شاہی قلعہ لاہور کے کچھ دلچسپ تاریخی پہلو

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

شاہی قلعہ لاہور کے کچھ دلچسپ تاریخی پہلو

Post by میاں محمد اشفاق »

Image
قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔

آپ میں سے اکثر لوگوں نے یہ شاہی قلعہ لاہور دیکھا ہوگا۔ لیکن آپ میں سے اکثر دوستوں کو اس کے بیشتر تاریخی پہلوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔ آئیے اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے متعلق کچھ دلچسپ معلومات دیتا ہوں۔

اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ شاہی قلعہ لاہور کس نے تعمیر کروایا تھا۔ تو آپ میں سے اکثر کا جواب ہوگا۔ شہنشاہ اکبر نے۔ ویسے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ لیکن آپ کے لئے یہ بات حیران کن ہو کہ یہ قلعہ اکبر سے سینکڑوں سال پہلے بھی موجود تھا۔ ہاں اکبر نے اس کو از سرنو تعمیر کروایا تھا۔ اور جو موجودہ حالت اس کی نظر آرہی ہے اس کو اکبر کے دور میں ہی تزئین و آرائش کروائی گئی تھی۔

قلعہء لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم اورروایتی حکایات موجود ہیں۔ تاہم 1959ء کی کھدائی کے دوران جو کہ محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، جس میں محمود غزنوی (1025ء )کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔جو کہ باغیچہ کی زمین سے تقریبا 62 .7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021ء میں موجود تھی۔مزید یہ کہ اس قلعہ کی نشانیاں شہاب الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں جب اُس نے 1180ء تا 1186ء لاہور پر حملوں کئے تھے۔

یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہء لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں۔ تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۔1241ء - منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
۔1267ء- سلطان غیاث الدین بلبن نے دوبارہ تعمیر کرایا۔
۔1398ء ۔- امیر تیمور کی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
۔1421ء - سلطان مبارک شاہ سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔
۔1432ء - قلعے پر کابل کے شیخ علی کا قبضہ ہوگیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔
۔1566ء - مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی سمت وسعت دی تقریباً 1849ء میں جب راوی قلعہء لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔ اکبر نے “دولت کدہء خاص و عام“ بھی تعمیر کروایا جوکہ “جھروکہء درشن“ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔
۔1618ء - جہانگیر نے “دولت کدہء جہانگیر“ کا اضافہ کیا۔
۔1631ء - شاہجہاں نے شیش محل تعمیر کروایا۔
۔1633ء - شاہجہاں نے “خوابگاہ“، “حمام“، “خلوت خانہ“ اور “موتی مسجد“ تعمیر کروائی۔
۔1645ء - شاہجہاں نے “دیوان خاص“ تعمیر کروایا۔
۔1674ء - اورنگزیب نے انتہائی جسیم عالمگیری دروازہ لگوایا۔
۔1799ء۔۔ یا 1839ء - اس دوران شمالی فصیل جوکہ کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا “ہتھ ڈیرہ“، “حویلی مائی جنداں“، “بارہ دری راجہ دھیاں سنگھ“ کی تعمیر رنجیت سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں جوکہ 1799ء تا 1839ء تک حاکم رہا۔
۔1846ء - برطانیہ کا قبضہ
۔1927ء - قلعے کی جنوبی فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔


-----------------
محل وقوع
قلعہ جس کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کئی قلعے مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے۔ مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ اس قلعہ کے لیے جو جگہ منتخب کی گئی وہ ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جس کی سطح لاہور شہر سے کافی بلند، دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر واقع کافی محفوظ تھی جو اس وقت لاہور کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
شاہی قلعہ لاہور جو مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک بے نظیر شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کروایا مگر ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس کی باقاعدہ بنیاد 1566ء میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے رکھی۔ اس کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی گارے سے کی گئی ہے ان دیواروں پر بندوقچیوں کے لیے سوراخ ہیں جن کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔ جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برساسکتے تھے۔ یہ قلعہ اپنی وسعت، فنِ تعمیر اور شہرت کے لحاظ سے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس قلعہ کے اندر مختلف ادوار میں مختلف عمارات تعمیر ہوئیں جن کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۔1۔ عہدِ اکبری کی عمارات
۔2۔ نورالدین جہانگیر کی عمارات
۔3۔ شاہجہاں کی تعمیر کردہ عمارات
۔4۔ اورنگزیب عالمگیر کی عمارات
۔5۔ سکھ دور کی عمارات
۔6۔قلعہ بَعہد انگریز

