پاکستان میں تعلیم کی اہمیت

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
نصیر
کارکن
کارکن
Posts: 8
Joined: Mon Apr 30, 2012 8:54 am
جنس:: مرد

پاکستان میں تعلیم کی اہمیت

Post by نصیر »

پاکستان میں تعلیم کی اہمیت
(آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کہ رہ گئے۔۔۔)

گزشتہ دنوں پاکستان اور ہندوستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ہندوستان کے وزیر اعظم کا یہ بیان خبروں کی زینت بنا جس میں انہوں نے پاکستان کو مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ :
’’ آؤ، ہمّت ہو تو، ہم اپنے دیس میں غریبی کو ختم کرنے کا کام کریں، آپ اپنے دیس میں غریبی کو ختم کرنے کا کام کریں، ہم دونوں لڑائی لڑیں، دیکھتے ہیں سب سے پہلے اپنے دیس کی غربت کون ختم کرتا ہے؟ پاکستان کی عوام اس لڑائی کو پسند کرے گی۔ میں پاکستان کے ان چھوٹے چھوٹے بچّوں سے بات کرنا چاہتا ہوں، ہم جہالت کو ختم کرنے کے خلاف لڑائی لڑیں، پاکستان بھی جہالت کو ختم کرنے کے لئے لڑائی لڑے، ہندوستان بھی جہالت کو ختم کرنے کے لئے لڑائی لڑے۔ اور دیکھیں کہ اس لڑائی میں پہلے ہندوستان جیتتا ہے کہ پاکستان جیتتا ہے؟ ‘‘
بدقسمتی سے ہمارے ملک کے ریٹنگ کے چکر میں پھنسے ہوئے میڈیا نے بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان کو ہنسی میں اڑا دیا ۔ ترقی کا یہ موقع تمسخر کی نظر کر دیا اور اس چیلنج کو کسی نے قبول نہیں کیا۔
مایوسی کی اندھیری رات میں پھنسے ہمارے ملک پاکستان میں اگرکسی امید کی کرن پر باتیں ہوتی ہیں تو وہ اس کے مستقبل سے وابستہ ہوتی ہیں۔ وہ مستقبل جو پاکستان کی آئندہ آنے والی نسل ہے۔ جو ملک کا نوجوان طبقہ ہے جسے ٹی۔ وی کے پروگراموں میں ملک کا تعلیم یافتہ نوجوان، باشعور نوجوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا حقیقت میں بھی ہمارا مستقبل تابناک ہے؟ کیا ہمارا نوجوان حقیقت میں تعلیم یافتہ اور باشعور ہے؟ کیا ہم نے اپنے ملک میں تعلیم کے لئے اتنے وسائل مہیا کئے ہیں کہ ہمارا مستقبل تابناک کہلا سکے؟ کیا ہم نے تعلیم کے شعبہ میں اتنی سہولیات دی ہیں کہ ہم کل کو دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کر سکیں یا وہ ٹیکنالوجی اپنے ملک میں پیدا کر سکیں؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہمارے پاس زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اپنے ملک کا مستقبل روشن کرنے کے لئے ہم 100 روپے میں سے 2٫5 روپے بھی خرچ نہیں کر رہے۔ تعلیم کا معیارتو جو ہے اور جس طرح ہے اس کا علم تواس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا کی پہلی 500 یونیورسٹیز میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی ہے جس کا نمبر 490 ہے۔ باقی سب یونیورسٹیز 700 سے نیچے کا رینک ہی حاصل کر سکی ہیں ۔ جبکہ ہمسایہ ممالک کی کئی یونیورسٹیز اس فہرست میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہیں۔ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک معیار کو جو فرق امیر اور غریب کے لئے ہے اس سے بھی ہر کوئی واقف ہے ۔پاکستان میں اچھی تعلیم دلوانے کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ایک غریب آدمی اگر اپنا سارا وجود بھی بیچ دے تب بھی اپنے بچے کو صرف ایک سال کی اچھی اور عمدہ تعلیم بھی نہیں دلوا سکتا ۔
