فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
انٹرنیٹ دورِ جدید کی ایک بہت مفید اور کارآمد ایجاد ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبے میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔انٹرنیٹ پر ہر طرح کی معلومات بہت آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔اس کے ذریعے سے لوگ اپنے دور دراز عزیزوں سے باآسانی رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس نے بڑی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کئی سال قبل متعارف ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ملک میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی تنظیم ’اسپاک‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں انٹرنیٹ کے صارفین کی کل تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی۔
اس حوالے سے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بیشتر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ محض اندازہ نہیں، مذکورہ بالا تنظیم ’اسپاک‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹ دیکھنا ہے۔
یہ صورتحال ہر باشعور شخص کے لیے باعث تشویش ہے۔باخبر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تنہا پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس مسئلے سے پریشان ہے۔دنیا بھر میںسب سے زیادہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔ان سائٹس پربا قاعدگی سے جانے والے لوگ، دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کوناپاک کردیتی ہے۔اس کے بعد زندگی دو میں سے کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یاتو انسان حلال و حرام کی ہر تمیز کو فراموش کرکے زناکی وادی قدم رکھ دیتا ہے یا پھر شادی کا جائز راستہ کھلنے کے بعد بھی تاعمر پورنوگرافی کے نشہ کا عادی بنا رہتا ہے۔
ہماری سوسائٹی کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے غلط رویوں، نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی بنیادی ضرورت کو، نوجوانوں کے لیے ناقابلِرسائی بنادیا ہے ۔جبکہ دنیا بھر میں یا تو مناسب عمرمیں نوجوانوں کی شادی ہوجاتی ہے یا پھر شادی کیے بغیر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ’اسپاک‘ کی اس رپورٹ کے ذریعے سے پوری سوسائٹی کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ یا تو لوگوں کے لیے نکاح کے جائز راستے کو کھول دیا جائے یا پھر سوسائٹی کی تباہی کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔
اس پیغام کا پس منظر یہ ہے کہ جن مغربی ممالک میں نکاح کے بغیر مرد و زن کا تعلق عام بات ہے، ان کے ہاںیہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے۔ان کے ہاں کی بلیو فلمیں ہوں یا فحش ویب سائٹس، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھا جائے باقی لوگ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں۔ مگر ہمارے ہاں، حیا اور عفت بنیادی اقدار ہیں۔ اسی طرح اخلاقی بحران کے اِس دور میں خاندان کا ادارہ ہماری واحد معاشرتی ڈھال ہے۔زنا اور بے حیائی کے فروغ سے یہ اقدار اور یہ ادارہ ختم ہوجائے گا۔
انٹر نیٹ پورنوگرافی کا کوئی حل ابھی تک جدید دنیا دریافت نہیں کرسکی ہے۔ سعودی عرب اور سنگاپور جیسے ممالک نے سنسرشپ کے ذریعے سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کا حل بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سنسر شپ کی کوشش کی گئی مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ بلکہ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جتنے زیادہ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے بڑھیں گے اتنے ہی زیادہ فحش سائٹس پر وزٹ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں۔ وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں۔ ان کو وقت کی رفتار کے حوالے نہ کریں بلکہ زندگی کے ہر سرد و گرم میں ان کی رہنمائی کریں۔ بچوں کے شعور میں حیا اور عفت کی اہمیت واضح کریں۔ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر یہ واضح کریں کہ یہ چیزیں ہماری اقدار کے خلاف ہیں۔جب بچے بڑے ہوجائیں تو ایک مناسب عمر میں ان کی شادی کو اپنی ترجیحات میں بہت اوپر رکھیں۔یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
