چهتری والا جهولا

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 118
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

چهتری والا جهولا

Post by انور جمال انور »

--- چهتری والا جهولا ------

اس نے کہا آو چهتری والے جهولے پر بیٹهتے ہیں
اس نے ایک سمت اشارہ کیا
میں نے دیکھا چهتری والا جهولا ہم سے کچه ہی دوری پر چل رہا تها .. اس پہ بیٹهے ہوئے منچلے ایک دوسرے پر بار بار گرتے تهے
میں نے اس کی آنکهوں میں جهانکا اس کے گلابی گالوں پر لکهے الفاظ چرانے کی کوشش کی ... اس کے اده کهلے ہونٹوں سے کوئی معنی اخذ کرنا چاہا مگر وہاں کچه بهی نہیں تها ..
اس تفریحی پارک میں ( جہاں میں اچانک ہی اس سے ٹکرا گیا تها) سواۓ تفریح اور انجوائے منٹ اس کے دل میں کوئی اور جذبہ نہیں تها ... میں نے سوچا وہ جس عمر میں ہے اس عمر میں ظاہر ہے بندہ اسٹیٹ فارورڈز نہیں ہو سکتا ..کوئی ایک واضح منزل نہیں ہوتی ..کوئی ایک واضح راستہ نہیں ہوتا ...ایسی عمر میں ایسے لوگوں کے سامنے بہت سی چمکتی چیزیں ہوتی ہیں جن میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لینا بہت ہی مشکل ہوتا ہے
ابهی اس کے سامنے بہت سارے بهائی تهے ... عمران بهائی ، پرویز بهائی ، اظہر بهائی ، سلیم بهائی وغیرہ وغیرہ ... بعد میں انہی میں سے کسی بهائی سے اس کی شادی ہو جانی تهی
لیکن
فی الحال تو اسے جهولا جهولنا تها
اس نے کہا آو نا عظیم بهائی جهولے پر بیٹهتے ہیں
ہاں چلو ..میں نے سر ہلایا اور اس کے ساته قدم بہ قدم آگے بڑهنے لگا مگر ابهی کچه ہی دور چلے ہوں گے کہ ظالم سماج اس کے ابو کی شکل میں سامنے آگیا
نیلم.....انہوں نے اپنی بیٹی کو پکارا ... تم یہاں کیا کر رہی ہو ... چلو سب لوگ کهانا کها رہے ہیں .. آ جاو تم بهی ..
اس کے بڑهتے قدم رک گئے ..ایک نظر ابو کی طرف دیکها پهر ایک نظر میری طرف اور اسے لگا کہ ابو ٹهیک کہہ رہے ہیں .
جی ابو ....وہ کچه سہمی ہوئی سی جانے لگی ..
اس کے جانے کے بعد ظالم سماج میری طرف آگیا..
تم........یہاں...........کیسے؟
میں بهی کچه گهبرا سا گیا جیسے انہوں نے مجهے اپنی بیٹی کے ساتھ جهولا جهولتے اور جهولے میں جان بوجه کر ایک دوسرے پر گرتے ہوئے دیکه لیا ہو یا پهر میرے خیالات پڑه لیے ہوں جس کے مطابق ان کی بیٹی پریوں کی رانی..حوروں کی ملکہ یا هیروں کا ہار وغیرہ تهی جسے لے کر میں بهاگنے والا تها
تم...... یہاں.......... کیسے؟ ظالم سماج غرایا
جی....وہ...میں..یہاں....بس ...میرے منہ سے ٹوٹے پهوٹے الفاظ نکلے
تم ہماری بس میں تو نہیں تهے..وہ ذہن پر زور دیتے ہوئے اونچی آواز میں سوچنے لگے

یہ لوگ ایک پکنک اینڈ پارٹی بس سروس سے آئے تهے جس میں ساری خالائیں پهوپهیاں چاچیاں اور ان کی اولادیں بهری ہوئی تهیں..میں نے اس بس کو دیکها تها.
جی ہاں...میں نے بهی اونچی آواز میں سوچا..بس میں جگہ کہاں تهی..میں اپنی بائیک پر آیا ہوں
ہممم....گویا وہ مطمئن ہوگئے مگر جاتے جاتے کہنے لگے نیلم سے ذرا دور ہی رہا کرو.

