معراج کی حقیقت یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب الٰہی کا انتہائی بلند مقام عطا کیا گیا ۔ جس خالق و مالک اور قادر مطلق کی نمائندگی کرتے ہوئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی برس طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرتے ہوئے طاغوتی طاقتوں کے خلاف فکری جنگ لڑتے ہوئے گزار دئیے تھے اس نے اپنے فرستادہ کو بلند ترین اعزاز دینے کے لئے اسے اپنے پاس بلایا ۔ تا کہ کائنات اور زندگی کی جن سچائیوں کو منوانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرگرم عمل تھے ان سچائیوں کا قریب سے مشاہدہ کریں اور جس بین الانسانی تحریک خیر و فلاح کا احیاءآپ صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے تھے اس تحریک کے ایک بڑے دیرینہ مرکز ( بیت المقدس ) تک جا کر اور پھر وہاں سے عالم بالا کو پرواز کر کے اس تحریک کے سابق قائدین خاص سے ملاقات کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ معراج ( معراجِ جسمانی ) اپنے اندر شانِ کمال رکھتی ہے ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نام نامی ، ذات گرامی ، حسن و جمال ، عادات و خصال ، اعجاز قرآن ، عالمگیر و تاریخی سیرت ، عملی سیرت اور جامع سیرت ، ساقی کوثر اور شفاعت کبریٰ کے لحاظ سے ممتاز ترین مقام پر فائز ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس محیرالعقول معجزہ ( معراج جسمانی ) میں بھی منفرد ہیں ۔
واقعہ معراج میں مسافت بیشک طویل ہے اور اس میں پیش آنے والا ہر واقعہ بھی بہت عجیب و غریب ہے ۔ اسی لئے وہ جو نور ایمان سے خالی تھے انہوں نے اسے اسلام اور داعی اسلام کے خلاف بطور پروپیگنڈا استعمال کیا ۔ لیکن جن کے دلوں میں یقین کا چراغ روشن تھا ۔ انہیں قطعاً کوئی پریشانی یا تذبذب نہ ہوا ۔ اور نہ وہ دشمنان اسلام کی ہرزہ سرائی اور غوغا آرائی سے متاثر ہوئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جب اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ اگر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو یقینا سچ ہے ۔
معراج کا واقعہ درحقیقت ایمان کے لئے ایک کسوٹی ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، طاقت و قدرت اور اس کے مسبب الاسباب ہونے پر یقین کامل رکھتا ہے وہ واقعہ معراج یا اس قسم کے خلاف عادت امور کا انکار نہیں کر سکتا ۔ پھر جب کہ قرآن و حدیث میں اس کا صاف اور واضح بیان بھی موجود ہو ۔
اہل ایمان کے نزدیک کسی واقعہ کی صحت و عدم صحت کا انحصار اس پر نہیں تھا کہ ان کی عقل اس بارے میں کیا رائے رکھتی ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بے پایاں کے سامنے کسی چیز کا ناممکن خیال نہیں کرتے تھے ۔ ان کا یہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے جس طرح چاہے کر سکتا ہے ۔ ہمارے وضع کردہ قواعد و ضوابط اس کی قدرت کی بے کرانیوں کا احاطہ نہیں کر سکتے اور جو ذات اس واقعہ ( معراج جسمانی ) کی خبر دینے والا ہے وہ اتنا سچا ہے کہ اس کی صداقت کے متعلق شک و شبہ کیا ہی نہیں جا سکتا ۔
اسلئے جب شبِ معراج کی صبح کو حرم کعبہ میں نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے بھرے مجمع میں اس عنایت ربانی کا ذکر کیا تو دو گروہ پیدا ہو گئے ۔ ایک گروہ نے صاف انکار کر دیا اور ایک نے بلاچوں و چراں تسلیم کر لیا ۔
تیسرا گروہ
لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ایک گروہ تو وہی منکرین کا ہے ۔ دوسرا گروہ وہی ماننے والوں کا ہے ۔ اب ایک تیسرا گروہ بھی نمودار ہو گیا ہے جن کے اذہان اس منکر گروہ کی علمی و مادی برتری کے حلقہ بگوش ہیں ۔ نہ وہ اسلام سے اپنا رشتہ توڑنے پر رضا مند ہیں اور نہ ہی اپنے ذہنی مربیوں کے مزعومات و نظریات رد کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ۔ اس لئے وہ اس واقعہ ( معراج جسمانی ) کی ایسی تاویلیں کرتے ہیں کہ واقعہ کا نام تو رہ جاتا ہے لیکن اس کی ساری معنویت ختم ہو جاتی ہے ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام پر وارد ہونے والا ایک بڑا اعتراض دور کر دیا ہے ۔
اسریٰ اور معراج :
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے کچھ حصہ میں بیت الحرام سے ملاءاعلیٰ کی منازل طے کراتے ہوئے سبع سموٰت ، سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بلند تر آیات اللہ کا مشاہدہ کرایا گیا اور ان واقعات کے ذکر میں زبان وحی ترجمان صلی اللہ علیہ وسلم نے ” عرج بی “ کے الفاظ ارشاد فرمائے اس لئے اس پرعظمت واقعہ کو ” معراج “ سے تعبیر کیا گیا ۔
بعض علماءنے اصطلاحی فرق کے پیش نظر یہ کہا ہے کہ اس واقعہ کا وہ حصہ جس کا ذکر بصراحت سورہ بنی اسرائیل میں ہے ” اسرا “ ہے اور وہ حصہ جس کا ذکر سورہ نجم اور صحیح احادیث میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ” عرج بی “ کی مناسبت سے معراج کے نام سے موسوم ہے ۔
صرف ایک دفعہ ہوا :
بعض لوگ ان دو مختلف تعبیروں اور واقعات کی تفصیلات میں جزوی اختلاف کے پیش نظر تطبیق روایات کے لئے اس واقعہ کے تعدد کے قائل ہوئے ہیں جو کہ تاریخی اور تحقیقی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے ۔ مشہور محقق ، جلیل القدر محدث ، نامور مؤرخ اور عظیم مفسر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
” ان تمام روایات کو جمع کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ واقعہ معراج صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا ۔ اور راویوں کی عبارت کے بعض حصص کا ایک دوسرے سے مختلف اور تفصیلات میں کم و بیش ہونا وحدت واقعہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ “
جن علماءنے ان روایات کے جزوی اختلاف کی وجہ سے ہر ایک مختلف روایت کو الگ الگ واقعہ بنا دیا اور دعویٰ کر دیا کہ معراج کا واقعہ متعدد بار پیش آیا ہے یہ دعویٰ بالکل بعید از قیاس ہے اور قطعاً غلط راہ روی اختیار کر لی ہے اور وہ حقیقت حال سے بہت دور چلے گئے ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر ج3 )
پھر مزید لکھتے ہیں کہ ” یہ مسلک اس لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ نہ سلف صالحین سے تعدد واقعہ منقول ہے اور نہ تاریخی دلائل سے اس کے مؤید ہیں ۔ اور اگر ایسا ہوتا تو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بصراحت اسے مطلع فرماتے اور راویان روایت بلاشبہ اس کو روایت کرتے ۔ “
معراج قرآن مجید کے آئینہ میں :
قرآن مجید میں واقعہ معراج کا ذکر دو سورتوں میں ہوا ہے ۔
(( سُبحٰنَ الَّذِیٓ اَسرٰی بِعَبدِہ لَیلاً مِّنَ المَسجِدِ الحَرَامِ اِلَی المَسجِدِ الاَقصَا الَّذِی بٰرَکنَا حَولَہ لِنُرِیَہ مِن اٰیٰتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ )) ( بنی اسرائیل : 15 )
” پاک ہے وہ ذات ( ہر قسم کے عیب اور خامی سے ) جس نے اپنے بندے ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو رات کے کچھ حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی ۔ کہ جس کے اطراف کو ہم نے بڑی ہی برکت دی ہے ۔ اس لئے ( سیر کرائی ) کہ اپنی نشانیاں اسے دکھائیں ۔ بلاشبہ وہی ذات ہے جو سننے والی ، دیکھنے والی ہے ۔ “
اس مذکورہ آیت میں واقعہ اسراءبیت المقدس تک کی سیر کا بیان ہوا ہے ( 2 ) جبکہ دوسری سورت النجم میں ملاءاعلیٰ تک عروج کا ذکر موجود ہے ۔
ارشاد ربانی ہے :
