ایک رات کی بھیک غلام وارث اقبال

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

ایک رات کی بھیک غلام وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

ایک رات کی بھیک غلام وارث اقبال
سر سبز پہاڑیوں کے بیچوں بیچ ایک جھرنا کسی دلہن کی زلفوں میں پارہ کی لکیر کی طرح چمک رہا تھا۔ ان سرسبز پہاڑیوں کے پیچھے برف پوش پہاڑ فرشتوں کا حسن اور وجاہت لئے سراُٹھائے کھڑےتھے۔ لگتا تھا جیسےسر سبز پہاڑیاں مدتوں سے اپنے حُسن کے جام ان ملکوتی اور سحر ناک پہاڑوں کی دہلیز پر لُٹا رہی ہوں ۔
انہی سر سبز پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک پر جھرنے کے اردگرد کوئی بیس تیس جھونپڑیوں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ اس بستی سے بہت اوپر برفانی پہاڑوں سے کچھ نیچے ایک مندر تھاجس کے بارے میں اس بستی کے لوگوں کا خیال تھاکہ برف پوش پہاڑوں سے دیوتا انسانی روپ میں اس مندر میں آتے ہیں ۔
سنینا نے آج سورج نکلنے سے پہلے ہی جھرنے میں اشنان کرتے ہوئے اپنےجسم کو اُبٹن مل مل کرصاف کیا تھا۔ اس دوران ٹھنڈے پانی نے اُ س کی رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو کو جماکر رکھ دیا تھا مگر اُ س پر جو دُھن سوار تھی اُس کے سامنے یہ اذیت ہیچ تھی ۔
جب گھر لوٹی تو اُ س کی بیٹی نے اُس کی آرتھی اُتاری اور مندر کے پاک جھرنے کا پاک پانی پلایا۔
سنینانے اپنےبالوں کے ایک ایک تار میں خوشبو والا تیل رچایا بسایا، جسم پر خوشبودار بوٹیوں کا آٹا ملا، گلابی چہرے پر گلابی غازہ پھیلایا ، جوڑے کو پیلے پھولوں سے سجایا، آنکھوں میں گرم پہاڑ کا پاک کاجل لگایا، بغلوںمیں پھولوں سے کشید کیا عطر اس طرح ملا کہ وہ اُس کے جسم کا حصہ بن گیا۔
پھر اُس نے زیورات کے چھوٹے سے بکسے میں سے سونے کے بندے ، انگوٹھیاں، کنگن ، کمر بند اور منگل سُوترنکالا اور ان زیورات کو اپنے جسم کے ہر اُس حصہ کی نذر کر دیا جس کے لئے وہ بنائے گئے تھے۔ یہ سب کرنے کے بعد اُس نے اپنی ساڑھی کے پلو کو سیدھا کرتے ہوئے اپنے ماتھے پر سندھور لگا کر اپنی تیاری کو حتمی رخ دیا۔
راما اتنی دیر سے اُس کے حُسن کو آرتھی کے سامنے بنتے سنورتے دیکھ رہا تھا، وہ دیوتاؤں کی کسی بستی سے اُتری ہوئی دیوی لگ رہی تھی ۔ ایسی دیوی کہ بڑے بڑے پارسا دیوتا بھی اپنی پارسائی کا بھرم قائم نہ رکھ سکیں۔
راما پر اُ س کی ایک ا یک ادا چنگاری بن کر گر رہی تھی۔ جب اُس کے جذبات کاگھوڑا اُس کے قابو میں نہ رہا تو اُس نے اُٹھ کر سنینا کی کمر میں اس طرح ہاتھ ڈالے کہ اُ س کے ہاتھوں کی گرفت میں اُس کا پیٹ تھا۔ ’’ بس کر پارو اتنا بھی نہ سنور کہ دیوتا بھی دھرم چھوڑ دیں۔ یہ کہہ کر اُس نے اُسے سیدھا کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں اس طرح بھینچا کہ اُس کی ساڑھی کا پلو گرا اور کمر بند کھل گیا۔
سنینا نے راما کے حملے کونا پسندیدگی کی نگاہ سے تو نہ دیکھا لیکن وقت کے مزاج کو سمجھتے ہوئےدفاعی رُخ اختیار کرتے ہوئے کہا، ’’ تو نے دھرم چھوڑا ہے تو کیا سبھی نے چھوڑ دیا۔ سب دیوتا تجھ جیسے ہو گئے کیا۔ ‘‘
’’ کوئی پتہ نہیں ان کےدھرم کا یہ منگل سوتر اپنے گریبان کے اندر نہ رکھا کر باہر رکھا کروتاکہ بھگوانوں کو پتہ چلے کہ تو کسی کی ملکیت ہے۔‘‘
اُس نے سنینا کی چولی کے گریبان میں گہرائی تک ہاتھ ڈال کر منگل سوتر باہر نکالا۔
