قلم کمان …حامد میر

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
بہرام
کارکن
کارکن
Posts: 100
Joined: Wed Oct 14, 2009 1:33 am

قلم کمان …حامد میر

Post by بہرام »

الوداع جنرل پاشا

قلم کمان …حامد میر

اُس نے اپنے ناتمام ایجنڈے کو تمام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اپنے اس ناتمام ایجنڈے کو تمام کرنا قومی مفاد کا اہم ترین تقاضا سمجھتا تھا۔ وہ قومی مفاد کے نام پر ہر جائز و ناجائز راستہ بھی اختیار کرتا رہا لیکن ناکام رہا۔ ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ وہ جس آئین سے وفاداری کا حلف اٹھا کر آیا تھا اُسی آئین کو اپنے راستے کی سب سے بڑی دیوار سمجھتا رہا۔ وہ ایک سرکاری افسر تھا لیکن قومی مفاد کے نام پر ایک سیاسی ایجنڈے پر عمل پیرا تھا۔ قومی مفاد کے نام پر اُس نے ہمیشہ زبان سے کچھ اور دل سے کچھ اور کہا۔ قول و فعل کے اس تضاد کو آج کے زمانے میں ڈبل گیم کہا جاتا ہے لیکن وہ پوری دیانت داری سے اس ڈبل گیم میں مصروف رہا۔ اُس کا خیال تھا کہ پاکستان کو پارلیمانی جمہوریت نہیں بلکہ صرف اور صرف صدارتی جمہوریت بچا سکتی ہے حالانکہ پاکستان کو دولخت کرنے کی بنیادیں جنرل ایوب خان کی صدارتی جمہوریت نے فراہم کی تھیں لیکن وہ جنرل ایوب خان کا پرستار تھا۔ ایوب خانی جمہوریت کے حق میں اُس نے کئی صحافیوں کے سامنے دلائل دیئے اور اپنا یہ مشہور جملہ بار بار دہرایا کہ …“کیا آپ کے اور ہمارے بچوں پر بلاول، حمزہ اور مونس الٰہی حکومت کریں گے کیا ہمارے بچوں کو بھی وہی حکمران ملیں گے جو ہمیں ملے؟“… کچھ صحافی فوری طور پر قوم کے درد میں ڈوبے ہوئے اس سوال پر زور زور سے اثبات میں سر ہلانے لگتے لیکن کچھ صحافی سوچتے کہ یہ کیسا شخص ہے جو بار بار بلاول کے باپ کی حکومت سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرتا ہے اور بلاول کو کوستا بھی ہے؟ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ مجھے مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہئے لیکن جب بھی ملازمت کی مدت ختم ہونے پر آتی ہے ایک اور توسیع کی کوشش شروع کر دیتا ہے؟

جی ہاں! اس محترم شخصیت کا نام لیفٹیننٹ جنرل احمدشجاع پاشا ہے جنہیں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے مدت ملازمت میں تیسری توسیع نہیں ملی اور ان کا ایجنڈا ناتمام رہ گیا۔ جنرل پاشا دراصل ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ پچھلے چند دنوں سے قومی مفادات کے کچھ خود ساختہ ترجمان بار بار یہ خبریں شائع کر رہے تھے کہ جنرل پاشا کو اُن کی مدت ملازمت میں تیسری توسیع مل جائے گی کیونکہ آرمی چیف جنرل کیانی کے علاوہ امریکی حکومت بھی اُن کی توسیع کے حق میں ہے۔ چند ہفتے قبل تھائی لینڈ اور برطانیہ میں امریکی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے ساتھ جنرل پاشا نے دو خاموش ملاقاتیں کیں اور انہیں یقین دلا دیا کہ بہت جلد نیٹو کی سپلائی لائن بحال ہو جائے گی لیکن پاکستان میں وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ امریکا اُنہیں اپنا بہت بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ جیسے ہی وزیر اعظم نے اُن کی جگہ جنرل ظہیر الاسلام کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کیا تو خبر شائع کرائی گئی کہ جنرل پاشا نے بار بار درخواست کے باوجود تیسری مرتبہ توسیع لینے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ رویہ ہے جو ایک مخصوص سوچ کا عکاس ہے۔ یہ سوچ سال ہا سال سے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ قوم کو بھی دھوکہ دے رہی ہے۔ یہ سوچ اداروں کے استحکام کے نام پر چند افراد کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے لیکن پورے ادارے کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ یاد کیجئے ! 1971ء میں ہم مشرقی پاکستان میں بھارت سے شکست کھا رہے تھے لیکن مغربی پاکستان میں قوم کے ساتھ جھوٹ بولا جا رہا تھا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق 90دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کر کے آئے اور گیارہ سال تک صدر بن کر بیٹھے رہے۔ جب اُن کے دور حکومت میں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا تو فرمایا کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کارگل آپریشن سے ناراض تھے۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ کارگل میں کشمیری مجاہدین جہاد کر رہے ہیں لیکن وہاں سے پاکستانی فوج کے افسران اور جوانوں کی لاشیں آرہی تھیں۔ وزیر اعظم نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو ان کی چھٹی ہو گئی۔ یہی سوچ تھی جس نے گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد قومی مفاد کے نام پر پاکستان کے فوجی اڈے امریکا کے حوالے کر دیئے اور قوم کو اندھیرے میں رکھا۔ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کے فوجی اڈوں سے پرواز کر کے پاکستان میں بمباری کرتے رہے اور ہم بے خبر رہے کیونکہ ہمیں بے خبر رکھنا قومی مفاد کا تقاضا تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک برطانوی فوجی افسر میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم 1950ء سے 1959ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ اُنہی کے دور میں فوج نے سیاست میں مداخلت شروع کی اور پہلا مارشل لاء بھی لگایا۔ آج تک کوئی دوسرا شخص نو سال تک آئی ایس آئی کا سربراہ نہیں رہا۔ اس شخص نے جنرل ایوب خان کو یہ سکھایا کہ فیصلہ ہمیشہ خود کرو لیکن فیصلے کے اعلان کو قومی مفاد کا تقاضا قرار دیدو لہٰذا آج تک یہی ہوتا آ رہا ہے۔ پاکستان کے قومی مفاد پر میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم کی سوچ سوار ہے، جو بھی اس سوچ پر تنقید کرتا ہے، غدار قرار پاتا ہے۔

جنرل پاشا آئی ایس آئی سے رخصت ہو رہے ہیں لیکن کیا میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم کی سوچ بھی کبھی رخصت ہو گی یا نہیں؟ جنرل پاشا کا دور پے در پے ناکامیوں کا دور تھا لیکن سیاسی حکومت نے اُنہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے دو بار توسیع دی۔ مجھے یاد ہے کہ نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کے فوراً بعد ایک بریفنگ میں جنرل پاشا نے بیت اللہ محسود اور مولانا فضل اللہ کو پاکستان کا اثاثہ قرار دیا لیکن 3مارچ 2009ء کو لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو یہ عسکریت پسند ہمارے دشمن قرار پائے۔ ایک دفعہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کے عشایئے میں جنرل پاشا بھی شریک تھے۔ مجھے پوچھا کہ کیا پاکستان اور بھارت میں کوئی بڑا بریک تھرو ہو سکتا ہے؟ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ فی الحال مشکل ہے تو جنرل پاشا نے زور سے کہا کہ نہیں نہیں آپ صحیح نہیں کہتے۔ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کچھ عرصے کے بعد 10اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر حملہ ہو گیا اور ہم نے ناقص سکیورٹی انتظامات کے بارے میں کچھ سوالات اٹھائے تو آئی ایس آئی کے افسران ہمیں بھارتی ایجنٹ قرار دینے لگے۔ جنرل پاشا کا دور بدترین ناکامیوں کا دور تھا۔ 2مئی 2011ء کا ایبٹ آباد آپریشن، 22مئی 2011ء کو مہران بیس کراچی پر حملہ اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے علاوہ سب سے زیادہ ڈرون حملے بھی2008ء اور 2012ء کے درمیان ہوئے۔ سب سے زیادہ لوگ انہی چار سالوں میں لاپتہ ہوئے، بلوچستان میں سب سے زیادہ مسخ شدہ لاشیں انہی چار سالوں میں پھینکی گئیں۔ سب سے زیادہ صحافی انہی چار سالوں میں مارے گئے۔ میں آج بھی آئی ایس آئی کے اس افسر کو نہیں بھول سکتا جس نے جنوری 2009ء میں سوات میں جیو ٹی وی کے نمائندے موسیٰ خان خیل کے بارے میں منفی باتیں کیں اور چند دنوں کے بعد موسیٰ خان خیل کو شہید کر دیا گیا۔ 2010ء میں 13پاکستانی صحافی قتل ہوئے اور 2011میں 15پاکستانی صحافی قتل ہوئے۔ کچھ صحافیوں کو طالبان نے بھی مارا لیکن کئی صحافیوں کے قتل کا الزام آئی ایس آئی پر بھی آیا۔ جنرل پاشا اپنے ایجنڈے سے اتفاق رکھنے والے صحافیوں کے تو ڈرائنگ روموں میں پہنچ جاتے تھے لیکن اختلاف رکھنے والوں کو یا تو قتل کے جھوٹے الزامات میں پھنسانے کی کوشش کرتے یا غیرملکی ایجنٹ قرار دے ڈالتے۔

وکی لیکس کے مطابق جنرل پاشا نے اکتوبر 2009ء میں اسرائیلی حکام کو بتایا کہ بھارت میں اسرائیل کے مفادات پر دہشت گرد حملہ کرنے والے ہیں۔ خود تو اسرائیل کے ساتھ رابطہ رکھنا جائز تھا لیکن کسی صحافی نے تنقید کر دی تو اپنی پالتوسائبر فورس کے ذریعہ اسے اسرائیل کا ایجنٹ قرار دے ڈالتے۔ آئی ایس آئی پہلے ہی متنازع تھی جنرل پاشا نے اسے مزید متنازع بنایا سیاست میں ان کی مداخلت کی کئی کہانیاں آنے والے دنوں میں آہستہ آہستہ طشت ازبام ہوں گی۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن چند افراد کو آگے پیچھے کرنے سے کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سوچ اس وقت بدلے گی جب ہم سب ذاتی مفاد کو قومی مفاد قرار دینا بند کریں گے، ایک دوسرے پر غداری کے فتوے نہیں لگائیں گے اور غیر ملکی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے ایک دوسرے پر گولیاں چلانا بند کر دیں گے۔ ہم نے جنرل پاشا کی سوچ سے نہیں بلکہ حقیقت میں میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم کی سوچ سے نجات پانی ہے تاکہ ہر پاکستانی اپنی فوج اور اپنی آئی ایس آئی کو اپنا سچا محافظ سمجھ کر ان پر فخر کر سکے۔
[link]http://e.jang.com.pk/03-12-2012/karachi ... =06_04.gif[/link]
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: قلم کمان …حامد میر

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے شکریہ.
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22226
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: قلم کمان …حامد میر

Post by چاند بابو »

شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو کالم”