لذت آشنائی- گذشتہ مکمل - زندگی کی پنہاں حقیقتوں اور لذتوں سے

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
محمد الطاف گوہر
کارکن
کارکن
Posts: 36
Joined: Sun Aug 16, 2009 1:05 pm

لذت آشنائی- گذشتہ مکمل - زندگی کی پنہاں حقیقتوں اور لذتوں سے

Post by محمد الطاف گوہر »

تحریروتحقیق: محمد الطاف گوہر
تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسکے باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اور انسانی سوچ کو بلند فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دور دورہ ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے اور دقیانوسی تصورات کی جگہ لے لی ہے دور حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں چکا چوند کر دی ہیں ۔ اگر پچھلی ابتدائی صدیوں کے انسان کو آج کے دور کے سلسلہءزندگی کو دیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ سو فیصد غیر یقینی حالت میں چلا جائے گا کیونکہ پرانے وقتوں میں ایک انسان کیلئے ہوا میں اڑنا ،سمندر کے پانی میں سفر کرنا دور دراز کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرنا یا پھر لاکھوں کلو میٹر دور بیٹھے شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف دیکھنا بلکہ بات بھی کر لینا یا پھر زمین کے کسی بھی کو نے سے دوسرے کو نے میں پلک جھپکتے میں بات کر لینا یا پھر اسے پیغار م بجھوا دینا کسی حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔مگر آج کے انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ زمین ساری کی ساری اس کی دسترس میں آ گئی ہے اور یہ دنیا اب ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف Mouse کی ایک Click کے فاصلے پہ ہے۔جبکہ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک Global Villiageکی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ یہاں تک کہ دنیا کے ایک کونے میں سرکنے والے پتھر کی بازگشت دوسرے کونے میں سنای دیتی ہے۔مگر ہمارے دنیا کو ماپنے اور جاننے کے پیمانے وہی صدیوں پرانے ہیں؟
یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر اس پرانی صدی کے انسان کو ہماری اس دنیا میں رہنے کا موقع ملے تو ا س کیلئے یہ سب کچھ جو وہ دیکھے گا کسی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں ہو گا ۔مزید براں یہ سارے طلسمات ایک عام انسان کی دسترس میں ہیں کہ وہ نا صرف گھر بیٹھے دور دراز کے حالات اور دنیا کی خبر رکھ سکتا ہے بلکہ زمین کے کسی بھی کونے میں ہونے والے حالات ا سکی نظروں کے سامنے ہیں لہذا اس انسان کیلئے ہوا میں اڑنا اور دور دراز کے رابطے کیلئے پریشان ہونا اور دور کی خبریں حاصل کرنے کیلئے تگ ودو کرنا کتنا مضحکہ خیز ہو گا؟ پہلے وقتوں میں یہ سب باتیں شخصی کمالات کے زمرے میں آتی تھیں اور ان کی ضرور ت بھی تھی کیونکہ وسائل محدود تھے اور کسی کو بھی ٹیلی فون ،ٹیلی ویژن، جہاز ، گاڑی کی سہولیات میسر نہ تھی بلکہ ان کا تصور بھی نہ ہو گا اب جبکہ یہ سب کچھ ہو چکا تو ان علوم پر وقت ضائع کرنا جن سے یہ کمالات حاصل ہوں مندرجہ بالا جائزہ کے پس منظر میں کتنا مضحکہ خیز ہو گا ؟
اب روائتی شخصیت پرستی کا دور ختم ہو چکا ہے پہلے اگر راکھ کی ایک چٹکی کوئی خاص آدمی کسی عام آدمی کو دیتا تھا تو وہ آنکھیں بند کر کے منہ میں رکھ لیتا تھا کہ یہ کوئی خاص آدمی کا کمال ہے اور واقعی شفا بخشی بھی نظر آتی تھی مگر آج سائنسی ترقی علوم کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ راکھ کے اندر بھی شفا بخشی کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ ہو میو پیتھک طریقہ علاج میں Carbo Veg کے نام کی راکھ سے دوا بھی موجود ہے ۔ ارتقا ء کا دھارا اب کسی دوسری طر ف گامزن ہے ۔یہ شعوری بالیدگی کا دور ہے اب بہت سے طلسمات کا جادو ٹوٹ چکا ہے۔پہلے پہل بہت سی با تیں جن کو جادوئی تصور کیا جاتا تھا اب ان کی بھی کوئی نہ کوئی طبعی توجیہہ بھی کی جا سکتی ہے۔
ع اس موڑ سے آگے منزل ہے مایوس نہ ہو دراتا جا

اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگوں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ
اس کائنات کا بنانے والا کون ہے ۔؟
زمین پر زندگی کا آغاز کسیے ہوا ۔؟
زندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟
ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیوں مر جاتے ہیں۔؟
آیا ان سب معا ملات کے پس پردہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے ؟
ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش و خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے ۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) ا کثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے ۔لہذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے ۔یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے ۔لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلیق سے متعلق تحقیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کی گیں۔
لوگوں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کیلئے اسکا ظاہری مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قد رت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری،الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا ۔ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زیستی (Biological)قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیئے۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تحقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے ۔
علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق میں تلاش کیا جائے خود انہوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ گراس ظاہری کائنات کا کوئی خا لق ہے تو انکے وجود (جسم )کا بھی کوئی خالق ہو گا ؟ لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہیں ۔ اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND (پہ کئے گئے نہ کہ جسم پہ۔
پرانے وقتوں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے ملکر بنی ہے ۔زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات108عناصر سے ملکر بنی تھی ۔پھر ان 108عناصرکی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM)سے ملکر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔ اسکے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔یہ معاملہ سائنسدانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں ۔لہذا ایک نئی اخترا ع سا منے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھرا ے جو کہ لہر کے ذرات ا ور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا ۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle)ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو کہ اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹاین کی مساوات E= MC2 بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہوئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے ۔ جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
