::::: حقیقی امیر ، اور حقیقی غریب، اور بندوں کے حقوق کی اہمیت :::::

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
عادل سہیل
کارکن
کارکن
Posts: 60
Joined: Sun Apr 29, 2012 7:25 pm
جنس:: مرد

::::: حقیقی امیر ، اور حقیقی غریب، اور بندوں کے حقوق کی اہمیت :::::

Post by عادل سہیل »

::::: حقیقی امیر ، اور حقیقی غریب، اور بندوں کے حقوق کی اہمیت :::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد
:::
السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿لیس الغِنَی عَن کَثرَۃِ العَرَضِ وَلَکِنَّ الغِنَی غِنَی النَّفسِِ:::غِنا (امیری ،مالداری ، تونگری ) چیزوں کے زیادہ ہونے میں نہیں ، بلکہ غِنا تونفس (دِل و جان ) کا غنی( یعنی بڑا اور مضبوط اور جو اللہ نے دِیا اُس پر راضی ) ہونا ہے﴾صحیح البُخاری /حدیث 6446/کتاب الرقاق/باب15،صحیح مُسلم /حدیث 1051/کتاب الزکاۃ /باب40۔ ایک دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے دریافت فرمایا ﴿ھَل تَدرُونَ مَنِ المُفلِسُ؟ ::: کیا تُم لوگ جانتے ہوئے مُفلس (غریب ترین ، فقیر ، بے مال و متاع ) کون ہے ؟ ﴾
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کِیا """اے اللہ کے رسول ہم میں مُفلِس وہ ہے جِس کے پاس نہ کوئی مال ہو نہ سامان"""،
تو اِرشاد فرمایا ﴿ اِنَّ المُفلِسَ مِن أمَتِی مَن یَأتِی یَومَ القِیَامَۃِ بِصَیَامٍ وَصَلاَۃٍ وَزَکَاۃٍ ویأتی قَد شَتَمَ عِرضَ ھَذا ، وَقَذَفَ ھَذا ، وَأَکَلَ مَالَ ھَذا، و سَفَکَ دَمَ ھَذا ، و ضَربَ ھَذا ،فَیُقعَدُ فَیَقتَصُّ ھَذا مِن حَسَنَاتِہِ ، وَھَذَا مِن حَسَنَاتِہِ ، فَإِن فَنِیَت حَسَنَاتُہُ قبل أَن یَقضِیَ مَا عَلِیہِ مِنَ الخَطَایَا أخَذَہُ مِن خَطَایَاھُم فَطُرِحَت علیہ ثُمَّ طُرِحَ فی النَّارِ::: میری اُمت میں مُفلِس وہ ہے جو قیامت والے دِن روزہ نماز اور زکوۃ کے ساتھ آئے گا ، اور (اُسکے عمل میں)یہ بھی آئے گا کہ کبھی اِس (یعنی کِسی اِنسان ) کی بے عِزتی کی ہو گی (گالی گلوچ بُری بات کے ذریعے)، کبھی کسی کی عِزت پر اِلزام لگایا ہو گا ، کِسی کا مال(بغیر حق کے) کھایا ہو گا ، کِسی کا خون بہایا ہوگا ، کِسی کو مارا پیٹا ہو گا ، تو ایسا کرنے والے کو بٹھا دِیا جائے گا اور یہ (جِسکی بے عِزتی کی ہوگی) آئے گا اور ایسا کرنے والے کی نیکیوں میں سے نیکیاں لے گا ، اوریہ ( جِس کی عِزت پر اِلزام لگایا ہو گا) وہ ایسا کرنے والے کی نیکیوں میں سے نیکیاں لے گا ،( اوراسی طرح ہر حق دار اپنے حق کے بدلے میں حق مارنے والے کی نیکیوں میں سے نیکیاں لے گا ) اوراگر اُن حق داروں کا حساب پورا ہونے سے پہلے اِس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اُن حق داروں کی غلطیوں( گناہوں ) میں سے لے کر اِس پر پھینک (ڈال) دی جائیں اور پھر اِسے جہنم میں پھینک دِیا جایا گا ﴾ (مجموعہ روایات )مُسند احمد / حدیث 8016،8056، 8395،8438، صحیح ابن حبان /حدیث4411/کتاب الحدود/ باب14،مُسند ابی یعلیٰ/حدیث6499،صحیح الترغیب والترھیب /حدیث4394۔
اِن دونوں احادیث مُبارکہ میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ یہ سمجھا دِیا گیا ہے کہ مال و دولت کی کثرت حقیقی امیری و تونگری نہیں ، بلکہ حقیقی امیری اور تونگری دِل کا امیر ہونا ہے ، دِل کا تونگر ہونا ہے ، کہ دِل دُنیا کے مال و متاع ، حشم و جاہ کا لالچی نہ ہو، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ عطاء فرمائے اُس پر راضی رہتا ہو،
