بس ماں اب نہیں

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

بس ماں اب نہیں

Post by وارث اقبال »

سردی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔آج تو کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی۔شاید کوئٹہ سے چلنے والی ہواؤں نے احساسِ سردی میں کچھ زیادہ ہی اضافہ کر دیاتھا۔ ہر شے سردی میں نہائی ہوئی تھی۔ ہر جسم کپڑوں سے لدا ہونے کے باوجود مزید کپڑوں کا تقاضا کر رہا تھا۔ جاندار کیابے جان کیا سب اس سردی کی لپیٹ میں تھے۔ کوئی گرم اوٹ میں گھُسابیٹھا تھاتو کوئی آگ جلائے اْس پر جھکا ہوا تھا۔ کوئی کمبل لپیٹے پھر رہا تھا تو کوئی چادر۔ جن کے پاس وقت کی گنجائش تھی وہ تو اپنے لحافوں میں دبکے ہوئے تھے اور جن کے پاس وقت کی گنجائش نہ تھی وہ ٹھٹھرتے ہوئےاورمنہ سے سفید دھواں اُگلتے ہوئےاپنے اپنے کام دھندوں پر رواں دواں تھے۔



نذیر بازار میں دکانوں کے سائن بورڈ وں پر کچھ اس طرح تلاش رہا تھا جیسے کوئی قسمت کامارا اپنی ہتھیلی پر اچھے دنوں کی لکیر تلاش کرر ہا ہو۔ اْس نے جیب میں رکھا کاغذ کا ٹکڑا کئی دفعہ باہر نکالا تھا اور کئی دفعہ اندر رکھا تھا۔ پھر وہ ایک دکان کے سامنے کھڑا ہو گیا، کاغذ کا ٹکڑا پھرباہر نکالا، دکان پر لگے بورڈ کا ایک ایک لفظ اچھی طرح پڑھنے اور مکمل اطمینان کرلینے کے بعداُ س نے ایک دکان کا میلاسا پردہ یوں اُٹھایا جیسے کوئی رنڈوا اپنی نئی نویلی دلہن کا گھونگھٹ اُٹھاتا ہے۔ اندر ایک شخص کوئلوں کی انگیٹھی کے اوپر بوڑھے برگد کی طرح پورے کا پورا جھکا ہوا تھا۔
نذیر کے سلام کی آواز سن کر اْس نے اپنی موٹی سی گردن اوپر اُٹھا کر انتہائی اْکتائی اور بے زارآواز میں پوچھا، ”تصویر بنوانی ہے۔“
”جی۔۔ اگر آپ بنانا چاہئیں۔“
نذیر نے اْس کے اندازِ تخاطب کے مطابق اْسے جواب دیاتو وہ کھسیانی سی ہنسی سے کھیں کھیں کرتے ہوئے بولا،
”بیٹا! بیٹھے ہی اس لئے ہیں۔۔ کہاں سے آئے ہو۔“
”شفیع محمد نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔“
شفیع محمد کا نام سُن کروہ انگیٹھی کے کوئلوں کی ترتیب بدلتے ہوئے اْٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”تو پہلے بتانا تھا نا۔۔۔ آ۔۔۔۔ادھر بیٹھ۔۔۔۔ بتاؤ ناشتہ واشتہ کیا ہے۔۔۔۔۔ صبح بہت سویرے چلا ہو گا گاؤں سے۔“
اْس کے اندر سے ایک اور انسان اِس طرح برآمد ہوا تھا جیسے خالی بٹوے کی کسی جیب سے سوروپے کا نوٹ نکل آیا ہو۔
”نہیں جی اماں نے کھانا ساتھ دے دیا تھا، ابھی اڈے پر اْتر کر پہلے کھاناکھایاپھر چائے پی اور پھر آگے چلا۔۔جی۔“
نذیر نے اپنا ایک ہاتھ جو اْس کی گرم چادر سے باہر تھا انگیٹھی کے عین اوپر کرتے ہوئے جواب دیا،
”شفیع محمد میرا جِگری ہے۔۔۔ اس حساب سے توتم بھی میرے جِگری ہوئے نا۔۔۔۔ تم یہاں بیٹھو، میں چائے لے کر آتا ہوں۔‘
”نہیں بھائی جان آپ ایسا نہ کریں،بس مہربانی ہوگی تصویر بنا دیں۔۔۔ میں نے دفتر بھی جانا ہے۔“
”اچھا! کس کے دفتر۔“
”وہ داخلہ جمع کروانا ہے جی۔۔۔۔ میڑک کا۔“
”واہ جی واہ! تو باؤ بننا ہے۔۔۔۔“
”نہیں جی وکیل۔۔۔۔ اماں کہتی ہیں۔۔“
”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ دیکھو نا اگر میں پڑھ لیتا توسارا دن یہاں بیٹھ کر رنگ برنگی شکلیں تو نہ دیکھتا۔۔“
”رنگ برنگی جی۔“
نذیر سے جملہ ہضم نہ ہوا۔
”ہاں تو اور کیا۔۔کوئی کوجھی، کوئی گندی۔۔۔۔۔“
”کوئی سوہنی بھی تو ہوتی گی نا۔۔۔ جی۔“
نذیر نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں! میں نے بس ایسے ہی کہہ دیا تھا۔ کوئی تیرے جیسی سوہنی بھی ہوتی ہیں۔“
فوٹو گرافر کا یہ جملہ سن کر نذیر کے گالوں پرحیاکا رنگ پھیل گیا۔ شاید وہ یہی سننا چاہتا تھا۔
”جی جی۔۔۔ مہربانی جی! پر تصویر۔۔۔۔“
”آؤ! بناتے ہیں۔۔۔ بناتے ہیں۔۔۔ تصویر۔۔“