یہ تو بات ہو رہی تھی ا ن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھڑا کیا ۔ اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے نفس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی اور انہوں نے اپنی توجہ اپنے ا ند ر مرکوز کر دی جسکے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تا کہ ا پنے اندر کا سفر کرکے اس اکائی (جز)کو تلاش کیا جا سکے جو کے انکو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے ۔اس کوشش نے علم نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی ۔تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آ ج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے نفس کو تحقیق کیلئے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے ۔مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک ا ہم گہرا احساس دلانے وا لے وجود یعنی خودی ( میں،SELF)سے پڑا اور یہ اخذ کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلی حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا اس کائنات میں نفوذ ہے ۔ اب ان ِ تحقیقات مراقبہ اور سائنس میں کبھی کبھی ہم آہنگی ہونے کے ممکنات موجو د ہیں ۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق حس آگاہی کے ۔یہ ایک اعلی مطلق خبر آگاہی جسکا ہر طرف نفوذ ہے اور یہی وہ اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے ( اللہ نور السمٰوات ولارض) ( ھوالا اول و آخر و ظاہر و باطن) کبھی ہم اپنی ذات (خودی ) سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں (من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ)۔
(یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ اس درجہ کے احساس خود شناسی پہ وحدت الوجود کا مغالطہ نہ ہو، اگلی کسی تحریر میں اس فلسفہء کو بھی بیان کردوں گا ) ۔ مراقبہ ایک عمل ہے جو اپنی گہری حالتوں میں کسی بھی شخص کیلئے وجود حقیقی سے روابط کا ذریعہ بنتا ہے۔
علم نورانی (مراقبہ)
مدتوں سے لوگ مراقبہ کو ایک انتہائی پر اسرار اور مشکل موضوع سمجھتے رہے ہیں ہمیشہ بڑے بوڑھے اور فار غ لوگوں کو اس کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ۔مراقبہ پر پوری دنیا میں سائنسی طریقہ کار کے تحت تجربات کر کے اخذ کر لیا ہے کہ اس عمل سے انسانی ذہن اور جسم پر انتہائی اعلی مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں جس میں تعلیم و عمر کی کوئی قید نہیں اب کوئی بوڑھا ہو یا جوان سب ہی مراقبہ کی کرنے مے دلچسپی رکھتے ہیں مزید برآں اب تو سکول و کالج میں مراقبہ کی تعلیم کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کم و بیش پوری دنیا میں مراقبہ کی تربیتی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور صحتی ادارے اپنے مریضوں کو روزانہ مراقبہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مراقبہ جو کہ پہلے وقتوں میں صرف مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا اب دنیاوی پیش قدمی کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل کے لئے بھی مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے آج پوری دنیا میں ذہنی دباﺅ کو کم کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کو آج کے وقت میں انتہائی میسر آلہ قرار دے دیا گیا ہے جوں جوں معاشرہ میں اسکی آگاہی بڑھتی جا رہی ہے نتیجہ میں انسانی بھائی چارہ اور عالمی اتحاد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جب زیادہ لوگ مراقبہ کی بدولت ذاتی شناسائی حاصل کرتے جائیں گے انکو کائنات کی سچائی اور اصلیت کا قرب حاصل ہو گا اور نتیجہ عالمی بھائی چارہ وجود مے آئے گا۔
مراقبہ کیا ہے ؟
مراقبہ انسان کا اپنی حقیقی خودی (ذات) کی طرف ایک گہرا سفر ہے جس میں ایک انسان اپنے اندر (باطن) میں اپنا اصلی گھر تلاش کر لیتا ہے آپ چاہے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ۔ کسی بھی مذہب اور روحانی سلسلہ سے منسلک ہوں مراقبہ سب کے لئے ایک جیسا عمل ہے مراقبہ آپکی توجہ ،آپکے باطن کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے آ پکا ذہن اس طرح سے سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے اس طرح آپکی توجہ بھٹکے ہو ئے شعور کی حدود سے نکل کر حقیقی مرکز سے مربوط ہو جاتی ہے ۔مراقبہ ذہن کی وہ طاقت ہے جو اسکو نورانی پہلو کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیتی ہے اس پہلو سے ذہن زندگی کا اعلی مقصد آشکار ہوتا ہے مراقبہ کو آپ" نورانی علم " سے تعبیر کر سکتے ہیں کیونکہ ہے نور کے چشمہ سے کام کرتا ہے ۔حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور کے ساتھ منسلک ہے جو اسکی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر کام کرتا ہے ۔ مراقبہ علم کی وہ قسم ہے جو آپکی شخصیت ،روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے ۔ مراقبہ ایک علمی تجربہ ہے جو ذہنی کشمکش سے خالی پن اور ظاہر ی زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔مراقبہ ایک عملی نمونہ ہے زندگی کو قریب سے دیکھنے پر اسکے ظاہری نا پائداری کے احساس کا۔ مراقبہ کو آپ ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں ۔جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں ۔جتنا زیادہ اس عمل کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی ۔یہ اس طرح کا عمل ہے جیسے ایک باڈی بلڈر یا پہلوان جسمانی ورزش کے باعث مضبوط و خوبصورت بناتا ہے۔ مراقبہ کرنے کی عادت سے باطنی اعضاء کی ورزش ہوتی ہے اور وہ قابل استعمال ہو جاتے ہیں۔
عبادت اور مراقبہ میں فرق
عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھاہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نا صرف شناسا ہوا جاتا ہے بلکہ مشاہدہءقدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب العین (مقصد)صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اسطرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھو ٹ پڑ تے ہیں ۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آجاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے ۔بہار بھی ایسی کہ خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے اور لذت بھی ایسی
ع کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے

یہی زندگی کا موسم بہار ہے جسکے آ جانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جسکے سامنے ایک وسیع واریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہےں اور آنے والے کل کی خشبوکا دور دورہ ہے۔یہاں لذت سرور کا وہ سماں ہے جو کہ دنیا کے کسی نشے میں نہےں ۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کے بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔اب اسکا سفر کوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں جسکے سفینے صرف کامیابی ،خشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ـ
لذت آشنائی قسط نمبر 2

ہر دور میں مختلف افراد اپنی بساط کے مطابق ’میں‘(SELF )کی تلاش میں نکلے، کسی نے کہا ’کی جاناں میں کون؟‘اور کوئی ’ان الحق‘ کا نعرہ لگا کر چلا گیا کسی نے خودی کا تصور دیا۔ غرض ہر نظر نے اپنے اپنے زاوئیے سے دیکھا اور جو دیکھا خوب دیکھا ۔ ہر شے کو دیکھنے کے360 زاوئیے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے۔ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جو حقیقت شناسا ہوتی ہے۔