اور حقیقی امیر اور تونگر وہ شخص ہے جِس کے پاس خواہ دُنیا کے مال و متاع میں سے کچھ بھی نہ ہو لیکن اُس نے کِسی سے بد کلامی نہ کی ہو، کِسی کی عِزت نہ اُچھالی ہو ، کِسی کا کوئی حق نہ مارا ہو، کِسی کی غیبت نہ کی ہو، کِسی پر اِلزام تراشی نہ کی ہو، کِسی کی چُغلی نہ کی ہو، غرضیکہ کِسی بھی طور کِسی کا کوئی حق نہ مارا ہو ، اگر ایسا ہوا تو خواہ دُنیا کا سارا مال و متاع اُس کے پاس رہا ہو ، حساب والے دِن اُس کی سب ہی نیکیاں حق داروں کو دے دی جائیں گی ، اور اگر اُس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں یا ختم ہو گئیں تو حق داروں کے گناہ اُس کے ذمے لگا دیے جائیں گے ، اور وہ دُنیا کے کِسی بھی غریب اور فقیر سے بڑھ کر غُربت اور فقر کا شِکار ہو جائے گا،
اِن احادیث شریفہ میں ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ بندوں کے حقوق مُعاف نہیں کیے جائیں گے ، اور مرنے کے بعد جو حقوق ہمارے ذمے رہ جائیں گے قیامت والے دِن وہ ہی ہماری حقیقی اور ہمیشہ قائم رہنے والی غُربت کا سبب بنیں گے ،
اِسی لیے ہمارے محبوب رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ سبق بھی دِیا ہے کہ﴿ مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلَمَةٌ لأَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهَا ، فَإِنَّهُ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُؤْخَذَ لأَخِيهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَخِيهِ ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ::: جس کسی کے ذمے اُس کے کسی بھائی کا کوئی حق ہو تو وہ اُس حق سے آزادی حاصل کر لے ، کیونکہ وہاں (قیامت میں)دینار و درھم نہ ہوں گے (کہ انہیں ادا کر کے گلو خلاصی کروا لی جائے)لہذا اُس حقدار کے حق مارنے والا بھائی سے اُس کی نیکیاں لے لی جائیں گی (اور حقدار کو دی جائیں گی) اور اگر حق مارنے والے کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحب حق کے گناہ اُس حق مارنے والے کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے﴾ صحیح بخاری /حدیث6534 /کتاب الرقاق/باب48،
حتیٰ کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی بخشش بھی بندوں کے حقوق کی ادائیگی تک نہیں ہو گی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خبر عطاء فرمائی ہے کہ ﴿ يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلاَّ الدَّيْنَ:::شہید کے ہر گناہ معاف کر دِیا جاتا ہے سوائے قرض کے﴾صحیح مسلم/حدیث4991 /کتاب الإمارہ/باب32،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق ، ہمت اور جرأت عطاء فرمائے کہ ہم عمومی طور پر اللہ کی تمام مخلوق کے خصوصی طور پر اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کے تمام ہی حقوق ادا کر سکیں ، اور حقیقی امیری اور تونگری حاصل کر سکیں جو دِین دُنیا اور آخرت میں ہمارے لیے خیر ، کامیابی اور سُکون کے اسباب میں سے ایک ہے ۔
والسلام علیکم ، طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :06/08/1423ہجری ، بمُطابق ، 12/10/2002،عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُسیر ہے :
http://bit.ly/2f36zn8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”