تصوف کیا ہے؟

روحانیت کے موضوع پر مبنی تحاریر
Forum rules
کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ اور کسی خاص جماعت سے وابستہ تحریریں سختی سے منع ہیں۔
انتظامیہ اردونامہ
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

تصوف کیا ہے؟

Post by اعجازالحسینی »

علم تصوف کے شرعی ثبوت کے لیے تین دلائل بیان کیے جاتے ہیں :
دلیل نمبر
الله جل شانہ کا فرمان ہے:﴿وذروا ظاھر الاثم وباطنہ﴾․ (الانعام آیت:140)
ترجمہ: اور ظاہری گناہ اور پوشیدہ گناہ سب چھوڑ دو۔
تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت مرقوم ہے:”المراد بظاہر الاثم افعال الجوارح، وباطنہ افعال القلوب“․ ( تفسیر خازن ج2 ص:146)
ظاہری گناہ سے مراد اعضا وجوارح کے اعمال اور باطنی گناہوں سے مراد دل کے اعمال ہیں۔
لہٰذا انسانی اعمال کی تین قسمیں ہیں:
قسم اول:
وہ اعمال جن کا تعلق فقط انسان کے ظاہر سے ہے ۔ مثلاً :﴿کلوا واشربوا ولاتسرفوا﴾ (کھاؤ اور پیؤ اور اسراف نہ کرو۔) ﴿قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم﴾ ( آپ کہہ دیجیے ایمان والوں سے کہ نگاہیں نیچی رکھیں۔) ﴿فاعتزلوا النساء فی المحیض﴾( عورتوں سے حیض کے دوران علیٰحدہ رہو)
قسم دوم:
وہ اعمال جن کا تعلق انسان کے باطن سے ہے ۔ مثلاً :﴿وتوکل علی الله﴾ ( اور الله پر توکل کرو۔) ﴿وأفوض امری الی الله﴾ ( میں اپنا کام الله کے سپرد کرتا ہوں۔) ﴿لا تخشوھم واخشونی﴾ ( ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔)
قسم سوم: وہ اعمال جن کا تعلق انسان کے ظاہر سے بھی ہے اور باطن سے بھی، مثلاً نماز کے ظاہر کے متعلق فرمایا: ﴿واذا قاموا الی الصلوٰة قاموا کسالی﴾ ( اور جب کھڑے ہوتے ہیں نماز میں تو کھڑے ہوتے ہیں سستی کے ساتھ۔ ) اور باطن کے متعلق فرمایا: ﴿یراؤن الناس﴾ (انسانوں کے دکھانے کے لیے ) اعمال کے ظاہری حصے کا تعلق علم قال ( فقہ) اور باطنی حصے کا تعلق علم حال (تصوف) سے ہے۔ یہ دونوں علوم صحابہ کرام نے شارع علیہ الصلوٰة والسلام سے سیکھے، جس کی تائید درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے۔
# حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے : ” میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے علم کے دو برتن حفاظت میں لیے۔ ایک کو لوگوں میں پھیلا دیا اور دوسرا اگر پھیلاؤں تو یہ گردن کاٹ دی جائے۔“ اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دو علوم سیکھے، یعنی ایک علمِ قال اور دوسرا علم حال۔ (مشکوٰة، کتاب العلم)
#… سیدنا عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کو جب دفن کیا گیا تو حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ نے صحابہ رضی الله عنہم کی ایک محفل میں کہا: ”آج دس میں سے نو حصے علم فوت ہو گیا۔“ اس پر بعض صحابہ کرام نے ناگواری کا اظہار کیا تو حضرت عبدالله رضی الله عنہ نے فرمایا: ” اس سے مراد حیض ونفاس کا علم نہیں، بلکہ علم الله ہے۔“ یہ جواب سن کر سب حضرات مطمئن اور خاموش ہو گئے۔ پس اس پر صحابہ کرام رضی الله عنہم کا اجماع سکوتی ثابت ہوا اور صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کسی غیر شرعی بات پر ہر گز خاموش نہ رہتے۔ وہ تو باطل کے خلاف ننگی تلوار تھے۔
# حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے علم کے ستر ابواب بتا رکھے ہیں او رمیرے سوا یہ علم کسی اور کو نہیں بتایا۔“ (کتاب اللمع، ص:54)
# صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے بعض حضرات ایسے بھی تھے جنہیں ایک خاص قسم کا علم خصوصیت کے ساتھ حاصل تھا۔ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ کو منجملہ اور کئی باتوں کے منافقین کے ناموں کا علم تھا۔ انہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ علم راز میں بتایا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بھی ان سے دریافت کرتے تھے کہ کہیں میں تو ان میں سے نہیں ہوں۔
# بعض تابعین حضرات علم قال ( فقہ) میں صحابہ کرام سے بڑھے ہوئے تھے۔ چناں چہ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے بعض اوقات مسئلہ پوچھا جاتا تو فرماتے ” جابر بن عبدالله رحمہ الله سے پوچھو ، اہل بصرہ ان کے فتوی پر عمل کریں ۔“ حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ” سعید بن المسیب سے پوچھو۔“ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرمایا کرتے : ” حسن بصری رحمہ الله سے پوچھو۔ انہوں نے مسئلے یاد کر رکھے ہیں۔ ہم بھول گئے “ حالاں کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ صحابہ کرام کو یقین ومعرفت ( علم حال) میں تابعین پر ایسی فضلیت حاصل تھی جیسا کہ سورج کو چراغِ شب پر ۔ صحابہ کرام کے یقین کامل کااندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے، جسے حکیم ترمذی رحمہ الله نے شان الصلوٰة میں اور ابن الاثیر نے اسد الغابہ میں نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے ایک صحابی سے پوچھا:
اے حارث! صبح کیسے کی؟ تو حارث نے جواب دیا: اے الله کے نبی (صلی الله علیہ وسلم) ! میں نے الله پر سچے ایمان کی حالت میں صبح کی۔“ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”دیکھ تو کیا کہہ رہا ہے؟ اے حارث! بے شک ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے ، تیرے ایمان کیا حقیقت ہے؟“ تو حارث نے جواب دیا میں نے اپنے نفس سے علیٰحدگی اختیار کی اور اسے دنیا سے پھیر دیا ، جس کے نتیجہ میں میری نظر میں اس دنیا کے پتھر ، مٹی ، سونا اور چاندی برابر ہو گئے ہیں ۔ میں رات کو جاگتاہوں اور دن میں پیاسا رہتا ہوں۔ میری یہ کیفیت ہے کہ میں الله تعالیٰ کے عرش کو اپنے سامنے ظاہر دیکھ رہاہوں اور گویا میں جنت میں ایک دوسرے سے ملتے ہوئے او راہل جہنم کو چلاّتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
اس پر نبی علیہ السلام نے فرمایا: ”عرفت فالزم“۔ (تو جان گیا ہے او راسی پر جمارِہ۔) حضرت علی سے منقول ہے ” اگر جنت اور جہنم مجھے نظر بھی آجائے تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہو۔ “ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے بارے میں ان کی اہلیہ سے منقول ہے ” ابوبکر رضی الله عنہ کو لوگوں پر فضیلت نماز اورروزہ کی کثرت کی وجہ سے نہ تھی، بلکہ دل کے یقین ( معرفت) کی وجہ سے تھی “۔ اسی یقین ومعرفت کا نام علم حال ( تصوف) ہے ۔ یہ علم کتابیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ خواہشات نفسانی کے ترک کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ الله فرمایا کرتے تھے ” ہم نے تصوف کا علم قیل وقال کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا، بلکہ دنیا اور اس کی لذتوں کے ترک کرنے سے حاصل کیا ہے ۔“ پس ثابت ہوا کہ علم قال اور علم حال کی ندیاں سرچشمہٴ علوم نبوت ہی سے نکلی ہیں۔
دلیل نمبر
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” مجھ سے ( دین کی باتیں) پوچھا کرو۔ “ لیکن حضرات صحابہ کرام ہیبتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے غلبہ کی وجہ سے سوال نہ کرسکے ۔ چناں چہ ایک اجنبی آدمی مجلس میں آئے، بیٹھ گئے اور پوچھا ”ما الایمان“ (ایمان کیا ہے؟) ”ماالاسلام؟“ (اسلام کیا ہے؟) ”ما الاحسان؟“ (احسان کیا ہے؟)
یہ سوالات وجوابات حدیث جبرئیل میں معروف ہیں۔ مطلب یہ کہ غلبہ ہیبت کی وجہ سے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کو سوالات کرنے کی جرأت بہت کم ہوتی تھی۔ تعلم حقائق دینیہ کے لیے حق تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں بھیجا، تاکہ وہ سوال کریں اور معلم کائنات صلی الله علیہ وسلم جواب میں گوہر افشانی فرمائیں اور اس انداز سے صحابہ رضی الله عنہم کا دامن ، علمی جواہر پاروں سے بھرپور ہو ۔ سوالات کے جوابات دینے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”فانہ جبرئیل، اتاکم یعلمکم دینکم“ ( یہ جبرئیل آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے) اس تعبیر میں یہ بات بتا دی گئی کہ علوم دینیہ کا خلاصہ ان جوابات میں موجود ہے۔ پس تمام احادیث کے علوم تین حصوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔
وہ احادیث جن میں دین کے اصول اور نظریات کی تعلیم ہے۔
وہ احادیث جو اعمال ظاہرہ کی اصلاح سے متعلق ہیں۔
وہ احادیث جو اصلاح باطن سے متعلق ہیں۔
حدیث جبرئیل میں ان تینوں قسموں کا ذکر آگیا۔ ”ماالایمان؟“ میں اصلاح عقائد کا مضمون آگیا۔ ” ماالاسلام؟“ میں اعمال ظاہرہ کی اصلاح کا مضمون آگیا اور ” ما الاحسان؟“ میں اصلاح اخلاق کا مضمون آگیا۔ چند جملوں میں پورے دین کا خلاصہ بیان کر دینا پیغمبرانہ اعجاز ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ”جوامع الکلم“ میں سے ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت انتہائی جامعیت کی حامل تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دین کے ان تینوں حصوں کی کماحقہ تشریح اور اشاعت کی۔
صحابہ کرام رضی الله عنہم میں بھی جامعیت کی شان کافی حد تک تھی ۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ ساتھ جامعیت میں کمی آتی گئی۔ اس لیے علمائے امت نے دین کی حفاظت وخدمت کے لیے ان شعبوں کو تین مستقل علیٰحدہ علیٰحدہ علوم میں مدون کر دیا۔
تصحیح عقائد کے سلسلہ میں کتاب وسنت میں جو ہدایات دی گئیں ،ان کی حفاظت وخدمت کے لیے ” علم کلام“ مدون ہوا۔
اعمال ظاہرہ کے متعلق جو رہنمائی کتاب وسنت نے کی ہے، اس کی تشریح کے لیے ” علم فقہ“ کو مدون کیا۔
اصلاح باطن کے متعلق جو باتیں کتاب وسنت نے بتائی ہیں، ان کی تفصیلات کے لیے ” علم الاحسان، علم الاخلاق، علم التصوف“ مدون ہوا۔
ان علوم ثلاثہ میں کامل دسترس رکھنے والا ہی محقق او رکامل عالم دین کہلانے کا حق دار ہے ۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ تینوں علوم ”تیسیر علی الامة“ کے لیے مدون کیے گئے۔ یہ علوم قرآن وسنت سے کوئی الگ چیز یا ان کے خلاف کوئی محاذ نہیں، بلکہ کتاب وسنت کی روح او ران کے ثمرات ہیں ۔ شیخ زروق رحمہ الله اپنی کتاب ” ایقاظ الہمم“ میں لکھتے ہیں ۔: ”تصوف کی نسبت دین کے ساتھ اسی طرح ہے جیسے روح کی نسبت جسم کے ساتھ“۔
#… حضرت مجدد الف ثانی رحمہ الله اپنے ایک مکتوب میں ملا حاجی محمد لاہوری کو تحریر فرماتے ہیں : ” شریعت کے تین حصے ہیں۔ علم ، عمل، اخلاص۔ جب تک یہ تینوں اجزا متحقق نہ ہوں شریعت متحقق نہیں ہوتی۔ جب شریعت متحقق ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے، جو کہ تمام دنیاوی اور اخروی سعادتوں سے بالاتر ہے ۔ طریقت وحقیقت جس سے کہ صوفیا ممتاز ہوئے ہیں ، دونوں شریعت کے تیسرے حصے ( یعنی اخلاص ) کی تکمیل میں شریعت کے خادم ہیں ۔ پس ان کی تحصیل صرف شریعت کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے ۔
احوال ومواجید اور علوم ومعارف جو اثنائے راہ میں حاصل ہوتی ہیں وہ مقاصد میں سے نہیں۔ ان سب سے گزر کر مقام رضا تک پہنچنا چاہیے۔ جو کہ سلوک کا آخری مقام ہے، اس لیے طریقت وحقیقت کی منزلوں کو طے کرنے کا مقصد تحصیل اخلاص ( احسان) کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ ( جلد اول، مکتوب سہ وششم)
# حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله فرماتے ہیں : ”مقصود صوفیہ کے طریقہ عالیہ کا ، مشاہدہ حق کا حصول ہے ”کانک تراہ“ اوراس حضور کا نام انہوں نے ” مشاھدہ بالقلب“ رکھا ہے ۔“ ( انتباہ فی سلاسل اولیاء الله ص:39)
دلیل نمبر
حدیث متواتر کی تعریف اور اس کے قطعی الثبوت ہونے کی دلیل میں اہل اصول لکھتے ہیں: ” حدیث متواتر وہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد نے ہر زمانے میں اس کی روایت کی ہو کہ عقل سلیم اور انسانی عادات اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنے کثیر انسانوں نے غلط بیانی اور افترا پردازی پر اتفاق کر لیا ہے اور یہ کسی سازش کا نتیجہ ہے۔“ (نخبة الفکر)
چناں چہ قرن ثانی سے لے کر اس وقت تک بلا انقطاع اور بلا استثنا ہر دور اور ہر ملک کے کثیر التعداد مخلص بندوں نے علم تصوف کو حاصل کیا۔ خود فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو پہنچایا۔ یہی دلیل علم تصوف کی حقانیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے #
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
# حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”ہماری صحبت اور ہماری تعلیم جو آدابِ تصوف وسلوک سے تعلق رکھتی ہے یہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند متصل صحیح اور جاری کے ذریعے ملتی ہے۔“
خلاصہٴ کلام:
صحابہ کرام رضی الله عنہم نے علم ظاہری او رعلم باطنی یعنی علم قال وعلم حال رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سیکھا اور اس وقت سے امت میں ان علوم کی اشاعت وترویج جاری وساری ہے، آج کے دور میں علم قال کو فقہ یا شریعت اور علم حال کو تصوف یاطریقت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ دونوں علوم انسان کی ایمانی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ جس طرح کنز وھدایہ اور شرح وقایہ پڑھنا ضروری ہے ، اسی طرح ابو نصر سراج کی ” کتاب اللمع“ ابو طالب مکی کی ”قوت القلوب“ امام غزالی کی ” اربعین“ شیخ سہروردی کی ” عوارف المعارف“ اور حضرت مجدد کے ” مکتوبات“ پڑھنا ضروری ہے۔ اگر روایت میں کمال حاصل کرنے کے لیے عسقلانی اور قسطلانی رحمہما الله سے استفادہ ضروری ہے تو درایت میں کمال حاصل کرنے کے لیے جنید وبایزید رحمہما الله سے فیضیاب ہونا ناگزیر ہے۔
تصوف مشاہیر امت کی نظر میں
# شیخ ابوطالب مکی قوت القلوب میں لکھتے ہیں : ” دونوں علوم اصلی ہیں، جو ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہیں۔ بمنزلہ اسلام اور ایمان کے ۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔ جیسے جسم اور قلب کہ ان میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا۔
# شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ الله لکھتے ہیں : ” شریعت حقیقت کا ظاہر ہے اور حقیقت شریعت کا باطن۔ دونوں لازم وملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کی تکمیل نہیں ہوتی۔“
# حضرت امام مالک بن انس رحمہ الله فرماتے ہیں : ” جس نے (علم) فقہ حاصل کیا، مگر ( علم) تصوف حاصل نہ کیا اس نے فسق کیا ۔ جس نے ( علم) تصوف حاصل کیا، مگر ( علم) فقہ حاصل نہ کیا وہ زندیق ہوا۔ جس نے ان دونوں ( علوم) کو جمع کیا پس وہ محقق ہوا۔“
# علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں: ” طریقت وشریعت دونوں لازم ملزوم ہیں۔“
# اکبر الہ آبادی مرحوم نے شریعت وطریقت کے حوالے سے چند خوبصورت اشعار پیش کیے ہیں #
سنو دو ہی لفظوں میں مجھ سے یہ راز
شریعت وضو ہے طریقت نماز
شریعت در محفل مصطفیا
طریقت عروج دل مصطفیا
شریعت میں ہے صورت فتحِ بدر
طریقت میں ہے معنی شقِ صدر
شریعت میں ہے قیل وقال حبیب
طریقت میں حُسن وجمالِ حبیب
نبوت کے اندر ہیں دونوں ہی رنگ
عبث ہے یہ صوفی وملا کی جنگ
پس ثابت ہوا کہ علم تصوف کوئی عجمی چیز نہیں بلکہ خالص مکی اور مدنی چیزہے ۔ البتہ جاہل صوفیاء کی وہ باتیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں ہمیشہ رد کی جائیں گی۔
#امام ابو القاسم قشیری رحمہ الله فرماتے ہیں: ” شریعت کی ہر وہ بات جس کی تائید حقیقت سے نہ ہو وہ غیر مقبول ہے اور حقیقت کی ہر وہ بات جو شریعت کی قیود میں نہ ہو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔“
# حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ الله فرماتے ہیں:”طریقت کی ہر وہ بات جسے شریعت رد کر دے زندقہ اور کفر ہے۔“
# حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ الله اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں : ” وہ ریاضتیں اور مجاہدے جوتقلید سنت سے الگ ہو کر اختیار کیے جائیں معتبر نہیں ہیں۔
اس لیے کہ جوگی اور ہندوستان کے براہمہ اور یونان کے فلاسفہ بھی ان کو اختیار کرتے ہیں اور یہ ریاضتیں ان کی گمراہی میں اضافہ کے سوا او رکچھ نہیں کرتیں۔“ (جلد اول مکتوب دو صدوبست ویکم)
# حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ الله تحریر فرماتے ہیں:” بعض جہلاء جو کہہ دیتے ہیں کہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ،محض ان کی کم فہمی ہے۔ طریقت بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں ۔ صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے ۔ قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے۔ آئینہ زنگ آلودہ ہے تو پیشاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے اور گلاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے لیکن فرق نجاست وطہارت کا ہے ۔ ولی الله کو پہچاننے کے لیے اتباعِ سنت کسوٹی ہے۔ جو متبع سنت ہے وہ الله کا دوست ہے او راگر مبتدع ہے تو محض بے ہودہ ہے۔ خرق عادات تو دجال سے بھی ہوں گے۔“ (رجوم المذنبین ص:129)
لہٰذا سالک کو چاہیے کہ علم تصوف ان حضرات سے سیکھے جن کا علم وعمل اور قال وحال کتاب وسنت کے عین مطابق ہو۔ جاہل وبے عمل صوفیاء کی بے ہودہ باتوں پر ہر گز ہر گز فریفتہ نہ ہو۔عربی کا مشہور مقولہ ہے: ” خذ ما صفا ودع ماکدر“ جو صاف ہو وہ لے لو اور جو میلا ہو وہ چھوڑ دو۔

مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی
بشکریہ ماہنامہ الفاروق
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: تصوف کیا ہے؟

Post by علی عامر »

جزاک اللہ،

مدلل مضمون کے اشتراک پر ممنون ہوں۔
گلومی
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Fri Oct 08, 2010 12:51 pm
جنس:: مرد

Re: تصوف کیا ہے؟

Post by گلومی »

v;g ، بہت ہی اعلی مضمون لکھا ہے جناب.

شیرنگ کا شکریہ
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: تصوف کیا ہے؟

Post by اعجازالحسینی »

بہت شکریہ آپ کا
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “روحانیات”