سیلفی غلام وارث اقبال

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سیلفی غلام وارث اقبال

Post by وارث اقبال »


ایک سچے واقعہ سے ماخوذ
سیلفی
اکبر کے گلابی چہرے پر روئی جیسی بھوری مونچھیں اب زیادہ گہری ہو رہی تھیں۔ قلموں نے کانوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مونچھوں کی قربت حاصل کر لی تھی۔۔ ٹھوڑی پر بھی روئی جیسے بھورے بال سیاہی مائل ہو رہے تھے ۔ پہلے تو وہ انہیں مٹانے کے لئے مشین کا استعمال کرتا تھا لیکن ایک دن حجام کے کہنے پر ر ٹھوڑی کے بالوں کوموٹی مشین سے صاف کروایا، مونچھوں کی قینچی سے تراش خراش کی اور کانوں کی لوؤں تک بڑھی ہوئی قلموں کی قینچی سے ہی حد مقر رکی۔
اُس کا بننے سنورنے کاشوق بھی دن بدن بڑھ رہا تھا۔ ڈراموں اور فلموں میں لباس یاجوتوں کا جو بھی فیشن ’ اِن ‘ ہوتا وہ اپنانے کی کوشش کرتا ۔ بعض اوقات تو کوئی شرٹ یا جوتے تالاش کرنے میں وہ مارکیٹوں کے کئی دن چکر کاٹتا رہا۔ اُس کے مزاج میں بھی تبدیلی آئی تھی اب وہ گھر سے باہر لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرتا۔ جن لوگوں کو وہ نظرانداز کر دیا کرتاتھا اب اُن کا بھی حال چال پوچھتا۔
اُس دن تو وہ کچھ خاص طور پر تیار ہوا تھا، نیلی زین کی پینٹ اوپر سیاہ ٹی شرٹ اور پیروں میں سروس کی پمپی جسے عرف عام میں پمپس کہا جاتا تھا پہن کر وہ خودکو انگریزی فلموں کا ہیرو سمجھ رہا تھا۔ دو تین پرفیوم کے اچھے خاصے فوارے کپڑوں پر چلانے کے بعد اُس نے اپنے سنورے ہوئے بالوں کو دوبارہ سنواراا ور پتلی پتلی بھوری روئی جیسی مونچھوں کے دائیں طرف کی مونچھ کے کچھ بالوں کو کریم سے بٹھانے کی کوشش کی جو باقی بالوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی تیزی میں بڑھ رہی تھیں۔ اُس نے سوچا، ’’ اب میں انہیں کسی نہ کسی بہانے کٹوا ہی دیتاہوں ۔ ‘‘ پھر خیال آیا ماں نے کہنا ہے، ’’ اگر کم عمری میں بال کٹواتے رہیں تو وہ بہت موٹے نکلتے ہیں۔‘‘ ’’ اس لئے مناسب ہے پتلی مشین ہی پھروا لوں۔ ‘‘ گویا فیصلہ ہو گیا۔
آنکھوں پر نیلے رنگ کی چمکدار عینک بٹھاکر اُس نے اپنے بیڈ کے دراز سے اپنا نیا موبائل فون اور اُس کی ہیڈ فون نکالی۔ ہیڈ فری کو کانوں میں گھسایا اور موبائل پر کچھ میسیج اور مس کالیں چیک کیں۔ یہ موبائل مارکیٹ کا جدید اور لیٹیسٹ موبائل تھا۔ اس لئے مہنگا بھی تھا۔ جب مہنگا تھا تو اس میں فنکشنز اور ایپلیکیشنز بھی باقی موبائلوں سے زیادہ تھیں۔ یہ موبائل اس سال کی گرہ پر اُسے اُس کے ابا کی طرف سےتحفہ کی صورت میں ملا تھا۔ اس طرح کا تحفہ شاید پچھلے سال ہی مل جاتا لیکن چونکہ یہ تحفہ اچھے نمبروں کے حصول سے مشروط تھا اس لئے اُسے اس کے لئے پورا سال انتظار کرنا پڑا اور محنت کر کے اپنے ماں باپ کے ساتھ وعدہ کے مطابق اچھے نمبر لینے کے بعد یہ تحفہ حاصل ہوا۔ ایک زمانہ تھا کہ سال گرہ یا امتحان میں اچھی کارکردگی دکھانے پر جو تحفہ بچہ کو ملتاتھا وہ ایسا ہوتا کہ بچہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی لیکن اب تو وقت ایسا بدلا ہے کہ بچے کو سال پہلے ہی پتا ہوتا ہے کہ اگلی سال گرہ پر اُسے کون سا تحفہ ملے گا۔ بلکہ جونہی سالگرہ کی رات ختم ہوتی ہے اگلے تحفہ کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ ماں باپ بھی سمجھتے ہیں چلو دینا تو ہے اُس کی مرضی سے ہی دے دیں تو زیادہ بہتر ہے۔