’’ تیرے جیسے نہیں وہ ۔۔۔ کیسے کیسے بہانے ڈھونڈتا ہے۔۔۔۔ساری چولی کوبل ڈال دئیے۔‘‘ سننیا نے اپنی چولی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں میرے جیسے کہاں ہو سکتے ہیں تیرے دیوتامیں تو بس پجاری ہوں اس دیوی کا۔ ‘‘
’’ہاں ایسا پچاری جو صرف رات کو دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘ سنینا نے جواب دے کر ایک جھٹکے سے خود کو اُس کی بانہوں کے حصار سے آزاد کروایا، اپنی ساڑھی کا پلو دوبارہ درست کیا، چہرے کا غازہ اورلپ اسٹک کی نوک پلک سنواری اور یہ کہتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگی۔
’’ کبھی مندر بھی چلے جایا کرو شاید کسی دیوتا کا تجھ پر کرم ہو جائے اور وہ تمہیں اپنے چرنوں میں جگہ دے دیں۔‘‘
’’ اری پگلی! دیوتا کسی کے چرنوں میں نہیں جھکا کرتے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے پھر آ کر اُسی چارپائی پر لیٹ گیا جہاں سے اٹھا تھا۔
سنینا نے گھر سے نکل کر جھرنے کے کنارے کنارے چلناشروع کردیا۔ بل کھاتا جھرنا چونکہ اوپر سے آ رہا تھا اس لئے وہ بھی اوپر کی طرف ہی بڑھ رہی تھی کیونکہ اُس کی منزل وہ مندر بھی اوپر وہیں تھا جہاں سے کہیں جھرنا نیچے کی طرف آ رہاتھا۔
ہوا کی تیزی اور شدت بتا رہی تھی کہ کبھی بھی برف باری ہو سکتی ہے لیکن سورج کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ ابھی کچھ دن مزید راج کرے گا۔ جسم کو کاٹنے والی سرد ہوا یا جسم کو جھلسا دینے والی دھوپ سنینا کے لئے دونوں بے ضرر تھے۔ وہ اپنی لگن میں اتنی مگن تھی کہ اس پر موسم کے بدلتے تیور اثر انداز نہیں ہو رہے تھے بس وہ تو بڑھتی جا رہی تھی۔البتہ جھرنے کا پانی جہاں حالتِ سکون میں ملتا وہیں وہ اپنے چہرے کا عکس دیکھتی ، اپنی ساڑھی کے پلو سے آنکھوں کے کاجل اور چہرے کے غازے کی کمی بیشی کو پورا کر کے آگے بڑھ جاتی۔ جب کسی پہاڑی کی اونچی جگہ پر پہنچتی تو اُسے مندر کی عمارت کا کوئی نہ کوئی حصہ دکھائی دیتا تو وہ وہیں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوجاتی ، کچھ بڑ بڑاتی اور پھر آگے چل پڑتی۔ مندر بھی ایسا شرارتی تھا کہ کسی نہ کسی اوٹ سے ، کسی نہ کسی موڑ سے یا کسی پہاڑی کی چوٹی سے اُسے دکھائی د یتا ہی رہتا ۔
وہ تو ہاتھ باند ھے اس لئےکھڑی ہو جاتی کیونکہ وہ مندر کے اندر موجود دیوتا کی بھگت تھی لیکن لگتا تھا مندر اُس کا بھگت تھا جو اُس کے دیدار کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔
جب اُ س نے مندر کے مرکزی دروازے پر ماتھاٹیکا تو کتنے ہی پروہتوں ، بھگتوں اور سادھوؤں کے ہاتھوں میں موجود تسبیوں کی حرکت رک گئی اور اُن کی نگاہوں نے ساڑھی میں سے جھانکتے ہوئے اُس کے بدن کے رموزواوقاف کا ورد شروع کر دیا۔ جتنی دیر وہ جھکی رہی سبھی کی نگاہیں اُس کے درِ حسن پر جھکی رہیں۔ جب وہ اُٹھ کر کھڑی ہوئی تو انہیں ہوش آیا ۔ کچھ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ اُسے دیکھتے رہے۔
وہ کچھ دیر مندر کے صحن میں کھڑی مندر کی اگلی عمارت کو یوں تکتی رہی جیسے کوئی پیاسا پانی کے پیالہ کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتا ہے۔
