قائدِ اعظم کا نصب العین اور عہدِ نو کی ضرورت

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

قائدِ اعظم کا نصب العین اور عہدِ نو کی ضرورت

Post by ایکسٹو »

تحریر: صاحبزادہ سلطان احمد علی
﴿یٰآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ، لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ﴿البقرہ ۸۰۲﴾
’’اے ایمان والو اسلام میں پوری طرح داخل ہوجائو اور شیطان کی پیروی مت کرو بیشک وہ تمہار کھلا دشمن ہے۔‘‘
اسی تجدید عہد، عزمِ عمل کے لیے ہم سب اپنے قائد و مرشدِ کریم کے روبرو اکٹھے ہیں۔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین مسلسل یہی پیغام دے رہی ہے کہ حضور سلطان الفقر ششم، بانیٔ اصلاحی جماعت و بانیٔ عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد اصغرعلی صاحب کے پیغام کا دائرۂ کار صرف حلقۂ مریدین، ایک طبقۂ فکر، ایک مسلک یا ایک مذہب تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرۂ کار اللہ ل کی پیدا کردہ ان تمام مخلوقات تک ہے کہ جو عقل و شعور رکھتی ہیں اور ان مخلوقات تک بھی ہے جو عقل و شعور نہیں رکھتیں ۔ اس لیے یقینا بلاشک و شبہ آپ جس تحریک سے وابستگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہاں پہ تشریف لائے ہیں ، وہ تحریک کسی تشدداور تعصب پر یقین نہیں رکھتی بلکہ اسلام کی آفاقیت اور اسلام کی عالمگیریت کے تحت آفاقی اخُوّت اور عالمگیر امن کی داعی ہے۔
اگر صرف ایک لفظ میں اسلام کے پیغام کا جوہر بیان کیا جائے تو وہ ایک جامع ﴿Comprihensive﴾ لفظ ’’عالمگیر امن‘‘ ہے یعنی ﴿Universal Peace﴾ ۔ یہ اسلام کی تمام تعلیمات کا مآخذ، تمام مباحث کا نچوڑ اور تمام مقاصد کا لبِ لباب ہے۔ اگر آپ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے مقاصد ، اس کی غرض و غایت ، اس کے مشن اور اس کی تعلیمات کو ایک لفظ میں سننا چاہیں تو وہ لفظ یہی ’’عالمگیر امن‘‘ ہوگا۔
الحمد للہ! ہم اس تحریک سے وابستہ ہیں جو تحریک اس ’’عالمگیر امن‘‘ کا پیغام دیتی ہے جس کو قائم کرنے کے لیے اللہ ل نے ہمیں اپنی کتاب ، وحی ، الہام اور اپنے انبیائ کرام علیھم السلام کے ذریعے راستہ دکھایا جو صحیفے،کتابیں ، وحی اور الہام لیکر آئے۔ تمام انبیائ کرام علیھم السلام اپنے ذِمہ خدمات سرانجام دیتے رہے اور بالآخر نبی آخر الزماں خاتم الانبیائ محمد رسول اللہ ﷺ اس کائنات میں جلوہ فرما ہوئے ۔ جب آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو اللہ ل نے پھر اسی راستے کی طرف مسلمانوں کو گامزن ہونے اور عالمِ انسانیت کو اپنا سفر جاری رکھنے کا حکم دیا کہ یہ تمہارا راستہ ہے اس راستے پہ تم چلتے جائو ۔
میں ایک ابتدائی گزارش کردوں کہ آپ اگر اسلام کی تحریک کو دیکھیں تو ایک لاکھ چوبیس ہزار ﴿ کم وبیش ﴾ انبیائ علیھم السلام تشریف لائے اور ایک روایت کے مطابق کم از کم ستر ہزار صرف بنی اسرائیل میں تشریف لائے ، دنیا کے تمام خطوں میں ، دنیا کے مختلف ممالک میں انبیائ علیھم السلام کا ظہور ہوا اُن تمام نے دین کے ارتقائی مراحل کو طے کیا اور ہر نبی دین کے ارتقائی مرحلے ﴿Evolution﴾ کو طے کرتا جاتا ۔ رسول اللہ ﷺ کے اوپر دین کی تکمیل ہوئی۔ اللہ ل نے یہ خوشخبری دی :
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ ﴿المائدۃ ۳﴾
’’یارسول اللہ ﷺ ! ہم نے آپ پر آج دین کو مکمل کردیا‘‘ ۔