اپنی تیاری کو حتمی شکل دے کر وہ اپنے گھر کے دروازے سے باہر اپنی گلی کے کونے میں پہنچا تو اُس نے گلی میں ادھر ادھر دیکھا۔ کسی کو نہ پا کر گلی کی الٹی طرف چلنا شروع کردیا، چلتے چلتے اُس نے ایک میسج بھی کر دیا۔ اپنے گھر سے تین چار گھر چھوڑ کر ایک گھر کے اندر داخل ہوا جس کا دروازہ کھلا تھا یا کھول رکھا گیا تھا۔ اندر اُسی کی عمر کی ایک پیاری سی گڑیا نما بچی صائمہ کھڑی تھی۔ جس نے دروازہ بند کرتے ہی کہا، ’’ اس وقت کیوں آئے ہو ۔ اگر کوئی آ گیا۔ ‘‘
’’ ہم سب خبر رکھتے ہیں جناب اندر کی بھی اور باہر کی بھی۔۔۔۔ امی ابا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ بھائی ٹیب پر مصروف ہے ۔۔۔ کسے خبر۔۔۔۔خیر چھوڑ۔۔۔‘‘
اُس نے مابائل جیب سے نکالا، سیمسن گیلکسی ہے۔۔۔ سیمسن کا سب سے اچھا۔۔ موبائل ۔۔‘‘
صائمہ نے موبائل اُ س کے ہاتھ سے لیا، ’’ ہاں پتہ ہے ، ماموں کے پاس بھی یہی ہے۔۔۔ اس کا رزلٹ بہت اچھا ہے۔۔‘‘
’’تو ہوجائے۔۔ ‘‘ اُس نے موبائل اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا،
صائمہ تھی تو عورت زاد ہی شرما کر ، جواب دیا نہیں میرے کپڑے ٹھیک نہیں ۔۔‘‘
’’ اری ، چھوڑ کپڑے وہ کون سے تصویر میں آنے ہیں۔‘‘
’’ یہ کونسا موبائل ہے جس میں کپڑے نہیں آئیں گے۔ ‘‘ صائمہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’ یہ جو لڑکیاں ہوتی ہیں ان کا تو دماغ ہی خراب ہوتا ہے۔۔ میں تو کہا تھا کہ کپڑوں کی کونسا کوئی صورت ہوتی ہے جو موبائل میں آئے۔ ‘‘
اکبر نے یہ جانے بغیر کہ اُس کی محبوبہ قائل ہوئی ہے یا نہیں اپنے بائیں بازو کو اُس کے گرد پھیلایا اور اُس کے کندھے سے قریب اپنا منہ کرتے ہوئے کہا،
’’ چل آ ایک سیلفی ہوجائے۔‘‘
’’ ہاں لیکن وعدہ کرو فیس بک پر نہیں ڈالو گے ۔ ‘‘ صائمہ نے اُس کے قریب ہوتے ہوئے کہا،
’’ ارے نہیں کیا مجھے ایساسمجھا ہے۔‘‘
وہ اتنے قریب آگئے کہ اکبر کا بایاں کان صائمہ کے دائیں کان سے تقریباً چھونے لگا۔ نہ اکبر کے اندر طوفان برپا ہوا ، نہ صائمہ کے اندر شرارے پھوٹے البتہ ایک کلک کی آواز آئی اور دونوں کے چہرے موبائل میں قید ہو گئے۔
’’ ٹہرو ٹہرو ایک اس اینگل سے بھی۔‘‘ اکبر نے اپنے بازو کو آخری حد تک لمبا کرتے ہوئے کہا۔
’’ کلک، کلک ‘‘
’’ دکھا ذرا، دکھا ۔۔۔‘‘ صائمہ نے اب تو اُس کے منہ کے ساتھ منہ جوڑتے ہوئے کہا، اس قربت پر بھی نہ کوئی تلاطم برپا ہوا، نہ شرارے پھوٹے۔
’’ کتنی اچھی لگ رہی ہوں ہاں ۔۔۔ میں تھوڑا سا بڑا ہوتا تو ۔۔۔ جیسا دکھتا۔‘‘
’’ چل بڑا آیا ہیرو۔۔۔‘‘
’’ وہ تو ہوں ۔۔۔ اچھاچلتاہوں دوست کے ہاں جا رہا ہوں بڑی مشکل سے اجازت ملی ہے۔‘‘
’’ سنو یہ تصویریں مجھے وٹس ایپ کر دینا۔‘‘
’’ کیوں ابو کو دکھانی ہیں۔‘‘
’’ جان نہ نکال دیں میری۔‘‘
’’ پھر کیا کرنی ہیں۔ ‘‘