آ ج اماوس کی رات تھی اس لئے مندر میں کچھ زیادہ ہی اہتمام کیاگیا تھا چھوٹے چھوٹے طاقچوں میں دیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی جگہ جگہ نارنجی رنگ کے جھنڈے اور جھنڈیاں آراستہ تھیں۔ جابجا اگربتیاں سُلگائی گئی تھیں جن کی خوش بو نے ماحول کو سحر زدہ کر رکھا تھا۔فرش کی اینٹوں کو خاص طور پر دھویا گیا تھا۔ عام دنوں کی نسبت سادھوؤں اور زائرین کی تعداد میں اچھا خاصااضافہ دکھائی دے رہا تھا۔ جس جھرنے کے نزدیک اُس کا گھر تھا وہ جھرنا مندر کے بیچوں بیچ گذر تاتھا چونکہ یہ پاک جھرنا تھا اس لئے زائرین اور سادھو اپنے اپنے طریقے سے اس کا پانی استعمال کر رہے تھے۔
آ ج مندر میں خصوصی مذہبی سرگرمیوں کا اہتمام کیاگیا تھا۔ لیکن سنینا ان مذہبی تقریبات میں شرکت کی غرض سے نہیں آئی تھی وہ تو آج اُس دیوتا کا دیدار کرنے آئی تھی جو برف پوش پہاڑوں سے اس مندر میں ایک سادھو کے روپ میں آتے ہیں ۔ اُ ن کی آمد کی سوائے چند بھگتوں کے کسی اور کوخبر تک نہیں ہوتی۔ ان بھگتوں میں سنینا بھی شامل تھی۔ وہ اُن داسیوں میں بھی شامل تھی جنہوں نے آج دیوتا کے حضور اپنی عبادت کا نذرانہ پیش کرنا تھا۔
سنینا نے مندر کی دہلیز پر ماتھا ٹیکنے کے بعد گھنٹی بجائی اور پھر مندر کے اندر جا کر دیوتی کی مورتی کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی۔ وہ کتنی ہی دیر سجدے میں پڑی رہی پھر اُٹھی اور مورتی کے عین پیچھے نارنجی پردوں میں چھپے دروازے کے اندر چلی گئی۔ دروازے کے پار کی تو دنیا ہی الگ تھی ۔ یہاں کی خوشبو، یہاں کے دئیے ، اوریہاں کے دروازوں کے پردوں سمیت سب کچھ مختلف تھا۔
ایک بڑا سا کمرا جس کی چھت پر فانوس اس طرح لٹک رہے تھے جس طرح موسمِ سرما میں سنگتروں کے پیڑ پر سنگترے ۔سونے کے دیوں میں دیسی گھی جل رہا تھا۔ ان دیوں کی روشنیاں ایک دوسرے پر پڑتیں تو اُن سے سنہری کرنیں نمودار ہوتیں۔ یوں لہراتی ہوئی کرنوں کے ہالے نے ہر دیے کو گھیر رکھا تھا۔ فرش سفید سنگِ مرمر کا جس میں کرسٹل کا اس طرح استعمال کیا گیا تھا کہ جب فانوس کی روشنیاں ان سے ٹکرا کر لوٹتیں تو ہر طرف روشنیوں کے مختلف رنگ بکھر جاتے۔ کمرے کے مشرقی آخری حصہ میں نگینوں سے جڑا ایک تخت رکھا ہوا تھا۔ جس پر سرخ مخملی تخت پوش بچھا ہوا تھا۔ اس پر رکھے نارنجی رنگ کے دو مخملی گو تکیے اس تخت پر بیٹھنے والے کی شان بیان کر رہے تھے۔ اس تخت کے سامنے نارنجی لباس میں ملبوس بیس پچیس داس اور داسیاں بیٹھی تھیں۔ سب ایک جیسے، ایک سے بڑھ کر ایک حسین ۔ رنگین نگوں سے جڑے تخت کے سامنے کسی مخصوص نشے سے مخمور انسانی نگوں کی ایسی ٹولی جس میں ہر نگ دوسرے سے بڑھ کر تھا۔
سب کی نگاہیں تخت کے پیچھے استادہ نارنجی رنگ کے مخملی پردے پر جمی ہوئی تھیں جہاں سے اُن کے دیوتا کی آمد متوقع تھی ۔ پھر وہ لمحہ آ گیا جب دیوتا کمرے میں داخل ہوا ۔دیوتا کیا تھا حُسن کا مجسمہ ۔ نارنجی لباس میں ملبوس اور قیمتی پتھروں کے موتیوں سے جڑی مالاؤں سے اٹا ، اس کا چہرہ یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے ڈوبتےسورج کے بیچ چاند۔ یا جیسے چاند نے سورج کا لباس زیبِ تن کیا ہو۔
اُس کے آتے ہی سب سجدہ ریز ہو گئے۔ وہ آیا ہر ایک کی کمر پر تھپکی دی اور پھر اپنے تخت پربیٹھ گیا۔ جب اُس کا ہاتھ سنینا کی کمر پر پڑا تو سنینا کو یوں لگا کہ اُس کی کمر اور دل کے فاصلے ختم ہو گئے ہوں دیوتا کے ہاتھ کی تپش نے دل کی رگ رگ کو تڑپا دیا۔
جب دیوتانے کہا ،’’ داسو اور داسیو‘‘ تو سب سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
