عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

صحابہ اکرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے حالات و واقعات
Forum rules
کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ اور کسی خاص جماعت سے وابستہ تحریریں سختی سے منع ہیں۔
انتظامیہ اردونامہ
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by اعجازالحسینی »

مفتی ابو رفیدہ عارف محمود ، رفیق شعبہ تصنیف و تالیف واستاد جامعہ فاروقیہ کراچی



نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ رضی الله عنہم
امام الانبیا، خاتم النبیین، جناب حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے تاقیامت انسانیت کی رُشد وہدایت کے لیے آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کو دنیا وآخرت کی کام یابیاں دلانے کے لیے اپنا کامل ومکمل دین عنایت فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا حکم دیا کہ جو کچھ ہم نے آپ کو دین کی صورت میں عطا کیا ہے آپ اس کی تبلیغ کیجیے۔

خوش نصیب افراد
دوسری طرف خود حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا، حضرت صحابہ کرام رضوان الله عنہم اجمعین حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وہ مقدس جماعت ہے ، جنہوں نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا، بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا عملی طور سے مشاہدہ کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم سے دین کو سیکھا اور وہ اس کے اول پھیلانے والے خوش نصیب افراد ہیں۔

مقدس جماعت
یہی وہ مبارک او رپاک باز جماعت ہے جسے الله رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت اور مصاحبت کے لیے چنا او رمنتخب فرمایا، چناں چہ حضرات صحابہ رضی الله عنھم دین کی بنیاد او رمعیارِ ایمان ہیں، بلکہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مبارک او رپاکیزہ زندگی کو سمجھنے، پہچاننے او راس پر عمل کرنے کے لیے اگر کسی کی زندگی معیار ہو سکتی اور یقینا ہے بھی تو وہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مبارک ومقدس جماعت ہے۔

یہی وہ جماعت ہے جس نے براہ راست مشکوٰة نبوت سے استفادہ کیا، چناں چہ جو فیض انہوں نے پایا او رایمان کی جو کیفیت وحلاوت ان کو حاصل ہوئی ، وہ بعد والوں کے لیے میسر آنا ممکن نہیں ، اسی وجہ سے الله رب العزت نے قرآن پاک میں اگر کسی نبی کے ساتھیوں کی من حیثُ الجماعت سب کے سب کی تعریف وتقدیس بیان کی ہے تو وہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام کی جماعت ہے ، اس طور پر کہ الله رب العزت نے صحابہٴ کرام کی پوری کی پوری جماعت کو راضی ومرضی اور راشد ومرشد فرمایا ہے۔

عدالت صحابہ رضی الله عنہم
قرنِ اوّل سے لے کر آج تک استمرار ودوام کے ساتھ امّتِ مسلمہ اہلِ سنّت والجماعت کا یہ اتفاقی واجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم تمام کے تمام عادل ومتقن ہیں ، اگر وہ کسی بات پر متفق ہو جاتے ہیں تو ان کا یہ اجماع واجتماع امتِ مسلمہ کے لیے حجّت شرعیہ بن جاتا ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔

صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی پاکیزہ اورمبارک جماعت عاداتِ کریمہ، خصائل ِ حمیدہ شمائلِ فاضلہ ،اخلاق عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل ودلائل، حقائق وآداب کے بارے میں علماًاور عملاً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کمالات نبوت کی آئینہ دار او رمظہر اتم ہے ، انہی پاک باز نفوس کی اتباع امتِ مسلمہ کو ضلالت وگمراہی سے بچاسکتی ہے۔

مفکر اسلام، مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کا قول:
مفکر اسلام، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب حضرات صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں:
” یہ ان مردان خدا کی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نے اس کو دل وجان سے قبول کیا او راس کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا:﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا﴾․( سورة آل عمران، آیت:193)

