دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

اسلام علیکم
ہم لوگ کئی ایسے لوگوں کے نام جانتے ہین جن کے ناموں کی مثالیں اپنے بڑوں سے سنا کرتے ہیں مگر ان کی ذندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے میں اس میں کچھ شخصیات کا تعارف کروا رہا ہوں جو کہ میں روزانہ کی بنیاد پر کر رہا ہوں امید ہے میرے اس سلسلے کو تمام دوستوں کی جانب سے پریزائی ملے گی۔
شکریہ
نا چیز
میاں محمد اشفاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:bismillah:;
سب سے پہلے تو میں حضرت محمد sw: کے زندگی کے تھوڑے سے حالا ت پیش کروں گا کیونکہ آپ sw: سے ذیادہ دنیا کی کوئی شخصیت ایسی نہیں جو ہر لحاظ سے کامیاب اور بہترین ہو اور ہر مکتبہ فکر ہر مذہب کے لوگ بھی اس بات پر متفق ہیں۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (570ء یا 571ء تا 632ء) دنیاوی تاریخ میں اہم ترین شخصیت کے طور پرنمودار ہوئے اور انکی یہ خصوصیت عالمی طور (مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں جانب) مصدقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[1] آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءاکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جنکو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلیۓ دنیا میں بھیجا۔ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ [2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ انکا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبدمناف کے والد کا انتقال انکی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب انکی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہرضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت اللعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القابات سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ سلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام انسان کو پہنچایا وہ یہ ہے
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیۓ خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے لوگ ان کی امت میں شامل ہیں۔

ابتدائی حالات
ولادت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'[3][4]۔
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے[5] ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
خاندانِ مبارک
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )
بچپن
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔[6] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ [7]۔[8]۔
شام کا دوسرا سفر اور شادی
تقریباًً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں[9]۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کے پہلے خاوند سے تھیں۔
بعثت (پہلی وحی)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہرضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علیرضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔
مخالفت
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
معراج
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
مدنی زندگی
ہجرت
622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
میثاقِ مدینہ
میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہود و مشرکین کی سازشیں
میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعراء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعنک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گذر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک بابینا صحابی عمیر بن عوف رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔ ابو عنک کو حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
• غزوہ بدر : 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔

• غزوہ احد :7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

• غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔

• غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔

• غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔

• غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔

• جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔

• غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

• غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

• غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔
صلح حدیبیہ ۔
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبية ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباًً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔
حکمرانوں کو خطوط
صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو روانہ کیا جب سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔[19]۔
فتح مکہ
اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اتحاد جبکہ ان کے مخالف بنو بکر مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔
حجۃ الوداع
حجۃ الوداع ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ھزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ [20]
وفات
حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ [21] ۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔

ازواج مطہرات اور اولاد

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
• حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
• حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔
• حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کر لی۔
• حضرت ام سلمہ ھند رضی اللہ عنہا : آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوھر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی۔
• حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
• حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
• حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوھر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول کیا۔
• حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔
• حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا : آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوھر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی۔
• حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
• حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاھر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔
• حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا: بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔
مشہور صحابہ
• حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
• حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
• حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
• حضرت علی کرم اللہ وجہہ
• حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
• حضرت بلال رضی اللہ عنہ
• حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ
• حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
• حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ
• حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
• حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
• حضرت عبداللہ بن جعفرالطیار رضی اللہ عنہ
• حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ
• حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
• حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
• حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ
• حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
• حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
• حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
غیر مسلم مشاہیر کے خیالات
مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔[22] تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“
جارج برناڈشا لکھتاہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔
مہاتما گاندھی لکھتے ہیں ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔
امریکی میگزین ”ٹائم “ نے اپنی جولائی 1974ءکی اشاعت میں ایک تحقیقی مقابلے کا انعقاد کیا ۔ مقابلے کا عنوان تھا ” دنیا کی تاریخ میں اعلیٰ قائد بننے کے کیا شرائط ہیں اور ان شرائط پر کون کھرا اُترتاہے “ ۔ اس مقابلے میں کئی فاضل تاریخ دانوں ، دانشوروں اور محققوں نے حصہ لیا اور آخر میں سب محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا میں محمد کی رہنمائی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ٹائم میگزین کے اس تحقیقی مقابلے کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں۔
۱- امریکی دانشور جیمز گاون لکھتاہے ” جن رہنماﺅں نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا ، ان میں محمد کا نام لینا سب سے ضروری سمجھتاہوں “۔
۲-امریکی سا ئیکالوجسٹ اورشکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر "Jole Masserman" جو مذہبی اعتبار سے یہودی تھا ، نے ایک قائد کے لئے جو لوازمات مقرر کئے ان لوازمات پر بقول مارس مین صرف محمد ہی پورااُترتے ہیں چنانچہ اپنے مضمون میں کافی بحث وتمحیص کے بعد فاضل مقرر رقمطراز ہے :
Not Jusus, Not Moses, But Muhammad (PBU) was Greatest Leader of All Time. (Time, July,1974)
جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔
فرانس کے محقق ”ڈی لمرٹائن“اپنی کتاب ”ہسٹری دی ٹرکی“ یعنی تاریخ ترکی میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔
آخر میں فرانسیسی مصنف ڈی لمرٹائن لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ،بیسوںسلطنت کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمدہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتاہے “۔؟
غرض محمد کی ہمسری کسی سے ممکن نہیں ۔ ع
بعد از خدا بزرگ تولی قصہ مختصر
حضور کی سچائی کا انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا جلد 11یوں اعلان کرتاہے
” محمد تمام مذاہب کے پیشواﺅں سے کامیاب ترین پیشوا تھے “۔ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔
حضور کی بعثت سے پہلے بھی تمام انبیائے کرام حتیٰ کہ یہود ونصاریٰ کے عالموںنے بھی نبی آخرالزماں کے آنے کی بشارتیں سنائیں ۔ پھر حضور کی آمد کے بعد زمانے کی آنکھ نے آپ کو دیکھا اور پرکھا۔ آپ ہر کسوٹی پر کھرے اترے ۔ حضور کا سب سے بڑا گواہ ان کا اپنا زمانہ ہے جس میں آپ کے اپنے دوست اور دشمن بھی حضور کو صادق ، امین اور معصوم مانتے تھے ۔ حضور کے زمانے سے لے کر تاایں دم اولعزم شخصیات ، مسلمان اور غیر مسلم سب نے متفق ہوکر آپ کی سچائی کا اعتراف کیا ۔ جدید علم تحقیق کے مطابق حقائق کو جانچنے کے لئے "Primary Source" مستندترین ذریعہ ہوتاہے ۔ حضور کے حق میں ان کا Primary Source سب سے بڑا گوا ہ ہے تو نہ جانے موجودہ دو رکے مغربی متعصب قلمکارحضور کے برخلاف مواد کن ذرائع سے لے لیتے ہیں ؟ ظاہر ہے ایسا مواد تحقیقی زاویے بے سند اور غیر معتبر ہوکر من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی ذاتی عناد ہی ہے ۔ ایسا زہریلا مواد نبی برحق کے دشمنوں کے دل ودماغ میں پنپتے ناسور سے رستا ہوا پیپ ہے جو دشمنوں کے اپنے وجود کو ناپاک او ربدبو دار بنادیتاہے ۔
حال ہی میں مغربی ذرائع ابلاغ کے ایک متعصب طبقے کی طر ف سے محسن انسانیت کے خلاف اہانت آمیز مضامین کی اشاعت آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔
چنانچہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے روبہ زوال ہورہاہے ۔مغربی سماج کا تانا بانا ٹوٹ کر بکھر رہاہے ۔ اس بے ہودہ نظام میں افراتفری ، بے راہ روی ، زنا ، فحاشی ، شراب ، منشیات ، جرائم،استحصال ، قتل وغارت ، جنگی جنون اور مادیت کے بے ہنگم شور شرابے میں انسانیت کا دم گھٹتا جارہا ہے اور انسانیت سہمی ہوئی اور اضطرابی حالت میں سکون کی تلاش میں اسلام کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہے ۔اسلام کی آغوش میںآنے کا بڑھتا ہوا رجحان مغرب کے یہودی سرمایہ داروں کو بے چین کررہاہے ۔ مغرب میں بھٹکی ہوئی روحیں پھر سوئے حرم چل پڑنے کے لئے رخت سفر باندھ رہی ہیں ۔ اس ضمن میں ” پوپ“ کا مغرب میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی تمنابرملا اعتراف حق اور مغرب کے لئے نوشتہ دیوار ہے ۔حکومت برطانیہ کی طرف سے گمراہ رشدی کو ” سر “ کاخطاب دینا برطانوی حکمرانوں کے بے سر ہونے کی علامت اور بوکھلاہٹ کی غماز ہے ۔جس زمانے میں برطانوی مملکت پھیلی ہوئی تھی ،اس وقت کا برطانوی قومی ہیرو اور ہردلعزیز رہنما جناب جارج برناڈ شاہ حضور پاک کا مداح اور شیدائی ہوکر حضورکو”انسانیت کا نجات دہندہ“ مانتا تھا ۔آج جب برطانیہ دنیا کے نقشے پر نکتے کے برابر سمٹ چکاہے اور اس کا سورج غروب ہونے کو ہے تو برطانوی حکمرانوں کی پست ذہنی کسی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ اخلاق کی پستی ہی زوال پذیری کی علامت ہے ۔
آج کے دور میں مسلمانوں کی بہتری ،مغربی بوکھلاہٹ کے جواب میں مشتعل ہونے کے بجائے زوال آمادہ مغرب میں اپنے پیارے نبی کے رحمتی پیغام کو عام کرنے میں ہی مضمر ہے ۔ مسلمان مغربی الزامات کے جواب میں سچے نبی کی سچائی پیش کریں ۔ اشتعال کے بدلے اصول پیش کریں ، ظلم کے بدلے مروّت ، زنا کے بدلے نکاح ، بے راہ روی کے بدلے شرم وحیاء، جنگی جنوں کے بدلے صلح ، استبدادِ جمہوری کے بدلے عدل فاروقیؓ ، سوشلزم کے دعویداروں کو خدیجہؓ کا ایک ہی دن میں سات ارب دینار تقسیم کرنا اور شام کو چراغِ مصطفویٰ کے بے تیل ہونا ۔ شاہی محلات کے چکاچوند میں بسنے والے حکمرانوں کو بادشاہ دو جہاں کا ٹوٹے بوریا پر آرام فرمانا ۔ غرض مغر ب کی گمراہی کے سامنے اسلام کی سچائی پیش کریں ۔ بے ہدایتوں کو ہدایت کا نور دکھائیں ، بے اصولوں کو اصول سمجھائیں ۔بس یہی مغرب کی بوکھلاہٹ کا صحیح جواب ہے ۔ طاقت کے قیصر وکسریٰ تو خاک ہوئے ۔ مغرب آج سماجی انحطاط کے بناءپر پکّے ہوئے پھل کی طرح اسلام کی جھولی میں گرنے کو ہے ۔ کاش مسلمان اپنی جھولی پھیلائیں تو بات بنے ۔ مغرب تشنہ لب اور پیاسا ہے۔ بھٹکتے صحرامیں اسے آبِ زم زم کی راہ دکھائیں تو بات بنے ۔آج کے پر آشوب دور میں بھٹکتی سسکتی اور درد سے کراہتی ہوئی انسانیت کو رحمتہ للعالمین کے سائے رحمت میں پناہ ملے تو بات بنے
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

قائد اعظم محمد علی جناح



پیدائش 25 دسمبر 1876(1876-12-25)
کراچی ، بمبئی پریزیڈینسی ، برطانوی ہند
وفات 11 ستمبر 1948 (عمر 71 سال)
کراچی ، پاکستان
سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ (1913–1947)
Other political
affiliations انڈین نیشنل کانگریس (1896–1913)
ازواج ایمی بائی جناح
مریم جناح
بچے دینا جناح
مادر علمی Lincoln's Inn
پیشہ قانون دان

قائد اعظم محمد علی جناح (25 دسمبر 1876ء - 11 ستمبر 1948ء) ایک پاکستانی سیاستدان اور آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں مسلمانوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی، یوں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی “قوم کا باپ“ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے، اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
آغاز میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے حامی تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس میں معاہدہ ہوا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے۔ آپ نے خودمختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماؤں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔جناح عقائد کی نقطہء نظر سے ایک معتدل مزاج شیعہ مسلمان تھے۔کئی مسلمان رہنماؤں نے جناح کو 1934ء ہندوستان واپسی اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کے لئے راضی کیا۔ جناح 1940ء کی قراردادِ پاکستان (قرار دادِ لاہور) کی روشنی میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست بنام پاکستان بنانے کے لئے مصروفِ عمل ہوگئے۔1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی اور جناح نے پاکستان کے قیام کے لئے براہ راست جدوجہد کی مہم کا آغاز کردیا، جس کے ردِ عمل کے طور پر کانگریس کے حامیوں نے جنوبی ایشیاء میں گروہی فسادات کروادئیے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے اتحاد کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کے بعد آخر کار برطانیہ کو پاکستان اور بھارت کی آزادی کے مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔ بحیثیت گورنرجنرل پاکستان، جناح نے لاکھوں پناہ گزینوں کی آبادکاری، ملک کی داخلی و خارجی پالیسی، تحفظ اور معاشی ترقی کے لئے جدوجہد کی۔
آپ 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ میں پید اہوئے، جوکہ اُس وقت بمبئی کا حصہ تھا۔ آپ کا پیدائشی نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ گوکہ ابتدائی اسکول کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جناح کی تاریخِ پیدائش 20 اکتوبر 1875ء تھی، لیکن بعد میں جناح نے خود اپنی تاریخِ پیدائش 25 دسمبر 1876ء بتائی۔ آپ اپنے والد پونجا جناح (1857ء-1901ء) کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ جناح کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے۔ اُن کے دادا کا نام جناح میگجی تھا، جوکہ کاٹھیاوار کی ریاست گوندل میں بھاٹیا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ابتدائی طور پر یہ گھرانہ ہجرت کرکے ملتان کے نزدیک ساہیوال میں آباد ہوا۔ کچھ ذرائع سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جناح کے آباؤ اجداد ساہیوال، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندو راجپوت تھے جوکہ بعد مسلمان ہوگئے۔ جناح کے دیگر بہن بھائیوں میں تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، بھائیوں میں احمد علی، بندے علی اور رحمت علی جبکہ بہنوں میں مریم جناح، فاطمہ اور شیریں جناح شامل تھیں۔ جناح کے خاندان والے شیعہ مذہب کی شاخ کھوجہ شیعہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن جناح بعد میں شیعہ مذہب کی ہی دوسری شاخ اثناء عشری کی جانب مائل ہوگئے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ کچھی، سندھی، اردو اور انگریزی بھی بولنے لگے۔
نوجوان جناح ایک بے چین طالبِ علم تھے، جنہوں نے کئی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، ممبئی میں گوکل داس تیج پرائمری اسکول اور بالآخر مسیحی تبلیغی سماجی اعلٰی درجاتی اسکول، کراچی میں آپ زیرِ تعلیم رہے۔ جہاں سے آپ نے سولہ 16 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان جامعہء ممبئی سے پاس کیا۔ اسی سال 1892ء میں آپ برطانیہ کی گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں تربیتی پیش نامہ کے لئے گئے، ایک ایسا تجارتی کام جوکہ پونجا بھائی جناح کے کاروبار سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔ تاہم برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی والدہ کے دباؤ پر آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے کردی گئی، جوکہ آپ سے دو سال چھوٹی تھیں۔تاہم یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی کیونکہ آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ مہینوں بعد ہی ایمی جناح وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1895ء میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 19 سال کی عمر میں برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے کم سن ترین ہندوستانی کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے ساتھ سیاست میں بھی آپ کی دلچسپی بڑھنے لگی اور آپ ہندوستانی سیاستدانوں دادا بھائی ناؤروجی اور سر فیروز شاہ مہتہ سے متاثر ہونے لگے۔ اس دوران آپ نے دیگر ہندوستانی طلبہ کے ساتھ مل کر برطانوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔اس سرگرمیوں کا اثر یہ ہوا کہ جناح وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی آئین ساز خود مختار حکومت کے نظریہ کے حامی ہوتے گئے اور آپ نے ہندوستانیوں کے خلاف برطانوی گوروں کے ہتک آمیز اور امتیازی سلوک کی مذمت کی۔