وہ چلے گئے تو میں نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ چهتری والے جهولے کو دیکها
جهولے نے کہا کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے...ایک بار پهر کوشش کرنا..میں تو یہاں ایسے تماشے روز دیکهتا ہوں ..کوئی ملتا ہے کوئی بچهڑتا ہے..کوئی روتا ہے کوئی ہنستا ہے
پهر جهولا کهل کهلا کر ہنسنے لگا جیسے اس نے اپنے محبوب کو پا لیا ہو یا جیسے جهولے میں بیٹهنے والے جوڑے ہی اس کے محبوب ہوں ...کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ کچه جوڑے گول گول گهومتے جهولوں پر بهی بن جاتے ہیں.خیر وہاں سے چل کر میں پارک کے ایک ایسے گوشے میں آگیا جہاں کوئی نہیں تها..وہاں بیٹه کر سوچنے لگا...
سوچتا رہا..سوچتا رہا....حتی کہ کافی وقت گزر گیا...
ایک اندیشے نے سر اٹهایا کہ کہیں نیلم اور اس کی فیملی چلی نہ جائے...جلدی سے اٹها اور اسے ڈهونڈنے لگا ...پارک بہت وسیع تها
پلے گراونڈ سے ہوتا ہوا میں جهیل کی طرف آیا..وہ کہیں نظر نہیں آ رہی تهی ..دور ایک جگہ اسٹیج پر میوزیکل پروگرام ہو رہا تها..بہت سے لوگ بیٹهے ہوئے تهے وہاں جا کر بهی تلاش کیا... مگر ناکام...
کیا وہ لوگ چلے گئے؟

کیاوہ صرف میری وجہ سے لوٹ گئے..میں ہی تو ایک راز تها سینہ ء کائنات میں..
کیا اس کے ابو مجهے اتنا برا سمجهتے ہیں..کیا واقعی میں اتنا برا ہوں؟
مایوسی نے میرے قدم جکڑ لیے..میوزیکل پروگرام کا ٹکٹ پرزہ پرزہ کر کے ہوا میں بکهیرنے ہی والا تها کہ وہ مجهے نظر آ گئی......اف.....کس قدر حسین و جمیل تهی وہ...کس قدر پیاری تهی
ایکدم سے میوزک کی کیفیت بدل گئی ...پوپ سنگر کلاسیکی شاعری گانے لگا

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
نہیں معلوم کہ وہ کونسی جگہ تهی جہاں کل رات میں تها...وہاں ہر طرف رقص بسمل ہو رہا تها

پری پیکر نگارے سرو قدے لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم

پری کے جسم جیسا ایک محبوب تها اس کا قد سرو کی طرح تها اور رخسار لالے کی طرح...وہ سراپا آفت دل تها

ایک چهوٹی سی پہاڑی پر وہ اپنی تمام تر فیملی کے ساته بیٹهی میوزک سے لطف اندوز ہو رہی تهی
میں نے سوچا کیوں نا میں بهی ڈهٹائی کے ساته ان کے درمیان جا بیٹهوں..آخر میں بهی تو ان کا رشتہ دار ہی تها...دور کا ہی سہی...ان سب کے گهروں میں آزادی سے آ جا سکتا تها..یقینا وہ سب مجه سے مل کر خوش ہوتے..تاہم نیلم کے ابو کا سوچ کر میں رک گیا..وہ مجهے پسند نہیں کرتے تهے.جانتا تها کہ اگر سامنے گیا تو اس کے ابو اپنے ساته بٹها لیں گے اور ادهر ادهر کہیں بهی دیکهنے نہیں دیں گے..باتوں میں لگا لیں گے.
مجهے ایک ترکیب سوجهی....میں پہاڑی کی بیک سائیڈ پہ جا کر اوپر چڑهنے لگا حالانکہ پہاڑی اس طرف سے دیوار کی طرح سیدهی کهڑی لگ رہی تهی

