کیا صرف ایک بے دین مرتد اور گستاخ کو قتل کرنے کے لیے خودکش حملہ کرنا ہی کیا ضروری ہے جبکہ اس خودکش حملے میں کئی بے گناہ مسلمانوں کا شہید ہونا یقینی ہے اس کے لیے غازی علم دین شہید والا طریقہ بھی اپنایا جاسکتا ہے جس کی موجودہ زمانے میں ایک مثال غازی ممتاز قادری نے پیش کرکے بتادی ہے کہ انھوں نے صرف اس بےدین گستاخ کو قتل کیا اور کیسی دوسرے کو ایک خراش تک نہیں آئیعتیق wrote:اور خدکش حملہ نیت سے کی جاتی ہے کہ
مثال کے طور پر.
ایک ادارہ ہے جس میں ایک پروفیسر یہ بیان کرتا ہے کہ قران سے جہاد والے الفاظ ختم کردیے جائیں(نعوذ بااللہ) اس نے اللہ کے حکم کا انکار کیا اور جہاد کی ایاتیوں کو قران سے ختم کرنے کا حکم دیا.یعنی قران کا منکر ہے تو کیا اس پر قتل واجب نہیں......؟
اب کوئی بائی اپنی گاڑی لیکر اس کے دفتر میں گھر میں راستے میں خدکش حملہ کرتا ہے تو آس پاس کے عام آدمیوں میں بھی بہت سے اس کی زد میں آجاتے ہیںِ.
یہاں خدکش حملہ کرنے والااس کا مجرم نہیں ہوگا.کیوں کے اس نے عوام کو جان بھوج کر نہیں مارا بلکہ اس مرتد کو مارنے میں یہ مارے گئے ہیں. لہذااس زد میں انے والے کا عمل سے اس کا حساب ہوگا.مارنے والا اسلام کے سربلندی کے خاطر مرتد کو مارنے میں مارا گیا اس لیے وہ شہید کھلائے گا.
ہمیں اپنے اعمال کو درست رکھنے چاہیے بس اسلام کے صیحیح تعلیمات کو لیکر چلنا چاہیے اب ہم کسی خدکش حملے میں مارے گئے تو ہمارے اعمل کے حساب سے ہمارا کھاتہ بنے گا.نا کہ کسی اور عمل سے.
طالبان کسی شیرخوار،بچوں ،عورتوں کو بے گناہ قتل نہیں کرتے یہ بازاروں اور مساجد میں حملے نہیں کرتے.اگر شریعی عدالت مین کسی عورت یا بچے کو کوئی غلطی پائی گئی ہوگی تو پھر اس کو قتل کیا ہوگا.جو شریعت کے حکم کے مطابق ہو...................اگر آپ عام میڈیا کی باتوں پر یقین کرتے ہیں تو یہ میڈیا تو صرف جھوٹ بکواس کے علاوہ کچھ اور نہیں جانتی..........ان کو تو ان بکواسات کے بھی پیسے ملتے ہیںِ....................جو دل کھول کر جھوٹ بولتے ہیں.
ان کو چھوڑ کر طالبان کی درست اور صیحیح میڈیا سے خبریں پڑھا کریں.اور تمام سوالوں کا جواب دیتے ہیں.
ًمحترم اس مسئلے کو پہلے اچھی طرح سمجھے پھر بیان کریں..........حالت جنگ میں اور غیر حالت جنگ میں قانون الگ الگ صادر ہوتے ہیں............حدیث پڑھ کر دست مطلب نکالیں.بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جبکہ حضور نے میدان جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے یہ دراصل خوارج ہیں اگر آپ تاریخ اسلام کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس گروہ خوارج نے مسلمانوں کو ناحق شہید کرنے کا وطیرہ اپنایا ہوا ہے جو آج بھی جاری ہے
نبی کریم کے دور میں قران کی آیت جب نازل ہوتی تھی تو تمام صحابہ ایت پر عمل کرنے چلے جاتے تھے.جب ہمیں مکمل دین ایک نظام بناکر سرورے کائنات اس دنیا سے رحلت فرمائیں تو اب ہم پر فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی اصل تعلیمات کواس نظام کو قران کو لیکر چلیں.نہ کہ جس دین میں ہلہ گلہ ہو جو خد سے بنائی گئی ہو اس کو اپنائیں تاکہ اپنی ذاتی مفاد بھی پورا ہو.یہ درست نہیںِِ.................
ویسے بھی حدیت باری ہے کہ "سارے اعمل نیت سے ہیں" اچھے اعمل کروگے تو اچھا رہوگے برے اعمل کروگے تو برا رہوگے. باقی واللہ اعلم
اللہ ہم سب کو دین کی سچی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور جہاد سے محبت رکھنے کی توفیق دے.آمین
دوسری بات یہ کہ حالت جنگ میں تو عورتوں اوربچوں کو مارنا نا جائز اور غیر حالت جنگ میں ناحق عورتوں اور بچوں کا قتل جائز!!!!!!!!!!!!!!! کیا آپ یہی کہنا چارہے ہیں !!؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ پتہ نہیں یہ کونسا دین ہےعتیق wrote:اور خدکش حملہ نیت سے کی جاتی ہے کہ
مثال کے طور پر.
ایک ادارہ ہے جس میں ایک پروفیسر یہ بیان کرتا ہے کہ قران سے جہاد والے الفاظ ختم کردیے جائیں(نعوذ بااللہ) اس نے اللہ کے حکم کا انکار کیا اور جہاد کی ایاتیوں کو قران سے ختم کرنے کا حکم دیا.یعنی قران کا منکر ہے تو کیا اس پر قتل واجب نہیں......؟
اب کوئی بائی اپنی گاڑی لیکر اس کے دفتر میں گھر میں راستے میں خدکش حملہ کرتا ہے تو آس پاس کے عام آدمیوں میں بھی بہت سے اس کی زد میں آجاتے ہیںِ.
یہاں خدکش حملہ کرنے والااس کا مجرم نہیں ہوگا.کیوں کے اس نے عوام کو جان بھوج کر نہیں مارا بلکہ اس مرتد کو مارنے میں یہ مارے گئے ہیں. لہذااس زد میں انے والے کا عمل سے اس کا حساب ہوگا.مارنے والا اسلام کے سربلندی کے خاطر مرتد کو مارنے میں مارا گیا اس لیے وہ شہید کھلائے گا.
اللہ ہم سب کو دین کی سچی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور جہاد سے محبت رکھنے اور فساد سے نفرت کرنے کی توفیق دے.آمین