یہ مضمون ایک مرتبہ ضرور پڑھیں

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

یہ مضمون ایک مرتبہ ضرور پڑھیں

Post by محمد شعیب »

ایم فل جینٹکس کے طالب علم اور اردو بلاگردوست ڈاکٹر اصغر ساجد صاحب کی سانحہ پشاورکے حوالے سے ایک چشم کشا تحریر
---------------------------------------------------------------------
سانحہ پشاور کے چند غور طلب پہلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اندوہناک واقعہ نے پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کر دئیے ہیں جو 14 سالہ اس جنگ میں کسی موقع پر نہیں پڑ ے۔میں نے اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا اور چند نتائج اخذ کئے جنہیں آپ کے حوالے کئے دیتا ہوں

مجھ سمیت بہت سے ایسے لوگ جو چند تحفظات کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اس امریکی جنگ میں اپنی ہمدردی امریکہ مخالف پلڑے میں ڈالتے تھے سوچنے پر مجبور ہوئے۔ بلاشبہ اس خطہ جسے ہم زمین کہتے ہیں اس پر بسنے والے انسانوں کے مختلف گروہ چاہے جتنے ہی حق و سچ کے شیدائی اور برحق گردانے جاتے ہوں، ان میں فطری طور پر کم یا زیادہ بُرائیاں اور غلطیاں پائی جاتی ہیں، خود ہم جس پارٹی یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اگر اس کے بارے انصاف کے ساتھ سوچیں تو ہمیں یہ سب نظر آئے گا۔ اسی طرح میری اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کی رائے تھی جس کا مختلف جگہوں پر اظہار بھی کیا گیاکہ تحریک طالبان میں غلطیاں موجود ہیں لیکن مقصد، خلوص اور عدل وانصاف کے پیش نظر وہ اس قابل ہیں کہ امریکہ کے مقابلے میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھا جائے۔ اس دوران وہ غلطیاں کرتے تو مذمت اور افسوس بھی کیا جاتا رہا۔ لیکن جب کوئی گروہ یا پارٹی پےدرپے اپنی غلطیوں کو دوہراتی جائے تو اس کا مجموعی تاثراس کے بقیہ عناصر پر حاوی ہو جاتا ہے۔ تحریک طالبان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، اسلام جنگ وجدل کے بارے جو ہدایات جاری کرتا ہے وہ مسلسل اس کے نافرمان بن چکے ہیں۔ لہذٰا اب وہ اس درجہ سے خود بخود گر چکے ہیں جس پر ان سے کسی سطح پر ہمدردی کا رویہ رکھا جائے۔ بظاہر اس معاملے پر امریکہ اور اسلام دشمن قوتوں کی جیت ہوئی ہے، لیکن اس شکست میں خود تحریک طالبان کے اپنے ہاتھ ہیں کہ ان کی اس جنگ کے حامی اب مشکل سےملیں گے۔

دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں پاکستان کی شرکت مبنی بر انصاف نہیں رہی، یہ شراکت محض ایک فون کال پر قبول کر لی گئی تھی اور سالہ سال گزر گئے کسی حکمران کو اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی جرات پیدا ہو سکی کہ اپنی خارجہ پالیسی کو از سر نو مرتب کر سکے۔ اس جنگ کے لیے پاکستان نے نہ صرف اپنی زمین اور اڈے فراہم کئے بلکہ تمام تر لاجسٹک سپورٹ سمیت عسکری طور پر نان نیٹو اتحادی کا اعزاز بھی حاصل کیا، پاکستان بھر سے افغان طالبان کے عملی حمایتوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کو بیچنا شروع کردیا حتی کہ اس مد میں ایک سال کے بچوں کا ریٹ بھی لگایا گیا۔ ان سہولتوں کے ساتھ امریکہ نے افغانستان پر ایک جنگ مسلط کی۔ اس اندھی جنگ کی کارپٹ بمباری سے لاکھوں معصوم افغانی شہید ہوئے بلکہ پہاڑتک ریزہ ریزہ ہو گئے۔ پاکستان کی مکمل حمایت کے باوجود امریکی معیشت کی کمر دوہری ہو گئی، اور کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کی مدد شامل جنگ نہ ہوتی تو امریکہ اور اس کی معیشت کے لیے یہ جنگ لڑنا اتنا آسانی سے ممکن نہ ہوتا۔ باوجود اس کے یہ جنگ افغانستان کے جنگی ماحول میں ناکام ہو گئی۔ حال حال میں اس کا مختلف جگہوں پر اقرار بھی کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران پاکستان میں موجود افغان طالبان کے دوستوں نے پاکستان کی اس مدد کے ردعمل میں پاکستان کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا، اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو امریکہ افغانستان میں آزما رہا تھا، اس کا مشاہدہ حال ہی کے آپریشن ضربِ عضب سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں کارپٹ جیٹ بمباری سے کئی بستیاں ملیا میٹ کر دی گئیں جو مختلف وجوہات کی بناء وہاں سے نقل مکانی نہیں کر سکے تھے۔ ان میں بھی معصوم بچے شامل تھے لیکن سچ پر پہرہ بھی تھا اس لیے ہماری نظریں یہ مناظر دیکھنے سے بچی رہیں۔
قانون فطرت ہے کہ جو قوم عدل و انصاف نہیں کر سکتی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا، ظلم کے مقابلے میں ظلم ہی ملا کرتا ہے آپ شاید اس بات سے اختلاف کریں لیکن یہ بات کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب "خدا کے لیے جنگ " میں بھی لکھی ہے' دنیا میں ہمیشہ شدت پسندی سے ہی شدت پسندی وجود میں آئی ہے'۔