فوٹو گرافرنذیر کو نیلے رنگ کے میلے ترین پردوں کے پیچھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔ جہاں ایک بوسیدہ مگر بڑا ساکیمرا سیاہ رنگ کے اسٹینڈ پر دھرا ہواتھا۔ اسٹینڈکے نچلے حصہ کو زنگ تقریباً کھا چکا تھا۔ اس لئے دونوں حصوں کو قائم رکھنے کے لئے لال رنگ کے ایک تار سے باندھا گیا تھا جس کے لٹکتے ہوئے لمبے حصے باندھنے والے کی نالائقی کو ظاہر کر رہے تھے۔ دو بڑے بڑے بلب چھت کے ساتھ بندھے ہوئے ایک تار پر جھول رہے تھے۔ جب انہیں روشن کیا گیا تو پتہ چلا کہ دیواروں پرفلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کے پوسٹرز بھی چسپاں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر پوسٹر زکافی حد تک وقت کا عتاب جھیلنے کے بعد اپنی حیات کا شاید آخری عشرہ ہی مکمل کر رہے تھے۔ کسی ہیروکی مونچھیں پان کی پیکوں کی نظر ہو گئی تھیں اور کسی ہیروئن کا حْسن انگلیوں کے پانچ نہیں کئی نشانات کی گرفت میں تھا۔ ہر نشان اپنے فنکار کے ذوق و شوق اور اس کے اندر راکھ میں دبی ہوئی مختلف حسرتوں کی کہانیاں بیان کر رہا تھا۔
نذیر کچھ کہے بغیر سامنے رکھے بنچ پر بیٹھ گیا جس کی گدیاں کسی زمانے میں رکھی ضرور گئی تھیں لیکن اب فقط آثار باقی تھے۔ بیٹھنے والا گدیاں سمجھ کر بیٹھتا تو تھا مگر دھم کر کے بنچ کی خالص شیشم کی لکڑی سے جا ٹکراتا۔ نذیر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا مگرشرمندگی میں بیچارا نہ تو اپنا پچھلا حصہ اچھی طرح سہلا سکا اور نہ ہی دکھ کا اظہارکر سکا۔ بس یونہی بل کھاتے ہوئے گھسٹ گھسٹ کر اور پہلو بدل بدل کر درد کو سہلاتا رہا۔۔۔ شاید یہاں ہر آنے والا اس امتحان سے گزرتا ہوگا۔
اْ س کے بالکل پیچھے ایک سیاہ چادر استادہ تھی۔ جس کارنگ تو سلیٹی تھا لیکن وقت کی سیاہی اْس پر اِس طرح چڑھی ہوئی تھی کہ بیچاری اپنی اصل شناخت ہی کھو بیٹھی تھی۔ ایک کونے میں دو پلیٹیں ادھورے یا بچے ہوئے کھانوں سمیت موجود تھیں جو کم از کم دو ماہ پہلے کی کسی دعوت یا عیاشی کی واحد ثبوت تھیں۔ نذیر نے دیکھ کرسوچا کہ یہ اب اْس دن دْھلیں گی جس دن نئی عیاشی ہوگی۔ ایک لمبی سی خالی بوتل پر تو اْس کی نگاہیں ٹک ہی گئیں۔ یہ تقریباً وہی تھی جو اُس نے چھوٹے چوہدری کی شادی پر پہلی دفعہ دیکھی بھی تھی اور اس کا پانی بھی چکھا تھا۔ اْس دن وہ بہت خوش تھا کہ اُسے پہلی دفعہ انگریزی کا ذائقہ بھی چکھنے کا موقع ملاتھا۔ اب کےاُس کے جی میں آیا تو تھاکہ کم از کم سونگھ کر اپنی ناک کے نتھنے ہی معطر کر لے لیکن بوجہ شرم وحیا یالحاظِ شریعت اس درِ گناہ تک جانے کا ارادہ کسی اور موزوں وقت تک مؤخر کر دیا۔
”سامنے دیکھو۔۔۔ میرا خیال ہے یہ چادر اُتار دو۔۔۔ اچھا۔۔ ٹہرو۔۔۔کنگھی بھی کر لو۔۔“
فوٹو گرافر نے ایک بڑے سے آئینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
”یہ لو کنگھی۔۔بال وال ٹھیک کر لو۔“
نذیر نے اْس آئینہ نما چیز میں خود کوتلاش کیاکرنے کے بعد اپنی پتلی سی مونچھوں کو تین چار تاؤ دئیے، میلی کنگھی بالوں میں پھیری تو لمبے لمبے دو زنانہ بال گر کر اس کی پلکوں پر آ کرٹہر گئے۔۔۔جنہیں اْس نے پکڑ کر لہراتے ہو ئے پھونک مار کر ہوا کے حوالے کر دیا۔
”ایک جوڑا آیا تھا۔۔۔ کْڑی کے بال تو بس لگتا تھا پانی سے جْڑے ہوئے تھے۔۔۔ میں نے کافی صاف کئے ہیں پھر بھی کوئی ایک آدھ نکل ہی آتا ہے۔“
فوٹوگرافر نے شاید کچھ پردہ پوشی کی کوشش کی۔
”ہاں جی یہاں تو ہر قسم کا بندا آتا ہوگا۔“
نذیر نے کنگھی کرتے ہوئے اْس کی بات کا جواب دیا اور پھر بنچ پر آکر بیٹھ گیا۔
”جب میں کہوں ’ریڈی‘ تو آنکھیں کھول لینی ہیں۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔“
اْس کی ہدایات کے عین مطابق نذیر سیدھا ہو کر بیٹھ توگیامگر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا،
”جی تو بند کب کرنی ہیں۔“
چونکہ فوٹو گرافر اپنے سامانِ عکس بندی کو مکمل ترتیب دے چکا تھا۔ ا س لئے اُس نے کیمرہ میں ہی آنکھ گھسائے ہوئے جواب دیا۔
”بس۔۔ اس وقت آنکھیں کھلی ہی رہیں تو مناسب ہے۔۔۔۔۔ بعد میں جب چاہئے بند کر لینا۔“



