کندھوں کی طلب

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

کندھوں کی طلب

Post by وارث اقبال »

کندھوں کی طلب
میں روز کی طرح آج بھی اُ س گلی کے سامنے سے گذرا۔ آج وہاں نہ بچے کھیل رہے تھے نہ کوئی خاص گہما گہمی تھی بلکہ گلی کے داخلہ کا راستہ پیلے رنگ کی ایک قناط لگا کر بند کر دیا گیاتھا۔ قناط کے ساتھ ہی تین موٹر سائیکل اور ایک پرانی سی کرولا کھڑی تھی۔ کھڑی موٹر سائیکل پر ایک بیس پچیس سال کا ایک لڑکا آدھا اوپر اوردھا نیچے کھڑا تھا۔ نہ پتہ چل رہا تھا کہ وہ بیٹھا ہے نہ ہی پتہ چل رہا تھا کہ وہ کھڑا ہے۔ سگریٹ اُس کی انگلیوں میں دبا جل رہاتھا۔۔۔ اور کافی تیزی سے جل رہاتھا۔ وہ جب کش لیتا تو دھوئیں کو کافی دیر تک اندر رکھتا پھر ، اُسے اپنی سوکھی سی گالوں کے اندر گھماتا پھراتااور پھر ایک ادا سے باہر پھینک دیتا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ دھوئیں کے غرارے کر رہا ہو یا کلیاں ۔ اُس کے انہماک اور مصرفیت کو دیکھ کر میرا جی تو نہیں چاہتاتھا کہ میں اس سے بات کروں لیکن میری مجبوری تھی کہ انتظار کے باوجود وہاں کسی ایسے کی آمدنہ ہوئی جس سے میں گلی کے اس پار نکڑ کی پر تبدیلی کی وجہ جان سکوں ۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ لڑکا یا شخص سگریٹ کو مکمل راکھ میں بدل چکاہے تو میں نےسوال کیا،
’’ یہاں کیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میرے لفظوں کی احتیاط کام کر گئی۔ اور میرے سوالیہ جملہ کی تکمیل سے پہلے ہی اُس نے جواب داغ دیا۔
’’ فوتگی۔۔۔۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ میں یہ پوچھنے کے لئے منہ کھولوں ،
’’ جی کس کی ۔۔‘‘
اس نے پھر پہل کی ،
’’ فوتگی جی‘‘
میں جملہ کی تکمیل کا انتظار کرتا ہی رہا مگر وہ ادھوری معلومات دے کر اپنے موبائل پر مصروف ہو گیا۔
میں نے قناط کا پردہ اٹھایا اور گلی کے اندر چلا گیا۔ اندر لال رنگ کی ایک دری پر دو بزرگ بیٹھے تھے۔ میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ کوئی موقع ایساآئے کہ ان بزرگوں سے کچھ معلومات حاصل کرسکوں۔ لیکن وہ بزرگ تھے کہ مکمل طور پر خامشی کا فیصلہ کر کے بیٹھے تھے۔
کچھ ہی دیر میں ادھیڑ سی عمر کا ایک شخص وہاں آیا اور ا ن بزرگوں میں سے ایک کی طرف تیزی سے یہ کہتے ہوئے لپکا ،
’’ السلام ُعلیکم ! چیمہ صاحب ، کیا حال ہے ۔۔ صحت ٹھیک ہے نا۔‘‘
اس شخص کے اتنے تپاک کے باوجود چیمہ صاحب نے فقط ایک مسکراہٹ پر اسے ٹرخا دیا۔
جب اُس شخص نے بزرگوں کو مکمل طور غیر متعلق پایا تو میری طرف بڑھا۔
’’ ماشاللہ جی ۔۔ اللہ جنت نصیب کرے بڑے اچھے تھے۔‘‘
اُس شخص نے جب جملہ شروع کیا تھا تو میں سوچ رہاتھا کہ اس جملے کے درمیانی یا اختتامی حصہ کے ذریعے مجھ تک متوقع معلومات ضرور پہنچیں گی۔ لیکن انہوں نے بھی کفایتِ لفظی کا مظاہرہ کیا اور نامکمل سی معلومات کی ترسیل کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