انٹرنیٹ دورِ جدید کی ایک بہت مفید اور کارآمد ایجاد ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبے میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔انٹرنیٹ پر ہر طرح کی معلومات بہت آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔اس کے ذریعے سے لوگ اپنے دور دراز عزیزوں سے باآسانی رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس نے بڑی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کئی سال قبل متعارف ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ملک میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی تنظیم ’اسپاک‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں انٹرنیٹ کے صارفین کی کل تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی۔
اس حوالے سے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بیشتر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ محض اندازہ نہیں، مذکورہ بالا تنظیم ’اسپاک‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹ دیکھنا ہے۔
یہ صورتحال ہر باشعور شخص کے لیے باعث تشویش ہے۔باخبر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تنہا پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس مسئلے سے پریشان ہے۔دنیا بھر میںسب سے زیادہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔ان سائٹس پربا قاعدگی سے جانے والے لوگ، دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کوناپاک کردیتی ہے۔اس کے بعد زندگی دو میں سے کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یاتو انسان حلال و حرام کی ہر تمیز کو فراموش کرکے زناکی وادی قدم رکھ دیتا ہے یا پھر شادی کا جائز راستہ کھلنے کے بعد بھی تاعمر پورنوگرافی کے نشہ کا عادی بنا رہتا ہے۔
ہماری سوسائٹی کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے غلط رویوں، نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی بنیادی ضرورت کو، نوجوانوں کے لیے ناقابلِرسائی بنادیا ہے ۔جبکہ دنیا بھر میں یا تو مناسب عمرمیں نوجوانوں کی شادی ہوجاتی ہے یا پھر شادی کیے بغیر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ’اسپاک‘ کی اس رپورٹ کے ذریعے سے پوری سوسائٹی کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ یا تو لوگوں کے لیے نکاح کے جائز راستے کو کھول دیا جائے یا پھر سوسائٹی کی تباہی کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔
اس پیغام کا پس منظر یہ ہے کہ جن مغربی ممالک میں نکاح کے بغیر مرد و زن کا تعلق عام بات ہے، ان کے ہاںیہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے۔ان کے ہاں کی بلیو فلمیں ہوں یا فحش ویب سائٹس، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھا جائے باقی لوگ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں۔ مگر ہمارے ہاں، حیا اور عفت بنیادی اقدار ہیں۔ اسی طرح اخلاقی بحران کے اِس دور میں خاندان کا ادارہ ہماری واحد معاشرتی ڈھال ہے۔زنا اور بے حیائی کے فروغ سے یہ اقدار اور یہ ادارہ ختم ہوجائے گا۔
انٹر نیٹ پورنوگرافی کا کوئی حل ابھی تک جدید دنیا دریافت نہیں کرسکی ہے۔ سعودی عرب اور سنگاپور جیسے ممالک نے سنسرشپ کے ذریعے سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کا حل بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سنسر شپ کی کوشش کی گئی مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ بلکہ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جتنے زیادہ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے بڑھیں گے اتنے ہی زیادہ فحش سائٹس پر وزٹ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں۔ وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں۔ ان کو وقت کی رفتار کے حوالے نہ کریں بلکہ زندگی کے ہر سرد و گرم میں ان کی رہنمائی کریں۔ بچوں کے شعور میں حیا اور عفت کی اہمیت واضح کریں۔ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر یہ واضح کریں کہ یہ چیزیں ہماری اقدار کے خلاف ہیں۔جب بچے بڑے ہوجائیں تو ایک مناسب عمر میں ان کی شادی کو اپنی ترجیحات میں بہت اوپر رکھیں۔یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
محترم بوبی