اگر ہائیڈروجن گیس کے دو حصے اور آکسیجن کا ایک حصہ ملایا جائے تو نتیجتاً پانی بنے گا مگر ان دونوں گیسوں کو اور کسی بھی ترکیب سے ملایا جائے پانی نہےں بنے گا چاہیں کروڑوں طریقے آزمائے جائیں۔ یعنی ایک ہی زاویہ یا ترکیب کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے وگرنہ دوسری ساری تراکیب و طریقے (زاوئیے، نقطہ نظر)سوائے گمراہی اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں۔
تخلیق کا خاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جو ایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں)ایک خاص نسبت (ترکیب)پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ جیسے قدرت کے رازوں میں سے ایک راز واضح کرتا چلوں کہ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H20) کی نسبت کے ساتھ ملتی ہیں تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جوکہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔
اس دنیا کو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خاردار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’میں ڈوبا تو جگ ڈوبا‘ یعنی ایک دفعہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے شور مچایا کہ مجھے بچاﺅ دونہ تمام یہ دنیا (جگ) ڈوب جائے گی۔ لوگوں نے اسے بچا کر کنارے پر پہنچایا اور پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک کہ تم ڈوب رہے تھے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں ڈوبا تو جگ ڈوبا؟ وہ شخص بولا بھئی اگر میں ڈوب کر مر جاتا تو میرے لئے تم سب مر گئے تھے نا یعنی میرے لئے تو دنیا ختم ہوگئی تھی “
اس مثل میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے۔ اب اندر کی دنیا بھی کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے جسے ہم بچپن سے لے کر مرنے تک تعمیر کرتے ہیں اور اس کی منزلوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ہم میں سے کچھ لوگ تو اس عمارت کی بیسمنٹ میں رہتے ہیں کچھ گراونڈ فلور پر اور کچھ سب سے اوپر والی منزل پر۔ آپ اندازہ کریں کہ جو شخص اس کئی منزلہ عمارت کی بیسمنٹ میں رہتا ہو جہاں حشرات الارض (کیڑے مکوڑے) اور بدبودار ماحول ہے اسکو کس طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اس شخص کی زندگی کے بارے میں جو سب سے اوپر والی منزل میں رہتا اور قدرت کے نظارے ، صبح سورج طلوع ہونے کا منظر ، بادلوں کا آنا جانا ، غروب ہونا کا منظر وغیرہ دیکھتا ہے۔ غرض اپنے ہی اندر کوئی عذاب میں مبتلا ہے اور کوئی سکون کی لذت سے مالامال ہے۔
یعنی یہ کئی منزلہ عمارت ہمارے اپنے اندر (ذہن ) میں بنے ہوئے ماحول (Mind Set ) ہیں جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کبھی تکلیف نہیں کرتے کہ اسکے بارے میں معلوم کریں؟ بچن سے اب تک جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہیں، سنتے آئے میں سب کا سب ہمارے ذہن کا حصہ بن چکا ہے مگر اس سب کو ہم باہر سے اندر غیر جانب دار ہو کر ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ اپنے عقیدہ (Belief System)کے تحت مرضی کی اشیاء اپنے ذہن کا حصہ بناتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شاندار طریقے سے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم تہہ در تہہ اس کو ذخیرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ہماری زندگی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
خودی (SELF ) ہر فرد کے اندر سے اس دنےا ( زندگی )کی ہر چیز کا مشاہدہ کررہی ہے؟ اس دنیا کی ہر چیز تبدیل ہوتی ہے ہمارے نظریات تبدیل ہوتے ہیں، ہماری ذات، اردگرد کا ماحول ملک خاندان غرض ہر شے تبدیل ہوتی ہے مگر یہ مشاہدہ کرنے والی اکائی (میں - SELF ) کبھی تبدیل نہےں ہوتی بلکہ شہادت دیتی ہے کہ اب بچپن ہے اور یہ جوانی ہے اور یہ بڑھاپا ہے ہر چیز پہلے اسطرح تھی اور اب اس طرح ہو گئی غرض ہمارے اندر سے اس دنیا کی ہر تبدیلی پہ یہ اکائی (میں Self) شہادت دینے والی بن جاتی ہے۔ مراقبہ اپنے آپ کو جاننے کا ایک عمل ہے کہ دراصل ہم میں کون ہیں؟ اور ہمارے اندر کبھی نہ تبدیل ہونے والی اس (Self )سے رابطہ کیسے کیا جائے جبکہ اسکے ثمرات سے استفادہ حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے۔
آپ سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کون ہیں؟ تو یقیناً آپ برملا کہیں گے کہ میں چھبیس برس کا مرد ہوں، پاکستانی ہوں، سفید رنگ ہے، مسلمان ہوں، ڈاکٹر ہوں اور کسی ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دیتا ہوں اور اس سال شادی کا ادارہ
رکھتا ہوں مگر کیا یہ اس سوال کا مکمل جواب ہے؟ کیا یہ سب باتیں جو آپ نے بیان کی ہیں آپ کو مکمل طور بیان کرتی ہیں؟ تو یقیناً آپ مزید اضافہ کریں گے کہ میں چھ فٹ کا مضبوط، گھنگھریالے بالوں والا، صاف چہرہ، جوان ہوں۔ مجھے آئس کریم کھانا پسند ہے، کرکٹ کھیلنا اچھا لگتا ہے دیگر باغبانی بھی میرا مشغلہ ہے، فلمیں دیکھنا مجھے پسند ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ کیا آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر بیان کررہے ہیں؟ لہٰذا اگر میں پوچھوں کہ اگر آپ پاکستان میں پیدا نہ ہوتے بلکہ افریقہ کے کسی جنگلی قبیلے میں کالے لوگوں کے درمیان پیدا ہوتے اور پڑھنے لکھنے کا موقع نہ ملتا تو آپ کا کیا جواب ہو گا کہ آپ کون ہیں؟
یہاں ٹھہریں ایک مرتبہ غور کریں کر وہ تمام شناختتیں جو ہم رکھتے ہیں ہمارا نام، ہمارے نظریات ،ہماری جسمانی ساخت، اور خیالات وغیرہ یہ تمام ایک مجموعہ ہے اِن حالات کا جن کے اندر ہم پیدا ہوئے اور پروان چڑھے آپ اپنے خاندان کے نقوش اپنے اندر وراثت میں لیے ہوئے ہیں۔ آ پکا قد کاٹھ ، رنگ، جسمانی مضبوطی ان جینز (Geans)کی وجہ سے ہے جو آپ اپنے والدین کی طرف سے وراثت میں لیتے ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں۔تو آپ کے پاس موقع ہے۔ جس کے باعث آپ اپنی خوش قسمتی سے محنت کے باعث ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اس بات پر ذرا غور کرے۔ کہ جو حالات آ پکو پیدائش کے بعد ملے انہی میں آپ پروان چڑھے اور انہیں خاص حالات و واقعات میں آپ کچھ بھی بن گئے۔ یہ تمام باتیں ہو کر بھی جو ایک فرد کو بیان کرنے میں استعمال کی گئی ہیں وہ صرف ان خاص حالات و ماحول کے اثرات میں جو کسی بھی شخص کو مخصوص کر دیتے ہیں مگر یہ باتیں حقیقت میں آپ کو بیان نہیں کرتیں۔ کسی بھی شخص کے کبھی بھی نہ تبدیل ہونے والے پہلو کو بیان نہیں کرتیں جو کہ ہر حال میں یکساں رہتا ہے۔ چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ یہ کوئی معاملہ نہیں کہ آپ کہاں پیدا ہوئے، کو نسا مذہب اپنائے ہوئے ہیں ،آپکی قومیت کیا ہے؟ آپ کا تعلیمی معیار کیا ہے؟آپ ان سب باتوں سے ہٹ کر علیحدہ ایک پہچان رکھتے ہیں۔ ایک شناخت جو آ پکو اس دنیا میں ہونے کی ایک علیحدہ پہچان دیتی ہے۔ مراقبہ کا مقصد ہے کہ آپ اپنی اس حقیقی شناخت کو جان سکیں جو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہے حالات خواہ کچھ بھی ہوں اس میں تبدیلی واقع نہےں ہوتی ۔ وہ شناخت کیا ہے؟ اور آپ حقیقت میں کون ہیں؟