(( وَالنَّجمِ اِذَا ہَوٰیo مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم وَمَا غَوٰیo وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَوٰیo اِن ہُوَ اِلَّا وَحیµ یُّوحٰیoعَلَّمَہ شَدِیدُ القُوٰیo ذُو مِرَّۃٍ فَاستَوٰیo وَہُوَ بِالاُفُقِ الاَعلٰیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوسَینِ اَو اَدنٰیo فَاَوحٰٓی اِلٰی عَبدِہ مَآ اَوحٰی )) ( النجم : 1-9 )
سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت میں واقعہ اسراءکے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اس کی اگر تحلیل کی جائے تو مطلب بالکل واضح ہوتا ہے کہ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس کا فیصلہ یہی ہے کہ واقعہ اسراءبحالت بیداری بجسد عنصری پیش آیا ہے اور اس مطلب سے ہٹ کر جب اس کو روحانی یا منامی رویاءکہا جاتا ہے تو تاویلات باردہ کے بغیر دعویٰ پر دلیل قائم نہیں ہو سکتی ۔
لفظ اسریٰ کی بحث :
سورہ بنی اسرائیل میں اس واقعہ کی ابتداءخدائے برتر کی قدوسیت اور سبحانیت کے بعد لفظ ” اسریٰ “ سے ہوئی ہے ۔
لغت میں ” اسریٰ “ کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں ۔ یہ لفظ ” س ، ر ، ی “ ۔ ” سریٰ یسریٰ “ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں ” سار لیلا “ ( منجد ) رات میں چلا ۔ یہی معنی ( اقرب الموارد ، قاموس ، لسان العرب ، ) مفردات راغب اور تمام کتب لغت میں بصراحت موجود ہے ۔
رب ذوالجلال نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ملاءاعلیٰ تک بجسد عنصری اپنی نشانیاں دکھانے کے لئے سیر کرائی اور یہ واقعہ چونکہ رات کے کچھ حصہ میں پیش آیا اس لئے اس کو اسریٰ کہا جاتا ہے ۔
لفظ معراج :
یہ لفظ عروج سے مشتق ہے جس کے معنی چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں اسی لئے زینہ کو معراج کہتے ہیں ۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ اس رات میں ملاءاعلیٰ کے منازلِ ارتقاءطے کراتے ہوئے سبع سمٰوٰت ، سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بھی بلند آیات اللہ کا مشاہدہ کرایا گیا اور ان واقعات کے ذکر میں زبان وحی ترجمان نے ” عرجابی “ کے لفظ ارشاد فرمائے اس لئے اس پرُعظمت واقعہ کو ” معراج “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
واقعہ معراج بحالت بیداری بجسد عنصری :
قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیق کے بعد یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ بحالت بیداری بجسد عنصری اور روح مع الجسم پیش آیا ۔
لفظ رویا سے مغالطہ :
بعض لوگ جو اس واقعہ کو بحالت بیداری اور روح مع الجسم نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ واقعہ صرف خواب میں پیش آیا ان کو بنی اسرائیل کی اس آیت ” وما جعلنا الرویا التی ارنک الا فتنۃ للناس “ اور وہ رویاءجو تجھ کو ہم نے دکھایا ، لوگوں کی آزمائش کے لئے تھا ۔ کے لفظ ” رویاء“ سے غلط فہمی ہوئی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ” رویا “ صرف عالم خواب پر ہی بولا جاتا ہے ۔ اس لئے یہ واقعہ صرف خواب کا تھا ۔ اور یہ صحیح نہیں ، کیونکہ رویاءکا لفظ صرف خواب کے لئے نہیں بلکہ یہ اس رویت پر بھی بولا جاتا ہے جس کا مشاہدہ آنکھ بحالت بیداری کرتی ہے ۔ چنانچہ عربی کی نہایت مستند اور مشہور لغت ” لسان العرب “ میں یہ تصریح موجود ہے ۔
” وقد جاءرویاءفی الیقظۃ “ اور بلاشبہ ” رویاء“ بیداری میں عینی مشاہدہ کے لئے بھی آتا ہے ۔ صاحب لسان العرب نے جاہلی شاعر ” راعی “ کے اس شعر کو اس معنی کے لئے بطور دلیل پیش کیا ہے ۔
فکبر للرویا وھش فوادہ
وبشر نفسا کان نفسا یلومھا
اس نے تکبیر کہی اور اس کا دل مسرت سے بھر گیا اور اس نے اپنے نفس کو پہلے ملامت کر رکھا تھا خوشخبری دی اس منظر کو دیکھ کر جس کا اس نے عینی مشاہدہ کیا ۔
اسی طرح متنبی کے اس مصرعہ کو بھی پیش کیا ہے ۔
