آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

امہات المومنین کے بارے میں معلوماتی مضامین
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

Post by چاند بابو »

[center]آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ حضرت عائشۃ صدیقہ رضی اللہ عنہا[/center][center]تحریر : حافظ محمد ادریس [/center]

طبعی میلان :۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرد صحابہ میں سے سب سے زیادہ محبت اور تعلق خاطر حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ تھا ۔ امہات المو منین میں سے سب سے زیادہ قلبی محبت اور طبعی میلان حضرت عائشہ صدیقہ کی طرف تھا ۔ آنحضور اپنے برتاؤ کے لحاظ سے اپنی ازواج کے درمیان مکمل عدل و مساوات قائم رکھتے تھے ۔جہاں تک طبعی میلان کا تعلق ہے اس بارے میں آپ اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ اس پر آپ کا اختیار نہیں اس لیے اس پر مواخذہ نہ کیا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ طبعی میلان پر انسان کا زور و اختیار نہیں ہوتا ۔ ظاہری معاملات میں بھی وہی شخص انصاف کا مظاہرہ کر سکتاہے جو اللہ کے خوف سے مالا مال ہو ۔
ذہانت کا نمونہ : ۔
حضرت عائشہ صدیقہ بہت خوب صورت بھی تھیں اور نہایت زیرک و سمجھ دار بھی ۔ وہ آنحضور کے نکاح میں تحقیق شدہ روایات کے مطابق12 یا15 سال کی عمر میں آئیں ۔ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ جب وہ بالکل چھوٹی بچی تھیں اور اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ کھلونوں سے کھیل رہی تھیں تو آنحضور کا ان بچیوں کے پاس سے گزر ہوا ۔ بچیوں کے کھلونوں میں حضرت عائشہ کے پاس ایک گھوڑا تھا جس کے پر تھے ۔ آنحضور نے پوچھا عائشہ یہ کیاہے تو انھوں نے جواب میں کہایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ گھوڑا ہے۔ آپ نے فرمایا” گھوڑا کیسے ہے ؟ گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے “۔اس پر بنت ِ صدیق نے نہایت معصومانہ انداز میں ایک پتے کی بات کہی ۔ عرض کیا ”اے اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے ۔ “ اس ذہانت بھرے جواب پر آنحضور خوش ہوئے اور چہرہ انور متبسم ہو گیا۔
رخصتی :۔
روایات میں آتاہے کہ مہاجرین مکہ کو مدینہ آ کر آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آغاز میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ حضرت ابو بکر صدیق اور ان کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنمھا بھی شدید بیمار پڑ گئے ۔ جب حضرت عائشہ صحت یاب ہو ئیں تو حضرت ابو بکر نے آنحضور سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ اپنی اہلیہ کو اپنے گھر کیوں نہیں لے جاتے ۔ نکاح اس سے پہلے ہو چکا تھا ، رخصتی ابھی عمل میں نہیں آئی تھی ۔ نکاح کے وقت حق مہر طے ہو گیا تھا جو پانچ سو درہم تھا مگر ابھی تک اس کی ادائیگی نہیں ہو ئی تھی ۔ آنحضور نہیں چاہتے تھے کہ مہر کی ادائیگی کے بغیر زوجہ مطہرہ کی رخصتی عمل میں آئے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اس بات کا علم تھا کہ آنحضور فقر و فاقہ کا شکار ہیں چنانچہ انہوں نے آنحضور کو خود رضا کارانہ طور پر پانچ سو درہم قرض حسنہ کے طور پر پیش کیے ۔ آپ نے اپنے یار غار کی پیش کش قبول کی اور قرض کی یہ رقم لے کر حضرت عائشہ کو ادا کر دی ۔ نکاح اور رخصتی کے درمیان تقریباً دو سال کا عرصہ گزرا ۔ حضرت عائشہ ؓ کی عمر اس وقت سولہ یا سترہ سال تھی ۔
درد ناک واقعہ :۔

بیت نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ماہ و سال میں کئی نشیب و فراز نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑا واقعہ جس نے آنحضور کو بھی پریشانی میں مبتلا کیے رکھا واقعہ افک ہے ۔ یہ غزوہ بنی المصطلق کے سفر میں پیش آیا ۔ حکم نبوی کے مطابق منہ اندھیرے قافلہ چل پڑا ۔اس وقت حضرت عائشہ رفع حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکلی ہوئی تھیں ۔ کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھنے والے صحابہ یہ سمجھے کہ شایدزوجہ مطہرہ اس میں تشریف فرما ہیں لیکن وہ اس میں موجود نہ تھیں ۔اس بے خبری میں فوج کوچ کر گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہا واپس آئیں تو اس خیال سے وہیں مقیم ہو گئیں کہ جب قافلے کو معلوم ہوگا کہ میں ہودج میں نہیں ہوں تو واپس پلٹیں گے ۔ اس وقت رات ابھی باقی تھی اس لیے بیٹھے بیٹھے انہیں نیند آ گئی ۔ وہیں زمین پر لیٹیں اور سو گئیں ۔
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ جن کی دربار ِ رسالت کی طرف سے یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ رات کو کوچ کی صورت میں وہ قیام گاہ پررک جایا کریں اور صبح روشنی ہونے پر ساری قیام گاہ کا جائزہ لے لیا کریں کہ کسی کی کوئی چیز تو پیچھے نہیں رہ گئی ۔ اس صبح جب وہ اٹھے تو ام المومنین کو وہاں موجود پایا ۔ انہوں نے اپنااونٹ قریب لا کر بٹھا دیا اور دوسری طرف منہ کر کے بلند آواز سے انا للہ پڑا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت صفوان بن معطل ایک بہت نیک سیرت انسان تھے ۔ حضرت عائشہ بلا خوف و خطر اونٹ پر سوار ہو گئیں ۔ صحابی رسول نے اونٹ کی نکیل پکڑی اور ام المومنین کو ساتھ لے کر فوج کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
منافقین کی خباثت :۔