اور اپنا ہاتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا، چناں چہ ان کے لیے الله کے راستے کی مشقتیں معمولی او رجان ومال کی قربانی آسان ہو گئی ، حتی کہ اس پر ان کا یقین محکم او رپختہ ہو گیا اور بالآخر دل وماغ پر چھا گیا، غیب پر ایمان، الله او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت ، اہل ایمان پر شفقت، کفار پر شدت، نیز آخرت کو دنیا پر، ادھار کو نقد پر، غیب کو شہود پر اورہدایت کو جہالت پر ترجیح اورہدایت عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب وغریب واقعات رونما ہونے لگے۔

الله کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر الله کی بندگی میں لانے ، مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کی عدل گستری میں پہنچانے ، دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال ومتاع اور زیب وزینت سے بے پروا ہو جانے، الله سے ملنے او رجنت میں داخل ہونے کے شوق کے محیر العقول واقعات سامنے آنے لگے ، انہوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے، اس کی برکتوں کو اقصائے عالم میں عام کرنے اور چپے چپے کی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی ودقیقہ رسی کے باعث، اپنے گھر بار کو چھوڑا، راحت وآرام کو خیر باد کہا او راپنی جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا ، حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہو گئیں ، دل الله کی طرف مائل ہو گئے او رایمان کے ایسے مبارک، جاں فزا اور طاقت ور جھونکے چلے، جس سے توحید وایمان اور عبادات وتقوی کی سلطنت قائم ہو گئی، جنت کا بازار گرم ہو گیا، دنیا میں ہدایت عام ہو گئی اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔“

عظمت صحابہ رضی الله عنہم اور قرآن
حضرت ندوی رحمة الله علیہ نے حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنھم کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ کسی مبالغہ، یا محض عقیدت کا نتیجہ نہیں ، اس پر نہ صرف خدا کا کلام، قرآن مجید شاہد ہے ، بلکہ تاریخ انسانی، جو ایک حقیقت ارضی ہے، وہ بھی گواہ ہے ، یوں تو پورا قرآن کریم جماعت صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی تقدیس وتعریف سے بھرا ہوا ہے ، قرآن پاک کے تیسوں پارے ان کی عظمت وبزرگی کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہے ہیں ، یہاں بطور نمونے کے چند آیات او ران کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں ، تاکہ ایک عام مسلمان قاری اس کا اندازہ لگا سکے کہحضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنھم کو کیا فضل وکمال حاصل تھا :﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِیْ الْإِنجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِیْماً ﴾․ (سورة الفتح، آیت:29)

ترجمہ: محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں او رجو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں ، تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں، ( غرض) الله کے فضل اور خوش نودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُن کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو توارت میں مذکور ہیں اور انجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو، جس نے اپنی کونپل نکالی ، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہو گئی ، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں ، تاکہ الله تعالیٰ ان ( کی ترقی) سے کافروں کے دل جلائے ، یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں او رانہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، الله نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:1575/3)

﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَئِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْض﴾․ (سورة الانفال، آیت:72)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں او رانہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں او رجانوں سے الله کے راستے میں جہاد کیا ہے ، وہ او رجنہوں نے ان کو ( مدینہ میں) آباد کیا او ران کی مدد کی ، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ (آسان ترجمہ:550/1)

﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․ (سورة آل عمران، آیت:103)
ترجمہ: اور الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور الله نے جوتم پر انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، پھر الله نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم الله کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے او رتم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، الله نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی ، اسی طرح الله تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:212/1)

﴿ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ، وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم﴾․ (سورة الانفال، آیت:63)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے او رمؤمنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کر دی، اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کر لیتے تو ان کے دلوں میں یہ الفت پیدا نہ کر سکتے، لیکن الله نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا، وہ یقینا اقتدار کا مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:546/1)