آپ نے ایک نہایت اہم مسئلے کی طرف ہم سب کی توجہ مبذول کرائی ہے بلاشبہ آجکل انٹرنیٹایک طاقتور میڈیا کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن اس کے برے اثرات نوجوان نسل کو تو خراب کرہی رہی ہے بچے بھی اس لت سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں
کیا اس کا علاج پورنو گرافک سائیٹس کو بلاک کرنا ہے
ایک حد تک تو ہم بلاک کرسکتے ہیںلیکن روزانہ لاکھوں کی تعداد میں یہ سائیٹس وجود میں لائی جارہی ہیں
دیکھیے اب اس پر ہم کس حد تک قابو پاسکتے ہیں
آپ نے ایک نہایت اہم مسئلے کی طرف ہم سب کی توجہ مبذول کرائی ہے بلاشبہ آجکل انٹرنیٹایک طاقتور میڈیا کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن اس کے برے اثرات نوجوان نسل کو تو خراب کرہی رہی ہے بچے بھی اس لت سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں
کیا اس کا علاج پورنو گرافک سائیٹس کو بلاک کرنا ہے
ایک حد تک تو ہم بلاک کرسکتے ہیںلیکن روزانہ لاکھوں کی تعداد میں یہ سائیٹس وجود میں لائی جارہی ہیں
دیکھیے اب اس پر ہم کس حد تک قابو پاسکتے ہیں
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
اسلام علیکم
جی شازل بھائی میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔لیکن اس میں نیٹ کیفے والوں کا کردار بہت بڑا ہے اس چیز میں ایک چھوٹی سی بات بتاتا ہوں کہ میں جب لاہور میں تعلیم کے سلسلے میں رہتا تھا تب میں بھی انٹرنیٹ استمال کیا کرتا تھا تو وہاںدیکھا کہ سوپچاس نیٹ کیفے والوںنے اپنے یوزرز بڑھانے کے لیے خود ہی ایسا سسٹم بنایا ہوتا تھا کہ جو یوزر بھی چاہے وہ فحش مووی دیکھ سکتا ہے صرف پچیس تیس روپے کی عوض وہ گھنٹہ گھنٹہ ایسی فحش اور گھٹیا موویز دیکھتے ہیں
خود سوچیں وہ کس چیز کی کمائی کر رہے ہیں
جی شازل بھائی میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔لیکن اس میں نیٹ کیفے والوں کا کردار بہت بڑا ہے اس چیز میں ایک چھوٹی سی بات بتاتا ہوں کہ میں جب لاہور میں تعلیم کے سلسلے میں رہتا تھا تب میں بھی انٹرنیٹ استمال کیا کرتا تھا تو وہاںدیکھا کہ سوپچاس نیٹ کیفے والوںنے اپنے یوزرز بڑھانے کے لیے خود ہی ایسا سسٹم بنایا ہوتا تھا کہ جو یوزر بھی چاہے وہ فحش مووی دیکھ سکتا ہے صرف پچیس تیس روپے کی عوض وہ گھنٹہ گھنٹہ ایسی فحش اور گھٹیا موویز دیکھتے ہیں
خود سوچیں وہ کس چیز کی کمائی کر رہے ہیں
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔
واقعی اس خباثت کا حل ایک اچھی تربیت میں پوشیدہ ہے۔
نیٹ کیفے والوں کا حال تو ایسا ہے کہ میں آج بھی اپنے شہر میں کچھ ایسے نیٹ کیفے والوں کو جانتا ہوں جن کے پاس سرے سے انٹرنیٹ کا کنکشن ہفتوں تک موجود ہی نہیں ہوتا ہے لیکن ان کے پاس نوجوانوں کا رش موجود رہتا ہے۔
واقعی اس خباثت کا حل ایک اچھی تربیت میں پوشیدہ ہے۔
نیٹ کیفے والوں کا حال تو ایسا ہے کہ میں آج بھی اپنے شہر میں کچھ ایسے نیٹ کیفے والوں کو جانتا ہوں جن کے پاس سرے سے انٹرنیٹ کا کنکشن ہفتوں تک موجود ہی نہیں ہوتا ہے لیکن ان کے پاس نوجوانوں کا رش موجود رہتا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
آپ دونوں بھائیوں کا کہنا بالکل بچا ہے
ہمارے ہاںبھی کچھ ایسا ہی تھا پولیس کی کاروائی اور طالبان کے خوف نے البتہ بہت سے کیفے والوں کو راہ راست پر لا کھڑا کیا ہے
مگر ایک اور میڈیا نے نیٹ کے بھی چھکے چھڑا دیے ہیں اور وہ ہے موبائل جس میںطرح طرح کی موویز ہم دیکھ سکتے ہیں اور چالیس روپے میں جس طرح کا چاہیں مواد ہم لے سکتے ہیں
ہمارے ہاںبھی کچھ ایسا ہی تھا پولیس کی کاروائی اور طالبان کے خوف نے البتہ بہت سے کیفے والوں کو راہ راست پر لا کھڑا کیا ہے
مگر ایک اور میڈیا نے نیٹ کے بھی چھکے چھڑا دیے ہیں اور وہ ہے موبائل جس میںطرح طرح کی موویز ہم دیکھ سکتے ہیں اور چالیس روپے میں جس طرح کا چاہیں مواد ہم لے سکتے ہیں
-
- کارکن
- Posts: 45
- Joined: Fri Aug 14, 2009 2:17 pm
- جنس:: مرد
- Contact:
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
درست کہا شازل بھائی اپ نے
[center]ڦلپوٽو فقير کی ہر تہریڈ پر نظر[/center]
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
بھائی ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں اللہ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو اس گمرائی سے بچایے .