میں بھی خاموش تھا اور وہ بھی خاموش ۔ مجھ سے اُ ن کی اور اُن سے میری خاموشی دیکھی نہیں جارہی تھی۔ میں مزید کچھ پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میرے الفاظ دہن کے اندر ہی پگھل جاتے۔ مجھے اپنے بچپن میں اسکول کے باہر کھڑے ایک لچھوں کے ٹھیلے کے لچھے یاد آ گئے۔ دونوں ہاتھ بھر کر منہ میں ڈالتے تھے مگر اندر جاتے ہی ہوا ہوجاتے۔ پتہ نہیں کیا سائنس تھی یا کیاجادوگری۔
مجھے سوچوں میں مگن دیکھ کر ان صاحب سے رہا نہ گیا۔
’’ بڑے اچھے تھے جی ماشاللہ ۔۔۔ اللہ جنت نصیب کرے۔‘‘
میں نے پھر ’’ جی ‘‘ کہہ دیا اور سوچا کہ اگر میں پوچھ لوں کہ کون ؟ تو عجیب ہوجائے گا وہ پوچھے گا بھائی تم، کون ہو چنانچہ پھر چپ کی جیکٹ پہن لی۔
وہ صاحب کچھ دیر تو ادھر ادھر دکھتے رہے ، ہلتے جلتے رہے ، جہاں جہاں ممکن تھا کھجاتے رہے اور پھر بولنے کے لئے ان کے لب وا ہوئے۔
’’ کیا بات تھی۔ جی ماشااللہ ، اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔۔ کیابات تھی جی۔۔ ‘‘
میں ہاتھ کھول کہ ہی بیٹھا تھا کہ جونہی میری متوقع معلومات آئیں تو میں اُچک لوں مگر میری خواہش پوری نہ ہوئی۔ اب میں نے کچھ آگے بڑھنے کی کوشش کی۔
’’ بڑے شریف انسان تھے جی۔۔۔۔‘‘
اس نے میرا جملہ اُچکا اور پیوند لگایا،
’’ ارے میا ں کیا بات تھی ، کیابات تھی ۔۔ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جانا کبھی۔۔۔۔‘‘
درد کے مصرع کی یہ بے حرمتی دیکھ کر تو میرے اندر شعلہ کی طرح درد اُٹھا اور میں نے بذاتِ خود مکمل شعر ادا کرکے درد کی آہ و بکا سے بچنے کی کوشش کی ۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مجھے یقینِ کامل تھاکہ وہ داد ضرور دیں گے لیکن انہوں نے اُسے انتہائی منافقت سے اس طرح نظر انداز کر دیا کہ جس طرح مہران کار ہنڈا کو کر دیتی ہے۔
’’ بڑے جی بڑے شریف تھے اللہ انہیں جنت میں جگہ دے۔ ‘‘
اب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور میں نے حملہ کردیا۔
’’ کام بھی ایساتھا نا جی ۔۔۔‘‘
’’ نہ جی نہ یہ نہ کہئے کہ کام ایسانہیں تھا کرتوت ایسے تھے۔ ‘‘
میں نے پہلے تو لاحول پڑھا پھر اس گھمبگیر فلسفہ پر حیران اور پریشان ہوتے ہوئے پوچھا،
’’ میں سمجھا نہیں جی۔۔ ‘‘
’’ پولیس کی نوکری میں کوئی شریف ہو سکتا ہے بھلا۔۔ ‘‘
’’ نہ بالکل نہیں ‘‘ میں نے’ نہ ‘ پر زور دیا تو انہوں اپنی دائیں ابرو کو خاصی مشقت میں ڈالتے ہوئے سامنے دیوار کی طرف آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ،
’’ مگر یہ تھے۔ ‘‘
’’ تھانیدار صاحب۔۔ ‘‘
وہ تو بھڑک اٹھے۔
’’ ارے صاحب! آپ کو نہیں پتہ ۔۔۔ ڈی آئی جی ۔۔ ڈی ۔۔۔۔ آئی۔۔۔ جی ۔۔ آئی سمجھ۔۔۔۔۔ ڈی آئی جی ریٹائر ہوئے تھے۔ ‘‘