عالمگیری دروازہ:
شاہی قلعہ کی مغربی دیوار سے منسلک یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر نے 74-1673ء میں تعمیر کروایا۔ اسی جگہ پر اکبری دور میں بھی ایک دروازہ موجود تھا اورنگ زیب عالمگیر نے اس کو از سِرنو تعمیر کروایا جس کی وجہ سے یہ عالمگیری دروازہ کہلوایا۔ اس کی تعمیر پرانے فوجی اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ خوبصورتی اور رعب کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے بڑے بڑے مثمن برج کنول کی پتیوں سے آراستہ ہیں جبکہ گنبد نما برجیاں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ اس دروازے کے اندر نیچے اور اوپر، محراب دار دو منزلہ کمرے بنے ہوئے ہیں اور سامنے ٹکٹ گھر ہے۔ اسی دروازے سے آج کل عوام کی آمدورفت ہوتی ہے۔ اس دروازے کے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں جانب ایک راستہ ملتا ہے جس کے نیچے اوپر محافظوں کے کمرے بنے ہوئے ہیں جبکہ بالکل سامنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بانی لاہور “ لوہ “ کا مندر ہے۔ اس مندر کے شمال میں بلندی پر ایک مثمن دروازہ ہے۔ جس پر جانے کے لیے بڑی بڑی سیڑھیاں تھیں جو کہ عہدِ برطانوی میں ختم کردی گئیں۔ دروازے کے آثار ابھی تک باقی ہیں۔

شاہی باورچی خانہ و اصطبل:
شاہی قلعے کے جنوب مغرب کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے جہاں پر عہدِ مغلیہ میں شاہی باورچی خانہ و اصطبل تھا۔ یہ جگہ لوہ کے مندر کی پچھلی جانب اور مثمن دروازہ کی جنوبی طرف واقع ہے۔ یہ بورچی خانہ ایک بہت بڑے ہال اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا جس کے کئی دروازے تھے۔ اس میں کئی ایک انواع کے کھانے تیار ہوتے جو کہ شاہی دسترخوان کی زینت بنتے تھے جبکہ شاہی اصطبل میں اچھی نسل کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔
برطانوی عہد میں اس شاہی باورچی خانہ اور اصطبل کی حیثیت کو ختم کرکے یہاں پر پولیس کی بارکیں بنادی گئیں اور کچھ اضافی عمارات بنا کر اس کو جیل میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ عرصہ تک یہ جیل زیر استعمال رہی۔
آثارِقدیمہ کی انتھک کوششوں کے بعد اس جیل اور پولیس کی بارکوں کو ختم کردیا گیا اور باورچی خانہ کو اصلی صورت میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے آدھے حصے پر محکمہ آثارِ قدیمہ نے ایک نیا خوبصورت کیمپس بنایا جس کا نام “ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی ٹریننگ اینڈ ریسرچ سنٹر “ ہے۔ یہاں پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر آثارِقدیمہ کے مختلف شعبہ جات میں لوگوں کو سکالرز کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے

قلعہ کی جنوبی دیوار:
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی اینڈ ریسرچ کی عمارت کے مشرق میں ایک سر سبز و شاداب سبزہ زار ہے جس کو روش کے ذریعے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سبزہ زار کے جنوب میں قلعہ کی جنوبی دیوار ہے۔ جسے عہدِ برطانوی میں توڑ دیا گیا تھا اور یہاں پر سیڑھیاں اور چبوترے بنادیے گئے تھے تاکہ قلعہ دوبارہ دفاعی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ اس دیوار کے بجانب شمال دھیان سنگھ کی بارہ دری تھی جو اب منہدم ہوچکی ہے اس بارہ دری اور دیوار کے اوپر مختلف قسم کے فوارے لگے ہوئے تھے ( جنمیں سے ابھی کچھ باقی ہیں)۔اس وقت یہاں پر بچوں کے کھیلنے کے لیے جھولے وغیرہ بنائے گئے ہیں۔