شازل بھائی چاند بابو بھائی آپ کے خیال میں اس گمرائی سے بچنے کا کیا حال ہو سکتا ہے
شازل بھائی چاند بابو بھائی آپ کے خیال میں اس گمرائی سے بچنے کا کیا حال ہو سکتا ہے
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
بوبی بھائی بہت ہی اہم موضوع پر آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
دنیا میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہیں لیکن جن بچوں کو اچھی تربیت ملتی ہے وہ برائیوں کی طرف مائل نہیں ہوتے۔
دنیا میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہیں لیکن جن بچوں کو اچھی تربیت ملتی ہے وہ برائیوں کی طرف مائل نہیں ہوتے۔
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
بوبی بھائی
ہم جس معاشرے میںرہ رہے ہیںوہ اعتدال کا ہے لیکن مغربی معاشرہ مادر پدر آزاد ہے،ایک لڑکی اور لڑکا ہفتوں ،مہینوں بلکہ سالوں اکٹھا رہ رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیںہوتا بلکہ والدین بھی اسے روک نہیںسکتے،ستم کی بات تو یہ ہے کہ حکومت بھی ان سے تعاون کرتی ہے،
دوسری طرف ہمارا معاشرہ لگے بندھے اصولوں پر چل رہا ہے
آپ کو پتا ہو گا کہ جس چیز سے منع کیا جائے انسان وہیں پر کھنچا چلا جاتاہے
والدین کو چاہئے کہ اگر اپنے بچوں کو موبائل لے کردینی ہے تو کوئ سادہ سی موبائل لے کردیں جس میںموویز کو دیکھنے کی گنجائش نہ ہو ،لیکن المیہ یہ کہ بچے زیادہ سے زیادہ سہولتوں والا موبائل ہی لیتے ہیں
کوشش کرنی چاہئے کہ والدین باقاعدگی سے بچوں کے موبائل کا جائزہ لیتے رہیں اور انہیںاس قسم کی سچوئشن کو گفتگو میںبتانے کی کوشش کریں،
موبائل کلچر ایک بہت بڑا خطرہ ہے جسے درست طور پر سمجھا ہی نہیںجارہا
ایک مثال دوں گا کہ پہلے کسی لڑکی کو ملنے کے لیے خطوط کا سہارا لیا جاتا تھا اور بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے لیکن اب اچانک لڑکی گفتگو کرتے کرتے والدین کے سامنے اٹھ کرچلی جاتی ہے
گھنٹی کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کب آئی،
اب حالات یہ ہیںتو اس سے نمٹنے کےلیے سب سے خطرے کی نوعیت کو جاننا ہی ہمارے لیے بہت ضروری ہے . . .