امتحان کیا آئے مصیبت ہی آ گئی۔ سب سے پہلے داخلہ کامسئلہ سامنے آیا۔ داخلہ جمع کروانے کے لئے پیسے کہاں سے آئیں۔ ابا نے تویہ کہہ کر صاف انکار کر دیا تھا۔
”اتنی سی تنخواہ میں پانچ بچوں کی روٹی پوری کروں یا تم لوگوں کے نخرے پورے کروں۔“
وہ خود بھی گاؤں کے اسکول میں ایک اْستاد تھے اور تعلیم کی اہمیت پر تقریریں بھی خوب کیا کرتے تھے لیکن اب جب نذیر کی تعلیم پر خرچ کا معاملہ آیا تو صاف ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا،
”کوئی چھوٹاموٹا کام کر لو۔۔ ویسے بھی اب ڈگریوں کو کون پوچھتا ہے۔۔ ہر طرف سفارش چلتی ہے۔۔ ہمارے پا س کہاں سے آئے گی سفارش۔“
”ابا۔۔وہ لمبردار جی جو ہیں۔۔ ہمیشہ کہتے ہیں کوئی کام ہو تو بتانا۔“
نذیر سے چھوٹی نے حل نکالا تو ابا نے بھی فوراً اسی طرح جواب لوٹا دیا۔
”یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ اُس سے تو اپنی اولاد جھلی نہیں جاتی، ہمارا کیا سوچے گا۔۔۔۔۔ روزایم پی اے کے پیروں میں بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔ میرے بیٹے کو تھانیدار لگا دو۔۔۔۔ اُس کے تو اپنے بیٹوں بھتیجوں کی لمبی قطار ختم نہیں ہوتی۔۔۔ ہماری باری کیسے آئے۔“
اماں ہی تھیں جن کو شوق تھا کہ ان کے بچے پڑھیں اور افسر بنیں۔ وہ چولہے پر روٹیاں پکاتے ہوئے سب کچھ غور سے سن رہی تھیں۔ پھر انہوں نے کھانا کھانے کے بعد نذیر کو کمرے میں لے جاکر اپنی ایک انگوٹھی دیتے ہوئے کہا،
”پریشان نہ ہو میرا پْتر۔۔۔۔۔ اْ س سونے کو کیا کرنا جو وقت بے وقت کام ہی نہ آئے۔۔۔ لے اور اپناڈنگ سار لے۔۔۔۔“
نذیر نے جواب دیا،
”نہیں اماں یہ نہیں۔۔۔ میں کچھ نہ کچھ بندو بست کر لوں گا۔“
”لے اب میرا پْتر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا۔‘‘
اماں نے وجہ بھی بتادی۔
نذیر انکار کرتا چلاگیا،
”نہیں اماں۔۔۔ نہیں۔۔ اچھا نہیں لگتا۔۔۔ میں نے آپ کے ہاتھوں میں زیور ڈالنا ہے یا اُتارنا ہے۔“
”چل لے لے۔۔۔ میرا پْتر۔۔۔۔۔۔ بعد میں مجھے دو بنوا دینا۔“
نذیر کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ کیا کہے۔۔۔ کیا کرے۔۔۔ بس اتنا ہی کہہ سکا،
”لیکن اماں۔۔۔۔۔“
اماں تو ماں تھی اُس کے اندر چلنے والی ساری کشمکش کوسمجھ گئیں۔ ماں اگر بچوں کے اندر اُٹھنے والے تلاطم کونہ سمجھے تو اُسے ماں کون کہے۔
گلے سے لگایا اور ماتھاچومتے ہوئے کہا،
”جب تُووکیل بن جائے گا نا تو مجھے دو بنوا کر دینی ہیں۔“
نذیر نے ہنستے ہوئے کہا،
”اماں بس دو۔۔۔۔ چار کیوں نہیں۔۔ میں تو اپنی ماں کو سونے سے لاد دوں گا۔۔“
”چل ایویں مخول نہ کر۔ دس اور خرچے بھی تو ہوں گے نا۔ بچے انگریزی اسکول جا رہے ہوں گے، بڑے سے گھر اور نوکر چاکر کے خرچے۔۔۔ اور وہ جو میم لاؤ گے اُس کے بھی تو کئی حق ہوں گے نا۔ بس چھوڑ تُو جا۔۔۔۔ اپناکام چلا اور بے فکر ہو کر پڑھ۔۔ جب تک میں زندہ ہوں بس پڑھتے رہو۔۔۔ اینا سارا پڑھنا۔“
انہوں نے اپنی باہیں پھیلاتے ہوئے جب ”اینا“ کہا تو آنکھیں بھر آئیں۔۔۔۔اندر سے ایک ہوک اٹھی۔۔۔
”پتہ نہیں میں یہ خوشیاں دیکھ بھی پاؤں گی۔۔۔“
اماں نے اپنے اندر ایک ایسی دنیا بسائی ہوئی تھی جس میں اُس کا ہر بچہ خوشیوں کی برکھا رتوں کا باسی تھا۔ ا ْس نے اپنے ہر بچے کے مستقبل کا تعین کر رکھا تھا۔ اْس کا ایمان تھا کہ ویسا ہی ہوگا جیسااْس نے سوچ رکھا تھا۔