ممبئی میں واقع جناح ہاؤسانگلستان میں قیام کے آخری دنوں میں جناح والد کے کاروبار کی تباہی کی وجہ سے شدید دباؤ میں آگئے۔ آپ برطانیہ واپس تشریف لائے اور ممبئی میں وکالت کا آغاز کیا اور جلد ہی نامی گرامی وکیل بن گئے۔ خصوصاً سرفیروز شاہ کے سیاسی مقدمے کی جیت نے آپ کی شہرت و نام کو چار چاند لگا دئیے۔ یہ مقدمی 1905ء میں ممبئی کی ہائی کورٹ میں دائر ہوا، جس میں جناح نے سر فیروز شاہ کی پیروی کی اور جیت بھی جناح ہی کے حصے میں آئی۔ جناح نے جنوبی ممبئی میں واقع مالا بار میں ایک گھر تعمیر کروایا جو کہ بعد میں “جناح ہاؤس“ کہلایا۔ ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کے بڑھتی شہرت نے ہندوستان کے معروف رہنما بال گنگا دھر کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں 1905ء میں بال گنگا دھر نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے دائر کئے گئے، نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں۔ جناح نے اس مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے، اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقصِ امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود بال گنگا دھر کو اس مقدمے میں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔

Quaid e Azam
قائد اعظم محمد علی جناح اور سر سید احمد خان کی شخصیات میں کئی باتیں مشترک دیکھی جا سکتی تھیں۔مثلاََابتداء میں سر سید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے مگر بعد کے حالات نے جداگانہ قومیت کے تصور کی انتہا کو پہنچا دیا.بالکل یہی کیفیت جناح بھی تھی….اسی طرح جداگانہ قومیت کے تصور کی ابتداء سر سید احمد خان نے کی تو اس کو انتہا تک مسٹر جناح پہنچایا۔مگر اس کی وجہ ہندووں کی جارحانہ پالیسی تھی۔یہ قائد اعظم کی سر سید احمد سے عقیدت ہی تو جس کی بنا پر انہوں اپنی 30مئی1939 کواپنی وصیت میں تحریر کیا کہ میں اپنی جائداد کا کچھ حصہ علی گڑھ یونیورسٹی،پیشاور کے اسلامیہ کالج اور اپنی پہلی درسگاہ سندھ مدرسةالاسلام کے نام کرتا ہوں۔اس وصیت کو قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد بھی جوں کا توں رکھا۔1900میں محمد علی جناح بمبئی میں پریذیڈینسی مجسٹر یت کے عہدے پر چھ ماہ تک کام کرنے کے بعد وکالت کی دنیا میں سچائی اور ایمانداری کے ذریعے ایسا نام کمایا کہ آج کا وکیل اُس مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جناح مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اندر سیکولرمزاج جناح لے کر آئے تھے اور اُن کا واسطہ بھی سیکولر مزاج کے سیاست دانوں سے ہی پڑا مسٹر گوکھلے ،سریندر ناتھ بنر جی،بدر الدین طیب جی اور دادا بھائی نورو جی جیسے مخلص سیکولر مزاج سیاست دانوںسے ہی پڑا۔یہ رہنما نوجوان جناح کوان کی قابلیت کی وجہ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس ماحول میںقائد اعظم نے کانگرس کی رکنیت حاصل کرنا اپنے لئے ضروری سمجھا۔عجب اتفاق تھاکہ جس سال1906میں قائد اعظم کانگرس کی رکنیت حاصل کرتے ہیں اُسی سال مسلم لیگ جس کا بار گراں وہ اپنے کندھوں پراٹھانے والے تھے وجود میں آتی ہے۔1909میںقائد اعظم کو ان کی سیاسی نصیرت اور قابلیت کی بناء پروائسرائے کی کونسل کا رکن منتخب کر لیا گیا۔جہاں انہوں نے ایک پالیمنٹیرین کی حیثیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا۔سے ایک اسلامی بل وقف اُلالاولادکو اپنی ماہرانہ بحث کے نتیجے میں پاس کرا کے اُس وقت نام پید اکیا جب سیاست کے میدان بڑے بڑے لوگ منہ تکا کرتے تھے۔اس بل کے پاس ہونے سے جناح کی اسلامی قوانین پر گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اسلامی قوانین پر گہری نظر تھی۔جناح کی سیاست کا یہ وہ دور تھا جب ابھی گاندھی اور نہرو طفلِ مکتب تھے اور سیاست سے ان دونوں کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ قائد اعظم اس وقت تک سیاست میں بڑا نام پیداکر چکے تھے۔ 1910سے قائد اعظم نے مسلم لیگ کے اجلاسوں بھی شرکت کرنا شروع کر دی تھی لہٰذا 10، اکتوبر1913کوسر وزیر حسن اور مولانا محمد علی جوہرکے اصرار پرقائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔ اس وقت قائد اعظم بیک وقت دو سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے ۔ اس وقت وہ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے۔مگر مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد انہیں آہستہ آہستہ مسلمانوں کے مسائل اور ہندو ذہنیت کا بھی بخوبی اندازہ ہونا شروع ہوگیا ۔ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علمبرکے طور پر نمودارہوے تھے۔کانگرس میںجہاں مسلم لیگ کا نام تک سننا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔جناح کی کوششوں سے مسلم لیگ کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر1916 میں نا صرف اکٹھا ہوگئی ،بلکے مسلمانوں کے کئی ایسے مطالبات بھی معاھدہ لکھنئو کی شکل میں ماننے کو تیا ہوگئی۔ جن کو کانگرس سننا تک گوارا نہ کرتی تھی۔ یہ قائد اعظم کی شخصیت کا سحر ہی تھا کہ جس نے کانگریسیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اب گاندھی نے افریقہ میں اپنی سیاسی ناکامی کے بعد ہندوستاں وکا رُخ کیا توانہوںنے ہندو سیاست میں اپنے آپ کو فٹ پایا۔1919میں حکومت برطانیہ نے پارلیمنٹ میں ایک بل رولیٹ ایکٹ کے نا م سے پاس کرالیاتاکہ حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کی سر گرمیوں کی روک تھام کی جاسکے اور اپنے مخالفین کو بغیر مقدمہ چلائے پابند ِسلاسل کرنے میں رکاوٹ نہ رہے ۔اس ایکٹ کی وجہ سے قائد اعظم نے وائسرئے کی کونسل سے فوراََ ہی استعفیٰ دیدیا۔ یہ بات سب بخوبی جانتے تھے کہ جناح ایک قانون پسندشخصیت تھے۔جو ہر ایسے عمل کی شدت سے مخالفت کرتے تھے جو قانون کے منافی ہوتا تھا۔جیسے جیسے وقت گذر رہا تھاہندو طبقے کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔دوسری جانب گاندہی قائد اعظم کو کانگرس میں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ان تمام حالات کی بناء پر1920میں ناگپورکانگرس اجلاس میںجس وقت گاندھی کی طرف سے عدم تعاون کی تحریک منظور کی گئی تو جناح نے اُسی وقت کانگرس کی رکنیت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد اگست 1928میں نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے مطالبات رد کر دیئے تو کانگرس کی ہٹ دھرمی کا منہ توڑ جواب قائدِ اعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات کی شکل میں دے کر بر صغیر کے مسلمانوں کا واضح نکتہء نظر پیش کر کے برطانیہ اور کانگرس پر واضح کر دیا کہ ہندوستان کے مسلمان کسی کی بھی غلامی قبول کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہیں
ہندو مسلم مسئلے کے حل کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ 1929ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے چودہ نکات پیش کیے جو کہ تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ نکات درج ذیل ہیں

1.ہندوستان کا آئندہ دستور دفاقی نوعیت کو ہو گا۔
2.تمام صوبوں کو مساوی سطح پر مساوی خود مختاری ہو گی۔
3.ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبہ میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبہ میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تسلیم نہ کیا جائے۔
4.مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائ نمائندگی حاصل ہو۔
5.ہر فرقہ کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔
6.صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی سکیم عمل میں نہ لائی جائے جس کے ذریعے صوبہ سرحد، پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔
7.ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔
8.مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔
9.سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنا دیا جائے۔
10.صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔
11.سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
12.آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
13.کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے جس میں ایک تہائ وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔
14.ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
ہیں۔اس وقت محمد علی جناح اکیلے ہی مسلمانوں کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔اور مسلمانوں کو یکجہتی پر آمادہ کر رہے تھے۔تو ایسے وقت میں آج کی طرح بعض مفاد پر ست سیاست دان اپنی اپنی دوکانیں چمکانے پر لگ گئے اور مسلمانوں کے مفادات کا انہیں کوئی خیال نہ رہا تو قائد اعظم نے اسی میں بہتری جانی کہ وہ خود ہی ہندوستان کی سیا ست سے دستبردار ہوجائیں ۔لہٰذا انہوں نے لندن میں مستقل قیام اختیار کر لیا ۔اب ہندوستان کی مسلم سیاست مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعدکسی مخلص رہنما کی تلاش میں میں تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں میں سیاسی قیادت کا فقدان تھا ۔ جناح کو ہندوستان واپس لانے کے لئے کئی رہنمائوں نے کوششیں کیںجن نواب زادہ لیاقت علی خان سر وزیر حسن اہم رہنما تھے مگر قائد اعظم کی فوری ہندوستان وپسی کا سب سے اہم محرک رسول اکر م ۖکا خواب میں دیا جانے والاحکم تھا۔جسکی بازگشت تو بہت پہلے سے سنائی دیتی رہی ہے اورجس کا ذکر محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے بھی اپنے ایک مضمون میں بھی ماہ نومبر 2011 میں کیا ہے۔نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامہ” نظریہ پاکستان” میں گذشتہ دنوں 1944-45میں اپنے دہلی میں قیام کے ضمن میں یاداشتوں کے حوالے سے چوہدری فضل حق نے بتای کہ ان دنوں وہ کبھی کبھی قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔وہیں ان کی ملاقت علامہ شبیر احمد عثمانی سے ہوئی اُن کا کنہنا تھا کہ علامہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں وقت لئے بغیر قائد اعظم سے مل سکتے تھے۔علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی وفات کے بعد بتایاکہ ”قائد اعظم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ جب وہ لندن میں مقیم تھے تو ایک خواب میں انہیں رسول اکرم ۖکی زیارت ہوئی جس میںآپۖ نے فرمایا کہ ”محمد علی واپس ہندوستان جائو اور وہاں مسلمانوں کی قیادت کرو”قائد اعظم نے یہ خواب سنا کر مولانا شبیر احمد عثمانی کو تاکید فرمائی تھی کہ یہ خواب میری زندگی میں کسی پر آشکارہ مت کرنا ،میں یہ خواب دیکھنے کے فوراََبعد ہندوستان آگیا۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے نظام میں مغربی جمہوریت کی کئی بار نفی فرمائی۔قائد اعظم کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ہمیں ہر بیان میں اسلام اور قرآنی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جناح جب تک کانگرس کے رکن رہے سیکولر دکھائی دیتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد کے بھی بڑے داعی دکھائی دیتے تھے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی اور ہندووں کے معادانہ رویئے نے اسلام پسند جناح بنا دیا۔محمد علی جناح مسلم قوم کی شیرازہ بندی کا عزم کرتے ہیں تو پوری ملت اسلامیہ ان کے گرد دکھائی دیتی ہے۔ 1937میں قائد اعظم ہندو روئے کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ ہندو ہندوستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔کانگرس کی موجودہ پالیسی سے ہندو مسلمان نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔جس سے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔دوسری جانب گاندھی سادھووں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی جدوجہد میں مصروف دیکھے جا سکتے ہیں۔ 1937 کے انتخابات کے بعد گیاراہ میں سے آٹھ صوبوںمیں اقتدار سنبھالنے کے بعدکانگرس نے مسلمانوں کے ساتھ جو زیادتیاں کیں ان کو قائد اعظم نے بے نقاب کرایا اور جب کانگرس نے اقتدار چھوڑا تو قائد اعظم نے پوری قوم کو کانگرس اقتدار سے چھٹکارے پر پورے ہندوستان میں یوم نجات مناکر دنیا پر واضح کر دیا کہ ہندو مسلمان اکٹھا نہیں رہ سکتے۔یہی وجہ تھی کہ23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور کرا کے مسلمانوں کی منزل کا تعین بھی کر دیا گیا۔ اب گاندھی اور نہرو نے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا کہ کسی طرح جناح اپنے ہندوستان کی تقسیم کے مطالبے سے دست بردار ہوجائیں ۔انہیں اس مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کا لالچ بھی دیا گیا حد تو یہ کہ گاندھی نے قائد اعظم کو پیشکس کی کہ وہ جو چاہتے ہیں انہیں دیدیاجائے گا۔گاندھی نے ہندوستان کی وزارت اعظمیٰ تک انہیں دینے کی پیشکش کی ۔مگر جناح نے ا س پیشکش کو بھی حقارت سے ٹھکرا دیا۔میرے قائد نہ جھکنے والے تھے اور نہ بِکنے والے۔قائد اعظم نے اپنی زندگی ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے وقف کی ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ انہیں اپنا گھر بسانے کی طرف کبھی توجہ ہی نہ ہوئی۔ایک خاتون نے قائد کے عشق میں مبتلا ہو کر ان سے شادی بھی کر لی تھی مگر یہ رشتہ زیادہ عرصہ نبھ نہ سکا قائد اعظم ہمیشہ بات کے پکے اور قول کے سچے رہے۔ انہیں نہ ستائش کی تمنا تھی اور نہ ہی صلے کی پروہ۔شائد قائد اعظم کے لئے ہی یہ شعر کہا گیا تھا”
مت سہل ہمیں جانوپھرتا ہے
فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کی انتھک محنت اور کوششوں سے بنایا گیا پاکستان ہمیں یہ سکھلاتا ہے کہ ہمیں پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزان کرنا ہے نہ کہ پستی کہ جانب۔۔۔۔
از طرف میاں محمد اشفاق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

Image

قائد اعظم محمد علی جناح کا آٹو گراف
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ ....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

{أضواء} wrote:شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ ....
بہنا میری آپ سے اور اپنے سب دوستوں سے گزارش ہے کہ کوشش کیا کریں کہ ہر موضوع پر تھوڑی بہت بحث ضرور کیا کریں حالانکہ یہ ایسا موضوع نہیں ہے کہ جس پر بحث کی جا سکے مگر کچھ الفاظ ضرور شئیر کیا کریں تا کہ ان شخصیات کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی واضع ہو سکے۔۔۔
امید ہے کہ آپ سب میرا ضرور ساتھ دیں گے۔
:)
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

بل گیٹس

Post by میاں محمد اشفاق »

بل گیٹس (Bill Gates) مائیکروسافٹ کمپنی کا چیئر مین اور دنیا کا امیر ترین شخص ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس کو بچپن سے ہی کمپیوٹر کا شوق تھا۔ 1978ء میں اسنے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر مائکروسافٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس کی دلچسپی سافٹویئر تھی۔ زیادہ تر اس نے دوسروں سے سافٹویئر پروگرام لے کر انھیں بہتر کر کے بازار میں پیش کیا۔ اس کے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز (Windows) نے کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا کیا اور اس کی بکری نے اسے دنیا کا سب سے امیر ترین شخص بنا دیا۔ ونڈوز کے علاوہ اس کی کمپنی نے بے شمار موضوعات پر پروگرام بناۓ۔

بل گیٹس کے پاس 82 ارب ڈالر ہیں اور اپنی دولت کو اپنے ایک فلاحی ادارے کے ذریعے انسانوں کی فلاح کے لئے خرچ کر رہا ہے۔