ہم جس معاشرے میںرہ رہے ہیںوہ اعتدال کا ہے لیکن مغربی معاشرہ مادر پدر آزاد ہے،ایک لڑکی اور لڑکا ہفتوں ،مہینوں بلکہ سالوں اکٹھا رہ رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیںہوتا بلکہ والدین بھی اسے روک نہیںسکتے،ستم کی بات تو یہ ہے کہ حکومت بھی ان سے تعاون کرتی ہے،
دوسری طرف ہمارا معاشرہ لگے بندھے اصولوں پر چل رہا ہے
آپ کو پتا ہو گا کہ جس چیز سے منع کیا جائے انسان وہیں پر کھنچا چلا جاتاہے
والدین کو چاہئے کہ اگر اپنے بچوں کو موبائل لے کردینی ہے تو کوئ سادہ سی موبائل لے کردیں جس میںموویز کو دیکھنے کی گنجائش نہ ہو ،لیکن المیہ یہ کہ بچے زیادہ سے زیادہ سہولتوں والا موبائل ہی لیتے ہیں
کوشش کرنی چاہئے کہ والدین باقاعدگی سے بچوں کے موبائل کا جائزہ لیتے رہیں اور انہیںاس قسم کی سچوئشن کو گفتگو میںبتانے کی کوشش کریں،
موبائل کلچر ایک بہت بڑا خطرہ ہے جسے درست طور پر سمجھا ہی نہیںجارہا
ایک مثال دوں گا کہ پہلے کسی لڑکی کو ملنے کے لیے خطوط کا سہارا لیا جاتا تھا اور بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے لیکن اب اچانک لڑکی گفتگو کرتے کرتے والدین کے سامنے اٹھ کرچلی جاتی ہے
گھنٹی کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کب آئی،
اب حالات یہ ہیںتو اس سے نمٹنے کےلیے سب سے خطرے کی نوعیت کو جاننا ہی ہمارے لیے بہت ضروری ہے . . .
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
شازل بھائی آپ کی بات بلکل ٹھیک ہے میں ایک بیٹے کا باپ ہوں اور اپنے بیٹے کے لیے ابھی سے سوچتا ہوں ابھی وہ صرف 10 ماہ کا ہےشازل wrote:بوبی بھائی
ہم جس معاشرے میںرہ رہے ہیںوہ اعتدال کا ہے لیکن مغربی معاشرہ مادر پدر آزاد ہے،ایک لڑکی اور لڑکا ہفتوں ،مہینوں بلکہ سالوں اکٹھا رہ رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیںہوتا بلکہ والدین بھی اسے روک نہیںسکتے،ستم کی بات تو یہ ہے کہ حکومت بھی ان سے تعاون کرتی ہے،
دوسری طرف ہمارا معاشرہ لگے بندھے اصولوں پر چل رہا ہے
آپ کو پتا ہو گا کہ جس چیز سے منع کیا جائے انسان وہیں پر کھنچا چلا جاتاہے
والدین کو چاہئے کہ اگر اپنے بچوں کو موبائل لے کردینی ہے تو کوئ سادہ سی موبائل لے کردیں جس میںموویز کو دیکھنے کی گنجائش نہ ہو ،لیکن المیہ یہ کہ بچے زیادہ سے زیادہ سہولتوں والا موبائل ہی لیتے ہیں
کوشش کرنی چاہئے کہ والدین باقاعدگی سے بچوں کے موبائل کا جائزہ لیتے رہیں اور انہیںاس قسم کی سچوئشن کو گفتگو میںبتانے کی کوشش کریں،
موبائل کلچر ایک بہت بڑا خطرہ ہے جسے درست طور پر سمجھا ہی نہیںجارہا
ایک مثال دوں گا کہ پہلے کسی لڑکی کو ملنے کے لیے خطوط کا سہارا لیا جاتا تھا اور بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے لیکن اب اچانک لڑکی گفتگو کرتے کرتے والدین کے سامنے اٹھ کرچلی جاتی ہے
گھنٹی کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کب آئی،
اب حالات یہ ہیںتو اس سے نمٹنے کےلیے سب سے خطرے کی نوعیت کو جاننا ہی ہمارے لیے بہت ضروری ہے . . .