بڑی دقت سے آدهی پہاڑی ہی سر کی تهی کہ پاوں پهسلا اور میں قلابازیاں کهاتا ہوا واپس نیچے آرہا...کافی چوٹیں بهی آئیں..
کاش زندگی میں صرف پڑهائی کرنے کی بجائے کوہ پیمائی بهی کی ہوتی تو آج نیلم تک پہنچنا آسان ہوتا.
میں نے کپڑے جهاڑتے ہوئے دوبارہ کوشش کی..خیال آیا کہ لڑکیاں ایڈونچر پسند کرتی ہیں جب وہ دیکهے گی کہ میں ایک ناممکن چڑهائی چڑهتا ہوا اس تک پہنچا ہوں تو بے اختیار گلے لگ جائے گی
اب اس بات پر کوئی ہنستا ہے تو ہنسے..جنہوں نے کبهی کسی سے عشق کیا ہے وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ محبت کرنے والوں کے اپنے ہی خیالات ہوتے ہیں اور خیالوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے..
شاید انہی خیالات کا کرشمہ تها کہ پہاڑی پر ایسے خطرناک مقام سے چڑهنا میرے لیے نیلم سے بهی زیادہ حساس ہو چکا تها..میں اپنے ہاته پاوں کے پنجے مضبوطی سے جماتاہوا اوپر جا رہا تها
اس دوران مجهے کے ٹو فتح کرنے والے پہلے دو عظیم کوہ پیما لیساڈلی اور کمپانونی بهی یاد آئے جو اطالوی تهے ..جن کے لیے کے ٹو پر کوئی نیلم بهی چشم براہ نہ تهی پهر بهی انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکهایا..
ہانپتا کانپتا میں چوٹی تک جا پہنچا..آخری چٹانی سرے کو پکڑنے کے لیے مجهے ہلکا سا جمپ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن اس سے پہلے میں نے اپنی سانسیں بحال کیں..پہاڑی سے چپک کر دیر تک کهڑا رہا..دور نصب ایک بڑے لیمپ کی روشنی یہاں تک آ رہی تهی پهر بهی اچها خاصہ اندهیرا تها یہ گویا تصویر کا دوسرا رخ تها..پہلے رخ پر روشنی تهی.برقی قمقمے تهے.میوزک تها.ڈانس تها.لوگوں کا شور تها.زندگی اپنی پوری توانائی سے دمادم مست قلندر کا دهمال ڈال رہی تهی جبکہ دوسری طرف میں تهکن سے چور نیلم کو پانے کے لیے ایک نئی مگر انتہائی احمقانہ رسم کی بنیاد ڈالے پہاڑی سے چپکا ہوا تها

مجهے نیچے اتر جانا چاہئیے..دل میں خیال آیا مگر نیچے کی طرف دیکها تو محسوس ہوا اب اترنا چڑهنے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے
میں نے اللہ کا نام لے کر ایک ہلکا سا جمپ لیا اور دونوں ہاتهوں سے پہاڑی کا آخری سرا تهام لیا ..آہ..او گاڈ ...میں چیخا کیونکہ پاوں زمین سے اکهڑ گئے تهے..
زمین آدها فٹ نیچے چلی گئی تهی..دیوار پر ادهر ادهر بےاختیار کوشش کے باوجود پاوں نہ جم سکے...نتیجتا میں لٹک کر رہ گیا..موت سر پر آ کر ناچنے لگی..بدن کانپ کانپ گیا
اف یہ میں کیا کر بیٹها ہوں..یااللہ مجهے بچا لے..زبان فریاد کرنے لگی
اس وقت زندگی سے بڑه کر کوئی بهی شئے پیاری نہ تهی..آج بهی وہ وقت اور منظر یاد آتا ہے تو ہنستا ہوں..کونسی نیلم اور کہاں کی نیلم..محبت بہرحال اپنی آب وتاب کهو دیتی ہے ایک اس وقت جب جوانی نہ رہے اور ایک اس وقت جب آدمی کسی پہاڑ کی چوٹی سے لٹک رہا ہو