اس ارتقائ کے بعد دین کے نفاذ کی بات شروع ہوئی۔ یوں تو دین کا نفاذ سیدنا آدم ں سے ہی شروع ہوا لیکن نفاذِ دین کی وہ تحریک اپنے پورے جذبے اور پوری روح ﴿Spirit﴾ کے ساتھ خطبہ حجۃ الوداع میں نظر آتی ہے جس میں حضور رسالتمآب ﷺ نے انسانیت کے امن کے لیے ایک عالمگیر منشور ارشاد فرما دیا ۔ اس کے بعد نفاذ دین کامرحلہ شروع ہوا کہ جو چیز حضور ﷺ لے کر آئے ، جس کا ارتقائ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائ علیھم السلام کرتے رہے اب دین کو نافذ کیا جائے تاکہ دنیا کو امن ، سکون اور استحکام ﴿Stability﴾ کی ضمانت فراہم کی جاسکے ۔ دنیا کو ایک ایسا کنبہ بنا دیا جائے اور ایسا گھر بنا دیا جائے کہ جس گھر کے اندر نوحے نہ پوٹھیں بلکہ تبسم پھوٹے ، جس گھر کے اندر مرثیے نہ پڑھیں جائیں ، بلکہ خوشی کے گیت گائے جائیں اور وہ گھر اللہ ل کی امان میں رہے، وہ گھر اللہ ل کے تحفظ کی ضمانت میں رہے وہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ یہ دنیا اللہ ل کے بنائے ہوئے ’’عالمگیر امن ‘‘کے مشن پر لبیک کہہ دے۔
جب ہم اس تحریکی نقطۂ نظر سے حضور سلطان الفقر کی اس تحریک اور کاروان کوآج حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس میں دیکھنے کے لیے ہمارے پاس دو مختلف زاویہ ہائے نظر ہیں۔ میری یہ بات بالخصوص اپنے نوجوان بھائیوں اور تحریکی ساتھیوں سے ہے کہ جب ان دونوں زاویہ ہائے نظر کو ہم اپنے تحریکی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو وہ ایک ہی سمت ﴿Direction﴾ میں سفر کرتے ہیں ۔
ایک ہماری تحریک کا ’’ملی عملی ‘‘ نقطہ نظر ہے۔
دوسرا ہماری تحریک کا ’’ روحانی عملی ‘‘ نقطہ نظر ہے ۔
دونوں کی قیادت جن پہ ہم یقین رکھتے ہیں کو دیکھیئے ۔ اگر آپ اپنی روحانی فکر کی طرف دیکھیئے تو وہ آپ سے کیا چاہتی ہے؟ وہ آپ سے نفاذِ دین، نفاذِ شریعت ، نفاذِ قرآن اور نفاذِ سنت چاہتی ہے۔۹مئی ۱۱۰۲ئ کو مرکزی تربیّتی نشست میں بندہ ناچیز نے تمام تحریکی ساتھیوں کے سامنے ایک سوال رکھا تھاکہ آپ اپنے سلسلے میں دیکھیئے جس میں آپ روحانی تجدیدِ عہد یعنی بیعت رکھتے ہیں کہ وہ تحریک آپ کو کس طرف راہنمائی کرتی ہے؟ وہ کس طرف آپ کو لے کر جاتی ہے ؟ کیا آپ نے اپنے مرشد کریم اور اپنے قائد محترم کا کوئی ایک عمل، کوئی ایک قول، کوئی ایک فعل ایسا دیکھا ہے جو قرآن ،سنت یا شریعت سے متصادم ہے؟
میرے جن ساتھیوں اور بھائیوں نے حضور سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سنگت اختیار کی انہوں نے آپ کا کوئی عمل، کوئی قول، کوئی فعل ایسا دیکھا جو قرآن یا سنت سے متصادم ہو؟ کوئی ایسا موقعہ یا کوئی ایسی محفل جس میں آپ نے نفاذِ دین یا نفاذِ عمل کے اوپر تلقین نہ فرمائی ہو؟ اپنی روحانی نسبت میں آپ اس سے آگے جائیں۔
میرے وہ بزرگ، میرے وہ دیرینہ ساتھی اور میرے وہ محسنین کہ جنہوں حضور شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی، آپ کی صحبت اور آپ کی مجلس جنہیں نصیب رہی کیا ایک عمل بھی حضور شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا دیکھا کہ جو شریعت سے متصادم ہو؟ شریعت کا ایک مستحب بھی آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ترک نہیں ہوا۔ آپ اس سے آگے جائیے۔
شہبازِ عارفاں حضرت سید سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کو دیکھیے، کیا وہ منبع شریعت نہیں تھے ؟ آپ کے ظاہری لباس سے، آپ کے ظاہری وجود مبارک سے، آپ کی ظاہری صورت مبارک سے لیکر آپ کے باطن کی عمیق گہرائیوں تک ایک لمحہ یا ایک مرحلہ آپ کی حیاتِ طیبہ کا ایسا نہیں کہ آپ نے شریعت کو ترک فرمایا ہو یا اس کو ترک کرنے کا کوئی راستہ بتایا ہو ۔ آپ شریعت پر سختی سے کاربند رہے۔ اپنی روحانی نسبت میں اس سے آگے آئے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا واضح طور پر کہا :
ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم
’’میں نے ہر مرتبہ شریعت سے حاصل کیا اور شریعت کو ہی اپنا پیشوا بنائے رکھا‘‘
پھر آپ اپنی اس روحانی نسبت میں آگے جائے، اپنی تحریک کی اس روحانی وابستگی میں، حضور غوث الاعظم سیّدنا شیخ سید عبدالقادر جیلانی صکو دیکھیئے ۔ آپ کو پتا ہے کہ حضور غوث پاک ص کا لقب ہے ’’محی الدین‘‘ ۔ یعنی دین کو زندہ کرنے والا کہ جب بغداد کے گلی کوچوں میں الحاد دندناتا پھرتا تھا ،کبھی کوئی فرقہ جنم لیتا ، کبھی کوئی بحث جنم لیتی ، کبھی کوئی ایشو چھڑتا، کبھی کوئی مناظرہ ہوتا اس تمام الحاد کو اگر کسی نے آکر بغداد سے مٹا دیا تو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ص کی ذات بابرکات تھی جسے آپ ص کے عہد کے علمائ، فقہائ، محدثین، مفسرین اور صاحبانِ بصیرت نے کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا ۔ ’’یا حضور! آپ نے دین کو زندہ کیا کہ لوگ جب یہاں پہ دین کا جنازہ نکالنا چاہتے تھے ‘‘ ۔
حضور غوث پاک ص سے آپ آگے جاتے ہیں تو خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ہماری روحانی نسبت بنتی ہے۔ تو خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی پوری کی پوری تحریک بھی نفاذِ دین کی تحریک تھی ۔ حضرت عمر ص مسجدِ نبوی کے ستون سے اوٹ لگا کے، آنکھیں بند کرکے کھڑے ہیں۔ حضور ﷺ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں عمر کیا سوچ رہے ہو۔ یا رسول اللہ ﷺ! میں سوچ رہا ہوں کہ کونسا ایسا طریقہ ہوسکتا ہے کہ میں پوری زمین پر آپ ﷺ کے دین کا نفاذ کردوں۔
اس سے بھی آگے آئیے حضور رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ گرامی ۔ آپ ﷺ نے جس دین کی بنیاد رکھی آپ ﷺ کا مقصد اس دین کا عملی نفاذ تھا ۔ پھر قرآن حکیم کو دیکھیے ۔ قرآن حکیم نے بھی ہمیں اسی عمل کے اوپر کاربند رہنے کا حکم دیا ۔
اب آپ آئیے اپنی ملی زندگی کے حوالے سے کہ جن شخصیا ت کی عملی زندگی پر اور جن شخصیات کی فکرپر ہم اپنی ملی و بین الاقوامی سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں ان میں ہمارے قائد محترم ، ہمارے مرشدِ کریم حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی مدظلہ العالی ہیں۔ آپ کی پوری تحریک اسی بات کا مژدہ ہے اور اسی بات کا اعلان ہے کہ ’’ففرو ا الی اللہ‘‘ اور اس سے آگے بڑھیے ، حضور سلطان الفقر بانی اصلاحی جماعت و بانی عالمی تنظیم العارفین ، آپ کی پوری کی پوری تحریک نفاذِ دین کی تحریک ہے ، نفاذِ شریعت کی تحریک ہے اورجب ہم اس فکر کے لیے اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ ﴿میں زمانی اعتبار سے یہ شخصیا ت پیش کررہا ہوں﴾۔
حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیے ، حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیے جو یہ اعلان کرتے ہیں :
دیں ہاتھ سے دیکر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
ہندوستان میں اگر ہم دیکھیں تو اورنگ زیب عالمگیر وہ شخصیت ہے کہ جس نے احیائے دین ، تجدیدِ دین اور نفاذِ دین کے لیے ہندوستان میں اپنے مغل ایمپائر کو اسلامی خلافت میں تبدیل کردیا۔ علامہ اقبال اورنگ زیب عالمگیر کویہ خراجِ تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکے کہ