سنینا تو پہلے ہی دیوتا کے حسن کا شکار تھی مگرآج تو اُس کی پلکیں پتھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔جوکسی صورت دیوتا کے چہرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ دیوتا نے اپنا خطاب شروع کیا ۔ کمرے میں موجود آنکھوں کا جائزہ لیتے ہوئے جب اُس کی نگاہیں سننیا کی پتھر جیسی آنکھوں سے ٹکرائیں تو اُس یوں لگا جیسے کسی نے اُسے سالوں سے بےحرکت پڑی سیاہ جھیل میں دھکیل دیا ہو۔
دیوتا نے خود کو اُس کی آنکھوں کے شکنجے سے آزاد کروایا ہی تھا کہ سنینا کی سُرخ چولی نے اُس کی نگاہوں کو قید کر لیا۔ پتہ نہیں کب سنینا کی ساڑھی نے اُس کی سرخ چولی کو اپنے پہرے سے آزاد کر دیا تھا۔ کتنی ہی دیر وہ کوئلہ بنی سرخ پہاڑیوں پر بھٹکتا رہا ۔ جب وہ اس یاترا سے واپس لوٹا تو اپنا بہت کچھ کھو بیٹھا تھا۔ وہ پسینے سے نہایا ہوا تھا۔
پھر اُس نے بہت مشقت کے بعد خود کو سنبھالا، کچھ دیر آنکھیں بند کیں ، پہلو بدلا اور اپنی توجہ ایک داس وشنو پرمرکوز کر دی جو دیوتا کے کرب کو بھانپ گیا تھا ۔ اُسے دیوتا کی بے بسی پر رحم آرہا تھا لیکن وہ کیا کرتا وہ تو خود سنینا کا داس تھا۔ وہ تو یہاں آتا ہی سنینا کی دید کے لئے تھا۔ اُس کی مذہبی سرگرمیوں کا تو مرکز ہی سُنینا تھی۔ پچھلے مہینے جب سنینا نے اُس سے پہلی دفعہ کھُل کر باتیں کرناشروع کی تھیں تو وشنو نے سوچا تھا کہ وہ موزوں موقع دیکھ کراپنے دل کی بات سنینا سے ضرور کہہ دے گا ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے دل کی بات کہتا سنینا نے بڑے دھڑلے ، آزادی اور انتہا کے اعتماد کے ساتھ اُ سے کہا ،
’’ وشنو !میں تو یہاں دیوتا بھگوان سے ایک رات خیرات لینے آتی ہوں لیکن بھگوان جی ہیں کہ میری طرف تکتے ہی نہیں۔‘‘
پھر اُس نے اپنے گجرے کے پھول ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا تھا، ’’ وشنو! سچ سچ بتا کیامیں دیوتا بھگوان کے قابل نہیں۔ ‘‘ وشنو نے جواب دیا، ’’ نہیں سُنینا تو تو خود آسمان سے اُتری دیوی ہے۔‘‘
’’ پھر دیوتا بھگوان مجھے ایک رات کیوں نہیں دیتے۔‘‘ اُس نے رُندھی سی آواز میں پوچھا۔
’’ نہیں ایسی بات نہیں سنینا، وہ تو بھگوان ہیں وہ دنیا تاگ چکے ہیں اُن کے اندر ہم جیسے جذبات نہیں ہیں۔
وشنو نے سمجھانے کی کوشش کی تو سنینا کو غصہ آ گیا ،
’’ نہیں بالکل غلط کہ اُن میں ہم جیسے ہی جذبات ہیں، مگر اُنہوں نےاپنے جذبات سلا لئے ہیں۔۔۔۔ سلائے ہوئے جذبات کو جگایا بھی جا سکتا ہے۔۔۔ ‘‘
’’ سمجھو سنینا وہ برف ہیں۔‘‘ وشنو نے کہا ۔
’’ میں برف کیا برف کےگلیشئیر پگھلا دوں گی۔‘‘ سنینا نے جواب دیا۔ ‘‘
وشنو نے سوچا کہتی تو ٹھیک ہے دیوتا اگر اس مورت کو دیکھ لیں تو کہاں دیوتا رہیں گے بھگت نہ بن جائیں گے داس نہ بن جائیں گے۔

’’ وہ بادِ صبا ہیں۔ سنینا۔‘‘ وشنو نے ایک اور دلیل دی۔
’’ میں اس بادِ صبا کو اپنی سانسوں میں سما لوں گی۔ ‘‘سنینا نے جواب دیا۔
’’ ارے پگلی وہ تو بس سورج ہیں جو بھی قریب گیا جل کر راکھ ہو گیا۔ ‘‘
’’ میں اپنی سرد آہوں سے اُس سورج کو ٹھنڈا کر دوں گی وشنو۔‘‘
’’ تو تو پاگل ہے،، اری بے عقل وہ تو بس ایک خیال ہے۔ ‘‘
’’ ہائے وشنو ۔۔۔ وہ مجھے ایک رات دے دے میں اس خیال سے اک نئی کہانی لکھوں گی۔ ‘‘
’’ تو دیوانی ہوگئی ہے۔۔۔ تیرا علاج کوئی نہیں۔۔ تجھے سمجھایا نہیں جا سکتا۔ ‘‘
’’ یہی تو میں کہہ رہی ہوں میں دیوانی ہوں اُس دیوتا کی اور میرا علاج ہے دیوتا کی بانہوں میں ایک رات۔ ‘‘
وشنو کے اندر اُٹھا ہوا تلاطم اُس کے جذبات کو لے کر کہیں گہرے سمندر میں کھو گیا۔ اُس کی زبان گنگ ہو گئی۔ سنینا کی خواہش کے سامنے اُس کی اپنی خواہش ماند پڑ گئی،