سیکنڈ ڈویژن میں میڑک کرنے کے بعد نذیر کالج جانے لگا۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی کمیٹی ڈال رکھی تھی۔ جواس دفعہ تو ایسی کام آئی کہ سب کو حیران کر کے رکھ دیا۔ اِدھر کالج کے داخلہ کا وقت آیا اْدھر کمیٹی نکل آئی۔ اس دفعہ تو ابا بھی خوش تھے۔ ایک دن جب وہ کالج سے واپس آیا تو انہوں نے کہہ ہی دیا،
”وکالت وکولت میں کچھ نہیں رکھا، بس تو ایس ایس ٹی بن جا۔۔۔۔۔۔ آرام سے کھائے گا۔۔۔۔ موجیں ہی موجیں۔“
نذیر بھی ابا کی بات کو ”جی ہاں“ کہہ کر پی گیا اور دل میں سوچا،
”بننا تو میں نے وکیل ہی ہے۔ بڑا ’ٹے کا ‘ ہوتا ہے۔ اور پھر اگر بندا چاہے تو بعد میں ایم پی اے کا الیکشن بھی لڑسکتا ہے۔“



اباجی ریٹائر ہوئے تو سرکار سے ملنے والا پیسہ بانو کی شادی میں لگنا شروع ہو گیا۔۔۔ جب ابا جی نے پیسوں کی پت جھڑ دیکھی تو ایک دن اماں کومشورہ دیا،
”اب تو منڈا کالج جاتا ہے میرا خیال ہے کوئی اچھی کڑی دیکھ کر شادی کر دیں۔“
اِدھر سوچ آئی اور اْدھر رشتے آنا شروع ہوگئے اور پھرنذیر کا اُس کے ماموں کے ہاں رشتہ بھی طے ہوگیا۔
نذیر کے باپ کو ملنے والا سرکاری پیسہ نذیر اور اُس کی بہن کی شادی پر لگ گیا۔ ایک دلہن بن کرگھر سے گئی اور ایک دلہن بن کرگھر آگئی۔
سب نے شکر اداکیاکہ چلو اماں کو گھر کے کام کاج میں سہارا توملا۔۔
اماں کی ذمہ داریاں سنبھالنے والاکیاگھر میں آیا اماں نے کام کاج چھوڑ دیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اماں سے اب کام ہوتا ہی نہیں تھا، روز نئی سے نئی بیماری ٹوہ میں لگی رہتی۔



نذیر شادی کے باوجود کالج باقاعدگی سے جاتارہا۔ بی اے کا پہلا ہی سال تھا تو ٹیوشن بھی مل گئی۔ لیکن ٹیوشن سے بس اپنا ہی خرچ پانی چلتا تھا۔ اُفتاد اْس وقت پڑی جب دلہن پیٹ سے ہوئیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کا مشورہ دے دیا۔
مسائل کے گنجان جنگلوں سے ہی مرغزاروں کے راستے ملتے ہیں۔
اللہ اسباب پیدا کرنے والا ہے۔
نذیر کو ایک اکیڈمی میں پڑھانے کی نوکری مل گئی۔ وہ کالج سے سیدھا اکیڈمی چلاجاتاا ور رات دیر گئے گھر لوٹتا۔
وہ جب بھی لوٹتا تو اماں کو جائے نماز پر پاتا۔ وہ جائے نماز پر بیٹھے چاروں اطراف پھونکیں مارتی رہتیں۔ جیسے اْن کی پھونکوں سے یہ گھر چاروں اطراف بلاؤں سے محفوظ ہو جائے گا۔ جونہی نذیر اْن کے سامنے آتا تووہ جائے نماز رکھ کر اْس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بچی کھچی پھونکیں مارتیں اور آواز دیتیں،
”کاکی!کھانا لے آ، پیٹ حلق کو آ رہا ہے بیچارے کا۔“
نذیر وہیں بیٹھ کر کھانا کھاتا،ا ماں دعائیں دیتی رہتیں، کچھ پڑھتی رہتیں اور پھونکیں مارتی رہتیں۔
اللہ نے اِس ہستی کی پھونکوں میں ہر بلا کا رد چھپا رکھاہے۔ جب تک اُس کے ہاتھوں میں تسبیح کے دانے چلتے رہتے ہیں اُس کے اپنے اور پیارے چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ دعائیں اُن کی قسمت کے گھوڑے کے لئے تازیانے ثابت ہوتی ہیں۔ جب یہ دانے چلنا رک جاتے ہیں تو قسمت کے گھوڑے کے سامنے خار دارجنگل آجاتے ہیں۔ اُس کے لئے ایک قدم بھی اُٹھانا دشوار ہو جاتا ہے۔ گھر کے دروازے پر پڑا قفل کانچ کا لگتا ہے اور چوکیدار کے ہاتھ میں پکڑی بندوق روئی کا گالا محسوس ہوتی ہے۔



