انوکھا انصاف::::::سلیم صافی

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

انوکھا انصاف::::::سلیم صافی

Post by محمد شعیب »

سلیم صافی :::::::::::::::::::: انوکھا انصاف
یہ ہیں وہ ساٹھ تنظیمیں کالعدم تنظیمیں (1) لشکرجھنگوی، سربراہ ملک اسحٰق (2) سپاہ محمد پاکستان سربراہ علامہ سید محمد رضا نقوی(3) جیش محمد،سربراہ مولانا مسعود اظہر (4) لشکر طیبہ، سربراہ حافظ محمد سعید(5) سپاہ صحابہ پاکستان، سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی (6) تحریک جعفریہ پاکستان، سربراہ علامہ ساجد نقوی (7) تحریک نفاذ شریعت محمدی، سربراہ مولانا صوفی محمد (8) تحریک اسلامی سربراہ علامہ حامد علی موسوی (9) القاعدہ، سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری (10) ملت اسلامیہ پاکستان، سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی (11) خدام الاسلام، سربراہ مولانا مسعود اظہر(12) اسلامی تحریک پاکستان، سربراہ علامہ ساجد علی نقوی(13) جمعیت الانصار، سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خلیل (14) جمعیت الفرقان، سربراہ کمانڈر جبار (15) حزب الحریر، سربراہ نوید اظہر حسین بٹ (16) خیرالناس انٹرنیشنل ٹرسٹ، سربراہ بوشعیب (17) بلوچستان لبریشن آرمی، سربراہ حیربیار مری (18) اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان (19) لشکر اسلامی، سربراہ منگل باغ (20) انصارالاسلام، سربراہ قاضی محبوب (21) حاجی نامدار گروپ، سربراہ حاجی نامدار (22) تحریک طالبان پاکستان، سربراہ مولانا فضل اللہ (23) بلوچستان ری پبلکن آرمی سربراہ براہمداغ بگٹی (24) بلوچستان لبریشن فرنٹ، سربراہ ببرک بلوچ (25) لشکربلوچستان (26) بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، سربراہ خیربخش مری(27) بلوچستان مسلح دفاع تنظیم (28) شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی گلگت سربراہ آغاضیاء الدین (29) مرکز سبیل آرگنائزیشن سربراہ آغاضیاء الدین (30) تنظیم نوجوانان سنت گلگت سربراہ قاضی نثار (31) پیپلز امن کمیٹی لیاری (32) اہل سنت والجماعت(33) الحرمین فاونڈیشن(34) رابطہ ٹرسٹ (35) انجمن امامیہ گلگت بلتستان سربراہ آغا راحت حسین (36) مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گلگت بلتستان سربراہ شفاعت اللہ طارق (37) تنظیم اہلسنت و الجماعت گلگت سربراہ احمد رضا خان بریلوی(38) بلوچستان بنیاد پرست آرمی (39) تحریک نفاذ امن (40)تحفظ حدوداللہ (41)بلوچستان واجا لبریشن آرمی (42) بلوچستان ری پبلکن پارٹی آزاد (43) بلوچستان یونائیٹڈ آرمی (44) اسلام مجاہدین (45)جیش اسلامی (46) بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی(47)خانہ حکمت (48)تحریک طالبان سوات (49)تحریک طالبان مہمند(50)طارق گیدڑ گروپ (51)عبداللہ عزام بریگیڈ(52)ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (53)اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (54) اسلامک جہاد یونین (55)313 بریگیڈ (56) تحریک طالبان باجوڑ (57)امربالمعروف و نہی عن المنکر حاجی نامدار گروپ (58) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (59)یونائیٹڈبلوچ آرمی (60)جئے سندھ متحدہ محاذ ۔
یہ وہ ساٹھ تنظیمیں ہیں جنھیں حکومت پاکستان نے کالعدم قرار دیا ہے ۔ یہی فہرست میاں نوازشریف کی حکومت نے اس داخلی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں دی ہے جسے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے ۔ انصاف اور قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان سب کالعدم تنظیموں اور ان کے سربراہوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے لیکن ہماری سیاسی قیادت نے جو ایکشن پلان بنا یا ہے ، اس کی رو سے مذکورہ فہرست میں درج صرف ان تنظیموں کے وابستگان کے کیس فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیںگے جن کی تنظیم کے ساتھ اسلام یا کسی مسلک کا لفظ درج ہے لیکن پیپلز امن کمیٹی‘ بلوچستان لبریشن آرمی یا بلوچستان یونائیٹڈ آرمی کے وابستگان کے کیسز کو فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جائے گا کیونکہ اکیسویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ ان عدالتوں میں صرف ان دہشت گردوں کے کیسز کی سماعت ہوگی جو مذہب اور مسلک کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں ۔ عذیر بلوچ جیسے لوگ خواہ سو انسانوں کے قتل کے ملزم کیوں نہ ہوں لیکن انہیںملٹری کورٹس میں پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے مذہب یا مسلک کے نام پر بندوق نہیں اٹھائی لیکن لشکرطیبہ یا اہلسنت والجماعت کے ایک قتل یا اقدام قتل کے ملزم فوجی عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے مذہب کے نام پر جرم کیا ہے۔ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی یا جے یو پی کے کسی کارکن کا کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد کسی خلاف قانون حرکت میں ملوث پایا گیا تو حکومت اس کے کیس کو فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی کیونکہ وہ مذہب کے نام پر جرم کرتا ہے لیکن اے این پی، پیپلز پارٹی یا ایم کیوایم کے کارکن کو اسی طرح کے جرم کے بعد بھی ان عدالتوںمیں نہیں بھیجا جاسکے گا کیونکہ وہ مذہب کا نام استعمال نہیں کرتا ۔ کراچی میں کوئی ہزار بندوں سے بھتہ لے لے‘ کوئی درجن بھر لاشوں کو بوری میں بند کردے یا پھر بلوچستان میں کوئی فوج سے لڑے یا آبادکاروں کو گولیوں سے چھلنی کردے لیکن وہ ملزم فوجی عدالتوں میں پیش نہیں کئے جائیں گے ۔ گویا اس ملک میں اب مذہبی اور فقہی عصبیت سنگین جرم لیکن لسانی اور علاقائی عصبیت اب کم تر جرم ہے ۔ حالانکہ جرم ‘ جرم ہے ۔ وہ مذہب کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے‘ لسانی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے اور ذاتیات کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے۔ قتل ‘ قتل ہے اور ڈاکہ ڈاکہ ہے‘ چاہے جس نام سے بھی ہو۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا جرم ہے ‘ چاہے جس بھی نام سے ہو۔ اسی طرح خلاف قانون اور کالعدم قرار پانے والی تنظیموں میں تفریق کا دنیا کے کسی اور ملک میں تصور نہیں لیکن یہاں ایک طرح کی کالعدم تنظیموں کے سربراہ کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے لیکن دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے سربراہ کا نام آتے ہی لوگ آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں ۔ ہم نے تو مذہبی کالعدم تنظیموں میں بھی تفریق کررکھی ہے ۔ ایک قسم کی کالعدم تنظیم کے وابستگان قابل گردن زدنی قرار پائے ہیں تو دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے لوگ ریاست کے چہیتے ہیں ۔ سید منور حسن حکیم اللہ محسود کو شہیدکہیں تو قیامت برپا ہوتی ہے لیکن ریٹائرڈ جنرلز بالاجماع مولانا فضل اللہ‘ بیت اللہ محسود ‘ مولوی فقیر محمد اور منگل باغ کو مجاہد قرار دیتے رہیں تو پھر بھی محترم قرار پاتے ہیں ۔ سزا ملنی چاہئے لیکن ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر مجرم کو یکساں ملنی چاہئے ۔ فوجی عدالتیں اگر ضروری ہیں تو پھر خوف اور دہشت پھیلانے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر طرح کے ملزم کو اس کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے ۔ میڈیا پر اگر کالعدم تنظیموں اور ان کے وابستگان کو کوریج دینے پر پابندی ضروری ہے تو پھر سب پر یکساںلگادی جائے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ریاست تو ان کو آزاد چھوڑ دے اور میڈیا سے کہہ دیا جائے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کرے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پوری ملکی سیاسی قیادت نے ایک ایسے ایکشن پلان پر صاد کردیا کہ جو تضادات اور ابہامات کا مجموعہ ہے ۔
اس پلان میں جنگ کا اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کیاگیا ہے کہ جنگ کس کے خلاف ہوگی ۔ دہشت گرد کی واضح تعریف سامنے لائی گئی ہے اور نہ انتہاپسند کی ۔ مدارس کے نظام میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے لیکن یہ وضاحت موجود نہیں کہ کس طرح کی اصلاحات کی جائیں گی۔ میڈیا کو انتہاپسندوں اور اس کے ہمدردوں کے موقف کی تشہیر سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ رہنمائی کوئی نہیں کررہا کہ انتہاپسند کون ہیں اور ان کے ہمدرد کون ہیں ۔میں ان لوگوں میں شامل ہوں کہ جو مذہب کو تزویراتی اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کے قبیح عمل کے نتائج کو بری طرح بھگت چکے ہیں۔ میری تعلیم، ہوئی میرے رشتہ دار متاثر ہوئے، مجھے بھائیوں جیسے عزیز دوستوں کے جنازوں کو کاندھا دینا پڑااور اپنی ثقافت اور روایات کے جنازے نکلتے دیکھے۔ افغان پالیسی پر تنقید کی وجہ سے مجھے باہر کے ایجنٹ کے طعنے بھی سننے پڑے۔ میدان صحافت میں اترتے ہی ان کا ناقد ہونے کی وجہ سے مجھے1999ء میں افغان طالبان کی قید بھی کاٹنی پڑی اور میں ہی تھا کہ جو بتاتا اور سمجھاتا رہا کہ القاعدہ‘ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا نظریاتی منبع ایک ہی ہے ۔ مدارس کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی بھی میں 2002ء سے اپنی تحریروں میں کررہا ہوں لیکن اگر امتیازی قوانین کے ذریعے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی گئی تو خیر کی بجائے شر برآمد ہوگا۔ اس ملک میں رہنے والا ہر فرد برابر کا شہری ہے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئیے ۔ ہمارے ملک میں فساد کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں سب شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک طبقے کے لوگوں کے لئے جو چیز جرم قرار پاتی ہے، دوسرے طبقے کے لوگوں کے لئے وہ فیشن ہے۔ خوف اور دہشت جو بھی، جس نام پر بھی پھیلائے، سنگین سزا کا مستحق ہے۔ انسان کا قتل جو بھی، جس نام پر بھی کرے، قاتل ہے ۔ ریاست کے خلاف بندوق جو بھی، جس نام پر بھی اٹھائے، باغی ہے ۔ کالعدم جو بھی ہو، خلاف قانون ہے۔ اگر قانون اندھا بن کر ان سب کو ایک نظر سے دیکھے تو رحمت کا ذریعہ بنے گا لیکن اگر وہ مجرموں میں تفریق کرے، تو انتشار کا موجب ہوگا۔ موجودہ حکمران اور پالیسی ساز کسی کی سنتے ہیں اور نہ سنیں گے لیکن متنبہ کرنا اپنا فرض تھا، باقی ان کی مرضی۔
Post Reply

Return to “اردو کالم”