شناخت

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

شناخت

Post by خاورچودھری »

[center] (افسانہ)شناخت خاورچودھری [/center]
دماغ کے اندرچیونٹیاںسی رینگ رہی تھیں۔یوں لگتا تھا جیسے اُس کی کھوپڑی میں پیوست ہڈیاں اورنسیں ریل کی پٹری ہوں اور ان پرطویل مسافت طے کرنے والی ریل کا سفر جاری ہو۔خیالات منتشر اوربے سمت۔دو ایک مرتبہ تواُس نے اپنی نشست بدلی مگراُس کی بے قراری میں کمی ہوکر ہی نہ دی۔دفتر کے سیاہ شیشوں کے اُس پارصدیوں کی رفاقت طے کر آنے والے بوڑھے پیپل کی پھیلی ہوئی بانہیں اپنے ہی وجودسے لپٹنا چاہتی تھیں۔ایک بچہ بہت دیر سے پیپل کی شاخوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا مگرہر بار ناکام ہوجاتا۔
بہ ظاہر اُس کی نگاہیں بچے کی حرکات و سکنات پر مرکوز تھیں لیکن اُس کے دماغ میں عجیب سے جھکڑ چل رہے تھے۔مختلف رنگ بہ یک وقت اُس کی حیرتوں میں اضافہ کر رہے تھے ، ہزارہا تصویریں اُس کے تصور میں جاگتی بجھتی تھیں۔اُس کے دھیان میں ایک تصویر اُبھری _____کافکا _____؟نہیں کانٹ یاپھرڈیکارٹ _____ او_____ نہیں۔ ژاں پال سارتر _____ نہیں ،شاید سگمنڈ فرائڈ یا پھررولاں بارتھ_____ ٹیگور،اقبال،فیض،جالب،بیدی،محمود درویش،فراز_____ نہ جانے کس کی تصویر تھی؟ ایک بار پھر اُس نے تمام خیالات کو جھٹک کر دماغ پر دستک دینے والے عکس کے متعلق سوچا۔اس بار بھی کوئی واضح شبیہ ظاہرنہ ہوئی۔وہ اپنے مغز کونکال ہتھیلی پررکھ کراُس تصویر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ تصویر مجسم ہو کراُس کے سامنے کھڑی ہوجائے اور وہ اپنی بیت جانے اور رہ جانے والی گھڑیوں سے متعلق اُس سے گفتگو کر لے۔
” میں منتقم ہوں یامزاحمت کار؟“
اُس نے سوچا اورپھرنہ چاہتے ہوئے بھی کمپیوٹر”کی بورڈ“کوباہر کھینچ کر دفتری کاموں میں اُلجھ گیا۔وہ ان کاموں میں اُلجھتا ہی تھا کیوں کہ اُس نے کبھی بھی انہماک سے دفتری کام نہیں کیا تھا۔غالباً روزی روٹی کے چکر میں اُس نے نوکری کرلی تھی۔
شام کے پانچ بجے حسب معمول جب وہ اپنے دفتر سے نکلا توگردیزی صاحب کا کمرا کھلا ہوا تھا،دوتنومندبل کہ سانڈ کی سی جسامت والے نوجوان میز کے سامنے پڑی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے کبھی نہ اُٹھنے کا تہیہ کر رکھا ہو۔جٹ صاحب کے کمرے میں اُن کا پرسنل سیکرٹری بیٹھا کام کر رہا تھا۔بگھیوصاحب اپنے دفترسے نکل چکے تھے اوراُن کا ڈرائیور دستی بیگ تھامے تیزقدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ایک قطار میں بنے ہوئے ان دفاتر میں سے ہر ایک کے سامنے ناموں کی تختیاںآ ویزاں تھیں۔چودھری مرتضیٰ احسن ، راجانوروزسلطان،سید احتشام الدین، سردار سمیع اللہ خان، ملک ریاض الحسن، سلطان جہاں زیب قاضی،راحیل جو نیجو،نسیم اخترچانڈیو، فیصل بگٹی،قدرت اللہ مگسی،عظمت خان جمالی اور خود اُس کے اپنے دفتر کے باہر بھی اُس کا نام_____ احمدحبیب لکھا ہواتھا۔ان ناموں کو وہ روزانہ دیکھتا تھا اورہر روز نفرت سے اُس کاحلق سوکھ جاتا۔قبائل پر اِ ترانے والے ان لوگوں سے اسے اس قدرشدید نفرت تھی کہ اُس کی زبان خود سے ہی گالیاں بکنا شروع کردیتی۔بعض اوقات اُس کے دفتر میں تعارف کراتے ہوئے کوئی اُسے اپنی قبائلی شناخت بتاتا تو وہ ایک دَم غصے سے بے قابو ہونے لگتا۔ دو دِن پہلے بھی کسی نے اُسے ایک جاگیردار منسٹر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اُس کا عزیز ہے۔ تب اس نے فائل اُٹھا کر اُس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا تھا:
” جاوٴ یہ کام انھی سے کروالو“
چہل قدمی کے لیے اُس نے شہر سے دور کاایک علاقہ منتخب کر رکھا تھا۔علی الصبح جب وہ بیدا ر ہوتا توگاڑی نکال کروہاں چلا جاتا پھروہاں موجود چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پرگھومتا، پھلائی کے پست قددرختوں کے جھرمٹ سے نکل کرایک ٹیلے پر بنے ہوئے قبرستان تک بھی جاتا ۔یہ علاقے کا بہت بڑا اور پرانا قبرستان تھا۔اندازہ نہیں کتنی صدیاں پہلے یہاں پہلا انسان آکر آباد ہوا تھا۔ صبح کی سیر کے بعدوہ جب لوٹتا تو خود کوہلکا پھلکا محسوس کرتااور یوں اس کے دفتر کا آغاز ہوجاتا۔دفتر کے وہی معمولات ہوتے جو اُسے سخت ناپسند تھے۔ ایک دن تو اُس کے معاون نے یہ تک کہہ دیا تھا:
” صاحب ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے لیتے آپ؟“
وہ جانتا تھا معاون نے یہ بات کیوں کہی تھی_____ تب اُس نے صرف اُسے گھورا اور فائل میں خود کو مصروف کر لیاتھا۔
جب وہ گھر پہنچا تب بھی اُس کے ذہن میں اُبھرنے والا خاکہ نامکمل تھا_____ایک مبہم تصویرجاگتی اور دفعتاً محو ہوجاتی۔وہ اس کرب کو صبح سے جھیل رہا تھا۔ اُس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا:
آخر ان نام وَر لوگوں کا عکس میرے دماغ پر کیوں روشن ہوتا ہے؟ کیا یہ مزاحمت کار تھے یا منتقم؟ان کے ہاتھوں میں تلواریں تو نہیں تھیں _____ پھر یہ کیسے مزاحم ہو سکتے تھے یا انتقام لے سکتے تھے؟_____ یہ کیسی مزاحمت اور کیسا انتقام تھا جہاں تلوار کی بجائے احساس اورلفظوں سے جنگ لڑی جا تی تھی۔تو کیا میں بھی انھی میں سے ہوں_____ لفظوں کے سہارے جینے ،لڑنے اور مرنے والا_____؟ کیا اس پیکار میں مجھے بھی ناکام ہونا پڑے گا؟ہواوٴں کے اُوپر اور سمندروں کی تہوں پر حکمرانی کرنے والوں کا میں کبھی کچھ نہیں بگاڑ پاوٴں گا ؟کیا وہ سبھی لوگ مات کھا چکے تھے_____؟ تو پھر میں انھیں کیوں یاد کررہا ہوں؟شکست خوردہ لوگوں کو بھلا دیناہی بہتر ہے_____ !
اُس کے من بھیتر سے گونج دار آواز برآمد ہوئی
” نہیں_____ وہ سب اپنے اپنے زمانے کے فتح یاب لوگ تھے_____ راستہ دکھانے والے اور سچ کی خاطر دکھ اُٹھانے والے،وہ ہارے ہوئے نہیں تھے،تم چت ہو رہے ہو۔“
اُس کے دماغ میں چیونٹیاں اُسی طرح رینگ رہی تھیں اور وہ پہلے سے زیادہ بے تاب تھا۔اگلی صبح دفتر پہنچا اوراخبار اپنے سامنے پھیلا دیا۔اخبار میں کوئی بھی خبر اُسے عجیب نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ ”چینی خلابازوں کی خلا میں چہل قدمی“ دوسری سرخی تھی”امریکی طیاروں کی سرحدی خلاف ورزی،مسجدپرحملہ،کئی بے گناہ ہلاک اور زخمی“ ایک اور خبر تھی” بستی عالمانی کے” مقیم“ نامی شخص نے اپنا نومولود بیٹا سوروپے میں فروخت کردیا۔“
ان جیسی کئی ایک خبریں اور بھی تھیں _____ کچھ دیر بعدوجدانی صاحب اُس کے کمرے میں آئے تو کہنے لگے:
”آج اخبار میں ایک نہایت عجیب خبر شائع ہوئی ہے۔کوئی گروہ قبروں کے کتبے اکھاڑ رہا ہے۔“