درحقیقت آپ صرف ایک احساس خودی (Self) ہیں۔ اور یہ حس آگاہی ہے نہ کے آپکا ذہن، جسم یا پھر خیالات بلکہ اس مکمل شعوریت (خودآگاہی) ہیں جوکہ محسوس کرتی ہے۔ اور شاہد بنی ہوئی ہیں کہ آپ زندگی میں کیا رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والا ،از سرنو زندگی بخشنے والا ہے۔ مراقبہ ایک خودی (Self )کو اپنے اندر جاننے کا عمل ہے۔ اس موقع پہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد یہ کس طرح جان سکتا ہے کہ اس کے اندر خودی (Self ) موجود ہے جوان تمام واقعات و حالات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو ہمارا ذہن یا جسم اس زندگی میں کر رہا ہے۔
یہ بات یہاں تک واضح ہوگئی کہ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے۔ جو ہمیں اپنے اندر موجود خودی (Self) سے ملانے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والی اور از سرنو زندگی بخشنے والی ہے۔ لہٰذا ہم چاہیں گئے کہ مراقبہ کو سمجھنے کیلئے ہم سب سے پہلے اپنے اندر موجود خودی (Self) کو جانیں۔آپ اس خودی کو اور بھی نام دے سکتے ہیں۔ مثلاً، نفس، میں (مثلاً Self, I, ) وغیرہ آئیے اب ایک چھوٹا سا تجربہ کرتے ہیں جو انتہائی دلچسپی کا حامل ہے اور آپ کے لئے اس (میں ) سے شناسائی کا ذریعہ بنے گا۔
”آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کوئی ایک لفظ، کسی کا نام یا اللہ کا نام 25 مرتبہ اپنے ذہن میں دہرائیں مگر گنتی دل ہی دل میں ہونی چاہیے مگر گنتی کرتے ہوئے ذہن میں کوئی اور خیال نہےں آنا چائیے اور اگر گنتی میں کوئی غلطی ہو تو دوبارہ سے گنتی شروع کر دیں۔ مگر گنتی ذہن میں ہی رہے ناکہ ہاتھوں یا انگلیوں پہ“ اس تجربہ کے کرنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ25 مرتبہ ایک لفظ اپنے ذہن میں گنتے رہے ہونگے اور خیال بھی ذہن میں آتا ہوگا۔ یا ہو سکتا ہے کہ چند خیالات ذہن سے گزرے ہوں۔ یا پھر پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہو اور کئی مرتبہ اس تجربہ کو کرنا پڑا ہو تو پھر جا کر 25 مرتبہ کی گنتی پوری ہوئی ہو یا پھر خیالات بھی آ رہے ہوں اور گنتی بھی جاری رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ یہ تجربہ نہ کر پائے ہوں کہ آپ 25 مرتبہ کوئی ایک لفظ دہرائیں اور کوئی خیال بھی ذہن میں نہ آئے ۔
معاملہ کچھ بھی، تجربہ کچھ بھی ہو، بات حقیقت ہے کہ آپ اپنے اندرونی خودی (Self ) کے وجود کا انکار نہ کر پائیں گے۔ کیونکہ جب آپکا ذہن گنتی میں مصروف تھا تو وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن سے خیالات گزر رہے ہیں؟وہ کون تھا جو ایک ہی وقت میں مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن میں خیالات بھی آ رہے ہیں اور گنتی بھی ہورہی ہے؟ کیونکہ آپ کا ذہن کو یقیناً گنتی میں مصروف تھا۔ یقیناً آپ کہیں گے کہ وہ میں تھا جو دیکھ رہا تھا کہ کوئی خیال ذہن میں آ رہا ہے اور گنتی بھی صحیح ہو رہی ہے۔ وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا؟ آپ کا جسم یا پھر آپ کا ذہن؟ یا پھر آپ خود؟ اگر آپ یہ سارا عمل دیکھ رہے تھے تو آپ کو اپنے ذہن اور جسم سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ جی ہاں! دراصل یہ حس آگاہی ہی تو خودی (Self) ہے جو آپکو اپنے خیالات ت تصورات سے آگاہ کرتی اور صرف اور صرف خودی (Self) ہی ہے جو آپکو بتلاتی ہے کہ آپکے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہو رہا ہے ؟ و دیگر سے آگاہی کا سبب بنتی ۔ اس جاننے والے کو جاننے کا عمل ہی مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل اپنی ذات سے شناسائی کا عمل ہے اس تجربہ سے یقیناً آپ اپنے اندر اپنی ذات، خودی ) Self ( سے آگاہ ہوئے ہونگے لہٰذا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپکو زندگی کے اس تیسرے پہلو سے آگاہی حاصل ہو جو مراقبہ کی روح ہے اور اِن سارے معاملاتِ مراقبہ میں مرکزی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــ
لذت آشنائی قسط نمبر 3


اس خطہءزمین پہ ہم روزانہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوے صبح کو آتے ہیں ، دن گزارتے ہیں اور رات کو واپس چلے جاتے ہیں کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مختصر سے لمحے کو رہنے کی زندگی کیلئے شاندار محلات تعمیر کرتے ہیں اور شانِ طولانی دیکھئے کہ انا (خود پسندی) کی ملمع کاری بھی سمندر میں اُٹھتی ہوئی لہر کی طرح ہے جو اپنے ہی شور میں یہ بھول گئی ہے کہ آخر اِسے پھر واپس اِسی سمندر میں مل جانا ہے تو پھر اتنا تلاطم کیسا؟ اور اتنا بپھرنا بھی کیا؟آخر سر اٹھاتی ہوئی موجیں (لہریں) ہی کناروں سے اپنا سر پھوڑ تی ہیں وگرنہ گہرے سمندر تو از لوں سے خاموش اور ساکن رہے ہیں۔ ہمارے رشتے اور ناطے آپس میں کچھ اس طرح سے ہیں کہ جیسے ریل کے ایک ڈبے میں چند لوگ بیٹھے سفر کر رہے ہوں اور ان کو اپنی نامعلوم منزل پر پہنچنا ہے اور جیسے ہی کسی کی منزل آ گئی وہ اُتر گیا اور پھر یہ سفر جاری رہا اور آخر ایک وقت آتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ عدم سدھار جاتے ہیں تو پھر آپس میں نفرتیں، عداوتیں اور محبتیں کیسی؟
میں (Self) جو کہ اِس کائنات سے ہمارا رابطہ (Channel) بنتی ہے اس تک رسائی کیلئے پہلے ہمیں اپنے قلوب کے زنگ کو اُتارنا ہو گا جبکہ یہ زنگ وہ بدعملیاں اور منفی جذبے و رویے ہیں جو ہمارے من (قلب) پہ زنگ کی ملمع کاری کی طرح تہہ در تہہ چڑھتے رہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ باہر کی روشنی اندر دکھائی نہیں دیتی اکثر اوقات خوشبختی، سکون اور راحت باہر سے دستک دیتے ہیں اور اندر آنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں مگر اندر کے یہ دُشمن اِنہیں گھسنے نہیں دیتے۔ ہمارے تمام یہ منفی رویے جذبے (حسد، لالچ، مکر، فریب، دھوکہ دہی، نفرت وغیرہ) اور خوامخواہ کے خوف جو ہم نے اپنے اندر بیج (تخم، Seed) کی طرح بو دئیے ہیں آخر کچھ تو پھل دیں گے؟
قدرت کے بچھائے ہوئے سبز مخملی قالین (گھاس) پہ چلتے ہوئے ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ رنگ برنگے پھل و پھول اور پودے اور تنا آور درخت سب کے سب ایک ہی زمین سے نکلے ہیں مگر ہر ایک کا ثمر (پھل) اور خاصیت دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ گلاب کے پودے پر گلاب کا پھول مگر نرگس کے پودے پر نرگس کا پھول اور دونوں کی رنگت اور خوشبو جداگانہ حالانکہ ایک ہی زمین سے نکلی ہوئی یہ نباتات جو کہ جبلت کی باندھی ہوئی ہے (یعنی نشوونما تو ہے مگر نقل مکانی نہیں اور نہ ہی سمجھ بوجھ) اس کو بھی معلوم ہے کہ گلاب کے پودے کے ساتھ گلاب کا پھول لگے گا نہ کہ چنبیلی یا نرگس کا۔ اب اگر ہم آم کا بیج بو کر سیب کے پھل کی دُعا مانگیں تو کیا خیال ہے کہ دُعا قبول ہو گی یا کونسا پھل ملے گا؟ قدرت تو قدرت ہے ہر چیز کی طاقت رکھتی ہے اور اُس کیلئے سب کچھ ممکن ہے مگر ہمیں سنت خدا وندی بھی تو معلوم ہونی چاہیے کہ جس کا قدرت بھی خیال رکھتی ہے یہاں قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک شاہکار قانون ہمیں پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ جیسا بووءگئے ویسا کاٹو گے (یعنی جیسا تخم ہو گا ویسا ہی پھل ہو گا) یہاں بیج (Seed) وہ رابطہ (Channel)ہے جو زمین کے ساتھ ایک پودہ اور درخت رکھتا ہے اور اس کی خاصیت کی وجہ سے مخصوص پھل اور پھول حاصل کرتا ہے۔