ورویاک احلیٰ فی العیون من الغمصر
” اور تیرا دیدار ( میری ) آنکھوں میں نیند سے بھی زیادہ لذید ہے ۔ “
لہٰذا ان مستند اقوال عرب کے بعد ” رویا “ کو صرف خواب کی حالت کے ساتھ خاص کرنا بالکل صحیح نہیں ہے بلکہ خلاف تحقیق ہے ۔ اگر مشہور شاعر متنبی کو لغت عرب کے لئے غیر مستند تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی مشہور جاہلی شاعر ” راعی “ کو قطعاً غیر مستند قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اور کلام عرب کی سند کے لئے جاہلی شعراءسے زیادہ کوئی سند معتبر نہیں ہے ۔ پھر راعی کے شعر سے ” رویا “ کے معنی صرف خواب میں رویت کے لینا دعویٰ بلادلیل ہے ۔
امام لغت ابن وجیہہ لکھتے ہیں کہ ” رویت و رویاءکا استعمال بمعنی واحد ہوتا ہے ۔ اہل لغت کا قول ہے رایت رویۃ ورویا قربۃ وقربی ہے ۔ اہل لغت کے اس قول سے بھی یہ وہم دور ہو جاتا ہے ۔ کہ رویا صرف خواب ہی کے لئے استعمال ہے ۔ ( رحمت للعالمین )
رویا کا تعلق واقعہ بدر سے :
علامہ زمخشری ( جو آئمہ لغت و معانی و بیان میں سے ہیں ) نے اپنی تفسیر کشاف ( ج 2ص 191 ) پر آیت بالا کے تحت لکھا ہے کہ اس رویا کا تعلق واقعہ بدر سے ہے ۔ اب اس مذکورہ بالا آیت ( وما جعلنا الرویا ) کو واقع معراج سے متعلق کرنا حتمی نہ رہا ۔
لہٰذا اس لغوی حقیقت کے آشکار ہو جانے کے بعد ” رویا “ کو صرف خواب کی حالت کے ساتھ مخصوص کر دینا قطعاً صحیح نہیں ہے ۔ جو لوگ اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں لفظ ” رویا “ کو اس روایت جس کا مشاہدہ آنکھ بحالت بیداری کرتی ہے “ کی بجائے ” رویا “ کا اطلاق ” صرف رویت خواب کی حالت پر کرتے ہیں “ ان کے پاس تخصیص کی کوئی معقول اور صحیح دلیل نہیں ہے ۔
روایاتِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا سہارا :
معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم بحالت خواب ثابت کرنے والوں کے پاس لغوی ، قرآنی اور حدیثی اعتبار سے کوئی صحیح دلیل نہیں ہے بلکہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایات کا سہارا لیتے ہیں ۔ ان کا یہ سہارا بہت ہی کمزور ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ روایات محدثین کے نزدیک بچند وجوہ غیر مستند ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کتب حدیث کی بجائے فقط سیرت کی روایت ہے اور پھر محمد بن اسحاق اس کے متعلق یہ کہتے ہیں : حدثنی بعض آل ابی بکر مجھ سے یہ روایت ابوبکر کے خاندان کے کسی فرد نے بیان کی ہے ۔ اس لئے یہ روایت منقطع ہے کیونکہ درمیان کا ایک راوی مجہول ہے جس کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کون ہے اور کس درجہ کا ہے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ والی روایت :
یہ روایت بھی کتب حدیث کی بجائے سیرت کی روایت ہے جس کو محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن الاخنس سے روایت کیا ہے اور محدثین اس پر متفق ہیں کہ یعقوب نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا ۔ اس لئے یعقوب اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ضرور کوئی راوی متروک ہے ۔ جس کا روایت میں کوئی ذکر نہیں ۔ پس یہ روایت بھی مجروح اور منقطع ہے ۔ ( قصص القرآن ج4 ص349, 350 )
علاوہ ازیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ معراج تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں تھیں ۔ اس واقعہ کے بعد نکاح ہوا اور رخصتی مدینہ میں ہجرت کے بعد ہوئی ۔ نیز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ ( معراج مصطفی ص 23 )
معراج کی حقیقت
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)
Re: معراج کی حقیقت
جزاک اللہ
قمر بھائی بہت بہت شکریہ۔
قمر بھائی بہت بہت شکریہ۔