’’کیا حق پہنچتا ہے آپ کو میری ماسو سے اس طرح سے بات کرنے کا؟وہ بھی میرے بارے میں؟‘‘ وہ سخت سست سنانے والی تھی جب ریان حق نے اس کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھ دی تھی اور پوری توجہ سے دیکھنے لگا تھا۔
’’اور کتنے چاہئیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا‘ وہ بُری طرح چونکی تھی کچھ کہنا چاہا تھا مگر اس کی انگلی بدستور اس کے لبوں پر سختی سے جمی تھی سو وہ بول نہیں پائی۔
’’ایک مل گیا سو کافی نہیں ہے؟‘‘ وہ کس کی بات کررہا تھا؟ اور اتنی دھونس سے کیوں؟ سارا رعب وہ اسی پر کیوں جماتا تھا؟ ایلیاہ میر کو غصہ آنے لگا تھا‘ وہ اس کی نظروں کی سرخی دیکھ کر مسکرادیا تھا۔
’’ان آنکھوں میں غضب نہیں پیار زیادہ سوٹ کرے گا‘ تم اب نرمی اور محبت سے دیکھنے کی عادت ڈال لو۔‘‘ ایلیاہ میر نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹایا تھا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟ کیا بکواس کررہے ہیں آپ؟ دو پیسے ہیں جیب میں تو کوئی بھی بات کہہ سکتے ہیں؟ کسی پر بھی رعب جماسکتے ہیں؟ آپ کی حیثیت سے متاثر ہوجائوں گی‘ جرمن بلی سمجھ رکھا ہے مجھے؟‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولی۔
’’اوں ہوں‘ جرمن بلی… جرمن بلی کا یہاں کام نہیں۔ اس کا قصہ تمام ہوا۔‘‘ وہ بہت رسانیت سے بولا تھا‘ وہ چونکی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ایلیاہ میر جاننے کی خواہاں ہوئی تھی۔
’’ٹینا کو لگتا تھا مجھے اس سے محبت نہیں ہے اور مجھے محبت تھی بھی نہیں‘ دو سالہ رفاقت میں میں نے اسے کبھی وہ تین لفظ نہیں کہے‘ کبھی وہ محسوس نہیں کیا جو دو دلوں میں ربط ہوتا ہے‘ ہم میں سب بہت سرد تھا اور بہت سرد مہری میں زمانے بیت رہے تھے شاید میں انہی زمانوں میں ایک سرد وجود بن جاتا جب تم مجھ سے ٹکرا گئیں۔ تم سے ملا تو حدت کا احساس ہوا‘ شدت کا احساس ہوا۔ مجھے قبول کرنے دو کہ تم وہ پہلی لڑکی ہو جس نے مجھے حیران کیا اور پریشان بھی۔ کئی دن تک الجھنوں میں رہا‘ خود اخذ نہ کرپایا کہ ایسا کیوں ہے اور تبھی ٹینا نے تمہیں راہ سے ہٹانے کی ٹھانی‘ بتایا کہ تم پائول کو پسند کرتی ہو‘ اس سے شادی کرنا چاہتی ہو اور میرے قریب اس لیے آئی ہو کہ میری دولت کو ہتھیا سکو ۔ تم مجھے بند دماغ کا آدمی کہہ سکتی ہو‘ جس پائول کو ٹینا چاہتی تھی اور جس سے تم کبھی ملی بھی نہیں تھیں اس سے تمہیں محبت کیسے ہوسکتی تھی؟ یا تم اس سے شادی کرنے کا کیسے ٹھان سکتی تھیں؟ یہ بات تب میری سمجھ میں نہیں آئی تھی؟ مگر تمہارے جانے کے بعد آئی جب ایک دن پائول سے ملاقات ہوئی۔ وہ گھر آیا تھا ٹینا سے ملنے۔ تبھی مجھے ے اس سے بات کرنے پر پتا چلا کہ وہ تو تمہارے نام سے بھی واقف نہیں۔ مجھے ٹینا سے یہ امید نہیں تھی مگر شاید وہ مجھے گنوانا نہیں چاہتی تھی‘ تم اس گھر میں تھیں۔ مجھ سے قریب تھیں یہ بات اسے فکر مند کررہی تھی بہرحال ایک کہانی کو ختم ہونا تھا سو تمام ہوئی۔ وہ گھر سے چلی گئی‘ اسے یہاں رکنے کا جواز نہیں دکھائی دیا اور مجھے بھی یہ مانتے ہی بنی کہ تم کیا ہو اور کیا اہمیت رکھتی ہو۔ شاید اب اگر میں کہوں کہ میں آج تمہیں اپنی پوری توجہ سے اور دونوں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں تو تمہارا دل میرا سر پھوڑ دینے کو چاہے گا مگریہی سچ ہے۔‘‘ ریان حق نے کہہ کر اسے خود سے کچھ اور قریب کیا۔
وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی تھی‘ یہ کیسا اظہار تھا؟ اسے خود اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔قسمت اس پر مہربان ہورہی تھی‘ اس ڈھنگ سے ‘ وہ خود یقین کرنے کو تیار نہ تھی۔
’’میں ان دھڑکنوں کو تمہارے ساتھ جوڑنا چاہتا ہوں‘ تمہارے قدموں سے قدم ملا کر چلنا چاہتا ہوں‘ کیا تم اس کا موقع دو گی؟‘‘ ایلیاہ میر اسے جامد نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ریان حق نے اس کے چہرے پر آئے بالوں کی لٹ کو اس کے چہرے سے ہٹایا اور مدہم سرگوشی میں بولا۔