’’ نسرین کو دکھانی ہیں وہ اپنے بوائے فرنڈ کی تصویریں جب سب کو دکھاتی ہے تو بڑی ’ اِل فیلنگ‘ ہوتی ہے۔ ‘‘
صائمہ نےشرمائے بغیراپنی ننھی سی خواہش کا اظہار کیا۔
’’ لو ابھی کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ لو۔‘‘
’’ رات کو فیس ٹو فیس۔۔۔ اوکے اللہ حافظ۔‘‘
اُس نے صا ئمہ کوگلے سے لگالیا، نہ اندر محبت کے پھول کھلے نہ بارش ہوئی نہ طوفان آیا۔
وہ دروازے سے باہر نکلا ہی تھا کہ اُسے کچھ یاد آگیا اندر آکر صائمہ سے لپٹ گیا۔۔ ’’ یہ تو رہ گیا تھا۔ ‘‘
یہ کہہ کر اُس نے اپنے ہونٹ صائمہ کے ہونٹوں کی نظر کردئیے۔۔۔۔ پھول بھی کھلے، بارش بھی ہوئی اور ہلکا سا طوفان بھی آیا۔
’’ شرارتی کہیں کا۔۔۔۔۔ یہ ضرور کرنا ہوتا ہے۔ ۔۔پتہ بھی ہے کہ مجھے گدگدی ہوتی ہے۔‘‘ صائمہ نے اپنے ہونٹ چاٹتے ہوئے کہا۔
’’ میں تیرا رس پی لوں ۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ گنگناتا ہوا باہر نکل گیا۔
ایک چھوٹی سی گلی سے گزر کر ایک بڑی گلی میں داخل ہو ا جو تھی تو گلی لیکن بازار بن چکی تھی۔ اس گلی میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کم از کم ایک دکان نہ کھلی ہو۔ انہی دکانوں میں ایک دکان ایک حجام کی تھی جس پر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ’ ماڈرن سیلون ‘ یہ بورڈ اتنا پرانا ہو گیا تھا کہ نہ اب اس کا چوکھٹا ماڈرن تھا نہ ٹین کی چادر جس کا یہ بناہوا تھا۔ جب بورڈ کا یہ حال ہو تو اندر سیلون کا کیا حال ہو گا۔ ہر شے وقت کے دیوتا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔
اکبر سیلون کے اندر گیا تو سیلون کے مالک نے ’’ اوئے ہیرو ‘‘ کہہ کر اس کا استقبال کیا۔ اس بوڑھے سیلون کا اصلی مالک تو اب گھر بیٹھتا تھا البتہ اُ س کا ہونہار بیٹا یہ سیلون چلا رہا تھا۔
اُس نے ایک ادھیڑ عمر شخص کے بالوں میں سیاہ رنگ کے برش سے سیاہ رنگ ملتے ہوئے کہا،
’’ کہاں تھا ۔۔۔ اتنے دن نظر نہیں آیا۔ ‘‘
اکبر نے قدِ آدم آئینے کے سامنے اپنے سیدھے بالوں کو مزید سیدھا کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ بس ذرا مصروف تھا۔‘‘
پھر اُس نے ایک دیوار پر بہت سی ہندوستانی ہیروئنوں کے بڑے بڑے بوسیدہ پوسٹروں میں سے نسبتاً ایک بہتر پوسٹر کے سامنے کھڑے ہو کر پوز بنایا اور لمبا ہاتھ کھینچ کر سیلفی بنائی۔ ‘‘
’’ نیا لیا ہے۔۔۔۔‘‘ باربر صاحب بھی رنگ چھوڑ اُ س کے پاس آگئے اور موبائل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہاں تو کیا پرانا ہے ۔۔۔۔۔ نیا ہے۔۔ نیا ۔ نکور۔ ‘‘
’’ ادھر آ کر میرے ساتھ ایک سیلفی بنا۔ ‘‘ باربر نے کرینہ کپور کے پوسٹر کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’ وائے ناٹ۔۔۔ یہ لو اس میں کون سا خرچ آتا ہے۔ ‘‘
اکبر نے پوسٹر کے قریب آتے ہوئے کہا۔
’’ سُن ادھر ۔۔۔ یہ والا حصہ میرے ادھر آئے۔‘‘ باربر نے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ بڑا بے شرم ہے بھئی تو ۔۔ لو کیا یاد کرو گے۔۔‘‘
’’ کلک‘‘
’’ لے یہ دیکھ۔۔۔‘‘ اکبر نے اُسے سیلفی دکھاتے ہوئے کہا۔