مذکورہ بالا آیات کا خلاصہ
قرآن کریم میں اس مضمون کی او ربھی بہت ساری آیات موجود ہیں، لیکن جو آیات ہم نے ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان میں اخوت وبرادری کا تعلق ہوتا ہے ، ایمان والوں کوالله تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھنی چاہیے، کیوں کہ الله نے ہی دیرینہ دشمنیوں کو محبت والفت میں بدل دیا اور اب ایمان والوں کوایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ، یہی وہ ایمان والے ہیں جن کے ذریعے الله نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تائید اورمدد ونصرت فرمائی ، ان کے دلوں میں الفت وشفقت ڈال دی ، پھر بتلایا کہ اہل ایمان کی وہ اولین جماعت، جو مہاجرین او رانصار ہیں ، مجاہدین فی سبیل الله ہیں، الله کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں ، مہاجرین کو ٹھکانہ فراہم کرنے والے او ران کی نصرت وامداد کرنے والے ہیں ، ایک دوسرے کے دوست اور امین، معاون ومدد گار ہیں ، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی معیت میں رہنے والے مقدس او رپاک باز لوگوں کی جماعت ہے ،کفار کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان، نرم دل اور شیر وشکر ہیں۔

عبادت خداوندی میں مصروف رہتے ہیں اپنے رب کی رضا کو چاہنے والے ہیں، ان کی بزرگی او رنیکی کے آثار وانوار ان کے مبارک چہروں سے ظاہر وتاباں ہیں، صحابہٴ کرام کی یہ صفات صرف قرآن کریم ہی میں نہیں ، بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں ، تورات ، انجیل میں بھی مذکور چلی آرہی ہیں۔

صحابہٴ کرام کی جماعت کو الله تعالیٰ نے تدریجاً ارتقا عطا فرمایا، اسی طرح تدریجاً دین اسلام او راہل ایمان کا غلبہ اور ارتقا ہو گا، ان کی ترقی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے لیے باعث خوشی ہے او ران کے دشمنوں وکفار کے لیے باعث عداوت ہے، الله نے ان صحابہ سے مغفرت او راجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

الله رب العزت نے یہ بھی بتلایا کہ صحابہ کی جماعت کو معتدل جماعت بنایا ہے، یہ لوگوں پر گواہ ہوں گے او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم ان پر گواہ ہوں گے ، یہ صحابہ وہ لوگ ہیں جو اس نبی کی اتباع وپیروی کرتے ہیں جس کی صفات تورات وانجیل میں مذکور ہوئی ہیں ، صحابہ رضی الله عنہم جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لایا، آپ کی رفاقت اختیار کی ، مدد ونصرت کی اورآپ پر اترے ہوئے قرآن کریم کی اتباع کی ، وہی لوگ ( صحابہ کرام) اپنی مراد کو پہنچنے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔

الله تعالیٰ نے مہربانی فرمائی نبی صلی الله علیہ وسلم پر، ان کے ساتھی مہاجرین وانصار پر، جو ان کے ساتھ مشکل وقت میں ساتھ رہے ، وہ ایمان والے جنہوں نے درخت کے نیچے الله کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی، الله ان سے راضی ہوا، ان پر سکینہ نازل فرمایا اور صحابہ میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ، ان کی مدد کرنے والے انصار ، ان کے پیروکار، ان سب سے الله راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے ، الله نے ان کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یابی ہے اور یہی صحابہ کام یابی کو پانے والے ہیں۔

الله نے قرآن پاک کو نازل فرمایا، اس سے خوف خدا رکھنے والے صحابہٴ کرام کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی کھال اور دل الله کے ذکر سے نرم ہو جاتے ہیں ، الله کی آیات پر ایمان لانے والے صحابہ جب ان آیات کو سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں او را س پاک ذات کو یاد کرتے ہیں ، ان کے پہلوں اپنی خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں، یہ اپنے رب کو خوف او رامید سے پکارتے ہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں ، لہٰذا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو کچھ الله نے چھپا رکھا ہے وہ کسی نفس کو معلوم نہیں اور جو کچھ الله کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے او رباقی رہنے والا بھی ہے۔

اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں ، غصہ آجائے تو معاف کرتے ہیں ، اپنے رب کے حکم کو انہوں نے مان لیا ہے او رنماز کو قائم کیا ہے، ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں، ان اہل ایمان صحابہ میں سے کتنے ہی وہ مرد ہیں جنہوں نے الله کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو انتظار میں ہیں اوران میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ، الله سچوں کو بدلہ دے گا او رمنافقین کو چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف فرما دے ، الله تعالیٰ بخشنے والے اورمہربان ہیں، کیا وہ جو رات کی گھڑیوں میں بندگی میں لگا ہوا ہے سجدے کرتا ہے، قیام کرتا ہے، آخرت کا ڈر رکھتا ہے ، اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے ، تو کیا سمجھ رکھنے والے اور ناسمجھ برابر ہوسکتے ہیں، ہر گز نہیں۔

ایمان او ردیگر ایمانی صفات، نماز، روزہ،حج، زکوٰة جہاد فی سبیل الله، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر، تقویٰ، پرہیز گاری، انفاق فی سبیل الله اور اخلاص نیت وغیرہ میں حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم ہمیشہ کار بند او رعمل پیرا رہے او رباہمی الفت ومحبت ، شفقت ورحمت کی صفت پر بھی ان کا عمل دائمی رہا، کیوں کہ الله نے ان پر پرہیز گاری کی بات کو لازم کردیا تھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by اضواء »

جزاك اللہ کل خیر...
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by اعجازالحسینی »

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ
انہی اوصاف کریمہ اور خصال حمیدہ کی وجہ سے حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے:” من کان مستنا فلیستن بمن قد مات، فإن الحی لاتؤمن علیھا الفتنة، أولئک أصحاب محمد صلی الله علیہ وسلم کانوا أفضل ھذہ الأمة، أبرھا قلوبا وأعمقھا علماً، وأقلھا تکلفا، اختارھم الله لصحبة نبیہ ولإقامة دینہ، فاعرفوا لھم فضلھم واتبعوھم علی آثارھم، وتمسکوا بما استطعتم من اخلاقھم وسیرھم، فإنھم کانوا علی الھدی المستقیم“․ ( جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر، رقم:2/134,1810، مشکوٰة المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم:1/111,193)

ترجمہ: حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو اُن کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ ہیں ، جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلیف اور تصنع ان میں کالعدم تھا، الله جل شانہ نے انہیں اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت اور برگزید گی کو پہچانو، ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو، اس لیے کہ وہی ہدایت کے راستے پر تھے۔

حضرت ابن مسعود ہی سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں:
”إن الله نظر فی قلوب العباد، فاختار محمداً صلی الله علیہ وسلم ، فبعثہ إلی خلقہ، فبعثہ برسالتہ، وانتخبہ بعلمہ ، ثم نظر فی قلوب الناس بعدہ، فاختار الله لہ اصحاباً فجعلھم أنصارَ دینہ ووراء نبیہ صلی الله علیہ وسلم، فما رآہ المؤمنون حسنا فھو عند الله حسن، ومارآہ المؤمنون قبیحاً فھو عندالله قبیح“․ ( حلیة الاولیا، رقم الترجمہ:84، الطفاوی الدوسی،376/1)

ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے محمد صلی الله علیہ وسلم کو پسند فرمایا او رانہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا اور ان کو اپنا خاص علم عطا فرمایا، پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ کے لیے صحابہٴ کرام کو چنا او ران کو اپنے دین کا مدد گار او راپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ذمہ داری کا اٹھانے والا بنایا، لہٰذا جس چیز کو مؤمن ( یعنی صحابہٴ کرام ) اچھا سمجھیں گے وہ چیز الله کے ہاں بھی اچھی ہو گی او رجس چیز کو بُرا سمجھیں گے ، وہ چیز الله کے ہاں بھی برُی ہو گی۔