دیوان عام:
عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کی جنوبی دیوار سے متصل دیوان عام جو آصف خان کی زیرِ نگرانی شاہجہاں کے حکم پر 32-1631ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جو کہ مستی ( مسجدی ) دروازہ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ سنگِ سرخ کے چالیس ستونوں پر مشتمل خوبصورت عمارت ہے جس کی لمبائی 62 میٹر، چوڑائی 20 میٹر اور اونچائی 11 میٹر ہے۔ یہ دیوان 1.5 میٹر اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ جس کی تین اطراف میں سنگِ سرخ کی جھالر / کٹہرا بنا ہوا ہے اور ہر طرف سے راستہ چبوترے پر جاتا ہے۔ جس سے امراء، وزراء اور دیگر ملازمین دیوان میں داخل ہوتے تھے۔ (تصویر نمبر 2 ) سکھ دور حکومت 1841ء میں اس دیوان کے حسن کو کافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سکھوں کی باہمی چپقلش اور لڑائی تھی چنانچہ اسی وجہ سے سکھ سردار شیر سنگھ نے قلعہ پر بادشاہی مسجد کے میناروں سے گولہ باری کی جس سے اس کا کافی حصہ گر گیا جس کی بعد میں انگریزوں نے مرمت کر کے اس دیوان کو ہسپتال کی حیثیت دے دی اور کافی عرصہ یہ عمارت بطور ہسپتال استعمال ہوتی رہی۔ آخر 1927ء کو محکمہ آثارِ قدیمہ نے اسے اپنی تحویل میں لیکر اصلی صورت بخشی۔

دولت خانہ خاص و عام ( اکبری محل ):
دیوان عام میں سے ایک زینہ جھروکہ درشن میں جاتا ہے۔ اس جھروکے کے پیچھے اکبری عہد کے دولت خانہ خاص و عام کی عمارت ہے یہ ایک دو منزلہ عمارت چار گوشہ عمارت، دولت خانہ خاص و عام، اکبری محل کے نام سے مشہور ہے۔ جو اکبر کے حکم پر 1587ء کو تعمیر ہونا شروع ہوئی اور 18- 1617ء میں عہد جہانگیری میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس پر سات لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ وسیع علاقے پر مشتمل یہ محل 116 کمروں پر مشتمل تھا جس کا کافی حصہ بالکل ختم ہوچکا ہے صرف بنیادوں کے آثار باقی ہیں۔ اس وقت جو حصہ بچا ہوا ہے اس میں دولت خانہ خاص، جھروکہ اور کچھ رہائشی کمرے ہیں۔ دولت خانہ چار کمروں پر مشتمل ہے۔ جن میں ‌ایک مستطیل، ایک ہشت پہلو اور دو شش پہلو ہیں جب کہ ان کی شمال اور مغربی جانب برآمدے ہیں جن میں دوہرے سنگ مر مر کے ستون ہیں جبکہ دیواروں اور چھتوں کو چونے کی رنگین گلکاری اور منبت کاری سے سجایا گیا ہے۔
کھڑک سنگھ کا محل:
دولت خانہ خاص و عام کی مشرقی جانب اور احاطہ جہانگیری کے جنوب مشرقی جانب ایک دو منزلہ عمارت ہے اس عمارت کا زیریں حصہ عہدِ اکبری کا ہے۔ جبکہ اوپر والی عمارت راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کے لیے بنوائی۔ اسی لیے یہ کھڑک سنگھ کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ کھڑک سنگھ کا یہ محل آتھ کمروں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل تھا جس کی چھت لکڑی اور دیواروں پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے ایک اعلٰی نمونہ تھا۔ آج کل عمارت کے اس حصے میں ڈائریکٹر حلقہ شمالی آثارِ قدیمہ کا دفتر ہے۔
اس حویلی کی نچلی منزل دراصل عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کا ایک حصہ ہے۔ آج کل اس میں محکمہ آثارِقدیمہ کی ایک خوبصورت لائبریری ہے جو تقریباً پندرہ ہزار کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بیٹھ کر مختلف اسکالرز استفادہ علم کرتے ہیں۔ یہ لائبریری ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کو الماریوں کے ذریعے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کی پچھلی جانب کمروں کا ایک سلسلہ ہے جو محکمہ آثارِقدیمہ کے اسٹور کے طور ہر استعمال ہوتا ہے۔