’’ایلیاہ میر! مجھے ایسی ہی لڑکی کی ضرورت تھی‘ جو مجھے اچھی طرح جانتی ہو اور جو مجھے اپنے ساتھ باندھ سکے‘ تم نے پہلے ہی دن اپنے اثر میں لیا اور سنگ جوڑ دیا ‘ مجھے دبی دبی دبو قسم کی لڑکیاں پسند نہیں‘ لڑکیوں میں حوصلہ ہونا چاہیے‘ اپنی ذات کو منوانے کا ڈھنگ ہونا چاہیے۔ اعتماد ہونا چاہیے اور تم میں وہ سب ہے۔ تم نے جس طرح مسٹر حیات کو اس رات روز دار پنچ مارا اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا‘ تبھی مجھے لگا میں تمہارے ساتھ اندر سے کہیں جڑ رہا ہوں۔ میں نے شور نہیں مچایا‘ بس خاموشی سے اپنے اندر کی آواز کو سنا۔ اپنے اندر کے شور کو سمجھا اور جانا کہ دل کیا کہتا ہے اور اندر کی آواز کیا ہے‘ کوئی تم جیسی دلیر دھانسو قسم کی لڑکی ہی ہوسکتی تھی‘ جس کے ساتھ میں قدم سے قدم ملا کر چل سکتا تھا‘ میں تم سے ملنے سے پہلے خود نہیں جانتا تھا کہ میرے اندر کیا ہے یا میری خواہش کیا ہے‘ تم نے میرے نظریات کو بدلا‘ میری سوچ کو بدلا اور میرے دل کو جیتا‘ ایسی ہی ہوتی ہے نا محبت؟ دلیر‘ نڈر‘بے ریا‘ اور بے غرض اور مصائب کے باوجود بھی تھکنے والی نہ رکنے والی؟ تبھی میں نے تمہیں کیکٹس کا پھول کہا ۔ تم ویسی ہی تو ہو۔ اجلی اجلی‘ کھلی کھلی بہت سے مصائب کا ڈٹ کا سامنا کرتی‘ ایسی جیون ساتھی کون نہیں چاہے گا؟ اور کون ہوگا جو پاکر گنوادے گا؟ میں ان کم عقلوں اور نا فہم لوگوں کی فہرست میں نہیں شمار ہونا چاہتا تھا‘ تبھی میں نے لمحوں کو شمار کرنا ترک کیا اور تم تک کا سفر کیا۔
میں جانتا ہوں ان دھڑکنوں میںکیا ہے اوریہ دل کس باعث دھڑکتا ہے‘ اتنا احمق نہیں ہوں‘ قیاس آرائیوں پر یقین نہیں کرتا مگر محبت ایک یقین ہے‘ ربط ہے اور میں اپنے دل کو تمہارے دل سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں تم بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہو ‘ دادی اماں کی خواہش بھی یہی تھی میری دلہن دیسی ہو پکی مشرقی ہو‘ بچے آدھے تیتر آدھے بٹیر نہ ہوں۔ سو اب سب کی خواہشوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا تھا‘ وہ پلکیں جھکا گئی تھی‘ اس خاموشی میں ریان حق کے دل کی دھڑکنیں اسے بہت واضح سنا ئی دی تھیں‘ وہ ان دھڑکنوں کے معنی سمجھ سکتی تھی۔ ان دھڑکنوں میں چھپے راز جان سکتی تھی‘ لمحہ بھر کو اس نے آنکھیں موند لیں شاید یقین کرنے کے لیے کہ وہ بند آنکھوں سے بھی وہی دیکھ رہی ہے جو کھلی آنکھیں اسے دکھا رہی تھیں؟ لمحہ بھر کو وہ اس طرح کھڑی رہی تھی پھراپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’بند آنکھوں سے کیا دکھائی دیا؟ وہی نا جو کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے؟‘‘ ریان حق نے پوچھا تھا‘ ایلیاہ میر نے چند لمحوں تک سوچا پھرہاتھ کاپنج بنا کر اس کی سمت بڑھایا تھا‘ جسے ریان حق نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا تھا‘اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی گرفت میں آگیا تھا۔ ایلیاہ خاموشی سے دیکھنے لگی تھی پھرمسکرادی تھی‘ اس کے چہرے کو بغور تکتے ہوئے ریان حق بھی مسکرادیا۔
’’تمہاری مسکراہٹ بہت بھلی ہے‘ میںنے اس سے زیادہ خوب صورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ تم کچھ نہ بھی کہو مگر میں جان سکتا ہوں تم خوش ہو اور میں تمام عمر اس مسکراہٹ کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘ وہ یک دم پریشان ہوئی۔
’’اس سفر میں اب تم تنہا نہیں ہو‘ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب بھی تم ایک قدم اٹھائوگی‘ تم دوسرا قدم میرا اپنے ہمراہ پائو گی‘ ہم مل کر ان ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔ تمنا کی شادی بھی ہوگی اور جامی‘ ثناء کی پڑھائی بھی‘ اب خوش؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔ اب تعرض کی کیا وجہ نکلتی تھی؟ کوئی جواز نہیں بچا تھا انکار کرنے کا‘ سو اس نے اثبات میں سر ہلادیا تھا۔
ریان حق نے اس کے سر کے ساتھ اپنے سر کو جوڑا تھا تو وہ دھیمے سے مسکرادی تھی‘ آسمان پر بادلوں میں چھپا چاند ان دونوں کو دیکھ کر بادلوں کے سنگ آگے بہنے لگا تھا.....
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ختم شد--------------------------------------------------
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: کیکٹس کا پھول ازعشناء کوثر سردار

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ ;fl;ow;er;
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”