’’ اوئے ہیرو بڑا اعلیٰ ہے بھئی کوئی پہچان ہی نہیں سکتا یہ تصویر ہے۔ ‘‘ باربر نے اپنی اور اُس کی اور کرینہ کپور کی سیلفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ اوئے ، تصویر ہی تو ہے۔۔ ‘‘ اکبر نے اُس کا تمسخر اُڑانے کی کوشش کی ۔
’’ میرا مطلب اُس کی طرف تھا بدھو۔‘‘ اس نے کرینہ کے پوسٹر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں دیکھ یار لگتا ہے اُ س نے ہمارے ساتھ ہی کھڑے ہو کر یہ تصویر بنائی ہے۔ ‘‘ اکبر نےتائید کرتے ہوئے کہا۔
’’ چل او کاکا!۔۔۔ بس وی کر رنگ ویکھ کتھے کتھے چڑھ گیا اے۔‘‘
’’ اچھا بئی میں تو چلتا ہوں۔۔۔ بڑے کام کرنے ہیں سبزی لانی ہےپھر ایک دوست کے ہاں جا نا ہے بڑی مشکل سے اجازت ملی ہے۔‘‘ اکبر نے آئینے میں ایک دفعہ پھر خود کو دیکھا عینک اچھی طرح آنکھوں پر بٹھائی اور دکان سے باہر نکل گیا۔
کانوں میں ہیڈ فون لگائے ہاتھ میں موبائل تھامے وہ یوں چل رہا تھا جیسے اُس بازار کا مالک ہو۔۔دنیا کے ہر غم سے آزاد۔۔ اپنی پسند کے گانوں میں مگن ۔
وہ اُس گلی نما بازار سے نکل کر ایک بڑے بازار میں داخل ہوا۔ اس کی نگاہیں یہاں کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ وہ عینک کبھی اوپر کرتا کبھی نیچے۔ پھر اُسے مل ہی گئی موبائل کی دکان۔
اُس نے جیب سے موبائل نکالا ہیڈ فون الگ کیا۔
’’ اس کا پروٹیکٹر چاہئیے تھا۔‘‘ اُس نے موبائل دکان دار کے ہاتھ میں دیا۔
ادھیڑ عمردکاندار نے موبائل کا قربانی کے بکرے کی طرح جائزہ لیا اور پھر کہا،
مل جائے گا‘‘
کتنے کا‘‘
تین سو روپے کا۔‘‘
اتنا مہنگا۔‘‘
’’ اصلی ہے نہ کمپنی کا۔‘‘
نئی رہنے دیں۔‘‘ اکبر نے موبائل اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
’’ یار تم دو سو پچاس دے دو۔‘‘
’’ نئی یہ بھی زیادہ ہیں۔ ‘‘’
’’ چل لا موبائل دوسومیں لگا دوں گا ۔۔ یہ بھی تمہارے لئے۔ ‘‘
’’ نئی ۔۔‘‘
’’ اچھاتم ہی کہو۔۔ خود ہی بتا دو۔ ہماری توپوری کوشش تھی کہ گاہک خالی ہاتھ نہ جائے۔ اُنیس بیس کا فرق کیا۔ ‘‘ دکاندار نے ایک ڈبہ کھولتے ہوئے کہا۔
’’ ابھی تو میں پیسے لے کر نہیں آیا۔ تم فائنل بتا دو۔ ‘‘ اکبر نے موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ پیسے ہے نہیں اور آگیا میرا وقت ضائع کرنے۔۔۔۔ چل جا پڑھا لکھا کر یہ موبا ئلوں کی لت اچھی نہیں ہوتی۔ ممی ڈیڈٰی ، سیلفی قوم‘‘
’’ اچھا جی ۔۔ انکل آپ نے تو تقریر ہی شروع کردی‘‘
’’ او جا یار دماغ خراب نہ کر ‘‘ دکاندار نے ایک اخبار اٹھاتے ہوئے کہا۔
اکبر نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک میڈیکل اسٹور دکھائی دیا۔ اندر جاکر جیب سے ایک پرچی نکال کر کاؤنٹر پر کھڑے ایک لڑکے کے سامنے رکھ دی۔ پاس ایک بزرگ کھڑے تھے انہوں نے جھک کر پرچی پڑھی اور بڑ بڑائے،
’’ کیا زمانہ آ گیا جی بچوں کو بھی گیس ہونے لگی۔‘‘
اکبر کو یہ اچانک کی مداخلت کچھ اچھی نہیں لگی بڑے ادب سے بزرگ کے قریب ہو کر کہا،
’’ انکل جی یہ میں نہیں ہوں، اماں ہیں، میری دادی انہیں ہوتی ہے گیس۔‘‘
’’ اچھا چھا پُتر۔۔۔۔۔ اس میں اس بے چاری کا کیا قصور خوراک ہی ایسی ہے۔۔۔ تم انہیں نا ۔۔ رات کو سونف کا پانی پلایا کرو مولا نے چاہاتو گیس ویس سب دور ہو جائے گی۔‘‘