مسجدی یا مستی دروازہ:
جہانگیر کی والدہ مریم زمانی نے 1614ء کو قلعہ کے مشرقی دروازے کے باہر ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی جو اسی کے نام سے موسوم ہوئی۔ قلعے کا یہ دروازہ مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے “ مسجدی دروازہ “ کہلایا جو بعد میں بگڑ کر “ مستی “ دروازہ بن گیا۔ یہ دروازہ قلعہ کی مشرقی دیوار کے وسط میں واقع ہے جو ایک مضبوط اور پائیدار دروازہ ہے۔ جو اپنی خوبصورتی اور جاہ و جلال بکھیرے عہدِ اکبری کے عظیم فن ِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ دروازہ 1566ء میں تعمیر ہوا جس کے دونوں جانب مثمن برج ہیں اور مدافعت کے لیے دندانے دار فصیل ہے جن میں مستطیل نما سوراخ ہیں۔ اس قسم کی سوراخ دار فصیل قلعے کے کسی اور حصے میں نہیں ملتی۔ اس دروازے کا اندرونی حصہ گنبد نما ہے جن کے دونوں جانب بڑے بڑے دو منزلہ کمرے ہیں۔ یہ کمرے محافظوں کے لیے مخصوص تھے۔ اس دروازے کے اندرونی جانب شمال اور بجانب جنوب عہدِاکبری کی عمارات منسلک تھیں جو اب ختم ہوچکی ہیں اور اب صرف ان کی بنیادیں ہی باقی ہیں۔

احاطہ جہانگیری:
اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر (1605-1627ء) نے عنانِ حکومت سنبھالا تو اس کے خلاف بے شمار شورشیں اٹھ کھڑی ہوئیں یہاں تک کہ اس کے بیٹے خسرو نے باپ کے خلاف بغاوت کردی اور قلعہ لاہور کا محاصرہ کرلیا مگر صوبے دار لاہور دلاور خان نے اس کی ایک نہ چلنے دی تو اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ دریں اثنا خسرو اپنے سات سو ساتھیوں کے ساتھ دریائے چناب کے قریب پکڑا گیا۔ اسی دوران جہانگیر لاہور آیا اور تقریباً ایک سال تک یہیں شاہی قلعے میں قیام کیا اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہی قلعہ لاہور میں نہایت عمدہ عمارات تعمیر کروائیں اور ساتھ ساتھ ان عمارات کی تکمیل بھی کروائی جن کی بنیادیں اس کے باپ اکبر نے رکھی تھی۔
دیوانِ عام کی شمالی جانب ایک وسیع اور خوبصورت سبزہ زار ہے مغلیہ طرز کا یہ باغ برطانوی دورِ حکومت میں ختم کردیا گیا اور یہاں ٹینس کھیلنے کے لیے جگہ بنادی گئی جسے بعد میں دوبارہ اصل حالت میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی لمبائی 123 میٹر اور چوڑائی 82 میٹر ہے۔ باغ کی روشیں چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ روشیں سبزہ زار کو مختلف حصوں میں تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ جسے چہار باغ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سبزہ زار کے وسط میں مربع شکل کا حوض ہے جس میں 32 فوارے لگے ہوئے ہیں۔ حوض کے درمیان میں سنگ مرمر کا چبوترہ ( مہتابی ) ہے اور شرقاً غرباً راہداری ہے۔

خوابگاہ جہانگیری و عجائب گھر:-
اکبری محل کے شمالی جانب ایک بہت بڑی عمارت ہے جسے خوابگاہ جہانگیری کہتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہاں پر جہانگیر بادشاہ آرام فرمایا کرتے تھے یہ عمارت دو چھوٹے کمروں اور ایک درمیانی بڑے ہال پر مشتمل ہے جب کہ سامنے جنوب کی طرف برآمدہ ہے۔ یہ عمارت 46 میٹر لمبی اور 18 میٹر چوڑی ہے۔ اس عمارت کا اندرونی حصہ پچی کاری، غالب کاری، منبت کاری اور جیومیٹریکل نقش و نگار سے آراستہ کی گئی ہے۔ اس عمارت کا ایک ہی دروازہ ہے جو درمیانی ہال سے برآمدے میں کُھلتا ہے