اْس دن تو نذیر جماعت میں ہوتے ہوئے بھی جماعت سے باہر تھا۔ بس سپنے ہی سپنے تھے جنہوں نے اْسے گھیر رکھا تھا۔ جیسے اْسے آج ہی زندگی کا وہ سب کچھ ملنے والاتھا جس کا اْس نے سوچ رکھا تھا۔ اْسے جلدی تھی اکیڈمی جانے کی۔کیو نکہ آج اْسے اکیڈمی سے پہلی تنخواہ ملناتھی۔
وہ کالج سے فارغ ہو کر ویگن میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔
اماں نے ان کے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑا، ساری زندگی تنگی میں گزارا کیا۔ اپنے بچوں کو پالا۔ جب بھی کسی پر کوئی مصیبت آئی اماں کا دستِ مبارک اْ س کی طرف بڑھ گیااور جب بھی کوئی پریشان ہوا تو اماں ہی کی گود اْس کے لئے جائے امان بنی۔ وہ بیمار ہو ں یا صحت مند سب کی خدمت میں جتی رہتی ہیں۔
بس آج تنخواہ ملتے ہی اماں کے لئے انگوٹھیاں خریدنی ہیں۔
وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا۔ بس انتظار تھا تو اُ س لمحے کا جب اماں کا قرض اتارا جائے گا۔۔۔۔دو انگوٹھیوں کا قرض۔
پھر اُس نے سوچا۔۔ کیایہ قرض ہے۔۔۔۔ قرض ہے یا حق ہے۔۔حق ہے یا نذرانہ۔۔ میں اسے کیا نام دوں۔۔ جو بھی ہے قرض تو یقیناًنہیں ہو سکتا۔
قرض تو وہ ہے ۔۔۔ ایک رات کا قرض ، پھونکوں کی بارش کا قرض، ہڈیاں پگھلانے کا قرض اور نا جانے کیا کیا ۔۔۔میں ماں کا قرض کیسے چکا سکتا ہوں۔۔۔
چکانا بھی چاہوں تو کون سا چکا سکتا ہوں ۔۔
کون ہے جو ماں کا قرض چکاسکتا ہے۔



اماں نے انگوٹھیاں پہن تو لیں لیکن نا چاہتے ہوئے۔ کبھی کہتیں،
”میں نے تو کہا تھا جب وکیل بنو گے تب دینا۔“
کبھی کہتیں،
”دلہن کو دے دو اس کا زیادہ حق ہے۔“
کچھ نہ بن پایا تو کہنے لگیں،
”اپنی نکی کے لئے رکھ لو۔۔۔ شادی میں کام آئیں گی۔“
لیکن سب نے زبردستی پہنا ہی دیں۔
نذیر کی پہلی تنخواہ توساری کی ساری لگ گئی تھی لیکن اماں کے ہاتھ میں جھلمل جھلمل کرتی انگوٹھیاں دیکھ کر تو اْسے ایسی خوشی ملی جو سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ لگتا تھا جیسے اْس نے کائنات حاصل کر لی ہو۔ اماں کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو تھے اور زبان پہ شکر کے کلمات۔
”اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔ اللہ تمہیں ہر تتی ہوا سے، ہر بلا سے، ہر ابتلا سے بچا کر رکھے۔ مولا پنجتن پاک کے صدقے زندگی میں کوئی امتحان نہ آئے۔“
اماں کویوں دعائیں دیتے اور وسیلے گنتے اْس نے پہلی دفعہ نہیں دیکھا تھا۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اُ س نے ماں سے کچھ لیا نہیں تھابلکہ ماں کو کچھ دیا تھا۔
اْس نے خود سے کہا اماں میں تیرے قرض نہیں اُتار سکتا۔ میرا تو رْرواں ْرواں تیرے قرض میں ڈوبا ہواہے۔ اپنی کھال اتار کر بھی تیرا قرض ادا نہیں کر سکتا۔ کوئی بھلا اپنی ماں کے قرض کیسے اُتار سکتا ہے۔ ماں درد مٹاتی رہتی ہے، اپنی اولاد کے راستے سے کانٹے ہٹاتی رہتی ہے لیکن اولاد اس کا ایک بھی درد مٹانا تو کیا اس درد کی اذیت کو بھی کم نہیں کر سکتی۔ وہ اولاد کو سہارے دیتی رہتی ہے مگر اولاد اْسے ایک پل کا سہارا بھی نہیں دے پاتی۔وہ بے چاری تو اْس بوڑھے برگد کی طرح ہوتی ہے جسے نازک نازک سی کونپلیں اور بیلیں سہارے دیتی ہیں لیکن یہ سہارے خود اتنے ناتواں ہوتے ہیں کہ جونہی برگد گرتا ہے یہ خود بھی دھڑام سے زمین پر آگرتے ہیں۔