اگر دُنیا کو ایک معصوم چڑیا کی نظر سے دیکھا جائے جس کے گھونسلے میں پڑے ہوئے بچے ایک سانپ کھا رہا ہے تو دُنیا ہمیں کتنی ظالم دکھائی دے گی مگر اسی لمحے اِس بھوکے سانپ کی نظر سے دُنیا کو دیکھا جائے تو دُنیا کتنی مہربان نظر آئے گی کہ بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا ملا ہے مگر ہمیں اِن نقطہ نظر سے کیا لینا دینا؟ ہمیں تو صرف اِتنا سمجھنا ہے کہ وہ زاویے (Angle)، واسطے (Channel)، نظریے(Concept) اور بیج (Seed) کونسے ہیں جو کہ ہماری زندگی کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ہمارے سامنے تو زندگی (دُنیا) فطرت کے شاہکاروں سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نظر میں وہ زاویہ کہاں ہے، وہ رابطہ کہاں جو اِن شاہکاروں کو ملاحظہ فرمائے؟ اپنی نظر میں اتنی بصارت کہاں۔ ہمارے قلوب کے زنگ وہ پردے ہیں جو ہمیں سکون، راحت اور خوشبختی اور صحت کے تحفے حاصل کرنے سے دور رکھتے ہیں۔ ہمیں تو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جسکی چھاپ ہمارے قلوب میں پڑ چکی ہے یعنی جیسا بیج ویسا ہی پھل۔
اب اگر آپ نے اُردو زبان لکھنی پڑھنی سیکھی ہے تو آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ورنہ آپ کے سامنے یہ آڑھی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ تحریر کسی ایسی زبان میں لکھی ہوتی جسکو کہ آپ جانتے نہیں تو کس طرح سے ممکن تھا کہ آپ اِس کو پڑھ سکتے اور پھر اِسکو سمجھ سکتے؟ یعنی ہماری باہر والی دُنیا پر ہماری اندر والی دُنیا کی چھاپ ہوتی ہے اور ہمیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جس کا عکس ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے ورنہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک دریا میں ایک مچھلی نے دوسری مچھلی سے پوچھا کہ کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی میں نے تو اپنی زندگی میں پانی نہیں دیکھا تو دونوں مِل کر ایک بوڑھی مچھلی کے پاس گئے اور پوچھا کہ اماں کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی بچو میں نے بھی اپنی زندگی میں پانی نہیں دیکھا۔ آپ اندازہ کریں کہ اِنہوں نے اگر کبھی خشکی دیکھی ہوتی تو اِن کو پانی کا اندازہ ہوتا اور جس نے ساری زندگی پانی میں گزاری ہو اِسے (ضد دیکھنے کا موقع نہ مِلا ہو) تو اِسے کیسے اندازہ ہو سکتا ہے پانی کیا ہو تا ہے ا؟
جمادات (Stoneبے حرکت کوئی نشوونما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشونما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animal سب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے باندھے ہوئے) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں، Self) سے کروا دیتا ہے حالانکہ ہمارے منفی جذبے، رویے اور غلط نقطہ نظر وہ گرداب ہیں جن میں پھنس کر اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خوب گزر ہو رہی ہے حالانکہ ہم ایک دائرے میں سفر کر رہے ہوتے ہیں جہاں منزل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں اور بعض اوقات ہمارے چور دروازے پستی کی طرف کھلے ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم دوڑ رہے ہیں مگر جتنا تیز دوڑتے ہیں اتنا ہی پستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ بلندی اور ندرت اور کھلے آسمانوں کا سفر تو قدرت کے حسین و جمیل تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے وہ اِنہیں کو ملتا ہے جو اپنا قلب اِن تمام ملاوٹوں (منفی جذبے، رویے اور خواہ مخواہ کے خوف) سے پاک رکھتے ہیں یہ آئینہ جلا کا کام دیتا ہے اور ہمیں اپنی خود ی(میں Self) کے تمام زاویے اور ثمرات ملتے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں۔ اِسی خود ی(Self)کا سفر بھی کیسا کہ نڈر اور بے پرواہ کوئی خوف نہیں نہ کوئی ملمع کاری خوشی کے وقت ہنسنا اور حقیقی خوشی اور تکلیف کے وقت رونا کوئی دکھلاوا نہیں اور کوئی غرض نہیں اور نہ ہی کسی کیلئے دھوکہ دہی کہ یہ وہ ہمارا بچپن ہے کہ جہاں خودی(Self)اپنی موج میں رواں دواں ہے۔ اب زندگی کے رنگ بدلتے ہیں اور نفرتوں، خواہشوں کے گرداب میں پھنس کر اور کبھی خود پسندی کے فریب میں ہم اپنی خود ی(Self)سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے درمیان یہ پردوں کی طرح حائل ہوتے جاتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہمارا رشتہ ہمارے ازل سے کٹ جاتا ہے۔
جس طرح ہمارا رابطہ اپنے ازل(اصل) اور کائنات سے اپنے اندر سے خود ی(Self)کے ذریعے ہوتا ہے اِسی طرح ہمارا بیرونی دُنیا سے رابطہ ہمارے ذہن (Mind) کے مرہون منت ہے اور انسان کے سوچنے کی صلاحیت اس کو کائنات پر دراندازی (مداخلت) کا موقع فراہم کرتی ہے اب جس طرف بھی نظر دوڑائیں گے آپ کو ایک طرف قدرت کے شاہکار نظر آئیں گے اور دوسری طرف لوگوں کے جمے ہوئے خیالات بھی نظر آئیں گے یعنی یہ ہماری تعمیر کردہ دُنیا (اشیا)، تعمیرات اور ایجادات۔ اب اگر ایک لکڑی کی میز کو دیکھا جائے اِس کا خاکہ پہلے کسی اِنسان کے ذہن میں تیار ہوا پھر اِن خیالات نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور وہ ہمیں لکڑی کے میز کی شکل میں منجمد نظر آئے اِسی طرح آپ تعمیرات کو دیکھیں اور ایجادات کو دیکھیں تو یہ سب کے سب لوگوں کے خیالات کا انجماد ہی تو ہے کہ پہلے یہ خیال ذہن میں نقشہ کی طرح بنا اور پھر ٹھوس (منجمد) شکل اختیار کر گیا جسے ہم اِنسانی سوچ کا شاہکار بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ خود ی(Self) اِنسان کے اندر سے رابطے کیلئے کسی واسطے کی محتاج نہیں جبکہ ذہن حواسِ خمسہ کا محتاج ہے یعنی ہمارے اندر معلومات ذخیرہ کرنے کیلئے پانچ حواس ہوتے ہیں جن کے باعث یہ معلومات ذہن اپنے پاس ذخیرہ کرتا ہے (چکھنا، چھونا، سونگنا، دیکھنا اور سُننا)یہ وہ صلاحیتیں ہیں کہ جن کے بل بوتے پر ایک انسان اپنا ذہن Mind بناتا اور اپنی اندر کی دُنیا تعمیر کرتا ہے۔
خود ی(Self)کا کائنات سے رابطہ اور تعلق اِن سب واسطوں سے بے نیاز ہے (ادراک ماورائے حواس ESP)۔ اِس من کی دُنیا میں اگر چشمہ خودی پھوٹ پڑے تو زندگی تپتے صحراؤں سے نکل کر سکون کی گھنی چھاﺅں میں آ جاتی ہے اور اندر کا عکس بدل جاتا ہے اور باہر بھی شاہکارِقدرت کا نظارہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے سے کشف وجدان کے دھارے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور زندگی خزاں سے موسمِ بہار میں آ جاتی ہے۔ اِس آگہی کی لذت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ بیرونی دُنیا پہ بھی براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ آسمانوں سے مینہ برستا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور قدرت کی طرف سے شاندار استقبال کیا جاتا ہے اور اِس کائنات کا ذرہ ذرہ اِس لذت سے معمور ہوتا ہے کہ جن کا الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے اِسی کے دم سے پھلوں میں رس بھرا جاتا ہے اور پھولوں میں خوشبو۔ بیماروں کو شفا ملتی ہے اور یہ نظر جس طرف اُٹھتی ہے بہار ہی بہار آ جاتی ہے اور اِس نظر کی موج میں آنے والا ہر پل اپنے اوپر ناز کرتا ہے اور ہر فنا اپنی بقاء دیکھتی ہے۔ اِس زمین میں زرخیزی آتی ہے با الفاظِ دیگر اِس خود ی(Self)کا کیا کہنا کہ جو لذت آشنائی سے لبریز ہے اور ہم اِس کا تذکرہ قرآن کریم سے دیکھتے ہیں۔ سورة الکہف (آیت 60 تا 86) کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا تذکرہ کیا ہے جسے اللہ نے اپنا فضل اور علم بخشا ہے۔ (آیت 79 تا 86) دیکھیں کس طرح سے میں سے ہم اور ہم سے اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا گیا ہے (میں نے چاہا، ہم نے چاہا اور تیرے اللہ نے چاہا) حالانکہ اِس واقعہ میں جو بیان کیا گیا ہے سارے کے سارے واقعات ایک بندہ کے ہاتھ سے سرزد ہو رہے ہیں مگر اِن کی توجیہہ میں ”میں“ سے اللہ تک کی رسائی کا پتہ ملتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔ اِس واقعہ میں شریعت اور طریقت کا شاندار امتزاج بیان کیا گیا ہے اور ایک بندے کی ”میں“ کا اللہ سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔ آشنائی کی لذت سے مامور دیے (چراغ) تو ابد تک کیلئے روشنی بن جاتے ہیں اور یہ روشنی دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے اور ہماری زندگیوں میں روشنی اِنہی چراغوں کے دم سے ہے ورنہ کائنات کا ردِعمل ہر ظلم و زیادتی اور آہ پہ آندھی، طوفان اور زلزلوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ کائنات ہر کرب کا اور مظلوم کی آہ کا جواب ضرور دیتی ہے ۔