اس قوم کو بہت چاہ تھی اور امریکہ سمیت بہت سے ممالک کی خواہش بھی پاکستان اپنےملک کے اندر آپریشن کے نام پر جنگ کا آغاز کرے، نتیجتاً ضرب عضب کے نام سےایک آپریشن شروع کیا گیا، یہ اسی دہشتگردی کیخلاف جنگ کے تسلسل میں تھی۔ 6 ماہ مسلسل بمباری کی گئی اور خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہیں کہ روزانہ درجنوں کے حساب سے دہشتگردوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔آرمی چیف نے اعلان کیا کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے اور تمام نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے۔ آپریشن کی 80 فیصد کامیابی کا اعلان بھی ہوا، ابھی حال ہی میں آرمی چیف امریکہ تشریف لے گئے، اس آپریشن کی کامیابی کی داد سمیٹ لائے۔ لیکن آرمی پبلک اسکول پر حملے نے اس آپریشن کی کامیابی کا پول کھول دیا۔ 2008 سے 2014 تک 20ہزار دہشتگرد مارے گئے، ضرب عضب میں 1800 دہشتگرد اڑائے گئے باوجود اس کے تحریک طالبان نے اپنے زندہ ہونے کاثبوت دیا ، پشاور کے حساس ترین علاقے اور آرمی میس سے چند کلومیٹر دور آرمی کے ہی ایک اسکول میں کامیاب کاروائی کر کے دل چھلنی چھلنی کر دئیے۔ اس قوم کی اکثریت اب زیادہ شدت کے ساتھ ان دہشتگردوں کا تباہ و برباد کرنا چاہتی ہو گی لیکن اس آپریشن کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں ان کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا اور افغانستان جنگ میں امریکہ کی ناکامی پر غور بھی کرنا ہوگا۔

اس واقعہ کا سب سے خوف زدہ پہلو یہ ہے کہ اس واقعے کو ملالہ واقعہ کی طرز پر 'سمبلائز' کر کے نہ صرف جہاد بلکہ مدرسوں، مذہبی لٹریچر اورخود اسلام اور مسلمانیت پر حملہ آور ہوا جا رہا ہے۔ جو دوست احباب ٹوئٹر پر موجود ہیں وہ اس کو لائیو دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی چلا رہا ہے کہ یہ نتیجہ دیکھ لیا اسلام کے جہاد کا، اسلام اس دور میں چلنے کے قابل نہیں، کوئی کہہ رہا ان مدرسوں کو ختم کر دیا جائے، کوئی پکار رہا ہے کہ مذہبی لٹریچرکو آگ لگا دی جائے، مذہبی اداروں پر پابندی لگا دی جائے۔ اور ان آنکھوں نے ایک شخص کو یہ کہتے دیکھا کہ آج تو خود کو مسلمان کہتے شرم آرہی ہے۔ اللہ رحم فرما، آج یہ حال ہوا کہ جن لوگوں نے اسلام کے احیا کے لیے جہاد کرنا شروع کیا، وقت نے ان کو اپنے ہاتھوں ایسا استعمال کیا کہ وہ خود اسلام کی راہ سے دور بھٹکے تو بھٹکے پاکستان میں اسلام کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا۔ آج اسلام اور جہاد کو جرات کے ساتھ بیان کرنے والے مارے شرم کے منہ نیچے کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
شاہنواز
دوست
Posts: 290
Joined: Mon Mar 05, 2012 2:19 am
جنس:: مرد

Re: یہ مضمون ایک مرتبہ ضرور پڑھیں

Post by شاہنواز »

آپ نے بجا فرمایا اور بات ہے بھی ٹھیک جب دوسروں کی لڑائی اپنے گھر میں لائی جائے تو اپنا ہی گھر تباہ ہوتا ہے اور اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا -
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: یہ مضمون ایک مرتبہ ضرور پڑھیں

Post by ایم ابراہیم حسین »

اسلام علیکم بھائی
اس واقعہ نے تو ایسے غم میں مبتلا کر دیا ہیں کے جس سے باہر نکل نا مشکل ہو گبا ہے اور آپ ٹوئٹر کا ذکر کیا بھائی کیا ہر شخص کی ذبان پر جاری الفاظ یہی کچھ ہے
بھائی اک بات اور جو میں جانتا ہو کے جس شخص کے باب دادا نے اپنے فائدے کے لیے اپنی ذبان بولنے والے اور ملک کے لوگوں کو ایسی جنگ میں ڈال دیا جو وہ کبھی نہیں نکل سکتے
معزرت ابھی باقی کا بھجتا ہو
Post Reply

Return to “اردو کالم”