حضرت علی رضی الله عنہ کا ارشاد
حضرت ابوارکہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے او ردا ہنی طرف رخ کرکے بیٹھ گئے تو ایسے معلوم ہورہا تھا کہ آپ بے چین او رغمگین ہیں ، حتی کہ جب سورج مسجد کی دیوار سے ایک نیزہ بلند ہوا تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی ، پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر فرمایا کہ الله کی قسم! میں نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہے، آج ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا ہے ، صبح کے وقت ان کی یہ حالت ہوتی تھی کہ رنگ زرد او ربال بکھرے ہوئے اور جسم غبار آلود ہوتا تھا، ان کی پیشانی پر ( سجدے کا) اتنا بڑا نشان نمایاں ہوتا تھا جتنا بڑا نشان بکری کے گھٹنے پر ہوتا ہے ، ساری رات الله کے سامنے سجدہ اور قیام ہی میں راحت حاصل کرتے تھے، جب صبح ہو جاتی اور وہ الله کا ذکر کرتے تو ایسے جھومتے جیسے کہ تیز ہوا کے دن ( یا باد صبا کے وقت) درخت جھومتا ہے اوراس طرح روتے کہ کپڑے گیلے ہو جاتے، خدا کی قسم ( ان کے رونے سے یوں نظر آتا تھاکہ) گویا انہوں نے رات غفلت میں گزار دی ہو ، پھر حضرت علی رضی الله عنہ کھڑے ہوگئے اور اس کے بعد کبھی آہستہ ہنستے ہوئے بھی نظر نہ آئے، یہاں تک کہ الله کے دشمن ابن ملجم فاسق نے آپ کو شہید کر دیا۔ ( حلیة الاولیا، رقم الترجمہ:4، علی بن ابی طالب،76/1)

صفات صحابہ رضی الله عنہم
قرآن وحدیث میں مذکور ان تمام صفات میں بے شک تمام کے تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم شریک ہیں، خواہ مہاجرین ہوں یا انصار، مکے کے رہنے واے ہوں یا مدینہ کے ، قریشی ہوں یا کسی او رقبیلے کے ، عربی ہوں یاعجمی، وہ تمام کے تمام باہمی خیر خواہی ، ہمدردی، غم خواری اور خوش خلقی میں بے نظیر وبے مثال تھے، زمانہ ان کی مثال لانے سے عاجز ہے ، پھر ان سب میں خصوصاً خلفائے اربعہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بعد تمام امت میں بہترین او رافضل ترین لوگ ہیں ، یہ لوگ آپس میں شیر وشکر تھے ، ایک دوسرے کے معاون ومدد گار تھے ، ان میں کسی طرح کا اختلاف وانتشار نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ان میں باہمی رشتے بھی ہوئے ، حضرات شیخین حضرت ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی الله عنہما کے بابرکت دور میں امت مسلمہ متفق ومتحد تھی ، اس مبارک دور میں امت میں دُور دُور تک کہیں بھی کسی طرح کے نظریاتی اختلاف کا وجود نہ تھا، پوری امت یک جان ویک قالبکفر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مقابلہ کے لیے سینہ سپر تھی۔

نظریاتی اختلافات کی ابتدا
سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کا ابتدائی زمانہٴ خلافت بھی اختلافات سے محفوظ تھا، البتہ ان کی خلافت کے آخری زمانہ میں ” ابن سبا“ نامی ایک یہودی الاصل شخص نے” آل رسول“ کے خو ش نما نعرے کی آڑ میں امت میں اختلاف وافتراق اور انتشار کا بیچ بویا، اسی نقطہ ٴنظر پر ایک مستقل اور اسلام کے متوازی مذہب کی بنیاد رکھی گئی ، ابتدا میں بہت سادہ اور عام الفاظ میں یہ کہا گیا کہ حضرت علی رضی الله عنہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے عزیز وقریب ہیں، تو لہٰذا وہی جانشینی وخلافت کے زیادہ حق دار ومستحق ہیں، حالاں کہ قرابت اور آل رسول کے لبادہ میں لپٹا ہوا یہ نعرہ جتنا سادہ او رخوش نما ہے، اتنا ہی یہ تعلیمات الہٰی او رحضو راقدس صلی الله علیہ وسلم کی23 سالہ مبارک زندگی اور آپ کے لائے ہوئے دین او راس کے منشا کے بھی خلاف تھا،اس لیے کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے نسلی امتیاز او رخاندانی فخر وغرور کے تمام بتوں کو نہ صرف پاش پاش کر دیا، بلکہ عزت وشرافت، بزرگی وبڑائی، سیادت وقیادت کا مدار”تقوی“ کو قرار دیا ہے۔

