ڈاکٹروں کا مجرمانہ کردار

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
احمر اکبر
کارکن
کارکن
Posts: 28
Joined: Sat Sep 10, 2016 9:08 am
جنس:: مرد

ڈاکٹروں کا مجرمانہ کردار

Post by احمر اکبر »

ڈاکٹروں کا مجرمانہ کردار : احمر اکبر

ڈاکٹر ایک مسیحا سمجھا جاتا ہے دنیا میں ڈاکٹری کو مقدس ترین پیشوں میں جانا اور پہچانا جاتا ہے ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں بھی حضرت لقمان حکیم کا ذکر موجود ہے۔ڈاکٹر حکیم لقمان کی ہی جدید قسم ہے
ڈاکٹروں کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ ہمیں بچپن سے ہی یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ڈاکٹر سے کبھی بھی شرمانا نہیں چاہیے پہلے فیملی ڈاکٹر ہوا کرتے تھے اب جدید دور میں ان کی گھر آنے والی سروس تو ختم ہو ئی ساتھ ان کے ہزاروں نخرے بھی اٹھائے جاتے ہیں مخصوص ڈاکٹروں کو ہم اپنا رازدار بنا کر اپنی پریشانی اور جسمانی بیماریوں کے بارے میں بتا کر ان سے بہتر علاج کی توقع کرتے ہیں جس کی ہم مخصوص رقم بھی ادا کرتے ہیں اگر وہی ڈاکٹر جن کو ہم اپنا مسیحا مانتے ہیں ہماری عزتیں اچھالنے لگیں تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا یقینا میری طرح آپ بھی ردعمل کریں گے
اب آتے ہیں اصلی بات کی طرف ۔۔۔۔کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی جس کو دیکھنے کے بعد نہایت افسوس بھی ہوا اور اپنی قوم کی بے حسی پر ترس بھی آیا ۔تصویر میں دو ڈاکٹرز کسی سرکاری یا نجی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر( جو مجھے ابھی ٹھوس ثبوت کے ساتھ نہیں پتا ) اپنی سیلفی بنا رہے ہیں سیلفی بنانا جرم نہیں مگر اس تصویر کے پیچھے اگر ہم دیکھیں تو ایک بیٹی ایک بہن ایک ماں بنا کپڑوں کے نیم بے ہوشی کی حالت میں سٹیچر پر پڑی نظر آتی ہے ۔
مجھے سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ لگا کہ ہم جن ڈاکٹروں کے سپرد اپنی عزت کرتے ہیں وہ انتے گٹھیا اور بے شرم بھی ہو سکتے ہیں کہ عورتوں کی اس حالت میں جب وہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں نیم بے ہوش ہوتی ہیں ان کی عزت کو نیلام کیا جائے کیا ایسے ہوتے ہیں ڈاکٹر ؟؟؟!؟؟؟؟؟
کیا آپ اپنے ڈاکٹر سے کوئی ایسی توقع کر سکتے ہیں یقینا آپ میں سے کسی نے بھی کھی کوئی ایسی ریکی نہیں کی ہو گی ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ جن ڈاکٹروں کے پاس ہم بغیر کسی خوف کے جاتے ہیں ان کا عملہ یا وہ خود ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں یہ جو آج سب دیکھا آنے والی نسلوں کے لیے بھی فکر کی علامت ہے
سب لوگ کہیں گے یہ ان کا ذاتی فعل ہے سب ڈاکٹروں کو اس کیٹاگری میں مت ڈالیں۔ میں متفق ہوں مگر آپ لوگ خود بتائیں جو میں باتیں بیان کرنے لگا ہوں کیا وہ غلط ہیں ۔
عورتوں کو اس پورے بےہوشی کے دوران ہلکی پھلکی ہوش ہوتی ہے وہ بہتر بتا سکتی ہیں کہ کیا وہاں کی ڈاکٹر اپنا موبائل استعمال نہیں کرتی ؟
کیا ان کی نرسیں اور ان کا عملہ آپس میں مزاق نہیں کرتا ؟
کیا فی میل ڈاکٹر آپریشن کو میل ڈاکٹر سے نہیں کرواتی ؟
آج سے بیس سال پہلے وقت بہت اچھا تھا ڈاکٹر لوگوں کے گھروں تک جاتے تھے ہمارے فیملی ڈاکٹر کہلواتے تھے اب ہر کوئی اپنا کاروبار اپنا بزنس اپنا ہسپتال بنا کر عوام کو لوٹ رہا ہے اور ہم اور ہماری عورتیں بڑی خوشی سے ان کے پاس جا کر اپنا پیٹ چاک کرواتی ہیں اور کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے
ایک ڈاکٹر پر کتنا خرچہ آتا ہو گا کوئی اندازہ ہے آپکو ؟
ایک ڈاکٹر پر چالیس لاکھ تک خرچہ حکومت کا ہوتا ہے والدین کے علاوہ ۔دوسرے لفظوں میں وہ ہمارا پیسہ ہوتا ہے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ۔ ہمیں معلوم ہی کب تھا ہم سانپ پال رہے ہیں جو کل کو ہمیں ڈسیں گے پیسوں کے حوالے سے بھی اور عزت کے حوالے سے بھی ۔گائنی کے شعبے میں آج کل مردوں کو بہت چارم نظر آتا ہے اس کی کوئی خاص وجہ مجھے آپ ہی بتا دیں ؟ …..میں تو ناقص العقل ہوں کچھ بھی سوچ سکتا ہوں .
مجھ پر طنز کرنے سے پہلے میری کچھ گزارشات ضرور سن لیں
بڑے بڑے نام نہاد لیڈی ڈاکڑوں کے نام سے چلنے والے ہسپتالوں میں بھی 80%لیڈی ڈاکٹر صرف ڈیکوریشن پیس ہوتی ہیں وہاں آپریشن میل ڈاکٹر یا میل او ٹی کرتے ہیں اور میڈم پاس پڑی کرسی پر اپنے موبائل کے ایس ایم ایس چیک کر رہی ہوتی ہیں
آپریشن کا دورانیہ آدھا گھنٹا ہوتا ہے جو بڑا کر دو گھنٹوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے تاکہ ورثا سوچیں بہت تسلی بخش کام کیا جاتا ہے یہ نہیں پتا اندر نرس ، او۔ ٹی۔ ڈاکٹر موبائل میں مصروف ہیں
فیمیل سرجن کی نسبت میل سرجن زیادہ بہادری سے اور جلدی کام ختم کرتے ہیں مگر پھر عوام کو دھوکے میں کیوں رکھا جاتا ہے
ڈاکڑوں کی سہولت کے لیے پورے ہسپتال میں کیمرے لگے ہوتے ہیں کیا مریض کے ورثا بھی آپریشن تھیٹر کا اندرونی حال دیکھنے کی فرمائش نہیں کر سکتے
آپ یقین کریں۔ آج کل نجی ہسپتالوں میں ماحول کسی یورپی ملک سے کم نہیں ہے ۔یہ تصویر کسی سرکاری یا غریب نجی ہسپتال کی ہو سکتی ہے مگر یہ عزت ہم سب کی ہے ہم سب کی مائیں اور بہنیں ان کے پاس جاتی ہیں ان پر ہم اندھا اعتماد کیوں کرتے ہیں ؟
کیا ہمارے پاس آپشن ختم ہو چکے ہیں؟ کیا ہم ان جیسے گھٹیا لوگوں اور نام کی لیڈی ڈاکٹروں کے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتے ۔۔۔۔؟؟
عورت کی عزت و احترام ہم سب پر فرض ہے اگر یہ پڑھا لکھا طبقہ بھی اس سے قاصر ہو گا تو یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ سموگ ہمارے اوپر کیوں آچکی ہے وہ ہمارے اعمال کی نشانی ہے
ہم سب کب تک چپ رہیں گے کب تک اپنے اوپر ہونے والے ظلموں پر خاموش رہیں گے ابھی بھی وقت ہے ہم سب مل کر ایسے عناصر کا خاتمہ کر سکتے ہیں نشاندہی آپ کریں راہنمائی ہمارا ادارہ کرے گا مگر چپ رہنے سے ان جیسوں کو اور جرات مل جاتی ہے
میں حکومت وقت سے التجا کرتا ہوں کے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ایسے مسائل کا بھی حل کریں اور ہسپتالوں میں کچھ اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا
آپریشن تھیٹر میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہو
آپریشین تھیٹر کا عملہ جنس کے حساب سے ہو .مرد کے لیے مرد اور عورتوں کے لیے عورتیں ۔
آپریشن بے شک میل سرجن کرے مگر ان کے ساتھ تمام عملہ مہذب اور ایک ہی جنس کا ہو
ورثا کو آپریشن تھیٹر تک رسائی دی جاے تاکہ وہ اندرونی ماحول کو دیکھ سکیں
میں امید کرتا ہوں یہ مسئلہ جلد حل ہو گا اور ایسے عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دی جاے تاکہ دوبارہ ایسی جرات کوئی نہ کر سکے۔
Post Reply

Return to “اردو کالم”