نذیر پریشان تھا، ڈاکٹر نے دلہن کے آپریشن کا کہہ دیا تھا۔ اماں کو جب پتہ چلا تو انہوں نے انگوٹھیاں اُتار کر نذیر کو دیتے ہوئے کہا،
”پریشان نہیں ہونا میرا پْتر۔۔ یہ لے لو۔۔۔ اور دلہن کا علاج کروالو۔۔ اللہ خیر کے دن دکھائے۔“
”بس کر اماں بس۔۔۔اب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں ابھی تو چار دن بھی نہیں ہوئے۔“
”خیر ہے، کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ تو زیادہ نہ سوچ۔“
نذیر نے ہچکچاتے ہوئے ایک انگوٹھی لے لی۔



اماں کو شوگر نے آن گھیرا تھا۔اُن سے چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ بس ہر وقت ہائے ہائے کرتی رہتیں۔
ایک دن انہوں نے نذیر کو بلا کر کہا،
”مجھے لگتا ہے میرا وقت قریب ہے۔ لڑکوں کاکیاہوتا ہے وہ تو کچھ کر ہی لیتے ہیں، توں ’نکی‘ کے سسرال کو کہہ کہ آکر کڑی کے دن لے لیں۔“
”اماں ایسی باتیں نہ کیا کر۔“
نذیر نے ماں کے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔
”ارے میں کہاں مرنے جارہی ہوں۔۔۔اتنی جلدی نہیں مرتی۔۔خالص خوراکیں کھائی ہیں۔۔۔ بس یہ ٹانگوں کادرد اب برداشت نہیں ہوتا۔ بس چاہتی ہوں بستر پر پڑنے سے پہلے کڑی کے ہاتھ پیلے کر دوں۔“
”لیکن اماں وہ تو ابھی پڑھ رہی ہے۔“
”ہوجائے گی پڑھائی۔اپنے گھر جا کر بھی پڑھ لے گی۔ کون سا جاہلوں میں جارہی ہے۔“
”لیکن اماں۔۔ ’کاکا‘ ابھی کچھ نہیں کرتا۔۔ میری اکیڈمی سے اتنا کہاں کہ۔۔۔۔۔“
”او توں فکر نہ کر۔۔ میرے چار کنگن ہیں۔۔ اسی دن کے لئے رکھے تھے۔۔، اور ہاجراں کے پاس کمیٹی بھی ڈالی ہے۔ چار سال ہو گئے ہیں ایک بھی کمیٹی میں نے نہیں لی۔ میں نے پکا کیا تھا کہ ’ نکی‘ کی شادی پر لوں گی۔۔ مل ملا کرپورا ہو ہی جائے گا۔ بس تم تیاری کرو۔“
اْ س دن تو نذیر کا جی چاہتاتھا کہ وہ اماں کے پیروں میں پڑا رہے اور اتنا روئے کہ اندر سے سارا پانی نکل جائے۔
اماں تْو کیاہے۔۔ تْوکوئی فرشتہ ہے۔۔۔ یا کوئی ماورائی طاقت۔۔ ہر مشکل میں کام آتی ہے۔۔ نہ گھبراتی ہے، نہ گھبرانے دیتی ہے۔۔ تیرے ہاتھ میں کیا چھپا ہواہے جو سارے کام نمٹا لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ خود اْف تک نہیں کرتی اور دوسروں کی اْف سن نہیں سکتی، تُوتو کوئی پری ہے کسی اور دیس کی، تْو اس دیس کی نہیں ہو سکتی، تیری ادائیں، تیری وفائیں سب کسی اور دیس کی ہیں۔ کسی روحانی دیس کی۔ تو نے اثبات ہی سیکھا ہے، نفی تو تیرے پاس سے گذری تک نہیں۔ تُو مدرسہ بھی ہے اور معلم بھی، تو مسیحا بھی ہے اور مسیحائی بھی۔۔۔ تیرے قدموں میں رحمت ہے یا تو خود سراپا رحمت ہے۔۔۔ ماں تو کیا ہے ۔۔۔ بس تو ماں ہے فقط ماں ہے۔۔ بس ماں۔۔ اور میری ماں۔