”الاتقیٰ“ کا مقام
قرآن کریم کا واضح او رببانگ دہل یہ اعلان ہے کہ صفتِ تقویٰ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ تمام جماعت صحابہٴ کرام میں ممتاز وفائق اور سب کے سرتاج سرخیل تھے، قرآن نے ”الاتقیٰ“ سب سے زیادہ متقی کا تاج انہی کے سر پر سجایا ہے ، قرآن کی یہ کوئی من گھڑت او رتراشیدہ تفسیر نہیں ، بلکہ خود سیدنا حضرت علی رضی الله عنہ سے جب کوفہ کی جامع مسجد میں بر سر منبر سوال کیا گیا کہ آپ لوگوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو خلیفہ کیوں بنایا؟ تو حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا: دین کے کاموں میں سب سے اہم تر نماز ہے ، حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں حضرت ابوبکر رضی الله عنہ ہی کو ہمارا”امام نماز“ بنایا تھا، حالاں کہ میں وہاں موجود تھا، حضور صلی الله علیہ وسلم کو میری وہاں موجودگی کا علم بھی تھا، مگر اس کام کے لیے آپ نے مجھے یاد نہیں فرمایا، بلکہ حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، لہٰذا جس شخص کو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ہمارے دین کی امامت کے لیے منتخب فرمایا ہے ، ہم نے دنیا کی امامت وقیادت کے لیے بھی اسی کو منتخب کر لیا ہے۔

جھوٹا پروپیگنڈہ
حضرت علی رضی الله عنہ کی ان تعلیمات کے برعکس ابن سبا اور اس کے پیروکاروں نے اُ س زمانے سے لے کر آج تک عوام او رجاہل طبقہ میں بڑی شدّ ومد کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا کہ خلافت صرف حضرت علی کا حق تھا، صحابہٴ کرام رضی الله عنہم نے، خصوصاً خلفائے ثلاثہ رضی الله عنہم نے، العیاذ بالله ان کے حق کو غصب کیا، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا، خاندان نبوت پر بڑے بڑے مظالم ڈھائے، جو زبان وبیان سے بالاتر ہیں، اسی وجہ سے حضرت علی رضی الله عنہ اور خلفائے ثلاثہ رضی الله عنہم کے درمیان اختلاف تھا، وغیرہ وغیرہ، انہوں نے ان مبارک ہستیوں او رپاک باز نفوس کے درمیان کشیدگی اور رنجیدگی کی نہ جانے کتنی افسانوی داستانیں گھڑ لیں ہیں او رانہیں حق وباطل کا معیار قرار دے کر بڑے زور شور سے بیان کرتے پھرتے ہیں ، حالاں کہ یہ سب محض جھوٹ او رمن گھڑت ہے ، اس کا حقیقت سے دور دور تک کا بھی کوئی علاقہ وتعلق نہیں۔

صحابہ  کے آپس میں تعلقات
خلفائے اربعہ رضی الله عنہم خاص طور سے او رباقی تمام صحابہٴ کرام رضی الله عنہم او ران کے خاندان نہ صرف باہم شیر وشکر تھے، بلکہ ہر ایک دوسرے کا غم خوار، غم گسار ،ہم درد، مہربان او رحقوق کو ادا کرنے والے تھے ، خود حضرت علی رضی الله عنہ سے فریقین کی کتابوں میں سینکڑوں احادیث وروایات مرو ی ہیں ، جن سے صحابہٴ کرام کے عمومی اور خلفائے ثلاثہ کی خصوصی فضیلت، منزلت ومرتبت او ربزرگی وتقویٰ کا اظہار ہوتا ہے ، یہ بات صرف اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ہی ثابت نہیں ، بلکہ اہل تشیع کی بنیادی او رمعتبر کتابوں میں بھی خود حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے ، جس کو فریق ثانی بھی نہیں جھٹلا سکتا ہے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by اعجازالحسینی »