سہ دریاں:
خواب گاہ جہانگیری کے مشرقی اور مغربی جانب دو سہ دریاں تھیں جن میں اس وقت مشرقی سہ دری باقی ہے۔ یہ سہ دری ایک کماندار چھت والا ( برج ) چھوٹا سا کمرہ ہے۔ جو جہانگیری دور کی تعمیر ہے۔ اس کی مشرقی جانب عہدِ مغلیہ کی عمارات کو انگریزی دور میں چرچ کی حیثیت حاصل تھی جو بعد میں ختم ہوگئی اس عمارت سے ایک زینہ منزل زیریں کی طرف جاتا ہے جہاں آج کل لیبارٹری ہے۔ اس سہ دری کے سامنے ایک چھوٹا سا حوض ہے جس میں فوارہ لگا ہوا ہے۔ اس عمارت کے تین دروازے اور دو چھتری نما گنبدیاں ہیں۔ درمیان میں کمان دار چھت اور چاروں طرف چھجہ ہے۔ یہ فنِ مصوری کے مختلف نمونوں سے مزین تھی جن کے نقوش اب تقریباً مٹ چکے ہیں۔

محل رانی جنداں و عجائب گھر:
احاطہ جہانگیری کے جنوب مغربی طرف ایک بلند و بالا عمارت رانی جنداں کے محل کے نام سے مشہور ہے۔ رانی جنداں راجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیوی تھی۔ راجہ نے اس کے لیے مغل بادشاہ جہانگیر کی تعمیر کردہ عمارت کے اوپر ایک اور منزل تعمیر کروائی اور اس عمارت کو اپنی بیوی کا محل قرار دے دیا۔ کافی عرصہ تک یہ عمارت رانی جنداں کی رہائش گاہ (محل ) کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
عجائب گھر ( آرمری گیلری ) اس عمارت کا نچلا حصہ جو کہ عہدِ جہانگیری کی تعمیر ہے۔ مختلف کمروں پر مشتمل ہے اس کا مشرقی حصہ عہدِ اکبری کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اس وقت یہ پوری عمارت محکمہ آثارِقدیمہ نے عجائب گھر میں تبدیل کر رکھی ہے جسے آرمری گیلری کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گیلری چار کمروں پر مشتمل ہے جو کہ سکھ دور حکومت میں استعمال ہونے والے اسلحہ جات کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ اس گیلری کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مختلف سکھ سرداروں کی تصاویر۔ رنجیت سنگھ کی بیوی کے سنگ مرمر کے ہاتھ وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ بڑے ہال میں پستول، تلواریں، توپیں، ڈھالیں، تیر کمان، لوہے کے گولے، فوجی سازوسامان اور بینڈ باجے وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ اس سے آگے ایک اور چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں سکھ دورِ حکومت میں لڑی گئی لڑائیوں کی تصاویر دیوار پر آویزاں کی گئی ہیں۔ ان لڑائیوں میں چلیانوالہ لڑائی 1849ء، موڈکے 1843ء میں رام نگر 1848ء، گجرات 1849ء جب کہ سب سے آخر میں راجہ رنجیت سنگھ کی حنوط شدہ گھوڑی کی ایک بہت بڑے شو کیس میں نمائش کی گئی ہے۔ اس گھوڑی کے ماتھے، سینے اور دُم کو اصلی سونے کے زیور سے سجایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے اوپر راجہ رنجیت سنگھ ہاتھ میں سونے کی چھتری لیے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ یہ چھتری سرخ کپڑے اور سونے کے تاروں سے مزین ہے۔ یہ چیزیں سکھ دورِ حکومت کی خوشحالی اور عظمت کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
سکھ گیلری:
اس عمارت کے اوپر والی منزل جو کہ رانی جنداں کی رہائش گاہ تھی۔ اور سکھ دور کی تعمیر ہے۔ اس خوبصورت ہال میں سکھ امراء شہزادوں اور سرداروں کی تصاویر کی نمائش کی گئی ہے جو “شہزادی بمبا کولیکشن“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کو حکومتِ پاکستان نے پیر کریم بخش سے مبلغ 50 ہزار روپے میں حاصل کیا اور محکمہ آثارِ قدیمہ نے ان کو محفوظ کیا۔ ان خوبصورت تصاویر میں 18 آئل پینٹنگ، 14 واٹر کلر، 22 پر ہاتھی دانت کا کیا ہوا کام، 17 فوٹو گراف، دس دھاتی چیزیں اور 7 مختلف فن پارے شامل ہیں۔
ان تصاویر پر زیادہ تر کام یورپی فن کاروں نے کیا ہے۔ یہ تصاویر سکھ دورِحکومت کے فن کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ ان تصاویر میں راجہ رنجیت سنگھ کا دربار خاص طور پر نمایاں ہے۔