’’ جی انکل‘‘ اکبر نے ادب سے مشورہ قبول کرتے ہوئے کہا۔
پاس ہی ایک اور شخص بھی کھڑا تھا اُس نے سوچا کہ وہ بھی اپنا مشورہ دے ہی دے چنانچہ یوں گویا ہوا۔
’’ بیٹا یہ سب بادی خوراک کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔ کھولتے پانی میں دار چینی ڈالنی ہے اور ایک دم دینا ہے جب دم آ جائے تو اُس میں ایک چمچ شہد ڈالنا ہے ۔۔ اگر کولنجی ڈال لو تو کیا کہنے ۔۔۔۔‘‘
ابھی اُن کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میڈیکل اسٹور والے لڑکے نے آواز لگائی ،
’’ بیس روپے لے لیں جی۔‘‘
اکبر نے کاؤنٹر پر بیٹھے ایک شخص کے حوالے بیس روپے کئے اور دا وا لے کر اسٹور سے باہر آگیا۔
کانوں میں ہیڈ فون لگایا اور گنگناتے ہوئے چل پڑا ۔
ایک جگہ کون والا کھڑاتھا اُس کے پاس گیا اور ایک کون لے کر چلنے لگا۔ کچھ خیال آیا اور کون کھاتے ہوئے موبائل کا استعمال شروع کیا اور دو تین سیلفیاں بنائیں۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سڑک پار کی اور ریلوے ٹریک سے پہلے لگے جنگلے کو پھلانگتے ہوئے ریلوے ٹریک پر جا پہنچا۔
ایک زنگ آلود ٹریک پر بیٹھ کر اپنی کون ختم کی ، اپنی پسند کے دو تین گانے سننے ہوئے ٹریک پر اپنی کئی سیلفیاں بنائیں۔ اپنا نیا اسٹیٹس اون لائن کیا اور پھر ٹریک کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
ہیڈ فون کی دونوں تاریں کانوں میں تھیں ۔اور پسند کے گانے جاری تھے۔ بعض گانے زبردستی لبوں پر آ جاتے اور بعض اُس کے پورے جسم کو تھرکنے پر مجبور کر دیتے۔ وہ ٹریک پر ہر سمت سے سیلفیاں بنا چکاتھا۔۔۔دور دکھائی دیتے ہوئے پل ، پھاٹک اور سگنل کے ساتھ۔
پھر اُ س نے سوچا کہ جب یہاں سے ریل گاڑی گزرے گی تو وہ اُس کے ساتھ سیلفی بنائے گا۔ لیکن یہاں تو ریل تیزی سے گزرتی ہے سامنے پھاٹک پر اُس کی رفتار کم ہو جاتی ہے اس لئے وہاں جاتا ہوں تاکہ آسانی سے سیلفی بنا سکوں۔
گانوں پر تھرکتے ہوئے وہ ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پتہ نہیں کب ٹریک کے اندر آگیا ۔ ایک بزرگ نے ریلوے کی پٹڑی پار کرتے ہوئے کافی اونچی آواز میں کہا،
’’ اوئے پُتر سائیڈ تے ہو کے چل، گڈی آجائے گی۔‘‘
لیکن اکبر کے گانوں کی اونچی آواز میں اُس بزرگ کی آواز کہیں کھو کر رہ گئی اور وہ اپنی دُھن میں چلتا رہا۔
تھوڑی ہی دیر میں ریل گاڑی کے ہارن کی آواز گونجنے لگی۔ لیکن ریل کے ہارن کی آواز بھی گیتوں کے آرکسٹرا کی بھاری آوازوں میں گم ہو گئی۔
ایک شخص نے اُسے دیکھا تو چلایا،
’’ اوئے گڈی آ گئی اے۔‘‘
لیکن اکبر کو کوئی آواز سنائی نہ دی۔
’’ اوئے گڈی آگئی اے ‘‘ اب یہ کسی ایک شخص کی آواز نہیں تھی بلکہ یہ جملہ بہت سے لوگوں کی زبان سے ادا ہو رہا تھا۔
’’ میں تینوں سمجھاواں کی نہ تیرے باجھوں لگدا جی‘‘
اس گانے پر اکبر نے والیم اور بڑھا دیا تھا۔
ایک طرف لوگ بھاگے چلے آرہے تھے دوسری طرف ریل ۔۔۔۔ آج تو ریل بھی کچھ زیادہ ہی تیز تھی۔۔۔ اُس کی چھک چھک اور اُس کے ہارن کی آواز سب کافی تیز تھا لیکن اکبر اپنی دھن میں مگن جھومتا چلتا جا رہا تھا۔