جو چیز نص قرآنی اور سنت مشہورہ کے خلاف ہو وہ مردود ہے
حضرات صحابہٴ کرام او رخلفائے ثلاثہ رضی الله عنہم کی فضیلت ومنقبت ، بزرگی وتقویٰ قرآن وسنت سے ثابت ہے ، البتہ روایات او رتاریخ کی کتابوں میں کچھ تاریخی روایات میں ان حضرات کے درمیان مناقشات ، ناراضگی او رمشاجرات کا شائبہ ہوتا ہے، یہ نادان او رحقیقت ایمان سے محروم لوگ ان کے درمیان تنازعات ورنجیدگی کے جو نقشے کھینچتے ہیں ، نصوص قرآنیہ اور سنت مشہورہ کے مقابلہ میں ان کی چنداں حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ قرآن وسنت کے معارض بن سکتی ہیں ، اس لیے کہ اہل سنت او راہل تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے اور یہ فریقین کے ہاں مسلمہ ہے کہ جو روایت بھی نص قرآنی اور سنت مشہورہ مسلّمہ کے خلاف مروی ہو اور اس کی کوئی تاویل ممکن نہ ہو ، یا تطبیق وموافقت کی کوئی صورت نہ بن سکتی ہو ، تو وہ قابل تسلیم نہیں ہوتی، بلکہ قابل رد ہوتی ہے ۔

حضر ت جعفر صادق رحمة الله علیہ کا ارشاد
ابن سبا کے پیرو کار چوں کہ جھوٹی روایات گھڑ گھڑ کر آل بیت کی طرف منسوب کرتے تھے، چناں چہ شیعوں کی معتبر کتاب” رجال کشی“ میں حضرت جعفر صادق رحمة الله علیہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:” فاتقوا الله، لا تقبلوا علینا ما خالف قول ربنا تعالی وسنة نبینا محمد صلی الله علیہ وسلم“․ (تذکرہ مغیرہ بن سعید، ص:146)

ترجمہ: یعنی الله تعالیٰ سے خوف کرو، جو چیز کتاب الله اور سنت نبوی علیہ السلام کے برخلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کرکے مت قبول کرو۔

حضرت علی رضی الله عنہ کا ارشاد ہے
”امالی شیخ صدوق“ میں حضرت جعفر صادق ومحمد باقر رحمہم ا لله کی سند سے خود حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے :”فما وافق کتاب الله فخذوہ وما خالف کتاب الله فدعوہ“․ (مجلس: الثامن والخمسون، ص، :221)
ترجمہ: یعنی وہ بات جو کتاب الله کے موافق پائی جائے اس کو قبول کر واور جو بات کتاب الله کے مخالف معلوم ہو اس کو چھوڑدو۔

”احتجاج طبری“ میں حضرت باقر رحمة الله علیہ نے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے خطبہٴ حجة الوداع کے سلسلے میں یہی بات نقل کی ہے:”فإذا اتاکم الحدیث فاعرضوہ علی کتاب الله عزوجل وسنتی، فما وافق کتاب الله وسنتی فخذوا بہ، وما خالف کتاب الله وسنتی فلا تاخذوا بہ“․ (احتجاج ابی جعفر محمد بن علی الثانی علیہما السلام فی انواع شتی ص:229)
ترجمہ: امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی حدیث پہنچے تو اس کو کتاب الله اور میری سنت پر پیش کرو ، جو کتاب الله اور میری سنت کے موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو کتاب الله اور میری سنت کے برخلاف ہو اس کو مت تسلیم کرو۔

