[center]غزل
لوٹ آیا ہے موسم تری یاد کا پھر فروغ ِ بہار ِ چمن کی طرح
سج گئی ہے خیالات کی انجمن ، تیری رنگینی ِ پیرہن کی طرح
کتنی مظبوط بھی ہو فصیل ِ بدن ، ایک دن یہ بھی گر جائے گی ٹوٹ کر
ضربت ِ تیشہ ء غم بھی ہے دوستو ، ضربت ِ تیشہ ء کوہ کن کی طرح
ہے تری انجمن میں چراغاں اگر ، ظلمتیں تو مرا بھی مقدر نہیں
میری پلکوں پہ بھی آنسووں کے دیے جل رہے ہیں تری انجمن کی طرح
آج اس شہر میں کل کسی شہر میں ، زندگی ہے مری اک مسلسل سفر
ایک مدت سے میں زیر ِ چرخ ِ کہن ، گردشوں میں ہوں چرخ ِ کہن کی طرح
خواہشوں کے کنول مسکرانے لگیں ، آرزوئیں تری جگمگانے لگیں
کاش اُتروں ترے شہر ِ دل میں کبھی مَیں بھی سورج کی پہلی کرن کی طرح
بس یہی آرزو ہے کہ دل کا نگر ، اُس کی یادوں سے بستا رہے عمر بھر
اُس کا شاداب چہرہ مہکتا رہے آرزو کے شگفتہ چمن کی طرح
ڈھونڈنے خود کو نکلے تھے ہم بھی کبھی اور شاہد ہمیں یہ خبر ہی نہ تھی
سخت دشوار ہے منزل ِ آگہی ، منزل ِ اوج ِ دار و رسن کی طرح[/center]
کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
ڈھونڈنے خود کو نکلے تھے ہم بھی کبھی اور شاہد ہمیں یہ خبر ہی نہ تھی
سخت دشوار ہے منزل ِ آگہی ، منزل ِ اوج ِ دار و رسن کی طرح
بہت خوب شئیرنگ پر آپ کا شکریہ ....
سخت دشوار ہے منزل ِ آگہی ، منزل ِ اوج ِ دار و رسن کی طرح
بہت خوب شئیرنگ پر آپ کا شکریہ ....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
-
- کارکن
- Posts: 137
- Joined: Fri Oct 28, 2011 3:30 am
- جنس:: مرد
- Location: rawalpindi , pakistan
- Contact:
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
[center]غزل
غلام ِ خواہش ِ دل ہے ، جہانبانی کا دعٰوی ہے
خبر اپنی نہیں لیکن ہمہ دانی کا دعٰوی ہے
حفاظت ہم سے اپنے مال و زر کی ہو نہیں سکتی
پرائی چیز کی لیکن نگہ بانی کا دعٰوی ہے
دکھائی دے رہا ہے جس کا دامن خون آلودہ
تعجب ہے اسے بھی پاک دامانی کا دعٰوی ہے
ہوئی ہے بارش ِ سنگ ِ ملامت شہر میں ہم پر
لب ِ احباب پر لیکن گل افشانی کا دعٰوی ہے
حصول ِ زر کا جو کل تک مخالف تھا زمانے میں
اسے بھی آج دولت کی فراوانی کا دعٰوی ہے
تری خاطر دیا ہے خون ہم نے بھی مگر لب پر
نہ حرف ِ خود ستائی ہے ، نہ قربانی کا دعٰوی ہے
پروں میں کچھ نہیں پرواز کی طاقت مگر شاہد
تمناوں کے طائر کو پر افشانی کا دعٰوی ہے
حفیظ شاہد[/center]
غلام ِ خواہش ِ دل ہے ، جہانبانی کا دعٰوی ہے
خبر اپنی نہیں لیکن ہمہ دانی کا دعٰوی ہے
حفاظت ہم سے اپنے مال و زر کی ہو نہیں سکتی
پرائی چیز کی لیکن نگہ بانی کا دعٰوی ہے
دکھائی دے رہا ہے جس کا دامن خون آلودہ
تعجب ہے اسے بھی پاک دامانی کا دعٰوی ہے
ہوئی ہے بارش ِ سنگ ِ ملامت شہر میں ہم پر
لب ِ احباب پر لیکن گل افشانی کا دعٰوی ہے
حصول ِ زر کا جو کل تک مخالف تھا زمانے میں
اسے بھی آج دولت کی فراوانی کا دعٰوی ہے
تری خاطر دیا ہے خون ہم نے بھی مگر لب پر
نہ حرف ِ خود ستائی ہے ، نہ قربانی کا دعٰوی ہے