سامنے چیمہ صاحب کے ساتھی جا چکے تھے اور وہ بے چارے اکیلے بیٹھے تھے۔ مجھ سے ان کااکیلا پن دیکھا نہ گیا چنانچہ میں ان کے قریب جانے کے لئے اُٹھا ہی تھاکہ ان صاحب نے مجھے واپس زمین پر اس زور سے کھینچا جیسے سخت سردی میں انسان باتھ روم میں ٹھنڈے پانی سے نہانے کے بعد تولیہ سٹینڈ سے تولیہ کھینچتا ہے۔ اور تولیہ کا ایک حصہ دھم سے زمین سے جا ٹکراتا ہے۔
اُس وقت تو مجھے یہ بھی سمجھ نہ آیا کہ انہوں نے مجھے نیچے کی طرف کھینچا تھا یا دھکا دیا تھا۔ جو بھی کیا تھے شاید مجھے اپنے جسم کے کچھ حصوں کو سہلانے کا موقع دیا تھا۔
انہوں نے میرے چہرے کی کتاب پر ناگواریت کا کھلا باب فوراًً پڑھ لیا اور گویا ہوئے۔
’’ سو رہے ہیں۔۔ بزرگ ہیں ۔۔۔کیوں تنگ کرنا انہیں۔‘‘
میں نے جواب دیا ،
’’میں تو بس۔۔‘‘
لیکن میرے بولنے اور نہ بولنے سے اب انہیں کوئی غرض نہیں تھی کیوں کہ وہ صاحب میری شنید کی منجھی ہوئی مہارت کو کافی بھانپ چکے تھے ۔
’’ ایک دفعہ میرے کرایہ دار نہ نکلیں نہ کرایہ بڑھائیں ، میں ان کے پاس آیا اور انہیں مدد کے لئے کہا۔۔۔ مگر انہوں نے اُلٹا کرایہ دار کا ساتھ دیا۔۔ اور مجھ سے دوہزار جو میں انہیں دینے کے لئے لایا تھا۔۔ کرایہ دار کو دے دئے ۔۔ بڑے شریف تھے جی۔ ‘‘
میرے حافظہ کے ذخیرہ میں سے کچھ باہر آنے کے لئے بےتاب ہوا تو میں نے پوچھا،
’’ یہ وہی تو نہیں جن پر ایک دفعہ کرپشن کا کیس بنا تھا۔ ‘‘
’’ ا جی ایک کیس ۔۔ کئی کیس ۔۔۔۔ جس کی بات نہیں مانتے تھے وہ بھی کیس کرواتا تھا ا ور جس کی مان لیتے تھےوہ بھی۔‘‘
’’ وہ کیوں؟‘‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’ شریف تھے نا۔۔‘‘
چیمہ صاحب مسلسل خاموش سونے اور جاگنے کی کشمکش میں مبتلا تھاے اچانک ایک بزرگ اور دو خواتین آئیں اور گیٹ کھول کر گھر کے اندر چلی گئیں۔ گلی میں اور اس گھر کی درو دیوار پر عجیب سحر انگیز اور وحشت ناک خاموشی کا راج تھا۔ میں اب مزید وہاں نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لئے میں نے اپنے تقریبا میزبان صاحب سے کہا ،
’’ اچھا جی میں چلتا ہوں ، میں نے دفتر بھی جانا ہے۔۔۔۔‘‘
’’ نہ نہ ادھر ہی بیٹھئے ، جنازے میں شرکت کے ۔۔۔۔پتہ ہے کتنے فائدے ہیں اور کتنا ثواب ہے۔۔۔ اور اس طرح کے جنازے میں شرکت کا مطلب ہے کہ آپ نے اسی دنیا میں جنت کما لی۔۔۔ ‘‘
ان کی بات میرے دل کو لگی اور میں نے کچھ دیر اور وہاں رکنے کا فیصلہ کر لیا۔
گھر کا دروازہ کھلا ور اندر سے ایک بزرگ نکلے جن کی سفیدداڑھی پر پانی کے کئی قطرے چمک رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہی ایک اور صاحب ایک کرسی لئے نکلے ۔ اور وہ بزرگ کرسی لے کرایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔
وہ سر جھکائے بیٹھے تھے ۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اصل میں وہ سر جھکائے رو رہے تھے۔ وہ کچھ دیر روتے پھر اپنے آنسو ایک تولیہ سے خشک کرتے اور گلی کے کونے پر قناطوں کے بنے دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ۔ شاید انہیں کسی کا انتظار تھا یا شاید سرخ دری پر بیٹھے ہوئے دو تین لوگوں ک پہچاننے کی کوشش کرتے ۔