” کیا_____ کیوں؟“
” کیا خبر؟“
”کفن تو نہیں چرائے جاتے؟“
” نہیں_____ صرف کتبوں سے متعلق لکھا ہوا تھا“
” کتبے چرانے سے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں“
” شناخت مٹ جاتی ہے نا“
” تو کیا مدارس و مساجداورقرآن کے نسخوں پر بمباری سے شناخت نہیں مٹتی؟“
”آپ سیاست نکال لائے ہیں“
” سیاست_____؟ میں نے تو شناخت کی بات کی ہے“
” دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے“
” زندوں کو مار دینا چاہتے ہیں اور قبروں کے کتبے ہٹنے پرفکرمند ہیں؟“
” اچھا خیر_____ آج منسٹرصاحب کے یہاں ڈنر ہے۔ میں جارہا ہوں،شام کووہیں ملاقات ہوگی۔“
احمد حبیب نے نکٹائی کوڈھیلا کیا اور پھرتیزتیز سانس لینے لگا۔گراں طبعی تو اُس کی زندگی کا لازمی جزو بن کر رہ گئی تھی۔اُس کی دل چسپی کے لیے شاید اس دنیا میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔کوئی بات اُس کے لیے نئی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی خبرعجیب۔
”جہاں زندوں کومسجدوں کے اندر جلا کر خاکستر کردیا جاتا ہو_____ کم سنوں سے اجتماعی زیادتیاں ہوتی ہوں،مفلسوں کو خود کشی پر مجبور کیا جاتا ہو، وہاں قبرستان کی فکر_____؟“
اس نے خیالات کے بھاگتے ہوئے گھوڑے کی لگام کھینچی اور کام میں اُلجھ گیا۔اس روز بھی اس کامعاون اسے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس نے اُسے نظر انداز کراپنے لیے سہولت پیداکرلی۔
وقت دریا کی طرح آگے ہی بڑھتارہااوروہ اپنی لگی بندھی زندگی میں۔
کچھ دن بعدپُھلاہی والے قبرستان میں اُس نے وہ منظر دیکھ لیا جس کے متعلق وجدانی صاحب نے اُسے بتایا تھا۔ کوئی شخص صبح سویرے ہی سے قبروں کے کتبے اکھاڑنے میں مگن تھا۔ و ہ آہستگی سے اُس کی جانب دیکھنے لگا۔تخریب کار نے پہلے ایک قبر سے کتبہ اُکھاڑ کراسے زمین پر پٹخا پھراس پر مسلسل ہتھوڑے برسا کر چکنا چور کر دیا،پھر دوسری اور تیسری قبر کے کتبے کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔
احمد حبیب نے یہ سارا منظر جھاڑیوں کی اوٹ سے دیکھ تو لیامگر اَب اس میں مزید حوصلہ نہیں رہا تھا۔وہ تیز قدموں سے تخریب کار کی طرف بڑھتا گیا۔تخریب کار نے اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ رکھا تھا اور اس کے ایک ہاتھ میں بڑا ہتھوڑا اوردوسرے میں چھنی تھی۔اگرچہ اس بات کا خطرہ تھاکہ تخریب کار اسے نقصان پہنچادے گا مگر پھر بھی اُس نے ہمت سے کام لیا اور دبے قدموں اُس قبر تک پہنچ گیا جس کا کتبہ اکھاڑا جا رہا تھا_____ اکھاڑنے والا پورے اطمینان سے کارِ تخریب منہمک تھا۔ احمد حبیب نے دفعتاًتخریب کار کے چہرے سے جب نقاب کھینچا تواُس کا دَم حیرت سے گھٹنے لگا_____ بہت مشکل سے اور ضبط کے بعد اس کی زبان سے ایک جملہ برآمد ہوا:
وجدانی صاحب!_____آپ؟
OOO
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب خاور بھیا بڑے لمبے عرصے بعد آپ تشریف لائے لیکن اپنے چبھتے افسانے سے اس کمی کو پورا کر گئے۔

بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب خاور بھائی۔
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

چاند بابو

اور

رضی صاحب

آپ کا شکریہ
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”