پروں میں کچھ نہیں پرواز کی طاقت مگر شاہد
تمناوں کے طائر کو پر افشانی کا دعٰوی ہے
حفیظ شاہد[/center]
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
بہترین اضافہ پر آپ کا شکریہ ....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
-
- کارکن
- Posts: 137
- Joined: Fri Oct 28, 2011 3:30 am
- جنس:: مرد
- Location: rawalpindi , pakistan
- Contact:
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
[center]غزل
ہم آرزو کا چراغ پھر سے جلا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
شکستہ ہے اب مکان دل کا ، سجا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
سوائے ویرانیوں کےاپنے اجاڑ گھر میں تو کچھ نہیں ہے
اسے یہاں ہم کسی بہانے بُلا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
گزرنے والی ہے رات غم کی ، سحر کی منزل قریب تر ہے
اب آندھیوں سے چراغ اپنا بچا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
ہمارے ہاتھوں پہ ہیں مقدرکی جو لکیریں وہی رہیں گی
ہم اپنے چہرے پہ اُس کا چہرہ سجا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
لکھی ہیں اختر شماریاں ہی ہماری قسمت میں جانے کب سے
ہم اُس کی آنکھوں سے خواب اُس کے چُرا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
ہمارے چہرے سے آشکارا ہمارے دل کی کہانیاں ہیں
ہم اپنا راز ِ وفا کسی سے چھپا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
بلندیوں پہ پہنچ کے شاہد نصیب اُس کا یہی زمیں ہے
ہم آسماں پر پتنگ اپنی اُڑا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
حفیظ شاہد[/center]
ہم آرزو کا چراغ پھر سے جلا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
شکستہ ہے اب مکان دل کا ، سجا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
سوائے ویرانیوں کےاپنے اجاڑ گھر میں تو کچھ نہیں ہے
اسے یہاں ہم کسی بہانے بُلا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
گزرنے والی ہے رات غم کی ، سحر کی منزل قریب تر ہے
اب آندھیوں سے چراغ اپنا بچا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
ہمارے ہاتھوں پہ ہیں مقدرکی جو لکیریں وہی رہیں گی
ہم اپنے چہرے پہ اُس کا چہرہ سجا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
لکھی ہیں اختر شماریاں ہی ہماری قسمت میں جانے کب سے
ہم اُس کی آنکھوں سے خواب اُس کے چُرا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
ہمارے چہرے سے آشکارا ہمارے دل کی کہانیاں ہیں
ہم اپنا راز ِ وفا کسی سے چھپا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
بلندیوں پہ پہنچ کے شاہد نصیب اُس کا یہی زمیں ہے
ہم آسماں پر پتنگ اپنی اُڑا بھی لیں گے تو کیا کریں گے
حفیظ شاہد[/center]
-
- مدیر
- Posts: 10960
- Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
- جنس:: مرد
- Location: اللہ کی زمین
- Contact:
-
- کارکن
- Posts: 137
- Joined: Fri Oct 28, 2011 3:30 am
- جنس:: مرد
- Location: rawalpindi , pakistan
- Contact:
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
[center]غزل
ہم ایسے صاحب ِ دل ہیں کہ جام ِ جم نہیں رکھتے
مگر حالات ِ دنیا کی خبر کچھ کم نہیں رکھتے
وہ جس سے دشمنی ہو اُس سے دشمن بن کے ملتے ہیں
عداوت کو چھپا کر اپنے دل میں ہم نہیں رکھتے
کریں گے دوسروں کو کس طرح حلقہ بگوش اپنا
ابھی جو اپنے مسلک پر یقیں محکم نہیں رکھتے
وہ کیسے ہو سکیں گے واقف ِ آداب ِ مے نوشی
جو اپنے دل کے ساغر میں شراب ِ غم نہیں رکھتے
ہمارے زخم ِ جاں پر آپ کو تشویش ہے لیکن
ہمارے زخم ِ جاں پر آپ کیوں مرہم نہیں رکھتے
ہمارے شہر ِ دل کا حال تو چہرے پہ لکھا ہے
چھپا کر اپنے اندر کا کوئی عالم نہیں رکھتے
سفر درپیش ہو شاہد جنہیں شام ِ تمنا کا
چراغ ِ آرزو کی لو کبھی مدھم نہیں رکھتے
حفیظ شاہد[/center]
ہم ایسے صاحب ِ دل ہیں کہ جام ِ جم نہیں رکھتے
مگر حالات ِ دنیا کی خبر کچھ کم نہیں رکھتے
وہ جس سے دشمنی ہو اُس سے دشمن بن کے ملتے ہیں
عداوت کو چھپا کر اپنے دل میں ہم نہیں رکھتے
کریں گے دوسروں کو کس طرح حلقہ بگوش اپنا
ابھی جو اپنے مسلک پر یقیں محکم نہیں رکھتے
وہ کیسے ہو سکیں گے واقف ِ آداب ِ مے نوشی
جو اپنے دل کے ساغر میں شراب ِ غم نہیں رکھتے
ہمارے زخم ِ جاں پر آپ کو تشویش ہے لیکن
ہمارے زخم ِ جاں پر آپ کیوں مرہم نہیں رکھتے
ہمارے شہر ِ دل کا حال تو چہرے پہ لکھا ہے
چھپا کر اپنے اندر کا کوئی عالم نہیں رکھتے
سفر درپیش ہو شاہد جنہیں شام ِ تمنا کا
چراغ ِ آرزو کی لو کبھی مدھم نہیں رکھتے
حفیظ شاہد[/center]
-
- کارکن
- Posts: 137
- Joined: Fri Oct 28, 2011 3:30 am
- جنس:: مرد
- Location: rawalpindi , pakistan
- Contact:
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
[center]غزل
کم تو ہو گا جنوں کہیں نہ کہیں
گھر سے نکلوں ، چلوں کہیں نہ کہیں
اے خدا پھر وہ چاند سا چہرہ
اک نظر دیکھ لوں کہیں نہ کہیں
مجھ کو اپنی تلاش رہتی ہے
میں بھی موجود ہوں کہیں نہ کہیں
اک تماشا بنا کے چھوڑے گا
مجھ کو میرا جنوں کہیں نہ کہیں
دیکھنا ! بر سر ِ زمیں ہو گا
آسماں سرنگوں کہیں نہ کہیں
سوچتا ہوں کہ چھوڑ کر سب کچھ
دشت میں جا بسوں کہیں نہ کہیں
ہم بھی شاہد گزار ہی دیں گے
زندگی بے سکوں کہیں نہ کہیں
حفیظ شاہد[/center]
کم تو ہو گا جنوں کہیں نہ کہیں
گھر سے نکلوں ، چلوں کہیں نہ کہیں
اے خدا پھر وہ چاند سا چہرہ
اک نظر دیکھ لوں کہیں نہ کہیں
مجھ کو اپنی تلاش رہتی ہے
میں بھی موجود ہوں کہیں نہ کہیں
اک تماشا بنا کے چھوڑے گا
مجھ کو میرا جنوں کہیں نہ کہیں
دیکھنا ! بر سر ِ زمیں ہو گا
آسماں سرنگوں کہیں نہ کہیں
سوچتا ہوں کہ چھوڑ کر سب کچھ
دشت میں جا بسوں کہیں نہ کہیں
ہم بھی شاہد گزار ہی دیں گے
زندگی بے سکوں کہیں نہ کہیں
حفیظ شاہد[/center]
Re: کلیات ِ حفیظ شاہد "ختم ِ سفر سے پہلے" کی منتخب غزلیں
لاجواب .. بهت خوب