مراقبہ کی روح تو آپ کی خدمت میں پیش کر دی اور خودی (Self) کی لذت کا آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا مگر اِن ثمرات میں مراقبہ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ شاید کسی اور چیز کو نہیں اس عمل کو کرنا دراصل آپ کو آپکی شعوریت کے قریب لاتا ہے اور یہ ایسا ہی عمل ہے جیسا ایک بنجر زمین پر ہل چلانا اور پھر اِس کو دھوپ میں چھوڑ دینا تا کہ اِس کے اندر کی جڑی بوٹیاں (بے لگام خیالات( خود بخود فنا ہو جائیں اور زمین بیج بونے کے قابل ہو جائے اور اب اِس میں بیچ لگا کر اِس کو پانی دیا جائے اور پھر اِسکے پودے کی نشوونما کی جائے اور پھر کہیں جا کر پھل نصیب ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے اِتنی ثابت قدمی ممکن ہے کیونکہ الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پیرونا تو آسان ہے مگر مقامات آگہی میں غوطہ زن ہونا بڑے جگرے کی بات ہے البتہ گہرے سمندر میں غوطہ زنی نہ سہی مگر کنارے کنارے رہ کر کچھ تو سیکھا (حاصل کیا) جا سکتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــ
لذت آشنائی قسط نمبر 4
زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی (Travel) چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِرد گرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو عاجزی کی لو سے روشن ہوتا ہے۔ بلندوبالا پہاڑیوں کی کھوکھ سے جنم لینے والے ہزاروں، لاکھوں چشمے، ندیاں، نالے اور دریا آخر سمندر کی گود میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں کیونکہ سمندر انکے مقابلے میں ہمیشہ پستی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑائے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں بلکہ ہم تو کامیابی اور سکون کے وہ سفینے ہیں جو عافیت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم موت کے منہ میں ایک اور نوالہ نہیں ہیں بلکہ ہم تو وہ جلتی شمعیں ہیں جو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشنی بانٹتی چلی جا رہی ہیں اور جہالت کی تاریکی کے سامنے ہم تو وہ چراغ ہیں جو دُنیا کو سورج کی طرح روشن نہ کر سکے مگر اپنے ارد گرد کو تو روشن رکھتے ہیں اور ہم تو وہ ٹھنڈی چھاﺅں ہیں جو تپتی دھوپ میں سایہ بنتے ہیں۔ ہم وہ جوہڑ نہیں ہیں جو زندگی کو فنا کا درس دیتے ہیں اور بقا کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ ہم تو علم و فن کے وہ چشمے ہیں جو زندگی کو بقاءکا درس دیتے ہیں جہاں سے ہر کوئی سیراب ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ اِسی وقت ممکن ہے کہ جب ہمارے اندر خودی (میں، Self) کا دیا جلتا ہے اور ہمارا رابطہ ازل سے جڑ جاتا ہے۔
اس کائنات میں کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی واقعہ حادثہ ہوتا ہے بلکہ ہر شے خاص مقصد کیلئے ہے اور ہر واقعہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جبکہ ہماری سوچنے کی طاقت ہمارے معاملاتِ زندگی کے لیے ہدایتکار (Director) کا درجہ رکھتی ہے اور جو خیال ذہن میں ایک مرتبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا جبکہ وہ اپنی قوت اور مماثلت کے حساب سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قلم جس سے میں لکھ رہا ہوں اور یہ پنکھا جس کی ہوا میں میں بیٹھا ہوں اور وہ کرسی جس نے مجھے بیٹھنے کی سہولت دی ہے اور وہ میز جس کے مرہون منت اِس تحریر کو لکھنے کی معاونت مل رہی ہے اور وہ بلب جس کی روشنی میں مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا ہے اور یہ کاغذ جس پہ میں لکھ رہا ہوں اِن میں سے کوئی بھی بے مقصد نہیں بلکہ ہر شے اپنا مقصد پورا کر رہی ہے۔ اِن میں سے اگر کوئی بھی ایک شے اپنا مقصد پورا نہ کرے تو ہم فوراً اِس کو ردی کی ٹوکری یا کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیں گے کیونکہ جو اپنے مقصد سے ہٹ جائے وہ ہمارے لیے بے کار ہے۔ اب اگر قلم (Pen)میں سیاہی ختم ہو جائے یا میز کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا پھر پنکھا ہوا دینا بند کر دے یا بلب روشنی دینا بند کر دے (Fuse) تو کیا خیال ہے اِن کو ہم ایک لمحہ مزید برداشت کریں گے؟ جی ہاں ایک لمحہ بھی نہیں کیونکہ اِس سے ہماری روانی میں خلل آتا ہے اور ہمارے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی چیز (چاہے وہ بے جان ہی کیوں نہ ہو) اگر اپنے کام اور مقصد سے ہٹ جائے گی تو وہ بالکل بے کار اور بے مقصد ہو جائے گی اور ہم اِسے ضائع کر دینا پسند کرتے ہیں، تو کیا خیال ہے ہم بغےر کسی مقصد کے پیدا ہوئے ہیں؟ ہم جو اِس کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار ہیں کِس کام پر لگے ہوئے ہیں، آیا ہم کارآمد ہیں یا بے کار ہو چکے ہیں؟اگر بے کار ہو چکے ہےں تو قدرت نے ابھی تک ہمیں ردی کی ٹوکری میں کیوں نہیں پھینکا؟
قدرت نے کائنات کی ہر شے ہمارے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے آ پنے لیے نظر آئے گی او ر اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کِس لیے ہیں۔ کائنات کی ہر شے دوسروں کے فائدے کیلئے ہے (نہ کہ اپنے لیے) جبکہ ہر چیز دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے اور انکے لئے کس طرح فائدہ مند ہونا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلئے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔ ہم کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟
طوفانوں سے لڑو تند لہروں سے اُلجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
آپ اگر گھڑی کو سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں اور وقت کا گزرنا ملاحظہ کریں تو یقینا آپ گھنٹوں بھی بیٹھیں رہیں گے مگر آپ کو گھنٹوں اور منٹوں والی سوئیاں ساکن نظر آئیں گی جبکہ وقت گزرتا رہے گا یہ برف کی طرح پگھلتی زندگی کے ماہ سال صرف کسی اچھے وقت کے انتظار میں نہ گزار دیں بلکہ وہ لمحہ جو ہمیں بیدار کرتا ہے دراصل اِسی میں زندگی ہے اور باقی وہ لمحے اور پل ہیں جو ہمیں نیم خوابیدہ کرتے ہیں اور یہ وہ خود رو سلسلہ زندگی ہے کہ جہاں وقت کو ضائع کر رہے ہیں، وقت کو ہم اِسی طرح قید (Save) کر سکتے ہیں کہ اپنے پل زندگی کے بیدار لمحوں سے سیراب کردیں۔