اماں کی بیماری تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔۔۔ اب تو وہ بستر کی ہی ہو کر رہ گئی تھیں۔ ہاتھ پیر اتنے کمزور ہو گئے تھے جیسے کسی پودے کی شاخیں۔۔۔ اور نرم اتنے جیسے روئی کے گالے۔۔۔۔۔ بس وہ دن پورے کر رہی تھیں۔۔۔ نہ ہونے کے برابر کھاتیں،
مگرسوئے جاگے گھر کے تمام کاموں میں شریک رہتیں، کبھی گردن ہلا کر، کبھی ہاتھ کے اشارے کے ذریعے اپنے مشوروں سے بھی نوازتی رہتیں۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہائے کرتیں نہ اْف۔۔۔۔۔۔
نذیر کی وکالت کا آخری سال سکڑتے ہوئے مہینے میں سمٹا، مہینہ ہفتوں میں اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب وہ وکیل بن گیا۔ اْس دن اماں نے ضد کر کے مٹھائی کھائی تھی۔ کیسے نہ کھاتیں اُن کی زندگی کا مشن، ان کی زندگی کاارمان پوراہوا تھا۔ کچھ دن تو یوں لگا جیسے وہ صحت یاب ہو رہی ہیں لیکن پھر ان کی صحت گرنا شروع ہو گئی۔
نذیر کو اماں کی صحت کی پریشانی تو تھی ہی لیکن ا س سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ اگر اماں کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گا۔ اْ س نے اپنی دلہن سے کہا تھا،
”ابھی تو میری آمدن بھی شروع نہیں ہوئی، اماں ہیں کہ جانے کے لئے تیاری کئے بیٹھی ہیں۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو سب کچھ کیسے ہو گا۔۔۔۔“
ا س کی دلہن نے اْسے سمجھاتے ہوئے کہا،
”لو کیسے ہوگا کیا۔۔۔ جیسے دنیا کرتی ہے۔ آپ خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں اللہ انہیں زندگی دے۔۔۔۔۔۔ اُنہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔ لیکن اگر کوئی برا وقت آ ہی گیا تو آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ میں نے بلقیس کے ہاں کمیٹی اسی شرط پر ڈالی تھی کہ اگر اماں کو ہسپتال جاناپڑا تو وہ ہمیں کمیٹی دے دے گی۔۔“
نذیر سن کر مطمئن ہو گیا۔
”ارے تم تو پوری کی پوری اماں پر گئی ہو۔“
”کیوں نہیں ہر عورت میں اماں چھپی ہوتی ہے۔“



خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ نذیر کی وکالت چل نکلی۔۔ اور چار کیس ایسے ملے کہ نذیر کے ہاں گاڑی بھی آگئی۔ اُس نے گاڑی میں اماں کو بٹھاتے ہوئے کہا،
”اماں اب پریشان نہیں ہونا۔۔ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو گاڑی میں جانا۔“
”ارے باولے۔۔۔ اللہ نہ کرے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے۔۔ اور جہاں مجھے جانا ہے وہاں تیری یہ گاڑی نہیں جا سکتی۔“
”اماں ایسی باتیں نہ کیا کر۔ اللہ تمہیں میری عمر بھی دے دے۔“
’ایسے ہی اللہ تمہاری عمر مجھ بڑھیا کو لگا دے۔۔ اللہ تمہیں اپنے بچوں کے سروں پر سلامت رکھے۔“
نذیرنے اماں کا ہاتھ پکڑا تو اْ س میں ایک انگوٹھی جھلملا رہی تھی۔ اْسے یوں لگا جیسے انگوٹھی کہہ رہی ہو،
”گاڑیاں لیتے پھرتے ہو مگر قرض نہیں چْکاتے۔“
نذیر انگوٹھی سے آنکھیں نہ ملا سکا اور شرمندہ ہو کر وہاں سے اْٹھ آیا۔
”بس کچھ ہی دونوں بعد چار ہوں گی۔“
اُس نے سوچ لیا۔