اس واقعہ کو بنیاد بنا کر منافقین نے ایک طوفان اٹھایا ۔ عبداللہ بن ابی ّ اس سارے فتنے کا سرغنہ تھا ۔ پاکدامن صدیقہ پر یہ تہمت اتنی بڑی جسارت تھی کہ اس کا تصور بھی ناممکن ہے لیکن بہر حال یہ واقعہ افک رونما ہوا اور جھوٹے پراپیگنڈے سے تین مخلص صحابہ بھی متاثر ہوگئے یعنی حضرت حسان بن ثابت ، حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت ِ جحش رضی اللہ تعالی عنھم۔ منافقین کئی دنوں تک اس اذیت ناک صورتحال کو ہوا دیتے رہے ۔ اللہ کے رسول اور حضرت ابو بکر صدیق پر یہ لمحات کس قدرگراں تھے اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ کو اس سارے طوفان کا پتہ کئی دن بعد چلا جب ان کی رشتے کی خالہ اور مسطح کی والدہ نے اپنے بیٹے کو بد دعا دی ۔ انہیں تعجب ہوا کہ اتنے اچھے بیٹے کو بد دعا کیوں دی جارہی ہے ۔ اس موقع پر ان کی خالہ کی زبانی ان کے سامنے حقیقت حال کھلی ۔
اذیت کے شب و روز :۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ قضائے حاجت کے لیےگھر سے باہر جارہی تھیں ۔ اس بات کا سننا تھاکہ عائشہ صدیقہ پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ وہ ہر چیز کو بھول گئیں اور پریشانی کے عالم میں وہیں سے واپس اپنے والد کے گھر لوٹ گئیں ۔ فتنے کے یہ سارے ایام ان کے لیے سوہان روح تھے ۔ وہ بستر سے لگ گئیں ۔ کسی سے بولتی چالتی بھی نہیں تھیں ۔ اللہ کے نبی جانتے تھے کہ ان کی زوجہ بالکل بے گناہ ہیں اور سیدنا ابو بکر صدیق کو بھی یقین تھاکہ ان کی بیٹی میں کوئی عیب نہیں ۔ عام صحابہ بھی اس بات پہ مطمئن تھے کہ صدیقہ پر لگنے والا الزام جھوٹ ہے لیکن ابھی تک ہر جانب خاموشی تھی تاآنکہ خود رب کائنات نے اس خاموشی کو توڑا ۔ سورہ نور میں وہ آیات نازل ہوئیں جنھوں نے منافقین کے منہ میں خاک ڈال دی ۔ بہک جانے والے مسلمانوں کو کذب کی سزا بھگتنا پڑی اور پورے معاشرے کو سرزنش کی گئی کہ کیوں نہ مسلمان مرد اور عورتیں اس افترا کو سنتے ہی پکار اٹھے کہ یہ افک مبین ہے ۔ یوں حضرت عائشہ صدیقہ کا بے داغ کردار قرآن کے صفحات کی زینت بن گیا ۔
مناقب عائشہ :۔
حضرت عائشہ کی برات کا حکم آیا تو ان کے والدین نے کہاکہ چلو آنحضور کا شکریہ ادا کرو ۔ انہوں نے بے ساختہ کہاکہ میں تو اللہ کے سامنے سجدہ شکر اداکرتی ہوں جس نے میری برات کا اعلان کیاہے ۔ آنحضور حضرت عائشہ سے بڑی محبت کیا کرتے تھے ۔آپ کا مشہور قول ہے کہ عائشہ کو خواتین پر ویسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو ۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں آنحضور مرض الموت میں مقیم تھے ۔ان دنوں چونکہ آپ کا دوسری امہات المومنین کے حجروں میں منتقل ہونا تکلیف کا باعث ہو سکتا تھا لہذا آپ نے سب سے اجازت لے لی کہ عائشہ کے حجرے میں ہی آپ مقیم رہیں ۔ ان ایام میں حضرت عائشہ دن رات آنحضور کی خدمت اور تیمار داری کرتی رہیں۔ حضرت عائشہ کا یہ بھی اعزاز ہے کہ آنحضور کی رحلت انہی کے حجرے میں ہوئی اور پھر یہیں آنحضور کی آخرم آرام گاہ بنی ۔ آنحضور کا سر مبارک حضرت عائشہ کی گود میں تھا جب آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی جانب محو پرواز ہو گئی ۔
بڑے دل والے :۔
حضرت عائشہ بہت عالم و فاضل خاتون تھیں۔وہ مفسرہ قرآن اور محدثہ بھی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی فقاہت بھی انہیں حاصل تھی ۔ ان کی عظمت کے کیا کہنے کہ حضرت حسان جنہوں نے واقعہ افک میں غلط فہمی کی بنیاد پر غلطی کر لی تھی انہیں نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اگر کوئی انہیں اس واقعہ کے حوالے سے برا بھلا کہتا تو اسے سختی سے منع فرما دیا کرتیں ۔ ان کے مناقب بیان کرتے ہوئے کہتیں کہ یہ وہ عظیم شخص ہے جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف سے اپنے لازوال اشعار میں کفار کے زہریلے اشعار کا مسکت جواب دیا تھا ۔ اسی طرح انہوں نے حضرت حمنہ اور حضرت مسطح کو بھی معاف کر دیا تھا۔
حضرت ابو بکر مسطح کی غربت کی وجہ سے ان کے پورے گھرانے کی کفالت کیا کرتے تھے ۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم کھا لی کہ اس شخص کی مدد نہیں کریں گے لیکن جب صدیقہ کی برات و پاکدامنی کی گواہی وحی میں آئی اور ساتھ ہی سورہ نور کی آیت نمبر22 میں یہ حکم آیا ” تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتے دار ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے ۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور در گزر کرنا چاہیے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفورا ور رحیم ہے۔“ تو انہوں نے فوراً رجوع کر لیا ۔ قسم کا کفارہ ادا کیا اور حضرت مسطح کی حسب سابق امداد بحال کر دی۔ یہ بڑے دل والے لوگ تھے ۔ عظمت کی ہر چوٹی انہوں نے سر کر لی ۔
جنگ جمل کا افسوسناک واقعہ :۔

حضرت عائشہ صدیقہ اگرچہ جنگ جمل میں حضرت علی کے مقابلے پر نکل کھڑی ہوئی تھیں لیکن بعد میں انہیں اس غلطی کا افسوس ہوا ۔اس جنگ کو یاد کر کے بے ساختہ رونے لگتیں اور کہا کرتیں اے کاش میں اپنے گھر سے نہ نکلی ہوتی ۔ اے کاش میں بیس سال پہلے فوت ہو گئی ہوتی ۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد ہمیشہ ان کا ذکر خیر کیا اور ا ن کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔
علم و عرفان کا سورج :۔

حضرت عائشہ نے مدینہ منورہ میں وفات پائی تو ا ن کی عمر تقریباً73 سال تھی ۔ ان کی وفات پر پورے عالم اسلام میں غم کی لہر دوڑ گئی ۔ روایات میں آتاہے کہ رات کے وقت ان کا جنازہ اٹھا تو مدینے کی گلیوں میں ہجوم تھا اور جنت البقیع میں ہر جانب انسان ہی انسان تھے محدث صحابی حضرت ابو ہریرہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہ جنت البقیع میں آسودہ خاک ہوئیں۔ حضرت عائشہ کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ وہ ام عبداللہ کی کنیت سے معروف تھیں لیکن یہ عبداللہ ا ن کے بیٹے نہیں بھانجے عبداللہ بن زبیر تھے ۔ یہ کنیت بھی انہوں نے آنحضور کی اجازت سے اختیار کی تھی ۔ ان کے اٹھ جانے سے علم و عرفان کا سورج غروب ہو گیا اور فقہ و اجتہاد کا بڑا دریا خشک ہو گیا ۔ انہوں نے صحابہ و تابعین کی صورت میں ہزاروں مرد و خواتین شاگرد اپنے پیچھے چھوڑے ۔ رضی اللہ عنھا و رضیت عنہ
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Post by مجیب منصور »

جزاک اللہ چاند بابو بھائی بہترین شیئرنگ ہے۔۔۔ایمان تازہ ہوگیا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

Post by اضواء »

الله يجزاك كل خير وبارك الله فيك
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

Post by اعجازالحسینی »

جزاک اللہ چاند بابو
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

Post by بلال احمد »

بہت بہت شکریہ چاند بابو.

بے شک اللہ ہی بہترین اجر عطافرمانے والا ہے
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

Post by علی عامر »

جزاک اللہ۔
مدرس
مدیر
مدیر
Posts: 1120
Joined: Thu Apr 01, 2010 12:42 pm
جنس:: مرد
Location: krachi
Contact:

Re: آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ

Post by مدرس »

جزاک اللہ خیرا
<a rel="nofollow" href="http:///www.darseislam.com">درس اسلام</a>
Post Reply

Return to “امہات المومنین”