پانی قدرت کا حسین تحفہ اور عطیہ ہے اور اسکا سفر کتنا دلچسپ ہے کہ ہلکا ہو تو آکاش کی طرف سفر کرتا ہوا ہواﺅں کو آبیار (Pregnent) کرتا ہے، کبھی تو بادل بن کے آسمان پر چھا جاتا ہے اور پھر رحمت بن کے زمین پہ برستا ہے،اور کبھی آلودہ فضا کی غلاظتوں کو سمیٹتا ہے تو کبھی پھولوں پہ شبنم بن کے موتیوں کی طرح چمکتا ہے اور کبھی آبشار بن کے موسیقی کا سامان مہیا کرتا ہے اور کبھی برف بن کے پہاڑوں کی چوٹیوں پہ دمکتا ہے مگر زمین پہ ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہے اور اگر اِس کے بہاﺅ کو پابند کر دیا جائے (حدوں میں، Boundries) تو ندی، نالوں اور دریاﺅں کی طرح بہتا ہے اور کبھی چشمہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔ اگر حدوں میں رہے تو اس کے باعث طاقت پکڑتا ہے۔ اگر ایک طرف ہمارے لیے آبپاشی کا سامان مہیا کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے۔ اور اِسی طرح اس کا آدھا سفر ایک سمندر میں مدغم ہونے پہ مکمل ہو جاتا ہے جبکہ سورج کی تپش اسے مشتعل کرتی ہے اور پھر یہ بھاپ بن کر ہوا کے بازوﺅں پہ بلند و بالا پہاڑوں کا سفر کرتا ہے اور پہاڑوں کی ننگی چوٹیوں کو سفید مخمل غلاف (برف) سے ڈھانپ دیتا ہے۔ مگر ایک بار پھر اچانک دھوپ کی تپش اِسے تھپکی دیتی ہے اور یہ پھر رخت سفر باندھ لیتا ہے اور ہواﺅں کے دوش پہ سوار میدانوں کا رُخ کرتا ہے اور خطہءزمین پہ رحمت بن کے برستا ہے اور بنجر زمین اس کے دم سے سونا اُگلنے لگتی ہے۔
قدرت نے پانی کی فطرت میں بہنا لکھا ہے اگر اِسے بہنے کا موقع نہ ملے تو تالاب اور جوہڑ کی شکل میں رُک جاتا ہے اور یہیں اِس میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے جو زندگی کو فنا کا درس دیتی ہے۔ اور اگر اِس کے بہاﺅ میں حدیں نہ رہیں تو اپنی لامحدود طاقت و طغیانی کے باعث سیلاب کی شکل میں میدانوں میں دندناتا پھرتا ہے اور کسی سرکش حیوان کی طرح ایک بار پھر زندگی کو فنا کی طرف بہا لے جاتا ہے جبکہ حدوں میں بہتے ہوئے زندگی کو بقا دیتا ہے مگر حدوں کو توڑنے میں اور رُکنے میں فنا سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کا یہ سفر ازل سے اِس کی گتھی میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ اپنے سفر میں رواں دواں ہے (Automatic)۔ قدرت نے انسان کے اندر اور باہر پانی کا انتہائی اعلیٰ تناسب رکھا ہے جبکہ زمین تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی سے مرکب ہے اور یہ خشکی کا خطہ پانی کی سطح پر تیرتا پھرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی جگہ بدلتا ہے، اگر دُنیا کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اندازہ ہو گا جہاں پہلے کبھی سمندر تھے وہاں خشکی کا بسیرا ہے اور جہاں پہلے خشکی کا خطہ تھا وہ اب سمندرکا مسکن ہے۔ یہ معاملہ کچھ بھی عجیب نہیں یہ سب کچھ ہمارے لیے بنا ہے کیونکہ ہم اِس کارخانہ قدرت کے شاہکار ہیں اِس کائنات کی تمام مخلوق ہمارے لیے سربستہ ہاتھ باندھے (مسخرہونے کو) کھڑی ہے کہ جیسے الہ دین کے چراغ والا جن اپنے آقا کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے اور اس کے کسی بھی حکم کو بجا لانے کیلئے تیار ہے۔ مگر ہمارے اندر اِتنی سکت کہاں کہ ہم اِس ”جن“ کو قابو میں کر لیں۔ اِن تمام طاقتوں پہ حاوی ہونے کی کنجی (Key) کسی بھی جن یا دیو کے پاس نہیں بلکہ ایک اِنسان کی دسترس میں ہے جو ”لذت آشنائی“ سے سرشار ہے۔ قدرت نے تمام کی تمام کائنات ہمارے تسخیر کرنے کیلئے بنائی ہے مگر ہم لذت کے جھوٹے اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں سے دل بہلا رہے ہیں۔
ایک دفعہ ایک چرواہے کو جنگل سے شیر کا شیرخوار بچہ ملا اِس نے اِس کو اپنے بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ رکھ لیا یہ بچہ اِنہیں میں پل کر بڑا ہوا مگر وہ بکریوں کے ساتھ رہ کر اِنہی کی طرح کا ہو کر رہ گیا تھا،ایک دفعہ جنگل میں ایک بوڑھے شیر نے دھاڑ ماری اور بکریوں کے ریوڑ کی طرف لپکا اِس بوڑھے شیر کو دیکھتے ہی سب بکریاں بھاگنا شروع ہو گئیں جس کو دیکھ کر وہ شیر بچہ (جو اب جوان ہو چکا تھا) نے بھی بھاگنا شروع کر دیا مگر اچانک اِس کا آمنا سامنا اِس بوڑھے شیر سے ہو گیا
اور اِسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ بھی اِسی طرح کا ہے تو اب اِس نے بکریوں کی طرح ممیانہ بند کر دیا اور ایک گرج دار دھاڑ ماری کہ بوڑھا شیر ڈر کے بھاگ گیا اب یہ شیر بچہ جو کہ بکریوں میں پل کر جوان ہوا تھا اِس نے اپنی حقیقت کو جانا اور بکریوں کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی کہ میں تو جنگل کا بادشاہ ہوں (میرا مقام یہ نہیں ہے کہ میں ان چھوٹے کھلونوں سے دل بہلاؤں ) ۔ اس نظر نے وہ زاویہ دیکھا جو حقیقت شناسا تھا اور اِس آمنے سامنے (Face to Face)کے زوایہ نے شیر کو اُس کی اصلیت اور اُس کا مقام بتا دیا۔ ہم اپنا دل لذت کے جھوٹے کھلونوں سے بہلا رہے ہیں اور حقیقت کو 359 زاویوں میں تلاش کر رہے ہیں حالانکہ یہ ہمیں حقیقت سے دور لے جاتے ہیں۔ حقیقت شناس زاویہ (Face to Face) ہمیں میدان میں آنے کی دعوت دیتا ہے اِس زاویہ کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر تمام دوسرے غلط زاویوں کی نفی کرنا ہو گی۔ اپنے اندر کے کھیت میں ہل چلانا ہو گا اور اپنے ذہن کی زمین (Hard Disk)کو تیار (Format)کرنا ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو پہلے اِسکی بنیادیں کھودی جاتیں ہیں اور ہر نئی فصل اُگانے کیلئے ہل چلانا پڑتا ہے اور اگر سچ پوچھیں تو حقیقت کے چشمے سے سیراب ہونے کیلئے ”لا“ (No) یعنی نفی اور ہر شے سے انکار (Reset) کرنا تو ازل سے سلامتی کے مذاہب کی اساس رہی ہے کیونکہ تمام خود رو جنگلات چاہے کتنے ہی بھلے معلوم کیوں نہ ہوں مگر اصل حسن تو اِن باغات میں ہے جو اِنسان نے زمین پہ محنت کر کے اُگائے ہیں جیسے پانی اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو سیلاب بن جاتا ہے اِسی طرح ہمارے اندر کی لامحدود طاقت اِنسان کو درندہ بھی بنا سکتی ہے اور یہ معصوم صورت درندہ زندگیوں کیلئے فنا بن جاتا ہے۔ اِنسان کے اندر (ذہن) کی طاقت صرف اور صرف ”خیال“ (Thought)میں پنہاں ہے اور یہ اِس پانی کی طرح ہے جو لطیف (ہلکا) ہو جائے تو عرش (آسمانوں) کا رُخ کرتا ہے اور اگر بے قابو ہو جائے تو تباہی و بربادی (خون خرابہ) کا باعث بنتا ہے اور اگر کسی جگہ رُک جائے تو بے چینی (Tension) اور ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ کائنات کی تسخیر کی کنجی (Key) بھی اِسی خیال کی طاقت کے مرہون منت ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــ
لذت آشنائی قسط نمبر 5
مائنڈ سائنس (Mind Science) قوت خیال

قدرت ہمیں معاملاتِ زندگی میں سے گزرنے پر مجبور کرتی ہے گرچہ ہم جتنا مرضی جمود میں رہنے کی کوشش کریں۔ ہر مثبت اور صحیح سوچ رکھنے والا شخص نہ صرف معاملاتِ زندگی میں پرجوش اور متحرک (Dynamic)ہے بلکہ اپنی ترقی، کامرانی اور ذہنی پیش رفت کو بھی قدرتی انداز میں رکھنا پسند کرتا ہے جبکہ پیش رفت صرف اور صرف تصورات، خیالات، عوامل اور حالاتِ زندگی کی بہتری کے مرہون منت ہے جو کہ نتیجتاً ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا تخیل (خیالThought) کے تخلیقی مراحل کا مطالعہ اور ان کا زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا استعمال ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیالات (دقیق تا ارفع Alpha and the Omega) کا ابجد (Alphabat)بنانے کے لیے الہامی اور فلسفیانہ ذرائع ہمارے لیے عظیم سچائی (حقیقت) تک رسائی کا موجب بنتے ہیں جبکہ انسانیت اِس اکیسویں صدی میں بڑے زور و شور سے ”حقیقت کی تلاش“ میں ہر وہ راستہ افشاں کرنے پر تُلی ہوئی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے اس تک پہنچنے کا موجب بنے۔ خیال کے بارے میں علم وہ طریقہ کار واضح کرتا ہے جس کے باعث انسانی زندگی کے ارتقائی اور تسلسل کے عمل میں بلندی اور تیزی آتی ہے۔
