عدل اور اعتدال(سانحہ پشاور)

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

عدل اور اعتدال(سانحہ پشاور)

Post by محمد شعیب »

تحریر: فیض اللہ خان
میرے پاس سوائے یہ کہنے کے اور کچه نہیں کہ ظلم کا جواب ظلم سے نہ دیں ، جیسے بهی حالات هوں عدل قائم کریں جس سے بهی نمٹنا هو جو بهی فیصلہ کرنا هو انصاف سے کریں ایک کا ظلم دوسرے کی زیادتی کا جواز نہ بنائیں گروہ اور ریاست کا فرق ملحوظ خاطر رکهیں ریاست کی مثال گهر کے بڑے کی سی هے کہیں ایسا نہ هو کہ فریق مخالف کو آپکی کسی زیادتی کو اچهالنے کا موقع مل جائے جذبات میں ایسا اقدام هر گز نہیں اٹهنا چاهئے جو فریق مخالف کو کچه کہنے سننے کا موقع دے اور همارے پاس اسکا جواب نہ هو ، پهانسی دیں بالکل دیں اگر مگر کی تفریق کے بغیر، لیکن اگر پهانسی دو هزار چار کے بعد سے دینے کا فیصلہ کیا هے تو یہ ظلم سے بهی آگے بڑه کر کوئی چیز هے یہ تو اندهیر نگری سے بهی آگے کا معاملہ لگتا هے پهانسی دینی هے تو ان آٹه هزار کو دیں جنہیں سزا سنائی جا چکی پسند نا پسند کی بنیاد پر سزا انصاف نہیں انتقام هے ویساهی انتقام جو پشاور میں لیا گیا اور ظالم اسے دین کی بالادستی کی جنگ کا حصہ قرار دیتے هیں ، ریاست بڑا پن دکهائے ریاستیں جذباتی نہیں هوا کرتیں وہ تدبر کیساته فیصلے کرتی هیں کیا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تدبر سے فیصلے نہیں کئے ؟؟؟ یاد رکهئے امت پہ اس سے کڑا وقت شاید هی کوئی هو ، اپنے حواس بحال رکهئے جعلی نہیں اصلی مقابلے کریں کسی کو اعتراض کا موقع نہ دیں ، مولانا عبدالعزیز کا پیچها چهوڑ دیں کیا سارے ملک کا مسلہ مولانا عبدالعزیز هیں ؟؟؟؟ ویسے تو خیر انہوں نے سانحے کی مذمت کردی بس انکی غلطی شاید یہ تهی کہ باجوڑ و لال مسجد یاد دلادی هم اس مرحلے پہ صرف اپنا دکه سننا چاهتے هیں اسی لئے مخصوص حلقوں کو انکی بات بہت بری لگی ، لیکن لال مسجد کے باهر مظاهرے کو چهوڑ دیجئے اس سے کیا حاصل هوگا ؟؟؟ جب علماء و مفتیان جے یو آئی و جماعت اسلامی سپاہ صحابہ و حافظ سعید اس معاملے پر پہلی بار ریاستی موقف کیساته کهڑے هو هی گئے هیں تو انہیں طعنوں طنز و تشینع سے بند گلی کیطرف مت دهکیلئے اگر وہ آپ کے ساته چلنے پر آمادہ هو هی گئے هیں تو محبت دیجئے خیر مقدم کیجئے لعن طعن مت کیجئے مخصوص افراد کے نظریات کو مت لیکر چلئے یہ ملک سب کا هے دعوی بهی سب کا هے اسے سنبھالنے کا کام بهی ملکر هی کرنا هے نفرتوں کے بیج مت بوئیے بہت هو چکا ایک لمحے کو رک کر سانسیں درست کرکے منہ سے اڑتے جهاگ کو صاف کرکے اپنے ساته آنے والوں خوش آمدید کہئے ، ان سے نفرت کا رویہ نہ رکهیں فہم تدبر حکمت اور انصاف انہی باتوں میں بقاء هے ،یاد رکهئے نفرت کو نفرت سے نہیں ،محبت و عدل سے هی ختم کیا جاسکتا هے
Post Reply

Return to “اردو کالم”