’’ مجھ میں کیا کمی ہے کیا میں تیرے قابل نہیں تُو خود مجھے ایک رات کی بھیک کیوں نہیں دیتی۔ ‘‘زبان کی نوک پر رکا ہوا جملہ اُس کے اندر ہی کہیں کھو کر رہ گیا۔

دیوتا نے داسوں کو مرکوز نگاہ رکھتے ہوئے اپنا بھاشن ختم کیا تو داسیوں کی پوچا کی باری آئی۔ سب داسیوں نے اپنی ساڑھیوں کے پلو اپنی کمر سے لپیٹ کر پیٹ کے آگے اُڑس لئے۔ سنینا نے بھی اپنے جوڑے کو کسا ، ساڑھی کے بل درست کئے اورساڑھی کے پلو کو کمر کےساتھ باندھا۔ جونہی طبلے نے آگے بڑھنے کا اشارہ دیا کمرہ گھنگروں کی آواز سے گونجنے لگا جن کے پیچھے طبلے کی ضعیف آواز محض اپنے ہونے کااحساس دلا رہی تھی۔
داسیاں اس طرح ناچ رہی تھیں جیسے نارنجی مچھلیاں بھاپ بنے سمندر پر تیر رہی ہوں۔ طبلے کی تھاپ کے ساتھ وہ اس طرح حرکت کر رہی تھیں جیسے نارنجی پتے سردیوں کی صبح کی ٹھنڈی ہوا میں رقصاں ہوں۔ سنینا کے پیٹ کا ساڑھی اور چولی سے آزاد حصہ دیوتا بھگوان کے سوئے جذبات میں جنبش پیدا کرنے لگا۔ آستینوں سے آزاد بازو اس طرح لہرا رہے تھے جس طرح موسمِ سرما کی یخ بستہ ہوا کے دوش پر پتوں سے آزاد درختوں کی شاخیں رقص کرتی ہیں۔ جب وہ بے لباس بازو چھت کی طرف اُٹھاتی تو دیوتا کے قیدی جذبات کا کوئی نہ کوئی بندھن ٹوٹ جاتا۔
طبلے نے بھی ان داسیوں کےحُسن پر سر دُھننا شروع کر دیا ۔ طبلہ کیا بے خود ہواان داسیوں کا بھی خود پر بس نہ رہا۔ سنینا کا توجسم ایسا بے قابو تھا کہ اُسے کچھ ہوش ہی نہیں تھا۔ اُس کی پتھر بنی آنکھیں تھرکتے ہوئے، بھاگتے ہوئے ، تیرتے ہوئے ، ہر حالت میں دیوتا کا طواف کر رہی تھیں وہ اپنے ہر انداز اور رخ سے دیوتا پر اپنے حسن کی بجلیاں گرا رہی تھی۔ اُس کےاندر ایک ہی لگن تھی۔۔۔۔۔۔۔ برف ہے تو پگھل جا۔۔۔۔ہوا ہے تو سینے میں سما جا۔۔۔۔ خیال ہے تومیرا ہو جا۔۔۔۔۔۔ ایک رات کی بھیک، ایک رات کی خیرات
اچانک اُس کی ساڑھی کا پلو ساڑھی کے بل سے آزاد ہوا اور فرش پر تیرنے لگا۔۔۔۔ مگر وہ اس سے بے خبر یا نظر انداز کرتے ہوئے رقصاں رہی۔۔۔۔ پھر پلو اُس کے پیروں میں ایسا پھنسا کہ وہ عین دیوتا کے سامنے جا جھکی۔۔۔۔ دیوتا کے برسوں کی پوجا ایک طرف اور قدرت کے اس شاہکار کے کھلے حسن کی جھلک ایک طرف۔۔۔۔۔ موم سے بنا ایک جھرنا کہیں دور پہاڑیوں میں جا کر غائب ہو رہا تھا ۔
دیوتا کی نگاہیں اُس لکیر نما جھرنےمیں جا اٹکی تھیں۔۔۔۔۔ لگتا تھاجیسے اس لکیر نے اُسے پتھر کا بنادیا ہو۔ اُس کے قیدی جذبات کے بہت سے بندھن ایک تڑاکے کے ساتھ جا ٹوٹے۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ سنینا کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا، اُس کی گردن میں لہراتے منگل سوتر نے اُس کی نگاہوں کو جیسے جکڑ لیا ۔ سنینا کا جسم اُسے آگ کا انگارہ دکھائی دینے لگا۔۔۔۔ ایک بے جان مگر دہکتا انگارہ ، جلا کر بھسم کر دینے کے لئے تیار۔۔۔
لیکن اچانک بے خود سنینا کی رگ رگ میں بسا جملہ اُس کے لب و دہن سے آزاد ہوا اور آگ کا ایک شرارہ بن کر دیوتا کی طرف لپکا۔
۔۔۔۔۔۔ ’’ ایک رات کی بھیک دے دے مہاراج ۔۔‘‘
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو میں کہ صدیوں سے ادھوری ہوں مکمل کردو

سنینا کے حملہ کے خلاف دیوتا کہ دماغ کی تمام طاقتیں یکجا ہو کر سامنے آگئیں اور اُس کے دل کو شکنجے میں کس لیا،