درمیان کارزارِ کفر و دیں
ترکشِ مارا خدنگِ آخریں
’’کفر اور اسلام کی اس جنگ میں ﴿بلاشبہ ﴾ اورنگ زیب عالمگیر ہماری ترکش کا آخری تیر تھا ۔ ‘‘
اختصار کرتے ہوئے عمرِ ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ان کی پوری کی پوری تحریک اسی عملی جدو جہد اور دین کے نفاذ کے لیے تھی جب قوم کو اتنا بے حس کردیا گیا کہ قوم کے ہیروز کو بوریوں میں بند کرکے لاتوں سے مار دیا جاتا تھا اور قوم میں کوئی سوال اٹھانے والا نہیں ہوتا تھا کہ بھئی اس ہیرو کا کیا قصور تھا کیوں آپ نے اس کو پھانسی پہ چڑھا دیا ؟ کیوں آپ نے اسے سولی پہ چڑھا دیا ؟ کیوں اس کا خون کردیا گیا ؟ اس بے حس قوم کے اندر چھ ماہ کے اندر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کیفیت نافذ کردی تھی کہ لوگ دینے کے لیے زکوۃ لیکر پھرتے تھے لینے والے کارندے کم پڑ گئے تھے۔ تاریخ نے عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو عمر ثانی کا لقب دیا ۔
عمر بن عبد العزیز سے آگے پھر خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین کا عہد آجا تا ہے۔ خلفائے راشدین کی تحریک اسی ضمن میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ حضور ﷺ کی تحریک اسی کے اوپر اور قرآن نے واضح طور پر اس کے احکامات ہمارے اوپر جاری کیے۔ واضح طور پر قرآن حکیم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر تم عالمی امن چاہتے ہو ، اگر تم اپنے آپ کو اس مرکزِ امن میں رکھنا چاہتے ہو تو:
﴿یٰآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً﴾
’’ اے ایمان والواسلام میں پوری طرح داخل ہوجائو ۔‘‘
پورے اتمام اور اہتمام کے ساتھ دین میں داخل ہوجائو ۔
﴿ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ﴾
’’ شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرو‘‘ ۔ کیوں ؟
﴿ اِنَّہ، لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾
’’بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘
اسی طرح سورۃ آل عمران آیت ۲۳۱میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾
’’اللہ ل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو تاکہ تم لوگ رحم کے قابل ہوجائو اور تمہارے اوپر رحم کیا جائے ۔‘‘
رحم کے قابل کون ہوگا؟ جو اللہ ل کی اطاعت کرے گا،جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا۔
﴿وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ، فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾﴿احزاب ۱۷﴾
’’اور جس نے اللہ ل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی پس تحقیق وہی شخص بہت بڑی کامیابی والا ہے ۔‘‘
اللہ ل نے سورۃ احزاب آیت ۶۳میں فرمایا:
﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا﴾
’’اور جو اللہ ل اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے گا بیشک وہ صریح اور کھلی گمراہی میں بہک گیا۔ ‘‘
اب بتائیے! کہ ہمارے لیے کونسا راستہ ہے جس راستے کو ہم نے اپنانا ہے اور جس پر ہم نے آگے بڑھنا ہے؟ ہم نے گمراہی کا راستہ اختیار کرنا ہے یا خدا کے دین اور مصطفی ﷺ کی شریعت کااختیار کرنا ہے۔ اللہ ل نے بڑے واضح اور صریح الفاظ میں فرمایا:
﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا﴾
سورہ المائدہ آیت ۰۵میں اللہ ل نے فرمایا :
﴿اَفَحُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًالِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ﴾