عین اس وقت جب میں مر رہا تها مجهے اپنی فزکس کیمسٹری اور میته وغیرہ کی کتابیں بهی بہت یاد آئیں جو میرے کمرے میں ادهر ادهر پھیلی ہوئی تهیں..جن میں میں رات دن سر کهپایا کرتا تها
ماں کہتی تهی ایسا پڑهاکو بچہ دنہا میں نہیں دیکها..کبهی باہر بهی نکلا کر.اپنے دوستوں یاروں میں بهی جایا کر...
میں زیادہ سے زیادہ چهت پر چلا جاتا جہاں سے نیلم کا گهر نظر آتا تها اور کبهی کبهی خود نیلم بهی

هیلپ...میں چیخا..کوئی ہے....پلیز کوئی ادهر آو..
میرے بازووں سے جان ختم ہو رہی تهی اگر ہاته چهوڑ کر زمین پر ٹکنے کی کوشش کرنا تو سنبهلنے کا ایک فی صد بهی چانس نہیں تها
کوئی ہے کیا؟ میں پهر زور سے چیخا اور چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹهانے لگا
آخر کار ایک سیکیورٹی گارڈ نے مجهے سن لیا جو وہاں اس لیے تعینات تها کہ پہاڑی پر چڑهنے والوں کو اس طرف یعنی آخری سرے پر آنے سے روک دے کیوں کہ نیچے گرنے کا خطرہ تها
تم کس وقت ادهر آئے؟ میری تو نوکری چلی جاتی...سیکیورٹی والے نے مجهے کهینچنے کے بعد پوچها..میں آنکهیں بند کیے زمین پر لیٹا رہا..میرے پاس کوئی معقول جواب بهی تو نہیں تها..اس اللہ کے بندے نے میرے کپڑے جهاڑے اور پانی پلایا .. اعصاب بحال ہونے لگے کچه دیر بعد میں نیچے لوگوں کے میلے کی طرف جانے لگا...
ذرا سی کوشش کے بعد نیلم نظر آگئی
تم...... وہ مجهے دیکه کر حیران ہوئی..
کہاں چلے گیے تهے؟ اور یہ کیا...اس نے میرا جائزہ لیا..کہیں گر گئے تهے کیا ؟

چهوڑو ان باتوں کو..چلو چهتری والےجهولے پر چلیں..میں نے کہا

میں تو ہو کر بهی آگئی

کیا........... کس کے ساته؟

عرفان بهائی کے ساته

اوہ.......

ابو کہہ رہے تهے عرفان بهائی کے ساته چلی جاو..تو میں کیا کرتی...اس نے صفائی پیش کی حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تهی..میں جانتا تها کہ اس کے ابو اس کے ساته عرفان کو ہی دیکهنا چاہتے ہیں..میں اسے چهوڑ کر ابو کی طرف گیا

ابو نے مجهے دیکه کر ایک بار پهر برا سا منہ بنایا اور پوچها
تم...... یہاں.....کیسے؟

میں نے کہا چهتری والے جهولے میں تو ہر کوئی جهول سکتا ہے مگر یاد رکهیں ایک دیوار جیسی پہاڑی پر ہر کوئی نہیں چڑه سکتا ... ...خدا حافظ

---------------
تحریر؛ انور جمال انور
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: چهتری والا جهولا

Post by nizamuddin »

کیا کہنے جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
حمیرا عدنان
کارکن
کارکن
Posts: 5
Joined: Fri Oct 23, 2015 12:51 am
جنس:: عورت

Re: چهتری والا جهولا

Post by حمیرا عدنان »

بہت خوب اچھی تحریر ہے

Sent from my SM-G900F using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: چهتری والا جهولا

Post by ایم ابراہیم حسین »

عمدہ بہت عمدہ تحریر

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”