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
بلکل شازل بھائی
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
اسلام علیکم
دونوں بھائیوں کا بہت شکریہ جنہوں نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی۔
میری رائے میں اس برائی کا حل نہ تو اپنے بچوں کو ان چیزوں سے دور رکھنے میں ہے اور نہ ہی ان پر نظر رکھنے میں۔
میرا نظریہ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت ہی اس انداز سے کرنا چاہئے کہ ان میں خود بخود ان اشیا کے منفی استعمال سے نفرت ہو جائے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم ان کی زندگی میں اسلامی رنگ بھریں گے اور یہ اسلامی رنگ ہمارے بچوں میں ایسے ہی نہیں آنے والا ہمیں پہلے ان کی خاطر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا اپنے آپ کا ان کے لئے رول ماڈل بنانا ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نماز پڑھیں، برائیوں سے بچیں اچھے طریقے سے جینا سیکھیں لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم صبح صبح اٹھ کر نماز پڑھنے جاتے ہیں کیا ہم نے اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت کی ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے سامنے ایسے کام کرتے ہیں جن کا اثر ان کی سوچ ان کے کردار اور تربیت پر پڑے۔
یاد رکھئے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے باپ تو نماز پڑھنے نہ جاتا ہو اور اس کا بیٹا نمازی بن جائے۔ باپ تو روزانہ فلم دیکھ کر سوتا ہو اور اس کا بیٹا صبح نماز پڑھنے جاتا ہو۔
باپ تو برائیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہو اور بیٹا نیکیوں سے سرشار ہو۔
کیسی مائیں تھیں وہ جو اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں اور ان کے بچے بھی عالم بنتے تھے اور اگر عالم نہیں بنتے تھے تو کم ازکم ایک بہترین مسلمان اور انسانیت کا احترام کرنے والے بنتے تھے۔ آج ہمارے گھروں میں مائیں ایک طرف تو کیبل پر ڈرامہ، فلم دیکھتی ہیں اور ساتھ بچے کو دودھ پلاتی ہیں کیا خیال ہے ایسا بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟
یاد رکھئے بچہ چاہے ناسمجھ ہے چاہے اسے ابھی برے بھلے کا شعور نہیں ہے چاہے وہ ابھی بول نہیں سکتا ہے لیکن یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جب تک بچہ شعور کی عمر کو نہیں پہنچ جاتا تب تک اس کے لاشعور میں فیڈنگ ہورہی ہوتی ہے اور یہی لاشعور کی عمر اس بچے کی ساری عمر کی بنیاد ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے آج جب ہم اپنے دودھ پیتے بچے کے سامنے ایک حیاباختہ فلم کے مناظر یہ سمجھتے ہوئے دیکھیں گے کہ یہ تو ابھی ناسمجھ ہے لیکن یہ بات بچے کے لاشعور میں بیٹھ جائے گی۔ کیا خیال ہے کل وہ بچہ جوان ہو کر انہی مناظر کو دہرانا نہیں چاہے گا۔ اور اس وقت ہم کہیں گے کہ اولاد نافرمان ہو گئی ہے بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ نہیں ہر گز نہیں یہ تو وہی ہماری دی ہوئی تربیت ہے جس پر وہ آج چل رہا ہے۔ اس لئے بوبی بھیا آپ بالکل درست سوچ رہے ہیں آج ہی فکر کریں یہی عمر ہے سوچنے کی کہ اپنے بیٹے کی تربیت کیسی ہو کیونکہ جو ہم آج بوئیں گے کل ہمیں وہی کاٹنا بڑے گا۔
سگمنڈ فرائیڈ ایک بہت مشہور ماہرِ نفسیات جانا جاتا ہے اس کی بہت سی باتیں متنازعہ تھیں لیکن اس کی ایک بات بہت پائیدار تھی اور آج جدید سائنس بھی اس کو مانتی ہے اس نے لکھا ہے کہ بچہ اپنی 6 سال کی عمر تک سیکھتا ہے اور یہ عمر پوری ہونے تک بچے کے ذہن میں اپنی ساری عمر کا خاکہ سما جاتا ہے اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت بچے کہ ذہن کو تبدیل نہیں کر سکتی ہے۔
اس لئے میرے دوستو ابھی سے سوچو جو آپ کرو گے وہی کل بھرو گے۔ اپنے گھروں سے اپنے دلوں سے برائی کو نکال دو تاکہ کل آپ کی اولاد آپ کو رسوا نہ کرے۔