’’کیا وہ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں۔ اللہ ل سے بہتر کس کا حکم ہوسکتا ہے اس قوم کے نزدیک جو اللہ ل کی ذات پہ یقین رکھتی ہے ۔‘‘
آج ہمیں جس لادینیت کی طرف ابھارا جاتا ہے ، آج ہمیں جس الحاد ، ارتداد ، کفر ، کھلی اور صریح گمراہی کی طرف یعنی جس سیکولر ازم ﴿Secularism﴾ کی طرف ابھارا جاتا ہے اسے اللہ ل نے کہا:
﴿اَفَحُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ﴾
’’کیاوہ دَورِ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟‘‘
﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا﴾
’’اللہ ل سے بہتر کس کا حکم ہے؟‘‘
﴿لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾
’’اس قوم کے لیے جو اللہ ل کی ذات پہ یقین رکھتی ہے ۔‘‘
اب بتائیے! کہ ہماری منزل کیا بنتی ہے ؟ ہم اپنے اوپر اس لادینیت کو نافذ کردیں ؟ اس الحاد کو نافذ کردیں ؟ اس کفر کو نافذ کردیں ؟ جو اس سیکولر یلغار کے تحت ہمارے معصوم بچوں کے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے ۔ ہماری بیٹیوں کے ، ہماری بہنوں کے ، ہماری مائوں کے ، ہمارے بھائیوں کے ، ہمارے بیٹوں کے، ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں آج ڈالا جارہا ہے۔
کیا ہمیں اللہ ل پہ یقین نہیں ہے؟ کیا ہمیں اللہ ل پہ بھروسہ نہیں ہے ؟ کیا ہم اس ل کی وحدانیت کے قائل نہیں ؟ کیا ہم اللہ ل کے آفاقی احکام کے قائل نہیں ؟
اگر ہیں تو اللہ ل نے بتا دیا کہ اللہ ل سے بہتر کسی کا حکم نہیں ہوسکتا تو پھر خدا کی فرمانبرداری کرو۔ قرآن اور سنت تمہارا راستہ ہے۔ مغرب اور بھارت کے میڈیا کی صیہونی یلغار تمہارا راستہ نہیں ہے۔ خدا کادین ، خدا کا قرآن ، مصطفی ﷺ کی سنت تمہار اراستہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی غیرت ، اَسلاف کا پیغام، سلطان العارفین کا فقر اور اپنے قائد کا پیغام ، اپنے مرشد کا پیغام تمہارا راستہ ہے۔ اگر یہ یلغار نہ رکے اور دین کو ، دین کے فیصلے کو ، دین کی قوت کو ، قرآن کی آفاقیت کو، قرآن کی ابدیت کو ، قرآن کی لافانیت کو ، قرآن کی دوامیت کو ، قرآن کی ہمیشگی کو کوئی مٹانے یا روکنے کے لیے اٹھے اگر کوئی ﴿نعوذ باللہ ﴾ اس کا ابطال کرنے کے لیے اٹھے تو اللہ ل نے واضح حکم فرما دیا :
﴿وَ قَاتِلُوْا ھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکَوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ﴿سورۃ انفال ۹۳﴾
’’اے مسلمانو! لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ کوئی فتنہ اور کوئی فساد باقی نہ رہ جائے اور دین پورے کا پورا اللہ ل کے لیے ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ ل خوب دیکھ رہا ہے جو وہ کررہے ہیں ۔‘‘
دین کے نفاذ کے لیے اللہ ل نے واضح حکم فرما دیا کہ آخری حد تک جائو کیونکہ وہ آخری حد پہ جاتے ہیں تو پھر تمہیں بھی آخری حد تک جانے کی اجازت ہے اس لیے یہ جو الحادی تحریکیں اٹھ رہی ہیں اورانٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے ہمارے ذاتی خوابگاہوں ﴿ Personol-Bedrooms﴾ میں داخل ہورہی ہیں اس میں مجھے اور آپ کو قرآن سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔قرآن کے راستے کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ قرآن کے پیغام پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ تحریک ہے جو آپ کو سیدنا آدم ں سے لیکر حضرت عیسیٰ ں تک ارتقائ پذیر نظر آتی ہے اور حضور رسالتمآب ﷺ پہ آکے اس تحریک کا اِتمام ہوتا ہے ۔ پھر اس تحریک کے نفاذ کی بات چلتی ہے۔ اس کے نفاذ کے لیے اللہ ل نے اپنے برگزیدہ لوگوں کو ، اپنے نیک بندوں کو منتخب کیا ، علمائے ربانیین کو ، صوفیائے کاملین کو اللہ ل نے دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف کونوں میں یہ ذمہ داری دے کر بھیجا کہ جائو اور میرے دین کا نفاذ کرو ۔ انہوں نے کس راستے کو اپنایا ؟ انہوں نے اسی راستے کو اپنایا جو راستہ حضور رسالت مآب ﷺ نے اپنایا، انہوں نے اسی راستہ کو اپنایا جو راستہ ہمیں قرآن نے بتایا ہے۔
یہ تو روحانی فکر کے حوالے سے بات تھی کہ ہمارے جتنے بھی روحانی سرچشمے ہیں ان تمام سرچشموں کو آپ دیکھ لیں وہ تمام کے تمام دین کی اور شریعت کی بات کرتے ہیں اور میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جب لوگ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ اپنے آبائ و اجداد کی کوئی کرامت بیان فرمائیے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ کے نظریۂ فقرو تصوف اور نظریہ روحانیت میں کرامت کا کوئی جاہ و منصب نہیں۔ آپ نے تعلق باللہ میں استقامت کی بات کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی کرامت تعلق باللہ میں استقامت ہے۔ باقی تمام چیزوں کو حضرت سُلطان باھُو نے شعبدے بازی کے زمرے میں لیا اور انہیں ہیچ اور حقیر اور ناکافی ترین مقام پہ رکھا اور’’عین الفقر‘‘ میں اتنے سخت الفاظ ارشاد فرمائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ ’’ ابیاتِ باھُو ‘‘ میں یہاں تک آپ نے فرمایا:
نہیں فقیری جھلیاں مارن ستے لوگ جگاون ھُو
نہیں فقیری وچ ہوا دے مصلیٰ پا ٹھہراون ھُو
نہیں فقیری واہندی ندی سکیاں پار لگاون ھُو
فقیر یا صاحبِ کرامت کون ہے؟
نام فقیر تنہاں دا باھو جہڑے دل وچ یار تکاون ھُو
لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ کرامت کیا ہے؟ تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ نے میرے جدِ امجد کی کسی کرامت کو دیکھنا ہے تو وہ کرامت ان کی اولاد ہے۔ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو فیضانِ اسم اعظم کے بعد سب سے بڑی کرامت آپ کی اولاد ہے کہ آپ کے چار شہزادے ہیں اور ان میں کسی ایک کا بتائیں کہ ان کی زندگی میں کوئی ایک فعل ایسا سرزد ہوا ہو جو متصادمِ شریعت ہو اور چاروں شہزادوں نے اپنی زندگی ترویجِ دین کے لیے ، اشاعتِ دین کے لیے عملی طور پر بسر کی اور خود اس شریعت کا عملی پیکر اور عملی نمونہ بن کر دکھایا۔ یہ تو ہمارے روحانی سرچشمے کی بات ہے اور کچھ باتیں اس ضمن میں میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔
اب ہم اپنے اس روحانی فیضان کو ملی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ،حضرت علامہ اقبال کی طرف یا حضرت قائدِ اعظم کی طرف ، اورنگ زیب عالمگیر کی طرف یا عمربن عبد العزیز کی طرف یا خلفائے راشدین کی طرف تو آپ کو یہی فکر نظر آئے گی کہ ان کا راستہ کیا تھا؟ آج مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ہماری قومی قیادت بڑی دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ کھڑے ہوکر کہہ دیتی ہے کہ
’’ قائدِ اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے اور قائدِ اعظم ایک سیکولر آدمی تھا۔ ‘‘