شہر آنا جانا بہت مشکل تھااس لئے نذیر اپنے خاندان کے ساتھ شہر میں ہی آ بسا۔ وہ اس لئے بھی مطمئن تھا کہ اماں کا علاج اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے کروا سکتا تھا۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا، نہ اماں کی نظر لوٹی نہ صحت۔
اْ س دن سب کچھ اپنے معمول کے مطابق تھا۔ سو رج نکلنے سے پہلے مرغ کی بانگ، مسجد میں دردو و سلام کا ورد، پرندوں کی حمدو ثنا، لوگوں کے گھروں کے باہر گاڑیوں کے ہارن کی آوازیں، اسکول جاتے ہوئے بچوں کی شرارتیں، دفتروں کو بھاگتے ہوئے ملازمین، گداگروں کے دعائیہ نعرے۔۔۔۔۔۔ سب کچھ معمول کے مطابق۔
لیکن ابا جی کے کمرے میں روز کا معمول آج بے ترتیب ہو گیا تھا اور معمول اپنی بقا کی لڑائی لڑ تے ہوئے مات کھا رہا تھا۔
آج اماں نے صبح چار بجے کی بجائے ۵ بجے چائے پی تھی۔ آج انہوں نے ابا جی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ آج اباجی کا چائے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ انہوں نے دو دفعہ دلہن کو بلا کر چائے منگوائی تھی لیکن پی نہیں تھی۔ آج نذیر کے چھوٹے بیٹے نے پہلی دفعہ اسکول جانے سے انکار کیا تھا۔ آج بہت دنوں بعد نذیر کو کسی عدالت میں نہیں جانا تھا۔ اْس نے رات ہی کہہ دیا تھا کہ صبح اْ س نے چھٹی کرنی ہے۔
دلہن اباجی کو چائے دینے گئیں تو روتی ہوئی واپس آئیں۔
”نذیر اماں جی۔۔“
”کیا ہوا؟“
کہہ کر وہ اباجی کے کمرے میں بھاگا۔
اماں چھت کی طرف منہ کر کے سوئی ہوئی تھیں۔ نذیر نے دیکھتے ہی کہا،
”آپ سب لوگ ایسے ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ دیکھیں تو سہی۔۔ وہ سو رہی ہیں۔“
لیکن جب اْ س نے اماں کے پاؤں کو ہاتھ لگایا تو وہ ٹھنڈا برف تھا۔ اُس کے دماغ میں لگی مشین نے فوراً کہا،
”اماں گئیں۔“
اُس نے سینے پر سر رکھ دیا، سینہ کسی بند کمرے کی طرح جامداورساکت دیوار محسوس ہوا۔
وہ وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔ اْسےیوں لگاجیسے اْس کے اندر سے کچھ نکل گیا ہو، اْسے زندگی کی چھت زمین بوس ہوتے ہوئے محسوس ہوئی۔
”نذیر اْٹھ جا ئیں ڈاکٹر کو بلا لیں اماں نہیں رہیں۔“
اْس نے اماں کے سینے سے سر اُٹھایا اور کھڑا ہونے کی کوشش کی۔ لیکن لڑکھڑا کر پھروہیں بیٹھ گیا۔۔۔ اْسے لگا جیسے اماں اْسے اُٹھنے نہیں دے رہی تھیں۔۔ اْسے لگا جیسے وہ کہہ رہی ہوں کوئی ضرورت نہیں ڈاکٹر کو بلانے کی۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ اکثر ایسے ہی تو کہتی تھیں۔۔۔۔ لیکن اماں یہ بھی ضروری ہے۔۔۔ وہ یہی کہا کرتا تھا۔۔۔۔۔ اْس نے اماں کی چارپائی پر اپنا ماتھا ٹکا لیا لیکن کچھ نرم اور گداز سا احساس پا کر سر اُٹھا لیا۔ دیکھا کہ اماں کا ایک ہاتھ اْس کے سامنے لٹک رہا تھا۔۔۔۔ سفید ہاتھ۔۔۔۔۔۔ جس پر سبز رگیں اور ہڈیاں الگ الگ دکھائی دے رہی تھیں۔
اْس ہاتھ کی درمیان والی انگلی میں سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔۔۔۔۔ شاخ جیسی باریک انگلی سے نکلنے کے لئے تیار۔
اْس نے ا ماں کا یہ ہاتھ تھاما، انگوٹھی کو زور سے دبا کر پیچھے کیااورہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔
اماںیہ ہاتھ میرے سر پر رکھ دے ا ماں، اماں مجھ سے یہ عنایت، یہ کرم نہ چھین اماں۔
اماںتیری دعاؤں کا حصار کیسے بنے گا۔۔۔۔ اب میری حفاظت کون کرے گا۔۔۔۔۔۔ تیری گودمیرا مسکن ہے۔۔۔۔۔۔ اب میرے دکھ کون سنے گا۔۔۔۔۔۔۔
سر پر اماں کا ہاتھ رکھے وہ روتا رہا اور انگوٹھی جھل مل جھل مل کرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں وہ رو رہی تھی یامسکرا رہی تھی۔
نذیرا ماں کی انگوٹھی سہلاتے ہوئے بولا،
”ا ماں اب بھی۔۔۔۔۔۔ اب بھی اماں۔۔۔ نہیں اب نہیں ا ماں۔۔ نہیں اب نہیں۔“
اْسے لگا جیسے اماں ہمیشہ کی طرح آج بھی یہی کہہ رہی تھیں۔
”پریشان نہ ہو میرا پْتر۔۔۔۔۔ اْس سونے کاکیا کرنا جو وقت بے وقت کام ہی نہ آئے۔۔۔ لے اور اپناڈنگ سار لے۔۔۔۔“
نذیر جواب دیتا،
”نہیں اماں یہ نہیں۔۔۔ میں کچھ نہ کچھ بندوبست کر لوں گا۔“
ماں ضد کیاکرتیں،
”لے اب میرا پْتر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا۔“
نذیر کہتا،
”نہیں اماں۔۔۔ نہیں۔۔ اچھا نہیں لگتا۔۔۔ میں نے آپ کے ہاتھ میں زیور ڈالنا ہے یا اُتارنا ہے۔“
پھر اماں لالچ دیتیں،
”چل لے لے۔۔۔ میرا پْتر۔۔۔۔۔۔ بعد میں مجھے دو بنوا دینا۔“
”اب نہیں ماں۔۔۔ بس اب نہیں۔۔۔۔۔۔۔“
اْس نے انگلی سے نکلنے کے لئے بیتاب انگوٹھی کو سختی سے دبا کر انگلی میں پیچھے تک دھکیل دیا۔
اْسے لگاجیسے انگوٹھی کا رنگ ماند پڑ گیا ہو۔
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”