’’ دھرم گیا۔۔۔۔تو سب کچھ گیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اٹھا اور اپنے لباس کو سنبھالتے ہوئے تیزی سے نارنجی پردوں کے پیچھے جا چھپا۔۔۔ وہاں سے نکلا اور جھرنے پر دم لیا۔۔۔۔۔۔ انگاروں کی طرح دہکتے بدن کو برفانی پانی سے ٹھنڈا کیا۔۔۔۔۔ وہ ٹھنڈے پانی میں ڈبکیا ں لگاتا تھا اور ۔۔۔۔ اپنے دیوتاؤں سا معافی کا طلب گار ہوتا۔۔۔۔ پھر وہ جھرنے میں ہی جھرنے کی ُالٹی سمت بھاگناشروع ہو گیا ۔ بھاگتا گیا بھاگتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔جھرنا کہیں برف میں چھپ گیا اور دیوتا بھی برف میں گُم ہو گیا۔۔۔

جب سُنینا نے سراُٹھایا تو نہ وہاں دیوتا تھا نہ داس نہ داسیاں ۔۔۔۔۔۔ وشنو۔۔تخت سے چمٹا رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔’’ معاف کر دے بھگوان معاف کر دے۔ یہ تیری داسی ہے بھگوان اسے معاف کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سنینا نے وشنو کے یہ جملے سنے اور باہرکی طرف بھاگی۔ مندر کے کمروں کے پردوں کو چیرتی پھاڑتی، چیزوں کو گراتی، روندتی، صحن سے نکلی اور مندر کے پچھواڑے میں بہتے ہوئے جھرنے کے اوپری طرف بھاگتی چلی گئی۔
اُس کے ننگے پاؤں پتھروں سے ٹکرانے کی وجہ سے لہولہو تھے ، ساڑھی کا نچلا حصہ لیرو لیر ہو چکا تھااور جسم پسینے سے شرابور تھا۔ زبان پر آیا ہوا ایک جملہ اُس کے جسم کا حصہ بنا اور پھر، اُس کی طاقت بن گیا تھا ، ’’ ایک رات کی بھیک دے دے مہاراج ۔۔‘‘
نہ کسی چاند کی خواہش نہ طلب دنیا کی
رات دن ایک ہی احساس میں جلتا ہے وجود
وہ بنجر پہاڑوں کے پتھروں کو ٹاپتے، پھلانگتے پہاڑوں کے اُس برفانی حصہ میں جا پہنچی تھی جہاں جھرنا بھی برف بن گیا تھا۔ موسم کے اس تغیر کے باوجود نہ اُس کی رفتار میں کمی آئی نہ اُ س کی خواہش متزلل ہوئی۔ وہ برف میں ڈوبی برف کا حصہ بن چکی تھی۔ لگتاتھا اُس کے جسم نے ساری قوتیں آج کے دن کے لئے ہی جمع کر رکھی تھیں۔
ہر طرف برف کی سفیدی اور سامنے سر مئی دُھند ، ایسے میں اُسے ایک آواز سنائی دی ، ’’ سنینا ، رُک جاؤ۔۔ وہ بھگوان ہے وہ انسان نہیں وہ دیوتا ہے ۔۔۔۔ تم اُسے نہیں پا سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس آواز اور استدعا کا بھی اُس پر کچھ اثر نہ ہوا۔۔ وہ چلتی رہی گرتے پڑتے ، اُٹھتے، بیٹھتے۔۔۔۔۔ سفید راہوں کی راہی ، سفیدی کا حصہ۔ اُس کا سنگھار، اُس کی ساڑھی کے رنگ ، اُس کے سینے کی اُٹھان ، اُس کی لمبی پلکیں سب پر آہستہ آہستہ برف قابض ہو رہی تھی۔ جیسے وہ برف کے کسی دیو کی ملکیت ہو۔۔۔ اب تو فضا میں ’’ سنینا سُنینا ‘‘کی صدائیں بھی نہیں آرہی تھیں۔ ہر طرف خامشی تھی ، ہو کا عالم ، سفید وحشت اور برف کی بر بربریت۔۔۔۔۔۔
سنینا سرمئی دُھند میں دُھند بنتی جارہی تھی، اُسے کچھ دور تک دھند کے تیرتے بادل دکھائی دے رہے تھے ۔ انہی بادلوں میں ایک شبیہہ سی ظاہر ہوئی جیسے دھوئیں سے کوئی شبیہہ بن گئی ہو۔۔۔۔۔ وہ چلائی۔۔۔۔
’’ دیوتا۔۔۔ دیکھو میں تجھ تک پہنچ گئی ہوں ۔۔۔ رکو دیوتا میں تیرے پاس آرہی ہوں ۔۔۔ اپنی سنینا کو اپنی بانہوں میں پنا ہ دے دے دیوتا ۔۔۔ رکو۔ ۔۔۔۔۔ رکو‘‘
اُ س کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اُس کے جسم میں محفوظ قوتیں کام کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اُس سفید مورت تک پہنچ ہی گئی ۔۔۔ اُس نے اُسے دبوچ لیا۔۔۔۔۔
’’ دیکھا میں نہ کہتی تھی بھگوان مجھے ملیں گے۔۔۔۔ میرا دیوتا مجھے ملے گا۔۔۔۔۔ بڑے پروہت نے سچ ہی تو کہا تھا۔۔۔ سنینا تو دیوی کا اوتار ہے۔۔۔۔ تو پھردیوی اپنے دیوتا سے کیسے نہیں مل پاتی۔‘‘