جو سہولیات یا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جو ضروریات اس شعبہ میں مہیا کی جانی چاہئیں ان کا عُشر عشیر بھی ہماری حکومتیں مہیا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ پنجاب جو تعلیم کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہے وہاں پر یہ عالم ہے کہ طلباء کو گھر سے سکول اور سکول سے گھر تک آنے کے لئے کوئی سہولت میسر نہیں۔ خصوصاً اس حالت میں کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کل سکولوں میں سے صرف 20 فیصد سکول ثانوی تعلیم دینے کے قابل ہیں۔ اس لئے اگر ایک طالب علم ثانوی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے نہایت بھیانک طریقے سے سواریوں پر لٹک کر سکول جانا پڑتا ہے۔ اس دوران لڑائی جھگڑا روز کا معمول ہوتا ہے، جو اتنی نچلی سطح پر طالب علم کی تربیت خراب کرتا ہے کہ تعلیم کا اثر کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
اگر آپ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سفر کرتے ہوں تو آپ بڑی آسانی سے ان اعداد و شمار پر یقین کر لیں گے جو عالمی اداروں کی طرف سے شائع کئے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہمارے ملک کے 9 فیصد سکول ایسے ہیں جن کی کوئی عمارت نہیں، 38 فیصد سکولوں کی عمارتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور کسی بھی وقت گرنے کا اندیشہ ہے۔44 فیصد سکولوں میں بجلی نہیں۔ 34 فیصد سکولوں میں پینے کا پانی نہیں اور 28 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں ایک بیت الخلا ء بھی نہیں۔ ایسے حالات میں جہالت کا خاتمہ کیونکر ہو سکتا ۔
2012ء میں تعلیم کے عالمی ادارے UNESCO کی طرف سے پاکستان کی تعلیمی حالت پر ایک رپورٹ شائع کی گئی جس کے مطابق :
• دنیا میں سب سے زیادہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر ہے اور اس کے سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 5٫1 ملین ہے ۔ یعنی دنیا کے ہر 12 سکول نہ جانے والے بچوں میں سے ایک بچہ پاکستانی ہوتا ہے۔(2015ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اب یہ تعداد 6٫2 ملین تک پہنچ چکی ہے۔جبکہ اگر 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی بات کی جائے جو سکول نہیں جاتے یعنی یا تو سکول گئے نہیں یا سکول چھوڑ دیا تو یہ تعداد 25 ملین سے بھی اوپر بن جاتی ہے۔)
• بالغ خواتین کی ناخواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
• پاکستان میں تعلیم کا بجٹ بجائے بڑھنے کے کم سے کم ہوتا جا رہا ہے چنانچہ 1999ء میںGDP کا 2٫9 فیصد تعلیم کے لئے تھا جو اب 2٫3 فیصد رہ گیا ہے۔جبکہ بنیادی تعلیم کی نسبت دفاع کے شعبہ میں سات گنا زائد بجٹ صرف کیا جاتا ہے۔
• اسی طرح نظام تعلیم کے لحاظ سے امیر اور غریب کی تعلیم کی کیفیت میں بہت فرق ہے۔ امیر اور غریب کی تعلیم کے معیار کا یہ فرق معیاری تعلیم کو اور بھی محدود کر دیتا ہے۔
• پاکستان میں ہر تین میں سے ایک نوجوان ایسا ہے جس نے اپنا پرئمری سکول بھی مکمل نہیں کیا۔
ملک میں امن نہ ہونے کی وجہ سے، حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اور تعلیم کے شعبے کا بجٹ دوسرے شعبوں کو دینے کی وجہ سے شرح خواندگی میں جو معکوس ترقی 2012ء سے 2015ء تک ہوئی اس کا مختصر خاکہ حسب ذیل ہے:
پنجاب میں 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی 71 فیصد تھی جو اب 2015ء کی رپورٹ کے مطابق 63 فیصد ہے۔ سندھ میں 2012ء میں 69 فیصد لوگ خواندہ تھے جبکہ 2015ء میں 60 فیصد ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 60 فیصد سے کم ہو کر 53 فیصد رہ گئی ہے اور بلوچستان میں 50 فیصد سے 44 فیصد پر آ گئی ہے۔
ان اعداد و شمار سے ہرگز اس مضمون کو ثقیل کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ آئینہ دکھانا مقصد ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں ۔ مستقبل کو روشن بنانے کے لئے ہماری باتیں کیا ہیں اور ہمارا عمل کیا ہے۔ کیا ہم اپنی Investments صحیح مقامات پر کر رہے ہیں ۔ کیا بسوں اور ریل گاڑیوں کو ائیر کنڈیشن کرنے سے ہمارا مستقبل روشن ہونے کے امکانات ہیں؟ کیا تیز رفتار سفری سہولتیں فراہم کر کے ہم ملک سے جہالت کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟ کیا پل بنا کر ہم آئندہ آنے والے ان 25 ملین لوگوں کو معاشرے کا مفید وجود بنا سکیں گے جو آج تعلیم سے محروم ہیں اور کل روزگار کی تلاش کر رہے ہوں گے؟
گزشتہ دنوں ملک کے وزیر اعظم کا یہ بیان سننے کو ملا کہ موٹروے پر ہماری سرمایہ کاری اتنی اہم تھی کہ جو لوگ موٹروے کی مخالفت کرتے تھے وہ بھی آج اس پر سفر کرتے ہیں۔ ان کی یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک غریب سا گھرانہ تھا،جس کے گھر کھانے کو کچھ نہیں تھا، بچوں کے نام سکولوں سے فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے نکالے گئے تھے، قرض ان پر اتنا چڑھ گیا تھا کہ اگر وہ پڑوسیوں کے گھر بھی جاتے تو تو وہ ان کی بے عزتی کرتے اور پچھلے قرض واپس کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ بجلی اور گیس سے عاری اس گھر میں ،جہاں رہنے کو صرف ایک کمرہ تھا اورا س کا دروازہ بھی کچھ ٹوٹا پھوٹا سا تھا، دسمبر کی یخ بستہ سردی میں بچوں نے باپ سے کہا کہ ’’ابا ! کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں ٹھیک کروا دے۔ سردیوں کی ٹھنڈی ہوا جب اس سردی میں اندر آتی ہے تو جسم کاٹ جاتی ہےـ‘‘ باپ نے کہیں سے منت سماجت کر کے لاکھوں کا قرضہ لے کر گھر میں نیا کمرہ بنوایا،صرف اس کمرے میں بجلی اور گیس کا بھی کنکشن لگوایا، اس میں ضرورت سے بڑا Central Heating System لگوایا۔ اور اپنے ننگے، بھوکے اور قرض کے بدلے بیچے ہوئے بچوں کو اس میں بٹھایا۔ اور کچھ دن کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا ’’جن بچوں نے یہ نیا کمرہ اور سسٹم لگنے کی مخالفت کی تھی۔ آج ان میں سے کوئی بھی اس پرانے ، ٹوٹے ہوئے کمرے میں نہیں جاتا۔ دیکھا میں نے کتنا اچھا فیصلہ کیا تھا۔‘‘ اس پر بچوں نے زور زور سے تالیاں بجائیں اور یہ نعرے لگا لگا کر گلا بٹھا لیا کہ ’’دیکھو دیکھو کون آیا۔۔۔۔۔۔‘‘
(خاکسار کا یہ مضمون ماہنامہ ”نیو لاہور انٹرنیشنل“ لندن کی دسمبر 2016 کی اشاعت میں چھپ بھی چکا ہے۔ اردو نامہ کے قارئین کے لئے اسے یہاں مکرر تحریر کیا جا رہا ہے)
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: پاکستان میں تعلیم کی اہمیت

Post by علی خان »

بہت بہت شکریہ نصیر صاحب۔ بہت اچھا لکھا ہے
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
نصیر
کارکن
کارکن
Posts: 8
Joined: Mon Apr 30, 2012 8:54 am
جنس:: مرد

Re: پاکستان میں تعلیم کی اہمیت

Post by نصیر »

نوازش علی صاحب
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: پاکستان میں تعلیم کی اہمیت

Post by محمد شعیب »

بہت خوب
Post Reply

Return to “اردو کالم”