ع ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
جب انسانی سوچ کسی بند گلی میں جا کررک جاتی ہے اور کوئی راستہ نہےں ملتا تو انجام خاتمہ! علم ہی انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے یہ انسانی شرف ومعراج صرف علم کی وجہ سے ہے۔ علم کی روشنی جہاں آجائے وہاں تاریکی ختم ہو جاتی ہے ذہن انسانی جس کی حسیت انسانی سلطنت میں بادشاہ سلا مت کی ہے اسکی مرغوب غذا ہی علم ہے جسکی بدولت وہ پھلتا پھولتا ہے اور سلطنت کے معاملات کو چلاتا ہے۔اگر حضرت انسان اپنے ذہن کو علم سے محروم رکھے گی تو یہ کسطرح ممکن ہے کہ وہ معاملات زندگی پر اپنی گرفت کر سکے ؟ علم کی بہت سی شاخیں ہیں جو انسان کی زندگی میں عروج و ترقی کا باعث بنتی ہیں،اگر اچھا کاروبار کرنا ایک فن ہے تو اچھا لکھنا اور اچھا بولنا بھی ایک فن ہے اسی طرح اگر تعلیم و تر بیت میں شاندار کامیابی بھی ایک فن ہے تو اچھا کھیلنا بھی ایک فن ہے ۔اب اگر ہم زندگی کے سارے علم و فنون کو حاصل کر لیں جو کامیابی و کامرانی کی طرف لے جاتے ہیں مگر زندہ رہنے کا فن نہ سیکھیں تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟
تخیل ہمارے لیے بہتے پانی کی مانند ہے اگر حدوں میں رہے تو لازوال طاقت ہے اور اگر حدوں کو توڑ دے تو طوفان جبکہ یہ طوفان ناقابل تسخیر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپ اس کا راستہ تبدیل کرنے کا طریقہ جانتے ہیں تو آپ اس کا رُخ موڑ سکتے ہیں اور اس کو کارخانوں میں لے جا کر وہاں اس کی قوت کو حرکت، حرارت اور بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ تخیل (خیال) کو گھر بیٹھا دیوانہ بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر بے سدھ گھوڑے سے بھی وابستہ کر سکتے ہیں جس کی نہ لگام اور ہی باگیں، ایسی صورت میں سوار اس کے رحم و کرم پہ ہے کہ جہاں وہ چاہے اس کو کسی کھائی میں گِرا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے لیکن اگر سوار گھوڑے کو لگام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اب یہ گھوڑا (تخیل) اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاتا بلکہ سوار جہاں چاہے گھوڑے کو وہاں لے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
مائنڈ سائنس (Mind Science)اکیسویں صدی کی اختراع ہے جبکہ تخیل (Thought)کو اب ایک بالیدہ شعور سے پالا پڑا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہر خیال آپ سے پوچھ کے آپ کے پردہ اسکرین پر ظاہر ہو گا اور یہی انسانی ذہن کا کمال ہے کہ وہ اپنے تخیل پے حکمرانی کرے ۔ حقیقت شناس زاویہ (Face to Face) ہمیں میدان میں آنے کی دعوت دیتا ہے اِس زاویہ کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر تمام دوسرے غلط زاویوں کی نفی کرنا ہو گی۔ اپنے اندر کے کھیت میں ہل چلانا ہو گا اور اپنے ذہن کی زمین (Hard Disk)کو تیارکرنا ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو پہلے اِسکی بنیادیں کھودی جاتیں ہیں اور ہر نئی فصل اُگانے کیلئے ہل چلانا پڑتا ہے اور اگر سچ پوچھیں تو حقیقت کے چشمے سے سیراب ہونے کیلئے ”لا“ (No) یعنی نفی اور ہر شے سے انکار (Reset) کرنا تو ازل سے سلامتی کے مذاہب کی اساس رہی ہے کیونکہ تمام خود رو جنگلات چاہے کتنے ہی بھلے معلوم کیوں نہ ہوں مگر اصل حسن تو اِن باغات میں ہے جو اِنسان نے زمین پہ محنت کر کے اُگائے ہیں جیسے پانی اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو سیلاب بن جاتا ہے اِسی طرح ہمارے اندر کی لامحدود طاقت اِنسان کو درندہ بھی بنا سکتی ہے اور یہ معصوم صورت درندہ زندگیوں کیلئے فنا بن جاتا ہے۔ اِنسان کے اندر (ذہن) کی طاقت صرف اور صرف ”خیال“ (Thought)میں پنہاں ہے اور یہ اِس پانی کی طرح ہے جو لطیف (ہلکا) ہو جائے تو عرش (آسمانوں) کا رُخ کرتا ہے اور اگر بے قابو ہو جائے تو تباہی و بربادی (خون خرابہ) کا باعث بنتا ہے اور اگر کسی جگہ رُک جائے تو بے چینی (Tension) اور ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ کائنات کی تسخیر کی کنجی (Key) بھی اِسی خیال کی طاقت کے مرہون منت ہے۔ درحقیقت ذہن انسانی ساکن توانائی (Static Energy) کی ایک لطیف ترین قسم ہے اور اسکی بظاہر سرگرمی (Activity) ”خیال“ ہے جو کہ اِسکا متحرک رُخ پیش کرتا ہے۔ ذہن ایک ساکن توانائی ہے اور خیال ایک متحرک توانائی (Dynamic Energy) جو کہ ایک ہی شے (ذہن) کے دو مختلف روپ (Phase) ہیں اور یہ خیال ہی ہے جو آپ کے سامنے ہاتھ باندھ کے جن کی طرح حکم بجا لانے کیلئے کھڑا ہے جبکہ انسانی ذہن کے پردہ سکرین پہ جو اداکار اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہ صرف ہمارے خیالات (تخیل) ہیں اور انکو اپنی مرضی کے مطابق کردار ادا کرنے کا پابند کرنے میں ہی آپ کی لازوال طاقت پنہاں ہے مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ آپ اپنے بارے میں مکمل معلومات نہ رکھتے ہوں۔
اگر ایک طرف مراقبہ کے عمل سے تخیل منظم (Organized)شفاف (Refined) ہوتا ہے اور تقویت (Amplify)پکڑتا ہے تو دوسری طرف (اس عمل سے پیشتر )ذہن کو اس تمام آلودگی اور بے سرو سامانی کے ماحول سے پاک کرنا بھی ضروری ہے تا کہ زمینِ ذہن پہ اُگی ہوئی تمام جڑی بوٹیاں (بے لگام خیالات) سورج کی روشنی میں خود بخود فنا ہو جائیں۔ جیسے آپ نیا کمپیوٹر تیار کر رہے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ایک ہارڈ ڈسک (Hard Disk) کو تیار (Format)کرتے ہیں تا کہ وہ کسی بھی نئے پروگرام کو ذخیرہ (Save) کرنے کے قابل ہو جائے اور پھر سب سے پہلے Operating System )قاعدہ و قانون)کا پروگرام انسٹال کرتے ہیں تا کہ اِس میں Application پروگراموں کو چلانے کی قابلیت ہو جائے۔ تحلیل نفسی (Psychothrapy)بھی اِسی عمل کا تسلسل ہے یا پھر محاسبہ ذات بھی یہی طریقہ کار وضع کرتا ہے جبکہ توبہ (Repent) بھی ایک ایسا ہی عمل ہے جو نہ صرف گناہوں کی دھلائی کا کام کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کی غلاظتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے اور کبھی کبھی Confession (اقرار گناہ)اور آزاد گوئی (Free Speaking)کے ثمرات بھی کسی طرح بھی اِس معاملہ میں پیچھے نہیں۔
جاری
محمدالطاف گوہر | Facebook
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: لذت آشنائی- گذشتہ مکمل - زندگی کی پنہاں حقیقتوں اور لذتوں سے

Post by شازل »

بہت خوب
اس تحقیقاتی تخلیق کے لیے بلاشبہ آپ کسی ایوارڈ کے حق دار ہیں
بہت بہت شکریہ
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: لذت آشنائی- گذشتہ مکمل - زندگی کی پنہاں حقیقتوں اور لذتوں سے

Post by چاند بابو »

واہ
بہت خوب
مزہ آ گیا
محترم الطاف گوہر صاحب آپ کی لذت آشنائی ہمارے لئے خزانہ ثابت ہو رہی ہے۔ آپ کےلئے لذت آشنائی کا ذریعہ دوسروں میں‌ حقیقت کی روح کشید کرتا چلا جاتا ہے۔
میں اتنے خوبصورت خیالات محسوسات اور تجربات کی روشنی میں‌ یہ بہترین افکار قلم بند کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ اقساط کے انتظار میں ہمیں زیادہ دیر تک سولی نہیں چڑھنا پڑے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”