’’ یہ خان صاحب ہیں ڈی آئی جی صاحب کے بڑے گہرے دوست ۔۔۔ آپ نےانہیں شام کو واک کرتے نہیں دیکھا۔‘‘
’’ نہیں۔‘‘
’’ کسی نے ان سے ملنا ہوا تو سات بجے آجائے کسی نہ کسی گلی کے کونے میں مل لیں ۔۔ اتنے پابند تھے یہ واک کے۔۔ دھوپ چھاؤں ، بارش نہ۔۔ بالکل نہیں۔ ‘‘
آہستہ آہستہ لوگوں کا آنا شروع ہوا جن میں زیادہ تر مرد ہی تھے۔ سب آتے اور خان صاحب کے پاس جا کر افسوس کا اظہار کرتے۔
’’ بڑے نیک بزرگ تھے جی اللہ انہیں جنت میں جگہ دے۔‘‘
لوگ آتے رہے اور جاتے رہے ۔ خان صاحب اپنی جگہ پر موجود تھے۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب خان صاحب نے اپنی انتہائی نحیف آواز میں فرمایا، کہ جنازہ نماز عصر کے بعد ہوگا۔
اسی دوران گھر کے اندر کچھ لوگ آتے جاتے رہے۔ پتہ چلا کہ مرحوم کو نہلایا جا رہا ہے ۔ یہ سن کر میرا وہاں سے اٹھنے کوجی ہی نہ کیا۔ پتہ نہیں کیوں مجھےلگ رہاتھا کہ مرنے والے کے ساتھ میرا کوئی تعلق ضرور ہے۔ یا شاید اس گھر کی خاموشی جو میرے لئے معمہ بنی ہوئی تھی۔ نہ رونے کی آوازیں نہ کوئی بین ، نہ آہ۔۔۔۔۔۔۔ بس خاموشی۔۔ وحشت ناک خاموشی۔
میرے تقریباً میزبان صاحب وہاں سے کچھ دیر کے لئے خان صاحب کے پاس گئے اور پھر واپس آ کر خاموش ہو کر میرے قریب ہی بیٹھ گئے۔ میں نے ان کی خاموشی دیکھ کر ازراہے ہمدردی نگاہوں ہی نگاہوں میں ان سے پوچھ ہی لیا ، ’’ خیریت تو ہے۔ ‘‘
انہوں نے نگاہوں میں ہی جواب دیا، ’’ ہوں۔ ‘‘
پھر وہ جُڑنے کے انداز میں میرے قریب ہو کر بولا، ’’ گئے نہیں‘‘
’’ کیوں ؟‘‘ اس نے تقریباً میرے کان سےپوچھا۔
’’ بس دل نہیں چاہا۔‘‘ میں نے بھی خاموشی کے ماحول کے مطابق سرگوشی کے انداز میں جواب دیا۔
وہ خاموش رہا تو مین نے کہا۔
’’ یار مجھے لگتا ہے کہ یہ ڈی ّئی جی صاحب کا نہیں میرے کسی اپنے کا جنازہ ہے۔ ‘‘
اُس نے فوراً جواب دیا۔
’’ نہیں یہ ڈی آئی جی صاحب کا نہیں تمہارا جنازہ ہے۔۔۔۔‘‘
’’ میرا۔۔‘‘
میں حیرت کا اظہار کیا تو اس نے اپنے کان میں جھاڑی کی ٹہنی کا نازک سا کونہ پھرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ میرا بھی۔۔ ‘‘
میں نے جواب میں ہوں کہا اور خاموش ہو گیا۔ لیکن اس کا خاموش رہنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
’’ آج نہیں تو کل ۔۔ یہاں نہیں تو وہاں ۔ ‘‘ اب کی بار اُس نے تقریباً گنگناتے ہوئے کہا۔
میں نے اندازہ لگایا کہ میری اور اُس کی اتنی آشنائی ہو چکی ہے کہ اب میں اُس سے وہ سوال کر سکتا ہوں۔ جس نے میرے اندر کھلبلی مچائی ہوئی تھی۔
میری کوشش کے باوجود میں اُ س سے کچھ نہ پوچھ سکا۔ یہ وہ نہیں جس سے مجھے اس طرح کا سوال پوچھنا چاہئے ۔ لیکن میں کس سے پوچھوں ۔ اس خاموش فضا سے یا اس گھر کی وحشت سے۔
میں نے اُس کی طرف دیکھا وہ خاموش کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ ماحول نے اُس باتونی شخص کو بھی خاموش کر دیا تھا۔