ریل تھی کہ بس کچھ ہی لمحوں میں اس کے سر پر پہنچنے والی تھی۔ لمحوں میں کیا سے کیا نہیں ہو جاتا لوگ ایک جگہ آ کر رک گئے تھے وہ اُس کے اور ریل کے درمیان نہیں جا سکتے تھے۔
اچانک اُس نے محسوس کیا کہ زمین ہل رہی ہے۔۔نہیں زلزلہ آگیا ہے۔۔ اُ س کا ہاتھ تیزی سے ہیڈ فون کی طرف بڑھا ۔ اُ س نے جھٹکے سے ہیڈ فون کان سے اُتارا۔مسلسل بجتے ہوئے ریل کے ہارن کی آواز کا کچھ حصہ اُ س کے کان میں پڑا تواُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ٹریل اُس کی طرف ایک ڈریگن کی طرح بھاگی چلی آرہی تھی۔ اُس نے ٹریک سے نکلنے کی کوشش کی لیکن اُس کے قدم جامد ہو گئے ،اُس کی ٹانگوں نے کام کرناچھوڑ دیا اور پھر اُس کے دماغ نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا، اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا۔ ریل کا انجن بغیر دستک دئیے اُ س کے گھر میں داخل ہو چکا تھا۔ بے ہوشی کا عالم اور زمین میں بھونچال دونوں نے اُسے کھڑا نہ رہنے دیا وہ پیچھے کی طرف اڑتے ہوئے ایسے گرا کہ اُس کا ہاتھ ریل کی پٹری پر تھا اور وہ پٹری کے ساتھ۔
ریل کی دھمک اور ہوا نے آتے ہی اُس کے ہاتھ کو پٹری سے اتارا اور اس کے جسم کو کئی فٹ دورکسی پتلے کی طرح اُچھال دیا۔
لوگ بھاگتے ہوئے پہنچے، ریل بھی کچھ دور جا کر رک چکی تھی۔ لوگوں نے اکبر کے نیم مردہ جسم کو اُٹھایا تو سر سے خون کا فوار بہہ رہاتھا۔ زین کی پینٹ اور سیاہ شرٹ لال ہو چکی تھی۔
ایک شخص نے تیزی سے اُس کے جسم کا ادھر ادھر اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور کہا ، ’’ اوئے بچ گیا جے‘‘
کسی نے کہا ، ’’شکر اللہ ‘‘
کسی نے کہا ، ’’ کنا سوہنا جوان اے۔‘‘
کسی نے کہا، ’’ اللہ سب کی اولادوں کو محفوظ رکھے۔ ‘‘
’’ ایک عورت نے روتے روتے کہا، ’’ لیکن اس کو ٹرین کی آواز کیوں سنائی نہیں دی۔ ‘‘
’’ لگدا اے ذہنی مریض اے۔‘‘
او نئی یار بہرا ہے بے چارہ‘‘
ایک لڑکے نے کہا ، ’’ انکل یہ گانے سُن رہا تھا۔ یہ کان میں دیکھیں ابھی بھی ہیڈ فون کا ایک حصہ چمٹا ہو ا ہے۔
ایک بوڑھے نے سختی سے کہا ،
’’ اوئے چکو تے اسپتال لے جاؤ ،جے ریل نے چھڈ دتا اے تے تسی نہ مار دینا۔‘‘
اور لو گ اُسے اُٹھا کر ہسپتال لے گئے۔
اُس کی پمپی لیرو لیر پڑی تھی موبائل کے پرزے ایسے اُڑے کے بے نشان ہوگئے۔ کسی پُرزے میں قید بے زبان سیلفیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی پہچان کھو بیٹھیں۔
ایک انگلی کی قربانی دینے کے بعد جب اُسے ہوش آیا تو اُ س نے پوچھا،
’’ میرا سیل فون ۔۔۔۔۔۔‘‘
اُس کی ماں کے سینے میں جیسے کسی نے خنجر اُتار دیا ہو۔
’’ ابھی صبح میرے ساتھ اس نے کتنی سیلفیاں بنائی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا بس چلتا تو سارے جہاں کو اپنے موبائل میں قید کر لیتا‘‘
اُس کا باپ جو خاموش اپنے آنسوؤوں کو پیتاجارہا تھا خاموش نہ رہ سکا،
’’ نا جانے وہ کون سا منحوس لمحہ تھا جب میں نے اسے وہ منحوس موبائل لے کر دیا تھا۔‘‘
اکبر نے یہ سوچتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
’’ میں تینو ں سمجھاواں کی ۔۔۔ نہ تیرے باجھوں لگدا جی۔‘‘