1995 کا سال 59 سالہ امریکی کھرب پتی بل گیٹس کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی سال کے آغاز میں بل کی شادی ہوئی۔ تب تک ونڈوز 95 کی تیاری جاری تھی جس نے دنیائے کمپیوٹر میں انقلاب برپا کردینا تھا۔ یہی نہیں، جلد ہی مائیکروسافٹ کارپوریشن کی بدولت بل گیٹس کا شمار انتہائی دولت مند امریکیوں میں ہونے والا تھا۔
بل گیٹس اور ان کی بیگم، میلنڈہ کی پرورش نازونعم سے ہوئی تھی۔ انھیں زندگی کی ہر آسایش حاصل تھی اور انھوں نے غربت و جہالت کا بھیانک چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ بیاہ کے بعد دونوں ہنی مون منانے کینیا گئے۔ وہاں بل و میلنڈہ نے جنگلی جانوروں کا شکار کیا اور شیروں کو ہرنوں کا شکار کرتے دیکھا۔ لیکن کینیا ہی میں پہلی بار ان کا پالا غربت سے پڑا۔
انھوں نے دیکھا کہ افریقی مرد سارا دن کام کرکے ہی اس قابل ہوتے ہیں کہ گھریلواخراجات برداشت کر سکیں۔ ان کی بیویاں بھی سارا دن کام کرتی ہیں۔ اس کے باوجود بیشتر افریقی گھروں میں بھوک اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کئی بچے باشعور بھی نہیں ہوتے کہ کسی بیماری کے ہاتھوں چل بستے ہیں۔ ان تکلیف دہ مناظر نے امریکی دولت مندوں کو خاصی حد تک جھنجھوڑ ڈالا۔
وہ واپس امریکہ پہنچے تو چند ہی ماہ بعد بل کی والدہ چل بسیں۔ وہ ایک مخیر اور دکھی لوگوں کی ہمدرد خاتون تھیں۔ انھوں نے شادی کے دن اپنی ہونے والی بہو کو بتایا تھا ’’جن انسانوں کو زیادہ (دولت) ملے، انہی سے (دینے کی) توقع بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
فلاحی تنظیم کاقیام
چہیتی بیوی کی وفات نے بل کے والد، بل سینئر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر انسان کو زندگی کیوں ملتی ہے؟ سوچ بچار کے بعد انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حیاتِ انسان کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ دکھی انسانیت کی ہر ممکن خدمت کرے۔ اسی فکر کے زیرِاثر بل سینئر نے پھر بیٹے پر زور دیا کہ وہ ایک فلاحی تنظیم قائم کرکے اپنی آمدن کا مخصوص حصہ اس کے لیے مخصوص کر دے۔ بل گیٹس بھی والدہ کی موت سے افسردہ تھے۔ پھر افریقہ میں غربت کے مناظر بھی دل میں ثبت تھے۔ یوں انھوں نے سال کے آخر میں اپنی فلاحی تنظیم، بل اینڈ گیٹس فائونڈیشن قائم کر دی۔
سترہ برس بیت چکے اور یہ فائونڈیشن آج دنیا کی سب سے بڑی غیرسرکاری فلاحی نتظیم بن چکی۔ یہی نہیں، بل گیٹس میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہو چکی، جن کی داستان بڑی سبق آموز اور دلچسپ ہے۔ یہ انہی انقلابی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے کہ آج بل گیٹس دنیا کی سب سے طاقتور ہستی بن چکے۔ یہ اعزاز انھیں مشہور امریکی رسالے، فوربس نے دیا ہے۔ یہ رسالہ مختلف پیمانے مقرر کرکے ہر شعبے کی بہترین شخصیات کا انتخاب کرتا ہے۔ حال ہی میں دنیا کی طاقتور ترین شخصیات کی فہرست میں بل گیٹس سب سے اوپر آئے۔ دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکہ کے صدر اور چینی و روسی حکمرانوں کا نمبر بھی ان کے بعد آیا۔
شاید آپ سوچیں کہ بے پناہ دولت نے بل کو یہ رتبہ عطا کیا۔ جی نہیں، انسانیت کی خدمت اور غریبوں کے لیے جذبۂ ہمدردی نے انھیں یہ مقام دلایا۔ دراصل بحیثیت کاروباری انھیں جو دولت، اثرورسوخ، عزت اور شہرت حاصل تھی، فلاح و بہبود کی سرگرمیوں نے ان کو دوچند کردیا۔ چنانچہ آج بل گیٹس خصوصاً سبھی دولت مندوں کے لیے مشعلِ راہ بن چکے۔ ان کی حیات یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ دنیا کے امرا کو کس طرح اپنی دولت خرچ کرنی چاہیے تاکہ وہ دین و دنیا میں نام کما سکیں۔تبدیلی کا آغاز
1994 میں جب بل فلاحی سرگرمیوں کی طرف آئے، تو وہ مشہور برطانوی مفکر، تھامس مالتھس کے اس نظریے پر یقین رکھتے تھے کہ غربت، بیروزگاری، بھوک، جہالت وغیرہ زیادہ آبادی کی پیداوار ہیں۔ چونکہ وسائل محدود ہیں، لہٰذا آبادی ہمیشہ مصیبت لاتی ہے۔ چنانچہ بل کو یقین تھا کہ ویکسین بنانے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ جن بچوں یا انسانوں کی جانیں بچی، وہ آخرکار کرۂ ارض پر بوجھ ہی ثابت ہوں گے۔
اسی سوچ کے باعث بل نے اقوام متحدہ کو 10 کروڑ ڈالر دیے تاکہ اس کی ایجنسیاں غریب ممالک میں ضبطِ تولید کے طریقے متعارف کرا سکیں۔
بل گیٹس نے دوسرا محاذ امریکی روایتی طرزِتعلیم کے خلاف کھولا۔ بل کا خیال تھا کہ جس جماعت میں کم بچے ہوں، استاد کو موقع ملے گا کہ ان پر بھرپور توجہ دے۔ لہٰذا انھوں نے ایک ارب ڈالر لاگت سے اصلاحات کا منصوبہ شروع کیا۔ لیکن اس کے بعد محققوں نے بل کو باور کرایا کہ جماعت کے چھوٹے یابڑے ہونے سے طالب علم کی کارکردگی پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہے کہ استاد کو تعلیم یافتہ، تجربے کار اور اپنی ذمے داری سے مخلص ہونا چاہیے۔
بل کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کا کوئی نظریہ یا خیال غلط ثابت ہو، تو وہ اس کی درستی پر ضد نہیں کرتے، بلکہ راہ بدل لیتے ہیں۔ چنانچہ بل نے کروڑوں ڈالر خرچنے کے بعد اپنے تعلیمی منصوبے کا رخ بدلا اور استاد کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کر دی۔
صحت کا منصوبہ بھی اسی تبدیلی سے گزرا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں والدین اس لیے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کہ انھیں علم ہے، کئی بیماریوں کے ہاتھوں چل بسیں گے۔ لہٰذا بل نے صحت کے تمام منصوبوں کو سمتِ معکوس دے دی… اب وہ بچوں کی پیدایش روکنے کے بجائے ان کی جانیں بچانے پر کمربستہ ہوگئے۔ یہ 1998 کی بات ہے اور اسی لمحے بل نے فیصلہ کیا کہ وہ ویکسین خرید کر غریب ممالک کو مفت یا سستے داموں فراہم کریں گے۔
انقلاب کا آغاز
بل گیٹس چاہتے، تو اربوں ڈالر طبی تنظیموں کو دے ڈالتے تاکہ وہ بچوں کو ادویہ و ویکسین فراہم کر سکیں لیکن بل وملینڈہ نے ازخود اس کام میں دلچسپی لی۔ پھر وہ خصوصاً شعبۂ ویکسین میں انقلابی اور جدید تبدیلیاں لے آئے۔ وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں غلط فہمیوں کی بنا پر یہ نظریہ پھیل گیا کہ ویکسین بچوں میں مختلف بیماریاں مثلاً آٹزم پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذا تمام بڑی ادویہ ساز کمپنیاں ویکسین بنا کر اپنی رقم برباد کرنے پر آمادہ نہ تھیں۔
یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے بل نے سوچا کہ ایک طرف تو سائنس دان نئی ویکسین تیار کریں، دوسری سمت ادویہ ساز کمپنیوں کو نئی منڈیاں دی جائیں، تاکہ وہ ویکسین بنانے کی طرف متوجہ ہوں۔ اس منصوبے پر عمل کے لیے زرِکثیر چاہیے تھا، چنانچہ 1999 میں بل نے اپنی دولت میں سے 21 ارب ڈالر (1890 ارب روپے) بل اینڈ ملینڈہ گیٹس فائونڈیشن کے حوالے کر دیے۔ اس سرمائے سے نئی ویکسین ایجاد کرائی گئیں، پھر ادویہ ساز کمپنیوں سے انھیں بنوا اور خرید کر غریب ممالک میں تقسیم کیا گیا۔ یوں بین الاقوامی سطح پربذریعہ ویکسین بچوں کی جانیں بچانے والا انتہائی مؤثر نظام سامنے آگیا۔ یہ کامیابی ایک فردِواحد کے جذبۂ خدمت کی بدولت ہی رونما ہوئی۔آج بل گیٹس کا وضع کردہ ویکسین پروگرام ہر سال دنیا بھر میں ’25 کروڑ‘‘ بچوں کو مختلف ویکسین مہیا کرتا ہے۔ اس پروگرام میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہو چکے اور وہ اُسے سالانہ کروڑوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں۔ یہ پروگرام اب ’’گیوی الائنس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔2001 سے اب تک گیوی الائنس پاکستانی حکومت کے ویکسین پروگرام کو 30 کروڑ ڈالر (27 ارب روپے) کی امداد دے چکا ہے۔ یوں ممکن ہوا کہ لاکھوں پاکستانی بچوں کو بیماریوں مثلاً خسرہ، کالی کھانسی، زرد بخار،پولیو، نمونیا، دست، ملیریا وغیرہ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کامیابی میں اہم ترین کردار بل گیٹس ہی کا ہے۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2001 تا 2011 گیوی الائنس نے بھارتی حکومت کو صرف ساڑھے چار کروڑ ڈالر کی امداد دی۔ حالانکہ وہاں بھی کروڑوں غریب بچے موجود ہیں۔ شاید بل گیٹس نے بھارتی حکومت کو اس لیے گھاس نہیں ڈالی کہ وہ غیرملکی امداد کا بیشتر حصہ اسلحہ خریدنے میں لگا دیتی ہے۔
بل ومیلنڈہ گیٹس فائونڈیشن کے انقلابی اقدامات کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے 10 برس میں ویکسین کی قیمت بہت کم ہوگئی۔ مثلا 5 عام بچگانہ امراض (بشمول خناق، تشنج اور کالی کھانسی) کی ویکسین کی قیمت 40 فیصد کم ہوئی۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین کی قیمت تو 47 فیصد کم ہوگئی۔ یوں ممکن ہوگیا کہ زیادہ سے زیادہ غریب بچوں کو فائدہ پہنچے۔بل گیٹس کا شمار انسانی تاریخ میں عظیم ترین کاروباری دماغ رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی غیرمعمولی ذہنی صلاحیتوں کے باعث ہی سیکڑوں گتھیاں سلجھائیں اور دنیائے کمپیوٹر میں انقلاب لے آئے۔اب وہ اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر انسانیت کو درپیش مشکلات ختم کرنے کی سعی میں ہیں۔ بل و میلنڈہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے سرمائے و طاقت سے دنیا بدل کر رہیں گے۔
دنیا بدلنے کا عزم
بل گیٹس نے اپنی دولت و اثرورسوخ کے ذریعے بیماریوں کے خلاف اعلانِ جہاد کر رکھا ہے۔ وہ 2008 میں مائیکروسافٹ کارپوریشن سے علحٰدہ ہوگئے تاکہ اپنا پورا وقت انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر سکیں۔ ان کے نزدیک کامیابی کا معیار اب زیادہ سے زیادہ دولت مند ہونا نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنے بچوں اور انسانوں کو مرنے یا معذور ہونے سے بچاتے ہیں۔
واضح رہے، 59 سالہ بل ابھی اتنے بوڑھے نہیں ہوئے کہ موت کے مناظر انھیں خوفزدہ کر دیں بلکہ وہ چاہیں تو آسایشاتِ دُنیا سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوں۔ لیکن انھوں نے بیگم کے ساتھ آرام دہ زندگی تج دی۔ اب وہ دنیا بھر میں گھومتے اور غریبوں کے دُکھ درد دُور کرنے کا سامان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
اب میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ دُنیا بھر میں شرحِ اموات 80 فیصد تک کم کردوں۔ اگر میں اور میری ٹیم یہ منزل نہ پا سکے تو ہمیں صدمہ ہوگا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم نے اپنا کام صحیح طرح انجام نہیں دیا۔زندگی کا مقصد
والدین عموماً ساری عمر جائز و ناجائز طریقوں سے اس لیے کماتے ہیں کہ اپنے بچوں کی خاطر بہت کچھ چھوڑ جائیں۔ لیکن بل گیٹس کا مقصدِ حیات کچھ اور ہی ہے۔ اب دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ان کا مشن بن چکا اور وہ اپنی ساری دولت اسی کام کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔
بل اور میلنڈہ کے3 بچے ہیں۔ 15 سالہ جینفر،12 سالہ اوری اور 9 سالہ فوب۔ بل کا کہنا ہے کہ ان کی وراثت سے ہر بچے کو ایک کروڑ ڈالر (90 کروڑ روپے) ملیں گے۔ یہ رقم معمولی نہیں مگر بل کی بے حساب دولت دیکھتے ہوئے یہ مونگ پھلی ہی لگتی ہے۔ یاد رہے، بل فی الوقت54 ارب ڈالر کی دولت و جائیداد رکھتے اور دنیا کے دوسرے امیرترین انسان ہیں۔ تاہم وہ 1994 سے اب تک 24 ارب ڈالر اپنی فائونڈیشن کو دے چکے ہیں۔ اگر یہ رقم بھی ان کے پاس ہوتی تو یقینا میکسیکین کاروباری، کارلوس سلیم (74 ارب ڈالر) سے زیادہ دولت مند ہوتے۔
بل گیٹس کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں سے اَزحد محبت کرتے ہیں چنانچہ انھیں دنیا جہاں کی سہولتیں حاصل ہیں۔ وہ کروڑوں بچوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں مگر یہ اُن کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی محنت و ذہانت کے بل بوتے پر کامیاب ہوں۔ اسی خیال کے تحت بل اپنی ساری دولت انھیں نہیں دینا چاہتے۔
واضح رہے، بل و میلنڈہ گیٹس فائونڈیشن37 ارب ڈالر (3259 ارب روپے) کے اثاثے رکھتی ہے۔ اس حساب سے وہ دُنیا کی سب سے بڑی غیرسرکاری فلاحی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم 1994 سے اب تک فروغِ تعلیم، غربت مٹائو اور انسانی صحت کے منصوبوں پر 25 ارب ڈالر ( 2200 ارب روپے) خرچ کرچکی۔ اِتنی بڑی رقم سے اندازہ لگانا ممکن ہے کہ تنظیم کتنے بڑے پیمانے پر افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کے غریب ممالک میں سرگرمِ عمل ہے۔
انسانی جانیں بچانے کا سوال
دنیا میں بل گیٹس کے مخالفوں کی کمی نہیں۔ بعض انھیں روایتی امیر سمجھ کر نفرت کرتے ہیں۔ غریب ممالک کے سوشلسٹ اور مذہبی راہنما ان کو سرمایہ دار مغرب کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ تاہم بل اس مخالفت کے باوجود اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ آمروں اور جرنیلوں سے بھی ملتے ہیں تاکہ ان کے ملکوں میں اپنے غریب دوست منصوبے شروع کرا سکیں۔ چنانچہ جمہوریت پسند مغربی ذرائع ابلاغ انھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ گویا بل گیٹس کا یہ حال ہے کہ پرائے ہیں ناراض تو اپنے بھی ناخوش۔
بل کو سراہنے والے بھی بے شمار ہیں مثلاً مشہور ادویہ ساز کمپنی، نووارٹس میں شعبۂ تحقیق کے سربراہ اور ممتاز طبی سائنس داں، ڈاکٹر اینڈرین اوسوالڈ کا کہنا ہے ’’بل ایسی طاقتور ہستی ثابت ہوئے کہ تن تنہا اپنی کوششوں سے انھوں نے کروڑوں غریب بچوں کو مرنے سے بچا لیا۔‘‘
تاہم بل گیٹس اپنی تعریف پر پھولے نہیں سماتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کامیابی اسی لیے ملی کہ ماہرین نے لیبارٹریوں میں جاں فشانی سے کام کرتے ہوئے نئی ویکسین تیار کیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ اگر بل اربوں ڈالر فراہم نہ کرتے، تو انتہائی منظم ویکسین پروگرام عمل میں آنا تقریباً ناممکن تھا۔
پچھلے دنوں بل ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ میں طلبہ و طالبات سے خطاب کرنے گئے۔ اس محفل میں ایک طالب علم نے ان سے سوال کیا ’’آپ اپنی کس اختراع کو اوّلیت دیتے ہیں… مائیکروسافٹ ونڈوز کو یا ویکسین کے منصوبے کو؟‘‘انھوں نے کہا ’’کمپیوٹر سافٹ ویئر پروگراموں کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن جہاں تک انسانی جانیں بچانے کا سوال ہے، اس اعتبار سے یقینا ویکسین ہی کو برتری حاصل ہے۔‘‘ اور یہ بات سولہ آنے درست ہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