وہ کیوں خاموش ہےمیں کیوں خاموش ہوں ۔ انتظار تھا جس نے ہمیں خاموش کر دیا تھا۔
وہ بھی کسی انتظار میں ، میں بھی کسی انتظار میں۔
پھر میں نے اپنے اندر کی ساری قوتیں جمع کیں اور اس سے پوچھ ہی ڈالا۔
’’ یار ! اک بات تو بتاؤ۔۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے، جوبھی آتا ہے افسوس کر کے چلا جاتاہے۔ اور خاص بات یہ کہ میں صبح سے بیٹھاہوں مجھے اس گھر کے اندر ہو کا عالم دکھائی دیتا ہے خاموشی اور بس خاموشی ۔ مستقل خاموشی ۔۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ گھر کسی کنکریٹ کا بنا ہو اہو۔ اندر سے رونے کی ایک بھی آواز نہیں آئی۔‘‘
اس نے ایک آہ بھری اور بولا ،
’’ روئے کون مرنے والے کی بیٹی جو نہ تھی جو آ کر باپ پرروئے۔ یہ جنازہ خاموشی سے اُٹھے گا اور خاموشی میں ہی شہرِ خاموشاں میں چلا جائے گا۔‘‘
’’ ارے کوئی بیٹا ویٹا کوئی تو ہو گا۔ ‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا،
’’ ہاں ہیں باہر ہیں، انہوں نےخان صاحب سے کہا ہے کہ ہمارے لئیے آنا مشکل ہے آپ ہی تکفین کر دیجئے۔
میری نظر سامنے بیٹھے خان صاحب پر پڑی۔۔ وہ اب بھی چپکے چپکے رو رہے تھے۔
ایک لاغر، ضعیف و نحیف بوڑھا۔ سنبھل سنبھل کر کبھی روتا کبھی ہنس پڑتا۔ لیکن اس کی بھیگی ہوئی سفید داڑھی بتا رہی تھی کہ وہ بہت رویا ہے ، پتہ نہیں کب سے رو رہاہے اور پتہ نہیں کس کس کو رویا ہے۔
میرا تقریباً میزبان بولا بس جنازہ آنے ہی کو ہے۔
’’ آہ ۔۔۔ جنازے کو کندھا دینے کے لئے بیٹا چاہئے اور رونے کے لئے بیٹی ۔ ۔۔۔۔ آگے اپنا اپنا نصیب کسی کو کندھا ملتا ہے یا آنسوؤںکا نذرانہ۔۔۔۔‘‘
میں نے اپنے اندر آیا ہوا جملہ فوراً باہر نکال دیا۔
’’ جنازے کو کندھا دینے کو بیٹا۔۔۔ جنازے پر رونے کو بیٹی اور جنازہ اٹھانے کو دوست۔۔۔۔۔ یہ رشتے ہمارے لئے لتنے اہم ہیں۔۔ میں وہاں اس لئے نہیں بیٹھا تھا کہ میں نے ایک شخص کے جنازے کو کندھا دینا تھا میں اس شخص کے لئے یہاں بیٹھا تھا جس نے میرے جنازے کو کندھا دینا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم سب کو کندھوں کی ضرورت ہے اور ہم سب کندھوں سے انکاری ہیں۔ ہم اپنے کندھے اونچے کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے دوسرے کندھے جھکا دئیے۔۔۔۔۔۔لیکن
ہم کندھے جھکا نہیں رہے ہوتے بلکہ اپنے جنازے کے کندھے کم کر رہے ہوتے ہیں۔
ماجدصاحب کا شکریہ جو ا س افسانے کے راوی ہیں۔
aliyajaafer
کارکن
کارکن
Posts: 1
Joined: Tue May 24, 2016 5:51 pm
جنس:: عورت

Re: کندھوں کی طلب

Post by aliyajaafer »

Sir waris ak behtreen kawish

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: کندھوں کی طلب

Post by چاند بابو »

وارث اقبال wrote:ماجدصاحب کا شکریہ جو ا س افسانے کے راوی ہیں۔
بہت بہترین افسانہ تھا وارث بھیا.
یہ ماجد میں تو نہیں.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”