اہل سنت والجماعت کا مسلّمہ قاعدہ
اہل سنت والجماعت کے ہاں تو یہ ایک مستقل قاعدہ اور مسلمہ حقیقت ہے کہ نص قرآن اور سنت مشہورہ کے خلاف جو روایت پائی جائے تو وہ مردود ہے او رقابل التفات ولائق توجہ نہیں ، چناں چہ حافظ المشرق علامہ خطیب بغدادی (المتوفی463ھ) ”الکفایة فی معرفة اصول علم الروایة“ میں لکھتے ہیں:”عن أبي ہریرة عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال: سیأتیکم عني أحادیث مختلفة، فما جاء کم موافقاً لکتاب الله وسنتي فھو منی، وما جاء کم مخالفاً لکتاب الله تعالیٰ وسنتي فلیس منی“․

ترجمہ: ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری طرف منسوب شدہ مختلف قسم کی روایات عنقریب تمہارے پاس پہنچیں گی ، جو کتاب الله اور میری سنت ( مشہورہ) کے مطابق ہوں وہ درست ہوں گی او رجو کتاب الله اور میری سنت کے معارض ہوں، وہ صحیح نہیں ہوں گی۔ (باب: فی وجوب اطراح المنکر والمستحیل من الاحادیث، رقم الحدیث :552/2,1309)

اس کے علاوہ اصول فقہ کی مشہور ومعروف کتابوں میں بھی صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ کتاب الله کے خلاف پائی جا نے والی روایت قابل رد ہے ، وہ حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم نہیں ، بلکہ خود ساختہ اور مصنوعی چیز ہے۔

حضرت علی رضی الله عنہ کا ارشاد
حضرت علی رضی الله عنہ سے ابو الطفیل نے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:”حدثوا الناس بما یعرفون، ودعوا ما ینکرون، اتحبون ان یکذب الله ورسولہ؟“․

لوگوں کو مشہور ومعروف چیزیں بیان کرو اور غیر معروف یعنی منکر باتیں عوام میں ذکر مت کرو کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ الله اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟

علامہ ذہبی رحمة الله علیہ کا قول
علامہ ذہبی رحمة الله علیہ ”تذکرة الحفاظ“ میں حضرت علی رضی الله عنہ کا یہ ارشاد گرامی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:”فقد زجر الإمام علي رضی الله عنہ عن روایة المنکر، وحثَّ علی التحدیث بالمشہور، وھذا أصل کبیر فی الکف عن بث الأشیاء الواھیة والمنکرة من الأحادیث فی الفضائل والعقائد والرقائق“․ ( امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی الله عنہ،13/1)
ترجمہ: ہمارے امام ومقتدیٰ علی المرتضیٰ رضی الله عنہ نے ہمیں شاذ ومنکر روایات کے بیان کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے او رمشہور ومعروف چیزوں کے بیان کرنے میں رغبت دلائی ہے اور بے سروپا وبے اصل روایات کے پھیلانے اور تشہیر کرنے سے روکنے کے لیے یہ شان دار قاعدہ بیان فرمایا ہے، یہ روایات خواہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں، یا فضائل اور ترغیبات کے باب سے ہوں ، سب کی خاطر یہ قانون ضروری اور لازمی ہے۔

ملی وقومی اتحاد کا نسخہٴ کیمیا
اہل سنت او راہل تشیع کی معتبر کتابوں میں موجود ان مسلمہ قواعد پر عمل درآمد سے ہی دین او رایمان کی حفاظت ونگہ داشت ممکن ہے اور یہی وہ نسخہٴ کیمیا ہے جو ملی وقومی اتحاد کا باعث وسبب بن سکتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ الفاروق
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اسداللہ شاہ
مشاق
مشاق
Posts: 1577
Joined: Mon Jul 06, 2009 3:04 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین پر
Contact:

Re: عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by اسداللہ شاہ »

جزاک اللہ فی الدارین
[center]والسلام طالب دعا آپکا بھائی
اسداللہ شاہ[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by چاند بابو »

جزاک اللہ،
اعجاز الحسینی بھیا شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن

Post by اعجازالحسینی »

آپ سب کا بہت بہت شکریہ
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “حیاتہ الصحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)”