Image
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

Image
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by میاں محمد اشفاق »

Image



Image

.Image
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

حضرت ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال

Post by میاں محمد اشفاق »

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء)
بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے

ولادت و ابتدائی زندگی

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ[2]) کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔

اقبال کے آبا‌ ؤ اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔

تعلیم

علامہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ اور اس شوق کو فروغ دینے میں مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔

اعلیٰ تعلیم

ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پروفیسرآرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔


سفر یورپ

1905 میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

تدریس ،وکالت اور سماجی خدمات

ا بتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔

سیاست

علامہ اقبال کا مزار1926ء میں آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ آپ کی تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938ء (بمطابق 20 صفر 1357ھ) میں علامہ انتقال کر گئے تھے۔ لیکن ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔

شاعری
شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان عالم اسےبڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتب کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسرے زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔


نثر
علم الاقتصاد-1903

فارسی
شاعریاسرار خودی-1915
رموز بے خودی-1917
پیام مشرق-1923
زبور عجم-1927
جاوید نامہ-1932
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق-1936
ارمغان حجاز (فارسی-اردو)-1938

اردو شاعری
بانگ درا-1924
بال جبریل-1935
ضرب کلیم-1936

انگریزی تصانیف
فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء-1908
اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو-1930

اقبال کی نظموں کا فنی فکری تجزیہ

شکوہ
جواب شکوہ
خصر راہ
والدہ مرحومہ کی یاد میں

تصورات و نظریات

خودی
عقل و عشق
مرد مومن
وطنیت و قومیت
اقبال کا تصور تعلیم
اقبال کا تصور عورت
اقبال اور مغربی تہذیب
اقبال کا تصور ابلیس
اقبال اور عشق رسول
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

البرٹ آئنسٹائن

Post by میاں محمد اشفاق »

البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein)، بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی کے شہر الم میں 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہؤا۔ باپ کا نام ہرمین (Hermann Einstein) اور ماں کا نام پالین (Pauline Koch) تھا۔

ابتدائی زندگی آئنسٹائن کا خاندان جرمنی کے خوشحال یہودی النسل خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ باپ کاروباری تھا مگر زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ جب آئنسٹائن چھ برس کا تھا، یہ لوگ میونخ آ گئے۔ ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک مدرسہ میں پائی۔ یہاں کا سخت ماحول اس بچے کو ناگوار گزرتا تھا۔ 1894ء میں آئنسٹائن کو بورڈنگ مدرسہ میں پیچھے چھوڑ کر، اس کا باپ کاروباری وجوہات کی بنا پر خاندان سمیت اٹلی منتقل ہو گیا۔ دسمبر 1894ء میں سولہ سال کی عمر میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئنسٹائن (غالباًً جرمن کی لازمی فوجی سروس کے خوف سے) خود بھی اٹلی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر 1896ء میں اس نے جرمن شہریت چھوڑ دی۔ اکتوبر 1895ء میں سویٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقعہ یونیوسٹی ETH کے داخلہ کا امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ استاد نے مشورہ دیا کہ سکول کی تعلیم مکمل کرو، چنانچہ سویٹزرلینڈ کے شہر Aarau کے ایک سکول میں پڑھائی کی۔ یہاں جس گھر میں قیام تھا، اس کے مالک کی بیٹی Marie سے شناسائی ہوئی۔ اگلے سال ETH کا داخلہ امتحان کامیاب کیا۔ اب اس نے ETH میں پڑھائی شروع کر دی۔ وہ سکول استاد بننے کی پڑھائی کرنے لگا۔ اگست 1900ء میں امتحان ہؤا، پانچ طالب علموں کے امتحان میں آئنسٹائن چوتھے نمبر پر آیا۔ پہلے تین کو ETH نے نوکری دے دی، مگر اسے اور پانچویں نمبر پر آنے والی ملیوا مارِک (Mileva Maric) کو نہیں۔ ملیوا کے ساتھ اس کا میل جول تھا اور وہ بعد میں آئنسٹائن کی پہلی بیوی بنی۔ ملیوا عیسائی تھی اور سربیا سے تعلق تھا۔ ملیوا اور آئنسٹائن کے درمیان 1897ء سے 1903ء تک کے خطوط کے تبادلہ سے تاریخ دانوں کو اس بارے معلومات ملی ہیں۔ ان خطوط میں ذاتی معاملات کے علاوہ فزکس کے مسائل پر بھی گفتگو ملتی ہے۔ فکرِ معاش کی وجہ سے آئنسٹائن شادی نہیں کر پا رہا تھا، مگر ملیوا حاملہ ہو گئی۔ 1902ء میں ایک لڑکی کو جنم دیا، مگر پالا نہیں۔ 1902ء میں ہی آئنسٹائن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آئنسٹائن عارضی استاد کے طور پر مختلف جگہ کام کرتا رہا، حتٰی کہ جون 1902ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن کے patent دفتر میں نوکری مل گئی۔ 1901ء میں آئنسٹائن سویٹزرلینڈ کا شہری بھی بن گیا۔ جنوری 1903ء میں ملیوا سے شادی ہو گئی۔ پیٹنٹ دفتر میں کام کے دوران آئنسٹائن فزکس کے مسائل پر بھی تحقیق کرتا رہا، اور اسی دوران اس نے اپنی زندگی کے عظیم تریں مقالات شائع کیے۔ کچھ محققین نے خیال ظاہر کیا ہے، کہ آئنسٹائن کی تحقیق میں ملیوا مارِک بھی شریک تھی۔ یہ شبہات آئنسٹائن اور ملیوا کے خطوط سے پیدا ہوئے جن میں آئنسٹائن "ہمارے نظریے" کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی سائنسدان Abraham Joffe نے مبینہ طور پر یہ بتایا کہ جب آئنسٹائن نے اپنے مقالے جریدہ Annalen der Physik کو بھیجے تو ان پر پیٹنٹ دفتر میں کام کرنے والے Einstien-Maric نامی کسی شخص کے دستخط تھے۔

1905ء، کارناموں کا سال

اس سال آئنسٹائن نے چار مشہور مقالے شائع کیے:

1.پہلا مقالہ روشنی کی ہیئت کے بارے تھا۔ روشنی کو موج سمجھا جاتا تھا، مگر اس سے کچھ تجرباتی نتائج کی تشریح کرنا ممکن نہ تھا۔ آئنسٹائن نے اس نظریے کو تقویت دی کہ روشنی کو چھوٹے چھوٹے نوریہ زرات (photons) پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ نوریہ کا نظریہ سب سے پہلے میکس پلینک نے پیش کیا تھا۔
2.دوسرا مقالہ براؤنین حرکت (Brownian motion) کا ریاضی ماڈل تھا، جس میں احصاء کا استعمال کرتے ہوئے سالمہ کی مائع میں حرکت کی تشریح کی گئی تھی۔ اس سے اس نظریہ کو عام کرنے میں مدد ملی کہ جوہر اور سالمہ کا وجود حقیقی ہوتا ہے۔
3.تیسرا مقالہ اس کی مشہور مساوات تھی، جس میں مادہ اور توانائی کا آپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا گیا تھا۔ حال میں ایک محقق نے رائے دی ہے کہ یہ مساوات ایک اطالوی نے آئنسٹائن سے کچھ سال پہلے شائع کی تھی، اگرچہ اضافیت نظریہ کے سیاق و سباق میں نہیں۔
4.چوتھا مقالہ خصوصی اضافیت (special theory of relativity) پر تھا۔ اس سے وقت اور فضاء کو علیحدہ علیحدہ تصور کرنے کی بجائے "وقت۔فضاء" یا "زمان و مکاں" (space-time) کا نظریہ سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز زیادہ (مگر یکساں) سمتار سے حرکت کر رہی ہو، تو جس مشاہد کے حوالے سے حرکت ہو رہی ہو گی، اس مشاہد کو اس چیز کی کمیت زیادہ، لمبائی کم، اور وقت آہستہ گزرتا، نظر آئے گا۔ البتہ روشنی کی رفتار ہر کو ایک ہی (تقریباًً ) نظر آئے گی۔ اور یہ بھی کہ کوئی مادہ چیز کو تیز رفتار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور یکساں (uniform) سمتار سے سفر کرنے والے جمودی حوالہ جاتی قالب (inertial frame of reference) میں کوئی ایسا تجربہ ممکن نہیں جس سے جمودی حوالہ جاتی قالب میں موجود مشاہد یہ معلوم کر سکے کہ وہ یکساں سمتار سے سفر کر رہا ہے یا "ساکن" ہے۔ واضح رہے کہ اضافیت کا نظریہ اس سے پہلے Hendrik Lorentz اور Henri Poincare پیش کر چکے تھے۔ آئنسٹائن نے یہ اضافہ کیا کہ ایسا تجربہ ناممکن ہونے کا اطلاق Maxwell کی برقناطیسی موجوں پر بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طیبیعات کے قوانین تمام غیر اسراعی (non-accelerated) جمودی حوالہ جاتی قالب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں۔

پروفیسری اور واپس جرمنی میں

1906ء میں زیورخ یونیوسٹی نے پی۔ایچ۔ڈی کی سند عطا کی، جس کے لیے آئنسٹائن نے تحقیقی مقالہ 1905ء میں جمع کرایا تھا۔ مقالات کی وجہ سے آئنسٹائن کی شہرت جو پھیلی، تو زیورخ یونیوسٹی نےنظریاتی طیبعیات میں اکتوبر 1909ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔ 1910ء میں پراگ یونیوسٹی سے پوری پروفیسر کی پیشکش ہوئی، تو 1911ء میں پراگ چلا گیا۔ یہاں جرمن اور چیک افراد میں لسانی و قومیاتی چپقلش کی وجہ سے کشیدگی تھی، اس لیے ایک سال ہی یہاں گزارنے کے بعد 1912ء میں زیورخ یونیوسٹی میں مکمل پروفیسر کی حیثیت سے واپس آ گیا۔ 1911ء میں برسلز میں اس کی Max Planck اور Lorentz جیسے بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی۔ 1911ء میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کیا۔ شہرت اور بڑھی، تو برلن یونیوسٹی، جو اس وقت علم کا گڑھ تھا، سے پروفیسر اور نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر، اور اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی، جو قبول کر کے آئنسٹائن 1914ء میں جرمنی چلا آیا۔ جرمن شہریت دوبارہ حاصل کر لی۔ یہاں آنے کے چار ماہ بعد ہی پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ چار سالہ جنگ کے دوران آئنسٹائن زیادہ تر جرمنی میں ہی مقیم رہا۔ 1918ء میں جنگ جرمنی کی شکشت پر ختم ہوئی۔ جرمنی پر سخت شرائط تھیں، اور اسے فاتح ممالک کو بھاری رقم جرمانے کے طور پر دینا پڑ رہی تھی۔ اس سے جرمنی کی معیشت تباہ ہونا شروع ہوئی تو جرمن سیاست میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں نے زور پکڑ لیا۔ فرانس جرمنی کے کچھ علاقہ پر غاصبانہ قابض تھا، مگر اس کے باوجود آئنسٹائن فرانس کی تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کر رہا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں یہودیوں کو بھی جرمنی کی تباہ شدہ معیشت کا ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ اس کے باوجود آئنسٹائن جرمنی میں مقبول تھا (سوائے کچھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے)۔ آئنسٹائن عمومی اضافیت کے نظریہ سے مشہوری پانے کے بعد دنیا بھر کے دورے کیے جس میں جاپان، جنوبی امریکہ، امریکہ اور فلسطین شامل تھے۔ امریکہ کئی دفعہ گیا۔ ان دوروں میں سائنسی لیکچر کے علاوہ آئنسٹائن صیہونیت کا بھی پرچار کرتا۔ 1922ء میں آئنسٹائن کو نوبل انعام دیا گیا۔ 1929ء میں جرمنی کے ایک شہر نے ایک جھیل پر آئنسٹائن کو جھونپڑی تحفے میں دی (بعد میں آئنسٹائن کو اس کی کچھ قیمت بھی دینا پڑی)۔ آئنسٹائن کشتی رانی کا شوقین تھا۔ 1933ء میں آئنسٹائن امریکہ کے دورے پر تھا کہ جرمنی میں ہٹلر نے اقتدار سنبھال لیا۔ آئنسٹائن یورپ واپس پلٹ رہا تھا، تو بحری جہاز میں خبر ملی کہ جرمن پولیس نے اس کی جھونپڑی پر چھاپہ مار کر ملک دشمن مواد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئنسٹائن نے جرمنی کے بجائے بیلجیم پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ یہاں اس نے جرمنی کے خلاف جنگی تیاریوں کی حمایت کی۔ 1933ء میں ہی آئنسٹائن امریکہ منتقل ہو گیا۔

اولاد !

پہلی بیٹی شادی سے پہلے 1902ء میں سربیا میں بیوی ملیوا کے آبائی گھر پیدا ہوئی، مگر اسے ماں باپ نے پالا نہیں۔ اس کا انجام معلوم نہیں۔ 1903ء میں پہلا بیٹا ہینز (Hans)، شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہؤا، جس نے سویٹزرلینڈ سے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی تعلیم مکمل کی، اور بعد میں برکلے یونیوسٹی کیلی فورنیا میں پروفیسر بنا، اور 1973ء میں وفات پائی۔ اپنی ماں سے آئنسٹائن کے برے سلوک کی وجہ سے کافی عرصہ اس کے باپ سے تعلقات کشیدہ رہے۔ دوسرا بیٹا ایڈورڈ 1910ء میں پیدا ہؤا، جو ذہنی مریض تھا، اور ذہنی امراض کے اداروں میں ہی زیادہ وقت گزارا۔ 1965ء میں زیورخ میں وفات پائی۔

ازواج !

پہلی بیوی ملیوا مارِک (Mileva Maric) سے 1903ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی، اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ 1914ء میں برلن جانے کے بعد میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو گئے۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ آئنسٹائن نے ملیوا کو صرف اس صورت اپنے ساتھ رکھنے پر راضی تھا اگر وہ یہ شرائط پوری کرے

A. تم یہ یقینی بناؤ گی کہ (1) میرے کپڑے اور بسترا ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (2) مجھے اپنے کمرے میں تین وقت کا کھانا پہنچاؤ گی۔ (3) میرا سونے اور پڑھنے کا کمرہ صاف ستھرا رکھو گی۔ میری پڑھنے والی میز کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ B. میرے سے تمہارے تمام ذاتی تعلقات ختم ہوں گے، سوائے لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ .....جب مخاطب ہوں تو فوراً جواب دو گی .....میرے بچوں کو میرے خلاف نہیں کرو گی، گفتگو سے یا اپنے عمل سے۔

اس کے بعد ملیوا بچوں کو لے کر زیورخ چلی آئی۔ 1916ء میں آئن سٹائن نے طلاق کا سوال کیا۔ ملیوا ذہنی صدمے سے نڈھال ہو گئی، ہسپتال میں داخل ہوئی۔ آخر 1918ء میں اس شرط پر طلاق ہوئی کے اگر میاں کو نوبل انعام ملے تو اس کے پیسے ملیوا کے ہوں گے اور بچوں کو مالی طور پر میاں سہارا دے گا۔ دونوں بیٹوں کو ملیوا نے اکیلے ہی سوئٹزرلینڈ میں پالا۔ بڑا بیٹا بڑا ہو کر امریکہ چلا گیا۔ 1948ء میں ملیوا کی وفات ہوئی تو ہسپتال میں اکیلی تھی۔

1914ء میں برلن آنے کے بعد آئنسٹائن کی شناشائی اپنی چچا زاد بہن ایلسا (Elsa) سے دوبارہ ہوئی۔ اس نے آئنسٹائن کے لیے ایک سیکرٹری ہیلن ڈیوکس (Helen Dukas) ڈھونڈ کر رکھ کے دی جو عمر بھر آئنسٹائن کی سیکرٹری رہی۔ آئنسٹائن اس شش وپنج میں تھا کہ ایلسا سے شادی بنائے یا اس کی جوان سال بیٹی سے۔ مگر اس بیٹی نے کچھ دلچسپی ظاہر نہیں کی اور آئنسٹائن نے ایلسا سے ہی شادی کر لی۔ ایلسا بعد میں آئنسٹائن کے ساتھ امریکہ آ گئی جہاں 1936ء میں انتقال کیا۔


عمومی اضافیت نظریہ !


نظریۂ اضافیت

نظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا۔ اس نظریہ پر کام 1915ء میں مکمل کیا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ

اسراع کے دوران مشاہد جو طاقت محسوس کرتا ہے وہ بعینہ کشش ثقل کی طرح ہے۔-
کشش ثقل (جس کی وجہ سے مثلاً سورج کے گرد سیارے کا گھومتے ہیں) کی طاقت کی ایک اور توضیح پیش کی۔ وہ یہ کہ سورج کی موجودگی سے زمان و مکان ہی ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اب سیارہ اپنی طرف سے سیدھا ہی چل رہا ہوتا ہے مگر اس زمان و مکان کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے وہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ اس ٹیرھے پن کا اثر برقناطیسی موجوں پر بھی ہو گا۔ مثلاً ستاروں کی روشنی سورج کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا رُخ ہلکا سا تبدیل کرتی ہے۔ روشنی کے اس مڑنے کی تصدیق تجرباتی طور پر سورج گرہن کے دوران برطانوی سائنسدانوں نے 1919ء میں کی، جس سے عمومی اضافیت نظریہ کی تصدیق ہو گئی اور آئنسٹائن کی شہرت کی اخباروں میں دھوم مچ گئی۔ تاریخ دانوں نے کہا ہے کہ برطانوی سائنسدان ایڈنگٹن نے اس تصدیق میں ڈنڈی ماری تھی۔
اس کے علاوہ سیارے عطارد کا مدار مشاہدے میں جیسا نظر آتا تھا، اس کی آئزک نیوٹن کا کشش ثقل نظریہ پوری طرح تشریح نہیں کر پاتا تھا، جبکہ نظریہ اضافیت کی پیشن گوئی اور مشاہدہ میں مماثلت دیکھی گئی۔
نظریہ اضافیت کے مطابق روشنی کی شعائیں بھاری ستاروں سے نکلتے ہوئے ان شعاعوں کا تعدد سرخ (روشنی کے طیف میں سرخ رنگ کی) طرف تھوڑا سا کھسک جاتا ہے۔
جب آئنسٹائن نے یہ نظریہ تیار کر رہا تھا، اسی عرصہ میں اس کا عظیم جرمن سائنسدان ڈیوڈ ھلبرٹ کے ہاں کچھ دن قیام رہا اور اس سے سائنسی بحث بھی ہوتی رہی۔ آئنسٹائن سے کچھ دن پہلے ہلبرٹ نے نظریہ اضافیت پر ابنا مقالہ سائنسی جریدے کو ارسال کیا۔ آئنسٹائن نے بعد میں ھلبرٹ پر اس کے خیالات "چوری" کرنے کا الزام لگایا۔ یہ اب تک متنازعہ ہے کہ ھلبرٹ اور آئنسٹائن کا عمومی اضافیت نظریہ میں کتنا حصہ تھا۔


علم الکائنات

آئنسٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریہ کا علم الکائنات سے گہرا تعلق بنتا تھا۔ اس لیے علم الکائنات کے بارے بھی آئنسٹائن نے تحقیقی نظریات پیش کیے۔

مقداریہ آلاتیات

مقداریہ آلاتیات کا نظریہ اسی زمانے میں وجود میں آ رہا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق:

ہم یہ نہیں کہے سکتے کہ برقیہ گردش کرتا ہوا جوہر کے اندر ایک خاص مدار میں ہے، بلکہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں برقیہ کا کسی جگہ موجود ہونے کا احتمال کیا ہے۔ یعنی جس طرح روشنی کی موجیں دوہری فطرت (dual nature) رکھتی ہیں، یعنی روشنی کی موجوں کو نوریہ ذرات پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے، بعینہ، جوہری ذرات (مثلاً برقیہ) بھی دوہری فطرت رکھتے ہیں، یعنی انہیں بھی موجوں کی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
اس نظریہ سے اصولِ سببیہ (causality principle) کی بھی نفی ہو سکتی ہے۔
غیریقینی اصول، جس کے مطابق کسی ذرے کا مقام اور معیار حرکت دونوں ایک ساتھ اپنی مرضی کی انتہائی درستگی سے ناپا نہیں جا سکتا۔
آئنسٹائن نے فلسفیانہ بنیادوں پر اس نظریہ سے اختلاف کیا۔ آئنسٹائن کا قول تھا کہ "خدا طاس نہیں کھیلتا۔" اس کا خیال تھا کہ یہ ایک عارضی نظریہ ہے اور ایک بہتر نظریہ دریافت ہو گا جس میں یہ "خامیاں" نہیں ہونگی۔ اس سلسلہ میں اس کی بوہر سے طویل عرصہ تک بحث ہوتی رہی۔ البتہ مقداریہ آلاتیات نظریہ سائنسدانوں میں قبول ہو گیا اور جوان سائنسدان بوڑھے آئنسٹائن کو غیر مناسب سمجھنے لگے۔


صیہونیت کی معاونت
آئنسٹائن فلسطین میں صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا پُر جوش حامی تھا۔ 1921ء میں اس نے وائزمین (Chaim Weizmann) کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا اور صیہونیت کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے متعدد شہروں میں تقریریں کیں۔ 1952ء میں آئنسٹائن کو اسرائیلی صدارت کی پیش کش ہوئی جو اس نے قبول نہیں کی۔

امریکہ میں

1933ء میں آئنسٹائن، ایلسا اور ہیلن کے ساتھ امریکہ چلا آیا اور پرنسٹن یونیوسٹی میں پروفیسر لگ گیا۔ امریکہ کے پہلے دوروں پر اسے مختلف یونیوسٹیوں نے پہلے سے پروفیسری کی پیشکش کر رکھی تھی۔ یہاں کے خوبصورت قدرتی ماحول میں اپنی تحقیقات میں لگ گیا جو اب قدرت کی تمام طاقتوں کا ایک متحد نظریہ دریافت کرنا تھا۔ اس میں کامیابی تو نہ ہوئی، مگر کچھ نہ کچھ کاوشیں جاری رکھیں۔ 1940ء میں امریکہ کی شہریت حاصل کی۔ امریکہ میں آئنسٹائن کی عظیم شخصیت کی طرح پذیرائی ہوتی تھی، اور صحافی اس کے ہر موضوع پر خیالات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے آئنسٹائن کو جرمن قوم سے سخت نفرت ہو گئی اور جنگ کے بعد پیشکش ہونے پر بھی وہ جرمنی نہیں گیا۔ 18 اپریل 1955ء کو پرنسٹن میں ہی موت ہوئی۔ آئنسٹائن hemolytic anemia کا مریض تھا۔ موت کی وجہ اس کے arota میں aneurysm کا پھٹنا تھا۔ موت کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے خفیہ طور پر سر چیر کر دماغ مرتبانوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا۔ میت کو بعد میں جلا کر راکھ (cremate) کر دیا گیا۔

ایٹم بم

1939ء میں امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو خط لکھا جس میں ایٹم بم بنانے کی ترغیب دی۔ وجہ یہ بتائی کہ شاید ایڈولف ہٹلر ایسا کرنا چاہتا ہو۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی طرف سے ایٹم بم کا استعمال سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل ہوئے تو آئنسٹائن نے افسوس کا اظہار کیا۔


امریکی بحریہ کا بم ماہر

دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی بحریہ نے اس کی خدمات اسلحہ ماہر کی حیثیت سے حاصل کیں۔ آئنسٹائن اپنی ماہرانہ رائے دیا کرتا کہ سمندر میں کس طرح کہ بم کی ساخت کامیاب رہیں گی۔

ایف۔بی۔آئی

امریکی خفیہ ایجنسی FBI آئنسٹائن کے بائیں بازو (سیاسی و معاشی) نظریات کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور خفیہ تحقیقات کر رہی تھی۔


آئنسٹائن کا خدا

آئنسٹائن کے اقوال میں خدا (God) کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ خدا سے مراد قدرت (nature) تھی۔ بہرحال آئنسٹائن کا نظریۂ خدا مذہبی نقطۂ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

سکندر اعظم

Post by میاں محمد اشفاق »

سکندر اعظم

سکندر 350 سے 10 جون 323 قبل مسیح تک مقدونیہ کا حکمران رہا۔ اس نے ارسطو جیسے استاد کی صحبت پائی۔ کم عمری ہی میں یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ مصر اور فارس تک فتح کرلیا۔ کئی اور سلطنتیں بھی اس نے فتح کیں جس کے بعد اس کی حکمرانی یونان سے لیکر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیل گئ۔

صرف بائیس سال کی عمر میں وہ دنیا فتح کرنے کے لیے نکلا۔


یہ اس کے باپ کا خواب تھا اور وہ اس کے لیے تیار ی بھی مکمل کر چکا تھا لیکن اس کے دشمنوں نے اسے قتل کرا دیا۔ اب یہ ذمہ داری سکندر پر عاید ہوتی تھی کہ وہ اپنے باپ کے مشن کو کس طرح پورا کرتا ہے۔

باپ کی موت کے وقت سکندر کی عمر بیس سال تھی۔ لیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ کسی مشکل کے بغیر ہی اسے مقدونیہ کی حکمرانی مل گئی تھی۔ ورنہ اس زمانے کا قاعدہ تو یہی تھا کہ بادشاہ کا انتقال ہوتے ہی تخت کے حصول کے لیے لڑائیاں شروع ہو جاتیں اور اس لڑائی میں ہر وہ شخص حصہ لیتا جس کے پاس تخت تک پہنچنے کا ذرا سا بھی موقع ہوتا۔ سکندر ایک تو اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، دوسرا اس وقت مقدونیہ کی حکمرانی کا کوئی اور خاص دعوے دار نہیں تھا۔ لیکن احتیاط کے طور پر سکندر نے ایسے تمام افراد کو قتل کرا دیا جو کسی بھی طرح اسے نقصان پہنچا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی ماں کے اکسانے پر اس نے اپنی دودھ پیتی سوتیلی بہن کو بھی قتل کر دیا۔

سکندر کی ایک اور خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اسے ارسطو جیسا استاد ملا تھا جو اپنے زمانے کا قابل اور ذہین ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے باپ "فلپس" نے اپنے بیٹے کی جسمانی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس کے لیے اسے شاہی محل سے دور ایک پر فضا مقام پر بھیج دیا تاکہ عیش و عشرت کی زندگی سے وہ سست نہ ہو جائے۔ یہاں سکندر نے جسمانی مشقیں بھی سیکھیں اور گھڑ سواری، نیزہ اور تلوار بازی میں مہارت بھی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ ارسطو اس کی ذہنی تربیت بھی کرتا رہا۔

حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں سکندر نے "ایتھنز" (یونان کا دارالخلافہ) سمیت دیگر پڑوسی ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی مہم پر نکلنے سے پہلے وہ نہ صرف اپنی فوج کو مضبوط کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کو یہ فکر بھی تھی کہ کہیں اس کی غیر موجودگی میں کوئی مقدونیہ پر حملہ نہ کر دے۔

دو سال اس کام میں بیت گئے۔ اس دوران کچھ علاقوں کو تو اس نے تلوار کے زور پر فتح کر لیا اور کچھ مقابلہ کیے بغیر ہی اس کے ساتھ مل گئے۔




شمال اور مغرب کی طرف سے کسی حد تک مطمئن ہوجانے کے بعد سکندر نے مشرق کی جانب نظر ڈالی تو اسے ایران کی وسیع و عریض سلطنت دکھائی دی۔ بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی اس سلطنت کا رقبہ لاکھوں میل تھا۔ اس میں دریا بھی تھے، پہاڑ بھی۔ صحرا بھی تھے اور جھیلیں بھی۔ غرض یہاں وہ سب کچھ موجود تھا جو کسی بھی علاقے کو خوش حال بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایرانی سلطنت پوری نہیں تو آدھی دنیا کی حیثیت ضرور رکھتی تھی۔ یہاں تقریباً ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آباد تھے۔

ایرانی سلطنت پر حملے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایرانی شہنشاہ دارا نے سکندر کے مخالفین کی خفیہ طریقے سے مدد بھی شروع کر دی۔ دراصل ایرانی فوج میں ایک بڑی تعداد ایسے یونانیوں کی تھی جو شروع ہی سے اپنے پڑوسی ملک مقدونیہ کے خلاف رہے تھے۔ انہی کے اکسانے پر دارا نے یہ قدم اٹھایا تھا۔

334 قبل مسیح میں سکندر 35 ہزار فوج کے ساتھ مقدونیہ سے نکلا۔ اس فوج میں تیس ہزار سوار اور پانچ ہزار پیدل تھے۔ سکندر کی پیدل فوج کی مشہور ترین چیزمقدونوی "جتھا" تھا۔ یہ 256 فوجیوں کا مربع شکل کا دستہ تھا۔ یعنی ہر قطار میں سولہ سپاہی تھے اور ان قطاروں کی تعداد بھی سولہ ہی تھی۔ ان کے ہاتھوں میں جو نیزے ہوتے وہ بھی 16،16 فٹ لمبے ہوتے۔ یوں چلتے ہوئے جب پہلی پانچ قطاروں کے سپاہی اپنے نیزے آگے کی طرف بڑھاتے تو ان کی نوکیں پہلی قطار سے بھی آگے نکل جاتیں۔

مشرق کی طرف چلتے ہوئے دریائے "گرانی کوس" پر سکندر کا سامنا ایک قدرے چھوٹے ایرانی لشکر سے ہوا۔ اس لشکر میں بیس ہزار سوار اور بیس ہزار ہی پیدل سپاہی تھے۔ پیادوں میں زیادہ تر یونانی نسل کے لوگ تھے۔ لشکر کی کمان دارا کے قریبی لوگوں کے پاس تھی۔ ان میں اس کا داماد "سپتھراواتیس" بھی شامل تھا۔

سکندر کی فوج کا پتا چلتے ہی ایرانیوں نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ دریا کے ڈھلوان کنارے پر قبضہ کر نا تھا تاکہ دشمن فوج کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ لیکن اس بات پر سکندر ذرا نہ گھبرایا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی فوج کا ایک ایک سپاہی دل و جان سے اس کے ساتھ ہے۔ اس نے انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے تیروں کی پروا کیے بغیر دریا پار کر لیں۔ بس ایک مرتبہ دوسرے کنارے پہنچ گئے، پھر ان کا دشمن پر قابو پانا مشکل نہیں ہو گا۔ سکندر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایشیائی لوگ جہاں گھڑ سواری میں ماہر ہیں وہاں پیدل لڑائی میں خاصے کمزور ہیں۔ مزید یہ کہ اس کے سپاہیوں کے پاس ایرانیوں کے مقابلے میں بہتر اسلحہ ہے۔۔۔۔۔ وہ سر سے پاؤں تک زرہ میں ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے نیزے ہلکے اور لمبے تھے۔

سکندر کی فوج کا "جتھا" درمیان میں تھا جب کہ دائیں اور بائیں طرف سوار تھے۔ دائیں طرف کے سواروں کی قیادت وہ خود کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا لیکن دریا کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دیر میں اس کی فوج دریا پار کر کے دشمن کے عین مقابل کھڑی تھی۔

گھمسان کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے شروع میں تو ایرانیوں کا پلا بھاری رہا لیکن بازی جلد ہی پلٹ گئی۔ مقدونوی فوج نے جب خود اپنے سپہ سالار کو دشمن کی صفوں میں گھستے دیکھا تو ان کی ہمت بندھ گئی اور انہوں نے ایرانیوں پر کاری ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ سکندر چمک دار زرہ پہنے اور سر پر مقدونوی کلغی سجائے ایک شان سے آگے بڑھا اور سیدھا اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ایرانی سپہ سالار جمع تھے۔ وہ اس قدر بہادری سے لڑا کہ آن کی آن میں ایرانی سپہ سالاروں کی لاشیں گرنے لگیں۔ سکندر کے بازوؤں کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لڑتے لڑتے اس کے نیزے کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ تب اس نے اپنے سائیس (گھوڑے کی نگرانی کے لیے رکھا گیا ملازم) کا نیزہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور لڑتے لڑتے اسے بھی توڑ ڈالا۔ تب اس کے ایک سپہ سالار "دیماراتوس" نے اپنا نیزہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور اس نیزے کے ایک ہی وار سے اس نے دارا کے داماد "سپتھراواتیس" کا کام تمام کر دیا۔

جنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی۔ اسی طرح اچانک ختم بھی ہوگئی۔ کئی ایرانی جرنیل میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ان کے ایک ہزار گھڑ سوار مارے گئے، باقیوں نے بھی بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی۔ ایرانی سپہ سالار کی بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ ان ہزاروں پیدل سپاہیوں کا استعمال کرنا بالکل بھول ہی گئے جو یونانی نسل کے تھے اور ایرانی فوج میں اجرت پر بھرتی ہوئے تھے۔ یہ جنگ کے پورے عرصے کے دوران میں ایک جانب خاموشی سے کھڑے رہے اور آخر میں مقدونویوں نے ان میں سے دو ہزار کو تو گرفتار کر لیا، باقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

دوسری طرف مقدونویوں کا نقصان نہایت کم تھا۔ ان کے ساٹھ سوار اور 30 پیادے مارے گئے۔ البتہ ان مرنے والوں میں ایسے بھی تھے جو سکندر کے خاص آدمی کہے جا سکتے ہیں۔

گرانی کوس کی فتح کے بعد سکندر کا سامنا "اسوس" (شام کا شہر) کے مقام پر ایک بہت بڑے ایرانی لشکر سے ہوا۔ اس لشکر کی قیادت خود دارا کر رہا تھا اور اس میں تقریباً ایک لا کھ سپاہی تھے۔ لیکن یہاں بھی ہمت ہارنے کے بجائے سکندر نے اعلی جنگی حکمت عملی اپنائی اور جلد ہی دشمن کے پیر اکھاڑ دیے۔ ایک دفعہ پھر کئی ایرانی جرنیل میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دارا نے تو بھاگتے ہوئے یہ بھی پروا نہ کی کہ اس کے خیمے میں اس کی ماں اور بیوی بچے موجود ہیں۔

اس جنگ میں بھی ایرانیوں کا بھاری نقصان ہوا جبکہ مقدونویوں کا نقصان نہایت کم تھا۔ سکندر نے دشمن کی ایک بہت بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔ لیکن دارا کے بیوی بچوں کے ساتھ اس نے نہایت عمدہ سلوک کیا۔

[ترمیم] اب سکندر کا اگلا ہدف مصر تھا لیکن اس کے راستے میں چند ایک ایسے علاقے تھے جو اس سے مقابلہ کرنے پر تیار تھے۔ ان میں پہلا "صور" شہر تھا۔ صور والوں کو جب پتا چلا کہ سکندر ان کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ اپنے قلعے میں محصور ہو گئے۔ صور ایک جزیرہ تھا یعنی اس کے چاروں اطراف میں پانی تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے سکندر نے فوراً ایک بہت بڑا بحری بیڑہ تیار کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد قلعے پر ہلہ بول دیا گیا۔ چند ہی دنوں میں یہ اہم شہر بھی فتح ہو گیا تھا۔

صور کے محاصرے کے دوران میں سکندر کو دارا کا پیغام ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ اس کے بیوی بچوں کو چھوڑ دے۔ اس کے بدلے اسے آدھی ایرانی سلطنت دے دی جائے گی۔ یہ پیغام سن کر سکندر کا خاص آدمی "پارمے نیو" کہنے لگا کہ اگر میں سکندر ہوتا تو یہ پیش کش قبول کر لیتا۔ اس پر سکندر بہت خفا ہوا۔ وہ کہنے لگا:

"اگر سکندر، "پارمے نیو" ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا۔"

اس نے دارا کی یہ پیش کش مسترد کر دی اور پیغام بھجوایا کہ اس کے علاوہ کوئی اور پیش کش ہے تو دارا خود آ کر بات کرے۔

صور کے بعد "غزہ" شہر کی باری آئی۔ اس کی فتح کے بعد سکندر مصر میں داخل ہوا اور توقع کے بر خلاف یہاں کے حکمران نے بغیر کسی فوجی کارروائی کے سکندر کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ دریائے نیل کے راستے سمندر کی طرف بڑھا اور ایک مناسب جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی۔ اس قدیم شہر کا نام اسکندریہ ہے اور یہ آج بھی مصر کے اہم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

331 ق م میں سکندر نے پھر مشرق کی طرف پیش قدمی کی۔ اس نے سب سے پہلے عراق کا مشہور دریا فرات عبور کیا اور قدیم شہر نینوا کے قریب "گوگا میلا" کے مقام پر اس کا سامنا شہنشاہ ایران کی عظیم الشان فوج سے ہوا (نینوا وہی شہر ہے جہاں حضرت یونس پیدا ہوئے تھے)۔

بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ گوگا میلا کی جنگ میں دارا کی فوج میں کم و بیش دس لاکھ پیادے، چالیس ہزار سوار، دو سو تلوار باز رتھ (بیل گاڑی کی ایک قسم)، پندرہ ہاتھی اور بے شمار یونانی سپاہی تھے۔ دارا نے لڑائی کے لیے مقام کا انتخاب بھی بڑا دیکھ سوچ کر کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ رتھ اونچی نیچی جگہوں پر نہیں چل سکتے۔ اس لیے اس نے ان کے لیے ایک مخصوص جگہ پر زمین کو بالکل ہموار کرا لیا تھا۔

اپنے سے بیس گنا بڑی فوج دیکھ کر بھی سکندر گھبرایا نہیں بلکہ اس کے ذہن نے فوراً لڑائی کا ایک شان دارمنصوبہ بنا لیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے جرنیلوں کو بلا کر ایسی پر جوش تقریر کی کہ سب کی ہمت بندھ گئی۔ اس کے بعد اس نے حملے میں پہل کرنے کے بجائے انتظار کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران اس نے اپنے سپاہیوں کو مکمل آرام کرنے کا موقع دیا تاکہ جنگ شروع ہونے تک وہ بالکل تازہ دم اور چاق وچوبند ہو جائیں۔ اس کے برعکس ایرانی سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں سے مسلسل سنتریوں کا کام لے کر انہیں تھکا دیا تھا۔

دارا نے اپنی فوج کی ترتیب اس طرح سے کی تھی کہ خود درمیان میں تھا اور دائیں بائیں، آگے پیچھے اس کے نہایت قابل اعتماد آدمی تھے۔ ادھر مقدونوی سپہ سالار سکندر کو معلوم تھا کہ کسی بھی فوج کی دائیں طرف کا دستہ جنگ کے دوران سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس نے اس کی قیادت اپنے نہایت بہادر اور قابل اعتماد جرنیل "پارمے نیو" کو سونپی اورانتہائی دائیں جانب فوجیوں کی ایک اضافی قطار بھی متعین کی تاکہ کسی اچانک حملے کی صورت میں موثر دفاع کیا جا سکے۔

لڑائی شروع ہوئی تو دونوں فریقوں کو اپنی فتح کا یقین تھا۔ سکندر کے پاس نہ صرف اچھا ذہن تھا بلکہ اس کے پاس اچھے ہتھیار بھی تھے۔ وہ پہلے بھی ایرانیوں پر فتح حاصل کر چکا تھا۔ یہی باتیں اس کے اعتماد کا باعث تھیں۔ دوسری جانب دارا کو تعداد کی برتری کی وجہ سے فتح کی امید تھی۔

لڑائی کا آغاز دارا ہی کی طرف سے ہوا اور اس نے سب سے پہلے اپنے رتھ روانہ کیے۔ اسے پورا یقین تھا کہ یہ دشمن کی فوج میں کھلبلی مچا دیں گے۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ مقدونوی سپاہی بڑی مہارت سے اپنا دفاع کر رہے ہیں تو اس نے پیادوں کو وار کرنے کا حکم دے دیا۔ یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اسی کی توقع سکندر کر رہا تھا۔ پیادوں کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب لڑائی آخر مراحل میں ہو اور دشمن پر آخری وار کرنا ہو۔ پھر کیا تھا، پیادوں کے حرکت میں آتے ہی ایرانی فوج کی ترتیب بالکل ہی ختم ہوگئی اور ان کی صفوں میں خلا آ گیا۔ یہ دیکھتے ہی سکندر نے اپنے نیزہ برداروں اور مقدونوی جتھوں کو حملے کا حکم دیا۔ اس حملے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی قیادت خود سکندر کر رہا تھا۔

"گرانی کوس" کے معرکے کی طرح اس مرتبہ بھی سکندر نے پہلے ایرانی فوج کے بڑے بڑے جرنیلوں کو نشانہ بنایا اور آن کی آن میں ان کی لاشیں کٹ کٹ کر گرنے لگیں۔

دارا نے جب ایک کے بعد ایک آدمی کو گرتے دیکھا تو وہ ہمت ہار بیٹھا اور میدان سے بھاگ نکلا۔ بس یہی اس جنگ کا انجام بھی تھا۔ اس کے بعد اگرچہ ایرانی فوج کے جتھوں نے تھوڑی بہت مزاحمت کی لیکن یہ انفرادی سطح پر تھی اور یہی وجہ ہے کہ مقدونوی فوج کا بال بھی بیکا نہ ہو سکا۔

سکندر نے جب دیکھا کہ اس کے سپاہیوں نے میدان مار لیا ہے تو وہ دارا کے تعاقب میں نکلا تاکہ بار بار کے معرکوں کے بجائے ایک ہی دفعہ اس کا کام تمام کر دے۔ لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آیا۔

کہا جاتا ہے کہ بعد میں بعض ایرانی جرنیلوں نے خود ہی مل کر اسے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ موجودہ ایران کے دارالحکومت تهران کے پاس پیش آیا۔ سکندر جب اس جگہ پہنچا تو اسے دارا کی لاش ہی ملی۔ تب اس نے اسے واپس مصطـخر (ایرانی سلطنت کا دارالخلافہ) روانہ کر دیا اور حکم دیا کہ اسے تمام شاہی اعزازات کے ساتھ دفنایا جائے۔

ان پے در پے کامیابیوں کے بعد حالات میں بہت سی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ سکندر کی فوج اب وہ نہیں رہی تھی جو مقدونیہ سے روانگی کے وقت تھی۔ اس کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اس نے ایرانی سلطنت کے ایک بہت بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں کے لوگوں نے بھی اس کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ وہ یونانی سپاہی جو اجرت پر ایرانی فوج کے لیے لڑ رہے تھے، اب سکندر کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور سکندر نے ان کے لیے وہی معاوضہ مقرر کیا تھا جو انہیں شہنشاہ ایران کی طرف سے ملتا تھا۔

ان سب باتوں کے علاوہ خود سکندر کی طبیعت میں بھی بہت تبدیلیاں آگئی تھیں۔ اس کے احساس خود داری میں اس حد تک اضافہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو یونانی "دیوتا زیوس" کی اولاد سمجھنے لگا اور اپنے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے قریبی دوست "لکی توس" نے اس کو دیوتا ماننے سے انکار کر دیا تو غصے کے عالم میں سکندر نے اپنا نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ کر اسے مار ڈالا۔

[ترمیم] ایران کی فتح کے بعد بہت سے لوگوں نے سکندر کو مشورہ دیا کہ اس نے بہت سی فتوحات حاصل کر لیں، اب وہ واپسی کی راہ لے لیکن اس پر تو دنیا کی فتح کا بھوت سوار تھا۔ اس نے کہا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک ہندوستان کو فتح نہیں کرلیتا۔

یہ 327 ق م کی بات ہے۔ جب اس نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت اس کی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار پیادے اور پندرہ ہزار سوار شامل تھے۔ کابل پہنچ کر اس نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصے کو براہ راست دریائے سندھ کی طرف روانہ کیا گیا اور دوسرا حصہ خود سکندر کی قیادت میں شمال کی طرف سے آگے بڑھا۔ یہاں اس نے ایک ایسا قلعہ فتح کیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ روم کا بادشاہ ہرقل بھی اسے فتح نہیں کر پایا تھا۔

کوہ مور کے قریب نیسا کے مقام پر دونوں فوجیں آپس میں مل گئیں اور انہوں نے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کیا۔ اس کے بعد دریائے جہلم کے قریب اس کا سامنا ہندوستانی راجہ پورس سے ہوا۔

سکندر کو معلوم تھا کہ وہ پورس کا مقابلہ اس طرح سے نہیں کر سکتا جس طرح اس نے دارا کا مقابلہ کیا تھا۔ یعنی وہ سامنے سے حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ راجہ پورس کی بہادری کے قصے اس نے سن رکھے تھے۔ تب اس نے ایک جنگی چال چلی۔ اس نے ایک جرنیل کی قیادت میں اپنی فوج کا کچھ حصہ پورس کے سامنے کر دیا اور باقی فوج لے کر ایک اور مقام کی طرف چل پڑا۔ اس سے پورس یہی خیال کرتا کہ مقدونوی فوج کے وہی مٹھی بھر سپاہی ہیں جو اس کے سامنے ہیں لیکن اس کی بے خبری کا فائدہ اٹھا کر سکندر ایک طرف سے حملہ کر دیتا۔

لڑائی شروع ہو گئی۔ پورس کو سکندر کی موجودگی کا اس وقت تک علم نہ ہوا جب تک وہ دریا پار نہیں کر چکا تھا۔ تب اس نے فوراً اپنے بیٹے کی کمان میں ایک دستہ سکندر کی طرف روانہ کیا۔ لیکن سکندر تو بڑے بڑے سپہ سالاروں اور جرنیلوں سے دو دو ہاتھ کر چکا تھا، یہ نوجوان اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورس کا بیٹا مارا گیا اور اب سکندر کے سامنے میدان بالکل صاف ہو گیا۔ اس نے اسی وقت پورس کی فوج پر ہلہ بول دیا۔

ایرانیوں کے برعکس پورس بہت بہادری سے لڑا۔ اس کے لشکر میں 180 ہاتھی بھی شامل تھے۔ انہی سے مقدونوی فوج کو زیادہ خطرہ تھا۔ کیوں کہ ہاتھیوں کو دیکھ کر گھوڑے ہیبت زدہ ہو جاتے ہیں اور اپنے مالک کا بھی کہا نہیں مانتے۔ اس مصیبت کا علاج سکندرنے یوں کیا کہ جوں ہی ہاتھی حملہ آور ہوئے اس نے اپنے سواروں کو دو قطاروں میں بانٹ دیا۔۔۔۔۔ایک ہاتھیوں کے بائیں اور دوسری دائیں طرف۔ یہ سوار ہاتھیوں کو دھکیلتے ہوئے ایک تنگ سی گھاٹی میں لے آ ئے۔ یہاں آ کر ہاتھی بدک گئے اور خود اپنی فوج کے لیے مصیبت بن گئے۔

اس معرکے میں پورس کے بیس ہزار آدمی اور سو ہاتھی مارے گئے لیکن اس سب کے باوجود پورس نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل لڑتا رہا۔ اس نے اس وقت تک ہار نہ مانی جب تک اس کا جسم زخموں سے چور ہو کر بالکل نڈھال نہیں ہو گیا۔

پورس کو گرفتار کرکے اسی روز سکندر کے سامنے پیش کیا گیا۔ سکندر کی یہ عادت تھی کہ دشمن کا جو بھی آدمی گرفتار ہو کر آتا اسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع ضرور دیتا تھا۔ اس نے پورس سے پوچھا:

"بتاؤ، تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟"

پورس نے جواب دیا: "وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔"

سکندر میدان جنگ میں پورس کی بہادری سے تو پہلے ہی متاثر تھا، اب اس کی گفتگو نے بھی اسے کم متاثر نہیں کیا۔ اور بہادروں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ اس نے پورس کو معاف کر دیا اور اس کا تمام علاقہ بھی واپس کر دیا۔ اس کے جواب میں راجہ بھی اس کا دوست بن گیا۔

سکندر کو ہندوستان کے اندر تک جانے اور اس کے عجائبات دیکھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کا یہی شوق اور تجسس تھا جس نے اسے یہاں آنے پر مجبور کیا تھا۔ ورنہ ایرانی سلطنت پر قبضہ کیا کم تھا کہ وہ اور کی لالچ کرتا۔ تاہم جب اس نے جہلم سے آگے چلنے کا ارادہ کیا تو اس موقع پر اس کی فوج نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں کی مسلسل مشقت نے انہیں سخت تھکا دیا تھا اور اب ان میں مزید مہمات سر کرنے کی بالکل ہمت نہیں رہی تھی۔ تب سکندر نے انتہائی سمجھ بوجھ کا ثبوت دیتے ہوئے وہی کیا جو اس کے سپاہی چاہتے تھے۔ ہندوستان کو فتح کرنے کی اپنی تمام تر خواہش کے باوجود وہ ان کی بات مان گیا اور یہیں سے اس نے واپسی کا فیصلہ کیا۔

لیکن اس عظیم سپہ سالار کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ وہ چاہتا تو یہی تھا کہ اپنے سر پر آدھی دنیا کی فتح کا تاج سجائے اپنے آبائی شہر مقدونیہ میں داخل ہو لیکن ابھی وہ "بابل" ہی میں تھا کہ ایسا بیمار ہوا کہ دوبارہ صحت یاب نہ ہو سکا اور وہیں اس نے موت کو گلے لگا لیا۔
سکندر نے 33 سال عمر پائی۔ وہ 356 ق م (یعنی حضرت عیسی کی پیدایش سے 356 سال قبل) میں پیدا ہوا اور اس کا انتقال 323 ق م میں ہوا۔ لگ بھگ آدھی دنیا تو اس نے اس جوانی ہی میں فتح کر لی۔ کہتے ہیں اگر وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہ لیتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پوری دنیا کا فاتح نہ بن جاتا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

چنگیز خان

Post by میاں محمد اشفاق »

پیدائش: 1162ء

انتقال: 1227ء

منگول سردار ۔ دریائے آنان کے علاقے میں پیدا ہوا۔ اصلی نام تموجن تھا جس کا مطلب ہے "لوہے کا کام کرنے والا"۔
ابتدائی زندگی1175ء میں تیرہ برس کی عمر اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی، چونکہ شروع ہی سے چنگیز خان نہایت شاہانہ مزاج کا آدمی تھا اس لئے اپنی لیاقت کی بنا پر اسی سال تخت پر متمکن ہوا۔
چنگیز خان کا خطاب جب 1175ء کو جب وہ اپنے قبیلے کا سردار بنا تو دیگر قبائل سے اس کی چپقلش شروع ہو گئی۔ اس نے تمام قبائل اور حلقوں کو اپنے زیر اثر کرنے کی بھر پور کوشش کی کیونکہ اس وقت منگولیا پر کئی قبائل کی حکومت تھی۔ پھر صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اس نے سب سرداروں کو اکٹھا کیا اور مل کر دیگر علاقوں کو فتح کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس مشورے کے بعد وہ بہت مقبول ہو گیا اور دیگر سب سرداروں نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار تسلیم کر لیا اور متفقہ طور پر دریائے آنان کے قریب ایک مجلس میں اسے چنگیز خان کا خطاب بھی دیا۔

منگول سلطنت چنگیز خان نے باقاعدہ طور پر منگول سلطنت کو ایک مضبوط سلطنت کے طور پر متعارف کروایا، منگول سلطنت کی فوج کی تنظیم نو کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کو بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا۔ اس نے فوج کی تنظیم کے جو اصول مقرر کیے وہ صدیوں تک فوجی ماہروں کے لیے مشعل راہ کا کام دیتے رہے۔ اس نے چین کو دو دفعہ تاراج کیا اور 18۔1214ء میں دو چینی ریاستوں ہیا اور کن پر قبضہ کر لیا۔


وفات1219ء میں اس کے چند سفیر ، جو مختلف ممالک میں بھیجے گئے تھے ، قتل ہو گئے۔ اس واقعے نے اس کو تسخیر عالم پر ابھارا اور وہ دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکل کھڑا ہوا۔ اسی سال اس نے شمالی چین اور افغان سرحد کے کئی علاقے فتح کیے۔ بخارا اور مرو کے علاقوں کو لوٹا اور ہرات پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ترکی اور جنوب مشرقی یورپی ملکوں کا رخ کیا۔ اس کی فوجوں نے جنوبی روس اور شمالی ہند تک یلغار کی۔ 1227ء میں چین پر تیسرے حملے کے دوران میں اس کا انتقال ہوگیا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

ڈاکٹرقدیر خان

Post by میاں محمد اشفاق »

پیدائش: 1936ء


ڈاکٹرقدیر خان پاکستانی سائسندان۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـاس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔


روایتی ہتھیار کا معائنہ کرتے ہوئےڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ




مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔


فاروق لغاری سے نشان امتیاز حاصل کرتے ہوئےچودہ اگست 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا

ڈاکٹر قدیر خان نےسیچٹ sachet کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہےـ

ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔

2004ء میں ان پر ایٹمی آلات دوسرے اسلامی ممالک کو فروخت کرنے کا الزام لگا۔ جس کے جواب میں انہوں نے یہ ناقابل یقین اعتراف کیا کہ انہوں نے ایسا کیا ہے اور حکومت پاکستان کا یا فوج کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں رہا۔اس الزام پر پاکستانی قوم کو آج تک یقین نہیں آیا اور نہ ہی دیگر ممالک کو۔ اس کے بعد قدیر خان کو نظر بند کر دیا گیا۔ اگست 2006ء میں انکشاف ہوا کہ قدیر خان کو کینسر ہے۔ اپوزیشن مشرف حکومت پر الزام لگاتی چلی آرہی ہے کہ قدیر خان کو سلو پوائزن دیا جا رہا ہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

ایڈولف ہٹلر

Post by میاں محمد اشفاق »

ایڈولف ہٹلر

ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لئے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی جنگ عظيم ميں جرمنی كي طرف سے ايك عام سپاہی كي حيثيت سے لڑا اور فوج ميں اس لئے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی كي وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئ۔ 1933ء کے انتخابات میں نازی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی مگر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے پریزیڈنٹ نے ہٹلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور ہٹلر ملك کے سب سے اعلی عہدے چانسلر تک پہنچ گيا۔ چانسلر بننے كے بعد ہٹلر نے جو سب سے پہلا كام كيا، وہ نازی پارٹی كا فروغ تھا۔ اس مقصد كے ليے اس نے اپنے مخالفين كو دبانے کا ہر حربہ آزمايا۔ اس دوران اس نے ملك ميں بے روزگاری كے خاتمے اور دوسرے متعدد ترقياتی اقدامات كے ذريعے سے جہاں جرمنوں كی اكثريت كو اپنا گرويدہ بنايا وہاں انہيں يہ بھي بتايا كہ وہ دنيا كي عظيم ترين اور فاتح قوم ہيں۔
1939ء میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی۔

دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں 30 اپریل 1945ء کو ہٹلر نے برلن میں اپنی زیرزمین پناہ گاہ میں اپنی نئی نویلی دلہن ایوان براؤن کے ساتھ خودکشی کرلی۔


ایک امریکی اخبار میں ہٹلر کی موت کی خبراس کے دور حکومت میں نازی جرمنی یورپ کے بیشتر حصے پر قابض رہا جبکہ اس پر 11 ملین یعنی ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جن میں مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودی بھی شامل تھے۔ یہودی ہٹلر کے ہاتھوں اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کے نام سے یادکرتے ہیں۔

ان کا تحریک نازیت میں اہم قردار تھا۔
ہٹلر جرمنی کا مقبول ترین لیڈر تھا ۔تاریخ انسانی کی یہ شخصیت جمہوری طریقہ سے منتخب ہوکر ڈکٹیٹر کے درجہ پر فائز ہوا،نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا لیڈر ایڈولف ہٹلر 1930کے انتخابات میں منتخب ہوکر جرمنی کا وزیر اعظم(چانسلر۔ جرمنی میں آج بھی وزیر اعظم کے درجہ کے عہدہ کو چانسلر کہا جاتا ہے) بنا اس وقت جرمنی کے صدر پال وان ہڈنبرگ تھے،1934 میں صدر پال وان ہڈنبرگ کے انتقال کے بعد ہٹلر نے انابلنگ ایکٹ آف1933 کے تحت چانسلر کے عہدہ کو صدارت کے ساتھ ضم کردیا ، ہٹلر کا یہ اقدام سراسر قانونی تھا ، ہٹلر ایک سیاسی پارٹی نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا نمائیدہ تھا ، اسی پارٹی کو انگریزی میں NAZI پارٹی کہا جاتا ہے،تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہٹلر کے تعلق سے کچھ دلچسپ اور حیرت انگریز باتیں پتہ چلتی ہیں۔ اس کی شخصیت کو ہمیشہ منفی نظرو ں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ ایک بہت قابل اور دلیر انسان تھا۔ لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی تھیں جسے مورخین نے زیادہ نمایاں کیا۔

مورخین کے مطابق ہٹلر ایک نہایت ذہین شاطر عیار ظالم اذیت پسند خصوصیات کا حامل شخص تھا، اس کی شخصیت کو کرشمائی شخصیت کہا جاتا ہے ، جب وہ لاکھوں کے مجمع کے سامنے تقریر کے لئے کھڑا ہوتا تھا تو گویا پورے مجمع پر جادو کردیتا تھا ، الفاظ ہٹلر کے لئے کھلونا تھے اور انداز بیان اتنا دلچسپ کا مجمع محصور ہوکر رہ جاتا تھا۔ ہٹلر کی مقبولیت کی بنیاد اس کی پارٹی کے نظریات تھے اور آئیندہ چل کر انھیں نظریات کی بنا پر نہ صرف جرمنی کے دو ٹکرے ہوئے بلکہ تاریخ انسانی کی بدترین شخصیتوں میں ہٹلر کا شمار ہوا، آج بھی جس طرح مسلمانوں میں یزید کا نام ایک لعنت سمجھا جاتا ہے مغربی اقوام کے لئے ہٹلر کا نام اسی طرح لعنت تسلیم کیا جاتاہے، 1945میں ہٹلر کے خاتمہ کے بعد شاید کسی ماں نے اپنے بچہ کا نام ہٹلر نہیں رکھا ہو۔

ہٹلر کے ناجی نظریات جن کے سامنے پوری جرمنی کی قوم آمنا صدقنا زندہ باد کے نعرہ لگاتی تھی ان نظریات کا کفارہ یہ قوم اب تک ادا کر رہی ہے اور آج کی جرمنی کی نسل اپنے اجداد کی غلطی پر آج تک شرمندہ اور اقوام عالم کے سامنے طلب گار معافی بنی ہوئی ہے ۔یہودیوں کا ماننا ہے کہ ہٹلر نے جرمی اور پولینڈ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اسی نسل کشی کو یہودی Holocaust. کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ہٹلر کی شخصیت کا ایک پہلو اور ہے جس سے عام لوگ بہت کم واقف ہیں۔ ہٹلر جہاںایک ذہین اور فتین سیاستدان تھا وہیں اس کی معاشی اصلاحات نے اس کے اقتدار کے اولین سالوں میں ہی جرمنی کو معاشی طاقت اور اہل جرمن کو خوشحال بنا دیا تھا، یہ معاشی ترقی بھی ہٹلر کی مقبولیت کی بڑی وجہ بنی۔

ہٹلر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ایک بہت اچھا پینٹر تھا.


مرگ انبوہ

مرگ انبوہ، جسے انگریزی میں Holocaust بھی کہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران قتلِ عام کا شکار ہونے والے تقریباً یہودیوں کی جرمنی کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت سے منسوب ہے۔ اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہالوکاسٹ دراصل یونانی لفظ ὁλόκαυστον سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں “مکمل جلادینا“۔ اس طرح سے لاکھوں یہودی مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے، غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ تاہم بیشتر ماہرین دیگر قومیتی و مذہبی افراد کے قتلِ عام کو مرگِ انبوہ کا حصہ ماننے سے صریحاً انکار کرتے ہوئے، اس کو یہودیوں کا قتلِ عام قرار دیتے ہیں یاجسے نازیوں نے “یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ قراردیا۔ اگر نازی افواج کی بربریت کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد تقریباً نو سے گیارہ ملین (90 لاکھ سے ایک کڑور دس لاکھ) تک جا پہنچتی ہے۔ یہ انسانیت سوز مظالم و نسل کشی کی مہم مرحلہ وار انجام دی گئی۔ یہودیوں کو مہذب معاشرے سے الگ کردینے کی قانون سازی دوسری جنگِ عظیم سے کئی سال پہلے کی جا چکی تھی۔ خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین (جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اور سیاسی حریفوں کو بے دریغ قتل کر دیا جائے۔ یہودیوں اور رومانیوں کو سینکڑروں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتو منتقل کردیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں اُنہیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو “نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کردیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرگ انبوہ پر ترمیم پسندانِ مرگ انبوہ (یہ خود کو revisionists کہلاتے ہیں مگر یہودی اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے والے ان کو Holocaust deniers کہتے ہیں) کے گروہ بھی موجود ہیں جن میں دانشور، مصنفین اور متحققین شامل ہیں۔ مگر دنیا میں 13 ممالک، جن میں فرانس اور جرمنی شامل ہیں، میں ایسے قوانین ہیں جو مرگ انبوہ پر کسی بھی نظر ثانی بلکہ اس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔ .
مرگِ انبوہ کے شکار.مرگِ انبوہ کی اصطلاح دراصل یونانی لفظ (holókauston) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب “مکمل جلادینا“ یا راہِ خدا میں جان قربان کردینا ہے۔ اسی لفظ کی لاطینی شکل (holocaustum) کو پہلی دفعہ یہودیوں کے قتلِ عام سے بارہویں صدی کے وقائع نگاروں روجرآف ہاؤڈن اور رچرڈ آف ڈیوس نے 1190ء میں منسوب کیا۔اُنیسویں صدی کے اوائل تک یہ لفظ ناگہانی آفتوں اور مصیبتوں کے لئے مستعمل رہا۔ بائبل میں استعمال ہونے والا لفظ سوہ (שואה) (انگریزی میں Sho'ah اور Shoa)، جس کے معنی آفت کے ہیں 1940ء کے اوائل میں عبرانی میں ہولوکاسٹ کا متبادل مستند لفظ بن گیا۔سوہ کو یہودی بھی کئی وجوہات کی بناء پرزیادہ موزوں سمجھتے ہیں، جن میں سے ایک لفظ ہولوکاسٹ کی دل آزارہیئت بھی ہے۔
تعریف
یورپ میں بنائے گئے گھیتو، جہاں یہودیوں کو قتل گاہوں میں پہنچانے سے قبل قید کردیا جاتا تھااٹھارہویں صدی تک لفظ ہولوکاسٹ ایسے واقعات کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، جس میں پرُ تشدد طریقوں سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا زیاں ہوا ہو۔ مثال کے طور پر ونسٹن چرچل اور اُن کے ہم عصر ادیب و کالم نگار دوسرے جنگِ عظیم سے قبل یہ لفظ آرمینیوں کے قتل عام اور پہلی جنگ عظیم کے لئے استعمال کرتے تھے۔ 1950ء سے اس لفظ کے استعمال سے اجتناب کا رجحان بڑھا ہے اور اب یہ لفظ مرگِ انبوہ یا ہولوکاسٹ کے نام سے نازی مظالم کی یاد بن کر رہ گیا ہے، جس کو انگریزی میں بڑے H سے لکھا جاتا ہے۔ مرگِ انبوہ دراصل ہولوکاسٹ کا اردو ترجمہ ہے لیکن ہولوکاسٹ بھی عبرانی لفظ سوہ کا ترجمہ ہے، جس میں معنی ناگہانی آفت، مصیبت، وبا یا تباہی کے ہیں جوکہ 1940ء میں یروشلم میں چھپنے والے ایک کتابچے میں استعمال ہوا، جس کا عنوان تھا “پولینڈ کے یہودیوں کا قتلِ عام“، اس سے قبل سوہ یا سوہا کا استعمال نازیوں کو مصیبت یا آفت سے مشابہت دینے کے لئے کیا جاتا تھا مثلاً 1934ء میں چیم عزرائل ویزمین نے صیہونی عملی کمیٹی کو کہا تھا کہ ہٹلر کا اقتدار میں آنا "unvorhergesehene Katastropha, etwa ein neur Weltkrieg" ترجمہ: “ایک ناگہانی مصیبت ہے یا ایک نئی جنگ عظیم“، عبرانی صحافتی اداروں نے لفظ "Katastropha" کا متبادل ترجمہ سوہا کے طور پر کیا تھا۔ 1942ء کے وسط میں یروشلم کے مؤرخ بینزون دینئیر (دینابرگ) نے متحدہ امدادی کمیٹی برائے یہودانِ پولینڈ کے ذریعے ایک کتاب چھپوائی اور اس میں لفظ سوہا کا استعمال یورپ میں یہودیوں کو مٹانے کے کوششوں وضاحت میں کیا اور اس کو یہودیوں کے لئے ایک ناگہانی مصیبت و ایک نئی صورتحال قرار دیا، جس سے یہودی کبھی نبردآزما نہیں ہوئے تھے۔


1944ء کے وسط میں یہودیوں کو ریل گاڑی کے ذریعے پہنچایا جاتا رہا ہے ۔لفظ “سوہ“ کا انتخاب اسرائیل نے مرگِ انبوہ کی وضاحت کے لئے کیا، اس اصطلاح کی منظوری 12 اپریل، 1951ء کو اسرائیلی قانون سازی کے ادارے نے دی جس کو “الكنيست“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کو قومی یادگار دن کے طور پر منانے کی بھی منظوری دی۔ 1950ء تک مرگِ انبوہ “یاد ویشم“ کے نام سے مشہور ہوگیا، جس کو عام طور پر یورپی یہودیوں کے قتلِ عام سے منسوب کرنے کے لئے استعمال کیاجاتا تھا۔ عام طور پر جرمن نازی دورمیں یہودیوں کی نسل کشی کے لئے “Endlösung der Judenfrage “ یعنی “یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ استعمال کرتے تھے۔ انگریزی اور جرمنی دونوں میں لفظ “حتمی حل“ کو مرگِ انبوہ کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے جنگ عظیم کے بعد ایک عرصے تک جرمن مورخین اس کے لئے “Völkermord “ یعنی قتلِ عام یا اس کا مکمل جملہ “der Völkermord an den Juden“ یعنی “یہودی لوگوں کا قتلِ عام“ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے جبکہ آج کل جرمنی میں اس کی عام اصطلاح “مرگِ انبوہ“ یا “سوہ“ ہے۔ لفظ مرگِ انبوہ کا استعمال محض یہودیوں کی نسل کشی کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس لفظ کی مدد سے نازیوں کے غیر انسانی مظالم کے وسیع تر معنوں میں وضاحت بھی پیش کی جاتی ہے۔ جس میں مختلف قوموں اور مذاہب کے لوگوں کی مثالیں دی جاتی ہیں مثلاً رومانیہ سے ہجرت کرنے والے تقریباً پانچ لاکھ رومانیوں، جپسیوں اورسنتیوں کا قتلِ عام، سوویت یونین کے لاکھوں جنگی قیدیوں کی ہلاکت، جسنی بے راہ روی کے شکاروں، معذروں اور اس کے علاوہ بے شمار سیاسی و مذہبی حریفوں کو موت، مرگِ انبوہ میں شامل ہے۔ تاہم کئی یہودی تنظیمیں اس لفظ کو دیگر معنوں استعمال کرنے پر اعتراض کرتی ہیں خصوصاً وہ تنظیمیں جو کہ مرگِ انبوہ کی یاد یا اس کی نسبت سے بنائی گئی ہیں۔ یہودی تنظیموں کا اصرار ہے کہ لفظ مرگِ انبوہ صرف یہودیوں کی نسل کشی کے اظہار کے لئے استعمال کیا جانا چاہیئے کیونکہ اس کا اصل مقصد محض یہودیوں کا خاتمہ تھا اور یہ جرم اتنا سنگین اور اتنا گھناؤنا تھا جوکہ یورپ میں یہودی مخالف عناصر کی جانب سے کیا گیا تھا کہ اس کو نازیوں کے عام جرائم کا حصہ نہیں بنانا چاہیئے۔ اس موضوع پر شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کو جنگِ عظیم دوئم کا حصہ نہیں کہا جاتا۔ روانڈین مرگِ انبوہ، کمبوڈین مرگِ انبوہ کی اصطلاح 1994ء میں روانڈامیں ہونے والے قتلِ عام اور نسل کشی کے واقعات کے لئے استعمال کی جاتی ہے، جس میں کمبوڈیا کی الخمير الحمر کی حکومت ملوث تھی اور افریقی مرگ انبوہ کی اصطلاح افریقہ میں ہونے والی غلاموں کی تجارت اور افریقی نوآبادبستیوں میں ہونے والے قتلِ عام کے اظہار کے لئے ہے، جس کو مافا بھی کہا جاتا ہے۔

ایک امریکی اخبار میں ہٹلر کی موت کی خبرمرگ انبوہ کے مرکزی کردار ایڈولف ہٹلر کی موت کے متعلق عام قیاس آرائی یہی ہے کہ 30 اپریل، 1945ء کو ہٹلر نے خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی اور انتہائی سریع الاثر زہر سنکھیا (سائنائڈ) کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔ خود کشی کے دوہرے طریقہء کار سے افواہوں کو تقویت ملی کہ ہٹلر دوسری جنگ عظیم میں بچ گیا تھا لیکن اس کی باقیات کا پتہ نہ چل سکا۔ خود کشی سے محض ایک دن پہلے یعنی 29 اپریل، 1945ء کو ہٹلر نے اپنی داشتہ ایوا براؤن سے شادی کی تھی اور 30 اپریل، 1945ء کو دونوں نے خود کشی کرلی۔

خود کشی16 جنوری، 1945ء کو ہٹلر نے فرہربینکر نامی جگہ پر سکونت اختیار کر لی تاکہ یہاں سے وہ پسپا ہوتے ہوئے تیسرے دھڑے کی نگرانی اور مدد کرسکے کیونکہ اتحادی افواج شرق و غرب سے بڑھتی جارہی تھیں۔ اپریل کے اواخر میں سوویت افواج برلن میں داخل ہوگئیں اور اُنہوں نے برلن کے صدر مقام کی جانب پیش قدمی شروع کردی جہاں ایوانِ چانسلر واقع تھا۔ کچھ مؤرخین کے مطابق 22 اپریل، 1945ء ایک فوجی کانفرنس کے دوران ہٹلر کو اختلاج الذہن لاحق ہوا، جس میں ہٹلر نے یہ اقرار کیا تھا کہ اب شکست یقینی ہے اور جرمنی یہ جنگ ہار جائے گا۔ ہٹلر نے اس موقع پر اپنے معالج ورنر ہاسس سے کہا کہ وہ خود کشی کا کوئی موزوں طریقہ بتائے۔ ہاسس نے اُسے سنکھیا زہر اور سر میں گولی مار کر، زندگی کو ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر يہ سب مفروضہ ہے یہ بات ناقابل یقین ہے کہ ہٹلر جیسا جری انسان خودکشی کرے...

ایوا براؤن اور ہٹلر برگ
پیدائش ایوا این پاؤلا براؤن
6 فروری، 1912ء
میونخ، جرمنی
وفات 30 اپریل، 1945ء
برلن، جرمنی
وجۂ وفات خود کشی (زہر خورانی)
Other names ایوا ہٹلر
شریک حیات ایڈولف ہٹلر (1945)

ایوا این پاؤلا براؤن (6 فروری، 1912ء تا 30 اپریل، 1945ء) ایڈولف ہٹلر کی پرانی ساتھی اور بالآخر بیوی تھی۔ براؤن کی ہٹلر سے پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ صرف 17 سال کی تھی۔ اُس کے دو سال کے بعد ان کی اکثر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہٹلر سے تعلقات کے ابتدائی دنوں میں براؤن نے دو دفعہ اقدامِ خود کشی کیا۔ تاہم 1936ء تک براؤن ہٹلر کی رہائشگاہ برگ اوف کا ایک حصہ بن گئی۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

مامون الرشید

Post by میاں محمد اشفاق »

ولادت ربیع الاول 107 ھ (675 ) میں پیدا ہوا۔ اس کی ولادت کی رات بھی عجیب تھی ۔ جس میں ایک خلیفہ ( ہادی ) نے وفات پائی۔ دوسرا ( ہارون الرشید ) تخت نشین ہوا اور تیسرا ( مامون ) عالم وجود میں آیا۔ خلیفہ مہدی نے وصیت کی تھی کہ

میرے بعد ہادی تخت نشین ہو اور اس کے بعد ہارون۔

ہادی نے بد نیتی سے ہارون کو محروم کرنا چاہا مگر موت نے اس کی تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ مامون کی ماں ایک کنیز تھی جس کا نام مراجل تھا اور بارغیس ( ہرات کا ایک شہر ) میں پیدا ہوئی تھی۔ علی ابن عیسی گورنر خراسان نے اس کو ہارون کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مراجل مامون کی پیدائش کے دو چار روز بعد انتقال کر گئی اور مامون کو مادر مہربان کے دامن شفقت میں پلنا نصیب نہ ہوا۔

تعلیم و تربیت پانچ برس کی عمر میں مامون کی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام سے شروع ہوئی۔ کسائی نحوی اور یزیدی قرآن پڑھانے کے لیے مقرر ہوئے۔ ہارون نے خلفا کے دستور کے مطابق مامون کو 182ھ (798 ) جعفر برمکی کے حوالے کیا جس سے مامون کی قابلیت اور لیاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ یزیدی کا بیٹا محمد بھی جو نہایت متبحر اور شاعر تھا مامون کی تربیت پر مامور تھا۔

مامون کو مورخوں نے حافظ القرآن لکھا ہے ( خلفا میں صرف حضرت ابوبکر ، عثمان اور مامون الرشید حافظ القرآن گزرے ہیں بحوالہ سیوطی ص 24)۔

قرآن مجید ختم کرنے کے بعد مامون نے نحو و ادب پڑھنا شروع کیا اور وہ مہارت حاصل کی کہ جب کسائی نے ایک موقع پر امتحان لیا اور نحو کے متعدد مسئلے پوچھے تو اس نے اس برجستگی سے سوالوں کے جواب دیے کہ خود کسائی کو تعجب ہوا اور ہارون نے جوش طرب میں سینے سے لگا لیا ( دراری فی ذکر الزاری ص 29

اخلاق و عاداتمامون کی نسبت مورخین کے متفقہ الفاظ یہ ہیں۔ تمام خلفائے بنی العباس میں کوئی تخت نشین دانائی ، عزم ، بردباری ، علم ، رائے ، تدبیر ، ہیبت ، شجاعت ، عالی حوصلگی ، فیاضی میں اسے سے افضل نہیں گزرا۔ مامون کا ادعا کچھ بے جا نہ تھا کہ معاویہ کو عمر بن العاص کا بل تھا ، عبدالملک کو حجاج کا اور مجھ کو اپنا۔

ہارون الرشید اکثر کہا کرتا تھا کہ میں مامون میں منصور کا حزم ، مہدی کی خدا پرستی ، ہادی کی شان و شوکت پاتا ہوں۔ ان باتوں پر اگر اس کے عفو و انکسار ، بے تکلفی ، سادہ مزاجی کی صفتیں بڑھائی جائیں تو افضلیت کا دائرہ جس کو مورخین نے بنی العباس تک محدود کیا تھا ، تمام سلاطین اسلام پر محیط ہو جاتا ہے۔

مامون کا اپنا قول تھا کہ مجھ کو عفو میں ایسا مزہ آتا ہے کہ اس پر ثواب ملنے کی توقع نہیں۔

عفو کا واقعہ عبداللہ بن طاہر کا بیان ہے کہ ایک بار مامون کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے غلام کو آواز دی مگر صدائے برنخاست ۔ پھر پکارا تو ایک ترکی غلام حاضر ہوا اور آتے ہی بڑبڑانے لگا کہ کیا غلام کھاتے پیتے نہیں ؟ جب ذرا کسی کام کے لیے باہر گئے تو آپ یا غلام یا غلام چلانے لگتے ہیں۔ آخر “یا غلام“ کی کوئی حد بھی ہے ؟ مامون نے سر جھکا لیا اور دیر تک سربگریبان رہا۔ میں نے سمجھا کہ بس اب غلام کی خیر نہیں۔ مامون میری طرف مخاطب ہوا اور کہا کہ “ نیک مزاجی میں یہ بڑی آفت ہے کہ نوکر اور غلام شریر اور بد خو ہو جاتے ہیں مگر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ان کے نیک خو کرنے کے لیے میں بد مزاج ہو جاؤں۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
منور چودری
مشاق
مشاق
Posts: 1480
Joined: Mon Oct 11, 2010 1:34 pm
جنس:: مرد
Location: hong kong

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by منور چودری »

جناب میاں اشفاق صاحب ہندوستان کے بادشاہ وقت سلطان شمس الدین التمش کے متعلق کحچھ معلومات شئیر کر کے شکریہ کا موقع عنائت فرماہیں
روز آجاتا ہے وہ دردِ دل پہ دستک دینے
اک شخص کہ جسکو میں نے کھبی بھلایا ہی نہیں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by چاند بابو »

بہت خوب معلومات شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ میاں صاحب.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by چاند بابو »

منور چودری wrote:جناب میاں اشفاق صاحب ہندوستان کے بادشاہ وقت سلطان شمس الدین التمش کے متعلق کحچھ معلومات شئیر کر کے شکریہ کا موقع عنائت فرماہیں
[center]سلطان شمس الدین التمش[/center]


شمس الدين التتمش سلطنت دہلي كا تيسرا حكمران اور خاندان غلاماں كا تيسرا بادشاه۔ قطب الدین ایبک کا غلام تھا۔ ہونہار دیکھ کر بادشاہ نے اپنا داماد بنا لیا۔ 1211ء میں قطب الدین ایبک کے نااہل بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار کر خود حکمران بن گیا۔ اس وقت وہ بہار کا صوبیدار تھا۔ تخت نشین ہوتے ہی اُسے ان صوبیداروں کی سرکوبی کرنی پڑی جو خود مختار بن بیٹھے تھے۔ پنجاب اور غزنی میں تاج الدین ، سندھ میں ناصر الدین قباچہ اور بنگال میں خلجیوں نے سر اٹھایا۔ اس نے سب کو مطیع کیا۔ 1226ء سے 1234ء تک کے درمیانی مدت میں راجپوتوں سے جنگ کرکے رنتھمبور ، منڈو، گوالیار ، اور اُجین فتح کیے 1221ء میں منگول سردار چنگیز خان خوارزم شاہی سلطنت کے بادشاہ جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ تک آ پہنچا ، لیکن دریا سے پہلے تمام علاقے کو تباہ برباد کرکے واپس چلا گیا اور ہندوستان اس خوف ناک آفت سے بچ گیا۔ التتمش نے قطب مینار اور قوت اسلام مسجد کو، جنہیں قطب الدین ایبک نا تمام چھوڑ کر مرگیا تھا، مکمل کرایا۔ التتمش نے رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔
وجھ شھرت نیک اور رحمدل بادشاہ، التمش نہایت صحیع الاعتقاد، راسخ العقیدہ اور صالح شخص تھا۔ وہ راتوں کو جاگتا اور عبادت کرتا تمام عمر اس کو کسی نے سوتے نہیں دیکھا۔ وہ اگر تھوڑی دیر کے لیے سو جاتا تو جلدی بستر سے اٹھ جاتا۔ عالم تخیّر میں کھڑا رہتا۔ پھر اٹھ کر وضو کرتا اور مصّلے پر جا بیٹھتا۔ اپنے ملازموں میں سے رات کے وقت کسی کو نہ جگاتا۔ کہتا کہ آرام کے ساتھ سونے والوں کو اپنے آرام کے لیے کیوں زحمت دی جائے۔ وہ خود ہی تمام کام سر انجام دے لیتا۔ وہ رات کو گدڑی پہن لیتا۔ تا کہ اس کو کوئی پہچان نہ سکے۔ ہاتھ میں سونے کا ایک ٹنکہ اور توشہ دان ہوتا۔ وہ ہر مسلمان کے گھر پر جاتا۔ ان کے حالات معلوم کرتا اور ان کی مدد کرتا۔ واپسی میں ویرانوں اور خانقاہوں سے ہوتا ہوا بازاروں میں گشت کرتا اور وہاں کے رہنے والوں کو آسائش پہنچاتا اور پھر ان سے طرح طرح کی معذرت کر کے چپ چاپ چلا جاتا اور ان سے کہہ جاتا کہ اس مدد کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ دن کو التمش کے دربار میں عام اجازت تھی کہ جو مسلمان رات کو فاقہ کرتے ہیں وہ اس کے پاس آئیں اور امداد پائیں۔ پھر جب غریب و حاجت مند لوگ اس کے پاس آتے۔ ان کی ہر طرح سے دل جوئی کرتا اور ایک ایک کو قسمیں دے دے کر کہتا کہ دیکھنا فاقہ نہ کرنا۔ تمہیں جب کسی شے کی ضرورت پڑے۔ مجھ سے آکر بیان کرو۔ اگر کوئی شخص تم سے بے انصافی کرے اور تم پر ظلم و ستم ڈھائے یہاں آکر زنجیر عدل ہلائو تمہاری فریاد سنی جائے گی۔ اور تمہارا انصاف کیا جائے گا۔پھر لوگوں سے رہ رہ کر کہتا۔ کہ اگر تم مجھ سے آکر اپنی شکا یت نہ کہو گے۔ تو کل قیامت کے دن تمہاری فریاد کا بوجھ مجھ سے نہ اٹھایا جاسکے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: دُنیا کی تاریخ میں اہم شخصیات

Post by اضواء »

بہترین معلومات پئیش کرنے پر آپ سب کا بہت بہت شکریہ r:o:s:e
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”