دونوں بھائیوں کا بہت شکریہ جنہوں نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی۔
میری رائے میں اس برائی کا حل نہ تو اپنے بچوں کو ان چیزوں سے دور رکھنے میں ہے اور نہ ہی ان پر نظر رکھنے میں۔
میرا نظریہ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت ہی اس انداز سے کرنا چاہئے کہ ان میں خود بخود ان اشیا کے منفی استعمال سے نفرت ہو جائے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم ان کی زندگی میں اسلامی رنگ بھریں گے اور یہ اسلامی رنگ ہمارے بچوں میں ایسے ہی نہیں آنے والا ہمیں پہلے ان کی خاطر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا اپنے آپ کا ان کے لئے رول ماڈل بنانا ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نماز پڑھیں، برائیوں سے بچیں اچھے طریقے سے جینا سیکھیں لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم صبح صبح اٹھ کر نماز پڑھنے جاتے ہیں کیا ہم نے اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت کی ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے سامنے ایسے کام کرتے ہیں جن کا اثر ان کی سوچ ان کے کردار اور تربیت پر پڑے۔
یاد رکھئے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے باپ تو نماز پڑھنے نہ جاتا ہو اور اس کا بیٹا نمازی بن جائے۔ باپ تو روزانہ فلم دیکھ کر سوتا ہو اور اس کا بیٹا صبح نماز پڑھنے جاتا ہو۔
باپ تو برائیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہو اور بیٹا نیکیوں سے سرشار ہو۔
کیسی مائیں تھیں وہ جو اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں اور ان کے بچے بھی عالم بنتے تھے اور اگر عالم نہیں بنتے تھے تو کم ازکم ایک بہترین مسلمان اور انسانیت کا احترام کرنے والے بنتے تھے۔ آج ہمارے گھروں میں مائیں ایک طرف تو کیبل پر ڈرامہ، فلم دیکھتی ہیں اور ساتھ بچے کو دودھ پلاتی ہیں کیا خیال ہے ایسا بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟
یاد رکھئے بچہ چاہے ناسمجھ ہے چاہے اسے ابھی برے بھلے کا شعور نہیں ہے چاہے وہ ابھی بول نہیں سکتا ہے لیکن یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جب تک بچہ شعور کی عمر کو نہیں پہنچ جاتا تب تک اس کے لاشعور میں فیڈنگ ہورہی ہوتی ہے اور یہی لاشعور کی عمر اس بچے کی ساری عمر کی بنیاد ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے آج جب ہم اپنے دودھ پیتے بچے کے سامنے ایک حیاباختہ فلم کے مناظر یہ سمجھتے ہوئے دیکھیں گے کہ یہ تو ابھی ناسمجھ ہے لیکن یہ بات بچے کے لاشعور میں بیٹھ جائے گی۔ کیا خیال ہے کل وہ بچہ جوان ہو کر انہی مناظر کو دہرانا نہیں چاہے گا۔ اور اس وقت ہم کہیں گے کہ اولاد نافرمان ہو گئی ہے بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ نہیں ہر گز نہیں یہ تو وہی ہماری دی ہوئی تربیت ہے جس پر وہ آج چل رہا ہے۔ اس لئے بوبی بھیا آپ بالکل درست سوچ رہے ہیں آج ہی فکر کریں یہی عمر ہے سوچنے کی کہ اپنے بیٹے کی تربیت کیسی ہو کیونکہ جو ہم آج بوئیں گے کل ہمیں وہی کاٹنا بڑے گا۔
سگمنڈ فرائیڈ ایک بہت مشہور ماہرِ نفسیات جانا جاتا ہے اس کی بہت سی باتیں متنازعہ تھیں لیکن اس کی ایک بات بہت پائیدار تھی اور آج جدید سائنس بھی اس کو مانتی ہے اس نے لکھا ہے کہ بچہ اپنی 6 سال کی عمر تک سیکھتا ہے اور یہ عمر پوری ہونے تک بچے کے ذہن میں اپنی ساری عمر کا خاکہ سما جاتا ہے اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت بچے کہ ذہن کو تبدیل نہیں کر سکتی ہے۔
اس لئے میرے دوستو ابھی سے سوچو جو آپ کرو گے وہی کل بھرو گے۔ اپنے گھروں سے اپنے دلوں سے برائی کو نکال دو تاکہ کل آپ کی اولاد آپ کو رسوا نہ کرے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Re: فحش سائٹس اور ہمارے نوجوان
بہت شکریہ چاند بھائی اتنی ایم باتیں بتانے کا شکریہ بھائی
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات