شیشہ کا دل

محترم سید تفسیراحمد صاحب کے قلم سے تشکیل پانے والی مختلف تحریریں۔
Post Reply
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

شیشہ کا دل

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]
شیشہ کا دل [/center]


[list]اپنے کمرے سے نکلتے، میں نے باورچی خانے سے کانچ کے بکھرنے کی آواز سنی اور اس کے بعد ایک زبردست چیغ، پھر رونے کی آواز۔ میں دوڑتا ہوں وہاں پہونچا۔ سادیہ باورچی خانے کے درمیان کھڑی رو رہی تھی۔ ماں اور اباجان بھی وہاں پہونچ چکے تھے۔
اماجان نے سادیہ کو اپنی باہوں میں لے کر کہا۔ “بیٹا یہ تو صرف شیشہ تھا۔ ٹوٹنا تو اس کی قسمت میں ہوتا ہے۔ تم کیوں رو رہی ہو“ ۔
“ ماں مجھے یہ گلاس بہت پیارا تھا۔ جب میں دس سال کی تھی تو بھائ جان نےاس پرگلاب کا پھول بنوا کردیا مجھےدیا تھا۔ آپ کو تو یاد ہے نا “۔ سادیہ نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا۔
“ بیٹا ، بھیا کادل شیشہ کا نہیں ہے کہ ٹوٹ کر بکھر جائےگا“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔
“ اس دل میں تمہارے لیے شادابی اور ترو تازگی ہے۔ یہ وہ چمن ہے جس میں بہن کے لیے ہمیشہ پھول کھلیں گے“۔
میں نے کہا۔ “ پاگل بہن “۔
سادیہ نے چیغ کے کہا۔ “ بدھو بھیا“۔

٭٭٭
میرا بالا خانہ پرانے بکسوں سے بھرا ہے۔ میں کوئ چیز نہیں پھینکتا۔ جب وہ پرانی ہوجاتی ہے میں اسے ایک بکس میں رکھ کر بالا خانہ میں رکھ دیتا ہوں۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور کچھ کرنے کو نہ تھا۔ میں نے ایک کاغذات کا پلندہ دیکھا۔ میں پلندہ اٹھا کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ یہ خط ماں نے اباجان کو لکھے تھے۔

میں نے ایک خط کھولا۔ ایک جگہ لکھا تھا۔

“ تم نہیں جانتے کہ تمہارا آنا میرے دل کو باغ باغ کر دیتا ہے۔ جب تم چلےگئے تو مجھے ایسا لگا جیسے سورج نے چمکنا چھوڑ دیا ہے۔“

“ جس ہمت سے تم اپنی مشکلات کو سہہ رہے ہو۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ آخیر میں تم کامیاب ہو گے“۔

“ تم کتنے اچھے ہو۔ کیا مجھے یہ کہے ایک دن سے ذیادہ ہوگیا؟ یہ کھبی مت بھولنا کہ تمہارے دوست و احباب اورگھر میں سب تم سے محبت کرتے ہیں“

“تم کتنے اچھے ہو؟“ میں اس فقرہ پر رُک گیا۔

ہر انسان میں کچھ نہ کچھ ایسی چیز ہوتی ہے جس پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس بات کو بھول کر ان مواقعات کو یاد کرتے ہیں جب ہمیں اس شخص کے ساتھ خوشیاں ملی تھیں تو ہمارا دل ان کی یاد میں خوشوں سے بھر جاتا ہے۔

تم اداس تھے اور ان کے ایک جملے نے تمہارے لبوں پر مسکرایٹ بکھیردی تھی۔

یہ رہا۔ یقین اور دلاسا، بڑھاوا، دل دہی، تسلی، ڈھارس، ترغیب، تحریک، تقویت، حوصلہ افزائی، دل بڑھانا یہی تاگے خاطر جمع ہیں جو ایک دوسرے کا ضرورت میں ساتھ دیتے ہیں۔ رفیق کے ساتھ انسان مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے۔

“ تم اکیلے نہیں ہو“۔

یہ خیرخواہی، پیار و محبت ہمیشہ میرے دوست و احباب اور خاندان میں متضمن ہیں - ہاں مجھے پتہ ہے کہ ہم اس کا اظہار نہیں کرتے۔ ہم ایسا کرتے ہوئے اپنے آپ کو کم ترسمجھتے ہیں۔ میں یہ یقین سے کہوں گا، کہ انسان کی سب سے بڑی خواہش اور ضرورت اس کی دوسروں سے پسندیدگی اور قبولیت ہے۔ یہ جاننا کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اس کو احساس دلاتا ہے کہ اس کو قبولیت کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اُس کو حاصل ہے۔ سراہت اسکے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے۔۔۔

الفت اور محبت کی قوت پزار ہا سال پرانی ہے۔ لیکن جب تک یہ نہ کہا جائے“ مجھےتم سے محبت ہے“ اس کا اثر غائب ہے۔ اظہار کے بغیر محبت سکھڑ جاتی ہے۔ اپنے جذبات کو الفاظ میں لانا ان کو زنذگی بخشنا ہے۔ جذبات بغیر کہے اثر نہیں رکھتے۔۔۔

محبت کا اظہار دو طرفہ ہے جو لوگ محبت سے پیش آتے ہیں اور یہ برجستہ اور سچی ہے انہیں بھی دوسروں سے محبت ملتی ہے۔ لوگ بغیرمزحمت کے ان زندہ دل اور پرجوش لوگوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس قسم کی پرجوشی وبائ ہے۔۔۔

٭٭٭
آج جب میں ایک سرجن کی چھری کے نیچے ہوں۔ سرجن کی آنکھیں ممسکراتی ہیں۔ “ بھیا تم ہمیشہ کے بدھو ہو۔ میں تمہارے پاس ہوں میں تمہارے دل میں ہوں اور یہ میری ہی آنکھیں ہیں جن کو تم دیکھ رہے ہو“۔

یادہے نا ماں نے کہا تھا۔“ بیٹا ، بھیا کادل شیشہ کا نہیں ہے جو ٹوٹ کر بکھر جائےگا۔ دیکھو نا آج میں تمہارا دل ہوں“ [/list]
Post Reply

Return to “تحریریں”