وطن سے محبت

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

وطن سے محبت

Post by ایکسٹو »

وطن سے محبت
تحریر۔: ایکسٹو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان بلکہ ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے. جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے، اپنی زندگی کے رات اور دن بتاتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں، جہاں اسکے دوستوں، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلی ، وہاں کے درو دیوار، وہاں کے پہاڑ، گھاٹیاں، چٹان، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں.

جو حضرات روز گار کے حصول کیلۓ تارک وطن ہیں‎ ‎ان کو صحیح تجربہ ہوگا،کسی کو اگر اپنے ملک کے کسی کونے میں کمانے کے لیے جانا ہوتا ہے تو اس کا اتنا دل نہیں پھٹتا جتنا ایک تارك وطن کا پھٹتا ہے جب وه بیرون ملک جا رہا ہوتا ہے کیوں؟
وجہ صرف یہی ہے کہ وطن سے محبت ایک انسان کی فطرت میں داخل ہے ،اِسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں ۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ سنئیے یہ الفاظ

”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے … کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں …. اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا. “)ترمذی)

یہ الفاظ نکلے ہوئے ہیں اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے ….جنہیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور اس وقت نکلے تھے جبکہ انہیں نکالا جا رہا تھا اپنے وطن سے. محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نہ نکلتے اگرانہیں نکالا نہ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیتیں جھيلیں پر اپنے وطن میں رہنے کوترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تومرتے کیا نہ کرتے، نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان پرمذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپورمحبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اورمدینہ کی آب وہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:

”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسے مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ. “)بخاری، مسلم)

اسلام نے ملک کے امن وامان کو غارت کرنے والوں کے ليے سخت سے سخت سزا سنائی ہے، صرف اس ليے کہ کسی کو ملک میں دہشت پھیلانے کی جرأت نہ ہو، قرآن نے کہا :

"جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد مچاتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے، یا ان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے یا ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاوں کاٹ دیا جائے، یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے". )المائدہ 33(

اسلام ہر اس کام کا حکم دیتا ہے جس سے ریاست کے لوگوں کے درمیان تعلق مضبوط رہے. اسلام نے وطن سے محبت کے تحت ہی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے. اسے بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے اورقطع رحمی کوفساد کا موجب بتایا ہے، تعلق قائم کرنے کی حد اس قدر وسیع ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" تم میں کا ایک شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے ليے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" ) بخارى و مسلم(

بلکہ اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے بھید بھاؤ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا شخص وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ “جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.

بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بهى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :

" اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے" ) صحيح الجامع 1424 (
دہشت گرد عوام کو فوج سے بدظن کرنے کی پوری کوشش میں لگے ہیں۔ مگر مت بھولیۓ کہ یہ ارض پاک ہمیں لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد میسر آئی ہے۔۔ اس‎ ‎ارض حسین کیلۓ ہماری نوجوان بہنوں کی عزتیں تار تار ہوئیں۔۔ اس ارض حسین کیلۓ‎ ‎ہمارے معصوم بچے خون سے نہاۓ اس ارض حسین کیلۓ ھماری بھائی بے جگری سے لڑتے ہوۓ کٹ کر مرے۔۔ اس ارض حسین کیلۓ‎ ‎ہماری قوم کے بوڑھوں کی داڑھیاں خون سے تر ہوئیں۔۔۔ اور آج دہشت گرد پاکستانیوں کو وطن پرستی کا طعنہ دے کرغیر ملکیوں کے اشاروں پر یہ ارض حسین ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔
پاکستانیوں ان دہشت گردوں کا بتلا دو یہ ارض حسین کل بھی ھماری تھی اور آج بھی ھماری ہے اور تا قیامت ھماری رہے گی۔۔ اس ارض حسین پر محمد صلی الله علیہ وسلم کی شفقت کا چھایا‎ ‎ہے۔۔ یہ ارض حسین دنیا کی واحد سرزمین ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آئی۔۔ اس کو بنانے والے الله کے دوست تھے‎ ‎اس کی حفاظت‎ ‎کرنے والا خود خدا ہے۔‎ ‎اسکی حفاظت کی دعائیں کرنے والے الله کے ولی ہیں یہ اولیاءالله کی سرزمین ہے۔۔‎ ‎دنیا کی کوئی طاقت اس ارض حسین کو نہیں مٹا پائی اور نہ مٹا سکے گی۔۔
دولت کے پجاری حکمرانوں تم جس قدر مرضی اس ارض حسین‎ ‎کو لوٹ لو الله کے فضل اس ارض حسین کے خزانے ختم نہیں ہوں گے۔ یہ پاک سر زمین ہمیشہ سونا اگلتی رہے گی۔‎ ‎اور الله پاک کے فضل وکرم سے ہمیشہ قائم ودائم رہے گی۔۔۔۔ انشاءالله
پاکستان زنده۔۔۔ پاکستان پائنده باد
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “اردو کالم”