موتی مسجد:
برصغیر پاک و ہند میں اس وقت چار موتی مسجدیں ہیں جو اپنی بناوٹ، ساخت اور فن تعمیر کے لحاظ سے کافی مشابہت رکھتی ہیں مگر ان کے سن تعمیر میں فرق ہے۔ ان چار مساجد میں ایک گرہ میں ہے جسے شاہجہاں نے 1654ء میں تعمیر کروایا، دوسری 1659ء میں لال قلعہ دہلی میں اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروائی، تیسری مہرالی (دہلی کے قریب) شاہ عالم بہادر شاہ 12-1707ء میں قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے ساتھ بنوائی، چوتھی اور سب سے قدیم موتی مسجد شاہی قلعہ لاہور میں واقع ہے۔
مکاتب خانہ کی مغربی دیوار سے متصل ایک خوبصورت ننھی سی مسجد ہے چونکہ یہ تمام کی تمام سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس لئے اس کو موتی مسجد کہتے ہیں۔ یہ مسجد عہد جہانگیری میں ایک مشہور انجینئر معمور خان کی زیر نگرانی جہانگیری محل کے بیرونی دروازے کے ساتھ 1618ء میں تعمیر ہوئی۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ فن تعمیر کی مناسبت سے شاہ جہاں کے دور کی عمارت ہے۔ اور 1645ء میں تعمیر ہوئی۔ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ اسے عہد جہانگیری کے ایک معمار نے مکاتب خانہ کے ساتھ ہی تعمیر کیا تھا۔ یہ پوری مسجد سفید سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس کے صحن کی لمبائی تقریباًً 5۔18 میٹر اور چوڑائی 5۔10 میٹر ہے اور 3۔2 میٹر اونچے پلیٹ فارم پر بنائی گئی ہے۔ جس کی پانچ محرابوں کو قوسی شکل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ درمیان میں مربع نما نفیس ستون ہیں۔ کمان دار چھت کے اوپر گول موتی نما تین گنبد ہیں۔ فرش پر کندہ کاری، نقش شدہ دیواریں، جیومیٹریکل ڈیزائن اور بیل بوٹے اس مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کے چاروں اطراف چار دیواری ہے جس کی شمال اور مشرقی دیوار میں حجرے ہیں جو امام مسجد اور طلباء کے رہنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ سکھ دور کی حکومت میں اس مسجد کا نام بدل کر “موتی مندر“ رکھ دیا گیا اور اس خوبصورت مسجد کو شاہی خزانہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے مرکزی دروازہ کو مضبوط آہنی تختوں سے بند کر کے بڑے بڑے قفلوں سے سر بمہر کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس خوبصورت مسجد کے مذہبی تقدس اور ظاہری حسن کو کافی نقصان پہنچا۔ انگریز کے دور حکومت نے بھی اس روش کو جاری رکھا اور انتہائی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت سے اس مسجد کی عظمت کو ٹیس پہنچائی آخر وائسرائے لارڈ کرزن کے احکامات پر اس مسجد کا تقدس از سر نو بحال کر دیا گیا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: شاہی قلعہ لاہور کے کچھ دلچسپ تاریخی پہلو

Post by محمد شعیب »

آج ان تحریروں پر نظر ڈالی جو میں نے نہیں پڑھی تو یہ پوسٹ نظر آئی۔
بہت خوب ۔۔ شئرنگ کا شکریہ
لیکن افسوس ہندوستان کے یہ بادشاہ جب ایسے قلعوں، محلات اور خلوت کدوں کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے، اس وقت یورپ وغیرہ میں یونیورسٹیز اور ٹیکنالوجی پر کام ہورہا تھا۔ مغلوں کے پاس بہت پیسہ تھا۔ ہندوستان کے بادشاہوں نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے کوئی خاص اقدامات نہ کئے۔
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدید امم کیا ہے
شمشیر وثناء اول، طاؤس ورباب آخر
میرا پاکستان
کارکن
کارکن
Posts: 51
Joined: Tue Jul 26, 2011 1:41 pm
جنس:: مرد

Re: شاہی قلعہ لاہور کے کچھ دلچسپ تاریخی پہلو

Post by میرا پاکستان »

;;s;a;;n;
[center]یو تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو[/center]
[center]تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو؟[/center]
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”