او خدا کے بندے! الزام لگانے سے پہلے آپ نے اس کا مطالعہ کیا ؟ آپ نے اس کی تحریروں کو دیکھا، آپ نے اس کی تقریروں کو دیکھا، آپ نے اس کی ﴿Statements﴾ دیکھیں جو آپ فتویٰ لگا رہے ہیں کہ وہ ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ کس کی بات آپ کر رہے ہیں؟ آپ جس قائدِ اعظم کو سیکولر مانتے ہو وہ کوئی اور قائد ہوگا ۔ جس کا نام محمد علی جناح تھا ، جو پونجا جناح کا بیٹا تھا ، جو پاکستان کا بانی تھا اور پاکستان کا پہلا گورنر جنرل تھا، وہ قائدِ اعظم بالکل سیکولر نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح میرے سر پہ یہ ٹوپی پڑی ہے اسی طرح اس قائدِ اعظم کے سر کے اوپر محمد الرسول اللہ ﷺ کی شفقت کا ہاتھ تھا ،ان کی شفقت کا سایہ تھا۔ آپ خود قائدِ اعظم کی اپنی فکر سے دیکھیے کہ وہ کیا کہتے ہیں ؟ اُن کا ماخذ کیا ہے ؟ اُن کے فیضان کا سرچشمہ کیا ہے؟ وہ کہاں سے ﴿Inspiration﴾ لیتے ہیں ؟ وہ کہاں سے فیض لیتے ہیں ؟
30اکتوبر 1947ئ کو لاہور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا:
"If we take our inspiration and guidence from the Holly Quran the fianal victory will be ours."
’’اگر ہم اپنے فیضان کا سرچشمہ اور اپنی راہنمائی کا سرچشمہ قرآن کریم کو ہی بنا لیں اور اسی پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس کائنات میں آخری فتح ہماری ہوگی۔ ‘‘
کیا یہ کسی سیکولر کے لفظ تھے ؟یہ کسی سیکولر کی ﴿Statement﴾ ہے؟ اورقائدِ اعظم یہیں تک نہیں ٹھہرے ، قائدِ اعظم نے قرآن پر جس بصیرت کا مظاہرہ کیا آپ اگر قائدِاعظم کے اپنے الفاظ میں دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ وہ شخص قرآن سے کس قدر وابستگی رکھتا تھا ۔ اس کا عملی نصب العین صرف ایک خطۂ زمین نہیں تھا۔ وہ خطۂ زمین کے اوپر اسلام کا قلعہ تھا۔ قرآن کے متعلق اگر آپ دیکھیں تو 26دسمبر 1943ئ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی سیشن کی ﴿Concluding Speech﴾ کرتے ہوئے بڑے واضح طور پر پوری مسلم لیگ کو مخاطب کرکے قائدِ اعظم نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا:
"It is Islam. It is the Great Book, Quran, that is the sheet-anchor of Muslim India. I am sure that as we go on there will be more and more of oneness, one God, one Book, one Prophet and one Nation"
’’یہ کتاب عظیم یعنی قرآن کریم مسلمانوں کا آخری سہارا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔ یعنی ایک خدا ، ایک رسول ، ایک کتاب ایک قبلہ اور ایک قوم۔ ‘‘
یہی فکر تھی کہ حضرت علامہ اقبال نے کہا کہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی اور نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
اور کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
مسلمانوں کی اس وحدت کاقائدِ اعظم کے نزدی
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: قائدِ اعظم کا نصب العین اور عہدِ نو کی ضرورت

Post by ایکسٹو »

’’یہ کتاب عظیم یعنی قرآن کریم مسلمانوں کا آخری سہارا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔ یعنی ایک خدا ، ایک رسول ، ایک کتاب ایک قبلہ اور ایک قوم۔ ‘‘
یہی فکر تھی کہ حضرت علامہ اقبال نے کہا کہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی اور نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
اور کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
مسلمانوں کی اس وحدت کاقائدِ اعظم کے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “اردو کالم”