پھر اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور وشنو کو آوازیں دیں۔۔۔
’’ وشنو دیکھ دیکھ وشنو میں نے اپنے دیوتا کو پالیا۔ دیوتا نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔۔ انہوں نے نے میری خدمت کو قبول کر لیا۔۔۔ دیکھ وشنو دیکھ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پھر اچانک وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔۔ جیسے برف کی مورت انگاروں کی بن گئی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ دیوتا نے اُسے زور سے بھینچا
’’ تم ۔۔۔نہیں نہیں ۔۔۔۔ تم دیوتا نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔‘‘
’’ مجھے غور سے دیکھو سنینا میں ہی تیرا دیوتا ہوں۔۔۔‘‘ وہ مورت پہلی دفعہ بولی۔
’’ نہیں تم میرے دیوتا نہیں ۔ تم راما ہو۔ ‘‘ سنینا ہاتھ چھڑا کر آگے کی طرف بھاگی ۔
’’ راما میرے راستے میں مت آؤ، مجھے جانے دو،، میرے پیچھے نہ آؤ۔۔۔۔ تم سمجھتے ہو تم دیوتا بن کر مجھے روک لو گے۔‘‘
وہ چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ وہ مورت پھر اُس کے سامنے تھی۔۔۔ اُ س نے اُسے دبوچ لیا۔۔۔۔
’’ میں ہی تیرا دیوتا ہوں ۔۔ صرف تیرا سنییا ۔۔۔ صرف تیرا راما۔۔۔ میرے سوا تیرا کون دیوتا ہو سکتا ہے۔۔۔ تم جہاں بھی جاؤ گی ۔۔ مجھے ہی پاؤ گی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ نہیں نہیں ۔۔۔ ‘‘‘ وہ بھاگی ۔ پھر کچھ سوچ کر پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ راما اپنی اصل صورت میں پورے کا پورا کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفید لباس میں ملبوس سرمئی بادلوں میں گہرا ہو اوہ واقعی دیوتا لگ رہا تھا۔۔۔۔سنینا کہ اندر چھپے شواہد اور دلائل ایک ایک کر کے اُس کے سامنے آنے لگے۔۔۔۔
اُس نے سوچا ،
’’ یہ دیوتا ہی تو ہے جس کی گود میں سر رکھ کر میں سکون حاصل کرتی ہوں ، اپنابدن اس طرح اُس کے سپرد کر دیتی ہوں جیسے دھرتی اپناآپ بارش کے سپرد کر دیتی ہے۔ وہ میرا لباس ہی تو ہے جسے میں اوڑھ لیتی ہوں ، پہن لیتی ہوں ، جس میں چھپ جاتی ہوں۔ ۔۔۔‘‘
وہ بھاگتی ہوئی آئی اور اپنی مورت ، اپنے دیوتا سے لپٹ گئی۔۔۔۔۔۔ ہاں تم ہی میرے دیوتا ہو۔۔۔ میرے راما۔۔۔۔‘‘
’’ تم ایک کیا میں ہزاروں راتیں تیرے نام لکھ دوں پگلی۔۔۔۔‘‘ دیوتا نے اُس کے برف بنے رخسار پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’ کیاپتہ تم شیطان ہو۔۔۔۔‘‘ سنینا نے شک کا اظہار کیا۔
دیوتا نے اُسے سینے سے لگایا اور زور سے بھینچا۔
’’ ہاں تم ہی میرے راما ہو میرے دیوتا میرے بھگوان ۔‘‘
پھرسنینا نے مورت کواُس طرح بھینچاجیسے وہ راما کو بھینچا کرتی ہے۔
مورت سکڑی اور پھر بادل بن گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بادلوں میں سے اُسے ایک ہی آواز سنائی دی ۔۔۔
’’ میں ہی تیرا دیوتا ہوں ، تیرا راما۔۔۔۔۔‘‘
وہ پاگلوں کی طرح ’’ راما ، راما ‘‘ کرتی چیختی رہی ۔ ماحول میں صرف اُس کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔ پھر یہ آواز ماند پڑ گئی وہ ایک ڈھلوان پر پھسلتی چلی گئی۔ اس ڈھلوان نے اُسے برف بنے جھرنے کے منہ پر لا کر روک دیا ۔۔۔۔
اُسے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔۔۔
تازہ برف اُس پر گرتی رہی یہاں تک کہ وہ خود برف کا حصہ بن گئی۔
صبح سورج اس رنگ ڈھنگ اور آب وتاب سے نمودار ہوا جیسے رات کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔۔۔ نہ طوفان ۔۔۔ نہ قہر ، نہ دیوانگی ، نہ وحشت
اُس کی چند کرنوں نے رات کی ترو تازہ برف کا پُر شباب جسم روندا تو برف پانی پانی ہو کر بہنے لگی۔ دور سے مویشیوں کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی موسیقی، بھیڑوں کے بچوں کے منمناہٹیں اور ان کے رکھوالےکتوں کی آوازیں بھی ماحول کا حصہ بننے لگیں۔
ایک کتا جمے ہوئے جھرنے پر آکر بھونکنے لگا۔ وہ برف کو کبھی سونگھتا، کبھی چاٹتا کبھی پاگلوں کی طرح گھومتا ۔ چرواہے وہاں پہنچے۔ ماجرا کیا ہے ، کتا تھا کہ ہٹنے کا نام نہ لے رہا تھا ۔ اچانک برف کاایک بڑا حصہ پھسلا اور دھڑام سے جمے ہوئے جھرنے پر جا گرا۔ وہاں کی برف تو جیسے منتظر تھی، برہنہ ہو گئی اور اس میں سے زمرد رنگ کا پانی نمودار ہوا جس پر نارنجی رنگ کا ایک کپڑاتیر رہا تھا۔ چرواہوں نے ماجرا جاننے کے لئے پانی میں سے برف ہٹانا شروع کی تو اندر سے ایک انسانی جسم نمودار ہوا ۔۔۔ سنینا کا برف بنا جسم ۔۔۔۔ کسی نے آگے بڑھ کر سینے پر ہاتھ رکھا تو زندگی کی رمق باقی تھی۔۔۔ سب نے ہاتھوں ہاتھ اٹھایا اور بھاگتے، گرتے پڑتے مندر میں لا کر مورتی کے قدموں میں ڈال دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے آگ جلائی ، کوئی پروہتوں کے پاس پہنچا ، کوئی اردگرد کی بستیوں میں پہنچا، کسی نے آوازیں لگائیں۔۔۔۔۔۔
راما رات کے پچھلے پہر ہی مندر میں آکر ایک کونے میں بیٹھا تھا۔۔ اُس کا اندر مطمئن نہیں تھا ۔۔۔ سنینا کبھی اتنی رات گئے تک گھر سے باہر نہیں رہی تھی۔۔ یہی سوچ کر وہ مندر کی طرف چلا آیا تھا۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سنینا اوپر برفانی پہاروں کے طوفانوں میں بھٹکنے کے لئے نکلے گی۔
جب اُس نے آوازیں سنیں تو بھاگا اورجا دیوی کے قدموں میں سانس لی ۔ سامنے نیم مردہ حالت میں اُس کی سنینا پڑی تھی۔۔۔۔۔۔’’ سنینا، سنینا‘‘
وہ کبھی ہاتھ ملتا کبھی پیر، کبھی سینے کو دباتا کبھی اپناسر پیٹتا، کبھی منہ سے منہ لگا کر سانسیں دیتا۔۔۔۔۔۔ تھک ہار کر اُس کایک ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔ ملتا جا رہا تھا۔۔۔’’ نہیں سنینا۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ آ جاؤ واپس ، آجاؤ۔۔۔۔‘‘
سنینا کی پلکوں میں جنبش پیدا ہوئی۔ پھر کسی نے کہا۔۔۔’’ زندہ ہے۔‘‘ سنینا نے آنکھیں کھولیں سامنے مندر کی چھت تھی۔۔۔۔۔ چھت گھومنے لگی۔۔۔ اُس نے آنکھیں بند کیں ۔۔۔ کچھ لمحوں کے بعد کھولیں۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ مجھے ایک رات دے دے مہاراج۔ ‘‘
راما تڑپ کر بولا، ’’ سنینا ایک کیا ہزار راتیں ۔۔۔۔۔ تم پریشان نہ ہو میں خود تمہیں مندر لے کر آؤں گا۔۔۔۔ قسم تیری میں تمہیں خود لے کر آؤں گا۔۔ ہر رات مندر لے کر آؤں گا۔ پھر تو اور میں مل کر ساری رات دیوتاؤں کی پوجا کریں گے۔‘‘
’’ میرا دیوتا تو ہے پگلے۔۔۔ چل گھر لے جا مجھے میرا مندر ، پوجا ،پاٹ سب وہیں ہے۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔
مجھ کو بھولے سے بھی نہ آئے کبھی اپنا خیال
ایسی امید میرے دل سے لپٹ جانے دو
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو ‘‘
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: ایک رات کی بھیک غلام وارث اقبال

Post by nizamuddin »

بہت عمدہ تحریر کے لئے ڈھیروں داد و تحسین
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”