غزل
چاند نکلا اور فلک پر ضو فشاں هونے لگا
درد یادوں کا بڑها اور بےکراں هونے لگا
هو گےءبرهم وہ مجهہ سے زلف برهم کی طرح
هر نفس میرے لےء بار گراں هونے لگا
صحن گلشن سے صبا چپکے سے گزری تهی کبهی
اور مجهے تیرے ہی آنے کا گماں هونے لگا
شدت غم کا مری کچهہ تجهہ کو اندازہ نہیں
دل سے نکلا اشک آنکهوں سے عیاں هونے لگا
دیکهہ تیرے غم نے کیا کیا شکل کی هے اختیا ر
آنکهہ شعلہ ، سوچ پتهر ، دل دهواں هونے لگا
آدمی نے کر دیا هے تنگ حلقہ زیست کا
ذرهء نا چیز بڑهہ کر آسماں هونے لگا
رنگ ان کے چہرے پہ آتے رہے جاتے رہے
آخر آخر ان کو احساس زیاں هونے لگا
اے وقارِ غم یہ تیری خوش نصیبی هے کہ اب
اپنے غم کا ان کی محفل میں بیاں هونے لگا
غزل
-
- مشاق
- Posts: 1480
- Joined: Mon Oct 11, 2010 1:34 pm
- جنس:: مرد
- Location: hong kong