::: اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کی صِفات العُلیا پر اِیمان :::::

روحانیت کے موضوع پر مبنی تحاریر
Forum rules
کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ اور کسی خاص جماعت سے وابستہ تحریریں سختی سے منع ہیں۔
انتظامیہ اردونامہ
Post Reply
عادل سہیل
کارکن
کارکن
Posts: 60
Joined: Sun Apr 29, 2012 7:25 pm
جنس:: مرد

::: اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کی صِفات العُلیا پر اِیمان :::::

Post by عادل سہیل »

::: اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کی صِفات العُلیا پر اِیمان :::::
بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن الرَّحِیم ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رسولہِ الکریم مُحمدٍ و عَلیٰ آلہِ و أصحابہِ و أزوجہِ أجمعین
السلام علیکم ورحمۃ ُ اللہ و برکاتہ،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ فَيَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ:::ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو زمین کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ، اور اِرشاد فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دُعا کرے اور میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اُسے عطاء کروں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اُسکی بخشش کر دوں))))) صحیح بخاری /حدیث /1145 کتاب التھجد /باب14 الدُّعَاءِ وَالصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، صحیح مُسلم /حدیث /1808 کتاب صلاۃ المُسافرین /باب24 التَّرْغِيبِ فِى الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِى آخِرِ اللَّيْلِ وَالإِجَابَةِ فِيهِ،
اِمام حافظ ابن القیم رحمہُ اللہ کا فرمان ہے کہ""" عبّاد بن العوّام رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ، ہمارے پاس شریک واسط تشریف لائے تو ہم نے اُنہیں کہا ، ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو (((((يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا))))) والی حدیث کا اِنکار کرتے ہیں،
تو شریک رحمہ ُ اللہ نے فرمایا """ہمیں یہ احادیث بھی اُنہوں نے ہی بتائی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دُوسری احادیث بتائی ہیں ، جو کہ نماز ، روزے ، زکوۃ اور حج (وغیرہ)کے بارے میں ہیں ، اور ہم نے اللہ تعالیٰ (کی ذات اور صِفات العُلیا )کو اِن ہی احادیث کے ذریعے جانا ہے"""،
اِمام الشافعی رحمۃ ُ اللہ علیہ کا فرمان ہے """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کی اِتباع کرنے کے عِلاوہ کچھ اور جائز نہیں ،کیونکہ اللہ نے اِس کی اِتباع فرض کی ہے ، اور جِس مسئلے کو سُنّت مُبارکہ نے ثابت کر دیا ہو اُس کے بارے کوئی ایسا جو (قُران کا) عِلم رکھتا ہو "کیسے" اور"کیوں"نہیں کہہ سکتا"""،
لہذا ہم اللہ تعالٰی کی ہر اُس صِفت پر اِیمان رکھتے ہیں جو قران پاک کی آیات میں ، اور صحیح ثابت شُدہ احادیث مُبارکہ میں وارد ہوئی ہے ، اور ہم اُن صفات العُلیا کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کرتے بلکہ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اُن کی کیفیت اللہعزّ و جلّ ہی جانتا ہے ، پس ہم اللہ پاک کی اُن ثابت شدہ صِفات پر کسی کیفیت کو وارد کیے بغیر ، کسی قِسم کی تشبیہ کے بغیر اِیمان رکھتے ہیں ، ایسا نہیں کہتے اور نہ ہی اُسے مانتے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا ہے ، اور ہم اِن صِفات میں کسی قِسم کی تعطیل کیے بغیر ، کِسی قِسم کی کمی کیے بغیر ، کسی قِسم کی کوئی لفطی یا معنوی تحریف کیے بغیر اُن صِفات پر اِیمان رکھتے ہیں ،
اور نہ ہی اُن صِفات کی اپنی طرف سے کوئی تفیسر کرتے ہیں اور نہ ہی کِسی ایسی تفیسر کو مانتے ہیں جو خود اللہ یا رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ثابت نہ ہو،جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے پنڈلی سے مُراد اُس کی قوت ہے ، اللہ کے ہاتھ سے مُراد اُس کی قُدرت ہے وغیرہ وغیرہ ،
اگر یہ (مذکورہ بالا ) تفیسر (اور اِس جیسی دیگر تفاسیر)دُرُست ہوتی تو اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں ضرور اِس کی خبر فرماتے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجعمین سے اس کا درس ملتا ، لیکن اُن کی طرف سے کہیں بھی ایسی کوئی تفیسر ثابت نہیں،
پس ہم کہتے ہیں کہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ سمیع یعنی سُننے والا ہے اور بصیر یعنی دیکھنے والا ہے تو ہم یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اُس کی سماعت اور بصارت ہماری یا کسی بھی مخلوق کی سماعت یا بصارت جیسی نہیں ، خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی ہمیں یہ بتایا ہے ((((( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ:::اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے)))))سورت الشُوریٰ(42) /آیت 11،
ہم یہودیوں کی طرح اللہ عزّ و جلّ کی صِفات کو تشبیہ دے کر ، یا اُن کی تعطیل کر کے ، یا اُن کی مَن گھڑت تفسیر کرکے اللہ کی لعنت کے مُستحق نہیں ہونا چاہتے(((((وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا :::اور یہودیوں نے کہا اللہ کا ہاتھ(گردن کے ساتھ)بندھا ہوا ہے(یعنی معاذ اللہ، اللہ کنجوس ہے)اُنہی کے ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ اُنہوں نے کہا اُس کے سبب اُن پر لعنت کی گئی )))))سورت المائدہ(5)/آیت 64،
پھر اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نےاِسی آیت مُبارکہ میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی اور اپنی عطاء کی صِفت بیان فرمائی (((((بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ:::بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے )))))سابقہ حوالہ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد پاک ہے کہ (((((إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ على مَنَابِرَ من نُورٍ عن يَمِينِ الرحمن عز وجل وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ في حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وما وَلُوا:::یقیناً اِنصاف کرنے والے جو کہ اپنے فیصلوں میں ، اپنے گھر والوں میں اور جو کچھ اُن کے ذمے لگایا جائے اُس میں اِنصاف کرتے ہیں(وہ لوگ قیامت والے دِن)رحمٰن کے دائیں(سیدھے)ہاتھ کی طرف روشنی کے منبروں پر ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہی ہاتھ دائیں ہیں)))))صحیح مُسلم /حدیث1827/کتاب الاِمارۃ /باب5،
پس ہم اِیمان رکھتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ ہیں ، اور دو ہاتھ ہیں ، اور دونوں اپنی مخلوق کو عطاء کرنے کے لیے کھلے ہیں ،اور دونوں دائیں ہیں ، ہم یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے اللہ کی صِفات کی خود ساختہ تفاسیر نہیں کرتے،بلکہ اُن صفات پر بالکل اُسی طرح اِیمان رکھتے ہیں جِس طرح اللہ جلّ و عُلا نے یا اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ، اور جِس طرح اُن پر اِیمان رکھنے کی تعلیم دی ہے ، ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ کا بھی اِنکار نہیں کرتے ، اور نہ ہی اُس کی تاویل کرتے ہیں ، اور اللہ پاک کے فرامین مُبارکہ اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کو سمجھنے کے لیے مادی پیمانوں، دُنیاوی علوم ، ذاتی سوچوں ، نفس کی سرگوشیوں ، تخیل کی جولانیوں ، فہم و ادارک کےخود ساختہ معایر وغیرہ کو ذریعہ نہیں بناتے ، کیونکہ یہ سب ذرائع سوائے گمراہی کے کِسی بھی اور طرف لے جانے والے نہیں ، اللہ ہم سب کو اور ہر کلمہ گو کو ہر گمراہی سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور دُرست منھج اپنانے کی جُرأت عطاء فرمائے ،و السلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 20/09/1431ہجری، بمُطابق، 30/08/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
http://bit.ly/2GcEPoD
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post Reply

Return to “روحانیات”