آپ کی رائے کا منتظر
وارث اقبال
حمیرا عدنان
کارکن
کارکن
Posts: 5
Joined: Fri Oct 23, 2015 12:51 am
جنس:: عورت

Re: سیلفی غلام وارث اقبال

Post by حمیرا عدنان »

بہت خوب عمدہ تحریر ہے بہت سی داد قبول فرمائیے اس عمدہ تحریر پر
ایک انتہائی سنجیدہ مسئلے کو اجاگر کیا ہے جو آج کل کے بچوں میں سمارٹ فونز کا کریز ہے سب والدین کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے

Sent from my SM-G900F using Tapatalk
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: سیلفی غلام وارث اقبال

Post by nizamuddin »

بہت خوبصورت پیرائے میں‌ لکھا گیا مضمون .............. زبردست
واقعی سیلفی تو اب ہمارے معاشرے کا ناسور بنتی جارہی ہے
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
عزیزالرحمٰن گنڈہ پور
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Thu Feb 26, 2015 4:42 am
جنس:: مرد
Location: انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (iiui) پاکستان
Contact:

Re: سیلفی غلام وارث اقبال

Post by عزیزالرحمٰن گنڈہ پور »

بیمثال و لاجواب تحریر[emoji106] [emoji106] [emoji106]

Sent from my LG-F160 using Tapatalk
[center]نیند ہے کہ آتی ہی نہیں
اورضمیرہےکہ سویا ہی رہتا ہے
[/center]
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: سیلفی غلام وارث اقبال

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کا شکریہ
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: سیلفی غلام وارث اقبال

Post by بلال احمد »

نازک اور گھمبیر مسئلہ کی طرف بہت خوبصورتی سے توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس مصیبت سے بچنے اور اپنے حواس میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

غلام وارث اقبال صاحب عمدہ تحریر کے لیے مشکور ہوں۔
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”